دُعا!
نگاہ ِ دہر میں اہل کمال ہم بھی ہوں
جو لکھ رہے ہیں وہ دنیا اگر دکھائی دے
دُہائی!
میں ایک سے موسم میں رہ نہیں سکتا
کبھی وصال کبھی ہجر سے رہائی دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچپن کے دن، کتنے اچھے تھے دن
آج بیٹھے بٹھائے کیوں یاد آگئے!
ہماری ابتدائی دینی تعلیم و تربیت ہماری والدہ محترمہ نےکی ۔ خاندان میں بچوں کی بہار تھی! ہر عمُر اور معیار کے لڑکے اور لڑکیوں کے کئی ’’ماڈل‘‘ دستیاب تھے ۔ لہذا، ہر خوشی اور غمی کے موقعہ پر ایک مقابلے کی ایک فضاء رہتی تھی۔ مسجد میں نمازوں کی ادئیگی میں باقاعدہ تھے۔ نظامت مجلس اطفال الاحمدیہ کیطرف سے، نمازِ مغرب کے بعد، باقاعدہ تعلیمی کلاسیں لگتیں۔ جن میں نماز سادہ، باترجمہ، ادعیہ قرآنی اوراحادیث نبویﷺ کو زبانی یاد کرنے، تلاوت، نظم اور تقریر کرنے کی، نہ صرف تربیت دی جاتی بلکہ آپس میں مقابلے بھی کروائے جاتے۔ اس کارِخیر کا سہرا، عمومی طور پر تو جماعت ِاحمدیہ حافظ آباد کے نیک دل احباب اور اُسکے پاکیزہ ماحول کو جا تا ہے۔ لیکن خصوصی طور پر مجلس خدام الاحمدیہ کے قائدین کو، کہ جنھوں نے نِظامت اطفال کیلئے، اپنے بہترین خدام ساتھیوں کو چُنا اور اُنکے کام میں انکی مدد کرتے رہے۔ ایسے ہی قابل ناظمین ِاطفال میں میرے محسن ، جناب سید حامد مہ ہ لقا ء صاحب، مکرم نصیراحمد پیر کؔوٹی صاحب ، مکرم حفیظ عزیز زرؔگر صاحب، سید عباس احمد شاؔہ صاحب وغیرہ قابل ِذکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِن سب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور اِنکی دنیا و آخرت سنوار دے، آمین۔
ہمارے تمام بہن بھائیوں نے قرآن کریم ناظرہ ، پیرغفران صاحب عثماؔنی کی اہلیہ محترمہ عصمت بی بی المعرف ’’بھابھی ‘‘ صاحبہ سے پڑھا۔ بغدادی قاعدے سے شروع کرواتیں۔ پھر یسرناالقرآن (احمدی یا غیر احمدی ) سے ہو کر قرآن شریف پر آجاتے ۔
اُنکا کا گھر ہمارے گھر سے زیادہ دور نہ تھا۔ لیکن ایسے لگتا تھا کہ ہم انباؔلہ، کرناؔل اور دِلّی سے ہوتے ہوئے، حیدر آباد دکن پہنچ گئے ہیں۔ اُنکا محلہ، تقسیم ِ ہند سے قبل ، حقیقت میں ہندووں کا گڑھ رہا تھا اور اب مہاجرین ِ ہند کا! مسجد مبارک کے سامنے ، بابو کبیؔراحمد اوربابو صغیرؔاحمد کی پنسار و کریانہ کی دکان سے شروع ہونیوالی گلی کے منہ پر، بلند اور شاندار آہنی گیٹ تھا ۔ دونوں بھائی سفید رنگ کے کُرتے اور پاجامے میں ملبوس ، منہ میں پان کی گلوری اور سر پر ترکی ٹوپی پہنے ، سلام اور آداب سے ہر چھوٹے بڑے سے پیش آتے۔ آپ دہلی سے آئے تھے۔ داہنی طرف باجی غزالہ لوگوں کا گھر تھا، جو انبالہ سے آئے تھے۔ اِسی طرف ، زرا آگے، انتہائی غریب کمہاروں کے کچے پکے گھر اور گھروندے تھے جو، کرنال اور ضلع ہو شیارپور سے آئے تھے۔ یہ لوگ ہمارے والد صاحب سے دوا وغیرہ لیتے تھے۔ محنت کش اوربااخلاق عورت، ’جیجاں‘ کا نام اوراُسکے ’دانت‘ تو ہم سب کو یاد ہی ہونگے! ہم آتے جاتے، یہاں مٹی کے نت نئے برتن بنتے اور بھٹی میں پکتے دیکھتے اور ہمیشہ خوش ہوتے۔ اگلی گلیاں مزید تنگ اور اندھیری ہوتی چلی جاتیں ۔ جو ہندو طرزِ تعمیر کی ایک خاص پہچان تھی ۔ چلتے چلتے، ہم ایک بڑی اندھیری ڈیوڑھی میں پہنچ جاتے، جو ہمیشہ سے بلب کی روشنی سے محروم تھی۔ اوپر والے صحن سے، سیڑھیوں میں چھن کر آنیوالی روشنی، البتہ، ہر ایک کو بائیں طرف موجود سیڑھیوں کا پتہ دیتی تھی ۔ سیڑھیوں کا یہ سفر، ہمیشہ سے ’’روشنی کیطرف ایک سفر‘‘ کی مانند تھا۔ جوں جوں آپ اوپر چڑھتے جاتے، مزید روشنی سے آشنا ہو تے جاتے۔ اور آخری سیڑھی آپکو ایک روشن منزل پر لے آتی ۔ کھلا اور پُختہ صحن! اطراف میں روشن اور ہوا دار کمرے، ریشمی گاوْ تکیٔے لگے، سفید چادروں سے ڈھکےآرام دہ بچھونے، چاندی کے ظروف اورسونے سے خوبصورت لوگ! سبحان اللہ تعالیٰ العظیم ! سیاہ اندھیرے سے روشنی اور حُسن کا یہ مختصرسا سفر، مجھے عالم برزخ سے جنت کا سفر لگتا تھا!
حضرت پیر غفران صاحب
حیدرآباد دکن کے، اصلی وشاہی، عثمانی خاندان کے چشم وچراغ تھے۔ اِس کا ثبوت اُنکا نورانی چہرہ مُہرہ، انکا سازو سامان، اوراُنکا رہن سہن تھا۔ بلا شبہ، ہجرت نے اُن سے بہت کچھ چھین لیا تھا لیکن اُنکا حوصلہ، عزم اور رہن سہن نہیں! گورے چٹے، صحت مند، خوبصورت اور نفیس لوگ ! اکڑن لگے سفید کُرتے پاجامے، سِلور مِکس چاندی کے پاندان اور برتن، چھوٹی چھوٹھی کیتلیاں اور اُنکو پکڑنے کیلئے، لمبے بازووں والی ’’سَنِّیاں ‘‘، لوہے کی بالٹیوں میں بنی کوئلے سے جلنے والی انگیٹھیاں، کچن کے کونے میں پڑے، ادھ بجھے کوئلوں کو سنبھالنے والے سیاہ مرتبان، پتھر کے سِل بَٹّے! اور نجانے کیا کیا ! اُنکے گھر میں، مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس، ہر طرح سے اور ہمیشہ رہتا! ہر وقت خوشی، آزادی، خواہشوں کی تکمیل، اور بھر پو ر زندگی اور ترقی کا احساس یہاں موجود تھا، جسکا عشرِعشیر بھی ہمارے ہاں نہ پایا جاتا تھا۔ ہمارے اطمینان کا، اکلوتا باعث، ہماری اور ہمارے ماں باپ کی وہ عزت تھی، جو یہاں، بھرپور انداز سے کی جاتی تھی، جس سے ہماری’’ گزر اوقات‘‘ ہو جاتی تھی ۔ یہ لوگ بھی والد صاحب سے ہی دوا وغیرہ لیتے تھے۔
پیر صاحب کا آٹے اور چینی کا ڈِپو تھا ۔اُس زمانے میں، ڈپو مالک کی اوقات، اُس سے بھی زیادہ ہو تی تھی، جسقدر آجکل، قلت کےزمانے میں، کسی بڑے پٹرول پمپ یا گیس سلنڈر کی اکلوتی ایجنسی کےمالک کی ہوتی ہے۔ 1971 ء کی جنگ کے بعد ، راشن بندی کا دور تھا۔ غریب اور مزدور طبقہ، لائنوں میں لگ کر، راشن کارڈوں پر، پیسے دیکر آٹا اور چینی لیتے تھے۔ آمدن کی نسبت، عزت اور رُعب داب زیادہ تھا ۔ لیکن اِسکے باوجود، بھابھی صاحبہ اور اُنکی اکلوتی صاحبزادی عظمٰی ٰ کا لباس اور زیورات، ہمارے گھرانے کی خواتین سے بہت اعلی ہوتا تھا۔ آئے روز، اُنکے ہاں کراچی، ملتان اور لاہور سے مہمان اُترتے۔ جو بھی ایک دفعہ آجاتا، ہفتوں یہیں پڑا رہتا!
ہمارے بہن بھائیوں، ہماری خالہ و پھوپھی زاد بہنوں سمیت، ہمارے محلے سے اور بھابھی کے اپنے قُرب جوار سے بھی، کئی لڑکے اور لڑکیاں، مختلف اوقات میں، یہاں پڑھنے آتے۔ لڑکے کم اور لڑکیاں زیادہ تھیں۔ پچھلا سبق دہرانے، سُنانے اور نیا سبق لینے کے بعد، ہر ایک کو، گھر کا کوئی نہ کوئی کام کرنا پڑتا تھا ۔ تب جا کر چُھٹی ملتی تھی۔ یہی ہماری فیس تھی ۔ لڑکے نیچے نلکے سے پانی بھرکر لاتے اوراوپر پڑے، دو حماموں میں ڈالتے۔ (اِن میں سے ایک جستی اور دوسرا سنہرا، منقش تانبے کا بنا ہوا تھا)۔ لڑکیاں جھاڑو لگاتیں، برتن دھوتیں، آٹا گوندھتی، لہسن پیاز وغیرہ چھیلتیں ۔ جبکہ کھانا، بھابھی خود بناتیں۔ مجھ پر بھابھی صاحبہ کی خصوصی شفقت تھی ۔ میں عظمی ٰ کے کِھلونوں سے بھی کھیل لیتا تھا۔ دوسرے، بھابھی کے گھر، دن میں کئی مرتبہ، دودھ چھوٹی چھوٹی، کھُلے منہ والی کیتلیوں میں اُبالا جاتا تھا اور اُن پر بالائی رہ جاتی تھی۔ بھابھی صاحبہ ہر روز مجھے کہتیں کہ بالائی چَاٹ کرکے، کیتلی دھونے کیلئے رکھ دو! بھابھی کے گھر دو پالتو بِلّییاں بھی تھیں۔ اُنکی نیلی آنکھیں، گورے، سنہرے جسم اور ناز ونخرے دیکھ کر، وہ بھی مجھے، اِسی ’’عثمانی خاندان‘‘ کےا فراد ہی لگتی تھیں۔ عظمٰی، ہر وقت کھلونوں اور بلیوں سے کھیلتی رہتی اور کبھی کبھار ہمارے ساتھ پڑھ بھی لیتی۔ ایک دفعہ موسم خراب تھا ۔ بادل گرج اور بجلی چمک رہی تھی۔ بھابھی صاحبہ نے مجھے اور عظمیٰ کو ایک اندھیرے کمرے میں چُھپا لیا۔ نہ ہی ہمیں اِس بات کی وجہ سمجھ میں آئی اورنہ ہی اُن لوگوں کو، جو ہمارے ساتھ ، برآمدے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے۔کسی کے پوچھنے پر، بھابھی صاحبہ نے بتایا کہ کڑکتی بجلی سے پِلوٹھی کے (یعنی بڑے ) بچوں کو بچانا چاہیئے۔ میں تو پِلوٹھی کا بچہ نہیں تھا، لیکن بھابھی صاحبہ کی مُراد ، شائد ’’ قیمتی‘‘ بچوں سے تھی۔ اِس بات سے، آپکی مجھ ناچیز سے محبت کا پتہ چلتا ہے۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ واحسن الجزا فی الدنیا و فی الآخرۃ! بھابھی صاحبہ کے ،ہمارے ساتھ ، اِس امتیازی حُسنِ سلوک کا، میری دوستوں خصوصاً بشریٰ اور سمیعؔہ نے بہت بُرا منایا کہ ہمیں مرنے کیلئے چھوڑ دیا اور اِن دونوں بچا لیا گیا۔ وہ دونوں بیچاریاں، اپنے گھر واپسی تک روتی رہی!
اپنے اِس کارِخیرکی، بھابھی صاحبہ کوئی فیس نہیں لیتی تھیں، البتہ لوگ اُنہیں ، ہر خوشی اورغم کے موقع پر یاد رکھتے اور اُنکے مقام و مرتبے کے مطابق، بہترین سلوک روا رکھتے۔ سال میں دو تین بچوں کی ختمِ قرآن یا آمین کی تقریب بھی ہو جاتی تھی۔ یہ روز ہم سب کیلئے ’روزِ عید‘ ہوتا تھا ۔ سب صاف ستھرے کپڑے پہن کر آتے۔ بھابھی کے گھر کو جھنڈیوں سے سجایا جاتا۔ قرآن مجید کا دور مکمل کرنیوالے بچے یا بچی کے گھر والے آتے ، ساتھ میں بہت سی مٹھائی لاتے۔ بھابھی اورُ انکے گھروالوں کیلئے کپڑے اور دیگر تحائف بھی لاتے۔اُنہیں دیکھ دیکھ کر، ہمارے منہ میں، نہ صرف پانی آتا بلکہ یہ بھی سو چتے رہتے کہ کبھی ہم پربھی یہ وقت آئے گا؟
بھابھی صاحبہ کے دائیں، بائیں اور پچھلے گھروں میں، زیادہ تر، اُنہی کےخاندان کے افراد تھے۔ اِن سب کے دِل بھی، اُنکی چھتوں کی طرح، باہم ملے ہو ئے تھے۔ گرمیوں میں یہ لوگ، اپنی چھتوں پر، خوشی خوشی، پتنگ بازی اورجشن منارہے ہوتے۔ جبکہ ہم نیچے، محکوم اور پسماندہ اقوام کیطرح، اپنے اسباق یاد کرنے اور سُنانے کے جتن کر رہے ہوتے۔
ابتدائے بچپن تھا اور شرافت و مروت کا زمانہ ! صنفی فرق کا کوئی احساس نمایا ں نہ تھا۔ سب معصوم ذہن کے مالک تھے۔ رضیہ، بشریٰ ، لبنیٰ، سمعیہ ، ثمینہ اور عظمی ٰ سے خوب دوستیاں تھیں۔ ایک بات مجھے اب بھی بہت کَھِلتی (تکلیف دیتی ) ہے کہ ہمارے والدین، لوگوں کے بہت ہمدرد اور خیر خواہ تھے۔ اللہ تعالی ٰ نے انہیں اِس قابل بھی بنایا تھا کہ لوگوں کی زندگیوں میں، ایک انقلاب لا سکتے تھے۔ لیکن ۔۔۔۔رضیہ اور بشری ٰ لوگ، تین بہنیں تھیں، جبکہ بھائی کوئی نہیں تھا ۔ ہمارے محلے کے پچھلے حصے میں، مسلم ہائی سکول کے چھپڑ کے پاس، اُنکا ایک کمرے کا کچا سا گھر تھا، وہ بھی گلی کی سطح سے بہت نیچے۔ گھر میں، ایک چرخہ، دو چار مرغیاں، بوڑھے غریب ماں باپ اور گھر کے باسیوں کی طرح ، خشک ، پتلے، اور پراگندہ حال دو درختوں ( ایک بیری اور ایک دھریک یا نیم ) کے ِسوا، اُنکے پاس کچھ نہ تھا۔6/7سال کی عمر ہو گی میری، میں اُنکے لیے کچھ کر نا چاہتا تھا! وہ بہت اچھے اور ہماری مزید ہمدردی کے مستحق لوگ تھے ۔ ہمارے والدین، اُن سے مرغیوں کے انڈے خریدتے اور اُنکے والد ، با با خوشی محمد کا نام ، بوقت ضرورت ، محنت ومزدوری کیلئے مطلوب افراد میں سرفہرست تھا۔ لیکن جس عمر میں لوگ ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں، اُس عمر میں، موصوف نے ہمارے نئے گھر میں بھی مزدوری کی ۔۔۔۔۔ بے شک ہم اُنکا خاص خیال رکھتے تھے لیکن وہ اِس سے کہیں زیادہ کے مستحق تھے۔ یا اللہ رحم فرما اُنکی روحوں پراور ایسے مفلوک الحال لوگوں پر اور معاف فرما ہماری کو تاہیوں کو، آمین۔
قرآن مجید کی تعلیم کے آغاز کیساتھ ہی مجھے اور میرے تایا زاد ہم عمر بھائی، محمود کو ، میونسپل پرائمری سکول نمبر 3 میں پہلی جماعت میں داخل کروادیا گیا ۔اِسی سکول سے ہی ہمارے اکثر بڑے کزن اور تایازاد بھائی پڑھے تھے۔ عمارت نئی تھی جبکہ صحن کچا۔ مٹی سے اٹے، پٹ سن سے بنے ٹاٹ، بیٹھنے کیلئے میسر تھے۔ دوسری جماعت میں گئے تو شہر میں یکا یک ترقی کا دور شروع ہو گیا ۔ شہر کے ایک معروف رئیس زادے ’’شیروانی ‘‘ صاحب نے انگریزی سکول کھولا اور ہماری کلینک پر بھی آکر والد صاحب کو دعوت دی۔ چنانچہ، ہم دونوں، جن کے’’ناتواں کاندھوں‘‘ پر ، آنیوالے وقت میں، اِس خاندانِ عظیم کی ذمہ داریاں پڑنے والی تھیں، کو اعلی ٰتعلیم کے حصول کیلئے، اِس سکول میں داخل کروادیا گیا۔ابھی ہمارے نئے یونیفارم کے رنگ اور سکول کے نئے فرنیچر کی پالش بھی نہ اُتری تھی کہ پرنسپل صاحب کی ’شیروانی‘ اُتر گئی۔ بیچارے میں صبر نام کی کوئی چیز ہی نہ تھی ۔ ترقی کے اِسقدر دلدادہ تھے کہ جس اُستانی صاحبہ پر ہماری ’’نظر ‘‘ تھی ، اُسی کو لیکر، علاقہ غیر میں سیاحت کیلئے نکل گئے۔ شہر میں ایک بھونچال سا آگیا۔ نئے زمانے کا خواب اور’’ ترقی پسند‘‘ سکول کا بستر گول ہو گیا اور ہم واپس اپنی اوقات ، یعنی ٹاٹ پر آگئے!
تیسری جماعت میں پہنچے، تو والد صاحب مرحوم نے ایک اور خواہش کا اظہار کر دیا ۔ ہم اسماعیلیؑ صفات کے حامل ، سر جھکائے، مدرسہ اشرفیہ دیو بند ، ونیکے روڈ ، میں حفظ ِقرآن کریم کی سعادت حاصل کرنے پہنچ گئے۔ اِس دوران ، اردو اور حساب کی تعلیم پرائیویٹ طور پر، ہمارے محلے میں ہی رہائش پزی، میاں محمد رفیق صاحب (لائن سپرنٹنڈنٹ واپڈا) کی اہلیہ فاطمہ بی بی سے حاصل کرتا رہا تھا۔ وہ لوگ میانوالی سے تھے۔ بہت سلجھے ہوئے اور ماڈرن قِسم کے لوگ تھے۔ ہر وقت سجے سجائے رہتے۔ ایسا لگتا تھا جیسے میاں صاحب، شہر کے کوئی اسسٹنٹ کمشنر ہوں! اُنکی اہلیہ، اپنے چھوٹے سے کرائے کے گھر کو، اِس طرح بناتی اور سنوارتی رہتیں، جیسے کوئی بڑی سرکاری رہائش گاہ ہو! دو لڑکے اورایک لڑکی۔ اُنکی ’بولی‘ لہجہ سُن کر ہم سب کوہی، بہت لطف آتا تھا ۔ شہر میں، اُس زمانے میں صرف تین ویسپا سکوٹر تھے۔ اور تینوں ہی پڑھے لکھے اور اچھے کام کاج کرنے والے لوگ تھے ۔ ایک اِنکا، دوسرے ڈاکٹر مقصود صاحب ڈینٹسٹ، تیسرے ڈاکڑ خالد حسن فاروقی صاحب کا ! ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ یہ سواری پڑھے لکھے لوگوں کی ہی ہے ، اِسی وجہ سے ہمارے پاس نہیں۔ کئی باتیں اُنکی یاد آتی ہیں ۔ خیر اللہ تعالی ٰ انہیں خوش رکھے اور جزائے خیر دے، آمین۔
ہمارا ختم ِقرآن پاک کا خواب، جو بھابھی صاحبہ کے گھر پورا نہ ہوسکا تھا، وہ یہاں بھی پورا نہ ہوا۔ ڈیڑھ سال بعد ہی، مدرسہ کی روائیتی سُست روی کا الزام، ہم پر ڈال دیا گیا اور’’لوٹ کے بُدھو، گھر کو آئے‘‘ والی بات ہمارے ساتھ ہوئی ۔ واپس، چوتھی جماعت میں داخل ہوگئے۔ (اسکی تفصیل والد صاحب کے مضمون میں موجود ہے)۔ سکول سمیت ، آنے جانے کے سارے معاملات، ہمارے والد صاحب مرحوم کے ہا تھ میں تھے۔ آپکے اشارہِ اَبرو سے ہمارے سارے کام، بفضلِ تعالیٰ، باآسانی ہو سکتے تھے۔ لیکن آپ ایک بااصول آدمی تھے۔ اُسکی ایک مثال ملاحضہ کیجئے! چوتھی جماعت میں واپس داخلہ کیلئے، آپ ہمارے ساتھ ،اُسی پرائمری سکول آئے۔ ہیڈ ماسٹر محمد حسین صاحب (جو آپکے بھائی بنے ہو ئے تھے اور اُنکی اہلیہ والد صاحب کی بہن) کے کمرے میں بیٹھے۔ سارے اساتذہ ، جو آپکے دوست اور کو لیگ رہے تھے( اور اب آپکے مریض بھی تھے )، کلاسیں چھوڑ کر آپ سے ملنے آئے۔ آپ نے اصرار کیساتھ ، ماسٹر حمید احمد صاحب جو چوتھی جماعت کے انچارج تھے سے کہا کہ بچوں کا اُردو اور حساب کا ٹیسٹ لیں! ہم دونوں نے ٹیسٹ پاس کیا تب ہمارا داخلہ ہوا۔ والد صاحب نے مٹھائی منگوائی اور سب کو کھلائی۔
ماسٹر حمید صاحب
رستم ِحافظ آباد ، عناؔیت پہلوان کے عزیز تھے اور خود بھی پہلوانی کی ’’کسرت‘‘ لگاتے تھے۔ حال ہی میں جناب کی شادی ہوئی تھی۔ بڑے بَن ٹھن کے رہتے تھے۔ صاف ستھرا لباس اورچمکتے جوتے، کلائی پر گولڈن گھڑی، چست بدن! لیکن آواز نہایت آہستہ ۔زرد اور ہلکے سبز رنگوں کو ملانے سے جو رنگ بنتا ہے ، اُس رنگ کے کپڑے شوق سے پہنتے۔ سردیوں میں گلے میں مفلر! جوانی بھر پور تھی اور اولاد ابھی نہیں تھی، اسی لئے بچوں سے ہمدردی کا عنصربالکل غائب تھا۔ سزا دینے میں بہت سخت تھے ۔
سکول کی دیوار کیساتھ لگی، ’’بشیرے ‘‘کی رھیڑی سےہماری طرح، بلحاظ موسم، کالے نمک کیساتھ، کنوں، مالٹے، گاجر، مولی اور شکر قندی وغیرہ شوق سے کھاتے۔
ماسٹر احسان اللہ صاحب
ادھیڑعمر، قریبی گاوں کڑیا لہ سے آتے تھے۔ نیلی آنکھوں اور سفید رنگ کے مالک ، ہو شیارپور سے مہاجر تھے۔ ہمیشہ بوسکی رنگ کے کپڑے پہنتے اور سردیوں میں نسواری رنگ کی جرسی ! جاسوسی رسالوں کے بے حدشوقین تھے ۔ سکول میں بھی وہی پڑھتے رہتے تھے۔ ہمیں حساب پڑھانے پر مامور تھے لیکن آپ یہ سمجھتے تھے کہ وہ سوٹی کے استعمال پر مامور ہیں ! اُف یہ بے سمجھیاں!
قاری محمدایوب صاحب
نو جوان، تیز مزاج، اور معلمی کے لیے نہایت ناموزوں، قرآن کریم ناظرہ پڑھانے پر مامور تھے۔ گڑھی اعوان میں رہتے تھے، جو پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت ہمیشہ سے ہی مذ ہبی معاملات میں آزاد خیا ل رہی ہے۔ لیکن موصوف، جماعت احمدیہ کے سخت خلاف تھے اور پیپلز پارٹی کے جیالے بھی! کیا یہ کھلا تضاد نہیں تھا؟ پارٹی کے سیاسی جلسے جلوسوں میں بھی،اور تانگوں، ویگنوں پر، یہ مشہور نظم ، ’’نوّے سالہ قادیانی مسلہ حل کر دیا ۔۔۔‘‘ والی نظم ، بڑی لہک لہک کے پڑھتے رہتے۔ ہمارا قرآن کریم ناظرہ توویسے ہی بہت اچھا تھا اوراُوپر سے 5 پارے زبانی بھی یا د تھے ۔ نجانے کیوں پھربھی، ہمیں حسب ِ حصہ سزا ملتی رہتی تھی۔ شاید، سزا دینا ، آپکا محبوب مشغلہ تھا!
ماسٹر محمدحسین صاحب(جولا ہاؔکے نام سے معروف تھے)۔ ہمارے محلے دار، کرخت مزاج اور سخت گیر! اپنی تمام محرومیوں کا ذمّہ دار، اپنے شاگردوں کو سمجھتے تھے، اِسی وجہ سے تو ہماری شامت آئی رہتی تھی!
ماسٹر غفور حسین صاحب
کا ذکرِخیر، ایک الگ مضمون میں بیان ہو چکا ہے۔
ہیڈ ماسٹر محمد حسین صاحب
(نائؔی کے نام سے معروف تھے)۔ آپ بطور ہیڈ ماسڑ پنجم جماعت کے اِنچارج ہوا کرتے تھے۔ آپ سکول میں اپنی کلاس کو بہت کم وقت دے پاتے تھے، کیونکہ سارے سکول کی ذمہ داری آپکے، ’’موٹے‘‘ کندھوں پرجوتھی! کلاس کیلئے آپ نے اپنے محلے کے ایک نوجوان، حافظ سیف اللہ صاحب ابن حکیم ہدایت اللہ صاحب کو اپنے ’’انڈر ٹریننگ ‘‘رکھا ہوا تھا۔ ہیڈ ماسڑ صاحب دراز قد، فربہی جسم ، اکھڑ مزاج اور اونچی آواز میں بات کرنیوالےتھے۔ اپنے انداز اور اطوار سے کسی طور پر بھی ، اپنے معروف سابقے یا لاحقے، ’’نائی‘‘ سے میل نہ کھاتے تھے۔ لیکن لوگوں کا منہ کون بند کر سکتا ہے؟ اُوپر سے اُنکی فیشن ایبل لاہورن بیوی اور ’’ممی ڈیڈی ‘‘ قسم کے بچے! اُنکے سامنے ہم سب لوگ دیہاتی جاٹ اور گنوار لگتے تھے۔ ہمیں پانچویں جماعت میں اُنکے ہاں ٹیویشن پڑھنے کا اتفاق جو ہوا تھا۔ اِنکے گھر جالی دار دروازے، خوبصورت پردے اور بلا کی صفائی ہوتی۔ ماسٹر صاحب کے بیوی اور بچے ہر وقت، اچھی پوشاکوں میں سجے سنورے رہتے۔
حافظ سیف اللہ صاحب
میرے اورمحمود میں خاص دلچسپی لیتے تھے۔ ایک تو ہم کلاس میں اچھے تھے، کیونکہ ماسڑ صاحب کے پاس ٹیویشن جو پڑھتے تھے۔ دوسرے قرآن کریم کا کچھ حصہ بھی یاد تھا۔ تیسرے ہم احمدی تھے۔ 7/8 سال کی عمر تھی۔ کہ اِن سے جماعت کے متعلق بات چیت شروع ہوئی۔ ہماری کاوشوں کے نتیجے میں ہی، حافظ صاحب ہمارے نا نا مرحوم میاں مولا بخش صاحب ( جو ہمارے ساتھ ہی رہائش پزیر تھے ) سے ملے اوراحمدیت سے متعلق بات چیت کا آغاز ہوا ۔ سوال وجواب کے دوران، ہم دونوں ہمیشہ موجود ہوتے۔ جس سے حافظ صاحب نے بفضلِ تعالیٰ احمدیت قبول کرنے کی اور ہم نے نو عمری میں احمدیت کے بارے میں مزید جاننے کی توفیق پائی، الحمدللہ علی ٰ ذالک!
اُنکے گھریلو حالات پہلے بھی اچھے نہ تھے۔ اُنکی والدہ کی وفات کے بعد ، اُنکے والد نے دوسری شادی کرلی تھی۔ بیعت کرنے کے بعد، اُنکے والد صاحب نے، انہیں گھر سے نکال دیا۔ وہ اپنے ننھیال چلے گئے۔ رابطہ کم سے کم ہوتا گیا۔ گزشتہ 30 سالوں سے مفقودالخبر ہیں۔
پانچویں جماعت کا امتحان، وظیفہ کا امتحان کہلاتا تھا۔ شہر کے تمام میونسپل پرائمری سکولوں کے بچوں کا اکٹھا امتحان، گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 2 کے وسیع گروانڈ ، واقع بجلی محلہ میں، مارچ کے اوئل میں ہوتا تھا۔ اِس بار، ہم بھی، علیٰ الصبح، مُسلّح (قلم دوات) سے لیس، صبح سویرے، پہلے اپنے سکول نمبر 3 میں پہنچے۔ پھر ایک لمبی قطار بنا کر، دو ڈھائی میل دور، پیدل مرکزی امتحانی سنڑ، ہائی سکول نمبر 2 میں پہنچے۔ آگے کیا دیکھتے ہیں کہ رَن پڑاہوا (میدان جنگ کا سا ماحول ) تھا ۔ بچے ہی بچے ! سینکڑوں کی تعداد میں، اپنے اپنے اساتذہ کے گرد، رنگ برنگی مرغیوں کے جُھنڈ کیطرح ! امتحان کا خوف، یہ سماں دیکھ کراوربھی بڑھ گیا۔
ٹھنڈی وننگی زمین پر ہی قطاروں میں بٹھا دیا گیا۔ پھر چل سو چل، ایک کے بعد ایک پرچہ! پہلے حساب، پھراردو، پھر معاشرتی علوم ، پھر دینیات ! دما دم مست قلندر! وظیفے کی اُمید لیکر گئے تھے۔ پاس ہونے کی دُعائیں کرتے ہوئےواپس لوٹے۔ 31 مارچ 1980ء کو نتیجہ آیا۔ سوائے ایک دو کے، ہمارے سارے ہم جماعت پا س ہو گئے تھے۔ الحمدللہ !
البتہ، سکول میں کسی کا بھی وظیفہ نہ آیا۔ اُسکی وجہ یہ نہ تھی کہ ہم میں سے کوئی اُسکے اہل نہ تھا! بلکہ یہ تھی، کہ میونسپل کمیٹی اب یہ بوجھ اٹھا نے کے قابل ہی نہ رہی تھی۔
ایّام ِجوانی۔۔۔ ہائی سکول!
خیر، چند دن بعد، اپریل (1980 ء) میں ، ہمیں شہر میں موجود ، تین میں سے کسی ایک ہائی سکول میں داخل ہونا تھا۔ گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1 اپنے نام کی طرح، پبلک ریٹینگ (عوامی رائے) میں بھی پہلے نمبرپر ہی تھا اور ہماری خواہش بھی! مسلم ہائی سکول، جو ہمارے گھر سے چند گز کے فاصلے پرتھا، اسکی نہ تو کوئی چاردیواری تھی اور نہ ہی کوئی والی وارث! سکول نمبر 2 گھر سے بھی دُور تھا اور دل سے بھی ! لہذا، نمبر 1 کے فارم لیے اور بڑے طمطراق سے جمع کروانے لے گئے۔ ہمیں زرا اچھا نہ لگا جب انہوں نے داخلہ ٹیسٹ کیلئے تاریخ دے دی! یہ ساری سازش، اِسکے مشہور و معروف ہیڈ ماسڑ جناب محمد نزیر فاروقی صاحب کی تھی، جو ہر حال میں سکول کو نمبر 1 بنائے رکھنے پر تُلے ہو ئے تھے۔ ہمیں شروع ہی سے، امتحان کے بعد امتحان سے، بڑی’’ الرجی ‘‘تھی ۔ مرتے کیا نہ کرتے اوربقول ِغالب : دیکھنے ہم بھی گئے تھےغالب پے تماشہ نہ ہوا۔۔۔۔ ن ۔نہ۔۔نا! آپ غلط سمجھے ! یہ نہیں کہ تماشا نہ ہوا! امتحان تو ہوا پر ہم ’’تماشہ‘‘ بن گئے! وہ کیسے ؟ ارے سُنیئے توصاحب، ذرا دھیرج رکھیئے!
سوالنامہ تو ایک ہی تھا۔ جس میں حساب، اردو، معاشرتی علوم اور دینیات کے دو، دو سوالات کے جواب دینے تھے۔ جبکہ حساب میں پاس ہونا لازمی تھا۔ نتائج کے مطابق، محمود کا داخلہ تو ہو گیا پر ہمارا نہ ہوا! پریشانی کی بات تو تھی لیکن ہم سے زیادہ ہمارے چاہنے والوں کیلئے! لہذا، وہی ہمارے ساتھ ہو لئے اور سیدھے داخلہ انچارج ماسڑ محمدابراہیم صاحب کے پاس پہنچے۔ وہ والد صاحب کے کلاس فیلو، کولیگ اوردوست تھے۔ بڑی عزت سے پیش آئے اور ہمارا جوابی پرچہ ہمارے سامنے رکھ دیا۔ سچ کہہ رہا ہوں کہ سوائے حساب کے، تمام دیگر مضامین میں نمبر بہت اچھے تھے۔ جبکہ حساب میں فیل تھے۔ ماسڑ صاحب بولے، بیٹا یہ تو وہی سوال تھے، جو تم ابھی پانچویں کے امتحان میں پاس کرکے آئے ہو؟ ہُوں!
واللہ ! ہمارا جواب بھی سنیئے! ’’سر، سوال تو بے شک ویسے ہی تھے لیکن رقمیں (نمبرز) بدلی ہوئی تھیں‘‘ ! اس پر ماسڑ صاحب اوروالد صاحب دونوں ہنس پڑے۔ انہوں نے پو چھا کہ تمہیں پرانی رقمیں یاد ہیں ؟ میں نے کہا جی! بولے لکھو اور حل کرو! سو ہم نےحل کر دیا اور جواب ٹھیک ! یوں ہمارا داخلہ ہوگیا۔
نیا سکول، بڑی اور تاریخی عمارت، نئی کتب، نیا یونیفارم ، نئے اساتذہ ! پرانی چیزوں میں سے، فقط دُھول ،مٹی اور سوٹیاں ہی آگے ہمارے ساتھ آئیں تھیں ۔ ہر کلاس کے کئی کئی سیکشن تھے، جبکہ کمرے کم تھے ۔ لہذا، کمرے صرف ہر کلاس کے سیکشن ’’اے‘‘ اور نویں اور دسویں جماعتوں کیلئے ہی مخصوص تھے۔ ہم تھے تو سیکشن ’اے‘ میں، لیکن سردیوں میں دھوپ لینے کیلئے اور گرمیوں میں ہوا لینے کیلئے، ہمارے اکثراساتذہ اکرام ، بلا تردّد، باہر زمین پر کلاسیں لگایا کرتے تھے۔
چند چیزیں بہرحال مختلف تھیں۔ ٹاٹ بالکل نہیں تھے۔ یا لکڑی کا بنچ یا پھر فرش ِعظیم! دوسرے انگریزی صاحبہ! اور تیسرے فاروقی صاحب! روزانہ صبح سکول اسمبلی کے آخر میں، فاروقی صاحب درس دیا کرتے تھے۔ وہ ہوتے تو مختصر مگربہت جامع! ایسے متاثر کُن کہ زندگی ہی بدل دیں! مجھے تو ایسا لگتا تھا کہ اگر ہم کچھ نہ بھی کریں گے، تو اِن دَروس کے سُننے سے جو ثواب ملے گا ، اُسی سے ہی کچھ نہ کچھ ، چمتکارتوضرور ہو جائیگا! لیکن خلوص ِ نیت سے اُنکی تمام نصائح سننے اوراُن پربہت حد تک عمل کرنے کے بعد بھی، ہمارا کچھ نہ بن سکا! آپکے فِکر انگیز دروس، ہمارے لئے تو جیسے، کلام ِاقباؔل ہی ثابت ہوئے! جنہوں نے، مسلمان قوم کا لَہو تو بہت گرمایا لیکن اُمت کے بدن میں ایک مثبت جنبش بھی پیدا نہ کرسکے۔ اورمحترم فاروقی صاحب کی نذر، بقول علیم ؔ:
تم نے بھی میرے ساتھ اٹھائے ہیں دکھ بہت
خوش ہوں کے راہ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں!
ششم جماعت کے آغاز کو ابھی دو ڈھائی ماہ ہی ہوئے ہونگے کہ موسم گرما کی تعطیلات ہو گئیں۔ اِس بار ٹیویشن کا انتظام گھر پر ہی ہو گیا تھا۔ بات یہ ہے کہ گھر میں ’’نورتن ‘‘ تو پہلے سے ہی موجود تھے، لیکن ہمیں خبر نہ تھی۔ یہاں کئی ایسے لوگ تھے جنھوں نے علمی میدان میں، اپنی زندگیوں کے کئی کئی سال لگا دیئے تھے اور پھر ۔۔۔ا ور پھر ۔۔۔پھر بھی ! علمی میدان کو کوئی فرق نہ پڑا تھا ! خیر، ہماری خیر خواہی کیلئے ایسے ہی ’تعلیم یافتہ ‘ لوگوں کی ایک فیکلٹی وجود میں آئی۔ اور’’سمرسکول‘‘ کا آغازہوگیا۔ روزانہ صبح نو بجے، سکول کا آغاز ہو جاتا۔ حاضری کیلئے باقاعدہ رجسڑ، بلیک بورڈزاورچاک، اساتذہ کیلئے میز کرسی کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ طلباء میں ،آپی، محمود، میں، وسیم، مسعود، ندیم اور اعجاز اور شیدؔی (ہماری بھانجی) وغیرہ، جبکہ اساتذہ میں، ’’پروفیسر‘‘ خالد احمد جاوید صاحب (حساب )، ’’پرفیسرڈاکٹر‘‘ طارق احمد جاویدصاحب (انگریزی) اور ’’پروفیسر‘‘ شمیم اختر صاحبہ( اردو، فارسی، معاشرتی علوم وغیرہ ) پڑھاتے تھے۔ جبکہ ’’ڈین اور ڈائریکٹر‘‘ کے فرائض ’’پروفیسر ڈاکٹر‘‘ ناصر احمد صاحب جاوید کے سپرد تھے۔
سچ مانیئے، اُن تعطیلات میں کوئی بھی کہیں باہر ٹیویشن کیلئے نہیں گیا تھا۔گو،’’سمر سکول ‘‘کے سارے اخراجات، ’’ریاستِ فضلیہ‘‘ نےبرداشت کیئے تھے، لیکن طلباء کو جبری مشقت بھی ادا کرنا پڑتی تھی۔ وہ اِسطرح کہ ہمارے ایک بھائی، خالد احمد جاوید صاحب، بڑے کامیاب تھنکراور ڈائریکٹرٹائپ آدمی تھے۔ وہ اپنے کزن اورفنکار دوست ناصر احمد صاحب ثاؔنی صاحب کیساتھ مل کر، کئی قسم کے ماڈلز بناتے تھے۔ مثلاًچھتوں کی منڈیروں پر چلائی جانے والی کھلونا گاڑیاں، سرکس کا ماڈل ، سائیکل پراضافی لائٹیں لگانا وغیرہ۔ لیکن ’’سمرسکول ‘‘ کیساتھ ہی آپ نے بینکنگ کے نظام کا بھی کا میاب تجربہ کیا ۔ پڑھائی کے بعد ، اساتذہ، بینک آفیسرز بن جاتے اور طلباء، کسٹمرز! مختلف بینکوں کی اضافی رسیدیں، گھر میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ محترم ڈین صاحب کو اپنی مہریں بنوانے کا بھی شوق تھا۔ ڈیٹ سٹیمپ بھی پہلے سے موجود تھی۔ لہذا، ہماری اورسٹاف کی جیب خرچ سے ہی، بینک کے ابتدائی سرمایہ کا انتظام ہو گیا تھا۔ ہم گھر کے مختلف کمروں سے ہوتے ہوئے اپنی رقم پہلے جمع کرواتے اور پھر نکلواتے، اس طرح سے بینک کا کاروبارکئی روز تک چلتا رہا اورہم سب کی راحت کا موجب بھی بنا!
گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہوئیں۔ سکول جاتے ہی آزمائشی امتحان ہوئے۔ سب مضامین میں پاس ہوئے۔ لیکن اردو، جو ہمارے کلاس انچارج اور بزرگ استاد جناب ماسڑ عاشق حسین صاحب پڑھاتے تھے، نے بتا یا کہ کلاس میں صرف ایک لڑکا ہی پاس ہوا ہے اور وہ ہے نعیم احمد، اور باقی لوگوں کیطرح ہی، جوابی کاپی ہمارے ہاتھ میں دینے کی بجائے، اُچھال دی۔ ہم نے آگے بڑھ کر، خوشگوار حیرت میں ڈوبے ہوئے، لیلائے اُردو کو اپنے ہاتھوں میں لیا، آنکھیں بند کر کے چوما اور پھراُسکے ماتھے پر لگے لال رنگ، گول جھو مرنُما (دائرے ) کو دیکھا، جس میں33/100 نقش تھا۔ قارئین اوپر پڑھ آئے ہیں کہ ہم جس حال میں بھی رہے، اُردو سے ہمارا رشتہ ٹوٹ نہ پایا تھا۔ ہمیں پوری کلاس میں، اکیلے پاس ہونے کی اِتنی خوشی نہ تھی، جتنا اس بات کا غم کہ جب سارے سوال ہی ٹھیک تھے تو نمبر کہاں گئے؟ ہم مجنوں وار اُٹھے اور سیدھے ماسڑ صاحب (جومیرے والد صاحب کے بھی استاد رہ چکے تھے) کے سامنے پیش ہوئے اور اپنا دکھ درد اُنکے سامنے بیان کردیا۔ اُنہوں نے، اُسی دکھ اور کرب کیساتھ ہماری طرف دیکھا، اپنا دست مبارک اپنی جیب کی طرف بڑھایا، جہاں سرخ رنگ کی قلم اورایک عدد خشک موٹی مسکواک بھی رکھی ہوتی تھی۔’’غلطی ‘‘ سے وہ مسواک شریف، آپکے ہاتھ میں آگئی اور آپ نے دیوانہ وار میر ے سرپر کئی ضربیں، اِس زور سے لگائیں کہ میرے سر سے خون جاری ہوگیا۔ اِس دوران آپ ظلم کا ایک ’’کوہ وقار‘‘ بنے ایک ہی جگہ پر کھڑے رہے اور منہ سے صرف یہی کلمہ دہراتے رہے کہ ’’نا شکرے ہو تم ، اور کیا چاہتے ہو‘‘؟
ہیڈ ماسڑ کے دفترکے ساتھ ہی کلرک کا کمرہ ہوتا تھا، جہاں مرہم پٹی کا سامان رکھا ہوتا تھا۔ وہاں ہمارے آبائی محلہ سے ہی ایک لڑکا جو نیئر کلرک اور’’ فسٹ ایڈ ‘‘کا کام کرتا تھا۔ اس نے، ڈیٹول سے صفائی کردی اور بات ختم! گھر جا کر امی جان کو ساری بات بتائی ۔ اُنکا غصہ استاد ِ محترم پر بے جا نہ تھا۔ ابو کو پتہ چلا تو بولے کہ ماسڑ صاحب، میرے بھی استاد ہیں، عمر رسیدہ ہیں، (ماموں ) جمشید کے رشتہ دار بھی ہیں، لہذا شکائت کرنا، مناسب نہیں لگتا! افسوس! آپ نے بھی میرا نقطہ نظر نہ سمجھا۔ سب محض 33 نمبر دیکھ کر، ہماری کارکردگی سے قطعاً متاثر نہ تھے اور نہ ہی اِس بات پر یقین کر نے کو تیار تھے کہ کلاس میں واحد کامیاب طالبعلم ، ہم ہی تھے! واللہ !
یہ بے توجہی اور بے کسی کا عالم، اور ایک ہم !
