جمعرات کا روز، برصغیر پاک و ہند میں، پیروں فقیروں کا دن مانا جاتا ہے۔ ہندو مسلم، دونوں معاشروں میں، اِس دن کو ایک خاص حیثیت حاصل رہی ہے۔ میرے اور مجھ سے جڑے، دوسرے لوگوں کے لئے بھی، آج کا دن بہت اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ، آج میں، اپنا 50 سالہ پُرانا قرض اُتارنے کے قابل ہو رہا ہوں ۔ میری عمر 52 سال ہونے کو ہے۔ قریباً 48 سال قبل، میں نے قلم کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ا، ب، اور پ کے ’تاریخی‘ حروف کو نقل کیا ہو گا۔ یہ سلسلہ آج، اپنی معراج کو چھو رہا ہے، لیکن فقط میری حدّ تک!
اوراقِ زندگانی، اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ ابھی بھی، میری زندگی کیطرح، ورق، ورق اور نامکمل ہے۔ تحریرات کے اِس مجموعے کے دو بڑے مقاصد ہیں:
اوّل یہ کہ اپنے بزرگوں کے معروف احوال، ایک جگہ قلمبند کرنا۔
دوم ، اپنی ذاتی غلطیوں اورکوتاہیوں سے، اپنے چھوٹوں کو آگاہ کرنا تاکہ وہ اِن کو دُہرانے سے باز رہیں!
عزیزی سلمان اینڈ برادرز، اِس کتاب کے اولین مخاطب ہیں۔ اور بدقسمتی سے، وہ ابھی تلک تو اُردو پڑھنے سے قاصر ہیں! لیکن سُن اور سمجھ سکتے ہیں۔ اِسکے باوجود، میں نے انگریزی کی بجائے، اُردو کو اپنے مافی الضمیر کی ترجمانی کا ذریعہ بنایا ہے تا کہ اپنے بہن بھائیوں اور اُنکے بچوں تک تو یہ تحریر، اپنے اصل مطالب کیساتھ، پہنچ سکے۔ اللہ کرے کہ دوسروں کے دیکھا دیکھی، میرے بچے بھی، اِس کتاب کیوجہ سے ہی، اُردو پڑھنا شروع کر دیں!
آپ نے اکثردرج ذیل فقرات دیکھے اور پڑھے ہونگے:
’’جملہ حقوق محفوظ ہیں‘‘
’’یہ مُصّنف یا مؤلف کی ذاتی رائے ہے۔ ادارہ یا قارئین کا اِس سے اِتفاق ضروری نہیں‘‘
’’اِس تحریر میں تما م نام ، کردار اور واقعات فرضی ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ!
یہاں، ایسا کچھ بھی نہیں! وہ سب تو، اپنی ذمہ داریوں سے ’’فرار‘‘ ہو تا ہے۔ البتہ، ہمارے ہاں، اگر کچھ ہے، تو وہ ’’ اِقرار ‘‘ہے! سب نام و کردار، حقیقی اوراصلی ہیں ۔ البتہ، جہاں جہاں، سیدھی اور سچ بات کر نا مشکل تھا، وہاں ادبی صنف ِافسانہ کی مدد مُستعار لی گئی ہے۔
کچھ لوگوں کے لئے، اِس تحریر میں شائد، کوئی کشش یا نیا پن نہیں ہوگا۔ کیونکہ اُنکے بقول، سب کچھ تو اُن کے سامنے ہوتا رہا ہے! وہ اپنی سوچ اور خیال میں، ٹھیک ہی ہونگے۔ لیکن، وہ کسی کی نہ نظر آنیوالی بہت سی خواہشات، اپنی مجبوریوں پر چُپ ہو جانےکی صبرآزما تکالیف اور اپنی ناکامیوں پر پیدا ہو نیوالی محرومیوں کے اثرات سے، یقیناً نابلد ہو نگے۔ کیونکہ، ہم سب یہ تو مانتے ہی ہیں، کہ دلوں کے بھید تو فقط، ربّ تعالیٰ ہی جانتا ہے، کوئی بشر نہیں۔
کچھ کہیں گے کہ فُلاں با ت، یُوں نہیں، بلکہ یُوں تھی! فُلاں واقعہ تو بیان ہی نہیں ہوا۔ یا فُلاں، نام درست نہیں، وغیرہ وغیرہ! ۔۔۔۔ سَرِتسلیم خَم !