لیکن امی جان کے پیہم اصرار پر، صبح والد صاحب میرے ساتھ سکول آگئے۔ سیدھے ماسٹر صاحب سے ملے اور انکو بتا یا کہ میں ہیڈ ماسٹر صاحب سے اس لیئے نہیں ملا کہ آپ میرے بھی استاد ہیں لیکن، اس قدر غصہ ناواجب تھا ! ماسڑ صاحب کو اپنی غلطی کا اِدراک ہو چکا تھا ۔اور یہی مقصد تھا۔ اس دوران، اسکول میں اطلاع ہو چکی تھی، کہ ڈاکٹر صاحب آئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ کئی اساتذہ آپ سے ملنے کیلئے چلے آئے تھے۔ آپ نے جلدی جلدی سب سے سلام لیا اور کہا کہ آپکی کی کلاسوں کاحرج ہورہا ہوگا۔ میں چلتا ہوں!
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی !
ششم سے ہشتم تک کے اکثر اساتذہ، پرائمری سکولوں سے ترقی پا کرہی، ہائی سکول پہنچے تھے۔ سب کی قابلیت اور اطوار ایک جیسے ہی تھے الاّ ماشاءاللہ!
ماسڑ غلام حسین صاحب
عمررسیدہ اورقدرے، دھیمے مزاج کے استاد تھے۔ لگتا تھا کہ اپنی ریٹائرمنٹ کا انتظار کررہے ہوں۔ گو، ’سوٹی ‘ کا استعمال بہت کم کرتےلیکن اس کارخیر کو، علم کے ابلاغ میں، نابغہ روز گار خیال کرتے تھے۔ سکول میں اردو، ذراعت اور فارسی جیسے مضامین پڑھانے کے ’’کام ‘‘آتے تھے۔
ماسٹر منظور حسین صاحب
ماسڑغلام حسین صاحب کے چھوٹے بھائی، لیکن آپکی ضِدّ (یعنی اُنکےاُلٹ ) تھے، جو ہمیں جماعت ہشتم میں، حساب پڑھایا کرتے تھے۔ آپ ہمارے پرائمری کے استاد محمدحسین (جولاہا ) کی ہو بہو نقل تھے۔ دونوں بھائی پست قد، اور کٹر قسم کے شعیہ مسلمان تھے۔ کربلا گامے شاہ کے سامنے ڈھال بنے، گھروں میں سے اِن دونوں بھائیوں کے گھر بھی، ساتھ ساتھ ہی تھے۔ ایک، ایک بھینس بھی پال رکھی تھی اور اُسکا دودھ بھی بیچتے تھے۔ انکو ساری کلاسوں کے حساب کا نصاب رٹا ہوا تھا۔ ۔لیکن پڑھانا اور سمجھانا بالکل نہیں آتا تھا۔ آپ ڈنڈے کو’ پیر‘ اور ٹیویشن کو اس کمزوری کا واحد علاج سمجھتے تھے۔ کئی بار ہمیں بھی ٹیویشن کی دعوت دے چکے تھے، لیکن ناکامی پر اپنی نفرت کا اظہار اپنے ’’پیر‘‘ صاحب کی مدد سے کیا کرتے تھے۔
ماسڑ محمد حنیف صاحب
گورے چٹے، لامبے، نیلی آنکھوں والے، دُبلے پتلے، سفید بڑی سی داڑھی کیساتھ ہرفن مولا انسان تھے۔ آپ عیسائیوں کی بستی میں واقع ایک مسجد میں امام اور خطیب تھے۔ ہمارے پھوپھا جان شریف احمد کے ہمسائے میں ’بان سوتر‘ کی ایک دکان میں، حصہ دار بھی تھے۔ اور ٹیویشن پڑھانے کا بھی شوق رکھتے تھے۔ کلاس ہفتم میں ہمارے انچارج ہوئے۔ ہمیں انگریزی اور حساب پڑھاتے تھے۔ باوجود عقیدے کےواضع اختلاف اور ٹیویشن نہ پڑھنے کے، حساب کے مضمون میں اچھا ہونیکی وجہ سے، محمود کلاس مانیٹر اور انگریزی میں اچھا ہونے کی وجہ سے مجھے رجسڑ اور’’سوٹی ‘‘ کا انچارج مقرر کیا ہوا تھا۔ ایک روز ’’نا خواستہ‘‘ بادل آئے اور سزا دہی کے مبارک عمل کے دوران، ماسڑ صاحب اور محمود کے درمیان معا ملات بگڑ گئے۔ جس پر، ماسڑ صاحب نے اپنے’’ازلی‘‘ غصہ کو کام میں لاتے ہوئے، محمود کا نام مانیٹرشپ سے اور کلاس، دونوں سے، بیک ُجنبشِ ِقلم، کاٹ دیا۔ گھر پہنچے، تو معاملہ سب کمیٹی (ایسی کمیٹی، جس میں والدین سے نچلے درجے کے لوگ شامل ہوں) کے سامنے پیش کیا گیا۔ علی الصبح ، بھائی جان طارق احمد اور خالد احمد سکول پہنچے اور ماسڑ صاحب سے ملے۔ لیکن ماسڑ صاحب ، ’’میں نہ مانوں ‘‘ کے گھوڑے پر سوار، یہ جا اور وہ جا! بات یہ تھی کہ ’’ضمانتی حضرات‘‘ ، خود ماسڑ صاحب کے ایسے شاگرد رہ چکے تھے، جن پر وہ فخر کرنے سے ذرا ہچکچاتے تھے ! آپ کی شرط یہ تھی کہ موصوف ڈاکٹر صاحب خود آئیں! اور یہ بات ہمیں کسی صورت قبول نہ تھی۔ لہذا ماسڑ سعید صاحب(جو والد صاحب کے قابل شاگرد) اور ماسڑ محمد ابراہیم صاحب نائب ہیڈماسڑ صاحب (جو والد صاحب کے کولیگ اور دوست تھے) کی مدد اور تعاون سے، معا ملہ حل کروالیا گیا۔ جرمانے کے طور پر، محمود کو اُنکے ہاں ، تین ماہ ، ٹیویشن پڑھنا تھی ! کھیل ختم پیسا ہضم!
یاد رہے، کلاس ششم میں، ہم دونوں نے گھرمیں بڑوں سے مدد لینے کے علاوہ، کہیں سے ٹیویشن نہ لی تھی۔ ہفتم میں، میں نے اپنے محلہ کی باجی سلمیٰ کے ہاں ٹیویشن لے لی تھی۔ وہاں وقت ایسا شانداراور رنگین گزرتا تھا کہ سکول کے سارے ظلم وستم بھول جاتے۔ اِسکا احوال بعد میں کرونگا تاکہ سارے اساتذہ اور سکول کے بھیانک ماحول کا ’’ذِکرِخیر‘‘ اکٹھا رہ سکے۔
ماسڑ محمد انور صاحب
ہشتم جماعت میں ہمارے کلاس انچارج ہوئے۔ خوبصورت، کشادہ پیشانی، صحتمند وجود، بلند آواز، درازقد، اور اپنے آپ کو ’’شمی کپور‘‘ سمجھتے اور اُسی کیطرح بال بھی بناتے تھے۔ کبھی کبھی، شرٹ اور پتلون بھی پہن کرآتے۔ اسکی ایک وجہ آپکا ایف۔ اے پاس ہونا بھی تھا۔ آپ بھی پرائمری سکول سے ہی ترقی پا کر یہاں آئے تھے، لیکن اِس ’وجہ تفاخر‘ کی بدولت آپکے دیگرسکول کیڈر اساتذہ، جیسے کہ منظور صاحب وغیرہ سے تعلقات نہایت کشیدہ رہتے تھے۔ یہ تھے تو سُنی مسلمان، لیکن شیعہ محلہ میں رہنے کیوجہ سے، شیعوں کے کافی ہمدرد تھے۔ محرم میں سیا ہ لباس پہنتے اورنویں ودسویں محرم کو جوتا بھی ترک کر دیتے تھے۔ آپ کے والد اور بھائی ابھی تک گوشت کا کا روبار کرتے تھے۔ اِس وجہ سے لوگ آپکو بھی’ قصائی ‘ کہتے تھے۔ اس بات کا غصہ آپ، لوگوں کے بچوں پر سکول میں ہی اُتارتے تھے۔ سوٹی اور گالی کا استعمال، اِس کثرت سے کرتے، جس کثرت سے آپکے قصائی بھائی محترمہ چُھری صاحبہ کا!
بات سچ اور خدالگتی کرنی چاہئے۔ سب نے ہی ایک دن قبر میں جا نا ہے! آپ غلط جگہ اورغلط ماحول میں پیدا اور بڑے ہوئے۔ آپ، آرٹ اور ادب کے ایک بڑے عالم ہوتے اگر، اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی اولاد ہوتے! سکول میں ، پہلا پریڈ، ہمیشہ کلاس انچارج کا ہی ہوتا تھا۔ تاکہ حاضری وغیرہ لی جا سکے۔ آپ ہمیں انگریزی اور سائنس پڑھاتے تھے۔ پہلا پریڈ انگریزی کا ہو تا تھا ۔ حاضری کے بعد، انگریزی نظم ونثر پڑھاتے ہو ئے، اکثر، اپنا منہ دوسری طرف کرکے، بلیک بورڈ پر، چاک سے منظر کشی کرنا شروع کردیتے۔ اور تصویر کشی مکمل کرنے کے بعد ہی، مڑتے۔ اس دوران، کلاس میں، مکمل خاموشی رہتی، سوائے اِسکے کہ کسی کی ہنسی یا غلطی پریا کسی غلط کمنٹس پر، آپ اپنے ’’آپے ‘‘سے باہر ہو جاتے۔ ( یعنی انگریزی سے براہ راست مادری زبان ، پنجابی میں آ جاتے تھے)۔ تصویر مکمل کرنے کے بعد ، آپ اُس منظر کو سبق کے تناظر میں سمجھانے کی کوشش کرتے۔ بلا شبہ، بہت ہی اعلی ٰ اورقابل ِستائش طریق تھا، اِسطرح پڑھانے کا، لیکن ماحول اور حالات نے آپکو ایسا قابل، بننے نہ دیا۔ غصہ آپکی کمزوری تھا۔ جلد آپکو پکڑ لیتا تھا۔ میرے دوست وقارعلی (مرحوم )، قمریوسف، خالد محمود، محمود نواز، جعفر علی (مرحوم) و دیگر اکثر پٹتے رہتے تھے۔ محمود کلاس مانیٹرتھا اور میں ’خاص بچہ‘ ہونے کے باوجود، سپیلنگ کی فقط ایک غلطی پربھی، آپکے غصے کی بھنیٹ چڑھ جاتے تھے۔
مڈل، یعنی آٹھویں جماعت کے دو امتحان ہوتے تھے۔ ایک سکول کا مقامی اور دوسرا گوجرانوالہ ڈسڑکٹ بورڈ کا، وظیفے کا امتحان! ہمارا چناو ظاہر ہے، وظیفے کے امتحان کیلئے ہونا تھا! ہم 8/10 لڑکوں کو کلاس کی ایک ُنکڑ میں نشستیں الاٹ کر دی گئیں تھیں، جیسا کہ مسجد میں اعتکاف کر نیوالوں کی! ہم خود کو ’’علیگ‘‘ (یعنی مشہورِزمانہ، علی گڑھ یونیورسٹی کے سپوت) سمجھنا شروع ہو گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کو، چونکہ غرور ناپسند تھا اور امتحان میں چند روز ہی باقی تھے۔ ایک روز، آپکا موڈ اور ہماری قسمت، دونوں ہی خراب تھے۔ بغیر بتائے، انگریزی ورب کی فارمز اور مشکل الفاظ کے معنی سننے لگ گئے۔ سب سے غلطیاں ہو رہی تھیں، سردیوں کے دن تھے، ایک ٹو ٹی ہوئی کرسی کے بازو، معصوم ہاتھوں پر آزما نے لگے۔ جعفرعلی (مرحوم ) جو ہماری کلا س کا سب سے لائق لڑکا تھا، جب اُس نے بھی دو عدد کھا لیں، تو ہمارے لئے یہ ’’اظہرمن الشمس ‘‘ کا مصداق تھا ! خالد ، وقار، ارشد، سب ہی مار کھا رہے تھے۔ جب میری باری آئی۔ تو میں بھی، آپ کے ’’معیارِعلمی‘‘ پر پورا نہ اترسکا۔ آپ اِس بات کا صدمہ برداشت نہ کرسکے۔ آپ کی آنکھوں کے سامنے، یقیناً اندھیرا چھا گیا ہو گا۔ لہذا آپ نے دو سوٹیاں لگانے کے بعد، سوٹی تو پھینک دی لیکن ، میرے پیارے ، سیاہ ، سلکی اور لمبے بالوں کو پکڑ کر، بار بار اوپر کیطرف کھنچنے لگے، شائد میرا وزن کرنا چاہتے تھے! اِس میں ناکامی پر، آپ نے اپنے دست ِ مبارک، میرے ’’مبارک ‘‘چہرے پر دائیں بائیں صاف کرنے کے بعد، آخر میں ، اپنی ’’لات ‘‘مبارکہ سے، اِس عاجز کو بنچوں کے درمیان یوں پٹخ دیا کہ شلوار گیلی ہو گئی۔ رہے نام اللہ کا!
آپکا تو روز کا معمول اورکاروبار تھا لیکن آج ہماری ’’بَلی‘‘ (ہندووں کے مندر پر قربانی) کا دن تھا۔ وطنِ عزیز کے سکولوں کے اِن عقوبت خانوں سے آواز کبھی باہر نہیں نکلی تھی، تبھی تو کوئی محمد بن قاسؔم، حجاؔز سے دوبارہ نہ آیا!
امتحان ہوئے۔ ہم میں سے اکثر درجہ اوّل میں پاس ہوگئے تھے۔ لیکن وظیفہ اپنی قسمت میں نہ تھا اور نہ ملا!
ماسڑ شیخ محمد شفیق صاحب
نویں جماعت کے انچارج اور شعبہ سائنس کےعمومی ہیڈ تھے۔ بی ۔ایس۔سی، بی ایڈ تھے ۔اور نئی تعمیر شدہ لیبارٹری میں، صرف آپکی کلاسیں ہی ہوا کرتیں تھیں۔ فزکس، کیمسڑی اور حساب پڑھاتے تھے۔ آپکے تین کولیگ، ماسڑ بشیراحمدصاحب، ماسٹر سعیداحمد صاحب، اور ماسڑ محمد بشیر صاحب، بھی بی۔ایس۔سی اور بی۔ایڈ ہونیکی وجہ سے، اُنکی سیادت(سربراہی) تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔ شفیق صاحب، اِن سب سے سینئر اور بہتر شخصیت ہونیکی وجہ سے ہی اِس مقام پر تھے اورجنابِ ہیڈ ماسٹر، فاروقی صاحب کی آشیر باد بھی انہیں حاصل تھی۔ بلا شبہ، ان تمام اساتذہ، کی سوچ اور طریقہ تدریس، پرائمری سکول کیڈر، اساتذہ سے قدرے بہتر تھا ۔ اِسکی کم از کم دو وجوہات، تو درج ذیل تھیں: اوّل ، تو اِنکی اپنی تعلیم زیادہ تھی اور انہوں نے کالج کا منہ بھی دیکھ رکھا تھا ۔ دوم ، اِنکی تنخواہیں بھی ذرا بہتر تھیں، لہذا، ٹیویشن کیلئے زور نہ لگاتے تھے۔ ڈاکٹر اور انجنیئر بننے کے خواہشمند طلباء، خود ہی اِن کے ہاں ٹیویشن لینے پہنچ جاتے تھے۔
اُس زمانے میں، متوسط اور ’’ترقی پسند‘‘ طبقہ کیلئے، سکول اور ٹیویشن لازم و ملزوم تھے۔ وطن عزیز کے تمام سرکاری اسکولوں میں درس و تدریس کا کوئی مناسب انتظام سرے سے، باقی نہیں رہا تھا ۔ بطور ایک ’’ماہرِ‘‘ تعلیم، اِسکی بڑی وجوہات، درج ذیل ہو سکتی ہیں:
اوّل، اساتذہ کی اپنی کم تعلیم اور مدرسی ( ٹیچنگ) کےفن اور ہُنر کی تربیت کیلئے، باقاعدہ کورسز کا دستیاب نہ ہونا؛ اگر بالفرض، ایک مرتبہ، کسی نے کورس کر بھی لیا ہو، تب بھی ریفریشر کورسز کا باقاعدگی سے انعقاد لازمی ہے۔ دوسرے کام کا بےجا بوجھ؛ ہر اُستاد، کم از کم چھ ، سات پریڈ روزانہ لیتا تھا۔ اِسقدر دماغی کام، روزانہ کرنیوالا، کبھی نیت سے بہتر کام کر نے کا اہل ہی نہیں رہتا۔ اصولی طور پر ، ہراستاد کو روزانہ، 3 یا 4 پریڈز پڑھانے چاہیئں ۔ بقیہ وقت، اپنی کلاس کے طلباء کی ذہنی اور تعلیمی جانچ پڑتال اور جوابی کاپیوں پر، اُنکے کام کی پرکھ پڑچول پر صرف ہو نا چاہیئے (جیسا کہ یوروپ میں ہوتا ہے)۔ ٹیویشن پر پا بندی ہو اورکسی مضمون میں، کمزور طلباء کی مدد بھی، متعلقہ استاد کی ہی ذمہ واری ہونی چاہئے۔اور سب سے بنیادی وجہ، اچھی تنخواہ کا نہ ہونا! اگر تنخواہ اچھی ہو گی تو ٹیویشن پڑھانے کی حِرص وطمع ختم ہو جائے گی اورسکول میں رہنے اور زیادہ کام کرنے کا رواج پیدا ہو گا۔ خیر ابھی تلک نہ تو، ’’ نو من تیل ہوا ہے اور نہ ہی رادھا نے ناچنا شروع کیا ہے‘‘۔ اِسی لئے، کئی سالوں کے انتظار کے بعد، رادؔھا کا ڈانس دیکھنے کیلئے، ہمیں جنابِ عامر خان صاحب کی مشہورِ زمانہ فلم، ’’لگان‘‘ دیکھنا پڑی، لیکن بدقسمتی سے وہاں ڈانس تو تھا لیکن ’’تیل‘‘ نایاب تھا!
محترم ماسڑ شفیق صاحب اور ماسڑ سعید صاحب، ’’نُوع ِ اساتذ ہ‘‘ حافظ آباد کے، اُن پہلے وجودوں میں سے تھے، جنہوں نے غصہ کھانے اور ہاتھ اٹھانے سے قبل پڑھانے اور سمجھانے کی باقاعدہ کوشش کی ۔ اللہ تعالیٰ جزا خیر دے اُنہیں۔دوسری بڑی خوبی یہ تھی کہ سزا دینے میں بھی ایک اعتدال تھا۔ دو سوٹیاں فی کس ! علاوہ ازیں، دوسروں کیطرح، اپنے منہ سے اضافی اور’’ مفت‘‘ مغلّظات بھی نہ دیتے تھے۔
شفیق صاحب، ایسے خوبصورت انداز سے سزا دیتے، جیسے کوئی تحفہ پکڑا رہے ہوں۔ ہمیشہ بولتے’’ لے بھئی ایک عدد اور ۔۔۔یہ پوری دو! اگر کوئی وار، چلاک طالبعلم کی شوخی سے، خطا چلا جاتا، تو کہتے، بیٹا! ’’ اِس نخرے بازی سے وقت ضائع ہو رہا ہے، تمھارے دوسرے بھائیوں کا‘‘ ۔ آخر انہوں نے بھی تو مار کھانی ہے ابھی! ہم دیکھنے والوں کو بڑا مزہ آتا! آپ نے بڑی محنت سے فزکس اور کیمسڑی کے سادہ اور آسان نوٹس، ’’احمدیہ پاکٹ بک‘‘ کی صورت بنائے ہو ئے تھے، جو ریلوے روڈ کے ایک چھوٹے سے بُک ڈپو سے ملتے تھے۔ اِن سے ہمیں سائنس کی ’’تعریفیں‘‘ اور فارمولے یاد کرنے میں بڑی مدد ملتی تھی ۔
علا وہ ازیں، دسویں (آخری) کلاس میں، آپ نے ہمیں فزکس ،کیمسڑی اور بیالوجی کے کچھ پریکٹکلز کروانے کی بھی، حتی ٰالمقدور کوشش کی۔ لیکن ہم اُن سے کوئی خاص فائدہ نہ اٹھا سکے۔ اُسکی وجہ، اتنا وقت ہی نہ تھا، ہمارے پاس کہ تعلیم حاصل کرنے کیساتھ ساتھ ، اِس قسم کی ’’شعبدہ بازیاں‘‘ بھی سیکھتے!
شفیق صاحب کی کلاس میں ہونے سے، عزتِ نفس کے بچے رہنے اور کامیاب ہو جانے کا ایک احساس ضرور موجود رہتا تھا۔ اور یہی چیز، ایک کامیاب استاد کی علامت اور اچھے طالبعلم کیلئے امید کی کرن اور اثاثہ ہوتی ہے ۔ اِسکے علاوہ، میٹرک کے بعد، عملی زندگی میں بہتر طور پر داخل ہونے کیلئے، آپ نے ہمیں بہت سی قیمتی نصائح بھی کیں ، جو آج تک یاد تو ہیں، لیکن اُن پربھی کماحقہ عمل کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ اِن میں سے چند ایک، تحدیث ِنعمت کے طور پر عرض کر دیتا ہوں۔
دہم کلاس، آپکے سیکشن کے طلباء کی تعداد 70 کے قریب تھی ۔ سب سے پہلے یہ بات آپ ہی کے منہ سے، فروری 1985ء میں سُنی کہ سیگریٹ، جیسی بدقسمت شئے کوئی نہیں ہے! اِسکے ایک طرف آگ اور دوسری طرف بیوقوف ہوتا ہے۔ جو شخص روپے پیسے کو آگ لگائے، آپ اسکو کیا کہیں گے؟ سب نے جواب دیا کہ بیوقوف! آپ گویا ہوئے، ’’سیگریٹ کا خریدار، ایک روپیہ دیتا ہے، دوکاندا ر کو، اور وہ اس روپے کی ’’بیڑی‘‘ بنا کر واپس دے دیتا ہے۔ اورخریدار، خود اُسکو، اپنے ہاتھ سے آگ لگا دیتا ہے‘‘۔ یہ مرحوم جارج برنارڈ شاہ صاحب کے اقوال میں سے ہے۔
دیہاتی طلباء کی چادریں، کلاس میں آتے ہی اُتروا دیتے۔ کہتے کہ راستے میں سردی تھی، وہاں تک ہی ٹھیک تھا ۔ یہاں سب کیلئے سردی ایک جیسی ہے۔ اِس عادت کو چھوڑ دو،۔ اگر معاشرے کی دوڑ میں آگے بڑھنا ہے، تو اپنے آپ کواِس’’خول‘‘سے باہرنکا لو!
آپ کہتے، کہ یہ وقت تمہیں ہمیشہ یاد آئے گا۔ تم اِس وقت میری مٹھی میں بند، گندم یا چاول کے دانوں کیطرح ہو! امتحان کے آخری روز میں یہ دانے ہوا میں اُچھال دونگا! زندگی میں پھر تم کبھی اکٹھے نہ ہو سکو گے۔ سو، آپس میں پیار ومحبت سے رہو۔ محنت کر لو، آج کی یہ محنت، تمھارے مستقبل کی ضمانت ہے، وغیرہ وغیرہ
خوب پایا ہے صلہ تیری پرستاری کا
دیکھ اے صبحِ طرب آج کہاں ہیں ہم لوگ
کوئی بتلائے کہ کیسے یہ خبر عام کریں
ڈھونڈھتی ہے جسے دنیا وہ نشاں ہیں ہم لوگ
خود بھی پانچ وقت کی نمازادا کرتے، ہمیں بھی نصیحت کرتے۔ بہت اچھا بولتے۔ بہت صفائی پسند اور نظم وضبط کے قائل تھے۔ لیبارٹری کی صفائی اورسامان کی حفاظت و ترتیب کا بہت خیال رکھتےتھے۔ ہم قطاروں میں لیب میں داخل ہوتے اور قطار میں ہی باہر نکلتے تھے۔ رنگ سانولہ، دیگر اساتذہ کے برعکس پیٹ، ساتھ لگا ہوا۔ نفیس لباس اورعمدہ اطوار کے مالک تھے۔ لوگ اُنکی کلاس میں داخلے کیلئے بڑے جتن کرتے تھے۔ اُن سے ملتے جلتے، اساتذہ میں، صرف ماسڑ سعید صاحب، ہی انکے قرب کو پہنچے تھے۔ لیکن شفیق صاحب کی کیا بات تھی! مولا خوش رکھے! (کٹھ پتلی )وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ، کی شکل آپ سے ملتی جلتی ہے۔
ایک دن ہم، برآمدے میں، قطاروں میں کھڑے، لیبارٹری میں جانے کیلئے انتظار کررہے تھے، جہاں پہلے سے ہی کلاس چل رہی تھی۔ میں اور محمود، دیوار کیساتھ، رکھی سیڑھی کے موٹے بازوں پر بیٹھے، کسی ’’ضروری‘‘ موضوع پربات چیت میں، اِسقدرمگن ہوئے، کہ پتہ ہی نہ چلا کہ ساری کلاس اندرجا چکی ہے اور محترم شفیق صاحب، ہمارے سر پر کھڑے ہیں! روائتی اساتذہ کے برعکس، جو غصہ میں اپنے ہوش کھو بیٹھتے تھے، آپ نے حسب ِعادت فرمایا’’چوہدری صاحبان، یہاں کیوں تکلیف اٹھاتےہو، اندر چلئے اور میری کرسی پرتشریف رکھیئے‘‘۔ ظاہر ہے، ہم اپنے شفیق استاد کی حکم عدولی کا سوچ بھی نہ سکتے تھے۔ لہذا، اُن کے ساتھ ہو لیئے! اس دوران، میں نے تو گھبراہٹ اور ندامت میں اپنی معافی کی درخواست گزاردی، لیکن محمود نے معذرت تو کیا، ’’مذاکرات ‘‘سے بھی انکار کردیا۔ نتیجتاً، ہمیں کلاس سے نکال دیا گیا ۔ سیدھے گھر پہنچے۔’’سب کمیٹی‘‘ کا ہنگامی اجلاس، منعقد ہوا۔ صبح ، فاضل میمبرکمیٹی ،جناب بھائی جان طارق احمد ہمارے ساتھ گئے۔ اُستادِ ِمحترم نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ لڑکا کل بھی معافی کا طلبگار تھا اور میں اِسے معاف بھی کرنا چاہتا تھا لیکن اِس (محمود کیطرف اشارہ کرتے ہوئے کہا)’’شیر‘‘ نے مجھے اِس نیک کام سے بازرکھا‘‘۔ لہذا، چوہدری محموداحمد کی ’’ٹیویشن‘‘ کے عوض، ہم دونوں کے ’’ضمانتی مچلکے‘‘ بھر ے گئے، اور ہم دوبارہ کلاس کے اندر دھرلئے گئے!
آپکے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بیٹی ڈاکٹر بن رہی تھی ۔ بیٹا خاقؔان ہم سے سینئر اور عرفاؔن ہمارا کلاس فیلو تھا۔ افسوس کہ دونوں میں سے کوئی بھی ڈاکٹر یا انجینیرٔ نہ بن سکا۔ نجانے کیوں؟
نویں اور دسویں کے دوران ٹیویشن کا ذکر ابھی تک نہیں آیا ۔ آپ حیران تو ہوسکتے ہیں لیکن پریشان نہ ہوں۔ آگے آ جائے گا۔ کیونکہ ٹیویشن کے بغیر اچھے نمبر تو کیا، ہمارے دور میں پا س ہو نا بھی مشکل تھا۔ ہم نے تو میٹرک میں 645/850 نمبر لیکر کلاس میں تیسری او سکول بھر میں چوتھی پوزیشن حاصل کرلی تھی ۔اور موخرالذکرکامیابی، کا لیٹر بھی زبردستی، اپنے ہیڈ ماسڑ صاحب سے حاصل کرلیا تھا۔ اِس کامیابی کا سہرا، نصف، میرے سکول کے تما م اساتذہ کے سر تھا اور نصف ہمارے ماسڑ جمشید علی صاحب کے سر، جنکا ذکرِخیر بعد میں آئیگا۔
احسن سلیؔم صاحب
اپنے نام کیطرح ہی احسن اوربھلے انسان تھے۔ نہ معلوم کس نگر سے اور کیسے ہمارے سکول آنکلے تھے۔ آپ سکول کے وہ واحد استاد تھے، جوعلم کے ابلاغ کیلئے، کبھی چھڑی کےمحتاج نہیں ہوئے ۔ اردو، فارسی اور معاشرتی علوم جیسے مضامین پڑھاتے تھے۔ لگتا تھا کہ وہ کالج سے ہو کر آئے تھے اور خود بھی اچھے اسا تذہ سے پڑھ کر آئے تھے۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطافرمائے، آمین۔
ماسڑ محمد سعید صاحب
نوجوان، آسودہ حال اورفیشن ایبل استاد تھے۔ کوٹ پتلون استعمال کرتے تھے۔ امیر آدمی تھے۔ آپکے گھر والوں کا، شہر میں لوہے کا بڑابزنس تھا۔ ڈاکٹر ی کے ناتمام خواب کے بعد، ٹیچر بن گئے تھے۔ بی۔ایس۔سی تھے۔ نویں ۔دسویں جماعت کے سائنس سیکشن ۔بی کے، انچارج ہو تے تھے۔ ہمیں اضافی مضمون ’’بجلی ‘‘پڑھاتے تھے۔
ماسڑ بشیر احمد صاحب
موصوف بھی، سکول تیسرے بی۔ایس ۔سی ، بی ایڈ استاد تھے ۔ آپ بہت بڑے ’’کرم چاری‘‘(پہنچے ہوئے) تھے ۔آپ نے ہمیں دو سال بیالوجی جیسا اہم مضمون، بغیر سمجھائے اوربلیک بورڈ سے مدد لئے بغیر ہی پڑھا دیا۔ جس کا مطلب ہے کچھ بھی نہیں پڑھایا! آپ نے اپنی ناکامیابیوں کا بدلہ ہمیشہ اپنے طالبعلوں سے ہی لیا۔ اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے، آمین۔
ماسڑ محمدآصف فاروؔقی صاحب
آپ سے ہمیں کبھی پڑھنے کا اتفاق تو نہ ہوا تھا لیکن ہم ہمیشہ، آپ کے بے حد ممنون رہے۔ ویسے، آپ سارے سکول کے ہی محسن تھے۔ کیسے؟ بتاتے ہیں، ذرا دھیرج رکھیئے! آپ آرٹس گروپ کے نہایت پاپولراستاد تھے۔ اُنہیں، حساب، انگریزی، اور ادبیات پڑھاتے تھے۔ آپ سکول اور بیرونِ سکول، ہونیوالی تمام ادبی، غیر نصابی اور کھیلوں کی سرگرمیوں کے انچارج اوررُوحِ رَواں تھے۔ آئے روز، کوئی نہ کوئی سرگرمی یا فنکشن سکول میں منعقد ہو تا رہتا۔ جسکے نتیجہ میں، کبھی ایک دو پریڈز سے جان چھوٹتی، کبھی آدھے دن کی اور کبھی پورے دن کی چھٹی بھی ہو جاتی۔ یا یوں سمجھئیے کہ جیسے کسی جیل میں، آئے روز، جشن ِآزادی کا پرگرام ہو! اِس سے اچھی اور موزوں کوئی اور تشبیہہ میرے نزدیک ممکن نہیں!
حُسنِ قرات، حمدو نعت، تقاریر اور کلام ِاقباؔل کے مقابلے، محافلِ سماع، سیرت کانفرنسزاور نمائشوں کا انعقاد، محفلِ موسیقی، کھیلوں کے مقابلے اور نجانے کیا کیا! آپکی مسلسل، کامیابیوں کے پیچھے یہ راز تھا کہ آپ شہر کی ہردلعزیزشخصیت اورسکول کے ہیڈ ماسڑ، جناب محمد نزیر فارؔوقی کے صاحب زادے تھے۔ جنکے کمرے میں پڑے، جا بجا، انعامی کپ اور بڑی بڑی ٹرافیاں، آپکی ہی محنتوں کا ثمرتھیں۔
سکول کے پاس، اپنا پورا آکسٹرا موجود تھا اورایک سے بڑھ کر، ایک گانے بجانے والا بھی۔ آپ اس کام کیلئے، ہر وقت دوسرے سکولوں سے ٹیلنٹ، ڈھونڈ ڈھونڈ کر، اُنکی اپنے سکول میں، مائیگریشن کرواتے رہتے۔ ایسے ہو نہار طلبہ کی مالی امداد بھی کرتے۔ اِس وجہ سے دوسرے سکولوں کا سٹاف بھی، آپ کے خلاف، ریشہ دوانیاں کرتا رہتا تھا۔ یہاں اپنے سکول میں، شام تک اپنے فنکار اور کھلاڑی طالبعلموں کیساتھ، بیٹھے رہتے، اُنکی تربیت اوردلجوئی کرتے، پلاننگ کرتے اور اُنکی خاطرمدارات بھی کرتے تھے۔ ہر وقت، اپنے چیلوں کے جلو میں رہتے۔ جس کیوجہ سے یہاں بھی آپکے کولیگ، آپ سے حسد کرتے۔کیا کریں صاحب، اِسطرح تو ہوتا ہے، اِسطرح کے کاموں میں! بدنام ہوں گے گر، کیا نام نہ ہوگا؟
آپکے نورتنوں میں،( ہم سے دوسال سینئر، شیخ محمد موسیٰ کا کلاس فیلو، سکول ھذا اور پنجاب لیول تک کا، انعام یافتہ، خوبرومقرر، اعظم نزیر تارڑ بھی تھا، جو بعد میں محترمہ عاصمہ جہانگیر صاحبہ کی لاء فرم میں کام کرکے، آج نواز شریف کا وکیل بنا ہوا ہے۔ بہت اچھا مقرراور ڈیبیٹر تھا۔ دوسرا، چھوٹے قد کا ایک ذہین لڑکا ، طاہر مسعود بھی بہت اچھا مقرر تھا اوربعد میں، سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرکے، سول سروس میں چلا گیا تھا۔ تیسرے عبدالجبار، نامی ایک غریب لڑکا، بہت اچھا نعت خواں اور گانے والا تھا ۔ بعد میں ایک میڈیکل سٹور پرکام کرنے کیسا تھ ساتھ، حافظ آباد کا ایک نامور، اخباری رپورٹر بن گیا تھا۔ عدنان ملک، ایک اور لڑکا، آج جنگ اور جیو ٹی ۔وی کا ایک کامیاب اور سینئر رپورٹر ہے۔ افضل دھوؔتو، عبدالجبار کیساتھ ڈھولک بجایا کرتا تھا۔ پہلے گینگسڑ بنا، فلم سٹار نرگس کا گارڈ بنا، پھرسیکیورٹی انچارج اوربالآخر، اُسکا خاوند بن گیا۔ آہستہ آہستہ، اسٹیج ڈراموں اور فلم انڈسڑی میں، بھتہ خوری اورسینہ زوری کرتے کرتے، فلم پرڈیوسر بن گیا۔
ماسڑ خوشی محمد صاحب
ڈرائنگ ماسٹرتھے۔ یہ بھی حق حلال کی کھانے والوں میں سے تھے۔ یعنی، جب تک بورڈ پر، خود کچھ نہ کچھ، بنا کر نہ دکھاتے، ہم کیسے سیکھ سکتے تھے؟ آپکو بھی کسی کی محتاجی پسند نہ تھی، سوٹی آپکی اپنی ذاتی تھی!
ماسڑ محمدابراہیم صاحب
سینئرترین، بی۔اے، بی ایڈ تھے۔ نائب رئیس المدرسہ اورشعبہ امتحانات کے انچارج تھے۔ نویں اور دسویں کلاسوں کو حساب اورانگریزی پڑھاتے تھے۔ ہمیں بھی پڑھایا۔ گاہے بگاہے ہماری مدد بھی کرتے رہتے تھے، جسکا ذکر اوپر گذر چکا ہے۔
ماسڑ فرید صاحب
پچھلے جنم میں غالباً، پتلے پتنگ، وہ ہندو جوگی رہے ہونگے، جو اپنی ’’تپسّیا‘‘ کے دوران کبھی سویا نہ تھا۔ بھگوان کی کِرپا سے تپسیا قبول ہو گئی! نئے جنم میں، مسلم گھرانے میں جنم لیا، جسم بہت موٹا اورسکول میں صرف سونے اورسوٹی چلانے کیلئے ہی آتے تھے۔ کبھی بیالوجی اورکبھی زراعت کا’’ انت کریا چار ‘‘ (یعنی خاتمہ) کرنے پر مامور تھے!
قاری حافظ غلام رسول صاحب
ششم سے دہم تک قرآن کریم پڑھانے پر مامور تھے۔ آپکی مثال، ’’پانچوں انگلیاں گھی میں اورسرکڑاہی میں‘‘ کے مصداق تھی ۔ اکثر بچے تو، بچپن میں اپنے گھراور گلی محلے کی مسجد سے، ہی قرآن شریف پڑھ کرآتے تھے۔ لہذا، سکول میں پڑھانے کی نوبت ہی نہ آتی۔ دوسرے، ایک ہی کلاس کے کم ازکم دو سیکشنز، کا پریڈ اکٹھا ہوتا تھا۔ سو لڑکا، ایک ہی وقت میں سکول کی مسجد میں اکٹھا ہوجاتا۔ یوں، ’’نشستند، گفتند اوربرخاستند‘‘ میں ہی سارا وقت پورا ہو جاتا۔ تاہم ، اِس کم وقت میں بھی، ہرپریڈ میں، منبر ِرسول سے دی جانے والی فُحش گالیوں اور’’عربی و اسلامی‘‘ درخت کی ایک لمبی سی شاخ سے (وجہ اور بے وجہ ) دی جانے والی سزا، ہر ایک کو یاد ہوگی۔ وہ زمانہ بہت بھلا تھا۔ جنرل ضیاءالحق کا ’’اسلامی دور‘‘، جب کسی بھی مُلاں کیلئے اپنا پیٹ اور مسجد کے نام پر رقبہ بڑھانے پر، کوئی پابندی نہ تھی۔ آپ ہی کی مخلصانہ کوششوں سے، سکول کی دیوار توڑ کر، ریلوے اسٹیشن کی حدود میں، مسافروں کو نماز کی سہولت بہم پہنچانے کیلئے، ایک بغیر دیوار کے چبوترہ، اِس طرح بنایا گیا کہ وہ سکول کی مسجد کا ہی ایک حصہ لگے۔ساتھ ہی سکول کا کنواں تھا، جہاں سے پانی بھی، اُس چبوترے کو دیا جانے لگا۔ قاری صاحب، سکول کے ملازم اور چبوترے کے گارڈ فادر تھے۔ آہستہ آہستہ وہ (چبوترہ ) بھی بڑھنے لگا۔ اورہماری گناہگارآنکھوں کے سامنے ہی جامع مسجد ’’ گلزارِمدینہ‘‘ بن گیا ۔ قاری صاحب اوراُنکے بچوں کی اپنی ریاست! شیخ موسیٰ، مصطفیٰ، محمود اورعرفان کے موٹر سائیکلز پر، قاری صاحب نے شہر کی سیر کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔ نیز، گاؤں سے تعلق رکھنے والے تمام طلباء اورسکول کے پی۔ ٹی ماسٹر صاحب کی مدد سے، اُنکے گھروں میں موجود، ’’اضافی دیسی گھی‘‘ کی نکاسی بھی، آپکا ایک یاد گار کارنامہ ہے۔
محمد سلیم پی ٹی صاحب
یہ ٹائیٹل دراصل پی۔ای ۔ ٹی کا مخفّف تھا، جو بذات ِخود فزیکل ایکسرسائز ٹیچر یا ٹرینرکا مخّفف ہے۔ یہ کردار، ساری زندگی، پتلون اوربوشرٹ میں ملبوس، ایک دیہاتی آدمی، مُنہ میں سیٹی اور بغل میں چھڑی لیئے، ہمارے سکول میں موجود رہا۔اِنکا تعلق سانگلہ ہل سے تھا۔ لیکن یہ یہیں کے ہو رہے تھے۔ فٹبال، والی بال اور کبڈی کی ٹیموں کیلئے مضبوط جسم، موٹی عقل اور دیہاتی قسم کے طلباء کے داخلے کروانے اوراُن سے ہر قسم کی اجناس کا بھتّہ وصول کرنے کیلئے مامور تھے!۔۔۔ ’’غضب کرپشن کی عجب کہانی‘‘ کا مصداق! سکول کے ویران بورڈنگ ہاؤس کو، صرف آپ ہی کی ذاتِ والا صفات نے آباد رکھا ہوا تھا۔ آپ ہی کے عزیز، وہاں رہائش رکھتے اور سکول کا ملازم، مالی وماشکی، بیچارہ عزؔیز، سکول میں ہی اُگائی گئی سبزیوں سے کھانا بنانے میں مصروف رہتا۔۔۔با لکل ایسے، جیسے میں اپنا کام کاج چھوڑ کر یہ مضمون لکھنے میں مصرو ف رہتا ہوں، ہا ہا ہا !!!۔
پرائیویٹ ٹیوٹرز:
علم اگرروشنی ہے توصاحب ِعلم، روشنی کا مینارٓ! ہمارے محلے کی حالت، اندھیرے میں ڈوبی ہوئی، ایک بڑی سی ویران مسجد کیطرح تھی، جہاں روشنی صرف دو میناروں پرہی تھی اور وہ بھی، صرف اندرونِ خانہ کو ہی روشن کر رہی تھی نہ کہ بیرونی حصہ کو! ایک گھرانہ میرزا حبیب احمد صاحب ایڈووکیٹ اور دوسرا جناب تصدّق حسین ملک صاحب ایم ۔اے (انسپکٹر تعلیم سکولز )۔ دونوں گھروں کے افراد، اعلی ٰ تعلیم یافتہ تھے لیکن اپنے ماحول میں مست و مگن! اور محلہ داروں سے، بے تعلق! مزے کی بات ہے، یہ کہ اِن دونوں گھروں کی سوچ ہی نہیں، (پچھلی) دیواریں بھی آپس میں ملتی تھیں۔ پھر یکایک، ایک مینارہ سے روشنی کا رُخ، قدرے بیرونی، تاریک راہ داریوں کیطرف مڑا اور ہمارے محلہ میں بھی، ایک ٹیویشن سنٹر کا آغاز ہوگیا۔
بیگم سلمیٰ تصدق حسین صاحبہ
یہ نام ، تحریک ِپاکستان کے حوالے سے بہت مشہور رہا ہے۔ اِنکی ایک ہم نام، برسوں سے ہمارے محلے میں موجود تھیں، لیکن گمنام ! آپ کے میاؔں، محکمہ تعلیم میں، ضلعی انچارج تھے۔ لیکن سفارش اور لوگوں کے ملنےجلنے سے بچے رہنے کی غرض سے، ساتھ والے ضلع (گجرات)میں تعیینات تھے۔ دوسرے تیسرے روز، رات بھر کیلئے لوٹتے اورعلیٰ الصبح پہلی گاڑی سے روانہ ہو جاتے۔ کبھی کبھار، کسی وجہ سے لیٹ روانہ ہوتے، تو ہم دیکھتے کہ پرانی وضع کے اعلی ٰ سرکاری افسروں کیطرح، بہترین پوشاک اور جناح کیپ پہنے، ایک ہاتھ میں اچکن اور دوسرے میں نفیس قسم کا چمڑے کا بیگ اٹھائے رکھتے ہیں۔
باجی سلمیٰ خود، بی۔اے پاس، انتہائی متمول اور پڑھے لکھےگھرانے کی بیٹی، گزشتہ کئی دہایئوں سے، اِس گھر میں پڑی تھی۔ دونوں میاں بیوی نے جن نا گفتہ وجوہات کی بنا پر، اِسقدر گُپت (چھپ کر) اور گُھٹ گُھٹ کر، زندگی گزاری تھی کہ لگتا ہے انہوں نے، اب عہدِ نو کر لیا تھا کہ اپنی بیٹی کو ایسی زندگی نہیں جینے دیں گے!
اُنکی ایک ہی، لاڈلی اور پیاری بیٹی تھی اور ہماری ہم عمر! وہ ہمارے محلے کی بھی وہ واحد ’’ناری‘‘ تھی، جو پتلون، بوشرٹ ، جوگرز، جیکٹ پہنتی اور بائیسکل چلاتی تھی۔ محلے کے سب مردوزن اُسے دیکھتے اورخوش ہوتے، لیکن پِیٹھ پیچھے اُسے اور اُسکے ماں باپ کو بُرا بھلا کہتے۔ یہی حال، محلے کے تمام لڑکوں کا بھی تھا!سب کا یک نُکاتی ایجنڈا پر اتفاق تھا کہ ’’ہمیں تو قبول ہے، پر ہمارے گھر والوں کو نہیں‘‘۔۔۔ہر سُو پھیلی، اِسی’’پریشانی‘‘ اور’’بے یقینی‘‘ کی فضا ء میں، ہماری خوش قِسمتی کہیئے کہ ہمارے گھر والوں نے، ہمیں بھی اُنکے ہاں ٹیویشن لینے کیلئے داخل کروادیا۔
پہلے ہی روز، اپنی قابلیت کے جھنڈے گاڑ دیئے! باجی کو بتا دیا کہ حساب وساب میں کچھ مسلہٗ ہو تو ہو، باقی فکر کرنے کی قطعاً ضرورت ناہیں! دِنوں میں ما نیٹر ہو گئے۔ باجی بہت پیار سے پیش آوئے تھیں ہم سے ۔ خداشاہد ہے کہ کبھی دودھ کا گلاس پلاویں اور کبھی اپنے ساتھ چائےوائے! پھر ایکدن، باجی کا ایک بھانجہ، کباب میں ہڈی بنکر آگیا۔ وہ برن ہال کیڈٹ سکول، ا یبٹ آباد میں پڑھتا تھا اور بلا شبہ، ہم سے زیادہ ذہین ،حسین اور باجی کو ہم سے زیادہ عزیزبھی تھا۔ ہم سمجھدار تو تھے ہی، جا نا کہ اپنی دال تو اب یہاں گلنے والی ہےنہیں ! بہتر یہی ہے کہ اِنکو، اِنکے حال پرچھوڑ کر نکل لیں! سال، ویسے بھی گزر گیا تھا اور ہم کلاس ہشتم میں پہنچ گئے تھے۔ وہاں ماسٹرمحمد انور صاحب ہمارے منتظر تھے۔ اور وہ رُوداد، آپ اوپر پڑھ آئے ہیں۔
ماسڑ جمشید علی صاحب
قریبی گاؤں، بھڑی شاہ رحمان کے مڈل سکول میں پڑھاتے تھے۔ غریب و مہاجر گھرانے سے تعلق تھا۔ آپکے بوڑھے والدین، آپکے ساتھ ہی چھوٹے سے گھر میں رہائش پزیر تھے۔ آپکو ٹیویشن پڑھانے کا نہ تو کوئی شوق تھا اورنہ ہی وقت! لیکن قسمت کی دیوی، آپکی محنت ومشقت، دیانت وامانت، والدین کی خدمت اورآپکی اپنی،عبادت و ریاضت کی وجہ سے آپ پر مہربان تھی۔ اگر آپ کسی کاروبار میں ہوتے تو آج دولت کی دیوی بھی آپکی باندی ہوتی۔ لیکن، ایک ایمانداراُستاد یا ملازمت پیشہ انسان نے محنت کے باوجود، کیا دولت کمانی ہو تی ہے؟ بس نیک نامی ہی اُنکا مقدر ہوسکتی ہے اور وہ آپ نے خوب کمائی!
آپ نے ہمارے سامنے ہی، پرائیویٹ طور پر بی۔اے کا امتحان پاس کیا تھا۔ آپ آرٹس کے طلباء کو انگریزی اور حساب پڑھاتے تھے۔ آپ کی نیک شہرت کی وجہ سے، لوگ اپنے سائنس پڑھنے والے بچوں کو بھی آپکے پاس لاتے اور آپکے یہ سمجھانے کے باوجود کہ میں اِنکی فزکس، کیمسڑی اور بیالوجی جیسے اہم مضامین میں، کوئی مدد نہ کرسکوں گا، پھر بھی اپنے بچے، آپکے پاس چھوڑ جاتے۔
ہم بھی انہیں میں سے ایک تھے۔ ہمارے کئی کلاس فیلوز بھی یہیں پڑھتے تھے۔ بنیادی طور پر آپ نے ہمیں حساب اور انگریزی ہی پڑھائی۔ لیکن اِسقدرمحنت اور لگن سے کہ میڑک میں ،حساب میں میرے نمبر 93/100 اور انگریزی میں 130/150 تھے۔ ایسا ہی شاندار رزلٹ، آپکے تمام شاگردوں کا، ان دو مضامین میں رہا تھا۔
آپ سردیوں گرمیوں میں، 10/12 میل کا سائیکل سفر کرکے گھر لوٹتے۔ ماں باپ کو سلام کرتے اور سیدھے نلکے کو منہ لگا کر پانی پی لیتے۔ ایک پرانی سی کرسی پر بیٹھ جاتے ۔ طلباء پہلے ہی سے موجود ہوتے، ہر ایک کا کام خود دیکھتے اور آگے کا سبق دیتے۔ وہیں بیٹھے بیٹھے کھانا کھاتے اورچائے پیتے۔ نمازیں وقت پر، گھر کے بالکل سامنے ہی مسجد میں باجماعت ادا کرتے۔ اوردوسروں کوبھی تلقین کرتے۔ ہم بھی جا کر الگ سے نماز یں وہیں ادا کرلیتے تھے۔
اِس دوران، اُنکے محلےدار، خط پَتروسرکاری کاغذات، بل وغیرہ جیسے، مسائل کے بارہ میں راہنمائی کیلئے آجاتے، آپ انہیں بھی ساتھ ساتھ مدد دیتے جاتے۔ ماسڑ صاحب اور آپکے محلے کے بہت سے لوگ بھی ہمارے و الد صاحب سے دوا دارو لیتے تھے۔ ہماری کیا ہی بات تھی!
ہمارے تایا جان، میاں نورمحمد صاحب اور ماسڑ صاحب کے گھر کے درمیان صرف ایک اور گھرواقع تھا، (جو مرحوم خان کباب والوں کا تھا) ۔ والد صاحب، صبح کی نمازاورسیر کے بعد روزانہ اِدھرآجاتے تھے۔ مزدور و ریھڑی بان لوگ وُہیں، صبح صبح، اُنکو اپنی تکالیف اور بیماریاں بتا کر، نسخہ لکھوا لیتے اور بعد میں کسی وقت، کلینک سے دوا بنوالیتے تھے۔ ہماری ٹیویشن کی کارگزاری کی رپورٹس بھی آپکو وہیں مل جاتی تھیں۔
پورے شہر میں یہ واحد ٹیویشن سنٹر تھا، جہاں بدنی سزا کا تصور، سکول کیطرح ہی موجود تھا۔ کان مروڑے جانا، مرغا بنانا، تھپڑ اور چھڑی کا استعمال بھی ہوتا تھا لیکن بہت کم! اور صرف ’’عادی مجرموں‘‘ پر! لیکن ہر ایک نے، حسبِ توفیق اِن ’’نذرانوں‘‘ سے کچھ نہ کچھ حصہ تو ضرور لیا تھا۔
اِسکے باوجود، جس نے بھی آپ سے فیض اُٹھایا ہے وہ آپکے لیئے دعاگو ہے۔ میرے اور محمود کے علاوہ ہمارے کئی دوست و ہم جماعت، جیسے خالؔد ، جعؔفر، وسیؔم ، ندؔیم اور ہماری چھوٹی ہمشیرہ بِھیِ ان سے پڑھتی تھیں، اپنی کچھ سہلیوں کے ساتھ۔ اوریہ ہمارے ہاں، پہلی دفعہ ہوا تھا۔ آپ ماشاء اللہ حیات ہیں اور باوقار بھی ! دو سال پہلے، عزیزم ندیم احمد کیساتھ، آپ سے ملنے گیا تھا۔ بڑے تپاک سے ملتے ہیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ و احسن الجزاء۔
ہماری کالج گردیاں!
شائد اِس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں
دھوپ میں چلتا رہوں، سائے بچھائے جاوں!
اہل دل ہوں گے، تو سمجھیں گے سخن کو میرے
بزم میں آہی گیا ہوں، تو سُنائے جاؤں!
میڑک میں، کُل 850 نمبروں میں سے700 یا اُس سے زائد نمبر حاصل کرنے والے خوش قسمت اور خوش نصیب، سمجھے جاتے تھے۔ یہی اعلی ٰنمبرز، اچھے کالج میں داخلے کےعلاوہ، مستقبل میں، ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی ضمانت بھی سمجھے جاتے تھے۔ اور ہم اس سنگ میل سے زیادہ پیچھے بھی نہ تھے۔
1985ء میں، میٹرک کے نتائج کے مطابق، پورے حافظ آباد شہرمیں، صرف ایک طالبعلم، جو ہمارے ہی سکول میں ماسڑسعید صاحب کی کلاس اور ٹیویشن میں تھا، بنام امتیازانصاؔری نے 713 نمبر لئے۔ دوسرا ہمارا کلاس فیلو، بدرالزؔمان جس نے 689 ، تیسرا ہمارا دوست جعفرؔ علی مرحوم 672 اور چوتھا میں 645 نمبروں کیساتھ کامیاب ہوا تھا۔ میرے بھائی محموؔد سمیت تمام دوستوں کے نمبرز مجھ سے کم تھے۔ ہمارے خاندان، قدیم و جدید، احمدی وغیراحمدی میں ( آجکل کےنئے تعلیمی نظام کے آنے تک، جس میں امتحانی طریقہ کارمیں تبدیلی، کل نمبروں کی تعداد میں اضافہ اور مختصر جوابات دینے کی سہولت کی وجہ سے، اب تو نمبروں کا ڈھیر لگ جاتا ہے)، صرف مکرم ظفراقبال منیبؔ ابن میاں محمد صدیق صاحب شاہکوؔٹی کے 715 نمبرز آئے تھے۔
میرے رشتہ کے ایک ماموں، میاں محمدامان اللہ صاحب شیخوپورہ ضلع کے مشہور ماہرِتعلیم اورگورنمنٹ ہائی سکول، شاہکوٹ کے ہیڈ ماسٹر تھے۔ لاہور سیکنڈری اینڈ انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن بورڈ میں آپکا بڑا نام تھا ۔ کیونکہ آپکے سکول کا رزلٹ سا لہا سال سے بہت عمدہ آرہا تھا۔ صرف ایک سکول سے ہی 700 یا اُس سے زائد نمبر حاصل کرنے والوں کی تعداد، بعض جگہ پورے ضلع کےتمام سکولوں کی مجموعی تعداد سے بھی زیادہ ہوتی تھی۔ اِسی وجہ سے، 1994ء میں، حکومت ِپاکستان نے، آپکو پرائیڈ آف پرفارمنس کے اعزاز سے نوازا اور آپکے دل کا آپریشن بھی، سرکار نے اپنے خرچ پرہی لنڈن سے کروایا تھا۔
یہ خبر ہم نے اپنے اِنہی گناہگار کانوں سے سُنی، جب آپ نے ہماری والدہ کے سامنے، ہماری کارکردگی کی تعریف کی ۔’’یہ جنگ ِعظیم دوم کے بعد کی بات ہے‘‘ ۔ اِس کی واحد وجہ یہ پیدا ہوئی تھی کہ آپکے اپنے اکلوتے بیٹے، میاں نجی اللہ اور میرے ایک بھتیجے میاں مقصود احمد منؔیب آف سانگلہ ہل نے بھی، میرے ساتھ ہی امتحان میں کامیابی تو حاصل کی لیکن اِن دونوں کے نمبرمجھ سے کم رہے تھے۔
آپ نے ہی، باوجود، اُمید نہ ہونے کے، ہمیں گورنمنٹ کالج لاہور کی راہ سُجھائی کہ ’’داخلہ فارم، ضرور جمع کروانے چاہیئں ۔ بعض اوقات کسی وجہ سے میرٹ گِربھی سکتا ہے یا کبھی داخلہ ٹیسٹ کیصورت میں، قابل طلباء کی قسمت بن بھی جاتی ہے‘‘۔ اِس سے ہمارے حوصلے مزید بلند ہو گئے۔
میڑک میں ’’نمایاں‘‘ کامیابی کے بعد، ہر جہت ہماری ’’کریکٹروکریڈٹ ریٹنگ ‘‘ کراچی اسٹاک ایکسچینج کی طرح، اپنی بلند ترین سطح کو چھورہی تھی ۔ ہماری سوچ کی اونچی پرواز نے سب کو ہی یہ باورکرا دیا تھا کہ حا فظ آباد شہر اور یہاں کا کالج،اب ہمارے معیارسے، بہت نیچے رہ گیا ہے! اِس دوران، ہمیں لاہوراور گوجرانوالہ، آنے جانے کا جیسے’’ملٹی پَل ‘‘ویزہ مل گیا تھا۔ کبھی فارم لینے، کبھی جمع کروانے اور کبھی میرٹ لِسٹ دیکھنے کیلئے، میں اور محمود لاہور آنے جانے لگے۔ یہاں ہمارا جگری یار، میاں محموؔد پہلے سے ہی، گورنمنٹ پولی ٹیکنالوجیکل انسٹیوٹ، ریلوے روڈ میں زیرِتعلیم تھا ۔ ہم کالج گردی اور شہر کی سٹرکیں ناپنے کے بعد، تھکے ہارے، جب سعید پارک ، شاہدرہ پہنچتے، تو ہماری بڑی کزن، آپا فاطمہ مرحومہ اور اُنکے میاں مبارک حمیداللہ صاحب مرحوم ، ہماری اِسطرح آو بھگت کرتے، جیسے ہم کوئی ’’پانی پت ‘‘کا محاذ مار کر آ رہے ہوتے ۔ جب تک آپ لوگ وہاں رہے، لاہور ہمارا رہا۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ واحسن الجزاء
دو تین ہفتے بڑی گہما گہمی رہی۔ کُل تین کالجوں میں فارم جمع کروائے گئے تھے۔ گورنمنٹ کالج لاہور، گورنمنٹ فارمین کرسچئین کالج ،المعروف ایف ۔سی کالج اور تیسرے ، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں!
گورنمنٹ کالج لاہور
متحدہ ہندوستان کے شمال مغربی علاقہ، جوآجکل موجودہ پاکستان پر مشتمل ہے، میں سب سے پہلا اورتاریخی لحاظ سے انتہائی معتبر تعلیمی ادارہ ہے، جو 1864 ء میں قائم ہوا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں، مسلم یا غیرمسلم، انڈین یا اینگلو انڈین، احمد ی یاغیراحمدی، شمال مغربی ہند کا شائد ہی کوئی بڑا اور قابل شخص ہو گا جو اِس ادارہ سے فارغ التحصیل ہوئے بغیر، علمی و سیاسی بلندیوں پرپہنچا ہوگا! سرظفراللہ خانصاحب، ڈاکٹرعبدالسلام صاحب، علامہ سرمحمد اقباؔل صاحب، فیض احمد فیضؔ صاحب وغیرہ ۔ سب کے سب، کبھی نہ کبھی، اس ادارہ سے وابستہ رہے تھے۔
وہ دن، ہماری زندگی کا ایک یادگار دن تھا، جب فارم جمع کروانے، میں، نجی اللہ اور مقصود منیؔب، ماموں امان اللہ صاحب کیساتھ، گورنمنٹ کالج لاہور پہنچے۔ میں پہلی مرتبہ اس عظیم درسگاہ میں قدم رکھ رہا تھا ۔ کامیابیوں وترقیوں کی داستانیں، جگہ جگہ رقم نظرآرہی تھیں۔ اُسکے سبزہ زاروں، راہ گزاریوں، عظیم الشان محرابی برآمدوں، اونچی چھتوں والے ہال نما بڑے کمروں اور مغربی ُنکڑ پرایستادہ، قدیم مینارہِ علم سے ۔۔۔ انگریزی اورتحریک آزادی کے ا دوار کی تاریخ کے اوراق، جا بجا، جلوہ نُما تھے۔ ایک طرف کالج کی عظمت کا رُعب اور دوسری طرف اپنی کم مائیگی کا دُکھ۔۔۔اِن سب نے مل کر ہماری بے بسی و بےکسی کے عالم کو، دُونا کر دیا تھا۔ ماموں جان، پرنسپل صاحب سے بھی ملے۔ باہر بنچ پر بیٹھے ہوئے، یہ ہمارے لیے بڑے فخر کی بات توتھی لیکن ہمیں اس بات کابھی کامِل یقین تھا کہ آپ ہمارے حق میں نہ توکوئی سفارش کریں گے اورنہ ہی یہاں داخلے کیلئے ہمارا منہ رہ گیا تھا!
ہماری، یہاں تعلیم پانے کی خواہش، ہمارے دل میں ہی رہ گئی ۔ کالج کی ڈیڑھ سو سال کی تاریخ میں، ہمارے خاندان سے صرف تین افراد ہی اس ادارہ میں تعلیم پاسکے۔ دو ہم سے قبل ، ماموں ڈاکٹر محمداعجازاللہ اور ظفراقبال منؔیب اور ایک ہمارے بعد، عزیزم اقبال احمد ابن ظفراحسان اللہ صاحب لاہوری ۔
خیر ہماری اوقات کے مطابق، ہماری کامیابی کا آغاز، نیچے سے ہوا۔ سب سے پہلے، گوجرانوالہ کالج میں نام، پہلی ہی میرٹ لسٹ میں آگیا ۔ بعدہْ، ایف۔سی کالج میں ، میرا اورخالد محمود کا نام تیسری لسٹ میں آگیا۔ اور گورنمنٹ کالج لاہورکی لسٹوں پر نام نہ آنا تھا اور نہ ہی آیا!
لاہور کی لَت تو لگ چکی تھی ۔ لہذا، ایف ۔سی ۔ کالج کا ارادہ کرلیا۔ جب فیس وغیرہ کا حساب لگا یا تو اُس سے ایک دھچکہ سا لگا۔ پہلے سال کی کالج کی فیس، 1000 روپے جبکہ ہاسٹل کی سالانہ فیس 3000 روپے کے لگ بھگ تھی جو تین اقساط میں دی جا سکتی تھی۔ اُسکے باوجود یہ اخراجات ہمارے لیے بہت زیادہ تھے۔ ہمیں تایا جان مرحوم سے، ہماری اپنی پراپرٹی کے کرایہ کی مد میں، فقط 1000روپے ماہانہ ملتے تھے، جن میں سے 500 روپے، ہمارے مکان کا کرایہ چلا جاتا تھا، جبکہ باقی رقم سے گھر کی دال روٹی چلتی تھی۔ ایسے میں، یہ شاہ خرچی ممکن نہ تھی۔ دل تو مانتا تھا لیکن دماغ اجازت نہ دیتا تھا۔ اِس اثناء میں، کالج کے بالکل پاس واقع، کہوٹہ ریسرچ لیبارٹریز کے زیر ِانتظام، پی۔سی۔ایس۔آئی۔آر لیبارٹریز میں ہمارے دُور پار کے ایک عزیز، حکیم غلام محمد صاحب ودارؔتی مرحوم کے صاحبزادے، ڈاکٹرخالد محمود صاحب، پراجیکٹ ڈائریکٹر تھے، اُن سے ملاقات کیلئے میں اور محترم تایا جان مرحوم گئے۔ آپ کیمسٹری میں، پی۔ایچ ۔ڈی تھے اورپرائیویٹ طور پر ’’قرشی دواخانہ‘‘ میں بھی کنسلٹنٹ کے طورپرکام کرتے تھے ۔ ہم آپ سے، فیس کے معاملات میں، کسی طورکوئی کمی اور کٹوتی کیلئے کوئی مدد مانگنے گئے تھے لیکن آپ نے سارا مسئلہ ہی حل کر دیا۔ آپ نے، ایف ۔سی کالج کی اِتنی بُرائیاں کیں کہ ہم جیسے’’ نیک پاک اور خاندانی وجود کا، کافروں کے کالج میں داخلہ لینا ہی حرام قرار دے دیا‘‘ ۔ بطورصفائی، یہ بھی بتایا آنجناب، بمشکل تمام، اِسی کالج سے اپنے ایک بیٹے کی مائیگریشن گورنمنٹ کالج میں کروانےمیں تو کامیاب ہو گئے ہیں لیکن دوسرا ابھی تک’’ کافرستان‘‘ میں ہی زیرِتعلیم ہے۔ آپ نے ہماری بڑی عزت افزائی کی اور ہماری خواہش پر، ہمیں، اپنی سوزوکی(ایف ۔ایکس) میں، احمدیہ ہاسٹل ’’دارالحمد ‘‘چھوڑ گئے۔
یہاں ہمارے سابق ناظم اطفال، سید حامد مہ لقاء صاحب، رہائش رکھتے تھے ۔ آپ لاہور کے ایک’’ تھکے ہوئے‘‘ ادارے، گورنمنٹ سائنس کالج، وحدت کالونی میں، ایم ۔ایس ۔سی فزکس کررہے تھے۔ آپ نے اپنے کالج کو دُنیا کا بہترین کالج اور ’’دارالحمد ‘‘ کو بہترین ہاسٹل قراردے کر ہمیں خوب زِچ کیا!
معاملات سلجھنے کی بجائے، الجھتے ہی جارہے تھے۔ اِس دوران کئی آوازیں، گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے حق میں بھی، کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ ہرجگہ فیسوں کے جمع کروانے کا آخری اور کلاسوں کے اجراء کا وقت، قریب آرہا تھا۔ لہذا، ہم نے، محض اُنگلیوں پر، حافظ آباد سے گوجرانوالہ کے درمیان، روزانہ آنے جانے کے سفر کا تخمینہ تین گھنٹے لگا یا ۔ سٹوڈنٹ کارڈ کی بنیاد پر مفت سفر کی منصوبہ بندی کی، اور اپنے ہی گھر میں رہ کر تمام اخراجات بچا لینے کا مصمّم ارادہ کرلیا۔
دل کابوجھ ہلکا ہو گیا تھا۔ خوشی خوشی جا کر، گوجرانوالہ کالج میں فیس جمع کروائی، جو پورے سال کی 575 روپے تھی۔ روپے کی اِسقدر بچت، ہمارے فیصلے کا پہلا ثمر تھی۔ چند روز بعد، کلاسیں شروع ہوئیں۔ حافظ آباد سے گوجرانوالہ تک، ایک گھنٹے کا سفر تھا اور کئی بار کر رکھا تھا۔ سوچا تھا کہ کلاس سے دو گھنٹے پہلے گھر سے نکلے کہ اگلی نشستوں پر جا کر لیکچر سُنیں گے۔ لیکن، جب تک کالج پہنچے، دو پریڈ گزر چکے تھے اور بریک جاری تھی۔
فوراً انگلیوں سے پوچھا کہ یہ کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ کیونکر ہوا؟ ۔ ۔۔ کون بولتا؟ کون جواب دیتا؟ اُنکے تو طوطے ہی اڑ گئے تھے! لہذا، کاپی پنسل لی، جمع تفریق کی، تو پتہ چلا کہ گاڑی کا سفر تو واقعی ایک گھنٹے کا ہی ہوتا تھا ۔ لیکن گھر سے لاری اڈے تک آنا، گاڑی کا سواروں سے بھرنےاور پھر گوجرانوالہ لاری اڈے سے سٹیشن، پھاٹک تک سوزوکی، وہاں سے کالج تلک، دو تانگے بدل کر جانے کا وقت دوڈھائی گھنٹوں سے بھی زائد لگا، جو کُل ملِا کر، یکطرفہ طور پر، 3 گھنٹے سے بھی متجاوز تھا۔ یعنی روزانہ، کم از کم، 7 گھنٹے کا سفر اوراُسکے نتیجہ میں ضائع ہونیوالی توانائی کے بعد، گھر میں پڑھائی کا تناسب نہ ہونے کے برابر تھا! چند روز، اِسی تکلیف اور پریشانی میں گزر گئے۔ اِس دوران، کالج میں میرے ایک، ہم جماعت اوراحمدی دوست کامران شہزاد خان صاحب، نے گوجرانوالہ میں ہی، اپنی ایک پھو پھو کے خالی گھرکے مل جانے کا مژ دہ سنایا۔ ایک مرتبہ پِھر، ساری پریشانیاں، پُھر کر کے اُڑ گئیں! سامان باندھا، سائیکل ساتھ لی، بس پر رکھی اور دونوں خوشی خوشی، عالم چوک (گوجرانوالہ) اُس گھر میں پہنچ گئے۔ خالی، نیا بنا ہوا صا ف ستھرا، چھوٹا سا گھر اور وہ بھی بلا معاوضہ! اللہ تعالیٰ بھی کتنا مہربان ہے۔ وہاں وہاں سے دیتا ہے، جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا، سبحان اللہ! ۔۔۔مالکانِ مکان، حال ہی میں کینیڈا شفٹ ہوئے تھے۔ دو کمروں کا گھر تھا۔ ایک کمرے میں اُنکا سامان، ایک میں ہمارا! گویا بقول اقبال ؔ: ۔۔۔۔پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔۔۔
رات کو کھانے کیلئے باہر نکلے، مزدوروں کے ایک ٹھیلے پر، بڑی بیزاری سے کھانا کھایا۔ مٹی والی چائے پی اورآکر سو رہے۔
صبح ہوئی، تیا رہوئے، اور سائیکل پرکالج کیلئے روانہ ہوگئے۔ 6 میل کا سفر، 12 میل کی مسافت بن گیا۔ ہم سب نے گوندلانوالہ روڈ کا صرف نام ہی سنا ہوا تھا۔ وہاں کسی نے سائیکل نہیں چلائی تھی۔ خداکی پناہ ! صبح کے وقت رش کا وہ عالم کہ ’’عالم چوک ‘ ‘سے ہی نفرت ہوگئی ۔ سائیکل جیسی آسان اور چھوٹی سی سواری چلانا بھی دوبھرتھا! ٹوٹی ہوئی سٹرک اوروہ بھی مٹی، دھول اور دھویں کے بادلوں میں گم! اس روڈ پر، سوائے ہوائی جہاز کے، دنیا کی ہر چلنے اور نہ چلنے والی چیزموجود تھی۔ بجلی کی موٹریں، تھریشر، کولراورنجانے کیا کیا بنانے والی چھوٹی بڑی دُکانیں اورفیکٹریاں، برلبِ سٹرک موجود تھیں۔ چھوٹی بڑی کوئلے کی بھٹیاں اور فرنس! ہتھ ریڑھیاں، گدھا، گھوڑا اور بھینس گاڑیاں، تانگے، رکشے، سوزوکی ویگنیں، بسیں، کاریں ۔۔۔ یعنی، براستہ چوک گھنٹہ گھر، تنگ بازاروں سے ہوتے ہوئے، جب کالج پہنچے تو سفید شرٹ، سُرمئی ہو چکی ہوتی۔ اور ہم، سائبیریا سے آئے ہو ے پرندے لگ رہےہوتے!
ایک دو دن کی بات ہوتی تو کوئی حرج نہیں تھا، اِس تپسیا کے انجام دینے میں! لیکن روز، روز کی یہ چلّہ کشی، ہم سادھوؤں کے بس کا روگ نہیں تھا۔ یہ تو خداتعالیٰ کا شکر تھا کہ اس بار، جمع تفریق کی ساری غلطی اور ذمہ داری، خالی مجھ پر نہ ڈالی جاسکتی تھی، بلکہ کامران بھی، اب اِس جرم میں برابر کا شریک تھا۔ ہم دونوں، کالج کے ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ، پرفیسر محمد خان چیمؔہ صاحب سے ملے، جو فزکس ڈیپارٹمنٹ کے ’’مولا جٹ‘‘ تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ، ہاسٹل میں داخلے کیلئے بہت لیٹ ہو گئے ہیں، اب کوئی گنجائش باقی نہیں بچی ۔ ہم نے اپنے نمبروں کی دھونس جمانے کی کوشش کی، کیونکہ ہاسٹل کا میرٹ تو فقط 510 تھا اور ہمارے نمبرتو اُس سے بہت زیادہ تھے!!! ہماری اِس بات اور ’’ٹون‘‘ پر، آپ کچھ بگڑ سےگئے! اور بولے، کہ ’’پہلے سوئے ہوئے تھے کیا‘‘؟ اصل میں ہم بھول گئے تھے کہ ہاسٹل سپرنٹنڈنٹ کی کالج میں وہی حیثیت ہو تی ہے جو پنجابی فلم میں جیل سپرنٹنڈنٹ کی! آخرکار، ہم پرنسپل، پرفیسر محمداکرم صاحب کے پاس پہنچے۔ آپ بھی فزکس ڈیپارٹمنٹ سےہی تھے، لیکن فاروقیؔ صاحبکی طرح، بڑے نیک پاک اوربزرگ انسان تھے۔ ہم سے بڑی عزت سے پیش آئے۔ ہماری رام کہانی سُنی اور ہمیں صبر سے حالات کا سامنا کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ مجھے کچھ وقت دیں، کوئی نہ کوئی انتظام ہو جائے گا ۔ لیکن فی الوقت کوئی مدد کرنے سے معذوری ظاہر کردی ۔
دن گزرتے جا رہے تھے اور ہماری پریشانی میں کوئی کمی واقع ہوتی نظرنہ آرہی تھی۔ کھانے کے مسائل اور اُوپر سے نئی اورانگریزی زبان میں پڑھائی نے بہت پریشان کررکھا تھا۔ گوجرانوالہ میں ہماری بہت بڑی جماعت تھی اوراِسی کالج میں ہمارے تین احمدی پروفیسرز بھی موجود تھے (جنکا علم ہمیں بعد میں ہوا )۔ لیکن ہمارے سمیت، کسی کے ذہن میں بھی، ا ِس مشکل کا کوئی اورحل تلاش کرنے کی طرف توجہ پیدا نہ ہوئی۔ پندرہ بیس دنوں میں ہی ہمارا دل اس کوفت سے اُچاٹ ہو گیا تھا۔
ستمبر کےملگجے (مِلے جُلے)موسم اور خزاں کی آمد نے مجھ پر، گھر کے پیار بھرے ماحول سے دُوری اور اُداسی کے گہرے سائے مرتب کرنے شروع کردیئے۔دوران ِکلاس، آنکھوں میں نمی جبکہ (عالم چوک والے) گھر میں آنسووں کا سیلاب رہنے لگا تھا۔ یہ میری کمزوری تھی! اِس کا احساس اب جا کر ہوتا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ہمارے بچے بھی، ایسی کسی کمزوری کا شکارہوں۔ دُوراندیشی کا فقدان، نوجوانی کا عام روش ہے۔ ایسے میں تجربہ کار، بڑوں کا ساتھ بہت ضروری تھا۔ اِسکا اظہار محترم پرنسپل صاحب نے بھی اُس دن کیا تھا، جب وہ نہ چاہتے ہوئے بھی، ہمارے حافظ آباد کالج میں مائیگریشن فارموں پر، بڑے بھاری دل سے دستخط کررہے تھے۔ مجھے آپکے الفاظ آج تک یاد ہیں: ’’آپ دونوں کے نمبربہت اچھے ہیں اور یہ کالج بھی بہت اچھا ہے۔ آپ لوگوں کے اساتذہ بہت قابل ہیں ۔ آپ کو ہاسٹل میں داخلہ مل جائیگا۔ کچھ دیراور صبر کرلیں، یہاں سے جا کر آپ لوگ پچھتائیں گے‘‘ وغیرہ وغیرہ
لیکن ہم دونوں،سہل پسندی، خود اعتمادی میں چھپی خود فریبی، اور گھر کی محبت میں چُھپی اپنی کمزوری کو، دُور اندیشی کی ساّن پر چڑھانے کی بجائے، اپنے ’’ہاتھوں پر سرسوں جمانے‘‘ کا تجربہ کرنا چاہتے تھے، کیونکہ سرسوؔں سے تیل نکالنے والا’’ کوہلو ‘‘ ہمارے گھر کے پا س ہی تھا اور ’’شوکا ‘‘تیلی اپنا جگر! ہمارے پاس، اِس کام کے حق میں وہ تمام دلائل موجود تھے، جن سے ہم دوسرے لوگوں کو مطمعن کرسکیں۔ اِسی وجہ سے میرا، ایک عرصہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اگر میں قانون اور وکالت کے شعبہ سے وابستہ ہوتا تو زیادہ کامیاب رہتا! لیکن پھر مجھے اُس ناتواں بوڑھے کی یاد آجاتی ہے، جو اپنی ناکامیاب چھلانگ کے بعد پانی والے ’’کھالے‘‘ میں گِرکر، پہلے تواپنی جوانی کو یاد کر تا ہے اور پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر، خودی کہہ اٹھتا ہے، کہ جوانی میں بھی تو اپنی یہی حالت تھی پیارے! سمجھ داروں کیلئے اِشارہ ہی کافی ہو تا۔۔۔۔!
کبھی کبھی، دل کے اندر کا چور، ایک سرگوشی ضرورکرتا تھا کہ ’’جتھوں دی کھوتی، اوتھے آن کھلوتی‘‘۔ لیکن ہم نے کبھی اِس آواز کو ’درخورِاعتنا ‘ نہ جانا کیونکہ بقول ہمارے محبوب وزیراعظم پاکستان، جو لیڈر یو ٹرن لینا نہیں جانتا، وہ کبھی بھی بڑا لیڈر نہیں بن سکتا!
حافظ آباد میں بھی داخلے، ستمبر میں مکمل ہوچکے تھے۔ اب نومبرچل رہا تھا۔ کلاسیں جاری تھیں ۔ اِسکے باوجود انہوں نے ہمیں ہا تھوں ہاتھ وصول کیا۔ پرنسپل، پرفیسر ثناءاللہ صاحب اور دیگر اساتذہ بہت خوش تھے۔ کالج کا میر ٹ ٹہرا، تھرڈ اور سیکنڈ ڈویژن! اور ہم تھے، ہائی، ہائی فرسٹ ڈویژن! اور وہ بھی، یک شُد نہ دو شُد!
اپنی زندگی میں چَین، سکھ، قرار، بچت اورخوشحالی، سب کچھ ہی توآگیا تھا۔ پانچ منٹ میں، گھر سے کالج، پرنسپل سے لیکر چپڑاسی، تک سارے ہمیں ڈاکٹر صاحب! ڈاکٹرصاحب! کہہ کر پُکارتے تھے۔ کالج کی وسیع، خوبصورت اورسرسبزو شاداب عمارت، پورے شہر کیلئے سیر گاہ کا کام بھی کرتی تھی۔ بچپن میں کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ ہم یہاں آ کر’اعلیٰ ‘ تعلیم حاصل کریں گے، اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کریں گے!
پچاس برس گزر گئے ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا! گو، محنت، دلِ ناتواں نے خوب کی ۔ چونکہ بفضلِ تعالیٰ، مسلمان ہونیکے ناطے، دیوی اوردیوتاؤں سے ہمارا دُور کا بھی واسطہ نہ تھا، لہذا، کامیابی کی کسی ’’دیوی‘‘ صاحبہ سے ہمارا رابطہ نہ ہوسکا۔ سب سے پہلے ہمیں گوجرانوالہ کالج کے، باریش اوردبنگ پرنسپل، جناب پروفیسر محمداکرم صاحب یاد آتے ہیں۔ آپکی ہربات سچ نکلی تھی۔ یہاں کبھی سٹاف ہی پورا نہ ہوسکا۔ سائنس کے اساتذہ کی کمی بدستوررہی ۔اکثر اساتذہ، جنرل ضیاء الحق کے اسلامی دورمیں، سفارش اور ایڈہاک بنیادوں پر، بغیر کسی تجربے کے تعینات ہوئے تھے۔ جہاں جہاں، لیکچرار کی کوئی پوسٹ خالی تھی، قابل یا ناقابل، ریگولر یا پرائیویٹ ایم ۔اے پاس، اپنی ڈگری اورمضبوط سفارش کیساتھ ، کالے کوّے اور چیل کیطرح، متعلقہ ڈویژنل ڈائریکٹرتعلیمات کالجز، کے پاس پہنچ جاتا اور اپنی تقرری کا پروانہ لے اُڑتا۔ ایک دفعہ، چارج لے لینے اور تین تنخواہیں (نہ کہ طلاقیں ) لینے کے بعد، دوبارہ سفارش کیساتھ اپنے شہر یا علاقے میں، تبادلہ کروالیتا۔ اُس زمانہ میں، علی پور چٹھہ یا گاجرگولہ جیسے کئی کالجوں میں تو طلباء سے زیادہ تو اساتذہ موجود تھے۔ لیکن سبز آموں کیطرح! اکثر کچّے اور کھٹے ّ!
گوجرانوالہ میں، بلا مبالغہ ہمیں صدور شعبہ ہائے انگریزی، اردو، اور بیالوجی پڑھاتے تھے۔ جبکہ بقیہ اساتذہ میں بھی اکثر بہت اچھے اور تجربہ کاراساتذہ تھے۔انگریزی کے اُستاد، حال ہی میں ساہیوال سے ٹرانسفر ہوئے تھے۔ سفاری سوٹ پہنتے تھے اور بہت پیارا پڑھاتے تھے۔ اردو کے صدر شعبہ، جناب پرفیسر محمداکرم رضاؔ صاحب، نعت گو شاعر بھی تھے۔ اِسی طرح پروفیسربشیراحمد صاحب تمناؔ کی کتب، ایم۔اےاُردو تک کے نصاب میں شام تھیں۔ سوائے فزکس کے ایک نوجوان لیکن نہائت قابل لیکچرار کے، ہمیں کسی سے بھی کوئی تکلیف نہ تھی! موصوف یا توہمیں اپنی ہی طرح قابل سمجھتے تھے یا پھروہ یہ سمجھتے کہ ہم، گھر سے کچھ پڑھ پڑھا کر آتے ہو نگے۔ لیکن یہ موصوف کی اپنی غلط فہمی تھی، ہماری غلطی نہیں تھی! نتیجتاً، آپ پڑھانے میں جتنی تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، ہم اُسی قدرتیزی سے، پیچھے (یعنی حافظ آباد ) کی طرف کِھسک رہے تھے۔ اُن دو مہینوں میں، جو سلوک، عالم چوک سے لیکر گھنٹہ گھر چوک تک، گدھا گاڑیوں اور بھینسوں نے ہم سے کیا تھا ، وہی سلوک اِن استادِ محترم نے ہم سے، کالج کے اندر کیا تھا۔ خیر اب رونے دھونے سے کیا فائدہ تھا! اب تو حافظ آباد ہی ہمارا کالج تھا اور یہاں کے نورتن، ہی ہمارے مستقبل کے معمار تھے۔
کالج لا ئف، حسین خوابوں کی، زندگی کا نقطہ آغازسمجھی جاتی ہے۔ لیکن گوجرانوالہ میں، ہم جن حالات کا شکار رہے تھے۔ اُس کاآغاز اورذکرِ خیرنہ ہوسکا۔ سکول اور کالج کی زندگی میں فرق کو سمجھنے کیلئے، ایک مشہور شعر کے دوسرے مصرعے کو اُلٹا پڑھنا اورسمجھنا ہو گا۔ تب، بات آپ کی سمجھ میں آ جائے گی۔ وہ مصرعہ یوں ہے:’’ ایک نقطے نے محرم سے مجرم کردیا ‘‘۔۔۔یعنی سکول میں، حصول ِعلم کی پاداش میں ’’فردِ جرم ‘‘ لگا دی جاتی ہے۔ چاہے آپ یہ کسب (کام ) کر رہے ہوں یا نہ کر رہے ہوں، سزا آپکا مقدر ہے۔ لیکن کالج میں، آپ کوئی کسب کریں یا نہ کریں، کوئی (بدنی) سزا نہیں دی جاتی۔ یعنی کالج میں پہنچتے ساتھ ہی آپ ’’مجرم ‘‘سے ’’محرم ‘‘ بن جاتے ہیں ۔
دوسرے، آپ کے عزت و احترام میں، چاہے وہ کالج کے اندر ہو یا باہر، معاشرہ میں، ایک نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ تیسرے، اگر آپ حقیقی طور پر محنت کرنیوالے اور اپنے مقصد کو پانے کیلئے جدوجہد کرنیوالے ہوں تو، کامیابی سے ہمکنار بھی ہو سکتے ہیں!
سکول میں اساتذہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کا کوئی تصور ہی نہیں تھا، جبکہ، کالج اوریونیورسٹی میں یہ وصف، ایک اچھے طالب علم کی پہچان ہوتی ہے۔ اُسکی وجہ یہ ہے کہ یہاں اساتذہ، اپنی کامیابی اپنے شاگرد کی کامیابی میں دیکھتا ہے۔ وہی اُسکی کارکردگی کا معیار بناتے ہیں۔ لہذا، وہ ایسے طلباء کو مزید عزت اور احترام دیتے، جن سے اُنہیں، اپنی محنت، نیک نامی اور کا میابی، بَرآنیکی اُمید بندھ جاتی ہے۔
۔ ذیل میں اپنے کالج کے چند اساتذہ کا تعارف اور اُن سے دوستانہ تعلق کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یُوں جینا بھی
اُس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
وہ یار ہوں یا محبوب میرے یا کبھی کبھی مِلنے والے
اِک لذّت سب کے مِلنے میں وہ زخم دیا یا پیار دیا!
سائنس کے طلباء کی کل تعداد 20 کے لگ بھگ تھی۔ 7 پری میڈیکل گروپ اور 13 کے قریب پری انجینئرنگ گروپ کے۔ میڈیکل گروپ کا لیڈر’’سرغنہ ‘‘ یہ عاجز جبکہ انجینئرنگ گروپ کا ہمارا دوست اور کلاس/سکول فیلو، احمد عثمانی!
جناب خادم حسین صاحب
فزکس اورسائنس بلاک کے سینئر ترین استاد تھے اور ہم سے فقط دو سال سینئر! کیا مطلب؟ یعنی دو سال قبل ہی عارضی طورپرلیکچرار بھرتی ہوئے تھے۔ اچنبھے کی بات یہ تھی کی موصوف نے گورنمنٹ کالج لا ہور سے ایم ۔ایس ۔سی کیا تھا۔ ہم میں سے کسی کو بھی یہ بات ہضم نہ ہوتی تھی۔ اِس پر، ہماری کلاس کا پہلا اجماع یہ ہوا تھا کہ 1979ء میں، جس روزجنرل ضیاءالحق کا مارشل لاء لگا تھا، غالباً اگلے دن، گونمنٹ کالج لاہورمیں داخلہ ہونا تھا۔ مارشل لاء کی وجہ سے صرف آپ اکیلے ہی اُس روز گورنمنٹ کالج پہنچ سکے تھے۔ اِس لیئے آپکا داخلہ ہوگیا۔ اِس بدگمانی کی وجہ آپ سے کوئی بے جا تعصب نہیں تھا بلکہ اِسکی بنیاد، آنمکرم سے دو سال فزکس پڑھنے کا ہمارا ’’ذاتی‘‘ تجربہ ہے۔ کیونکہ جتنی فزکس، آپکو ایم۔ ایس۔ سی کرنے اور دو سال بعد پڑھانے کے آتی تھی، اُتنی ہمیں بھی آتی تھی!
گوجرانوالہ کے فزکس کے ’ظالم ٹیچر‘ کے برعکس، آپ کا وجود ہمارے لیئے باعثِ رحمت تھا۔ کیونکہ آپ روزانہ ہمیں اُتنا ہی پڑھاتے تھے، جتنا آپ خود پڑھ اور سمجھ کر آتے تھے ۔ آخرکار، آپ بھی تو ہماری طرح، فزکس کے ایک طالبعلم ہی تو تھے۔۔۔ہا ہا ہا!
آپ فربہی جسم، پکّے رنگ اور مضبوط ارادے کے مالک تھے۔ نہایت غریب گھرانے کے فرداور شہر کی کچی آبادی (چنگڑ محلے) کے رہائشی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپکی دعاوں اورمحنتوں کو قبول فرمایا۔ آپ شیعہ مسلک سے متعلق ہونے کے باوجود، نمازوں کے بہت پابند تھے۔ بہت سادہ انسان تھے۔ 10 برس بعد جب میں ڈیپوٹیشن پربطور لیکچرار آیا تو آپ اسسٹنٹ پرفیسر ہوچکے تھے۔ ہمارے بچپن کا ایک دوست اورسکول فیلو، شیخ اورنگزیب، اب شعبہ فزکس کا، معروف اُستاد بن چکا تھا۔ پروفیسر خادم صاحب، البتہ، اپنا سابقہ طالب علم ہونے کیوجہ سے بڑی مروت سے پیش آتے تھے۔
محمد صدیق خاں صاحب
ہمارے بہترین اور پسندیدہ اُستادوں میں سے ایک تھے۔ آپ ہمیں کیمسٹری پڑھاتے تھے۔ سانولے سلونے، موتیوں سے چمکتے دانت، دبلے پتلے اور بہت اچھی طبیعت کے مالک انسان تھے۔ ہر وضوسے پہلے مسواک کرتے اور نمازوں کے پابند تھے۔ شائد اِسی پرہیزگاری کی وجہ سے، کیمسٹری آپکے منہ اور انگلیوں سے، بھٹی سےمیٹھی کشمیری مکئی کےسفید پُھلّوں کیطرح اگلتی رہتی تھی۔ سبحان اللہ! آپکی انگریزی کی لکھائی کے ہم عاشق تھے!
دینہ /سرائے عالمگیر سے آئے تھے اور وہیں چلے گئے۔ سول ہسپتال کے پاس، چھوٹی عید گاہ کی دیوار کیساتھ کوٹ نواں میں، چند ایڈہاک اساتذہ نے، ایک مکان کرایا پر لیا ہوا تھا۔ کل 6 ماہ میں ہی، ٹیویشن کے ذریعے ہمیں 2 سال کا کورس پڑھا کر چلے گئے۔ آپکے بعد پھر کوئی ٹیچر کیمسٹری کا نہ آیا۔ آپکے نوٹس ہمارے ساتھ رہے اور انہی سے ہی ہماری کیمسٹری کی تیاری بہت اچھی رہی تھی ۔ ساری کلاس کی خواہش تھی کہ کبھی سرائے عالمگیر جا کر آپ سے ملیں گے لیکن یہ ایک خواہش ہی رہی! آپکے اور ہمارے جانے کے بعد، ہمارے ایک محلے دار، زاہد خان صاحب ایڈہاک لیکچرار کے طور پر کام پرآ گئے تھے۔
حافظ مصدق علی صاحب
ہمارے بیالوجی کے استاد تھے۔ دیبا لپور، اوکاڑہ سے تعلق تھا۔ بہت دھیمے، چھوٹے قد کے پیارے اور نوجوان انسان تھے۔ سُنّی مسلک سے تعلق، بہت پیاری نعت پڑھتے تھے اور ریڈیو پاکستان پر بھی نشر ہو چکے تھے۔ اپنی پیاری و معصوم شخصیت اور کمزور مالی حالات کے باعث، پرنسپل صاحب سے یہ اجازت لینے میں کامیاب ہو گئے تھے کہ کالج کی مسجد میں نماز کی امامت کرائیں گے اور بیالوجی لیب میں واقع ایک ریٹائرنگ روم میں ہی رہائش رکھیں گے۔ سائنس بلاک میں باتھ رومز پہلے سے ہی موجود تھے اور کھانا وغیرہ بھی لیب میں بنا لیتےتھے۔ آپ سے پہلے کالج میں کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ سوائے، این ۔سی۔سی (پیراملٹری) سٹاف کے، جو ہر بڑے سکول و کالج کے آخری کمروں میں، 1971ء کی جنگ کے بعد سے موجود تھے۔ حافظ صاحب نیک وپاک وجود ہونے کی وجہ سے، لوئر سٹاف کو دم درود بھی کردیتے تھے۔ یہ بات کالج کے گِردواطراف میں پھیلی، کچی بستیوں میں بھی پھیل گئی۔ مغرب کی نماز سے قبل اور بعد میں، مرد، خواتین اور بچوں کا وہاں، کافی رش رہتا تھا۔ ایک تو کا لج کا پروفیسر، اُوپر سے امام الصلوۃ اور حافظِ قرآن ! اللہ ،اللہ! کیا بَڑھیا کوالیفکیشن تھی آپکی !