عرض یہ ہے کہ قبل ازیں، تو اِس موضوع پر، کوئی تحریر، تا حال، ہماری نظروں سے گزری نہیں ہے۔ اگر ہے ، تو سامنے لائی جائے! اِ سکے باوجود بھی، اگر آپ کو اعتراض ہے تو، اپنا ’’بیانیہ‘‘ سامنے لے آئیے! کِس نے روکا ہے، جناب عالی ! اور بقول ِ شاعر:
؎ صلائے عام ہے ، یارانِ نُکتہ داں کیلئے!
اِس ضمن میں، آخری بات! یہ گزشتہ بیس سالوں کی ریاضت کا نامکمل ثمر ہے۔ یہ کتاب، ’’آن لائن‘‘ بھی ہے اور’’اِن لائن‘‘ بھی! یعنی جاری و ساری ہے۔ تمام مضامین میں، ضروری اور مفید اضافہ، انشاء اللہ تعالیٰ، جاری رہیگا۔ آپ، ہر مضمون کے آخرپر، دستیاب خانے میں، اپنی رائے، تبصرے اور مفید مشوروں سے بھی نواز سکتے ہیں، جزاکم اللہ تعالیٰ خیرا۔
کچھ ’’پیش لفظ‘‘ کے بارے میں بھی! یہ بہت خاص تحریر ہوتی ہے۔ سب سے آخر پر لکھی جاتی اور سب سے پہلے ’پیش‘ کی جاتی ہے۔ کچھ ’’پیش لفظ‘‘ بہت لمبے اور’’پیچ در پیچ‘‘ بھی ہو جاتے ہیں! میں، اُس روش سے بچتے ہوئے، اپنے محسنوں کا باالترتیب، ذکرِ خیر کر کے، (کہ جن کی مدد کے بغیر، میں یہ کام کبھی نہ کر پاتا) اِسکا اختتام کرنا چاہوں گا۔
اِس کام میں، میرے سب سے بڑے مُحسن، راؔوی اور ذریعہ (سورس)، میرے نانا مرحوم ، میاں مولا بخش صاحب مرحوم ہیں۔ دوسرے مرحوم کے بھتیجے، میاں محمد صدیق صاحب مرحوم، تیسرے میری والدہ محترمہ بشریٰ بیگم صاحبہ، میرے ماموں میاں بشیر احمد صاحب مرحوم ، میرے تایا جان، میاں نور محمد صاحب مرحوم، چوہدری محمد عبداللہ صاحب مرحوم اور میرے بڑے تایا ذاد بھائی (ڈاکٹر) ناصر احمد جاوید صاحب مرحوم کے علاوہ کئی چھوٹے، بڑے عزیزو اقارب کے تعاون کا، بے حدّ ممنون ہوں اور ہمیشہ، اِنکے لئے دُعا گو رہوں گا، انشاء اللہ تعالیٰ۔
دوسرے، میرے عزیزدوست، مُحسن اوراُستاد، شیخ نصیر احمد صاحب (واقفِ زندگی۔ شعبہ رشین ڈیسک) جنھوں نے مجھے ، دَورِ جدید کی قلم چلانا سکھائی یعنی اُردو ٹائیپنگ، سیٹنگ اور کمپوزنگ سکھائی۔ اِس آن لائن کتاب اور میرے تمام ذاتی و جماعتی کام، جو کمپیوٹر سے متعلق تھے، سر انجام دینے میں، ہمیشہ میری بھرپور اور بے لوث مدد فرمائی۔ اِس دوران، آپ نے کبھی ، دن اور رات کا، فرق روا نہیں رکھا۔ اللہ تعالیٰ ، آپکو اِس محبت و تعاون کی بہترین جزا عطا فرمائے اور آپکے اہل ِ خانہ کا بھی ہمیشہ حامی و ناصر رہے، آمین۔