ہمارے دورمیں ہی آپکا تبادلہ اوکاڑہ ہو گیا تھا۔ 10 برس بعد جب میں ڈیپوٹیشن پربطور لیکچرار آیا تو آپ ہی کا ایک شاگرد اور میرا کلاس فیلو، ۔۔۔۔۔ایڈہاک لیکچرار کے طور پر کام کررہا تھا۔
قُطب الدّین وٹؔو صاحب
کالج کے وحید مراد تھے۔ دُبلے پتلے، لمبا قد، چاک وچوبند، خوبصورت چھوٹی، ترچھی ہوئی موچھیں، کوٹ پتلون اور ٹائی میں ملبوس اور ہر وقت خوش وخُرّم! انگریزی پڑھاتے تھے۔ شاہکوٹ کے قریب گاوں، فیروز وٹو واں سے تعلق اور ایف ۔سی کالج لاہور سے ایم۔اے انگلش کیا تھا۔ لڑکے، آپکو دیکھنے، آپکے معاشقے، شاعری اور لطیفے سننے کیلئے ہی، آپکی کلاس میں جاتے اور سب سے آگے بیٹھنے کی کوشش کرتے! ہم اُن کے گلیمر سے پہلے ہی خاصے مرعوب تھے، اُوپر سے آپ نے ہمیں سول سروس کے امتحان کے بارے میں بھی ’’جاگ‘‘ یعنی چاٹ لگا دی اور یہ خواب بھی دیکھایا کہ ہو سکتا ہے ایکدن آپ، یہاں اپنے ہی شہر اسسٹنٹ کمشنر بن کر آویں!
اسسٹنٹ کمشنر، اللہ میاں کے بعد، ہمارے شہر کی سب سے بڑی اور طاقتور ’’چیز‘‘ ہوتی تھی۔ ہمارے منہ میں بھی پانی آگیا۔ گھر سے تو ڈاکٹر بننے نکلے تھے، یہاں کالج میں، لیکچراروں کے رنگ رُوپ، رُعب دابْ اور بڑی تنخواہ، سے متاثر ہو کر، نیت میں فتور آگیا تھا۔ وگرنہ، انگریزی نہ آپکو خود آتی تھی اور نہ ہی پڑھانی! اسی وجہ سے آپ لوگوں کو ٹیویشن پڑھانا بھی ’’ناپسند‘‘ کرتے تھے۔
آپ اپنی ٹیکسٹ ُبک سے بہت پیار کرتے تھے۔ ہر وقت، کتاب آپکے ہاتھ میں ہوتی ۔ ہمیں بھی آپ سے پیار تھا، لہذا کتاب سے حسد تو بنتا تھا! ایک دن، دورانِ لیکچر، اُنکا ایک فون آ یا۔ دفتر سے کارکن آیا اورآپکو کان میں بتایا کہ کس کا فون ہے۔ آپ جلدی میں جو اٹھے، تو کتاب کو میز پر ہی چھوڑ گئے۔ آپکے کمرے سے نکلتے ہی ہم نے لپک کر جو اپنے’’رقیب‘‘کو قریب سے دیکھا تو اپنی چَھٹی حِس پربہت نازآیا۔جگہ جگہ مشکل الفاظ کے معنی اِس کثرت سے لکھے ہوئے تھے کہ خداکی پناہ! سر چکرا سا گیا۔ جلدی سے واپس اپنی جگہ پر آکر بیٹھ گئے اور ’’فِکر‘‘ کی دنیا میں کھوگئے! ویسے نہ آپ خود اورنہ ہی ہم سا آپکا کوئی ’’ہونہار‘‘ طالبعلم، ابھی تلک، حافظ آباد سمیت کسی بھی شہرمیں، اسسٹنٹ کمشنر ہو کرنہیں پہنچا!
جناب محمد عبداللہ شاہیؔن صاحب
ہمارے محلے داراوراُردو کے استاد تھے۔ بلاشبہ، اچھا اورمحنت سے پڑھاتے تھے۔ آپکےبزرگ والد صاحب ابھی تلک ہمارے محلہ میں، اپنے گھر پربڑھئی کا کام کرتے تھے۔ آپ شوق سے ماؤکوٹ اور پتلون پہنتے تھے۔ بھٹو دورکی آوارہ وآزادانہ روش کو ترک کر کے، ضیاء دور میں، اسلامی و اصلاحی سوچ اپنا لی تھی۔ ایک مسجد میں خطبہ بھی ارشاد کرتے تھے۔ بڑے دُکھ سے اور نیچی آواز سے احمدیت کی مخالفت کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔ 10 برس بعد، جب میں ڈیپوٹیشن پربطور لیکچرار آیا تو آپ صدرِِشعبہ اردو تھے۔ سابقہ محلے دار اورطالب علم ہونے کیوجہ سے بڑی مروت سے پیش آتے تھے۔
محمدایوب طاؔہر صاحب
بہت خوبصورت نوجوان، زبردست مقرّراوراسلامیات کے استاد تھے۔ دیوبندی مسلک سے متعلق، با اخلاق اور باکردارانسان تھے۔ شہر کی ایک بڑی مسجد میں خطبہ بھی پڑھتے لیکن احمدیت سے متعلق کبھی کلاس میں یا خطبہ میں بات نہ کی تھی۔ اُنکے والدین کی ہمارے والدین سے اچھی یاد اللہ تھی۔ آپکے والد صاحب، نابینا تھے اور ہمارے کلینک کے پاس ہی ایک چھوٹا سا مطّب کرتے تھے۔ 10 برس بعد، جب میں ڈیپوٹیشن پربطور لیکچرار آیا تو آپ صدرِشعبہ اسلامیات تھے۔ بڑی شفقت سے پیش آتے تھے۔
اہم مضامین میں ٹیویشن لینا، ہماری گُٹھی میں پہلے سے ہی شامل تھا۔ اُوپر سے، اساتذہ کی کمی اورآئے روزکے تبادلوں نیزانگریزی زبان کی وجہ سے، یہ ایک مجبوری بھی بن گئی تھی۔ ویسے بھی ’’ ڈاکٹر‘‘ بننے کیلئے یہ کوئی مہنگا سودا نہ تھا۔ بیالوجی (میڈیکل) گروپ میں ہم 6/7 لڑکے تھے ۔ اس سے زرا کم، سالِ دوم کے لڑکے تھے۔ 100 روپیہ ماہوار، ہر مضمون کی ٹیویشن فیس تھی۔ 3 ماہ میں، ایک سال کا کورس ختم ہو جاتا تھا۔
ہر ٹیچر سے دوستی کی کئی وجوہات تھیں۔ سب سے پہلے کہ سب کا تعلق، لوئرمڈل کلاس سے تھا۔ ہماری طرح ڈاکٹر یا انجینئر بننے میں ناکام ہو کر، ایم۔اے/ایم۔ایس۔سی کرلیا۔ بے روز گار تھے، اچانک نوکری لگ گئی۔ نوکری کچی تھی، کل کا پتہ نہ تھا۔ ماحول مذہبی تھا، اس لیئے سارے نمازی! نوکری ملنے کیساتھ ہی ساروں کی شادیاں بھی شروع ہوگئیں، جس سے اپنے اپنے علاقوں میں تبادلوں میں بھی تیزی آجاتی۔
تفریحی ٹیکنالوجی، جیسے وی ۔سی آر، موبائیل فون، لیپ ٹاپ وغیرہ ناپید تھے۔ وقت گزارنے کیلئے، کتابیں، رسالے، ناول اورسپورٹس ہی بہترین ذرائع تھے۔ لہذا، حافظ مصدق صاحب کیساتھ، ٹیویشن کے بعد بیڈ منٹن کھیلتے جبکہ صدیق صاحب ، وٹو صاحب اور نفیس باجوہ صاحب کیساتھ کرکٹ کھیلتے تھے۔
دوسال گزرنے کا پتہ اُس وقت چلا، جب سالانہ امتحان 1987ء سر پر آگئے۔ اُس زمانے میں، سال اوّل ودوم کا امتحان اکٹھا ہو تا تھا۔ یعنی ہر مضمون کے دو دو پرچے! کل ملا کر 16 پرچے اور سائنس کے 3 پریکٹکلز کے امتحان! کل نمبر 1100
کالج میں ہونیوالے، تمام کلاس ٹیسٹ اور سمیسٹرز کے امتحانات میں، ہر مضمون میں، پہلی تین پوزیشنوں میں سےاپنی ایک پوزیشن کے بغیر، نتائج کا اعلان ممکن ہی نہیں تھا، ماشاءاللہ! نمایاں کامیابی، اپنی فطرتِ ثانیہ تھی ۔ لیکن، جب’’رن آف کَچھ ‘‘ میں مخالفوں سے پا لا پڑا تو ہماری یہ کامیابیاں کنوئیں کے مینڈک کی چھلانگیں ہی ثابت ہوئیں!
ہجرت، غربت، اساتذہ کی کمی اور نالائقی کے مارے ہوئے، اِس قافلے کی کشتی کا سامنا، جب سمندری (بورڈ) امتحانات کی چٹان سے ہوا تو ایک حادثہ اور سانحہ برپا ہو گیا۔ کشتی ٹوٹ گئی۔ سارے ہی زخمی ہو گئے۔ کسی کی ایک، کسی کو دو مضامین میں کمپارٹمنٹس آگئیں! کوئی پریکٹیکلز میں فیل، جس میں ہم نےکبھی ُسنا ہی نہ تھا کہ کوئی ریگولر طالبعلم بھی فیل ہوسکتا ہے! واللہ!
میرے نمبر665 +20 (اضافی نمبراین ۔سی۔سی کے ملا کر) کل نمبر 685 یعنی 62 فیصد، جبکہ ڈاکٹری کیلئے کم ازکم 70 فی صد نمبردرکارتھے۔ جبکہ میں ہی وہ طالبعلم بھی تھا، جو فزکس کے پریکٹیکل میں فیل ہو گیا تھا۔ یعنی 50 میں سے 17 نمبروں والا پاس تھا۔ اور میرے 13 تھے۔ جنابِ خادم حسین صاحب، اتنے بھولے اور ایماندارتھے کہ انکو، اتنی بھی توفیق نہ ہوئی تھی کہ دیکھ ہی لیتے کہ آیا، اُنکے تمام بچے پریکٹیکلز(امتحان ) میں پاس ہیں کہ نہیں؟
پریکٹیکلز کا امتحان، شروع سے ہی ہمارے ہاں ایک ’’مقامی‘‘ ایشو رہا ہے۔ میرٹ حاصل کرنیوالوں کی اکثریت، اِن اضافی اور’’مقامی‘‘ نمبروں سے بھرپور، فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔ اوّل تو، اِنکی کوئی خاص مشق نہیں کروائی جاتی تھی۔ دوسرے، ہم چونکہ تھوڑے سے ہی طلباء تھے اور اِنہی اساتذہ سے ٹیویشن بھی لیتے تھے، لہذا، کم ازکم پاس ہونا تو بنتا تھا!!
دُکھ، کرب اورناکامی کے اِس امتحان سے ہمت ہارنے کی بجائے، ہم نے اپنے انگریزی کے نصاب میں موجود، سکاٹش کنگ، رابرٹ بروس سے متعلق انگریزی کی ایک مشہورِ زمانہ نظم، جس میں وہ ایک غار میں، اپنی مسلسل پانچویں شکست کے بعد چھپا ہوا بیٹھا تھا۔ کہ اُسکی نظر ایک مکڑی پر پڑی، جو اِسی غارمیں سے باہر نکلنے کی کوشش کرر ہی تھی۔ وہ دیکھ رہا تھا کہ یہ مکڑی بھی، اُسکی طرح، باہر نکلنے کی، اپنی پانچویں کوشش میں ناکام ہوچکی تھی۔ چناچہ، اُس نے اپنےآپ کو مکڑی کی قسمت سے وابستہ کرلیا۔ اورسوچا کہ اگر یہ اپنی چھٹی کوشش میں کا میاب ہوگئی تومیں بھی، ا پنی کامیابی کیلئے ایک اور کوشش کرونگا اور اگریہ ناکام رہی تومیں بھی، سکاٹ لینڈ کی آزادی کیلئے اپنی مزید کوششیں ترک کردونگا۔ عجیب اتفاق ہو اکہ غار میں موجود، ان دونوں کی اپنی اپنی چھٹی کوشش کامیاب رہی تھی۔
میں نے بھی، خالی فزکس، کا امتحان دینے کی بجائے، پورا امتحان دوبارہ دینے کا فیصلہ لیا۔ اوراپنے تئیں خوب محنت کی اور اگلے سال 1988ء میں تمام مضامین میں 687 نمبر لیکر کامیابی حاصل کرلی ۔اس طرح ، بالاآخر، 687+20 کُل ملا کر 707 نمبروں کا تاریخی وطلسماتی عدد حاصل کرہی لیا۔ گو، اُن حالات میں یہ نمبراب ناکافی تھے۔
اُس سال، پنجاب میں سب سے کم میرٹ، حسبِ معمول، بہاولپورمیڈیکل کالج کا 721 رہا تھا۔ یعنی 14 نمبر کا فرق تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اکیلے انگور ہی کھٹّے تھے! ہمیں بھی اب ڈاکٹر بننے کا زیادہ شوق نہ رہا تھا۔ اپنے علمی مقصد اور ٹارگٹ کے اعتبار سے ہم بھی اب’’منافق‘‘ہو چکے تھے۔ والد صاحب اور گھر والوں کی خواہش کی وجہ سے، اخلاقی دباؤ تو تھا لیکن میری ذاتی طبیعت، اس کام کے موافق نہیں رہی تھی۔ اِسی لئے، ہم نے’’مروجہ‘‘ اصولوں کے مطابق، ڈاکٹر بننے کیلئے کوئی ’’ٹھوس‘‘ کوشش بھی نہ کی۔ مثلاً میڈیکل کالج کیلئے داخلہ فارم نہ رسید کئے اور نہ ہی ارسال! آرمی میڈیکل کالج روالپنڈی، ہمارے جیسے طلباء کو ایک کُھلا آپشن دیتا تھا کہ’’ آو ٗاورایکبار پھر اپنے بازو آزمالو‘‘! ہم نہیں گئے۔ اُسکی ایک وجہ اور بھی تھی ، اور وہ، کوتاہ ہمت وسہل پسند لوگوں کی صحبت ! ہمارے ایک پیارے استاد محترم حافظ مصدق علی صاحب کہتے تھے کہ:
’’ ڈاکٹر بن کر کیا کرنا ہے؟ ایف ۔ایس ۔سی میں محنت، ناکامی پر، پھر بی۔ایس ۔سی میں محنت، پھر ڈاکٹر بننے کیلئے سات سال مزید محنت! یارچھوڑو اِس محنت مزدوری کو!
کوئی ایم۔اے انگلش ونگلش کرو! لائف انجوائے کرو اور پھر سی۔ایس۔ایس کرو! اگر ناکام بھی ہو جاو توکیا؟ لیکچرارتو بن ہی جاو گے ہماری طرح ! ٹیویشن پڑھاؤ! پیسے کماؤ، عزت شہرت سب کچھ کماؤ!
آپ ہمیں اپنی بپتا بتاتے کہ میں غلط ثابت ہوا ہوں۔ جو بی ۔ایس ۔سی اور ایم ۔ایس۔سی کرکےاپنی زندگی ہلکان کرلی۔ اب دیکھو، پورے شہر میں، میں ایک اکیلا ہی بیالوجی کا پروفیسر ہوں۔ تنخواہ کے علاوہ ، آپ آٹھ لوگوں میں سےصرف چار لوگ ہو ٹیویشن لینے والے! اُدھر ایف۔اے کے 150 طالبعلموں میں سے اگر 75 انگریزی کی ٹیویشن بھی پڑھیں تو کالج میں موجود، انگریزی کے تین اساتذہ کو، تنخواہ کے علاوہ بھی 25 سٹودنٹس فی کس بطور ٹیوئشن حصہ میں آئیں گے۔ کون فائدہ میں رہا ۔ اوپر سے ’’انگریزی فیشن کا زمانہ کبھی ہوگا نہ پرانا‘‘!
بہار میں کِھلے نرم و نئےسبز چھوٹے پتوں پر، یہ الفاظ شبنم کے شفاف اور ٹھنڈے قطروں کی طرح پڑے، پڑے موتی بنتے چلے گئے۔ اور ہم مشکلات کے پہلے ہی پڑاو پر، آسان راہوں کے مسافرہوگے!
درج ذیل شعر تو ایک زندگی کی ٹھوکریں کھانے کے بعد ملا جو مذکورہ بالا، فلسفہ کی بھرپورنفی کرتا ہے۔ عبیداللہ علؔیم فرماتے ہیں:
ابھی نظر نہیں ایسی کہ دُور تک دیکھوں
ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کس اثر میں ہوں!
جو فلسفہ حیات اوپر بیان ہوا ہے وہ پورا سچ نہیں تھا! یہ درست اور پختہ سوچ نہیں تھی۔ یہ عارضی نتائج ، مختصردورانیے کا ثمر اور مفاد پرستی کا درس تھا! یہ تو شاہانِ مغلیہ اور کبوتر بازوں کی سوچ تھی کہ زندگی خود بخود آسان اور پُر آسائش رہے۔ اِسکے بالمقابل زندگی تو، چُستی، حرکت، محنت ومقابلے سے عبارت ہے۔ انگریزوں نے اپنے آرام کو تیاگ (چھوڑ) کر، مشکل راستوں کو اپنا کر، سمندورں کو چیر تے ہو ے آکر، شاہانِ مغلیہ کو گردنوں سے دبوچ کر، اپنا غلام بنا لیا۔ اور ہم یہاں شارٹ کٹ مارنے کی کوشش کر رہے تھے۔ آج اگرڈاکٹر،انجینئر ہوتے ، یا سائنس میں ایم۔ایس۔ سی کی ہوتی، تو انگریز لوگ آج بھی ترس رہے ہیں، بڑی بڑی تنخواہیں دینے کیلئے! پاکستان میں بھی ہوتے تو آج سے بہتر ہوتے! سی ۔ایس ۔ایس، سائنس سے بھی ہو جاتا تھا بلکہ آسانی سے ہو جاتا!
’’جوابِ شکوہ‘‘ میں خدا تعالیٰ کی ترجمانی کرے ہوئے، حضرتِ اقبؔال نے کیا خوب کہا ہے:
ہم تومائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کِسے، رہرَوِ منزل ہی نہیں
کوئی قابل ہوتو، ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں!
مجھے اپنی غلطیاں نہ بھولنے کی بہت اچھی عادت ہے لیکن انہیں نہ دہرانے کی بہت ضروری عادت، بالکل بھی نہیں! سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے، اپنے کئی بڑوں کیطرح ’’سواد ‘‘ لینے، ایک بار پھر، گرایجوایشن کیلئے، لاہور کی طرف چل پڑا۔ اس بار گورنمنٹ کالج لاہور میں ملا ہوا داخلہ، چھوڑ کر ایف ۔سی کالج کا رخ کیا۔ کیوں؟ بات بڑی سادہ تھی ۔ گورنمنٹ کالج والوں نے کہا کہ ہاسٹل میں، گرایجویشن والوں کو ڈار میٹری (یعنی ایک کمرے میں تین طلباء) ملے گی اور وہ بھی، پرانے ہاسٹل میں، کالج سے باہر! ۔ کیوبکل (الگ کمرہ) صرف ایم۔ اے والوں کیلئے ہے۔ جبکہ ایف ۔سی کالج والوں نہ صرف، انگلش لٹریچر اورسائیکولوجی میں داخلہ دیا بلکہ کیوبکل بھی الاٹ کر دیا ۔ اور جب حسبِ سابق، ایک سال کی فیس اورہاسٹل چارجز، کُل مِلا کر، مبلغ پانچ ہزار روپے سُنائی دیئے، تو ہم ایکبار پھر ٹُھس ہو گئے! فوراً اپنی اُنگلیوں کو یا د کیا ۔ (یعنی زبانی کلامی ، کھڑے کھڑے فیصلہ لیا)۔ کہ اگلے دو سالوں میں 10 ہزار فیس اور کھانا پینا اور کپڑا لتّا الگ سے! ہم اپنی عمر اور بلوغت میں، پہلے سے بھی تین سال زیادہ آگے بڑھ چکے تھے۔ حساب لگایا، کہ ہمارے پورے گھر کا سالانہ بجٹ، جس میں ہم 5 افراد پلتے بڑھتے ہیں، 10 ہزار ہے۔ اُس سے دوگنا کیسے میں اکیلا اپنے اوپرخرچ کرسکتا ہوں؟ اور وہ بھی اُدھارلیکر؟ قارئین ِاکرام ، یہ یاد رہے کہ ماہانہ ایک ہزار روپے سے زائد جو خرچ کسی بھی وجہ سے اٹھتا تھا۔ وہ یا توزمینوں سے ٹھیکے کی آمد سے پورا ہوتا تھا یا پھر اُدھار لے کر پورا کیا جاتا تھا۔ اور جب بھی کسی حصہ زمین یا پلاٹ کی فروخت ہوتی تو ہمارے حصے کی رقم کا معتدبہ حصہ ، پچھلے قرض کی ادائیگی میں صرف ہو جاتا تھا ۔ فوراً کاپی پنسل نکالی اور جمع تفریق کی اور(یعنی گہری سوچ بچارکے بعد) فیصلہ کیا کہ کرنا تو ایم ۔اے انگلش ہے۔ گرایجویشن، جہاں سے مرضی کرو، جو مرضی مضامین اختیار کرو، بس بی۔اے میں نمبر اچھے آنے چاہیئں ۔ اور یہ کام تو گھر بیٹھے، حافظ آباد میں بھی ہو سکتا ہے۔ لہذا، لاہور کے مشہور کالجوں ، انار کلیوؔں، بھاٹیوؔں، لوہارؔیوں کی سیر کرکے، واپس گھر پہنچ گئے! ۔۔۔مجھے ایک آواز آ رہی ہے! کیا آپکو بھی آرہی ہے؟ کیا ؟ کونسی؟ ’’لوٹ کے بُدھو گھر کو آئے یا کہ ’’جتھوں دی ۔۔۔ ۔۔۔ کھلوتی ‘‘! خدا کا خوف کریں اور آگے بڑھیں!
میں کِس ہوا میں اُڑوں کِس فضاء میں لہراوں
دُکھوں کے جال ہر اِک سُو بچھا گیا اِک شخص!
پلٹ سکوں ہی نہ آگے ہی بڑھ سکوں جس پر
مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اک شخص!
ریکارڈ کی درستگی کیلئے رقم کیے دیتے ہیں، کہ ہم کوئی بُدھو نہیں تھے! جو لوٹ کر گھر کو آگئے تھے۔ ہم اپنے خاندان کے محمود غزنوؔی تھے! ہنسنے کی بات نہیں، آپ خود چیک کر سکتے ہیں کہ جناب محمود غزنوؔی نے ہنددوستان پرتیرہ حملے کیے تھے اور ہر دفعہ خراج لیکر (آنے جانے کا کُل ملا کر) سات سو میل کا سفرطے کرکے واپس اپنے’’ گھر‘‘ افغانستان چلے جاتے تھے۔ یعنی جتنا لوٹ مار سے کماتے۔۔۔آنے جانے پر لگا دیتے تھے! جی جناب! اب تو ہماری تکریم کیجئے!
ہم نے تو صرف کمایا ہی کمایا تھا۔ کھویا کچھ نہیں! تین سال قبل، گورنمنٹ کالج لاہور، والوں نے ہمیں گھاس تک نہ ڈالی تھی ۔اب، بی ۔اے کے لئے، میرانام نامی، پہلی لسٹ میں ہی آگیا تھا۔ اِسی طرح ہم نے انگریزوں کے بنائے ہوئے، گورنمنٹ کالج اور’’فارمین کرسچئین ‘‘کالج میں دو دفعہ، داخلہ نہ لیکر، اُنہیں جو اذیت دی، اُس سےکم از کم، آخری شہنشاہ ِہند، مرحوم بہادر شاہ ظفؔرصاحب کی بے عزّتی کا کچھ تو بدلہ لے لیاتھا! اِس بات سے تو کبھی کبھی، خود پر، محمد بن قاسم ثانی کا گماں بھی ہوتا ہے! اب بولتے کیوں نہیں ہو؟ کیوں چُپ لگ گئی ہے جناب کو؟ ۔۔۔ جے ہو! اللہ دتہ صاحب کی، جے!
پھر بھی، کچھ ڈیھیٹ صفت لوگوں کی نظر میں، ہماری کیا عزت رہ گئی ہو گی؟ اس کا تو معلوم نہیں، البتہ، حافظ آباد کالج میں، ہماری شان پہلے سے بھی بڑھ گئی تھی۔ ہم کالج میں، سب سے زیادہ نمبر لینے والے طالبعلم تھے، الحمد للہ علیٰ ذالک! ۔اس دوران، کالج میں کچھ تبدیلیاں بھی واقع ہو چکی تھیں۔ مثلاً پرفیسرعطاء اللہ باجوؔہ صاحب، پرنسپل بن چکے تھے۔ دوسرے، قبل ازیں، ہم چونکہ سارا وقت سائنس بلاک میں رہے تھے، لہذا، آرٹس یا ادبیات سے کوئی تعلق نہ تھا۔ آرٹس گروپ کا سٹاف زیادہ، سائنس کے مقابلہ میں سینئر اورتمام تر، مقامی افراد پر مشتمل تھا۔ گرایجویشن میں ہمارے پاس تاریخ، پولیٹیکل سائنس، اسلامیات، فارسی اور اکنامکس کے محدود اوراختیاری آپشنز تھے۔ جبکہ انگریزی، اسلامیات، مطالعہ پاکستان لازمی گروپ میں شامل تھے۔ ایف۔ایس ۔سی والا گروپ ٹوٹ چکا تھا۔ کامران ، احمد عثمانی ۔۔۔۔۔وغیرہ نے گوجرانوالہ کالج میں ، بی۔ ایس۔ سی میں داخلہ لے لیا تھا۔ جبکہ کچھ میرے ساتھ تھے اورکچھ پڑہائی چھوڑ کر کام کاج پر لگ گئے تھے۔ میں نے تاریخ اور اسلامیات اختیاری کے دو بڑے مضامین اور فارسی بطوراضافی مضمون لے لیا تھا۔
اسسٹنٹ پروفیسر، جناب عاشق مسیح صاحب
تھرڈ ائیرمیں، ہمیں انگریزی پڑھاتے تھے۔ چھوٹا قد، بے شمار انرجی اور حد سے زیادہ خوداعتمادی! اپنے آپکو دلدار پرویز بھؔٹی سمجھتے تھے۔ کئی سال تک اپنے گاؤں (وچھوکی ) سے سائیکل پر کالج آتے تھے، پھر موٹرسائیکل اور بعد میں کار بھی لے لی تھی ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں، مسیحی برادری سے، ہر سطح پر، جو امتیازی سلوک روا رکھا گیا تھا۔ آپ کی طبیعت پر اُسکا رتی بھراثر نہیں تھا۔ یہ بہت بڑی اورانتہائی مثبت بات تھی ۔ اِس کا سارا کریڈٹ آپکو ہی جاتا تھا۔ انگریزی کا جو ڈنکہ ہمارے معاشرے میں بجتا تھا، آپ نے اُسی کو اپنی طاقت بنالیا تھا اور سب لوگوں کے سامنے اپنا مقام، اپنے گاؤں یا مسلک کی بجائے، اپنی تعلیم سے منوایا۔ میں آپ سے ٹیویشن کیلئے پروٹیسٹنٹ (نئےاور ترقی پسند) چرچ میں بھی جاتا رہا۔ آپکو ہمارے انگریزی نصاب پرعبورحاصل تھا۔ آپ قطب الدین وؔٹو کے بعد آئے تھے اورموصوف کے سارے بد اثرات مٹا دئیے تھے۔
پروفیسرمحمد صادق بٹ صاحب
آپ نے فورتھ ائیرمیں، ہمیں انگریزی پڑھائی! آپ ایک نابغہ روزگار انسان اوراُستاد تھے۔ انگریزی زبان و ادب اور طلباء کی نبض پر آپکا ہا تھ تھا۔ میرے آج تک کے بہترین استاد ہونے کا شرف بھی، آپ ہی کو حاصل ہے۔ نفیس لباس لیکن بے نفس وجود! اعلیٰ اخلاق، شُستہ زبان، اردو، فارسی، اورانگریزی الفاظ کے مادوں، اُنکے مخارج اور استعمال کا تقابلی جائزہ، ہم نے آپ سے ہی سیکھا۔ حضرت مسیحِ موعود پر ایمان لائے بغیر، آپکے الہام ’’العربی، اُم الِسنۃَ ‘‘ کہ عربی تمام زبانوں کی ماں ہے، کے قائل تھے۔ برداشت، روا داری، رویئے، اور سماج کا باہمی تعلق اور اُسکا عملی نمونہ، آپکی ذات میں ہر دم جھلکتا تھا، کاش !کبھی اور وقت ملا ہوتا! کچھ اور سیکھا ہوتا! شائد ہم بھی کچھ بَن بُن جاتے!
پروفیسرمحمد اشرف صاحب
وائس پرنسپل اور کالج کے ’’باجی راؤ مستانی‘‘، مرہٹہ سردار! آپ انتظامی و دفتری امور کے گرُو تھے۔ تمام پرنسپلز، آپکے رہینِ منت تھے۔ ونیکے تارڑ کے متمول، آڑھتی گھرانے سے تعلق اورصوفی منش انسان تھے۔ پنجاب کے نامور صوفیاء سے اعتقاد کے علاوہ، کسی حاضراورغیرمعروف دیہاتی، صوفی سے بیعت بھی تھے۔ گزشتہ تین دھایئوں سے تاریخ اور پولیٹیکل سائنس پڑھا رہے تھے۔ کلاس میں شہری لڑکے 3/4 ہی تھے ۔باقی 8/10 دیہاتی تھے۔ لہذا، آپ نے، تاریخ بھی، اپنی محبوب مادری زبان اور لہجے، پنجابی میں ہی پڑھا دی۔ انگریزی زبان میں، موصوف نے ہمیں ایک بھی عُنوان یا ٹرمنالوجی نہ بتائی، جسکا ہمیں، یونیورسٹی جا کر بہت نقصان ہوا۔
پرانے زمانے سے، آ پکی ایک چھیڑ ’’مرہٹہ‘‘ کے نام سے بنی ہوئی تھی ۔ ایک روز، شیخ مصطفیٰ نے کلاس میں، اس بارہ میں تفنناً پوچھ لیا، تو آپ اپنے آپے سے باہر ہو گئے اورسب کی ماں، بہن کو ایک کردیا۔۔۔آپ، شائد واحد استاد تھے، جن سے دوسال پڑھنے اورآپکی کلاس میں ٹاپر رہ کر بھی، آپکو مجھ سے کوئی خاص تعلق یا اُنس پیدا نہیں ہو سکا۔ اُسکی وجہ آپکا اپنا عقیدہ تھا۔ آپ تحریک ِ ختم نبوت کے دیرینہ کارکن تھے۔ بعض الفاظ اورموضوعات پر آپ جذبات میں آجاتے تھے، جیسا کہ غازؔی علم الدین شہید، عطا اللہ شاہ بخارؔی، شورش کاشمیرؔی وغیرہ! تاریخ کے پروفیسرہوکر بھی، احمدیت سے متعلق غلط حقائق اورمعلومات بہم پہنچاتے تھے ۔بہرحال، 8 برس بعد جب میں ڈیپوٹیشن پربطور لیکچرار کالج آیا تو آپ، اس دوران وفات پا چکے تھے۔
اسسٹنٹ پروفیسر حافظ عبدالرحمان صاحب
آپ ہمیں اسلامیات اختیاری پڑھاتے تھے۔ پرفیسرمحمد فیروز صاحب صدرِشعبہ، محمدایوب طاؔہر صاحب اور طالب حسین صاحب لیکچرار تھے۔ آپ قوی الجثہ، درازقد ، بلند آواز اور نڈر قسم کے انسان تھے۔ قریبی موضع سندھواں تارؔڑ سے تعلق تھا۔ خود بھی تارؔڑ خاندان سے تعلق تھا۔ اچھا اوراَچھوُتا لباس پہنتے تھے۔ آپ کا لج کے ’’تھانیدار‘‘ تھے۔ جب کبھی دیہاتی یا سیاسی طلباء آپے سے باہر ہو جاتے، سارے اساتذہ آپکی قیادت میں ہی باہر نکلتے۔ پرانے تجربہ کار لوگوں کیطرح، آپکو قریبی دیہات کے تما م سرکردہ احباب کا علم تھا۔ یہ آپکا طریقہ واردات، کالج انتظامیہ کیلئے بہت سود مند تھا۔ ہرشرپسند طالبعلم، آپکے دیو ہیکل وجود، سفید، سُچی اور لمبی داڑھی کیوجہ سے، پہلے، آپکی بات سننے پر مجبور ہو جاتا۔ دوسرا، سوال آپ اُس سے یہ پوچھتے، ’’ کِتھوں دا ایں؟ پنڈ دا ناں تے دس مر!‘‘! گاؤں کا نام سامنے آنے پر، اُس گاؤں کے چوہدری، سرغنہ، یا کسی بدقماش کا نام لیکر، کہتے، ’’پرنسپل صاب‘‘، اونہوں فون مِلا و ٔو جی ! ’’ایندا تے مَیں ہونے، ڈنگ کڈدا واں‘‘! باغی طالبعلم کو اپنے اور اپنے خاندان کے لالے پڑ جاتے تھے! آپ اُسکو گریبان سے پکڑ کر دفتر لے آتے۔۔۔اور وہ بیچارہ ٹُھس اور معافی کا طلبگار ہو جاتا! ایسا کئی بار ہوا۔ پھلبہری کے(غیرموذی) مرض کا شکار تھے۔ مخالف لوگ آپکو’’ِچتری مِتری‘‘ بھی پکارتے تھے۔
آپ کئی سال، نیشنلائزڈ تعلیم الاسلام کالج، ربوہ میں پڑھانے کے بعد، حافظ آباد کالج میں ٹرانسفر ہوئے تھے۔ احمدیت سے متعلق اچھی معلومات لیکن اندھی مخالفت رکھتے تھے۔ جماعت اور ربوہ کے ذِکر کا کوئی موقع، ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے۔ ایسے ہی ایک دو مو اقع پر مجھے کلاس بھی چھوڑنا پڑی۔ لیکن شدید مذہبی اختلاف کے باوجود آپ میرے محسن استاد ہیں۔ آپ سے ہم نے، دو ڈھائی پارے کے قریب، سورہ بقرہ، سورہ آلِ عمران، سورہ النساء اور سورہ الحجرات کا ترجمہ قرآن اور تفسیر پڑھی ۔ آپ کا اسلوب بڑا شاندار اور جاندار تھا۔ دوسروں کا تو علم نہیں، لیکن آپ جب بولتے، تو ترجمہ میرے دل پررقم ہوجاتا تھا۔ اِس اعلیٰ انداز سے آپ نے پڑھایا کہ الحمدللہ ! میں کسی بھی آیت کریمہ کا عمومی مفہوم بیان کرسکتا ہوں۔ جماعت احمدیہ کے سوا، ہرعقیدہ اسلام میں معتدل تھے۔
تھرڈ ائیرمیں، کالج کے پہلے امتحان کا نتیجہ دے رہے تھے۔ میرا رولنمبر 96 تھا۔ 104 کی تعداد تھی ۔ (اپنی سہولت کیلئے، اسلامیات اختیاری کا ایک ہی سیکشن بنوا رکھا تھا)۔ میرا رولنمبر چھوڑ گئے اور باقی سارے لوگوں کی جوابی کاپیاں، بڑے جلالی انداز میں، اُنکی طرف پھینکتے جارہے تھے۔ باوجود اِسکے کہ یہ اسلامیات کے پرچے تھے اور متبرک تھے۔ لیکن آپ کسی اور ہی موڈ میں تھے! میرا موڈ بھی خراب ہو رہا تھا۔ کیونکہ لوگوں کے 100 میں سے 70 اور 80 تک نمبر آرہے ہیں اور میرا پرچہ بھی بہت اچھا ہوا تھا، لیکن میرا نام ہی نہیں لیا! اِدھر پرچے ختم ہوئے، اُدھر میں اٹھنے ہی والا تھا، تو بڑے جلالی انداز میں بولے! شرم آنی چاہئے تم سب کو، ایک غیر مسلم لڑکا اسلامیات میں اوّل آگیا ہے! میرا پرچہ، میری طرف پھینک کر، کلاس سے ہی نکل گئے۔ شہری لڑکوں کو توعلم تھا ہی لیکن دیہاتی لڑکوں کو اُس دن علم ہوا کہ میں احمدی ہوں۔ خوشی سے زیادہ، یہ میرے لئے خوف کا باعث ہو گیا تھا ۔ خوف کی یہ کیفیت بہت تکلیف دہ تھی ۔ لہذا، میں بھی فوراً کلاس سے نکل گیا اور پھر اگلے دن کلاس میں نہیں گیا۔ میرے 89یا 90 نمبر تھے۔
سورہ بقرہ، سورہ آلِ عمران، سورہ النساء تینوں ہی بڑی جامع سورتیں ہیں اور دینِ ِاسلام کی اساس! عبادات، قوانین اورفقہی مسائل سے بھر پور! اُوپر سے، حضرت عیسی ؑ اور حضرت مریم ؑ کا مفصل ذکربھی انہی سورتوں میں آتا ہے۔ لہذا، آپ، اسلام اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ؑ کا تقابلی جائزہ بھر پور انداز میں پیش کرتے۔ گو، آپکا طریق انتہائی نامناسب، قابل مذمت اور قابلِ گرفت تھا، لیکن میں آپکا ممنون بھی ہوں کہ آپ نے ایک دو مرتبہ، پہلے ہی کلاس میں اعلان کر دیا کہ کل ہم ’’مرزائیت کا پوسٹ مارٹم‘‘ کریں گے، نعوذ باللہ! لہذا، میں نے وہ کلاسیں چھوڑ دیں ۔ لیکن بفضل تعالیٰ ، میں خیریت سے اور کامیابی سے اِس مرحلے سے گزرگیا۔ اور فائنل امتحان میں بھی، اسلامیات میں، پورے کالج میں ٹاپ کیا، الحمدللہ!
8 برس بعد میں جب میں ڈیپوٹیشن پر کالج آیا ۔ بہت تپاک سے ملے اور ہرایک کو بتاتے پھرتے کہ یہ میرا ہونہار شاگرد ہے! اُنکو میرا، احمدی ہونا، دماغ سے ذرا، اوجھل ہو گیا تھا۔ جبکہ مجھے یقین تھا کہ ایک دو روز میں ہی، ان کو یاد آ جائے گا اوریہ اپنی اوقات پر آجائینگے! اور یہی ہوا، اور آپکی ہی وجہ سے میرا یہاں مستقل تبادلہ نہ ہو سکا۔ آپ میری جگہ، آنیوالے شہباز بھٹیؔ کے سب سے بڑے سپورٹر تھے۔ یہ بات مجھے، اس وقت کے پرنسپل سید ساجدحسین ترمذؔی صاحب نے خود بتائی تھی۔
بی ۔اے کے یہ دوسال، بہت خوشی خوشی گزر گئے اور جون جولائی 1990ء میں یونیورسٹی کے سالانہ امتحان آگئے۔ سارے پرچے اچھے ہو گئے۔ اگست میں نتائج آگئے۔ بفضلِ تعالیٰ، میری کالج میں، ہائی فسٹ ڈویژن اورکالج میں دوسری پوزیشن آئی! اوراِس بار، بفضلِ تعالیٰ، مبلغ دس ہزار روپے، وظیفے کے بھی حقدار ٹہرے، جو اگلے سال، ایم۔اے کی تعلیم کے دوران، قسط وار ملا۔ الحمد للہِ علیٰ ذالک!
وطنِ عزیز میں، کئی دہائیوں سے، ایک عجب دستور رائج تھا کہ گرایجوایشن کرنے کے بعد اور ایم ۔اے کے داخلہ کے دوران، ایک سال کا گیپ تھا۔ اس کی کئی وجوہات تھیں، جیسے یونیورسٹیوں اورپوسٹ گرایجوائٹ کالجزکی کمی اوراِن میں دستیاب کورسز اور نشستوں کی کمی! اِس وجہ سے یہ گیپ، ایک ٹھوس حقیقت اور مستقل ٹرم بن گیا تھا۔ یعنی گیپ ایئر! یہ بہت غلط اور نقصان دہ بات تھی۔ طلباء کی زندگی کا یہ ایک سال، عموماً ضائع ہی ہو جاتا تھا۔ لیکن ہم نے اِس میں بڑے بڑے کا م کئے! وہ کیا تھے؟ جڑے رہیئے ہمارے ساتھ ! ملتے ہیں، ایک بریک کے بعد!
ویسے تو، گرایجوایشن، اپنے آپ میں، بذاتِ خود، کرنے کی ایک بڑی چیزہوتی ہے، لیکن ہم نے، اِس میں بھی دو یادگار کام کرلئے تھے!
دسمبر 1989ء میں، محمود اورمیں، پہلی مرتبہ ایک نجی، بین الاقوامی دورہ پر، ملک سے باہر ’’تشریف‘‘ لے گئے۔ یہ ہماری زندگی کا توایک یادگاراقدام تھا ہی، لیکن اِسکا باعث، جماعتِ احمدیہ عالمگیر کی صد سالہ تقریبات کے موقع پر، ہونیوالا وہ تاریخی و مرکزی جلسہ سالا نہ تھا، جو قادیان دارلا مان، بھارت میں ہو رہا تھا۔ اِس عظیم روحانی سفر کی رُوداد میں نے ایک الگ مضمون میں بیان کردی تھی، جو بدقسمتی سے، اب ناپید ہے۔ دیارِمسیح ؑ میں واقعی بہت سُکوں، راحت، اور اماں پائی! مزاراتِ مقدسہ حضرت بانی سلسلہ عالیہؑ اور آپکے اقربا و رُفقاءؓ پربھی لمبی دعاؤں کو توفیق پائی۔ اِسی طرح، بیتُ الدّعا میں، راتوں کو زاری کا موقعہ بھی ہاتھ آیا، الحمدللہ! حضرت میرزا وسیم احمد صاحب مرحوم ومغفور کی شفقتوں اور دلداریوں سے بھی فیضاب ہوئے۔ اور سب سے بڑھ کر، چچا بشیراحمد مرحوم و مغفور (درویؔش ِقادیان)کے سارے گھرانے سے بہت زیادہ شفقت، محبت اور احترام پایا۔ آپ سب نے ہمارا بہت خیال رکھا اور عزت افزائی کی۔ اللہ تعالیٰ، اِن سب کو بہترین جزائے خیرعطاء فرمائے، آمین۔ چچی مبارکہ بیگم صاحبہ مرحومہ، محترم بھائی جان منیر احمد صاحب حافظ آباؔدی اور بھائی جان نصیر احمد صاحب حافظ آبادؔی نے فیملی سمیت، ودیگرعزواقارب نے بھی ہماری بہت آؤ بھگت کی ۔ بھائی جان وکیل المال اوّل یا ناظرامورِعامہ تھے۔ اپنی بے حد مصروفیت سے بھی وقت نکال کر، ہمیں مقدس مقامات دکھانے اور سیر کرانے لے جاتے۔ لنگر کے کھانے کے علاوہ بھی، کچھ اشیاء گھر میں ہمارے لئے سپیشل تیار کروائی جاتیں۔ مجھے یاد ہے کہ قادیان کے ایک معزز سیاسی سکھ گھرانے میں بھی لیکر گئے، جن کا خاندان ِحضرت مسیح موعود ؑسے گہری عقیدت واحترام کا رشتہ تھا۔ وہ دو سکھ بھائی بہت ہی خوبصورت اورامیر لوگ تھے۔ اُنکی بیٹھک میں اُنہی کیطرح خوبصورت، دل موہ لینے والی اورقیمتی نوادرات بھی سجی ہو ئی تھیں۔ ہمارا یہ دورہ بھی دُعاوں، محبتوں، کچھ حسرتوں اور بہت سی مہکتی یادوں سے سجا ہو ا ہے۔ اللہ تعالیٰ جلد ایسے سامان پیدا فرمائے کہ دونوں ملکوں میں امن اور شانتی بن جائے اوردونوں اطراف کے زائرین کوآسانیاں میسرآ جائیں، آمین۔
پہلا فوجی معاشقہ: 1990
دوسرےمارچ 1990ء میں، پاکستان ملٹری اکیڈیمی کی ’’دعوت‘‘ پر، چار روزہ، انٹرسروسزسلیکشن بورڈ، کے کوہاٹ سنٹر، کا دورہ! یہ سارا پروگرام، دراصل ستمبر 1989ء سے شروع تھا۔ پہلے لاہور میں، فورٹریس سٹیڈیم میں، کچھ ’’ملاقاتیں‘‘ یعنی علمی، دماغی، اورحسابی و کتابی ٹیسٹ ہوئے۔ جن میں سے کامیابی کے بعد، راہوالی کینٹ، گوجرانوالہ میں، کمبائنڈ ملڑی ہسپتال میں، میڈیکل ٹیسٹ ہوا۔ وہاں سے کامیابی پر، اعلیٰ فوجی حکا م کو’’ہوش‘‘آیا کہ اگریہ موصوف، اِسی طرح ہر امتحان میں سُرخرو ہوتے رہے، تو کہیں، ہمارے بچوں کا حق ہی نہ مارجائے! لہذا، انہوں مل کر ایک بڑا سا بورڈ تشکیل دے دیا، جس کی سربراہی، ایک ایئرکموڈورصاحب کو دے دی، جو برّی فوج میں ایک بریگیڈیررینک کا آفیسر ہوتا ہے۔ تاکہ سارے مل کر راقم کا امتحان لیں اور جیسا وہ چاہتے تھے، ویسا ہی کرلیں۔ اِس ’’سازش‘‘ کا ذِکر، آپ کو کسی اور جگہ نہیں ملے گا کیونکہ اِس کا سرے سے وجود ہی نہ تھا! ۔۔۔۔۔۔ ہا ہا ہا
اُنہوں نے بڑے پیار، احترام اورعزت سے ہمیں کوہاٹ کے لاری اڈّہ سے، فوجی ویگن میں، آرمی میس میں پہنچایا۔ 5 لڑکوں پر، ایک اردلی دیا، جو سچ مچ ہمارے، کپڑے، جوتے وغیرہ تیار کرتا تھا اور ہر وقت کمرے کے باہر سٹول پر بیٹھا رہتا تھا۔ پانچ وقت کی نمازوں کے علاوہ، دن میں پانچ وقت ہی، ہم میس میں جاتے تھے۔ ناشتہ صبح سات بجے، گیارہ بجے بریک کی چائے، دوپہر کا کھانا، پھر شام کی چائے اور پھر رات کا کھانا۔ روزانہ رات کھانے کے بعد، گانے بجانے، لطائف اورکچھ بھی دلچسپ پرفارمنس دینے کیلئے، ’’ دربار‘‘ لگا یا جاتا۔
تمام علمی وعملی ٹیسٹ اورانٹر ویوز کا تجربہ، بہت اچھا رہا۔ کوہاٹ کے خوبصورت موسم اور اکیڈیمی کے بھرپور ماحول میں یہ چار دن، بہت سہانے اور یاد گار گز رے! پہلے فوج میں جانے کا صرف شوق تھا ۔ یہاں آکر، وہ شوق، خواہش اوردعا میں بدل گیا۔ لیکن، بے سود! کیونکہ قبولیت کا وقت گزرچُکا تھا۔
ہم نے، یہاں پر تعینات اپنے مربی سلسلہ عالیہ جناب ارشاد احمد خان صاحب کا پتہ لے رکھا تھا۔ لہذا، فوجی مہمات سر کرنے کے بعد، اُن سے ملنے کا قصد کیا ۔ فون کیا تو آپ، لاری اڈے پر، اپنی سائیکل پرملنے آگئے۔ مسجد و مشن ہاؤس گئے۔ سامان رکھا۔ اور وہاں سے کوہاٹ ہی میں تعینات، اپنے اکلوتے احمدی (حاضر سروس) کرنل محترم عبدالعزیز خان صاحب کی رہائش گاہ پر، اُن سے ملنے چلےگئے۔ آپ ریٹائرمنٹ کے قریب تھے۔ ہمیں بڑے پیار اور محبت سے وصول پایا۔ لان میں ہی چائے وغیرہ پلائی ۔ پہلے بڑے پیار سے میرا تعارف لیا اور پھر بڑے حوصلے سے، اکیڈ می میں چار روزہ ، میری کارگزاری کی رپورٹ سُنی، اور پھر بڑی تکلیف سے، مجھے یوں ’’سُنائیں‘‘:
آپ نے فرمایا: نمبرایک، تمھارا رزلٹ تیار ہوکر، پوسٹ ہو چکا ہوگا، تمھارے گھر پہنچنے تک وہ بھی پہنچ جائے گا۔ لہذا، اب کچھ بھی ممکن نہیں۔
نمبردو: ایسے معاملات میں پہلے ملتے ہیں ۔ معلومات لیتے اور گُر کی باتیں سیکھتے ہیں، اب کیا فائدہ ملنے کا؟
نمبر تین: تمھاری جو صحت ہے، وہ تمھارے جوش و جذبے کا ساتھ نہیں دے رہی، دونوں کو مزید بہتر بنائیں اوراگلی دفعہ پھر کوشش کرئیں۔ والسّلام
یعنی ’’فیصلہ‘‘ توآپ نے وہیں سنا دیا تھا، لیکن ہم کہاں ہارماننے والے تھے! کُھلی آنکھوں میں خواب سجائے، گھر واپس آگئے۔ اگلے روز، ڈاکیا انکل، رجسٹری لے آئے۔ فوج کیطرف سے جواب، تین طرح کا آتا ہے، یہ افسروں نے ہی ہمیں بتایا تھا :
قبول ہے، یا
قبول نہیں ہے، یا پھر
ُُدُھتکارا ہوا‘‘ اورراندۂ درگاہ!
بفضل تعالیٰ، ہم اگر قبول نہیں تھے تو دُھتکارے ہوئے بھی نہیں تھے۔ فقط قبول نہ کئے گئے تھے! اوریہی نتیجہ ہے، آج تک کی زندگانی کا!
زرا ٹہریئے! جلد بازی میں ہمارے خلاف فیصلہ نہ کیجئے! ’’معرفت ‘‘ کی جو باتیں، ہمیں محترم کرنل صاحب نے ’’سُنائیں‘‘ تھیں اور آپ سارے اُس پر، بڑی ’’واہ‘‘ واہ کررہے تھے۔ وہ اُنکو الہام نہیں ہو ئی تھیں۔ بلکہ ہم نے ہی اُنکو بتلائی تھیں۔ ہمیں اپنی کوتاہیاں اورغلطیاں صاف صاف نظرآر ہی تھیں ۔ ہمارے دماغ میں بھی وہی نتیجہ تھا، جو کرنل صاحب کے 60 سالہ دماغ میں تھا۔ اِسی لیئے تو گئے تھے، اُن سے مدد لینے! البتہ، اکیڈیمی جانے سے قبل، اُن سے یا کسی بھی متعلقہ آدمی سے ملنا اورمعلومات کا تبادلہ بہت ضروری امر تھا ۔اُسکی وجوہات، درج ذیل تھیں:
اوّل، تو ہماری کوئی منزل نہیں تھی ۔ ہم کبھی بھی، اپنے مقصد اور مزاج میں سنجیدہ ہوسکے !
ہمیں اِس بات پر اتنا افسوس نہیں ہے کہ ہم کامیاب نہیں ہو سکے۔ افسوس اِس بات پر ہے جو ہمارے اردگرد سنجیدہ تھے وہ کہاں کامیاب ہوئے؟ لکڑی کےایک پرانے، بڑے ’’ٹال ‘‘ کیطرح، درجنوں نئے پرانے، پتلے موٹے اور چھوٹے بڑے درخت (لوگ)، وہیں پڑے نظر آتے ہیں، جہاں ہم بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں۔ اگر ہم نے، ہر مرتبہ، کچھ نیا اور منفرد کرنے کی کوشش کی تو کیا غلط کیا؟ بولئے تو!
برسبیل ِتذکرہ، بیان کردوں، میں نے اِن چار دنوں میں، بہت کچھ سیکھا۔ مشاہدہ معائنہ، منصوبہ بندی، اور بہتر قائدانہ صلاحیتوں کے اوصاف وغیرہ!
رہا انٹرویو کا سوال، فوج میں انٹرویو کے دوران، احمدیت کے بارہ میں، میجر صاحب، نے بڑے اہم سوالات مجھ سے کئے تھے۔ مثلاً اُس نے پو چھا تھا کہ آپ مرزا غلام احمد صاحب کو کیا سمجھتے ہیں؟ دوسرے حضرت عیسی ؑ کی قبر کہاں واقع ہے؟ کیا تم مجھے وہ روٹ بتا سکتے ہو جس پر چل کر آپ ؑ فلسطین سے کشمیر پہنچے تھے؟ اُس نے میرے پورے جوابات بڑی تسلی سے سنے تھے!
میری ناکامی، میری اپنی خامیوں کی وجہ سے تھی ناکہ احمدی ہونیکی وجہ سے! مثلاً 10 منٹ میں، آپ نے 10 جسمانی کرتب کرکے دکھانے تھے، جیسے، 500 میٹر دوڑ، لمبی چھلانگ لگا نا، ڈرم میں سے گز ر کر، رسّے کی مدد سے لپک کر تالاب کے دوسری طرف جانا وغیرہ وغیرہ۔ جب یہ آزمائش ختم ہوئی، تو میری سانس اکھڑرہی تھی اور میں بے ہوشی کے قریب تھا۔ فنش لائن پر آ کرگر گیا۔ انہوں نے پانی کے چھنیٹے مار کر اور پانی پلا کر ہوش دلایا تھا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ ایسے امیدوار ہی تلاش کررہے تھے؟
میری اِس جسمانی کمزوری کے باوجود، میرے دوسرے( علمی) ٹیسٹوں میں کامیابی کی وجہ سے انہوں نے مجھے ’’ریجیکٹ‘‘ نہیں کیا تھا ۔ ریجیکٹڈ، دوبارہ اپلائی نہیں کرسکتے تھے۔ انہوں نے ’’ ناقبول ‘‘ کیا تھا، جسکا مطلب یہ تھا کہ بہتری کے بعد، میں دوبارہ اپلائی کر سکتا تھا ۔
نہ ہم میں سے کوئی باقاعدہ سیر کرتا تھا؟ نہ ہی باقاعدگی سے کوئی کھیل کھیلتا تھا؟ ہم تو گھر کے پالتو، بولنے، لکھنے اور پڑھنے والے طوطے تھے۔اِسی طرح، کچھ اور باتیں بھی، جو مزیدار ’’کوتاہیوں ‘‘کے ذُمرے میں آتی تھیں۔ مثلاً ہمیں سینئر رنگروٹوں سے پتہ چلا تھا کہ جب آپکا انٹرویو ہوتو، آپکو، اُس وقت، درست ٹائم کا پتہ ہو نا چاہیے ، دروازے پر لگے تین مختلف بلبوں (سرخ، سبز، اور سفید) میں سے جو روشن ہو، اُسکا پتہ ہو نا چاہئے، افسرنے دروازہ کس ہاتھ سے کھولا اوراُس لمحے، اُسکے ہاتھ میں کیا تھا، کمرے میں کیا کیا موجود تھا، وغیر وغیرہ بہت ساری ایسی باتیں!
ہمیں، مجلس اطفال الاحمدیہ و خدام الاحمدیہ میں ’’مشاہدہ معائنہ‘‘کے مقابلوں کی خاص تربیت حاصل تھی ۔ چنانچہ، بُلاواآنے پر، چاق و چوبند، کمرے میں داخل ہوئے۔ ہر طرف نظر دوڑائی، اور انٹر ویو شروع ہوگیا۔ آدھے گھنٹے کا انٹرویو ہوتا تھا۔ اکثر نصابی اور جنرل نالج کے سوالوں کے جواب درست تھے۔ آخر میں میجر صاحب کہتے ہیں کہ دو سیکنڈ میں، کمرے پر ایک نظردوڑاؤ اور بتاو ٔکہ کیا کیا دیکھا ہے؟ میں نے بڑے اعتماد سے دُرست دُرست بتا دیا ۔ بولے،ویل ڈن ! اچھا کلاک کا تم نے بتا یا ہے۔ بتاو ٔکہ وقت کیا تھا اُس پر؟ میں نے، فوراً اصل وقت میں آدھا گھنٹہ ملِا کر وقت بتا دیا، جو ساڑھے گیارہ بنتے تھے۔بولے ! ویری گڈ! گھڑی کے ہجے یعنی اُسکے نمبر کیسے تھے انگلش یا رومن؟ اصل میں، اتنے تھوڑے وقت میں، آپ صرف اشیاء ہی دیکھ سکتے تھے، اُنکے اندر نہیں جھانک سکتے تھے! لہذا، میں نے تُکےّ سے جواب دیا، انگلش ! وہ مسکراے! اور بولے ، ذرا، پچھے مُڑ کر دیکھو! مُڑ کر دیکھا تو اس پر غلط وقت 4 بج رہے تھے اور ڈیجٹس رومن تھے!
اصل میں یہ کوئی اتنی بڑی غلطی نہیں تھی۔ یہ بنیادی سوال کہ کون کون سی اشیاء ہیں، کے دُرست جواب دینے کے بعد، بقول معروف شعری محاورہ:
مکتب ِعشق کا دستور نرالہ دیکھا،
اُسکو چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا !
کی طرح، ایک اضافی سوال داغ دیا گیا تھا۔ جو صرف اُنہیں لوگوں سے پو چھے جاتے ہیں، جن کے اکثر جواب درست ہوں۔ تاکہ وہ غلطی کریں۔ چاہے چھوٹی ہی سہی، غلطی تو تھی!
ایک اور چھوٹی سے بات! ایک موقعہ پر، آپکو کمانڈر بنایا جاتا ہے 8/10 بندوں پر اور جنگ کی منصوبہ بندی کرنے کو کہا جاتا ہے۔ ہدایت یہ تھی، ایک بڑی سی میز، جس پر ، پہاڑ، دریا، اور دوسری اشیاء کے ماڈلز بنے ہو ئے ہو تے ہیں، میز کو ہاتھ لگانا فاول (غلطی ) تھا ۔ اُس سے ، ذرا ہٹ کر ، کمانڈر کیطرح، گرجدار آواز، میں ہدایات دینا ہو تی ہیں ۔
لیکن میرے سمیت اکثر لڑکے، اپنی اپنی باری پر، شروع تو گرجدار آواز میں کر تے لیکن بعد میں ’’مریل‘‘ آواز میں آجاتے۔ اور بار بار میز کے قریب ہو جاتے اور اُسکو ٹچ کرتے۔ جیسے ہی ہم میں سے کوئی میز کو ٹچ کرتا، میجر صاحب گنتے جاتے ، ایک ، دو ، تین ۔۔۔
تین راتوں کے دوران، غیر نصابی سرگرمیوں کیلئے ’’دربار‘‘ منعقد کیا گیا، کہا گیا کہ کوئی چیز پیش کریں، گانا، لطیفہ، ڈرامہ، ایکٹ۔۔۔یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہی نہ تھا۔ ہم ٹہرے سادہ اورشریف طبع خاندانی!
یہ چیزیں وہاں بہت معنی رکھتی تھیں۔ فوجی افسر کو ہرفن مولیٰ ہو چاہیئے تھا۔
اسی طرح کی چھوٹی بڑی غلطیوں کی وجہ سے پورے پاکستان سے ہزارہا امیدواروں میں سے ایک سو کے قریب لوگ ہی منتخب ہوتے ہیں۔اور وہ لڑکے، جن کا کسی نہ کسی طرح، ایسے فوجی ماحول سے رابطہ ہو، وہ بہرحال ہم سے بہتر کارکردگی دکھا سکتے تھے اور انہی میں سے اکثر کامیاب ہو گئے۔
میری ناکامی کی ایک وجہ شائد، یہ بھی تھی کہ میرے، سی۔ایم ۔ایچ، گوجرانوالہ کینٹ، میں میرے تفصیلی طبّی معائنے کے دوران ایک ڈینٹل سرجن ۔۔۔ صاحبہ نے میرے داندانِ مبارک کا معائنہ کرتے ہوئے، میرا ’’دل مبارک‘‘ نکال لیا تھا۔ یہ حادثہ اتنا شدید تھا کہ پورے پنجا ب میں شدید دُھند سی چھا گئی تھی۔ صرف یہی نہیں، بلکہ اُسی روز، گوجرانوالہ اورحافظ آباد کو ملانے والا ، دوآبہ رائس ملز کے پاس نہر کا پل بھی، ٹوٹ گیا تھا۔ یہ 2 جنوری 1989ء کا دن تھا۔ میں ، محمود اور بھائی جان ناصر احمد ، گوجرانوالہ سے اپنے سوزوکی کیری ڈبہ کے ذریعے، بہت مشکلات کے بعد، گھر پہنچے تھے۔ آپکو کوئی شک ہو تو اگلے روز کا اخبار نکال کر، ابھی اِس بات کی تصدیق کرسکتے ہیں!
آئی ۔ایس ۔آئی، روزِ اوّل سے ہی چاہتی تھی کہ میں فوج میں نہ جاوں! اورآپکو تو پتہ ہی ہے کہ وہ ایسا کر سکتے تھے۔۔۔ہاہاہا۔
مطالعہ گردیاں!
بڑاآدمی بننے کیلئے کتابوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔ یہ بات ہمیں بچپن میں ہی بتادی گئی تھی ۔ محمود نےتو اِس پرکُلیتہً عمل نہ کیا ۔ جسکی وجہ سے وہ بڑا آدمی نہیں بن سکا ہے۔ جبکہ میں نے اِس پر بھر پورعمل کرنے کی کوشش کی ۔۔۔ یہ الگ المیہ ہے کہ کامیا ب، میں بھی نہ ہوسکا۔ اِسکی وجہ جاننے کیلئے ، آپکو ’’لال بتی‘‘ والے لطیفے کا پتہ ہونا چاہئے۔ دراصل، میں بھوؔلے سنگھ کیطرح، ٹریفک لائٹ کی لال بتی کے بجائے، ایک ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگ گیا تھا!
اپنی ناقص دانست میں، جو دُرست راستہ ہم نے اپنایا تھا وہ بہت لمبا تھا۔ ہم نے سوچا کہ پہلے بڑے بڑے آدمیوں کی زندگی، پیش آمدہ حالات اور اُن سے نپٹنے کیلئے، جو تراکیب انہوں نے اختیار کیں تھیں، انکو دیکھتے ہیں، پھراُسی ’’طریقہ ٔواردات‘‘ کو اپنا کر، خود بھی بڑےآدمی بن جائیں گے! بدقسمتی سے، اپنے دیگر ’’دُرست فیصلوں‘‘ کی طرح یہ راستہ بھی’ درست‘ نہ تھا۔ یہ اتنا لمبا راستہ تھا کہ آج تک ختم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔
ہم سیرتِ نبوی ﷺ، سیرت صحابہ رضوان اللہ علیھم سے شروع ہوئے، حضرت مسیح موعود ؑ کےروحانی خزائین میں سے معتدبہ حصےّ، اورپسر ِموعود، حضرت مصلح موعود ؓ کی ’’انوارالعلوم‘‘ سے کئی اجزاء کے علاوہ دیگرخلفاء اور رُفقاءؓ، کی زندگیوں کے مطالعہ کیساتھ ، ساتھ، چوری چھپے، اشتیاق احمد جیسے عامیانہ لکھاری کی انسپکٹر جمشید سیریز اورعمران سیریز بھی پڑھتے رہے، تاکہ اگر دینی لحاظ سے نہ سہی تو شائد، دنیاوی لحاظ سے ہی لاٹری نکل آئے!
جب ایک عرصہ، کوئی نتیجہ نہ نکلا تو، بھائی جان ناصر احمد کے، اصلی جاسوسی رسالوں، اخبارِ جہاں کے افسانوں سے لیکر منؔٹو، اشفاق احمدؔ کے افسانے، ممتاز مفتیؔ ، قمر اجنالوؔی، بانو قدسیہ ؔکے راجہ گدھ تک کے ناول، مستنصرحسین تارؔڑ کے’’ نکلے تیری تلاش میں‘‘ سے لیکر’’خانہ بدوش‘‘ تک کے تمام سفر نامے، کرنل محمد خان کی’’ تنگ آمد وبجنگ آمد‘‘، کرنل شفیق الرحمن کی ’’حماقتیں ‘‘اور پھر ’’مزید حماقتیں‘‘ سےلیکر بریگیڈیئر محمد صدیق سالکؔ مرحوم کی فوجی مہم جوئی کی داستانوں، ’’ ہمہ یاراں دوذخ‘‘، ’’تادم ِتحریر‘‘، ’’ایمرجنسی‘‘، ’’پریشر کوکر‘‘، ’’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘‘ اور ’’سلیوٹ‘‘ تک! پطرس بخاری کے مزاحیہ مضامین سے لیکر، ڈاکٹر محمد یونس بٹ کی ’’بٹ تمیزیاں ‘‘ تک! استادِ مکرم مشتاق احمد یوسؔفی کی ’’چراغ تلے ‘‘اور ’’خاکم بدہن‘‘ تک مزاحیہ مسودّے، جنابِ نسیم حجازی کے ناولوں، شاہین، خاک اورخون، آگ کا دریا، داستان ِمجاہد، آخری چٹان اور تلوار ٹوٹ گئی تک! پروفیسر حمید اللہ صاحب، ڈاکٹر پروفیسرایس ۔ ایم ۔اکرام کی اسلامی ادوار کی مختلف ضخیم اورثقہ تحریروں تک ! حضرت علامہ اقباؔل، غلام احمد پروؔیز، واصف علی واصؔف ، سے لیکر عصر حاضر کے شمس التحریر، سلطان القلم ، جناب مختارمسعود کی ’’سفرنصیب‘‘ اور ’’آوازِدوست‘‘ تک اور عالم ِبا عمل، حضرت میرزا طاہر احمد ؒ کی فلسفۂ عدم سے ابد تک، کی جامع ترین تحریر، ’’ الہام ، عقل اور سچائی ‘‘ تک ، اردو ادب، افسانہ، ناول، تاریخ و سیاست پر، ایک کے بعد ایک کتاب پڑھتا گیا۔ مرقاۃالیقین فی حیات نورالدین، حیات ِقدسی، تحدیث ِ نعمت، ناقابل فراموش (سردار دیوان سنگھ مفتؔوں)، یادوں کی برات (جوش ملیح آباؔدی) شہاب نامہ (قدرت اللہ شہؔاب) اک مردِ خدا، سیرتِ داؔود (سید میر داود احمد) وغیرہ سمیت ، بے شمار، چھوٹی بڑی خود نوشتوں، سوانح عمریوں اور سرگزشتوں کے ایک جہان سے گزر گیا ۔۔۔لیکن بس گزر ہی گیا ۔۔۔۔رہا خالی ہاتھ!
حرفِ آخر! ۔۔۔ (حصّہ اوّل)
بڑا آدمی بنے کا شوق کسے نہیں ہوتا؟ سو، وہ ہمیں بھی تھا! ویسے یہ کوئی غلط شوق نہیں ہے! اِس ’’دشتِ شوق‘‘ کی سیاحی میں ہم نے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے! وہ آپ اوپر پڑھ آے ہیں! ہمیشہ کیطرح، ہم نے ہر کام ، سیدھے،صحیح اور قانونی طریقہ سے کرنے کی کوشش کی۔ لیکن گھی کبھی سیدھی انگلیوں سے بھی نکلتا ہے؟ بڑے غور وفکر کے بعد پتہ چلا کہ یہ جو دیہاتی لوگ اسمبلیوں اورپجارو یا پراڈو میں بیٹھے گھوم رہے ہوتے ہیں، کچھ پتہ ہے کہ اِسکا راز کیا ہے؟
دیہاتی ہونے کیوجہ سے اِنکوہم سے پہلے ہی معلوم تھا کہ گھی ہمیشہ ٹیڑھی اُنگلیوں سے نکلتا ہے، اِسی لئے یہ شروع سے ہی ٹیڑھے طریقہ کار سے، ہرکام باآسانی اور کامیابی سے کرلیتے ہیں۔ ہم رہے شہری بابو! جتنی دیرمیں، ہمیں اِس فارمولے کی سمجھ آئی، اتنی دیر میں ہم ’’بڑا آدمی‘‘ بننے کی عمر سے ہی آگے بڑھ گئے! ۔۔۔ہا ہا ہا
ہمیں کوئی کامیابی حاصل نہ ہو سکی ! اس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
سب سے بڑی اوراہم ترین بات! اللہ تعالیٰ کا فضل ہونا! اُسکے کرم کے بغیرکوئی بھی، کبھی بھی اور کسی جگہ بھی بڑا نہیں بن سکتا ! جب تک اُس ذات ِباری والاصفات کا امر اور ارادہ نہ ہو!
بیسیوں مثالیں دی جاسکتیں ہیں ۔ سب سے آسان حل سمجھنے کا یہ ہے کہ ہر بڑے آدمی کے مقابل پرایک یا کئی ولن موجود ہوتے ہیں۔ دونوں کی زندگیوں کا تقا بلی جائزہ لےلیں! جواب آسانی سے مل جائےگا۔ حسن نثار صاحب کہتے ہیں کہ ہر فلم میں ، ہیرو اور ولن، اصل میں ایک ہی خوبصورت حسینہ کو، جلد یا بدیر، حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن دونوں کی اپروچ (طریقہ واردات) اور’’ٹائمنگ ‘‘ ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ ہمارا طریقہ بھی، شائد ولن کا سا رہا ہو۔ کبھی اپروچ غلط اور کبھی ٹائمنگ!
فلم کے پردے پر، ہیرو اور ولن، تقریباً ایک سا ہی وقت گزارتے ہیں ۔ لیکن ہیرو ناظرین کے دلوں میں اور ولن نفرتوں میں جگہ پاتے ہیں۔۔
ہماری ناکامیابی کی دوسری بڑی وجہ یہ رہی کہ ہماری ساری ’’خوبیاں‘‘ تو تمام بڑے لوگوں میں پہلے سے ہی موجود تھیں۔ لیکن ہماری کچھ عدد خامیوں سے وہ بیچارے محروم رہ گئےتھے ! جس کی وجہ سے اللہ تعالٰی نے، بدلے میں اُن پر فضل کردیا ا ور ترقیات سے نواز دیا۔ وقت کی رعایت سے میں، اُنکی تفصیل میں تو نہیں جاسکتا۔ البتہ، اُن میں سے فقط ایک کا بتائے دیتا ہوں۔ مثلاً :
اپنے مقصد کا تعین اور اُسکو پانے کا مصمّم ارادہ !۔۔۔۔ ’’استقامت فوق الکرا مت ‘‘
اور محنت ایسی کہ کوئی دوسرا آپکا راستہ نہ کاٹ سکے۔
ویسے، آپکے خیال میں، ’’بڑا آدمی‘‘ کون ہوتا ہے؟۔۔۔۔ ہوں۔۔۔ہاں ۔۔۔۔او نہہ!
بڑا آدمی وہ ہو تا ہے، جس کی زندگی پر دوسرے لوگ لکھیں! ۔۔۔ میری طرح نہیں، کہ اپنی ’’آپ بیتی‘‘ خود لکھ رہا ہو اور آپ جیسےلوگ ۔۔۔پڑھ رہے ہوں! ۔۔۔ہا ہا ہا
صاحبِ مہرو وفا، ارض و سما کیوں چُپ ہے
ہم پہ تو وقت کے پہرے ہیں ، خدا کیوں چپ ہے
جاننے والےتو سب جان گئے ہوں گے علؔیمؔ
ایک مدت سے ترا ذہن رسا کیوں چُپ ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ُجہدِ مسلسل: (حصہ دوم )
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی، سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا، اِک شخص نے مجھ کو مار دیا
اِک سبز شاخ گلاب کی تھا، اِک دُنیا اپنے خواب کی تھا
وہ ایک بہار جو آئی نہیں، اُس کے لیے سب کچھ ہار دیا
تلاشِ معاش کیلئے ہماری مُہم جوئیاں:
شروع اکتوبر 1990ء میں جب بی۔اے کا نتیجہ آیا، اُس وقت میں اپنے دوست اور ہمسائے، ملک شوکت علی (شوکے) کے ساتھ، مسلم کمرشل بینک لمیٹڈ حافظ آباد میں، گڈاؤن (گودام ) کلرک کی ملازمت کررہا تھا۔ شوکت، یہ کام پچھلے کئی سالوْں سے کر رہا تھا۔ یہ 6 ماہ طوالت کی ایک عارضی نوکری تھی۔ اُسے، ہمارے ایک محلے دار اوراحمدی دوست، میرزا خلیل احمد صاحب کی وساطت سے یہ ملازمت، ملتی تھی۔ مرزا صاحب، اسی بینک کے ضلعی ہیڈ آفس، گوجرانوالہ میں، زونل آفیسر تھے۔ یہاں حافظ آباد میں، اُنکے ایک جگری دوست منیر احمد صاحب (بجلی محلہ والے) کیشٔیر /اسٹنٹ مینیجر اور منشی محمدخاں صاحب، ہمارے سیکشن کے انچارج تھے۔ تنخواہ، تقریباً 700 روپے ماہا نہ تھی جبکہ، مقامی آڑھتیوں کی طرف سے، بینک ھذا سے قرض پر لی گئی، رائس شیلرز پر پڑی، نئی و پرانی دھان (مونجی ) کی فصل کا حساب کتاب رکھنا، ہمارا کام تھا۔
صبح 9 بجے بینک میں، حاضری لگا کر ہم لوگ سائیکلوں پر، متعلقہ شیلر وں پر جاتے، وہاں کے مُنشی سے، فصل کی روزانہ، آمدورفت کا حساب لیتے، وُہیں کھیتوں سے گنّا، مولی و گاجر کھاتے، آڑھتیوں اور شیلر مالکان کی خوش قسمتیوں پر رشک کرتے، اپنی ناکامیوں پر آنسو بہاتے، اور مُستقبل کی منصوبے بندیاں کرتے۔ ملازمت کا موسم، اکتوبر سے لیکر مارچ تک ہو تا تھا، دن چھوٹے اور موسم نرم وگداز سا ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کا تو پتہ نہ چلتا تھا، تاہم دن گزر جاتا تھا۔ دوپہر، 2 بجے کے قریب بینک واپس آتے، ’’بڑے منشی‘‘ یعنی، محمدخاں صاحب کو رپورٹ دیتے اور 4 بجے چھٹی!
محمد خاں صاحب، ویسے تو ہمارے ’’افسر‘‘ تھے۔ لیکن وہ خود بینک اور میرزا صاحب کے ایک ’’ادنی ملازم‘‘ تھے۔ یہی بات، اُنکی کمزوری اور ’’ہماری طاقت ‘‘ تھی! یعنی، اُنکی افسری اور ہماری نوکری، دونوں ہی، میرزا صاحب کی مرہونِ منت تھیں۔ نیز وہ، موضع مدھریانوالہ میں، مرزا صاحب کی زمینوں کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے۔
شہر کے بڑے بڑے شیلر مالکان اوربینکوں کے قرض خواہ آڑھتیوں سے بھی ہماری ملاقات ہوتی رہتی تھی۔ کیونکہ اُن کی رپورٹیں، ہماری تصدیق سے ہی، بینک میں جمع ہوتیں تھیں۔ اکثر لوگ ہمارے جاننے والے تھے۔ ہر ایک یہی پوچھتا، کہ ڈاکٹر صاحب یہ بھی کوئی نوکری ہے کرنےکی؟ میں کہتا کہ نہیں، یہ تو بس،’’ ٹائم پاس‘‘ ہے! میں تو یونیورسٹی جا رہا ہوں اگلے سال! بات طے اور جان کی خلاصی ہو جاتی۔
اسی دوران، ایک روزسہ پہر، ہمارے ایک نوجوان ایڈہاک لیکچرار جناب محمد ارشد صاحب ابن مولوی محمد یحیی ٰ صاحب، خطیب جامع مسجد اھلحدیث پڑاو ٔوالی، سرِراہ مل گئے۔ آپ ہمیں، بی ۔اے میں مطالعہ پاکستان پڑھا چکے تھے ۔ ہم اُنکی اور وہ ہماری صلاحیتوں کے معترف ہوچکے تھے۔
آپ خود، قائد ِاعظم یونیورسٹی، اسلام آباد سے ایم۔ اے پولٹیکل سائنس کرکے آئے تھے۔ کرکٹ کے بڑے اچھے کھلاڑی تھے اور اِسی وجہ سے، ہمارے شہر کے رئیس زادوں، شیخ محمد موسیٰ اور محمد مصطفٰی کے زاتی دوست تھے۔ اُنکے گھر، جو ہماری گلی میں ہی واقع تھا، بھی آتے جاتے رہتے تھے۔ ملے اور پوچھا کہ کیا کررہے ہو آجکل؟ میں نے کہا، کچھ نہیں! انشاءاللہ، اگلے سال ایم ۔اے کا پرگرام ہے۔ بولے اِس سال کیوں نہیں؟ میں نے کہا کہ کوئی آپشن ہی نہیں!
اِس پر انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ مار کر کہا : اُف مائی گاڈ! بہت غلط ہو گیا ہے۔ بولے، یار! قائدِاعظم یونیورسٹی میں داخلہ کیلئے ’’گیپ ایئر‘‘ کی شرط نہیں ہے اورآج داخلے کی آخری تاریخ تھی! ایک سال بچ سکتا تھا تمھارا! کیا تم آج رات، پنڈی ایکسپریس پر نکل سکتے ہو؟ میں نے کہا کیوں نہیں۔ کہا دوڑو اور تیاری کرو۔ میں بھاگم بھاگ گھر آیا، اسناد اور ضروری کاغذات لئے، فوٹو کاپیاں کروائیں اور آپ کے گھر پہنچا، آپ سے تصدیق کروائی۔ آپ نے، یونیورسٹی میں اپنے ایک دوست کو فون کیا اور مجھے اُسکا پتہ اورمستقبل کے بہت سارے خواب دیکر، روانہ کردیا! کہ کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں شائد کام بن جائے! میں رات ساڑھے گیارہ بجے والی گاڑی پر روانہ ہو کر، خوابوں بھرے رت جگے کے بعد، صبح 7 بجے راولپنڈی پہنچ گیا۔ اسٹیشن پر محترمہ ’’سردی صاحبہ‘‘ استقبال کیلئے پہلے سے موجود تھیں۔ وہ خود یہاں ازل سے رہائش پزیر ہیں۔ یعنی، آپکا میکہ اورسسرال، دونوں یہیں مری اور شمالی علاقہ جات میں مقیم ہیں۔
حسب ِمعمول ریلوے سٹیشن کے باہر واقع، متعدد گرم حماموں میں سے ایک پر تیار ہو کر، اور کئی عدد ویگنیں، بدل کر 10 بجے یونیورسٹی پہنچ گیا۔
سبحان اللہ! اسلام آباد کے نواحی، قدرتی جنگل میں واقع ’’منگل‘‘ کیصورت، خوبصور ت علاقہ، بلڈنگز اور پھولوں جیسے رنگ برنگے لوگ! ’’داخلے‘‘ کا تو ابھی کچھ پتہ نہیں تھا لیکن ہم، اپنے آپ سے ’’باہر‘‘ ہو رہے تھے! رات کے دیکھے ہو ئے خوابوں کی تعبیر کے دُھندلکے خدوخال سامنے نظر آ نے لگے تھے۔ خیر، اپنے ہی گندے کپڑوں کا بیگ، کاندھے پر اٹھائے، پھکّی بیچنے والوں کی طرح، پوچھتے پچھاتے، ایک کمرے کے دروازے پر دستک دی، ایک گورے چٹے اور سُرخی مائل پٹھان لڑکے نے دروازہ کھولا۔ ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے انجان تھے! کمرے کے اندر کئی اور نوجوان بیٹھے نظر آ رہے تھے۔ میں نے، مطلوبہ نام پکارا تو ایک اور نوجوان، جواباً میرا نام لیتے ہوئے، اٹھ کھڑا ہو ا۔ بڑے پیار سے مصافحہ کیا اور دوسرے لوگوں سے ارشد صاحب کے حوالے سے میرا تعارف کروایا۔ میری آمد سے قبل، الگوزہ بج رہا تھا جبکہ قہوے کی پیالیاں، ابھی تلک، سب کے سامنے رکھی تھیں۔
کمرہ اور اُسکے باسیو ں کے حالات بتا رہے تھے، کہ ارشد صاحب بھی یہاں بڑی موج میں رہے ہونگے۔ اور اپنے ساتھیوں سے متعلق، اُنکی حُسن ِظنی بھی رنگ لے آئے گی۔ باہر کے موسم کے لحاظ سے کمرہ، ویسے ہی گرم تھا اُوپر سے قہوے کی چُسکیوں سے، میری طبیعت اور بھی سنبھل گئی۔ موصوف نے میرے سامنے دو داخلہ فارم رکھتے ہوئے کہا کہ میں آج صبح ہی یہ آپکے لئے لے آیا تھا اور یہ کہ بڑی مشکل سے دو ہی ملے تھے! آپ ُ پر کرکے مجھے دے دیں، میں اِنہیں جمع کروانے کی کوشش کرونگا۔ میں نے جلدی جلدی، دونوں فارم پُر کر دیئے، ایک تاریخ کے مضمون کیلئے اور دوسرا ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘کیلئے! بعدہ، ہم اور باقی دوست، اکیڈیمک بلاک کی طرف آئے۔ بلا شبہ، میرے محسؔن نے ’’چمک دکھلا ‘‘کر ایک فا رم تو جمع کروادیا۔ لیکن جس میں زیادہ امید تھی، یعنی ایم ۔اے تاریخ کیلئے، فارم جمع نہ ہو سکا۔ کیونکہ بقول کلرک صاحب، اِس میں پہلے سے ہی بہت درخواستیں آچکی تھیں۔ ویسے بھی، آخری تاریخ تو کل کی گذر چکی تھی۔ لہذا، یہاں کلرک بادشاہ بھی بکنے کو راضی نہ تھا۔ خیر’’محسن‘‘نے، پھر بھی، اپنی بھر پور کو شش کی امید دلائی۔ اُسکے بعد، ہم نے میس سے، بڑا مزیدار کھانا کھایا ۔بطورِخاص میرے لئے، پشاوری چپلی کباب منگوائے گئے تھے۔ اِس یا دگار مہمان نوازی اور شاندار ضیافت کے بعد، میں اپنے گمنام دوستوں سے رخصت ہوا۔ اٹھایئس برس سے زیادہ وقت گزر گیا ہے۔ مجھے اب اُنکے نام تو یاد نہیں رہے ۔ لیکن اُنکی بے لوث محبت ، جو اُنکی اپنے دوست جناب محمد ارشد صاحب کیلئے تھی، اور میں نے بھی، اُس سے فیض اٹھایا تھا، آج تک یاد ہے۔ اِس دعا کیساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اُنکی، اِس نیکی کا اجر دیتا رہے، آمین۔ میری یہ تحریر ہی اُنکے لئے، بطور ایک ہدیہ تبریک ہے اور ایک خوبصورت نغمہ اُنکے نام کرتا ہوں :
۔۔۔نام گم جائے گا۔۔۔چہرہ یہ بدل جائے گا۔۔۔میری آواز ہی پہچان ہے۔۔۔گر یاد رہے!
خیر، سارے نام ہی گم گئے! ۔۔۔ نہ کسی لِسٹ میں ہمارا نام آیا اور نہ ہمیں اُنکے نام یاد رہے ۔ لگتا ہے کہ کلرک بادشاہ، آم بھی کھا گیا اور گٹھلی بھی نگل گیا، یعنی پیسے بھی لے لئے اور کام بھی نہ کرواسکا تھا ۔ اور اِسطرح ، ’’بڑا آدمی‘‘ بننے کیلئے چلا گیا ایک اور تیر خطا گیا۔اگلے روز گڈاون کیپر کی نوکری پر حاضر ہوگئے۔
ہماری لاہور گردیاں!
چلتے چلتے، مارچ آگیا۔ مارچ میں، شعبہ بزنس ایڈمینسٹریشن، پنجاب یونیورسٹی لاہور، نے اخبار میں ایک بڑا پرُ کشش اشتہار دیا کہ اگر آپ گرایجویٹ ہیں تو گھر بیٹھے کیا کر رہے ہیں؟ ہمارے پاس آیئے اور تین ماہ کا کمپیوٹر کورس کیجئے اور تین ہزار روپے ماہوار تنخواہ پایئے! حُسنِ ظنی اور خوش فہمی، دونوں بہنیں ہی ہماری بہت اچھی دوست رہی ہیں۔ یعنی، پنجاب یونیورسٹی کے نام پر کوئی، اتنا بڑا فراڈ کیسے کر سکتا ہے؟ لہذا، جو وہ کہہ رہے ہیں ،ٹھیک ہی کہہ رہے ہو نگے!
ویسے بھی (ہوا اورخیالوں میں) تیر اندازی، ہمارا محبوب مشغلہ تھا۔ فوراً انگلیوں نے حساب کتا ب لگایا اور جواب حاضرکیا ۔ جاننا چاہتے ہیں کہ کیا جواب آیا؟ تو سنیئے:
جناب ِ’’ہوائی‘‘ صاحب بولے ’’نعیم صاب! زمانہ چال قیامت کی چل رہا ہے۔ اور اگر آپ نے رفتارِ زمانہ کے اِس گھوڑے ( کمپیوٹر) پر کاٹھی نہ ڈالی، تو یاد رکھیں، آپ پتھر کے زمانے میں رہ جائیں گے! خاندانِ فضلیہ میں آپ کے علاوہ اور کون ہے جو اِس وقت قوم کی سیادت کر سکتا ہے؟ ‘‘
ہم نے ربوہ سے سیالکوٹ تک اور حافظ آباد سے شاہکوٹ تک، چار دانگ نظر دوڑائی! واللہ ! اپنے آپکو اکیلا پایا! پورے خاندان میں سے ایک فرد بھی اِس راہ میں بازی لگانے کو ہمارے ساتھ نہ تھا۔
دوسرے،’’خیالی‘‘ صاحب مُنہ میں پان کی گلوری لئے بولے، ’’ دیکھو میاں! اگر اِسقدر تنخواہ، ایم۔اے کرنے سے پہلے ہی ملنی شروع ہو جائے تو پھر ایم ۔اے کرنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی! یہ ’’فرض‘‘ تھوڑا ہی ہے۔ یہ تو نفلی (اضافی ) کام ہے ، کرلے بھائی، ابھی کرلے‘‘!
اور یوں بقول شاعر:
اکیلے ہی چلے تھے جانبِ منزل مگر۔۔۔لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا! والی بات ہوگئی۔
اپریل 1991ء میں کورس ایسے ہی شروع ہوا، جیسے انہوں نے بتا یا تھا۔ بڑی شاندار ریسپشن ہوئی! ہفتے میں تین دن، شام کو، تین گھنٹے کی کلاسیں! سارے ہی پڑے لکھے لوگ! اکثر اُن میں پہلے سے ہی ’’جاب ُشدہ‘‘ اور ’’جاب والیاں‘‘ تھیں۔ یہ اِس بات کا ثبوت تھا کہ یہ سب اپنی قابلیت اور تنخواہ بڑھانے، جبکہ ہم (وہ تنخواہ) وصول کرنے آئے ہیں! بہت اچھا وقت گزر رہا تھا۔ آپکو تو پتہ ہی ہے، کہ ایسے ماحول میں ہمیں محنت کرنے کا زیادہ لطف آتا تھا تاکہ واہ، واہ بھی ہوتی رہے۔ چونکہ اور کوئی کام نہ تھا لہذا، دو دن خوب رٹَّہ لگا کر، کلاس میں آتے اور فرفر دُرست جواب دیتے۔ جسکے نتیجہ میں کلاس کے دو لوگوں کے دل جیت لئے۔ ایک استادِ محترم کا اور ایک اُنکے حسین شاگرد کا!
فہیؔم صاحب، شماریات میں ایم ۔ اے کرنے کے بعد، امریکہ سے کمپیوٹر میں کچھ ڈپلومے کر کے آئے تھے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی کلاس کے بعد، بریک میں ’’ڈن ہل‘‘کے گولڈن پیک سے سیگریٹ نکالتے،کش لگاتے اور اچھے لگتے تھے۔ ہماری طرح ، علم و ستائش کے چند پیاسے اور پیاسیاں، ندیدوں کیطرح آپکے چھوڑے ہوئے دھویئں کو ’’ری سائیکل‘‘کرتے، اور جی جی کرکے اُنکی ہر بات کو ہی ’’کمپیوٹر جی کی حدیث‘‘ سمجھتے۔ اوروں کا تو علم نہیں، ہمیں اِس محنت کا اجر مل گیا۔ کورس کے خاتمے کے قریب، آپ نے پرس میں سے اپنا کارڈ نکالا اور کہا کہ جب ضرورت ہو رابطہ کر لینا! یہ پہلا کارڈ تھا جو ہمیں ملا تھا۔ اپنے سے بھی زیادہ حفاظت کرتے تھے، اُسکی! دن میں کئی کئی بار نکال کر دیکھتے تھے۔ ضرورت توخیر بہت تھی۔ جنابِ دلؔ صاحب تو کہتے تھے کہ ’’ابھی چل اور اُٹھا لے اپنا تین ہزار روپیہ مہینہ‘‘ لیکن دماؔغ صاحب کہتے کہ بھائی! تھوڑا دھیرج رکھ کمینو! نتیجہ تو آ لینے دو!