یہ بھی سچ ہے اور بالکل سچ ! کہ طبائع کے بے شماراختلافات کے باوجود، میری اہلیہ محترمہ صائمہ صاحبہ نے بھی، اِس معاملہ میں میرا بھر پور ساتھ دیا۔ شائد، اُسے کچھ غلط فہمی تھی کہ کتاب کے نشر ہو تے ہی ، ہمارے معاشی و معاشرتی حالات میں، کوئی معجزانہ تبدیلی آجائے گی۔ ایسا نہ تو ممکن تھا اور نہ ہی تاحال ہو سکا ہے! کیونکہ، میں بھی آپ سب کے ’’معاشی اور معاشرتی ‘‘ حالات سے بخوبی آگاہ ہوں۔ البتہ، بذریعہ دعُا، اِن حالات میں بہتری ضرور ممکن ہے۔ لہذا، آپ سب سے اِس بابت دُعا کی درخواست ہے۔
دوسرے، میرے ایک دوست اورعزیز کہ جن کے تعاون اور حوصلہ افزائی کے بغیر، میں نہ تو یوروپ آ سکتا تھا (اور نہ ہی یہاں رہ سکتا ہوں) اگر میں نے اُن کا ذکرِ خیر نہ کیا! اور وہ ہیں، محترم میاں محمد محمود احمد صاحب! میرے، اِس کام کو سب سے پہلے اور سب سے زیادہ سراہنے والے، آپ ہی ہیں۔ آپکی محبتوں اور نوازشوں کا، یہاں، مختصرترین اعتراف، کم از کم، میرے کاندھوں سے اِتنا بوجھ تو ضرور ہلکا کردے گا کہ میں آگے بڑھ سکوں!
یہاں، میں ایک ’’غیر‘‘ ضروری وضاحت بھی کر نا چاہتا ہوں! عزیزم ندیم احمد طاہر صاحب میرے چھوٹے بھائی نہیں ہیں۔۔۔۔ بلکہ ۔۔۔۔ بہت پیارے چھوٹے بھائی ہیں۔ وہ میرے عزیز دوست، معاون، مشیر اوردست راست بھی ہیں۔ اِس ایک معاملے پر میں ،اُن کا شکریہ ادا کرکے، باقی تمام معاملات کو پسِ پشت نہیں ڈال سکتا۔ لہذا، اِسے ایسے ہی رہنے دیتے ہیں! البتہ ، اُن کے لئے اور اُنکے سارے پیاروں کے لئے بقول فیض احمد فیضؔ :
آیئے ہاتھ اُٹھائیں ہم بھی
ہم، جنہیں رسمِ دُعا یاد نہیں!
ہم جنہیں، سوزِ محبت کے سِوا
کوئی بُت، کوئی خدا یاد نہیں!
23 اپریل 2020ء
5 replies on “پیش لفظ”
Jakallah. bhai jan. Allah Tallah ap ko boht Jaza dy. Ameen. Boht Kamal likha hi. , brei khubsurt agaz "pesh lafz” kamal tehreer, Ala alfaz
khaksar is qabil na hi. ap ny ziyada he likh dia.