اپریل میں ہی عزیزی ندیم احمد کا بھی سکالرز کالج، جیل روڈ میں، بی۔ کام میں داخلہ ہوگیا۔ اُس کی رہائش کیلئے’’دارالحمد‘‘ ہاسٹل میں درخواست دی ہوئی تھی لیکن بقول انتظامیہ کے، گنجائش نہ ہونیکی وجہ سے، داخلہ نہ ہورہا تھا۔ نجانے کیسے، ہمارا رابطہ، بھاکا بھٹیاں سے ہمارے دو احمدی دوستوں، واصف بھٹی اور اُسکے چھوٹے بھائی الہ یار بھٹی مرحوم سے ہو گیا۔ وہ دونوں، دھلہ سٹاپ، کیو بلاک، ماڈل ٹاون کے فلیٹس میں رہتے تھے۔ ہم بھی وہاں منتقل ہوگئے۔
گرمیوں کا موسم تھا۔ چھوٹے چھوٹے، کبوتروں کے ڈربوں جیسے فلیٹس! ندیم کا کالج اور میری یونیورسٹی دونوں، وہاں سے بڑی دُور پڑتے تھے۔ خیر، محترم حافظ مظفر احمد صاحب (صدرمجلس خدام الاحمدیہ) کے سفارشی خط، جناب مبشراحمد دہلوؔی صاحب ( نگران ہاسٹل) کے گھر واقع ماڈل ٹاون، کے گِرد، آئے روز ہمارے طواف، کی وجہ سے اور چوہدری حمید نصراللہ صاحب مرحوم، امیر جماعتہائے ضلع لاہور، ہماری جرات اور ضدبازی کیوجہ سے، فقط عزیزی ندیم احمد کو داخلہ دینے پر’’مجبور‘‘ ہو گئے۔ جس سے کم از کم ہمارے آدھے مسائل کم ہو گئے۔ دارالحمد میں داخلے اور رابطوں کیوجہ سے، جلد ہی، اُسی علاقے میں میرے لیئے ایک عدد کمرے کا انتظام بھی ہو گیا۔
کیا آپ پوچھنا نہیں چاہیں گے کہ اسقدر گرمی میں، ہم دونوں بھائی یہ دھکے کیوں کھارہے تھے؟ تو سنیئے جناب! ندیم احمد نے تو بی۔کام کرنا ہی تھا اور اُسکا داخلہ بھی، دارالحمد میں کروا کے ہی چھوڑنا تھا۔ دوسرے میں نے بھی کمپیوٹر کورس کے بعد، کوئی اچھی سی جاب کرنا تھی! اور اگر جاب نہ بھی ملتی، تو بھی دو تین ماہ بعد، یعنی ستمبر میں یونیورسٹی شروع ہونیوالی تھی۔ لہذا، اس گرم موسم میں بھی، قسمت کا کوئی بڑا چھکّا مارنے کیلئے، ٹِپ ٹِپ، ٹیسٹ کرکٹ کھیل رہے تھے۔
جون کے آخر پر، کمپیوٹر کورس کا نتیجہ آگیا، جیسے کہ دیوار پہ لکھا ہوا تھا! اے گریڈ لیا تھا۔ اگلے ہی روز، مُحِبّ ٹیکسٹائلز، شادمان پہنچ گئے۔خالد محمود جگؔرؔ کے گھر کے پاس ہی ایک بڑی سی کوٹھی میں دفتر تھا۔ باہر شدید گرمی اور اند ر ٹھنڈ ہی ٹھنڈ! کارڈ آگے کیا اورانگریزی میں (جس کی پریکٹس صبح سے کر رہے تھے) سر سے ’’ملاقات کا انتظام ‘‘کرنے کو کہا! ریسپشن پر بیٹھی دونوں حسینائیں، ہماری گرم گرم انگریزی ُسن کر گھبرا سی گئیں! اُن میں سے ایک ہمارے قریب آئی او ر پوچھا : میں آپکی کیا مدد کرسکتی ہوں؟ میں نے کارڈ اُسکے سامنے رکھ دیا، چند سیکنڈ کے بعد وہ بولی! سر تو بورے والا ، فیکٹری میں ٹرانسفر ہوگئے ہیں۔ ہمیں ایسے لگا جیسے بتی چلی گئی ہو! لہذا، مزید گرم ہوا کھانے کیلئے باہر نکل آئے! درجہ حرارت کی ایسی تبدیلیوں سے، نجانے آنکھوں سے پانی کیوں آنا شروع ہو جاتا ہے؟
بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص
ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص!
(یعنی جب، کورس مکمل کرکے کمپیوٹر چلانے کے قابل (گلاب ) ہوگئے۔ تو خوابوں کا گھر وندہ، ممکنہ مدد نہ ملنے سے خاکستر ہو گیا)
دوسرا، ذکرِخیر ثُمن کا! جسقدر یہ نام سننے میں پیارا ہے، اُس سے کہیں خوبصورت میرا ایک کلاس فیلو تھا۔ وہ حُسن، شرافت اور خوش قسمتی کا پیکرتھا! روزانہ ایک نئے رنگ کی گاڑی اُسے چھوڑنے اور لینے آتی! اُسکے گھر والے اسے ایسے احترام، محبت اورحفاظت سے لاتے اور لے کر جاتے کہ رشک آتا۔ کلاس میں، ہماری محنتوں کا ثمر، وہ مسکراہٹیں اور بول چال تھی، جو تین ماہ کے قلیل وقت میں ہمیں حاصل ہو گئی تھی، لیکن کلاس کے باہر، اُسکے مقابلے میں ہم محض ایک ’’سڑک چھاپ‘‘ سے زیادہ نہ تھے۔
کلاس کے آخری روز، وداع ہوتے ہوئے، اُس نے سب کے سامنے ہماری تعریفیں کرکے، کلاس والوں کو حیران اور مجھے پریشان کردیا! لیکن آخر پر، اُس نے بلیک بورڈ پر دو شعر، بڑے بڑے الفاظ میں اِسطرح لکھے کہ میں حیران تھا کہ میرے سوا، کسی اور کو وہ نظرہی نہیں آرہے تھے! مجھے پتہ ہے، کہ آپ میں سے اکثر کو میری اُس حالت پر ترس کھانےسے زیادہ، وہ شعر جاننے میں دلچسپی ہے ! تو آپ بھی دیکھ لیجئے، جواُس نے لکِھا:
خواب بن کر تو برستا رہے، شبنم ، شبنم
اور بس میں، اِسی موسم میں، نہائے جاوں!
جس کو ملنا نہیں، پھر اُس سے محبت کیسی؟
سوچتا جاؤں، مگر دل میں بسائے جاؤں!
خیرہم، شبنمی (بھیگی) آنکھوں کیساتھ، ایک، ایک کرکے، کئی دفتروں کے چکر لگاتے رہے۔لیکن کہیں سے بھی، اپنے تین ہزار نہ مل سکے۔ ہر دفتر میں محض لڑ کیوں کی بھر مار تھی۔ لڑکوں کو اُنہی دفتروں کے پچھواڑے، فیکٹریوں میں کام ملتا تھا۔ اِس دوران، ہمیں بڑی شدت سے خواہش ہوئی کہ کاش ہم لڑکی ہوتے! کم از کم اچھی اور ٹھنڈی، نوکری تو مل جاتی!۔۔۔گھر آ کر، جو آئینہ دیکھتے تو اپنی اِس خواہش سے بھی توبہ کر لیتے!۔۔۔۔اِس دوران پہلی دفعہ اخبارات پر نوکری کے اشتہارات بھی بڑے ’’خلوص‘‘ سے دیکھا کرتےتھے۔ ایک دن ساری شرائط پوری پا کر، ہم ایک جگہ چوبرجی چوک میں’’ایکو ٹریڈرز‘‘کے دفتر پہنچ گئے۔ دوسرے فلور پر، مناسب سائز کا دفتر تھا۔ ہال میں تین چارچھوٹی میزوں پر، تین چار لوگ ہی کام کررہے تھے جبکہ کونے میں، ایک شیشے کا کیبن تھا، جس میں بیٹھے ’’صاحب‘‘، ہر ایک کی حرکتوں پر نظر رکھے ہو ئے تھے۔ صاحب سادہ ، دیہاتی سے اور خود بھی، بی۔اے پاس تھے! انٹرویو ہوا! اُس عمر اور تعلیم میں، ہم سا انٹر ویو اور کون دے سکتا تھا؟ صاحب، ہم سے بہت خوش ہوئے۔ واللہ! اُس نے کچھ ایسے ہی کہا تھا کہ ’’تم یہاں اتنی ترقی کرو گے کہ اپنے ایم۔اے کو بھول جاو گے۔۔۔میں تمھارے اندر وہ صلاحیتیں دیکھ رہا ہوں کہ تم مجھے بہت اونچے بیٹھے دکھائی دیتے ہو‘‘۔ میں اُسکی اِن توقعات پر پھولا نہ سماتا تھا۔ لہذا، کامیاب قرار دیا گیا ۔ شروع میں 1500 اور بعد میں اضافی تنخواہ کا وعدہ ہوا۔
مجھے، دو ہفتوں میں، لیڈی سیکرٹری کیساتھ مل، کمپیوٹر پر کام کرنا تھا، نیز دفتر کے کام کو سمجھنا تھا۔کام یہ تھا کہ مختلف سرکاری و غیر سرکاری محکموں کیطرف سے، مطلوبہ سامان کیلئے، کوٹیشنز کیساتھ، ٹینڈر بھرے جاتے تھے اور پھر سامان سپلائی کیا جاتا۔ایک آدمی، روزانہ اردو و انگریزی اخبارات سے اشتہارات نکا لتا۔ باؔس سے ڈسکس کرتا، دوسرا، بازار، مارکیٹ اور منڈی سے، مطلوبہ اشیاء کا بھاو ٔتاو ٔکرتا اور پھر، دفتر سے کوٹیشنز تیار کروا کر، متعلقہ محکمہ کو باقاعدہ رجسڑی کردی جاتیں۔ میرے زمانے میں، پسرور کے کسی ہائی سکول میں کیمسٹری لیب کا سامان پہنچایا جا رہا تھا، جسکے مندرجات پورے نہ ہو رہے تھے۔ جسکی وجہ سے دفتر میں بڑی کشمکش چل رہی تھی۔
ہمارے تایا جی کو کچھ عرصہ قبل ہی ہارٹ اٹیک ہوا تھا، اُنکے دل کا آپریشن ہونیوالا تھا، یہ لوگ لاہور آچکے تھے۔ لہذا صبح شام، ہم پنجاب انسٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں آجارہے تھے۔ گرمیوں کے لمبے دن، نیند اور آرام کی شدید کمی اور اُوپر سے نئی نئی نوکری! کافی مشکل وقت چل رہا تھا۔
مجھے ایک جاپانی فرم کیساتھ بند ہو جانیوالی خط و کتابت کی وجوہات جاننے کا بھی ٹاسک دے دیا گیا تھا۔ بمشکل دو ہفتے ہی گز رے تھے ۔ صاحب! ہم میں سے کسی پر خوش نہیں رہے تھے۔ اُس نے پہلے روز ہی مجھے کہا تھا کہ تمہیں میں اِس ’’عورت‘‘ کی جگہ پر لا نا چاہتا ہوں۔ ایکدن، اُس نے ہمارے سامنے، حالیہ ٹینڈر میں بدنظمی پر، ایک آدمی کو نوکری سے برخاست کردیا ۔ اگلی باری میری تھی۔ دس بارہ دن بعد ہی، اُس نے مجھے بھی، چند منٹ لیٹ آنے اورجلد کام نہ سیکھنے پر برخاست کردیا۔مجھے زرا بھی دُکھ نہ ہوا!
ٹینشن سے جان چھوٹی! اور بہت سے کام کرنے ابھی باقی تھے، وغیرہ وغیرہ!
البتہ، دفتر سے نکل کر چوبرجی باغ ، جہاں پی۔ آئی۔اے کا جہاز کھڑا ہے، کے ایک سنسان کونے میں جا کر نجانے کیوں، مَیں بہت رویا! اِتنا رویا کہ مجھے یہ گمان ہورہا تھا، کہ ابھی کوئی فرشتہ نازِل ہو گا، اور میرے تمام دُکھوں کا مدوا کردیگا۔ لیکن جب کافی دیر تک کوئی نہ آیا، تب اچانک مجھے خیال آیا، اؤے نیمے! فرشتے تو غاروں اور اندھیرے میں اُترا کرتے ہیں! یہاں تو جولائی کا گرم مہینہ چل رہا ہے اور سورج صاب، سوا نیزے پر، آنکھیں نکا لے کھڑے ہیں! کون آئے گا اس شِکھر دوپہر میں؟ پاگل ہو گئے ہو کیا؟
بالفرض، اگر کوئی آ بھی گیا، تو تجھ پر کمبل کیوں اوڑھائے گا، اتنی گرمی میں؟ اُٹھ اور ہسپتال جا اور خوشی خوشی، اپنے تایا جان کی خدمت کر! تیرے ایک مہینے کے خرچ کا انتظام تو گیا ہے نا! ابھی تو، تُو نے ایم ۔اے کر نا ہے، سی۔ایس۔ایس کر نا ہے! ساری زندگی پڑی ہے، یار!
مجھے الزام دینے سے پہلے، یہ ضرور یاد رکھئے گا کہ میرا اتنا قصور نہیں تھا، جسقدر سزا مجھے مل رہی تھی! صاحب نے ہی، جلد بازی سے کام لیا تھا۔’’سرسوں دنوں میں اورہاتھوں پر نہیں جمائی جاتی‘‘! میری بڑی خواہش تھی کہ میں کبھی کسی وقت جا کر ضرور دیکھوں تو سہی کہ دوسروں کو بڑا آدمی بنانے والا، کیا خود بھی بڑا آدمی بنا ہے کہ نہیں؟ لیکن، یونیورسٹی کے خوبصورت ماحول نے پھر کبھی، اُس طرف دیکھنے ہی نہ دیا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ اُسکے اپنے اندر بھی، وہ گٹس(خصوصیات) نہیں تھے۔ واللہ اعلم بالصواب ۔
جولائی 1991ء میں ایم ۔اے میں داخلوں کے اشتہارات، آنا شروع ہو گئے تھے۔ ایک بار پھر گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی میں فارم جمع کروادیئے تھے۔ یونیورسٹی میں میرا نام پہلی لسٹ میں، جبکہ گورنمنٹ کالج میں دوسری لسٹ میں آ گیا تھا۔اِس کی وجہ یہ تھی، کیونکہ کالجوں میں، اپنے ہی ادارہ کے نچلی کلاسوں سے آنیوالے طالبعلموں کو باہر سے آنیوالوں پر ایک گونہ فوقیت دی جاتی ہے، جبکہ یونیورسٹی میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔
جب آپ بڑے کالجوں یا یونیورسٹیوں میں، داخلہ فارم وغیرہ لینے جاتے ہیں تو وہاں، اُسی شعبہ کے لڑکے اور لڑکیا ں، آپکی مدد کیلئے موجود ہو تے ہیں۔ ہماری طرح اچھے اور تجربہ کار’’بیوپاری‘‘ وہاں کچھ ضروری بھاو ٔتاو ٔ بھی کرلیتے ہیں۔ ہمیں، چونکہ بچپن سے ہی اپنے تایا جان مرحوم کیساتھ، سبزی و دانہ منڈی اور مویشی منڈیوں میں جا جا کر، اِسکی عادت ہو گئی تھی۔ لہذا، حاصلکردہ معلومات کے مطابق، یونیورسٹی کےشعبہ تاریخ کے اساتذہ کا معیار ، گورنمنٹ کالج کے اساتذہ سے بہتر پایا۔ اور یہ بھی کہ زیادہ تر، نصابی کتب بھی یونیورسٹی کے اساتذہ کی لکھی ہوئی، پڑھائی جاتی تھیں۔ نیز یہ کہ، پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹلز کا معیار بھی، گورنمنٹ کالج سے بہتر پایا۔ اِسکی وجہ سے، گورنمنٹ کالج، لاہور سا عظیم الشان ادارہ، دو نوں دفعہ (بی۔ اے اور ایم۔اے) میں داخلہ آفر کرنے کے باوجود، ہمارے وجود کو اپنے اندر سمو نہ سکا! انا للہ ۔۔۔
وقت، وقت کی بات ہے پیارے! میٹرک کے بعد، کبھی ہم اِس مادرِ علمی میں داخلے کیلئے مرے جاتے تھے! گردش ِدوراں، کا جبر دیکھئے کہ اب یہ ہمیں صدا ئیں دیتی ہے اور ہم کان نہیں دھرتے! دُکھ تو ہمیں بھی تھا لیکن، بقول شاعر، مکرمی چچا غالب:
کھینچے ہے مری طبع ِسخن اپنی ہی جانب
اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں اور!
کچھ نذر ہوئے وقت کی بے رحم ہوا کے
کچھ خواب ابھی میرے لہو میں ہیں، رواں اور!
15 ستمبر 1991ء سے پنجاب یونیورسٹی میں کلاسوں کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ قبل ازیں، ہاسٹل نمبر 8 کے کمرہ نمبر 16 میں، ہم سامان سمیت پہنچ چکے تھے۔ موسم، ماحول، یونیورسٹی اور زندگی بہت خوبصورت ہو چکی تھی۔ ہر سُو پھیلا حُسن ایسا کہ خزاں میں بھی بہار کے رنگ! لگتا ہے کہ چوبرجی باغ میں کی گئی آہو زاریاں، سُن لی گئی تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ تک پہنچانے اور منظوری حاصل کرنے میں فرشتوں سے شائد، کچھ سُستی ہو گئی تھی! واللہ اعلم باالصواب۔
یونیورسٹی کی کارستانیاں:
برعائت پردہ، یونیورسٹی کی کارستانیوں کے ’’سنسر شدہ‘‘ حصے، تو آپکو ’’موم کے چھّتے‘‘ میں ملیں گے۔فقط، مفت مشورہ یہ ہے کہ میرے اور’’اے ۔ڈی چوہدری‘‘ کے کرداورں کو، اگر ایک کر کےپڑ ھیئے گا تو ساری بات سمجھ میں آجائیگی اور پھر بہت مزہ آئیگا ۔۔۔ہا ہا ہا
ستمبر 1991ء میں، یونیورسٹی کا سیشن شروع ہوا اورجولائی 1993ء تک چلا۔ امتحانات اگست میں متوقع تھے۔ جو وطن عزیز اور پنجاب یونیورسٹی کی روائیتی سستی کے نتیجہ، میں لٹکتے لٹکتے، جنوری 1994 ء تک چلے گئے۔ ابھی تک سب معاملات اچھے چل رہے تھے۔ جوانی تو ہوتی ہی دیوانی ہے! ہمیں بھی کوئی جلدی نہ تھی! ہم نے اپنا مقالہ، جلدی جلدی کام کرکے، پہلی ڈیڈ لائین کے اند ر ہی جمع کروا دیا تھا۔ بعد میں، اُس کی میعاد میں بھی ایک، ایک ماہ کی، دو مرتبہ توسیع ہو گئی۔ کفِ افسوس مَلنے کے سِوا کیا کر سکتے تھے۔
اِس دوران، پڑھائی اور زندگی، دونوں ہی سست روی کا شکار رہیں۔ دسمبر میں، امتحانات سے چند روز قبل، کچھ حاسدوں نے، میرے احمد ی ہونیکی دُرست خبر، انتہائی غلط انداز سے پھیلا دی۔ (جسکی تفصیل بھی، ’’موم کا چھّتہ‘‘میں موجود ہے) جس پر پوری کلاس نے، جو اُس وقت ہاسٹل میں مقیم تھی،نے میرا بائیکاٹ کر دیا۔اسلامی جمیعت طلبہ کے فساد برپا کرنے سے قبل ہی، میں نے سامان اٹھایا اور دارالحمد، آگیا۔ کچھ دن گزرے، تو سپرنٹنڈ نٹ صاحب نے کہا کہ جگہ نہ ہونیکی وجہ سے، آپکو اپنا انتظام کہیں اورکرنا ہو گا۔ لہذا میں، جوہر ٹاون میں، ایک احمدی دوست کے فلیٹ میں منتقل ہو گیا۔ جناب عبدالسلام عارفؔ صاحب، ربوہ سے فارمسسٹ تھے۔ اچھی تنخواہ تھی ۔ایک اور آدمی اُنکے ساتھ رہ رہا تھا۔ میرا امتحانات تک کا وقت اچھا گزر گیا ۔الحمدللہ! وہ بعد میں کینیڈا چلے گئے تھے۔ اللہ تعالیٰ انہیں بھی جزاء خیر عطاء فرمائے، آمین۔
امتحانا ت کےدوران، بائیکاٹ عروج پر رہا۔ کچھ متشدّد کلاس فیلوز، کمرہ امتحان (اولڈ کیمپس، نیو انار کلی میں واقع، یوینورسٹی سینٹ ہال) میں پرچے سے پہلے اور پرچے کے بعد بھی،’’ ٹیچی ٹیچی‘‘ اور دیگرگندی باتیں کرکے، دماغ میں خلجان پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ اولڈ کیمپس سے لیکر جوہر ٹاون، جانیوالی ساری بسیں ویگنیں، نیو کیمپس اور یونیورسٹی ہاسٹلز کے سامنے سے ہو کر گزرتی تھیں۔ ہر وقت یہی خطرہ رہتا تھا کہ کوئی شر پسند، ویگن میں، پہلے سے بیٹھا نہ ہو یا اچانک آکر، تنگ نہ کرنا شروع کر دے! جب تک، جوہر ٹاون فلیٹ میں، واپس نہ پہنچ جاتا، جان اٹکی سی رہتی ۔
امتحانات کے بعد، سب لوگ اپنے اپنے گھروں میں چلے گئے۔ رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ آگیا۔ اپنی جُملہ (تمام ) پریشانیوں سے نجات کیلئے، میں نے بھی، اِمسال اعتکاف کرنے کا ارادہ کیا۔ زمانہ بھلا اور سستا تھا۔ دعائیں قبول ہو جا تی تھیں! یا پھرشائد، ہمارے مجموعی گناہوں کی تعداد قدرے کم تھی، جس کی وجہ سے، اللہ سبحانہُ تعالیٰ کے فضل وکرم کا کریڈٹ (اُدھار)مل جاتا تھا۔ اعتکاف کے دوران ہی، دوستوں کے معافی نامے، ایک ایک کر کے ملنا شروع ہو گئے، (جو آج تک میرے پاس موجود ہیں)۔ سب نے پیشگی عید مبارک اور عید کے فوراً بعد، واپسی کیلئے اصرار کرنا شروع کردیا۔ ہاسٹل میں الاٹمنٹ، تمام مقالوں کے انٹرویوز مکمل ہوجا نے تک، قائم تھی، جن کا کوئی شیڈول ابھی دُور دُور تلک نہیں تھا۔ لہذا، میں بھی، اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے، واپس اپنے کمرہ میں، منتقل ہو گیا۔ سب دوست دوبارہ شیرو شکر ہوگئے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے جماعت احمدیہ پر، بے پایاں احسانات شروع دن سے ہی جاری ہیں۔ کہ اپنے وعدہ کے مطابق، ہرخوف کے بعد، امن کی حالت لوٹا دیتا ہے۔ مجھ جیسا کمزور شخص بھی، اپنی زندگی میں، کم از کم ، تین مرتبہ، 1974ء، 1984ء اور 1994ء میں اِس کا تجربہ تو کر چکا ہے۔ کہ جب آپکی جان، مال اور آبرو کے پیاسے، چند ہفتوں اور مہنیوں میں ہی، سب نفرتیں بھلا کر، پہلے والی حالتِ امن پر ، ایسے واپس لوٹتے ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ الحمدللہ علی ذالک وسبحان اللہ العظیم !
یہ مارچ کا مہینہ اور بہار کا موسم چل رہا تھا۔ میں نے ایک جگہ پرائیویٹ اکیڈمی میں، ایم۔اے انگریزی کی تیاری شروع کردی اور ساتھ ساتھ ٹیویشن پڑھانے کیلئے اپنے حلقۂ احباب سے، رابط کرنا بھی شروع کردیا۔ میاں محمد اظہرصاحب، گورنر پنجاب کے گھر، ایف ۔سی کالج پُل کے بالکل قریب، مسلم ٹاون میں، پنجاب کالج آف کامرس کے سامنے، ایک بڑی سی کوٹھی میں قائم، ایک پرائیویٹ انگریزی نرسری، ’’ایبیےکس‘‘ میں شام کو، ہفتے میں 4/5 روز، ہماری کلاس ہوتی۔ میری خوش قسمتی کہ کیسے ایکدن، میں اخبار سے اشتہار دیکھ کر وہاں پہنچ گیا تھا ۔
محترم شفیق صاحب، ہمارے اکلوتے اورنہائت قابل استاد تھے۔ دُبلے، پتلے، انتہائی سادہ مزاج، ( پیلی کوٹھی، میں ہمارے ہمسائے، محبوب بھائی کے ہمشکل)۔ وحید مراد کا ہیرسٹائل، ماتھے پر جھومر کی طرح سجائے اور تعلیم دینے کے شوقین! آہستہ آہستہ علم ہوا کہ تعلیم دینا آپکا ذاتی شوق ہے، اِسی وجہ سے صرف 300 روپیہ ماہانہ فیس رکھی ہوئی ہے، تاکہ بلڈنگ کے کرائے وغیرہ کے مصارف پورے ہو سکیں۔ والدین کا برنڈرتھ روڈ پر، امپورٹ و ایکسپورٹ کا ایک بڑا بزنس تھا۔ اُس میں اُنکا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اور انگلستان سے تعلیم یافتہ ہیں۔ اورمحض، اپنے شوق کی تسکین کیخاطر، پڑھاتے ہیں۔
طلبا کی کُل تعداد 8/10 ہوگی۔ سبحان اللہ! کیا خوبصور ت وقت گزرا وہاں پر! کیا موازنہ کروں؟ میرے ایم ۔اے تاریخ کا حاصل کردہ سارا علم اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے ساتھ گزرے دو سال! جناب ِشفیق صاحب کیساتھ اور اُن سے پڑھا، انگریزی ادب، شعرو نثر میں گزرے، 6 ماہ، ایک برابر!
سبحان اللہ ! کیا ہی نابغہ روزگار وجود اور قابل استاد تھے! اللہ تعالیٰ، آپکو اور آپ سے جُڑے تمام لوگوں پر، اس کارِخیر کیوجہ سے بہت فضل وکرم فرمائے، آمین۔
شیخ محمد اسلام، شیخ موسیٰ، اور شیخ مصطفیٰ کا چھوٹا بھائی، جب لاہور آیا تھا، تو میری وساطت سے ہی وہاں پہنچا تھا۔ وہ اکیڈمی میں، میرے لیڈنگ رول اور مثبت کردار کا اُسی طرح چشم دید گواہ ہے، جسطرح، عمران بد ؔر، الیاس چٹھہؔ اور فخر عباس جعفرؔی اور اُس دور میں، یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہمارے شہر کی دیگر طالبات، میری یونیورسٹی میں کامیابیوں کی گواہ ہیں! الحمدللہ
یونیورسٹی ہاسٹلز سے مسلم ٹاون /ایف ۔سی کالج پل تک، براستہ نہر کنارے، 3/4 میل کی مسافت تھی۔جبکہ اُس زمانے میں، یہ کوئی پبلک روٹ نہیں تھا۔ اس لئے کوئی سواری، اِس روڈ پر نہیں ملتی تھی۔ جبکہ ویگنوں کے ذریعے سےوحدت کا لونی کیطرف سے گھوم کر جانا پڑتا تھا۔ شروع کے، کچھ دن تو میں ویگنوں اور نہر کنارے، لفٹ (جو کہ اُسوقت زندہ دلانِ لاہور، موٹر سائیکل، کار پر ہر کوئی، مردو زن بخوشی دے دیتے تھے) لیکر چلا جا تا تھا۔ لیکن اِس سے وقت بہت ضائع ہو تا تھا۔ چنانچہ، میں گھر سے اپنی سائیکل ساتھ لے آیا۔ اور 6 ماہ تک، پنجاب یونیورسٹی سے، ایف۔سی کالج پل تک، آتا جا تا رہا۔ شیخ اسلام، ندیم اور ہمارا سمیع ورک ؔاِسکے گواہ ہیں۔ یاد رہے، کہ پنجاب یونیورسٹی، دارالحمؔد، یا ہماری اکیڈمی میں، سائیکل صرف چوہڑوں اور چوکیداروں کے پاس تھی۔ کلرک تک بھی موٹر سائیکلوں پر گھومتے تھے۔ لیکن میں اِن تینوں جگہ پر بفضل تعالٰی، اپنے والدین کی مثبت تربیت، اپنے کردار اور محنت کے بل بوتے پر، ایک لیڈر کی مانند تھا۔ دارالحمد میں میرا جو مقام تھا، اُسکا گواہ ایک زمانہ ہے، جنکا میں، وہاں کسی الاٹمنٹ کے بغیر بھی، امام الصلوۃ تھا۔
اس دوران، مجھے سپرنٹنڈ نٹ دارلحمد، چوہدری غلام رسول صاحب مرحوم کی وساطت ایک ٹیویشن بھی مل گئی تھی۔ ایک احمدی دوست تھے اوکاڑہ سے، اُنکا گارمنٹس ایکسپورٹ کا بزنس تھا۔ فورٹریس سٹیڈیم کے قریب ہی اُنکا گھر تھا۔حد ڈیڑھ ماہ کا وقت تھا۔ اُنکی بیٹی کے، بی۔اے کے امتحان ہونیوالے تھے۔اپنی اکیڈیمی کے بعد، سائیکل وُہیں چھوڑ کر، میں ویگن پر کینٹ جاتا۔ اُسکی والدہ نے میرا بہت خیال رکھا۔ جاتے ہی کچھ کھانے اور پینے کو دیتیں۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ پیزا ، اُنہی کے گھر دیکھا تھا۔ ٹیویشن دینے کے بعد، واپس سائیکل لیکر، کبھی براسطہ دارالحمد، اورکبھی سیدھے یونیورسٹی چلا آتا۔
ایک اور فوجی معاشقہ! 1994ء
مئی، جون 1994ء کی خشک گرمی کی وجہ سے، امسال بہت سی انہونی چیزیں باہر نکل آئیں تھیں!!! اِن میں سے کچھ، میرے لئے باعثِ رحمت و برکت ثابت ہوئیں اور کچھ باعث تکلیف بھی!
اوّل، ہمارے تھیسس/مقالے کے انٹرویوز، شروع ہو گئے۔ اِس کا مطلب تھا، لٹکےہوے، ایم۔ اے تاریخ، کا اُونٹ، اب کسی کروٹ بیٹھنے والا تھا۔ دوسرے، پاکستان آرمی کیطرف سے، ایجوکیشن کور میں، ڈائریکٹ شارٹ کمیشن کیلئے، مختلف مضامین، جن میں ’’تاریخ ‘‘ بھی شامل تھا، درخواستیں مانگ لی گئیں تھیں۔
حسبِ عادت، بڑے لوگ اور بڑے ادارے، جب بھی کوئی کا م کرتے ہیں تو، کھُلے دل سے ہی کرتے ہیں! یعنی، انہوں نے کہا کہ ریگو لر ایم ۔اے’’ پاس‘‘ ہی درخواست دینے کے اہل ہیں۔ تاہم اگر ’’نعیم‘‘ جیسے’’اچھے‘‘ طالبعلم کا ’’ہیڈماسڑ‘‘ یعنی صدرِ شعبہ، ہمیں یہ تسلی کروا دے کہ یہ ’’بندہ ناچیز ‘‘، اِس قابل ہے کہامتحان میں پاس ہو جائیگا! تو وہ بھی، درخواست جمع کروا سکتا ہے۔
یہ اعلا ن، عامتہ الناس کیلئے تو ملازمت کا فقط، ایک اشتہار تھا، جبکہ ہمارے لئے، اللہ تعالٰی کیطرف سے اپنی حسرتوں کو ایک بار پھر، پوری کر لینے کا موقع تھا! قبل ازیں، آپ پڑھ چکے ہیں کہ کرنل محمد خاں، کرنل شفیق الرحمن اور برگیڈیئر محمد صدیق سالکؔ صاحب کی تمام کتب، میں بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا اور اپنے لئے خواب سجاتا رہتا تھا۔ یہ لوگ، ہمارے ہی قبیلے کے سَرخیل تھے، جو نہ چاہتے ہو ئے بھی فوج میں چلے گئے تھے اور وہاں جا کر، بموں سے کھیلنے اوربندوقوں سے لڑنے کی بجائے، قلم، کتاب اور سگار سے ہی دل بہلاتے رہے۔ ایسے، ’’نِکھٹو‘‘ لوگوں کیلئے، فوجی یونیفارم میں، کئی شعبہ جات مخصوص ہوتے ہیں، مثلاً ایجوکیشن کور، ابلاغ ِعامہ اور میڈیکل کور وغیرہ! میرے لیے اِسکا مطلب تھا، ’’ایک تو چوپڑی ہو ئی اور اوپر سے دو ، دو!‘‘، سبحان اللہ!
بہت سے لوگوں کے نزدیک، دو سال قبل، جب ہم نے یہ مشکل فیصلہ لیا تھا کہ ایم۔ اے تاریخ، ہم انگریزی زبان میں کریں گے۔ تو لوگ ہم پر ہنستے تھے اور ’’آدھا تیتر اور آدھا بٹیر‘‘کی تاریخی اور علمی پھبتی،ہم پر کَستے تھے۔ پوری کلاس میں صرف ہم دو ہی لڑکے تھے (میں اورفراز) جنہوں نے یہ مغز ماری کی تھی۔ سوائے پروفیسر چاوؔلہ کے، کسی نے بھی تو، ہمیں تحسین آمیز نظروں سے نہ دیکھا تھا۔ لوگوں نے ’’بلبل‘‘ کی طرح گا کر اور ہم نے ’’چیونٹی ‘‘کیطرح، مر مر کے اور بھائی جان ناصر احمد کی پرانی اور موٹی ڈکشنری سے، مشکل الفاظ کے معانی، ڈھونڈ ڈھونڈ کر، وہ دو سال گزارے تھے۔
عزیزم ندیم احمد کو تو یاد ہو گا، جب ایک روز، ارشد مانگٹؔ صاحب کے ہمراہ، پیر کوٹ سے ایک منحرف احمدی، ملک ریاض احمد صاحب (ڈپٹی ڈائریکٹر پنجاب پبلک سروس کمیشن، لاہور)کے ساتھ، ماڈل ٹاون میں، اُنکی رئیل اسٹیٹ ایجنسی پر بیٹھے ہوئے، ملک ؔصاحب نے کہا تھا : ’’ایم۔اے تاریخ، چاہے انگریزی میں کرو یا فرنچ میں! پُتر، رہنا تو وہ ایم۔ اے تاریخ ہی ہے اور اُسکو کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے! ‘‘
آج اُنکی دونوں باتیں غلط اور میرے دونوں فیصلے درست ثابت ہو رہے تھے۔ ایڈجو ٹینٹ جنرل، جناب یوسف علی صاحب کی طرف سے، اشتہار میں جلّی حروف میں لکھا تھا، کہ تمام مضامین میں ٹیسٹ اور انڑویوز، انگریزی زبان میں ہو نگے۔ میں نے خود، تاریخ میں اپنے سینئرز اور کلاس فیلوز کو، اِس سُنہرے موقع کو ہاتھ سے نکلتے دیکھ کر، کفِ افسوس ملَتے دیکھا تھا، جب میں، صدرِ شعبہ کے پاس، اپنے پروویژنل سرٹیفیکیٹ کو لینے کیلئے پہنچا تھا ۔
11 جون 1994ء کو میری درخواست و کاغذات دُرست قرار پانے پر، رولنمبر الاٹ کیا گیا اور تحریری امتحان کیلئے مورخہ 24 جون کو فورٹریس سٹیڈیم میں صبح 8 بجے بلا لیا گیا۔
باوجود، تما م مضامین کے امید واروں کا امتحانی سنٹر ایک ہی تھا۔ تعداد خاصی کم تھی۔ اصل میں تینوں چیزیں ہی خطرناک تھیں! یعنی، انگریزی ، فوج اور امتحان!
ہماری تو بات ہی کچھ اور تھی! ٹہرے، ’’خطروں کے کھلاڑی‘‘! ۔ پڑھنے پڑھانے کا شوق تو اپنے خون میں شامل تھا۔ انگریزی سے اپنا دوستانہ ’’شیروانی‘‘ صاحب کے زمانہ سے تھا! اور فوج کے ذریعے ہم اپنے خواب پورے کر نا چاہتے تھے۔ اس لئے بڑے جوش و جذبے اور تیاری کیساتھ امتحان میں اترے!
ایک ہی نشست میں، تاریخ ، انگریزی اور معلوماتِ عامہ کے پانچ پرچے ہوئے۔ ہمیں بتا یا گیا تھا کہ صرف کامیاب امیدواران کو ہی اِس سے اگلے مرحلے، یعنی انٹرویو کے لئے بلا یا جائیگا، جبکہ ناکام لوگ، بعد ازاں بیرون ممالک بجھوا دئیے جائیں گے!
آپکو تو شائد، اُمید ہو گی لیکن ہمیں تو اپنی کامیابی کا یقین تھا! چنانچہ ایسے ہی ہوا، اور ہمیں، امتحان میں کامیابی کا سندیسہ موصول ہو گیا۔ ساتھ انٹرویو کیلئے، اپنی ایم ۔اے کی سند، 10 جولائی تک جمع کروانے کا ’’آرڈر‘‘ بھی! تاکہ بات آگے بڑھائی جاسکے۔ میں وہ خط لیکر سیدھا، صدرِ شعبہ(پروفیسر اکرام علی ملک) کے پاس پہنچا اور انہیں یہ خوشخبری پہنچائی، آپ (روسی صدر بورس یلسن کی طرح سنجیدہ اور اُسی کیطرح بے حِس انسان تھے) ۔ مجھے فرمایا : کہ ’’میں یہاں رزلٹ بنانے تو نہیں بیٹھا! جب آئے گا تو مِل جائیگا۔ فی الحال پروویژنل سے کام چلاؤ‘‘! میں نے جنرل صاحب کو خط لکھا اور مزید مہلت کی درخواست کی۔ انہوں نے ازرہِ کرم 15 اگست تک کی مہلت دے دی۔ میرا خط اور جوابی تار بطور ثبوت موجود ہے۔
ہمارا رزلٹ جولائی کے آخرمیں متوقع تھا۔ اس دوران، مَیں یونیورسٹی کے پروفیسروں اور شعبہ امتحانات کے کلرکوں کے دفتروں میں، جلد رزلٹ کیلئے ایسے مد د مانگتا رہا جیسے کوئی مضروب، او نیگٹیو گروپ کے خون، کی ایک بوتل!
15 اگست آئی اور ’’دس محرم الحرام‘‘ کی طرح اُداس گز رگئی، لیکن ایم ۔ اے کا رزلٹ نہ آیا۔ میں اُن دِنوں گھر آیا ہوا تھا۔ آپی جرمنی جا چکی تھی اور ندیم احمد ربوہ میں زندگی، وقف کر چکا تھا! ۔ 26 اگست کو ایک اور خط آیا۔ جنرل صاحب کی طرف سے لکھا گیا تھا : ’’چونکہ آپ اپنی ڈگری جمع کروانے میں ناکام رہے ہیں، اس لئے اگلی تمام کاروائی روک کر آپکی فائل داخلِ دفتر کر دی گئی ہے‘‘۔
اُس روز، میں چوبرجی باغ کی طرح اکیلا نہیں تھا۔ میں، وہ خط، اپنی بڑی باجی شمیم کے پاس لے کرچلا گیا۔ اُس دن، ہم دونوں میں سے کوئی بھی نہیں رویا تھا۔ نجانے کیوں، پھر بھی ہم دونوں کے کندھے گیلے کیسے ہو گئے تھے؟
ستمبر کے وسط میں رزلٹ آگیا اور ہم اچھی خاصی حالت میں پاس ہو گئے تھے۔ پنجاب یونیورسٹی میں ساتویں پوزیشن آئی تھی۔ اس دوران، ایم۔اے انگلش کی تیاری بدستور جاری تھی، کلاس بہت اچھی جا رہی تھی، لیکن کورس جلد مکمل کرنے کیلئے، اپنے ایک کلاس فیلو کیساتھ، ایف۔سی کالج کے ایک نابینا پرفیسر صاحب کے پاس بھی کچھ اضافی مضامین پڑھنے کے لئے جانا شروع کر دیا تھا۔ آپ بھی بڑئے پائے کے استاد تھے ۔پورا، شیکسپیئر زبانی یا د تھا! آپ سے مل کر، اُس معروف محاورے کی تصدیق ہو تی تھی کہ ’’ہمارے ملک و قوم میں بڑا ٹیلنٹ ہے‘‘! کاش، ہم مسلمان بھی ہوتے!
پنجاب پبلک سروس کمشن کا امتحان: 1995ء
فوج کے دیکھا دیکھی، آخیر ستمبر 94 ء میں، اچانک 8/10 سال بعد، حکومتِ پنجاب کو بھی خیال آگیا۔کہ تاریخ کے مضمون کیلئے کم از کم 18 لیکچراروں کو رکھ ہی لیا جائے! یہ ذمہ داری، حسب ِآئین و دستور، پنجاب پبلک سروس کمیشن لاہور کو سونپ دی گئی۔ انہوں نے فوج کی نقل کرتے ہوئے، تحریری امتحان، میڈیکل اور انٹرویو میں کامیابی کو امیدواروں کیلئے لازمی قرار دیا۔ ہم بھی اِس دوڑ میں شامل ہو گئے۔
صوبہ پنجاب اور وفاق میں، تاریخ میں ریگولر ایم۔ اے کی ڈگری صرف، گورنمنٹ کالج لاہور، پنجاب یونیورسٹی، گورڈن کالج، راوالپنڈی، قائدِاعظم یونیورسٹی، اسلام آباد، گورنمنٹ کالج، سرگودھا، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور اور بہاوالدین ذکریا یونیورسٹی ملتان سمیت، کل 8 جگہوں پر کروائی جاتی تھی۔ اِس حساب سے سالانہ، قریباً 400 کے قریب ڈگری ہولڈر ز، ’’مارکیٹ‘‘ میں آتے تھے۔ اس طرح گزشتہ 8 سالوں میں کم از کم، تین ہزار لوگوں نے تو یہ ڈگری حاصل کی تھی۔ جبکہ کئی پرائیویٹ امیدواران بھی، اِس دوڑ میں شامل تھے۔
نومبر 1994ء میں، تاریخی گورنمنٹ اسلامیہ کالج، سول لائینز، لاہور میں، زنانہ اور اُس سے ملحقہ اسلامیہ پبلک ہائی سکول، میں مردانہ ٹیسٹ سنٹر بنایا گیا تھا۔ پنجاب و وفاق سے ہماری ’’برادری ‘‘کے ہزارہا، مرد وزَن، ٹڈی دل کے لشکر کی طرح وہاں موجود تھے۔ واللہ! کُھوئے سے کھُوا، چِھلتا تھا! کمرے، ہال، برآمدے اور گراونڈز، سب بھرے ہوئے تھے ۔ لاہور کی ضلعی انتظامیہ، اے ۔سی، ڈی۔سی، ایس پی، وغیرہ، سب اپنے اپنے، ماتحتوں کیساتھ وہاں موجود تھے۔ لاوڈ اسپیکر پر اعلانات ہو رہے تھے۔
بھلا ہو، پنجاب پبلک سروس کمیشن کا، جنہوں نے یہ تسلی دے دی کہ فقط، ایک ہی پرچہ سوالات ہو گا، سب کیلئے! اُس میں تاریخ کے مضمون کی تمام شاخوں سے، کُل ملا کر 10سوالات لیئے گئے ہیں، آپ نے، اُن میں سے صرف پانچ کے جوابات دینے ہیں۔ وقت ہے دو گھنٹے! اوہ مائی گاڈ۔۔۔۔اب کیا ہو گا؟ ہم تو، ہر امتحان میں پانچ سوال تین گھنٹوں میں کرتے آئے تھے۔ یہ کیسے ہو گا؟
اتنا بڑا ہجوم دیکھ کر پہلے ہی، اپنی کامیابی کا دھڑکا لگا ہوا تھا اور اُوپر سے یہ ’’تنگیاں‘‘ بھی! رنگ اُڑا جا رہا تھا۔ مجھ سے زیادہ قابل، نوجوان، خوبصورت ،خوش لباس اور ہرے بھرے لوگ موجود تھے۔ کئی سالوں سے پنجاب یونیورسٹی سے گولڈ میڈلسٹ، جنکی تصاویر، شعبہ کی دیواروں پر لگی ہو ئیں تھیں، نظرآرہے تھے۔ ایڈہاک لیکچرار، جن کا اب تجربہ بھی، اُنکی مدد کیلئے موجود تھا، وہ بھی اِس ریس میں، بڑی کثرت سے شامل تھے۔
اچانک بِگل بجا دیا گیا۔ اور سپین کے مقبول ومشہورِ زمانہ کھیل میں، استعمال ہو نیوالا بھینساؔ (یعنی، پرچہ) اِس پڑھے لکھے ہجوم میں چھوڑ دیا گیا۔۔۔۔ایکدم خاموشی چھا گئی! جیسے ۔۔۔بھینسا ۔۔بھینسے ۔۔کو ہی سانپ سونگھ گیا ہو!
پرچے کے ماتھے پر وہی ہدایات کندہ تھیں، جو قبل ازیں، لاوڈ اسپیکر پر دُہرائی جارہی تھیں۔ لیکن ایک اور ہدایت بھی تھی کہ کسی سوال کا جواب دو صفحات سے زیادہ نہ ہو! اور یہی وہ شقِ تھی، جو ’’فاصل و فارق‘‘ ثابت ہونے والی تھی، جس پر عمل پیرا ہو کرہی، آپ دو گھنٹوں میں پانچ سوالات حل کرسکتے تھے۔ لہذا، میں نے اللہ تعالیٰ کی بابرکت ذات پر توکل کرتے ہوئے، جُوا کھیل دیا۔
تاریخ کے وسیع مضمون کے مفصّل جوابات لکھنے کی روائت اور عادت تو، سب کو ہی تھی۔ یہاں، البتہ، ’’خارق عادت‘‘ کام دکھانے کی ضرورت تھی۔ ہمیں تو، اِس ٹرمنالوجی سے آگاہی، کلام حضرت مسیح ِموعودؑ سے، پہلے ہی سے تھی۔ چنانچہ، سوچ سمجھ کر، ضروری و نمایاں سُرخیاں باندھ کر، دو، تین لائنوں کی وضاحت دیتے ہو ئے، بفضل تعالیٰ، پانچوں سوالوں کے جوابات اچھے انداز سے، دو دو صفحات پر، مکمل کر لئے۔
اِس دوران میں نے محسوس کیا کہ 90 فی صد لوگ روایتی طور پر، اضافی پرچے لے لے کر اور لکھ لکھ کر ہلکان ہو رہے تھے۔ جبکہ، آج اِس کا م کے کرنے کا نہ ہی کوئی وقت تھا اور نہ ہی ضرورت! اُنکی اِس بے کار محنت کیوجہ سے، ڈر کے مارے میں نے بھی ایک دو بار، مذکورہ بالا شِق کو بغور دیکھا کہ کہیں مجھے غلطی تو نہیں لگ گئی؟ اور ساتھ ساتھ یہ دُعا بھی کر تا جاتا کہ خداکرے کہ جنابِ ممتحن صاحب بھی اِس شِق کو ضرور دیکھ اور پڑھ لے ورنہ میں تو گیا تھا کام سے!
ٹیسٹ کے شروع ہونے سے لیکر، اب تک کے حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ، اب میں اپنے آپ میں آگیا تھا۔ لیکن امتحان کے بعد، جب میں نے مزکورہ بالا شِق اپنے دوستوں کو دکھائی، تو انہوں نے میرا بڑا ’’ توا‘‘ لگایا۔ اور مجھے کوستے رہے کہ بے وقو ف! تاریخ کا مضمون ہو اور جواب دو صفحے! پہلے کبھی ایسے ہوا ہے جو اب ہوگا؟ جاؤ اور اگلے امتحان کی تیاری کرو!
دو ماہ بعد، جنوری میں نتائج، اخبار میں آگئے۔ تین ہزار میں سے صرف 506 امیدوار کامیاب قرار دئیے تھے اور پنجاب یونیورسٹی کے صرف دو طلباء اُن میں شامل تھے۔ یہ دونوں وہی تھے، جنہوں نے انگریزی زبان میں، تاریخ میں ایم ۔اے کیا تھا۔ اُن دو ’’بیوقوفوں‘‘میں یہ عاجز پہلے نمبر پر تھا۔ الحمدللہ ثم الحمد للہ !
سردیوں کے دنوں میں جیسے کسی نے گرما گرم یخنی کا کپ پلا دیا ہو! یہ حالت تھی اپنی!
لیکن بقول حضرت مصلح موعودؓ ۔۔۔کام مشکل ہے بہت اور منزل مقصود ہے دُور!
ابھی انٹر ویو کا سخت اور بڑا مرحلہ باقی تھا۔ 506 میں سے 488 لوگوں کو ڈراپ ہو نا تھا اور صرف 18 کو کامیاب! سفارش بھی، اگر چلنی تھی تو یہیں چلنی تھی۔ اور اس کا اِمکان بھی، وطنِ عزیز میں ردّ نہیں کیا جاسکتا تھا۔
بس! اللہ تعالیٰ کی ذات ہی تو تھی، جو ہمیشہ سے ہی مہربان رہی تھی۔ یہاں تک بھی، تو اُسکی رحمت سے ہی پہنچے تھے۔ لیکن، ’’ہنوز دلی دور است‘‘ والی بات تھی۔ اِن 506 میں سے صرف 18 گوہر چُنے جانے تھے۔ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا؟ اِس پل صراط کو پار کرنے کیلئے بھی، وہی حکمت عملی اپنانے کا ارادہ تھا۔ جسکے بل بوتے پر یہاں تک پہنچے تھے۔ وہ کیا تھی؟
میں ماں کے قدموں میں اور ماں جی، اپنے مولی ٰ کے حضور جُھک گئی ! اپنی سی کوشش کرنا فرض اور اُس ذاتِ باری پرتوکل کرنا، اپنا ایمان ٹہرا! ایک مہینہ میں ہی یہ منزل بھی طے ہوگئی۔ ایسی ہی آسان تھی، جیسے کہ پہلے والی آسان ہو گئیں تھیں۔۔۔ فروری بیتا مارچ آیا! کچھ نہ ہوا! اپریل آیا تو انٹرویوز کا شیڈول آگیا کہ انٹرویوز 2 مئی سے لیکر 22 مئی تک ہونگے اور میرا انٹرویو آخری روز تھا۔
کچھ سیانوں نے مشورہ دیا کہ روزانہ شملہ پہاڑی، کمیشن کے دفتر جانا چاہیئے اور انٹر ویو دیکر آنیوالوں سے اندرکی بات جاننا چاہیئے اور پوچھنا چاہیئے کہ کون کون بیٹھتا ہے؟ کیا کیا اور کیسےسوالات پوچھے جا رہے ہیں؟ اور رویہ کیسا ہے؟وغیرہ وغیرہ ! ہم بھی چُپکے، چُپکے، بغیر کسی کو بتائے چلے گئے۔ وہاں پہنچے، تو ایک میلہ لگا ہوا تھا۔ اند ر سے آنیولے کا باہر بڑا سا انٹرویو ہورہا تھا۔ ساری خبر لے لی۔ اگلے دن گئے، وُہی خبر، وہی باتیں! تیسرے دن گئے وہی کہانی! چوتھے روز ہم نہیں گئے۔ لاہور ہائیکورٹ کے ایک ریٹائرڈ جسٹس صاحب، انٹرویو کو ہیڈ کر رہے تھے۔ کبھی سیکرٹری ایجوکیشن خود اور کبھی انُکا قائم مقام میمبر آتا تھا، ایک میمبر پبلک سروس کمیشن کا اور ایک صدرِ شعبہ گورنمنٹ کالج سے اوردوسرا صدرِ شعبہ، پنجاب یونیورسٹی سے تھا۔ کسی بھی ادارے کا چیرٔمین، ہیڈ یا صدر شعبہ، اپنے ادارے کا سب سے سینیئر آدمی ہوتا ہے۔ وہ ہم جیسوں کا یا ر کبھی نہیں ہو تا کہ دوسروں سے سفارش کرتا پھرے۔ تاہم، یونیورسٹی سے ہم دوہی طالبعلم انٹرویو دے رہے تھے ۔ لہذا، اپنے چیٔر مین کی کچھ نہ کچھ سپورٹ تو ہمیں ملنی ہی تھی، لیکن باقی چار کا نہ تو نام معلوم تھا اور نہ ہی مقام !
ایکدن، میرے دوست الیاس چٹھہ نے مجھے کہا کہ چیرٔ مین صاحب، ڈاکٹر پرفیسر صادق علی گِؔل، مجھے یاد کر رہے ہیں۔ میں شام کو چٹھہ کے ساتھ، یونیورسٹی کالونی میں اُنکے گھر گیا۔جہاں اور بھی کئی لوگ بیٹھے تھے۔ وہاں بھی یہی موضوع زیر ِ بحث تھا۔ پرفیسر صاحب سے میں کچھ عرصہ سے ناراض تھا۔دو سال انہوں نے مجھے پڑھایا تھا۔اور ہمارے یوروپین ہسٹری گروپ اور میرے مقالے کے وہی انچارج تھے۔ میں نے بڑی محنت سے کام کیا تھا اور اس دوران، میں نہ صرف شعبہ کے دیگر اساتذہ کے انٹرویوز کررہا تھا، بلکہ ہمارے ہمسائے، شعبہ پولیٹکل سائنس کے صدر، پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکؔری صاحب سے بھی، جو حالیہ نگران حکومت میں، پنجاب کے نگران وزیر ِاعلی ٰ بھی رہے ہیں۔ اُن سمیت کئی لوگوں سے میری ملاقاتیں، انہیں اچھی نہ لگیں تھیں۔ لہذا، آپ نے مقالے کی چیکنگ اور راہنمائی میں کوئی دلچسپی ہی نہ لی۔ جب مقالے کا انٹر ویو ہوا، تو آپ اُس میں گونگے اوربہرے بنے رہے اور ساری ذمہ داری مجھ پر ڈال دی۔ میری، ایم ۔اے میں، بنی پوزیشن خراب کرکے، اِسلامیات گروپ کے بندے، ’’الیاس چٹھے‘‘ کو امتحان میں پوزیشن دِلوادی! اُسکے بعد، میں آپ سے کبھی نہ ملا تھا۔
سَر سمیت، ڈیپارٹمنٹ کے ہر بندے کو علم تھا کہ کیا سٹوری ہے اور گھر میں صرف ندیم احمد کو ! اب جب ، اُنکے سارے چہیتے اورچہیتیاں، ’’چٹھے‘‘ سمیت، اِس گیم سے آوٹ ہو چکے تھے، تو آپ نے مجھے یاد کیا تھا۔
مجھ سے پو چھا کہ تیاری کیسے چل رہی ہے؟ چٹھّے نے بتایا کہ ’’یہ وہاں کمیشن بھی جاتا رہا ہے اور اِسکو خوب پتہ ہے کہ وہاں کیا ہورہا ہے‘‘۔ آپ نے مجھ سے کچھ سوالات کئے اور کہا کہ ٹھیک ہے، تمھاری تیاری اچھی ہے ۔ گڈ لک!
اُس دن چٹھّے نے مجھے واپسی پر پہلی دفعہ، پیپسی کا کین بھی پلایا جو 30/35 روپے کا آتا تھا۔ ہم دونوں نے وہ آدھا آدھا پیا!
اگلے روز 21، مئی کو گورنر پنجاب، چوہدری الطاف حسین صاحب انتقال کرگئے۔ گورنر صاحب موجود ہ وفاقی وزیر، فواد حسین کے والد تھے۔ پنجاب میں سرکاری سطح پر سوگ اور چُھٹی کا اعلان کردیا گیا۔ سب سکول اور تعلیمی ادارے بند ! اگلے روز، یعنی 22 مئی کو جنازہ کی وجہ سے بھی، سرکاری کاروبارِ زندگی بند رکھنے کی خبریں، ریڈیو ، ٹی ۔وی اور اخبار پر آرہی تھیں۔
ُاسی روز یعنی 22 مئی کو ہی، صبح 11 بجے میراانٹرویو تھا۔ بڑی گو مگو کی کیفیت تھی، کہ انٹر ویو ہو گا کہ نہیں! آدھے لوگ ایک طرف اور آدھے دوسری طرف!
میرے پاس، سفید کاٹن کے کپڑوں کا ایک ہی اچھا جوڑا تھا، جومیں نے کئی دنوں سے الماری میں، لٹکا کے رکھا ہوا تھا۔ اُس کیساتھ، گولڈ رنگ کی ہلکی ویسٹ کوٹ پہننے کا پروگرام تھا۔ جبکہ بقیہ دنوں میں، جوگیوں کیطرح دھونی رما کر، دنیا جہان کا جنرل نالج اپنے دماغ میں اُنڈیل رہا تھا!
صبح نماز فجر کے بعد ہی میں نے نہا دھو لیا اور استری شدہ، کپڑوں کو تہہ کرکے، شاپر میں ڈالا اور صبح نو بجے، ہاسٹل سے نکل گیا تاکہ کسی قسم کے ٹریفک کے تعطل کا بہانہ نہ بن جائے۔ وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ انٹرویوز، تو شیڈول کے مطابق جاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا اور ایک چوکیدار کے کمرے میں جا کر کپڑے تبدیل کیے۔ گندے کپڑے وہیں رکھے اور انتظار گاہ میں جا بیٹھا۔
تھوڑی دیر بعد میرا نام پکارا گیا۔ جج صاحب نے بڑے پیار سے میرے کوائف، میری زبانی معلوم کئے۔ کچھ بنیادی سوالات ، پاکستان اور حالات ِ حاضرہ سے متعلق کیئے۔ پھرایک ایک کرکے باقی میمبران نے بھی سولات کیئے ۔ بفضلِ تعالیٰ، تمام جوابات تسلی بخش جارہے تھے۔ اور کوئی ایسا سوال نہ تھا جو میرے لئے انجانا تھا۔ آخر میں، ڈاکٹر گِل صاحب سے کہا گیا کہ آپ سوال کریں۔ ڈاکٹر صاحب نے، ازراہ شفقت وہی سوال کئے جو وہ اکثر لوگوں سے کرتے آرہے تھے۔ البتہ، ڈاکٹر صاحب کے آخری الفاظ بڑے غور طلب تھے۔ آپ نے کہا: ’’ویل ڈن نعیم! مجھے پتہ ہے کہ تم ایک بہت محنتی نوجوان ہو۔ یُو ڈِزرو دِس پوزیشن! (یعنی تم اِس ملازمت کے اہل ہو)
انٹرویو ختم !
اُس رات، میں دارالحمد میں تھا ! جون کا آخر تھا اور نمازِ فجر کے بعد دوبارہ سو گیا تھا۔ کوئی نو بجے کے قریب، مجھے عزیزی سمیع الحق نے اٹھایا! کہ نعیم صاحب مبارک ہو، آپ سیلیکٹ ہو گئے ہو! آپکا نتیجہ آگیا ہے اور آپکا نام اخبار میں آیا ہے۔ میں بھاگم بھاگ میس میں پہنچا جہاں اخبار، لوہے کے کُنڈے میں جکڑے ہوتے تھے، تاکہ کوئی اِنکو اپنے کمرے میں نہ لے جائے! کچھ اور لڑکے بھی کھڑے تھے۔ میں نے دیکھا کہ لکھا تھا کہ’’ تحریری امتحان اور انٹرویو کے بعد، درج ذیل 18 امیدوارن کامیاب قرار دیئے گئے ہیں۔ میرا نام لسٹ میں ساتویں نمبر پر تھا، نعیم احمد ولد بشیر احمد! اور یونیورسٹی سے میرا دوسرا ساتھی، فراز انجم خان بھی نویں نمبر تھا ۔
میں فوراً سامنے والے کمرے میں، جو بطور مسجد کے استعمال ہو تا تھا، خداتعالیٰ کے حضور، سجدہ شکر بجا لایا۔ پہلی اِطلاع، اپنی والدہ صاحبہ کو دینے کیلئے، اپنی سائیکل پر ہی، مارکیٹ گیا اور فون کیا۔
لگتا ہے ایک سال قبل، اعتکاف کے دوران میں کی گئی، ساری آہو زاریاں، سُن لی گئی تھیں۔ فوج میں کپتانی تو نہ مل سکی لیکن کالج میں لیکچراری، ضرور مل گئی۔ الحمدللہ! واللہ اعلم باالصواب۔
جولائی میں، میڈیکل سرٹیفکیٹ جمع کروانے کے بعد، کمیشن کا نوٹیفیکیشن ہوا۔ دو ماہ بعد، گورنمنٹ کی منظوری ہوئی، پنجاب کے سرکاری گزٹ میں نام آیا۔ لیکن کالجوں میں تقرری کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہیں تھا۔ کئی دفعہ سرکاری دفتر وں کے چکر لگائے۔ لیکن ، وہاں کے کلرک بادشاہ، ہمیں گھاس ہی نہ ڈالتے تھے! لہذا، باہر، ریڑھی سے نان چنے کھانے پڑتے تھے۔ خبر یہ گرم تھی کہ گونمنٹ کے پاس پیسے ہی نہیں، ان 18 لیکچراروں کے پیٹ پالنے کو!
لیکچرار، گورنمنٹ ڈگری کالج، وزیرآباد: 1995ء
کمیشن کے نتائج نکلنے کے 6 ماہ بعد مورخہ 16 نومبر کو بذریعہ رجسٹری اطلاع ملی کہ مولانا ظفر علی خان ، گورنمنٹ ڈگری کالج وزیرآباد میں ہماری تقرری طے پائی ہے۔ دل صاحب نے خواب تو، لاہور یا پھر حافظ آباد کے سجائے ہوئے تھے۔پر، جناب، دماغِ عالی نے کہا کہ نوکری کیہ، تے نخرہ کیہ! 18 نومبر 1995ء بروز ہفتہ، کچھ سہمے اور کچھ ڈرے ڈرے سے، وزیرآباد پہنچے اور وہاں سے پوچھتے پچھاتے، گلیوں بازاورں سے ہو تے ہوئےکالج پہنچے۔ حافظ آباد کیطرح ، وہاں بھی کالج، شہر کے آخری کنارے پر واقع تھا۔ ہماری ’’آمد‘‘ کی اطلاع ، پہلے سے ہی بذریعہ رجسٹری وہاں پہنچ چکی تھی ۔ ہمارا انتظار ہو رہا تھا۔ پرنسپل صاحب چوہدری محمداحسن گوندؔل صاحب نے استقبال کیا۔ انہوں نے چھوٹتے ہی بتایا کہ میں پچھلے دو سال سے قائم مقام پرنسپل ہوں۔ ساتھ بیٹھے، آپکے ساتھیوں نے اضافہ کیا کہ ہماری توخواہش ہے کہ آپ یہاں سے بطور ’’قائم مقام پرنسپل‘‘ ہی ریٹائرڈ ہوں! ایک قہقہہ بلند ہوا! پھر دے دھنادھن! فارم پے فارم، پر دستخط ہونے لگے۔’’افسری شروع! وہ چھوڑیں، تو میں شروع، میں چھوڑوں تو وہ شروع! چائے پی، کچھ اساتذہ سے تعارف ہو ا۔ ٹائم ٹیبل ملا۔ کالج کا چکر لگوایا گیا۔ اور پھر سوموار کو ملنے کے وعدے کیساتھ وہاں سے رخصت ہوگئے۔
واپسی کا سماں پہلے کی نسبت بہت مختلف تھا۔ اعتماد اور سکون سے بھر پور نظر، چال میں ایک وقار اور دماغ میں روشن مستقبل! ہر چیز، جو پہلے بکھری ہوئی اوراپنی جگہ سے ہلی ہو ئی نظر آرہی تھی، اِن دو گھنٹوں میں ہی، سمٹی ہوئی، اور اپنی درست جگہ پر آگئی تھی۔گُرو محلہ کی تنگ اور بل کھاتی گلیاں، نتھیا گلی سی لگ رہی تھیں اور مین بازار اور ریلوے بازار، مال روڈ، لاہور سے نظر آ رہے تھے! وزیرآباد کتنا خوبصورت شہر ہے! گھروں اور دوکانوں سے نکلتی، چلتی موٹروں کا شور، جابجا ہتھوڑوں کی ٹھا ٹھا، چھریوں کے ساّنوں پر تیز کئے جانے کا شور، صنعتی ترقی کا خوشنما ، ’’ساز‘‘ لگ رہاتھا۔ راستے میں ایک جگہ چائے کیلئے رکا! کیفے میں ،شہر کے ایک، خوش لباس اور جہاندیدہ صورت بزرگ، بھی چائے نوش کررہے تھے۔کچھ دیر بعد، بولے، آپ یہاں وزیرآباد سے نہیں لگتے! میں نے اثبات میں جواب دیا۔ کیا کرتے ہیں؟ میں نے، خود کو ’’مضبوط‘‘کرتے ہوئے، زندگی میں پہلی مرتبہ، اپنا تعارف کروایا کہ ’’ لیکچرار ہوں، یہاں کالج میں! ‘‘بات سے بات چل نکلی! موصوف نے اپنا تعارف، محمد یعقوب کاشمیرؔی کے نام سے کروایا اور بتایا کہ صحافی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد، بولے، آپکا پرنسپل چوہدری احسن، بہت قابل ، اچھا اور نیک انسان ہے ۔ میں نے کہا، جی درست فرمایا جناب نے! بولے، بس ایک خرابی ہے اُس میں! میں فورا ً چونکا اور بڑی بے تابی سے پو چھا کہ وہ کیا؟ بولے، مرزؔائؔی ہے! میں نے اپنے، گرتے ہوئے کپ کو بمشکل سنبھالا! اور ٹرین کے وقت کا بہانہ کرتے ہو ئے، جلد وہاں سے اُٹھ گیا۔ راستے میں اِس بات پر خوش بھی ہورہا تھا اور یہ سوچ بھی رہا تھا کہ کاش پہلے سے پتہ ہوتا!
سی۔ ایس۔ ایس کا پہلا امتحان: 1996ء
ایم ۔اے انگلش کی تیاری، گزشتہ 6 ماہ کے دوران کچھ سُست ہو چکی تھی۔ اُسکی وجہ، جون میں، ملازمت کی امید بندھ جا نا تھا ۔ ابھی نومبر میں ملازمت شروع ہوئی جبکہ امتحانات جنوری میں متوقع تھے۔ نئی نئی نوکری کیساتھ، یہ اب ممکن نہ تھا۔ لہذا، انگلش و تاریخ کے مضامین سے اچھی شناسائی، فوج اور پبلک سروس کمیشن کے دو امتحانات سے کامیابی کے بعد، اب اگلی منزل کی تیاری شروع کردی۔ 8 ماہ بعد، ستمبر 1996ء میں، سول سروس کے امتحانات ہو نیوالے تھے۔ اُنکا ارادہ کرلیا!
جنوری 96 ء سے آخرجون تک، میں صبح 7:15 والی گاڑی سے وزیرآباد کیلئے نکلتا۔ اور شام 5 بجے گھر پہنچتا! پڑھائی کیلئے وقت اور طاقت دونوں ناپید ہو تیں۔ کالج میں میرے ساتھ جوائن کرنیوالے تین اور دوست، ندیم اسد (انگریزی) محمداکرم (پولیٹکل سائنس) اور محمودالحسن شاہ (اردو، ایڈہاک) بھی اِسی امتحان کی تیاری کررہے تھے، اور میری طرح ہی، مسافر تھے۔ اس دوران، شبیر حسین شاہؔ صاحب، گوجرانولہ کالج سے بطور پرنسپل تعینات ہو چکے تھے۔ آپ ایک کاروباری ذہن کے آدمی تھے۔ انہوں نے کہا کہ کیوں نہ آپ لوگ، یہیں کالج میں واقع ، پرنسپل ہاؤس (جو کہ خالی پڑا ہے) میں رہیں اور مل کر تیاری کرلیں! آئیڈیا بُرا نہیں تھا۔سب نے پسند کیا۔ ہم سب کا آنے جانے کا وقت اور کرایہ بھی بچتا تھا۔ لہذا، ہم وہاں منتقل ہوگئے۔
ہر ایک کا الگ الگ کمرہ، آگے پیچھےگارڈن اور کھلے دالان ! مفت کا پانی اور بجلی! حتی ٰ کے چارپایئاں، کرسی، میز سب سرکاری! کالج کا چوکیدار، مالی، اور چپراسی، سب ہمارے تابع تھے۔ ہم سرکاری رہائش گاہ میں، خود کو بطورسرکاری ملازم کم، سرکاری افسرزیادہ سمجھنے لگے! اِس سے بھی بڑھ کر، جنابِ پرنسپل صاحب، تمام ماتحت افسروں، کو یہ بھی بتاتے، اوئے حرام خورو! صاحبوں کا خیال رکھا کرو! کل کو انہوں نے اے۔سی ، ڈی ۔سی بن جانا ہے! یہاں پڑھائی کم البتہ ڈسکشن خوب جاندار ہوتی! ہمیں، اگر اِسکا کوئی نقصان نہیں ہوا، تو فائدہ بھی، بہرحال کوئی نہ ہوا۔ روز بیڈمنٹن و کرکٹ کھیلتے، بازار کا کھانا کھاتے! گھر سے میرے کزن اعجاز اور فیاض بھی آتے اورکئی کئی روز قیام کرتے۔
محمدندیم اسؔد کا تعلق، علی پور چٹھہ سے تھا۔ اُسکے والد ، وہاں کالج میں پرفیسر تھے۔ جبکہ والدہ ہائی سکول کی ہیڈٹیچر! یہ تین بہن بھائیوں میں سے بڑا تھا اور گھر کا لاڈلہ بھی ! بہت سمارٹ، ذہین اور پرُ اعتماد! اوپر سے، انگریزی میں لیکچرار! ہم دونوں، ایک ہی ٹرین سے وزیرآباد پہنچتے تھے۔ وہ میرا معترف اور میں اُس سے متاثر! سی ۔ایس۔ایس کی باتیں ہر وقت چلتی رہتیں!
محمد اکرم راناؔ، بہت نفیس اور سمارٹ نوجوان تھا لیکن ہم دونوں سے نسبتاً کم ذہین! اُسکے والد، پنجاب ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ میں بڑے افسر تھے، جبکہ بڑابھائی، سول سروس میں تھا۔ جسکے گھر واقع جی۔او۔آر کالونی میں ہی یہ بھی رہتا تھا۔ ہمیں لگتا تھا کہ اگر سی۔ایس۔ایس میں، کسی کا کچھ بھلا ہوا تو ا ِسکا ہو جائیگا! کرکٹ کا دیوانہ اورخود بھی اچھا کھلاڑی تھا!
محمود الحسن شاہ! وزیرآباد کے نواحی گاوں سے ایک ’’ کریکٹر‘‘تھا۔ ایم۔اے اردو ریگولر جبکہ پرائیوئٹ طور پر، لاء کے علاوہ کئی مضامین، میں ایم۔اے کیا ہوا تھا۔ لیکن کسی پیرومرشد کی بدولت، اردو کے مضمون، میں ایڈہاک لیکچرار بھرتی ہو ئے تھے۔ آپکے والد، یہیں وزیر آباد میں پولیس کانسٹیبل تھے اور جناب بھی کبھی کبھی یونیفارم پہن کر، اُنکے ساتھ ناکہ وغیرہ بھی لگا لیتے تھے!
ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ پرنسپل صاحب نے کہا کہ پانچسو روپے فی کس، ماہا نہ کرایہ دےدیں! غصہ تو بہت آیا لیکن کیا کرتے، اب پرنسپل صاحب سے بنا کر بھی تو رکھنی تھی۔ آخر، کالج میں رہنا تھا اور امتحان کیلئے چھٹیاں بھی چائیں تھیں۔ چُپ کر کے پیسے دے دیئے!
اکرم کی نئی نئی شادی ہوئی تھی، اُس نے کہا کہ بیوی نہیں مانتی سَر! ایک ماہ بعد، وہ چھوڑ گیا ۔باقی رہ گئے تین(چوہے)! ندیم اسؔد ، ہم سب کا سَرخیل تھا۔
مودؔے(محمود الحسن) نے بھی اُستادی دکھانی شروع کردی! حسبِ عادت وہ پہلے ، پرنسپل کا ٹاؤٹ بنا اور پھراُنکی طرف سے ہی ’’پرنسپل ہاوس ‘‘ کا انچارج بنا دیا گیا ۔ اگلے روز ندیم اسد، بھی لاہور میں سول سروس اکیڈیمی میں داخلے کے بہانے نکل گیا۔ باقی رہ گئے دو، یعنی میں اور وہ!
میری تو اُس سے، پہلے دن سے ہی نہیں بنتی تھی۔ لہذا، میں بھی گھر واپس آگیا۔ اِس دوران ایک روز، سمیعؔ، داودؔ، اور عمرؔ تینوں بھائی بھی، مجھے ملنے آئے تھے۔ ساتھ میں وہ کھانے پینے کا اچھا خاصا سامان بھی لیکر آئے۔ اعجاز میرے ساتھ تھا ۔ اِن خوبرو، نوجوانوں ، اِنکی نئی گاڑی اوراِنکا ’’کھاجا ‘‘دیکھ کر، مودؔا، اِن تینوں کے ’’دیوالے ‘‘ ہی ہو گیا ۔ کھا تا جائے اور اِن بھائیوں کو امپریس کرنے کے چکرمیں، ہمیں کوئی بات ہی نہ کرنے دے۔ چنانچہ ہمیں، سیر کے بہانے، باہر جانا پڑا! گنوار کہیں کا!
خیر، اکتوبر میں امتحان ہوئے ، اچھے ہوئے۔ نتائج آئے۔ میں اور ندیم اسؔد پاس ہو گئے۔ لیکن اکرم اور مودا پاس نہ ہوسکے۔ میرے54 فیصد اور ندیم کے 58 فیصد نمبر آئے! ہم جیسوں کیلئے یہ بہت بڑی کامیابی تھی کہ سی۔ایس۔ایس کے تحریری امتحان میں پاس ہو گئے تھے۔ جبکہ اکرؔم اور موداؔ، انگریزی میں فیل ہو گئے تھے۔ بدقسمتی سے، رزلٹ کارڈ کے آخر پر تحریر تھا کہ ’’انٹرویو کیلئے 60 فیصد نمبر درکار ہیں‘‘۔
یہاں میں اپنے سارے جاننے والوں کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ میں نے دو مرتبہ فوج میں کمیشن کیلئے، ایک دفعہ پنجاب پبلک سروس کمیشن اور دو مرتبہ ہی، فیڈرل پبلک سروس کمیشن یعنی سی۔ ایس۔ایس کے تحریری امتحانات دیئے۔ اور بفضل تعالیٰ تمام میں کامیابی حاصل کی۔ کہیں پر بھی احمدی ہونے کیوجہ سے ناکام قرار نہیں دیا گیا تھا۔ کیونکہ جوابی پرچہ جات پر کبھی آپکے مذہب کے بارہ میں کوئی اشارہ تک نہیں ہوتا۔ آپ اِسی مضمون کے حصّہ اوّل میں، کوہاٹ میں میرے انٹرویو کا احوال پڑھ آئے ہیں۔
الحمدللہ! ایم۔اے کرنے کے بعد، دوسرے فوجی امتحان، پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان، لیکچرار بننے، اور اب فیڈرل سول سروس کے تحریری امتحان میں کامیابیوں کے بعد، ہم اِس قابل ہو گئے تھے کہ کوئی باشعورشخص یا خاندان، باہوش وحواس، اپنی دُختر نیک اختر، ہمارے ساتھ بیاہنے کی غلطی کر سکتا تھا! میرے دوست سمیع الحق ورکؔ نے اپنی نوجوانی اور نادانی کے زور میں، اپنے والدین کو اِس ’’قربانی‘‘ پر راضی کر لیا تھا۔ اُنکی قسمت!
ہماری خانہ آبادیاں:
25 دسمبر 1996ء کو ہماری ’’رسمِ مہندی‘‘ کے موقع پر، پورے ملک میں چُھٹی اور چراغاں کیا گیا تھا۔ اعلیٰ حکومتی ، فوجی اور سول افسران کے گھروں اور دفتروں پر بھی دعوتوں کا اہتمام تھا۔ میرے تایا جان مرحوم اور میری والدہ محترمہ سمیت، خاندان کے سب چھوٹے بڑے، میری اِس خوشی اور کامیابیوں پر، بہت نازاں تھے۔
پورے پاکستان سے، سینکڑوں لوگ اگلے روز، وینس چوک، سیالکوٹ میں ہاتھوں میں ہار لیئے، احتجاج ۔۔۔اوہ! سوری، استقبال کیلئے موجود تھے۔ اسی طرح کا ایک ہجوم، تقریبات کے تیسرے روز، مورخہ 27 نومبر کو برموقع دعوتِ ولیمہ، گورنمنٹ مسلم ہائی سکول کی تاریخی گراونڈ میں بھی سہ پہر کے وقت موجود تھا۔ شام کو سیالکوٹ سے لیٹ آنیوالی ایک ’’سسرالی ریلؔی‘‘نے، ’’تمبو کناتیں‘‘ تک اکھاڑ دیں تھیں۔ کچھ ’’خیر پسندوں‘‘نے ہوائی فائرنگ بھی کی! بظاہر تما م معاملات، خیر و خوبی اور بخوشی انجام پا گئے۔ لیکن اُس وقت تک ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ چچا، ’’ غالؔب حسین‘‘مرحوم کا کلام کبھی ختم نہیں ہو گا۔ اور آپکے ہی بقول:
لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل وجاں اور
کچھ زخم مجھے اے مرے، مرہم نظرآں اور!
ہماری وزیراں آبادیاں:
لیکچرارشپ، میرا من پسند شعبہ تھا جسکا انتخاب میں نے اپنے آبائی پیشہ، میڈیکل پریکٹشنر کو چھوڑ کر، بذاتِ خود، برضاو رغبت، اختیار کیا تھا۔میرے طلباء، میرے کولیگ، میرے پرنسپلز، میرے کردار اور کارکردگی سے بہت خوش تھے۔ اپنے سکول کے زمانے کے اکثر، اساتذہ کے برخلاف، میں نے علم کی ترویج پر زور دیا۔ یونیورسٹی کا سٹائل، وزیرآباد جیسے چھوٹے کالج میں متعارف کروایا۔ بی ۔اے کی کلاس کیساتھ بڑا ہی دوستانہ تعلق رکھا تھا۔ مجھ سے پہلے ایک ایڈہاک دوست جناب نصرؔت حسین صاحب، تاریخ پڑھاتے تھے۔ آپ نے پرائیویٹ ایم۔ اے کر رکھا تھا ۔ شاہدرہ سے روزانہ، بذریعہ ریل کار آتے، جاتے اور دیہاتی لڑکوں کو، انگلش کی ٹیویشن پڑھانے پر زیادہ توجہ دیتے۔ مجھ سے ملنے پر، آپ نے میری ’’تاریخی اہمیت‘‘ کے پیش ِنظر، اپنا سارا بوجھ مجھ پر ڈال دیا، جسے میں نے بخوشی قبول کیا۔ آپکی خوش قسمتی، کہ جلد ہی آپکا تبادلہ، آپکے گھر کے قریب، شرقپور کالج میں ہوگیا۔ اور خاکسار دو سال میں ہی صدرِ شعبہ تاریخ و مطالعہ پاکستان بن گیا۔ میرے ماتحت ایک ایڈہاک لیکچرار، لا لہ موسیٰ سے آنیوالا لڑکا اور ایک ریگولر لیکچرر، لاہور سے مطالعہ پاکستان پڑھاتا تھا۔ علاوہ ازیں، کالج کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ لائبریری و شعبہ امتحانات، کی ذمہ داریاں بھی مل گئی تھی۔ 1997ء کی گرمیوں کی چھٹیوں میں، میں نے لائبریری کے دو سٹاف میمبرز کیساتھ مل کر، ساری لائبریری کی صفائی ستھرائی اور تمام دستیاب کتابوں کی کیٹلا گنگ (فہرست اور ترتیب ) کا مشکل فریضہ، بڑے شوق اور ذاتی محنت سے انجام دیا۔
اِسی طرح، شعبہ امتحانات کیلئے مخصوص، ایک وسیع کمرے (دفتر) کا فرش بنوا یا، سفیدی کر وائی، الماریوں کو سالوں بعد مرمت کروا کر، اپنے گھر سے گھڑی، اور کچھ آرائشی سامان وغیرہ لا کر، پردے لگوا کر، اِس قدر خوبصور ت بنایا کہ قسم سے، پرنسپل سمیت اکثر اساتذہ وہیں آکر بیٹھنے لگے تھے۔ میرا رجسٹر اور دیگر سامان بھی وہیں میری الماری میں ہو تا تھا۔ ہمیں ایک بڑا سلجھا ہو ا اور محنتی کلرک اور ایک عدد چپراسی الاٹ تھا۔ کلرک کا نام ملؔک خالد تھا۔ اِس سے قبل کئی سال گرلز کالج میں تعینات تھے، جہاں انکی اہلیہ بھی کلرک تھیں۔ اِسی وجہ سے، انتہائی نفیس اور بے لوث آدمی تھے۔ وزیرآباد کے ایک کاروباری خاندان سے تعلق تھا۔ انُکی اپنی ایجنسیاں تھیں اور شام کو اپنا کاروبار بھی دیکھتے تھے۔اُنکی مالی حالت ہم سے بھی اچھی تھی۔ ایجنسی سے بسکٹ وغیرہ لا کر، یہاں دفتر میں رکھ دیتے تھے۔ کبھی ختم نہ ہونے دیتے تھے۔اپنی چائے بھی ہم یہیں، بنانے لگ گئے تھے۔ ہمارے اپنے ملک سلیم صاحب کی طرح، بڑے باوضع اور محنتی انسان تھے۔ احمدیت کے بارہ میں مثبت سوچ رکتھے تھے اور وزیرآباد کے ایسے بہت سے لوگوں کو بھی جانتے تھے جو مرورِ زمانہ کی بدولت، احمدیت سے ناطہ توڑ چکے تھے۔
ہم سب مل کر، کالج کے امتحانات کے نظام کو، ممکنہ بہترین سطح تک لے گئے تھے۔ پرنسپل صاحب، اکثر اپنی سرکاری میٹنگوں میں اور کالج کی تقریبات کے موقع پر، ہمارے اِن کارناموں کا کریڈٹ، ازراہ کرم ’’خود ‘‘ ہی لے لیا کرتے تھے۔ ہم بھی زیر ِلب مسکرا اور دل میں حقیقتاً ’’ کُڑھ ‘‘لیتے تھے۔
شاہد عصمت بھٹؔی صاحب، (اکنامکس کے) مجھ سے ایک سال سینئر اور میرے بڑے اچھے دوست تھے۔ انہوں نے ہی میرا نام بطور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ تجویز کیا تھا۔ وہ گکٹھر کے مقامی سیاسی اور کاروباری خاندان سے متعلق تھے۔ اپنے کالج اور دیگر ساتھیوں کے، دفتری و سیاسی کام، ہمارے شعبہ اردو کےایک جہاندیدہ اور سمجھدار دوست، پرفیسر نذیر اعواؔن صاحب کیساتھ مل کر کرواتے تھے۔ شاہؔد صاحب کے دُور پار کے کوئی عزیز احمد ی بھی تھے ۔ لہذا، وہ ایسے مواقع پر، ہمیشہ میرے ساتھ کھڑے رہتے تھے۔ ملک صاحب (کلرک)، وزیرآباد میں ہمارے بڑے بااثر ، احمدی خاندان، میاں غلام احمدصاحب مرحوم وغیرہ کیساتھ گہرے خاندانی روابط رکھتے تھے۔ نیز، کالج کے وہ اساتذہ ، جو اِسی کالج سے پڑھے ہو ئے تھے، وہ ایک زمانے میں، چوہدری محمد احسن صاحب (احمدی ) کے شاگرد بھی رہ چکے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب لیکچراروں کی کمی کیوجہ سے، آپ، اکنامکس کے علاوہ انگریزی بھی پڑھاتے تھے۔ لہذا، کالج میں احمدیت کیوجہ سے قطعاً کوئی مسلہ نہیں تھا، الحمدللہ ! میری برات اور ولیمے پر بھی، شعبہ اسلامیات سمیت، تقریباً سارا سٹاف ہی شامل ہواتھا۔ ماشاءاللہ ! سارے کولیگ ہی معتدل مزاج کے مالک تھے۔ بلکہ ایک حد تک، مجھے اپنا نقطہ نگاہ بھی بتانے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ اس ضمن میں پرنسپل، شبیر حسین شاہ کا کردار بھی قابل ستائش تھا۔ وہ چونکہ ایک بہادر اور نڈر شیعہ تھے۔ لہذا، جب بھی سُنیّوں کے خلاف بات کرتے ، تو اہلحدیثوں یا احمدیوں کو اپنی طرف سے بطور مدد شامل کرلیتے۔
18نومبر 1994ء سے لیکر 25 ستمبر 2003ء تک قریباً9 سال کا عرصہ میں نے یہاں وزیرآباد میں گزارا۔ فقط 3 /4 ماہ کیلئے ہی میں حافظ آباد کالج میں ڈیپوٹیشن پر گیا تھا۔ یہاں کی جماعت اور مقامی لوگوں نے بڑا پیار اور عزت دی۔ کالج میں، اللہ تعالیٰ کے فضل اور اپنی محنت سے ایک مقام بنایا۔ ہم دونوں احمدی اساتذہ کا بڑا احترام تھا ۔ الحمدللہ! کالج میں سالانہ کئی تقاریب بڑی باقاعدگی سے منعقد ہو تیں تھیں۔ یوم آزادی، 14 اگست، یوم دفاع 6 ستمبر (جو ہماری منگنی کیوجہ سے، اب ’’یوم ِتسخیر ‘‘کے طور پر بھی منایا جاتا ہے) اور سب سے بڑھکر، یوم ِ( مولانا )ظفر علی خان، ہر سال مورخہ 27 نومبر کو بڑی شان سے منایا جاتا تھا۔ صبح صبح مرکزی تقریب، کالج سے دو ڈھائی میل دُور، اُنکےآبائی قصبے، ’’ کرم آباد‘‘، میں اُنکے مزار پر، پھول چڑھانے اور فاتحہ خوانی سے شروع ہو تی ۔ بعد ازاں، سب سے بڑی تقریب، کالج کے بڑے ہال میں منعقد ہو تی، جس میں شہر و ضلع کے میمبران ِقومی و صوبائی اسمبلی، عمائدین ِشہر، صحافی حضرات، سول انتظامیہ اور پولیس کے اعلیٰ افسران بھی شریک ہوتے۔ اس موقع پر، ہمیں بھی، بطور صدرِشعبہ تاریخ، اظہارِ خیال کا موقع ملتا۔ لوگ اِس نوجوان مورؔخ کی باتیں، بڑی دلچسپی ، حیرانی اور کسی قدر غیر یقینی سے سنتے۔ کیونکہ لوگوں کی نظر میں، چہرے پر بزرگی اور بالوں میں چاندی، ایک مورؔخ کی سچائی کا واضع ثبوت ہوتا تھا، جو یہاں کلُیتاً غائب ہوتا۔ بہر حال یہ ایک اعزاز کی بات تھی، جو فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی کے کسی پروفیسر کو حاصل نہ تھی ۔
وزیرآباد شہر کی دھرتی نے کئی نامور لوگوں کو جنم دیا تھا۔ مولانا ظفرعلی خان کے علاوہ، مشہور کالم نگار اور شاعر جناب مُنّوں بھائی اور عطاءالحق قاسمی ؔصاحب کا تعلق بھی، یہیں سے تھا۔ ان پروگراموں میں، یہ دونوں حضرات بھی اکثر شامل ہو تے رہتے تھے۔ مجھے بھی ان دونوں حضرات سے ملنے کا کئی مرتبہ اتفاق ہوا۔ جسٹس (ریٹائرڈ) افتخاراحمد چیمہؔ، اُنکے چھوٹے بھائی، سابق آئی ۔جی موٹر وے پولیس، ذوالفقار چیمؔہ،سابق وفاقی وزراء حامد ناصر چٹھؔہ ، کرنل (ریٹائرڈ) غلام سرور چیمؔہ وغیرہ سبھی یہاں کے قریبی دیہات میں سے تھے اور اِن پرگراموں کیوجہ سے، ان سب سے بھی ملاقات رہی !
خانہ بدوشیاں!
ملازمت میں بڑااچھا وقت گزر رہا تھا۔ سوائے مالی مشکلات کے! پہلی تنخواہ جو ملی وہ تین ہزار آٹھ سو روپے تھی۔ ماہانہ ریلوے پاس 500 روپے جبکہ دو تین سو روپے، مہینہ بھر میں آتے جاتے ، کچھ کھانے پینے میں صرف ہو جاتے تھے ۔منگنی، شادی اور اُسکے بعد کے اللّے تلّلوں میں، تنخواہ صاحبہ اِس طرح غائب ہو جاتیں، جیسے گدھے کے سر سے سینگ! ابھی تلک اپنے پیروں پر کھڑے نہ ہوسکے تھے۔
اِس دوران، میرے دوستوں شاہد عصمت، نذیر اعوان اور ندیم اسد وغیرہ نے مل کر، ایک ٹیویشن اکیڈمی بنانے کا پرگرام بنایا اور مجھے بھی اس میں، انگریزی پڑھانے کوکہا! س مقصدکیلئے مجھے وزیر آباد میں رہائش رکھنا تھی۔ کیونکہ ٹیویشن کے بعد، حافظ آباد جانا ممکن نہ تھا۔ لہذا، میں نے محترم میاں غلام احمد صاحب، جو وزیرآباد شہر کےایک معزز رئیس، مقامی امیر اور ضلعی امیرجماعت رہے تھے، سے کہا کہ کوئی جگہ کا انتظام ہو سکتا ہے؟ آپکے خاندان کا، وزیرآباد اور گردو نواح میں وسیع کاروبار اور پراپرٹی تھی۔ کالج کے پاس ہی، سیالکوٹ روڈ پر اُنکا ایک وسیع کارخانہ /سٹور تھا جو اب، زیرِاستعمال نہیں تھا۔ اُسکی بالائی منزل پر، ایک اچھی خاصی رہائش گاہ بنی ہوئی تھی۔ دو بڑے، ایک چھوٹا کمرہ، کچن، باتھ روم، ٹوائلٹ اور ایک کھلا صحن! آنمکرم نے بڑی بشاشت سے وہ جگہ، بلا معاوضہ، رہنے کیلئے دے دی۔ ہم دونوں میاں بیوی، عزیزی سلمان کے ساتھ وہاں منتقل ہوگئے! ظاہر ہے، کچھ مسائل آتے ہیں زندگی میں، وہ ہمیں بھی آئے۔ مثلاً پانی والی موٹر خراب ہوگئی۔ دو دن پانی کی بڑی تکلیف رہی، وہ سیالکوٹ سے آگئی، باتھ روم خراب تھا، وہ درست کروالیا۔ گھر کھلا اور بڑا تھا ۔سردی شدید تھی، گیس کی لوڈ شیڈنگ بھی ہو جاتی تھی اور گیس کا اُوپر، چڑھنا مزید محال ہو جاتا تھا۔ ہم تو سختیوں کے عادی تھے ہی! دلہن، البتہ نہ تھی۔ ایک دو ماہ میں ہی، بے چاری گھبراگئی !