MashaAllah bohat achha aur jamay paesh lafaz hae. Andazey tehreer aur alfaaz Ka chonaao kamaal aur kisi nami grami mosannif say Kam nahin. Sab say ziada hairat aur Khushi ki baat sari website ki setting aur composing hae. Zabardast. Allah
parrhnay walon ki duaaon say aap Kay halaat mein sab achhi tabdelian laey. Aameen
گاہے گاہے باز خواں ایں دفترِ پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
خیر یہ تو ایک جملۂ معترضہ تھا۔ اصل بات تو اوراق زندگی کے ظہور کے حوالے سے کرنا چاہتا ہوں۔ زندگی میں بہت پہلے یہ تجربہ ہوا کہ سمندر کی گہرائی کا اندازہ سا حل پہ کھڑے ہو کر نہیں ہوسکتا۔آپ جناب نعیم طاہر سے ملیں، آپ انہیں ایک خوش گفتار انسان پائیں گے ۔ لیکن خوش گفتاری اس بات کا ثبوت نہیں کہ انسان تحریر کے میدان کا بھی شہ سوار ہو گا۔ کہنا یہ چاہتا ہوں کہ فن اور شخصیت کے باہمی ربط میں ہر انسان میزان کے پلڑوں پر مساوی نہیں ہوا کرتا۔ کچھ لکھنے والے شخصی اعتبار سے اپنی تحریر کے پاس بھی نہیں پھٹکتے تو کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی تحریر سے آگے کہیں آگے نظر آتے ہیں۔ تیسری قسم نعیم طاہر جیسے افراد کی ہے جن کی شخصیت ، وزن میں ان کی تحریروں کے برابر ہے۔ نہ زیادہ نہ کم۔
23 اپریل دنیا بھر میں کتابوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اُس دن مجھے میرے عم ، نعیم طاہر کی جانب سے اوراق زندگی کاسندیسہ ملا۔ آپ کے خاکوں ، ذاتی زندگی کے حوادث، افسانوں پر مشتمل خاکوں کی برقی کتاب جس کے کچھ مضامین کچھ عرصہ پہلے پڑھے تھے اور رائے محفوظ رکھ چھوڑی تھی کہ چھوٹے منہ سے بڑی باتیں جچا نہیں کرتیں۔
پیش لفظ پڑھا، اور تحریر کے متعلق جامع تعارف حاصل ہوا۔ بیان کا شگفتگی کا قائل بھی ہونا پڑا اور احسان مند بھی کہ بزرگوں کو زندہ رکھنے کے جس قرض کو میری نسل نے ادا کرنا تھا اس کی ادائیگی ہماری جانب سےآپ نے شروع کر دی ہے۔
خاکہ نگاری کچھ اتنا سہل کام نہیں جتنا بادی النظر میں معلوم ہوتا ہے۔ اور خاکہ نگاری بھی وہ جس میں سوانحہ عمری کا بگھار بھی ہو ۔ خاکے کی شخصیت ایک تراشیدہ مجسمہ ہوتی ہے جس کے ناک نقشے اور چہرے بشرے میں خاکہ نگار کوئی رد و بدل نہیں کرسکتا۔ اسے تو بس اس مجسمے کو اٹھاکر طاق پر آویزاں کرنا ہے، یہ بہ ظاہر سادہ اور آسان نظر آنے والا کام اس قدر دشوار اور پیچیدہ ہوتا ہے کہ کوئی خاکہ نگار اسے اس وقت تک انجام دے ہی نہیں سکتا جب تک کہ وہ اپنے موضوع کے خارج کے ساتھ ساتھ اس کے داخل سے بھی یہ خوبی واقف نہ ہو گویا خاکہ نگار کا یہ فرض بھی ہے کہ وہ زیر تحریر شخصیت کے اندر بھی جھانکے اور پھر جو دیکھے اسے اس طرح بیان کرے کہ پڑھنے والا اس شخصیت کو تہہ در تہہ دیکھ سکے۔