اُدھر ، اتنے لوگوں کیساتھ مل کر کیا گیا، شراکتی کاروبار بھی، کہاں فروغ پا تا ہے؟ لہذا، اکیڈیمی بند ہوگئی۔ اب یہاں رہنا، خواہ مخواہ کی تکلیف میں مبتلا رہنے کے برابر تھا ۔ لہذا، ہم واپس حافظ آباد چلے گئے۔
میں، ابھی سی۔ایس ۔ایس کا امتحان، دوبارہ دینے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس کیلئے کہ ابھی 5 سال عمر کی حد باقی تھی۔ میرے ذہن میں ایک اور پلان چل رہا تھا۔ اُسکے کافی دلائل میرے پاس موجود تھے۔ وہ یہ کہ اگر میری ٹرانسفر، مشہورِ زمانہ گورنمنٹ مرے کالج، سیالکوٹ میں ہو جائے، وہاں چونکہ، شعبہ تاریخ میں ایک سیٹ، حال ہی میں خالی ہوئی تھی۔ایک، تو وہاں جانے سے، بِگ سٹی الاؤنس، کیوجہ سے تنخواہ میں اضافہ ہو جاتا۔ دوسرے، وہاں میں اپنے ایم۔ انگلش کو بھی مکمل کر سکتا، کیونکہ وہاں کالج میں، باقاعدہ ایم ۔اے انگلش کا کورس پڑھایا جا رہا تھا ۔ تیسرے، میری دلہن صاحبہ بھی، اکثر وہیں، پائی جاتیں تھیں، لہذا، یہ مسلئہ بھی حل ہو جاتا!
میں نے اپنی ٹرانسفر کیلئے کاغذات تیار کروائے۔ وہاں، اپنے سُسر جناب فخرالحق صاحب ورکؔ کی وساطت سے، گورنمنٹ مرے کالج میں، اُنکے استاد اور ریاضی کے ایک سینئر احمدی پروفیسر صاحب سے ملے۔ آپ نے ایک سابق پرنسپل صاحب کا پتہ بتایا کہ وہ یہ کام باآسانی کروا سکتے ہیں۔ ہم وہاں پہنچے، انہوں نے فرمایا یہ تو کوئی بات ہی نہیں۔ سیٹ بھی خالی ہے۔ آپ بھی اپنے اور بچہ بھی اپنا! اوپر سے ہمارا داماد! آپ ایک چھوٹا سا کام کردیں۔ ہم نے جُھکتے ہو ئے پوچھا، جی وہ کیا؟ اِسکی رہائش یہاں کروا کر، شناختی کارڈ پر ایڈریس لے لیں، بس پھر کا م ہو جائیگا!
اب ایسے کام تو جلدی جلدی ہی ہوتے ہیں۔ ہم اپنے پلان کو عملی جامہ پہنانے کیلئے، یعنی اپنی ٹرانسفر، جلد کروانا چاہ رہے تھے اور’’شریک‘‘ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہمیں اپنے سسرال جانے کی جلدی ہے! خیر، ہفتوں میں مکان ملا اور دِنوں میں، ہم پورن نگر میں واقع ، ایک گھر کی بالائی منزل پر، منتقل ہوگئے۔ ابھی شناختی کارڈ کے دفتر کا پتہ ہی پوچھ رہے تھے کہ اطلاع آگئی کہ ڈسکہ کے نوجوان نے وہ سیٹ مار لی ہے!
ہمارے مسائل میں چونکہ کوئی زیادہ اضافہ نہ ہوا تھا، لہذا، ہم زیادہ پریشان بھی نہ ہوئے! اپنا آنا جانا تو لگا رہا۔
پہلے حافظ آباد سے روزانہ، وزیرآباد آرہے تھے، اب، یہاں سیالکوٹ سے جا رہے تھے! بقولِ شاعر، ’’سفر ہے شرط، مسافر نواز بتہرے! دلہن کو، البتہ خاصا آرام تھا۔ بچے اب دو ہو گئے تھے، ماشاءاللہ !
قبل ازیں، نومبر، 1998ء سے ہمیں، مجالس خدام الاحمدیہ، علاقہ گوجرانوالہ کی قیادت کی توفیق مل رہی تھی۔ اب اپنا کیمپ آفس، سیالکوٹ میں بھی قائم ہو گیا تھا۔ علاقے میں، پاکستان بھر میں خدام کی تجنید کے حوالے سے، سب سے بڑے اضلاع ، گوجرانوالہ، سیالکو ٹ، نارووال اور حافظ آباد شامل تھے۔
اصولی طور پر، خدمتِ دین کے کاموں میں، نمود و نمائش اور مقابلوں کی زیادہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ۔ لیکن ذیلی تنظیموں میں، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے مسابقت کی رُوح کو، ’’مقابلہ عَلمِ انعامی‘‘ کیصورت میں قائم رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے، فضل کیا اور علاقائی عاملہ کی محنت اور قائدین اضلاع کے تعاون سے، علاقہ گوجرانوالہ، پہلے سال ہی دوسرے نمبر پر آگیا۔ مرکزی عاملہ کی سہ ماہی میٹنگز میں، علاقہ گوجرانوالہ کی کارکردگی کی مثالیں دیئے بغیر با ت ہی آگے نہ بڑھتی! ہماری محنت تو معمول کے مطابق جاری رہی، لیکن دوسرے علاقہ جات نے زیادہ کام شروع کردیا۔ لہذا، دوسرے سال بھی ہماری پوزیشن، دوسری ہی رہی! البتہ تیسرے سال ہم نے بفضلِ تعالیٰ، پہلی پوزیشن حاصل کرلی، لیکن ہماری جُرأت آموز طبیعت کی وجہ سے، انعام ہمارے جانشین نے وصول پایا!
ٹرانسفر نہ ہو سکنے، روزانہ کے سفر، اور دینی خدمات کی اِس مصروفیت کی وجہ سے، ایم۔اے انگلش کا منصوبہ، فی الحال ناتمام رہا۔
سی۔ ایس۔ ایس کا دوسرا امتحان: 2000ء
اکتوبر 1999ء میں، جنرل پرویز مشرف کی جلد بازی نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ ہر شعبہ زندگی میں اکھاڑ پچھاڑ، فوجی حکومتوں کی مجبوری ہو تی ہے۔ اصلاحات کے نام پر، ہر قسم کے ضروری وغیر ضروری کام کیے جاتے ہیں۔ اُن میں سے ایک، ’’غیر ضروری‘‘ کام یہ بھی تھا کہ فیڈرل سول سروس کے امتحان کیلئے عمر کی حد 35سال سے کم کرکے 30سال کردی گئی۔ قبل ازیں، میرے پاس ابھی امتحان دینے کیلئے 5 سال اور دو چانس باقی تھے۔ لیکن نئے ایکٹ کے مطابق، میں بس، اِسی سال یعنی 2000 ء میں ہی امتحان دے سکتا تھا۔ اِس کے بعد، جب عمر کی حد ہی ختم ہو جا نا تھی تو دستیاب چانسز کا ’’اچار‘‘ ڈالنا تھا کیا؟
لہذا، نہ چاہتے ہو ئے بھی، ہم سب نے یہ فیصلہ کیا کہ قسمت آزمائی کیلئے، امتحان نہ دینے سے، دے دینا ہی بہتر ہے۔ لہذا، ایک دفعہ پھر تیاری شروع کردی۔ وزیر آباد آنے جانے کا وقت بچانے کیلئے، آخری ماہ، ڈیڑھ ماہ، وہیں، وزیرآباد کی مسجد کے مہمان خانے میں قیام پزیر رہا۔ محترم میاں صاحب مرحوم کے خاندان نے پہلے بھی کئی مرتبہ، بڑے پیار اور محبت کا سلوک کیا تھا۔ اس بار بھی بہت خدمت کی۔ جزاکم اللہ تعالیٰ فی الدنیا والآخرۃ۔
ہم نے بھی اپنے تئیں خوب محنت کی۔ آخر اکتوبر میں امتحانات شروع ہوگئے۔ دونوں مرتبہ (1996 ء اور 2000 ء میں) دورانِ امتحان، میرا قیام دار الحمد میں ہی رہا تھا۔ الحمدللہ ! امتحان پہلے سے بہتر ہوئے تھے۔ اور رزلٹ کارڈ بھی اسکی گواہی دے رہا تھا۔ میں نے تو اس بار 56 فی صد نمبرحاصل کرلئے تھے۔ بدقسمتی سے، بہت سی تبدیلیوں کے باوجود، نئے رزلٹ کارڈ کے آخر پر وہی پرانی (دقیانوسی اور غیر تبدیل شدہ )تحریر موجود تھی، کہ انٹرویو کیلئے 60 فیصد نمبر درکار ہیں۔
میرےناقدین، مجھے طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ لیکن کوئی حقائق کا صحیح تجزیہ نہیں کرتا۔ بات یہ ہے میں جب بھی کوئی کام کرتا ہوں، چاہے اُس میں کامیاب ہوں یا ناکام، میں پوری دیانت اور محنت سے وہ کام کرتا ہوں ۔ چاہے وہ ایف۔ایس۔ سی۔ کا پہلا امتحان تھا یا سی۔ایس۔ایس کا دوسرا۔ دونوں کو میں نے دوبارہ دیا۔ اوّل الزکر، میں 20 نمبر بڑھے جبکہ ثانی الذکر میں 2 فیصد نمبر!
یعنی مجھ جیسے، آدمی کو شائد، دوسری دفعہ کوشش نہیں کرنی چاہئے! کیونکہ جو اہلیت میرے اندر ہوتی ہے، اُسکا اظہارو نتیجہ، پہلی مرتبہ ہی سامنے آجاتا ہے۔ دوسری کوشش میں، بہت کم بہتری سامنے آتی ہے۔
لیکن یہ بات، دنیاوی مروجہ اصولوں کے خلاف ہے۔ اِسی مضمون کے شروع میں، سکاٹش کنگ، رابرٹ ڈی بروس کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔ نیز، سکندرِاعظم نے بھی ہندوستان پراپنے دوسرے حملے میں کامیابی پائی۔ چنگیز خان، بابرؔ اور ہمایوؔں نے بھی اپنی دوسری کوشش میں ہندوستان میں اپنے اپنے قدم جمائے۔ یہی زندگی ہے! جب تک موقع ہے اور دم میں دم ہے، لگے رہو، ’’مُنّا بھائی‘‘! کوشش کرتے رہو۔ یہی زندگی ہے!
ہاں ایک بات اور یاد رہے، میری ساری جدوجہد، خوب سے خوب تر کی تلاش ہے۔ میں ناکام نہیں رہا۔ یہ ایک منزل سے دوسری منزل تک کا سفر ہے۔ اوردنیا میں آخری منزل، آپکی موت یا قبر ہے۔ یہاں سے آگے پھر ایک نیا سفر ہے، جسکی آگے کئی اور منازل ہیں! اور اِسی کا نام ’’جُہدِمسلسل‘‘ ہے۔
اس بار بھی ندیم اسؔد، محمداکرؔم اور میرے کئی ساتھی، جنھوں نے میرے ساتھ ہی، نئے ایکٹ کی وجہ سے، افراتفری میں طبع آزمائی کی تھی، کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ حافظ آباد اور وزیرآباد تحصیل میں دُور دُور تک کوئی بندہ ہمیں سی ۔ایس۔ایس میں کا میاب ہو تا نظر نہیں آیا۔ البتہ، سیالکوٹ سے ایک احمدی نوجوان، جو مجسٹریٹ (ریٹائرڈ) میاں عبدالحئی صاحب کا بیٹا اور ڈاکٹر عثمان حئی کا چھوٹا بھائی تھا، کامیاب ہو گیا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ بھی، صد فی صد، اپنی محنت سے ہی کامیاب ہوا تھا ۔یہاں سیالکوٹ میں اکثر، میرا اور اُسکا تقابل کیا جاتا تھا۔
اس ضمن میں، ایک بات ضرور سمجھنے والی ہے۔میں، شماریات کے مضمون کی ایک ٹرم مستعا ر لیکر، ’’نظریۂ اِمکانی‘‘ پر مبنی بات کر رہا ہوں کہ تقدیرِ الہی اور ڈاکٹرعبد السلام صاحب مرحوم کی اپنی محنت و قابلیت کے علاوہ (بقول ڈاکٹر صاحب) اگر والد ِگرامی (چوہدری محمد حسین صاحب) ٹیچر اور آپکی پڑھائی کے پیچھے نہ ہوتے تو شائد، آپ کبھی اِس مقام کو حاصل نہ کرپاتے!
اِسی طرح چوہدری سر محمدظفراللہ خان صاحب اگر خلفائے احمدیت کے اِسقدر قریب نہ ہوتے، تو حالات کچھ اور بھی ہو سکتے تھے۔
میرے نظریئے کیمطابق، اگر آپ شیر کے نو مولود بچے کو بھیڑ بکریوں کیساتھ باندھیں گے، تو وہ گھاس ہی کھائے گا اور شیر کی کھال میں ’’بھیڈو‘‘ ہی نکلے گا۔ اسی طرح، جیسے اوپر، فوج میں کمیشن کے والے معاملے میں، ماحول کے بارہ میں بیان کیا تھا، یہاں بھی کہتا ہوں کہ محض کتابیں پڑھنے اور یاد کرنے سے وہ علم حاصل نہیں ہوتا، جو سی۔ایس۔ایس کیلئے درکار ہو تا ہے، سوائے اِلاّ ماشاءاللہ!
اچھی سوچ سے صائب الرّائے بننے تک اورپھر اُس رائے کے مدّلّل بیان تک، بچپن سے ہی تربیت درکار ہوتی ہے۔ ہمارے جیسے لوگ، سی۔ایس۔ایس کے، آخری پرچے تک، ڈکشنری کے محتاج اور انگریزی الفاظ کو یاد کرکر کے، لکھتے رہے۔باوجود کہ حقائق ٹھیک بیان کررہے ہو تے، لیکن جوابی پرچے پر ہماری اُکھڑی ہوئی زبان، ہماری اوقات کا بھانڈہ پھوڑ رہی ہوتی ہے۔ وہ انداز ِبیاں ہی نہیں نکلتا جو ممتحن کو متاثر کر سکے! اور موصوف، جو کامیاب ہو گئےتھے، اُنکے تو والدِگرامی کا اپنا انگریزی کا علم اور محاورہ بھی ہم سے بہتر تھا، تو بیٹے کی ترقی تو عین واجب تھی! مشہور ہے کہ: ’’پِتا پے پُوت، گھوڑے پے گھوڑا۔ بہت ناہیں، تو تھوڑا تھوڑا‘‘
اب، امتحانوں کے نہ ہم قابل رہے تھے اور نہ امتحان ہمارے قابل! ہم وہ گھوڑے ثابت ہو رہے تھے، جن کے بغیرکبھی ریس (دوڑ) نہیں ہو ا کرتی تھی۔ لیکن، اب یہ گھوڑا، کوئی پوزیشن بھی حاصل نہ کر پا رہا تھا! قدیم سے ہی معاشرے کا عمومی رویہ، ہم جیسوں کو ’’ناکام ‘‘سمجھتا آیا ہے، حالانکہ ہم ایسوں کیوجہ سے، دوسروں کی قابلیت کا پتہ چلتا ہے!
اُدھر مقابلے کے امتحانوں سے، بدستورلڑتے ہوئے، ندیم اسؔد اور مودؔے نے اپنی حکمتِ عملی تبدیل کر لی۔ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے دروازے تو 30 سال سے اوپر والوں پر بند ہو ہی چکے تھے۔ لہذا، انہوں نے پنجاب پبلک سروس کمیشن کے گریڈ 16 ، جی ہاں! کئی سال گریڈ 17 میں کام کرنے کے بعد، محض طاقت، دولت اور اقتدار کا مزہ لوٹنے کیلئے، ندیم اسد نے ایکسائز(انکم ٹیکس آفیسر ) انسپکٹر اور مودے نے لیگل انسپکٹر کے امتحانات دیئے اور پاس ہو گئے۔ یہ امتحان، سی۔ ایس۔ایس کے مقابلے میں کافی آسان سمجھے جاتے تھے۔ پھر 5،5 سال سروس کرنے کے بعد، یہ دونوں، دوبارہ گریڈ 17 میں آگئے۔ ندیم اسد، اسٹنٹ کمشنر(انکم ٹیکس) اور موؔدا، ڈی۔ایس ۔پی لیگل بن گیا ۔ آج میرے سارے کولیگ 23 /24 سال کی سروس کے بعد یا تو پروفیسر بن گئے ہیں یا ندیم اسد کمشنر (انکم ٹیکس) بن گیا ہو گا۔ کافی سالوں سے مجھے اُنکی کوئی خبر نہیں۔ اور بقولِ خود:
بڑی آرزو تھی ہم کو نئے خواب دیکھنے کی
وہ خوابِ زندگانی ابھی تلک بُن رہے ہیں!
ِستاروں (ایم۔اے) سے آگے کا سفر!
یکم جنوری 2001 ء کا سورج، نیا دن، نیا سال ہی نہیں، نئی صدی اور نیا ہزاریہ (ملینیئم ) بھی لیکر آیا تھا۔ تیسری دنیا کے غیر ترقی یافتہ لوگوں کے لیئے یہ کوئی انوکھی بات نہیں تھی۔ ہم تو مٹی کے مادھو تھے اور وہی رہیں گے۔ لیکن ترقی یافتہ ممالک نے کئی سال پہلے سے نئی صدی اور نئے ملینیئم کے استقبال کی تیاری شروع کردی تھی۔ تمام مغربی و ترقی یافتہ ممالک میں، اِس حوالے سے منصوبہ بندیاں کی گئیں۔ یادگاریں، ُپل اور رفاہ عامہ کے منصوبے بنائے گئے۔ جن میں سے کئی ایک، بعد ازاں، مجھے بھی دیکھنے کا موقع ملاہے۔ وطن ِعزیز میں بھی، اِس سال کچھ یادگار، کام ہوئے، جنکا اِس سوچ سے قطعاً کو ئی تعلق نہ تھا۔ بلکہ یہ سوچ کئی دہائیوں سے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیر مین، ڈاکٹر عطاء الرحمن خان صاحب کے دل و دماغ میں موجود تھی۔ نجانے کیسے، جنرل مشرف نے انہیں، اس منصب پر فائز کیا اور موصوف، لنگوٹہ کَس کر، اس میدان میں کود پڑے۔ میں صرف اپنے شعبہ تاریخ کے حوالے سے ہی کی بات کرونگا۔ باقی شعبوں کا بھی الا ماشاء اللہ یہی حال تھا۔ 2001 ء تک وطن عزیز میں، قائد ِ اعظم یونیورسٹی، اسلام آباد ، اور کراچی یونیورسٹی، صرف دو جگہوں پر ہی، تاریخ میں، پوسٹ گرایجوائٹ ڈگری یا ایم فل (ماسٹر آف فلاسفی ) کروایا جاتا تھا۔ تقریباً ، تمام کی تمام، پی۔ایچ۔ ڈی کی ڈگریاں، بیرون ممالک سے حاصل کی جاتیں تھیں۔
ڈاکٹرصاحب موصوف نے، ملک کے تمام وائس چانسلرز کو بلا کر، (اُنکے کان کھنچتے ہوئے) کہا کہ جب آپکے پاس، بہترین اساتذہ اور بیرون ممالک سے تعلیم یافتہ، پر فیسرز موجود ہیں تو تکلیف کیا ہے؟ کیوں ہم یہ کام، یہاں اپنے اداروں میں، شروع نہیں کرسکتے؟ اُن کو جو، جواب ملا، امید ہے اب، آپ بھی وہ سننا چاہیں گے، تو سُنیے:
’’تما م وائس چانسلرز نے بیک آواز کہا! سر، پہلی بات، آج سے پہلے کسی نے، اِس بابت پوچھا ہی نہیں! دوسرے، کاغذی اور قانونی مشکلات ہیں، اور تیسرا مسئلۂ فنڈز کا ہے! ڈاکٹر صاحب نے انہیں یقین دہانی کرواتے ہو ئے کہا کہ اب کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، انشاءاللہ! آپ جائیں، اور جا کر تیاری کریں۔ باقی میں دیکھ لونگا‘‘۔
جولائی ، 2002 ء شعبہ تاریخ، پنجاب یونیورسٹی نے ایم ۔فل کی ڈگری کیلئے اشتہار جاری کردیا کہ ستمبر میں کلاسوں کا اجراء ہو گا۔ ہم جو کہ ذاتی طور پر تاریخ کے ’’طالبعلم‘‘، سرکاری سطح پر، ’’صدرِشعبہ‘‘تاریخ، گورنمنٹ ڈگری کالج وزیرآباد اور معاشرتی طور پر، ’’تاریخی مقام‘‘حاصل کرنے کے خواہاں تھے، سب سے پہلے یونیورسٹی پہنچ گئے تا کہہ سکیں کہ ’’انا اوّل الطالبین‘‘ !
پھولوں کا موسم نہیں تھا وگرنہ ہمارے اِس والہانہ اقدام پر ہمیں ہار پہنائے جاتے! دوستوں سے رابطہ کرکے، انہیں اِس کارِخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور اپنا نام، ہراول دستے میں لکھوا نے کی ہم نے بڑی کوشش کی۔ لیکن اکثریت نے ہمیں دھتکار دیا۔ بولے’’ مسّاں، مسّاں ایم۔اے توں جان چُھٹی ایہہ تے ، تو ُہون ایم ۔فل دے پِچھّے پے گیاں ایہں۔ دماغ فالتو نہیں آیا، ساڈاھا۔ پاگل جیہا ناں ہویں!
میرا صرف کلاس فیلو، باسؔط میرے ساتھ آیا اور دو ہمارے سینئرز مقبوؔل اور حمیرؔا شامل ہوگئے۔ باقی سارے نئے لوگ تھے۔
نئے کام کا ایک اپنا ہی لُطف ہو تا ہے۔ نئی ڈگری، نیا نصاب اور نیا تجربہ، استادوں کیلئے بھی اور شاگردوں کیلئے بھی! ایک دوسرے کی حوصلہ افزائی اور مدد کرتے ہوئے، نئے راستے پر، نئی منزل کی تلاش کا سفر!
ایسے میں، اپنے شعبہ کےپُرانے لوگوں کی تو موجیں ہوجا تیں ہیں۔ اور ہم نے ایم ۔فل گروپ کو بھی اُسی طرح ’’ہائی جیک‘‘ کرلیا، جسطرح ایم ۔اے میں کیا تھا۔ چاؤلہ صاحب، کورس کے مین کوآرڈینیٹر تھے اور اپنے جگر! باقی سارے اساتذہ ، ’’ہاتھی ہمارے ساتھی ‘‘ والا ہی حساب تھا ۔ستمبر 2002 سے ستمبر 2003 ء تک، ایک سال کا دورانیہ تھا۔ 6 ماہ کورس ورک اور باقی 6 ماہ، امتحان اور مقالا (ریسرچ ورک)! ہفتے میں 3/4 دن شام کی کلاسیں ۔ گرمیوں میں شام 5 بجے سے 8 بجے تک اور سردیوں میں 3 بجے سے شام 6 بجے تک! پتہ ہی نہیں چلا! اتنے مزے سے یہ وقت گزرا کہ کیا بتاوں!
خواب دیکھنا اور نئے خواب بُننا، ہمارا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے اور آپ اِس سے اچھی طرح واقف بھی ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں، خود پڑھ تو سکے نہ تھے، اب اُس میں پڑھانے کا خواب دیکھ رہے تھے۔گورنمنٹ کالج سے پتہ کیا کہ ایک ڈگری کالج کے صدرِ شعبہ، کتنے میں لو گے؟ انہوں نے جواب دیا کہ 7 سال کا لیکچررشپ کا تجربہ + ایم۔فل کی ڈگری+ ایک فیکلٹی لیکچر بطور ٹرائل! ہمیں اُنکی ساری شرطیں منظور تھیں۔ فقط ایم۔فل کی ڈگری کا انتظار تھا، جو اِسی سال کے آخر میں متوقع تھی۔
ہر چیز اور ہر کام کی ایک قیمت ہو تی ہے، جو کسی نہ کسی طور ادا کرنا ہوتی ہے۔ بیوی، بچوں اور نوکری کیساتھ، ایک شہر(وزیرآباد ) سےدوسرے شہر(لاہور) میں جا کر یہ کام کر نا، نہ ہی سستا تھا اور نہ ہی آسان ! یونیورسٹی کی فیس، لاہور کا آنے جانے کا کرایہ، کھانے پینے اور کتابوں کے اخراجات اورسچ مچ کی پڑھائی! ایک بہت محنت اورمشقت والا کام تھا۔ یہ صرف، حُسنِ نیت اوراستقامت سے ہی ہو سکتا تھا، سو وہ کیا۔
ظاہر ہے، اب سیالکوٹ سے وزیر آباد اور وہاں سے لاہور اور پھر واپس سیالکوٹ جانا، قطعاً ممکن نہ تھا۔ لہذا، ایک بار پھر، میاں صاحب فیملی کی مددِ خاص سے، اُنکے ایک اور چوبارے میں اُترے! اِس مرتبہ، یہ میاں صاحبان کے اپنے گھروں سے ہی متصل تھا۔ ایک چھوٹا سا چوبارہ، موتی بازار، میں مسجدسے 20/30 گز کے فاصلے پر! صدرِ شعبہ نے، حکومت ِ پنجاب سے باقاعدہ اجازت و منظوری لیکر یہ اعلیٰ و علمی اقدام، اٹھایا تھا۔ اِسکے باوجود، کالج کے پرنسپل، ہر دو تین ماہ بعد، ایک دعوت بطور’’بھتہ‘‘ وصول کرتے تھے۔ بڑی دیانت سے، اپنے پہلے دو پریڈ ز پڑھا کر، ہفتے میں 3 یا 4 روز، بڑی سُرعت سے، کالج سے سیدھا، (انہیں گلیوں اور بازاروں سے قریباً بھاگتے ہوئے، جنکا ذکر قبل ازیں ہو چکا ہے) ریلوے اسٹیشن پہنچتے، 11:45 پر پاکستان کی تیز ترین اور مشہورِزمانہ گاڑی، ’’ریل کار ‘‘ پکڑتے اور دو گھنٹوں میں لاہور پہنچ جاتے۔ خدا گواہ ہے کہ سیٹ کبھی کبھار ہی ملتی تھی۔ بغل میں پرفیسروں والا بیگ، جس میں کتابیں ، پانی کی بوتل اور کھانے پینے کا سامان بھی رکھا ہو تا تھا۔ ہر وقت نظر کتاب پر ہی جھکی رہتی، اس تسلی کیساتھ، کہ اِنکو سکون اور تراوٹ، وہاں یونیورسٹی میں جا کر دے لیں گے!
وہاں سے تقریباً 40/45 منٹ میں، بذریعہ 33 نمبر ویگن، پنجاب یونیورسٹی پہنچتے۔ سیدھے، باتھ روم میں گھس جاتے۔ ایک جگہ صابن چھپا کے رکھا ہوا تھا۔ منہ ہاتھ دھوتے، رومال روزانہ گھر سے دھو کر لاتے تھے، جسکا پہلا استعمال یہیں بطور، تولیہ کرتے، جیبی کنگھی، سکھوں کی طرح اپنے ایمان کا حصہ تھی۔ بیگ سے لوشن (جوکہ آئی ڈراپس کی ایک عد د خالی، چھوٹی سی بوتل میں ڈال کر رکھا ہوا تھا) اور عطر بھی نکال کر استعمال کر لیتے تھے۔
اس ریفریشمنٹ کے بعد، جاکر کینٹین سے ایک کپ چائے پیتے اور تازہ دم ہو کر، جب کلاس میں جاتے تو سارے ہی ، ’’پروفیسر صاحب‘‘کہہ کر، استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے!
اگر کسی کو کو ئی شک گزرے، ہماری اس عزت افزائی پر، تو ہماری دلہن سے پو چھ لے کیا ہماری کئی عدد کلاس فیلوز، اُس خوبرو اور نوجوان پروفیسر کی ’’خوش نصیب دلہن‘‘ سے ملنے، خود چل کر وزیرآباد نہ آئی تھیں؟
بولے نہیں وہ حرف، جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات، جو اپنی نہیں تھی بات !
اے گردشِ زمیں، مجھے آنکھوں میں اپنی دیکھ
میں ہوں، مگر یہ خواب نہیں میرے بے ثبات!
ہواؤں کے دوش پراور سمندروں سے آگے!
15 سال قبل بھی میرے مالی حالات ویسے ہی تھے، جیسا کہ آج ! گو، میری تنخواہ، 9 سالہ ملازمت اور مشرف حکومت کی مہربانی سے، بفضل ِ تعالی، 4 ہزار سے بڑھکر 12 ہزار سات سو روپے ہو چکی تھی۔ لیکن پانی، بجلی، گیس، اور سفر وحضر کے اخراجات تھے، کہ قابو میں ہی نہ آتے تھے۔ امیدِ واثق تھی کہ جیسے چچا غالؔب نے اپنا مستقبل دیکھ لیا تھا، کہ ’’ اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہو تا‘‘ والی صورت تھی۔ کہ چاہے تنخواہ مزید بڑھ جاتی ، تو حالات ویسے ہی رہتے! اس مرض کا علاج کچھ چارہ گراں کے پاس یہ تھا کہ’’ بھائی باہر نکل لے ‘‘۔ اِن میں سے ایک حکیم حاذق، جناب ڈاکٹر میجر(ریٹائرڈ) کلیم الدین احمد صاحب بھی تھے۔ جنہوں نے، نیک نیتی سے، دو مواقع پر میری ایسی مدد کی، کہ میں اُنکی بھلائی کو نہ ہی اگل سکتا ہوں اور نہ ہی نگل سکتا ہوں!
لہذا، اپنے دوست اور عزیزمیاں محموداحمد صاحب سے، جرمنی میں رابطہ کیا اور اُن سے و ُہیں (جرمنی ) میں طویل ملاقات کیلئے درخواست کی۔ اُنکی نیت بھی نیک معلوم ہو تی تھی اور زمانہ بھی بھلا تھا، لہذا، اُنکے دعوت نامہ پر میں، مورخہ 17 نومبر 2002 ء کو لاہور سے براستہ ایمسٹرڈیم (ہالینڈ) فرینکفرٹ پہنچ گیا۔ آپ مع اپنی اہلیہ صاحبہ ،(جو ہماری حقیقی ہمشیرہ ہیں)کے، مطار پر، ہمارے استقبال کیلئے موجود تھے۔
رات کا وقت تھا اور شدید سردی کا موسم! ایئر پورٹ سے باہر نکلے تو، زندگی میں، پہلی بار لائیو، برف باری کا منظر دیکھنے کا موقع ملا۔ اُن دِنوں، آپکی رہائش لیمیسِائن کےقصبہ، بوڈنگن میں تھی، جبکہ کام فرینکفرٹ سٹی سنٹر میں تھا۔ دونوں کے درمیان قریباً 50 کلومیٹر کا فا صلہ تھا۔اُنکے ساتھ ہی اُنکی پھوپھو (اور ہماری شاہدرہ والی بڑی آپا ) فاطمہ بی بی صاحبہ اور انکے میاں، برادرِ م مکرم مبارک حمید اللہ صاحب کی رہائش تھی۔ قریب ہی کئی اور دیہات میں خاندان کے کئی دوسرے، تارکین ِوطن بھی آباد تھے۔ بلا مبالغہ، یہاں کے ’’دیہات‘‘ صد فی صد، ہمارے دارالحکومت، اسلام آباد سے بھی ماڈرن تھے اور ہیں! کیسے؟ آپ تو جانتے ہیں کہ دیہات، وہ جگہ ہوتی ہے جہاں، کھیت اور کھلیان ہوں، کاشتکاروں کے ہی چند ایک گھرانے ہوں، صنعت وحرفت کےبڑے بڑے کارخانے نہ ہوں، اونچی اونچی عمارتیں نہ ہوں وغیرہ وغیرہ۔ ہاں! بالکل ایسے ہی ہیں وہ گاؤں! لیکن، انسان کی فطری سوچ اور عقل کے مطابق وہاں وہ ، وہ کا م بھی ہو سکتا ہے، جس کے لیےشائد آپکو، اسلام آباد جیسے دارالحکومت کے کئی چکر لگانے پڑیں اور شائد، پھر بھی آپ کا کام نہ ہوسکے!
مجھے پاکستان سے جرمنی کی سنگل انٹری کا ویزہ ملا تھا۔ میں وہاں سےآگے، لندن بھی جانا چاہتا تھا۔ لہذا، سوچا کہ اگر وہاں سے لندن کا ویزا مل گیا، تو ، واپس جرمنی میں داخلے کیلئے، ڈبل انٹری کی بات بھی دیکھ لیں گے! جب وہاں پہنچے، تو علم ہو ا کہ امریکہ پر 11ستمبر 2001 ء کے، حالیہ حملوں کیوجہ سے آمدو رفت اور خصوصاً ویزوں کے اجراء پر، سیکیورٹی کیوجہ سے کافی سختیاں چل رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور میاں محمود احمد صاحب کی کوشش سے، بعض ایسے کام بھی ہوئے، جن پر جرمن لوگ بھی حیران وششدر رہ گئے تھے۔ نیشنل سیکرٹری امورِخا رجہ کی چِھٹی پر، مجھے وہاں سے لندن کا ویزہ، ایک دن کے اند رہی مل گیا۔ گو، اس کام کے لئے ہمیں فرینکفرٹ سے قریباً 225 کلو میٹر دور، ایک شہر ڈوزلڈورف میں برطانوی سفارت خانے خود جانا پڑا!
میاں محمود صاحب، یوروپ کی ایک مشہور زمانہ، ہوٹل چین ،’’ بیسٹ ویسٹرن ہوٹلز‘‘، میں، نائٹ مینیجر کا کام کرتے تھے۔ (اس ہوٹل کی ایک برانچ اسلام آباد و کراچی، پاکستان میں بھی ہے)۔ یہ کام ہر حوالے سے، انکے مناسب ِحال تھا۔ آپ حال ہی میں صدرمجلس خدام الاحمدیہ، جرمنی کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو کر ، جماعت کی نیشنل عاملہ میں بطور سیکرٹری اشاعت ، خدمات کی توفیق پا رہے تھے۔
آپ دن بھر جماعت اور اپنے دیگر کام کرتے اور رات کو اپنی ڈیوٹی پر آجاتے۔ یہاں کام سے زیادہ ’’آرام ‘‘ کا ہی ماحول تھا۔ اصل ڈیوٹی، رات کے وقت آپکی ’’حاضری‘‘ تھی۔ یعنی، کوئی نہ کوئی تو ہو نا چاہئے، مہمان کے سواگت کو! سوائے کبھی کبھار کے، اکثر اوقات، ساری رات میں، دو تین کسٹمرز ہی آتے۔ جن کی یا تو پہلے ہی سےبکنگ ہوتی یا پھر وہ اپنی نئی بکنگ خود، موقع پر کروالیتے۔ آرام دہ، دفتر نما ریسپشن پر، میاں صاحب، پہلے تو من پسند کتابوں سے اپنی علمی پیاس بجھاتے، پھر ملحقہ کچن میں جاکر پیٹ کی آگ! پھر جب رات بھیگ جا نے پر، اور جب من کی، دیو داسیاں، یہ مدھر گیت گانے لگتیں کہ ’’ اب یہاں کوئی نہیں ،کوئی نہیں آئے گا‘‘ تو میاں صاحب بھی، دروازے کے گلے میں بلّی والی گھنٹی باندھ کر، تھوڑا آرام کرلیتے!
جس روز، اگلی صبح ، ہم نے ڈوزلڈورف جانا تھا۔ اُس رات میں اور میرے تایا ذاد، عزیزم میاں محمداحمد جمیلؔ، رات گئے تک سٹی سنٹر کی سیر کرتے رہے۔ زندگی میں، پہلی مرتبہ میکڈونلڈ سے کافی اور کیوبن سگار کا مزہ لیا۔ ٹرام پر سفر کیا اور پھر رات گئے تک، میاں صاحب کے ساتھ ہی بیٹھے گپیں مارتے رہے ۔ چند گھنٹے آرام کرنے کے بعد ، اگلے سفر کیلئے روانہ ہوئے۔ اور اُسی روز، ویزہ لیکر واپس آگئے۔
اگلے روز، قریبی قصبے لیمیسائن میں، ایک سرکاری دفتر گئے اور اُنکو بتا یا کہ جناب میں تو لندن جا رہاہوں اور جرمنی واپسی پر داخلہ کیلئے میرے پاس ملٹی پل ویزہ نہیں ہے۔ کچھ کریں جناب!
آپکا مہمان ہوں اور یہیں واپس آ کر، چند روز رہ کر، پھر یہاں سے پاکستان واپس جانا چاہتا ہوں۔انہوں نے میرا پاسپورٹ، لندن کا ویزہ، اور پاکستان واپسی کی ٹکٹ دیکھ کر، ایک گھنٹے کے اندر اندر، میرے پاسپورٹ پر، وزارت ِ خارجہ سے منگوایا گیا، ایک سٹکر لگا کر میرے ویزے کو ملٹی پل کر دیا! اِس سارے واقعے کو بیان کرنے کا مقصد، ان اقوام کی ترقی کے راز کو بیان کرنا ہے کہ کس طرح بات سمجھ میں آنے کے بعد، وہ فیکس اور کمپیوٹر جیسے آلات کا، دُرست استعمال کرکے، اپنا اور اپنی قوم کا قیمتی وقت، پیسا اور پریشانی سے بچاتے ہیں، سبحان اللہ!
مذکورہ بالا، دونوں واقعات (یعنی غیر ملک سے کسی دوسرے ملک کا ویزہ ملنا اور سنگل انٹری ویزہ کا ملٹی پل انٹری ویزہ بننا) کے بارے میں، سب لوگ یہی کہتے ہیں، کہ بہت خارق عادت کام تھے۔ ایسا ممکن نہ تھا! لیکن ایسا ہوا جناب! یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے، جماعت احمدیہ کی ساکھ اور وقار کی بدولت! نیز ہمارے، میاں محمود احمد کی خلوصِ نیت و خدمات دینیہ کیوجہ سے ہی ممکن ہو سکا تھا، ماشاءاللہ!
اِسی طرح کا ایک اورحسین و معجزانہ واقعہ، اگست 2008 ء میں بھی ہوا تھا، جب میری والدہ محترمہ پا کستانی پاسپورٹ پر، جس پر ’’احمدی‘‘ لکھا ہو اتھا، کو انگلستان میں واقع سعودی عرب کے سفارت خانے سے عمرے کا ویزہ مل گیا۔لوگ حیران اور پریشان تھے۔ لیکن یہ کرم بھی، اللہ تبارک و تعالیٰ کی شانِ والا صفات ہی، دکھا سکتی تھی۔ یہ میری والدہ محترمہ کی ہی دیرینہ، مسلسل اور مقبول دعاوں کا ہی نتیجہ تھا، الحمد للہ و علیٰ ذالک!
خیر، انگلستان میں، پیارے آقا سے ملاقات اور جرمنی میں، تمام عزیزو اقارب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحے، بہت یادگار اور خوشگوار وقت تھا۔
مشرق و مغرب کی زندگی میں اتنا ہی فرق ہے، جتنا کہ زمین اور آسمان کے درمیان! اس پر بات پھر کسی وقت ہو گی۔ دسمبر 2002 ء کے وسط میں، میں پاکستان واپس پہنچ گیا ۔ گھر آ کر بہت خوشی ہو ئی۔ یہاں، چاہنے والے بھی بہت زیادہ تھے۔ یہاں کی زندگی کا ایک اپنا ہی رنگ ہے۔ خلوص، محبت، رشتے اور لحاظ کا احساس! خوشبو، ذائقہ، نیکی اور عبادت کا ایک اپنا ہی سواد ہے! کہتے ہیں نا کہ انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا! سو وہ میں بھی ہوں! لگتا تھا کہ دو ہفتے جنت میں رہ آیا ہوں!
ایک نیا احساس اور دور شروع ہو گیا تھا۔ اب مجھے اپنے ویزے بچانے کی فکر بھی لاحق ہو گئی تھی۔ ویزے کی مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے، اُسکی تجدید کروانے کی فکر! چنانچہ، میں نے جون 2003 ء میں، برطانیہ کےتازے، ویزے کیلئے درخواست دی۔ انہوں نے میرے سابقہ کردار کی داد دیتے ہوئے، پہلے مجھے اور بعدازاں میرے بیوی بچوں کو بھی ویزے جاری کر دیئے۔
ملازمت، ایم۔فل اور زندگی، اپنی مخصوص رفتار سے ہی آگے بڑھ رہی تھی۔ تاہم مجھ پر، میرے ہی حالات کا دباؤ، پہلے سے ذیادہ بڑھ گیا تھا۔ کہتے ہیں،’’ضرورت، ایجاد کی ماں‘‘ ہوتی ہے۔ اسی طرح، جب آپکے پاس کوئی چیز ہو تو اُسکے استعمال کے بھی، سو بہانے نکل آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک سچا، بہانہ ستمبر 2003 ء میں پنجاب یونیورسٹی میں نکل آیا۔ ہمارے ایم۔فل کے امتحان ہورہے تھے۔ میں اپنے ایک عزیز، عمران احمد ابن میاں مقبول احمدصاحب مرحوم کے پاس ٹہرا ہوا تھا۔ شعبہ کی لائبریری سے کسی کتا ب کی، فوٹو کاپیاں کروا رہا تھا۔ فارغ ہوتے ہی، دوکاندار نے کہا ، سر آپکو، وہ شخص بُلا رہا ہے۔ میں اُسکی طرف گیا، تو وہ بولا، وہ سامنے موٹر سائیکل والا سر! اُس وقت تک یہ سب کچھ عام اور معمول کی بات لگ رہی تھی۔ لیکن بعد میں، پتہ چلا کہ یہ سب کچھ، باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کیساتھ، گھات لگا کر کیا جارہا تھا۔ میں وہاں پہنچا، تو موٹر سائیکل والے نے مجھے اونچی آواز میں گالیاں بکنا شروع کر دیں اورمیرا نام اور شعبے کا نام لیکر کہا کہ میں تیرے بارے میں سب کچھ جانتا ہوں اور اگر آئندہ تو یہاں گھومتا نظر آیا، تو تیری ٹانگیں توڑ دونگا‘‘۔ یہ کہتے ساتھ ہی وہ موٹر سائیکل پر نکل گیا۔ یہ سب کچھ پلک جھپکتے میں واقع ہوا، لیکن، اِسکے اثرات بہت بھیانک اور خوفناک تھے۔ میرا ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ سب کچھ اتنی جلدی اور اچانک ہوا کہ مجھے کسی کی شکل بھی یاد نہ تھی ۔ میں چوروں کیطرح، مخالف رستوں سے ہوتا ہوا، ہاسٹل پہنچا۔ صبح ،ڈیپارٹمنٹ میں چاؤلہ صاحب کو شکائت کی۔ انہوں نے باسؔط اور شعبہ کے ناظم جمیعت کو بُلوایا۔ سب نے ہی اظہارِ افسوس کیا۔اور احتیاط کی تلقین کی۔ اگلے روز، جمیعت کے ناظم نے بتایا کہ ہمارے ڈیٹا بیس پر، اِنکے خلاف کوئی رپورٹ تو درج نہیں۔ تاہم ، کسی’’ کارکن‘‘ نے اپنے طور پر یہ کاروائی کی ہو تو اِسکا علم نہیں۔ ہاں اگر، یہ اُس کارکن کو پہچانتے ہوں یا پہچان لیں، تو ہمیں بتائیں! لیکن، مشورہ یہ دیا کہ احتیاط ہی بہتر ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمیں علم ہونے سے پہلے کوئی اقدام نہ ہو جائے! خیر، دبے پاؤں امتحان دیا اور پھر ہمیشہ کیلئے وہاں سے نِکل آئے۔
کچھ عرصہ بعد، ایک سٹوری سے اِس کے تانے بانے یوں ملے۔ ہمارے ایک دوست کو ایک کلاس فیلو، پسند آگئی تھی اور وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ دونوں ہی اچھے گھرانے سے تھے۔ اور صاحب روز گار تھے۔ لڑکی اُسے لفٹ نہیں کرواتی تھی۔ ناکامی پر، لڑکےنے مجھے بھی اِس معاملے میں مدد کیلئے کہا۔ میں نے لڑکی سے بات کی، تو اُس نے صاف جواب دے دیا کہ کہ میں کسی داڑھی والے اور مولوی ٹائپ سے شادی کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ اپنی ذاتی ناکامی پر، موصوف نے، ہمارے ہی ’’گروپ لیڈر‘‘کے خلاف جمیعت کو شکائت کردی۔ جسکی بناء پر، مذکورہ بالا واقعہ ہوا۔ یعنی وہی ملزم وہی منصف والی بات ہوئی۔
خیر، میرے ڈانواں ڈول منصوبے کو، اب ایک معقول جواز مل گیا تھا۔ لہذا، 10 اکتوبر 2003 ء کو ہم لوگ، وطنِ عزیز سے ’’ہجرت ‘‘ کرنے پر مجبور ہوگئے۔
۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