پیش لفظ میں جب میں نے پڑھا کہ ’’کچھ کہیں گے کہ فُلاں با ت، یُوں نہیں، بلکہ یُوں تھی! فُلاں واقعہ تو بیان ہی نہیں ہوا! یا فُلاں، نام درست نہیں، وغیرہ وغیرہ! ۔۔۔۔سرِتسلیم خم ! ‘‘، تو میں نے سوچا کہ زندگی کے تمام رنگ ہر انسان کے سامنے مختلف طور پر آتے ہیں۔ کسی تحریر کا پڑھنا میرے اختیار میں ہے کہ میں لکھنے والے کی نظر سے دنیا دیکھنا چاہتا ہوں یا کتاب اٹھا کر اپنے سرہانے کے نیچے کھسکا دیتا ہوں، تو آپ کے اختیار میں ہے کہ خاکہ نگار کے زاویہ نظر سے اس شخصیت کو ملنا چاہتے ہیں جس کا خاکہ لکھا گیا ہے یا نہیں ۔ سوچ رہا تھا کہ اس بندے نے لکھنے کی مشقت ان مضامین کے لئے اٹھائی جس تحریر کو پڑھنے میں دلچسپی رکھنے والے افراد محدود ہوں گے ۔ کیونکہ یہ شخصیات جن کا خاکہ لکھا گیا ہے وہ ایک خاندان کے افراد ہیں یا پھر وہ جو صاحب تحریر کی زندگی سے براہ راست تعلق رکھتے ہیں، وہ افراد جن کی زندگی کے احوال جاننے میں ہر خاص و عام کی دلچسپی نہیں ہو سکتی لیکن پھر بھی آپ نے اپنے قلم کی طاقت اور وقت کی دولت اس جوکھم میں صرف کی۔ فجزاکم اللہ
افسانوں کا باب دیکھ کر ایک خوشگوار حیرت ہوئی لیکن اسلوب میں خاکہ نگاری حاوی رہی ۔ ادب خوا ہ وہ کسی نوعیت کا ہو، انسان پر اثر ڈالتا ہے ، کیسا ااور کتنا اثر ڈالتا ہے یہ ایک بحث طلب موضوع ہے، لیکن یہ بات طے ہے کہ شخصیت کی تشکیل میں باقاعدہ اور مسلسل حصہ لیتا ہے۔
خاکہ نگاری ایک بے باک کام ہے لیکن ذاتی معاملات میں بے باک لکھنا اتنا آسان بھی نہیں ۔ ہر ’انسان یادوں کی بارات‘ کے ’جوش ‘جیسا ’ملیح‘ کہاں ہو سکتا ہے ۔ اب دیکھئے نا کہیں تو پرواز کرتے ہوئے پر جلنے ہی تھے کہ اس مرد جری نے جس طور اپنی اہلیہ کا ذکر کیا ہے وہ آپ کا ہی خاصہ ہے۔ یہ کہے بغیر رہ نہیں سکتا کہ عجب آزاد مرد ہے۔۔۔ ہم سب کو کسی نہ کسی جبر کا سامنا رہتا ہے۔ جبر کی سیاسی، معاشی اور نفسیاتی صورتیں تو سامنے کی ہیں۔ "جیسا دوسرے چاہتے ہیں ویسا بن جانا”جبر کی سب سے شدید صورت ہے۔ بس اتنا کہوں گا کہ
تو خود کو باندھ رھا ہے انوکھی جدت سے
کسی نے کہا تھا کہ اگر آپ کوئی ایسی کتاب پڑھنا چاہتے ہوں جو کبھی لکھی ہی نہ گئی ہو تو آپ اسے لکھ ڈالیں۔ ممدوح موصوف نے نا گفتنی کا یہی کام سر نجام دیا ہے اور بہر طور مبارک باد کے مستحق ہیں کہ جن کے بارے لکھا ان تمام افراد کی زندگی کو دوام بخشا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اجر دے اور آپ کی اولاد میں بھی علمی اور ادبی ذوق پیدا کرے۔ آمین۔
لکھنے کا سفر کبھی ختم نہیں ہوتا اور ابھی بہت کچھ لکھا جانا باقی ہے کہ
حسرتِ دل نامکمل ہے کتاب زندگی
جوڑ دے ماضی کے سب اوراق مستقبل کے ساتھ