احمدندیم قاسمؔی صاحب مرحوم

احمدندیم قاسمؔی صاحب مرحوم
( 1916۔2006 )

آج سے 50 سا ل قبل ، میڈیا اور سوشل میڈیا   کے الفاظ کی بجائے ، ادب، صحافت ، شعر  ، نثر ، افسانہ ، ناول اور ڈرامے کے الفاظ ، پاک وہند میں   بہت کثرت سے استعمال ہوتے تھے۔ اخبار اور ریڈیو  ، خبر وں  کے نشر کرنے کے بڑے ذرائع تھے۔ جبکہ پی۔ ٹی ۔وی ، انٹرٹینمنٹ کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔

ہماری زندگی میں سب سے پہلا ٹی۔ وی سیٹ ، ہمارے ہمسائے، پروفیسرمحمد شریف   صاحب کے گھرمیں آیا تھا۔ جہاں پر ہم اتوار کے اتوار،   کارٹون  ،  ہاکی   اور باکسنگ کے میچ دیکھنے کیلئے جاتے تھے۔ ٹی ۔وی کی نشریات کے اوقات بھی ، پہلے پہل ، شام 4 بجے سے رات کے 9 بجے تک تھے جو بعدازاں رات 12 بجے تک کردیئے گئے۔ اسی ّ کی دہائی میں ، رات   نو بجے  کے خبر نامے کے بعد ، شروع ہوکر رات  12 بجے تک نشر ہونیوالے   ، طویل دورانیئے  کے  ڈراموں  کے لیئے جاگنا بھی ، ایک   کٹھن مرحلہ  ہوتا تھا، جو طے کرنا  ہی پڑتا تھا۔ اُس زمانے میں ، دن کی طرح، رات کا بھی ،  اپنا    احترام ہوتا تھا۔ اب  کسی چیز کا بھی کوئی احترام باقی  نہیں رہ گیا۔ نہ  جان کا  اور  نہ  ہی مان کا !

بڑے بڑے ، شعرا، اَدِّباّء  ،دانشور، قلمکار اور صحافی حضرات   کو عوامی شہرت اور قبول ِعام ، پی۔  ٹی۔وی کے ذریعے سے ہی ملا۔ قبل ازیں،  وہ  اپنے  چھوٹے سے علمی ،ادبی   اور صحافتی حلقوں میں ہی پہچانے جاتے تھے۔ لہذا، اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہر ایک نے ہی ، چاہے وہ شاعر تھا،   ادیب یا صحافی  ! سب نے کہانی ، افسانے اور ڈرامے کی ادبی صنف پر کام کرکے  اپنا نام کمایا۔ مثلاً احمد ندیم قاسمؔی صاحب(قاسمی کہانی)  ، عبیداللہ علیؔم صاحب، منیراحمد صاحب  المعروف مُنوں بھائی (سونا چاندی )، عطاءالحق  قاسمی صاحب (خواجہ ایندسنز) اشفاق احمدصاحب(ایک محبت   سو افسانے ) ڈاکٹر یونس جاوید  صاحب (اندھیرا اجالا)  امجد اسلام امجد صاحب(وارث اور دہلیز)  حسینہ معین  صاحبہ (تنہایاں، دھوپ کنارے) انور مقصود (آنگن ٹیڑھا) وغیرہ وغیرہ۔ ان مشہور ، افسانوں اور ناولوں کو، جن  عظیم الشان  وجودوں نے، اپنے تخیل کے فن سے ،  ،  ڈرامائی  شکل   دیکرامر بنا دیا تھا ، ان میں ، یاور حیات خان،  قنمبر علی شاہ، نصرت ٹھاکر اور ایوب خاور اور قیصر فاروق جیسے نمایاں  لوگ شامل تھے۔ اِن میں سے نصف کے قریب لوگوں سے مجھ ناچیز کو بھی ملنے کا اتفاق ہوا ہے۔

منوؔں بھائی اور عطاءالحق قاسمؔی صاحب سے وزیرآباد  کالج میں ، چونکہ دونوں ہی وہاں کے سپوت تھے۔ جبکہ احمد ندیم قاسمی ؔ صاحب سے ملاقات، ہمارے ہمسائے ، میرزا  حبیب احمد صاحب مرحوم   ایڈووکیٹ  کے گھر پر 1988/89  ء میں ہوئی۔ میرزا صاحب کی  چار بیٹیاں ، محترمہ منصورہ   حبیب (جو بعد میں قاسمی صاحب کی منہ بولی بیٹی بننے کے بعد ، منصورہ احمدکہلاتی تھیں) فوزیہ حبیب،   نصیرہ حبیب اور طاہرہ حبیب!یہ ساری ، ایک ایک کرکے ، اُس زمانے میں لاہور چلی گئی تھیں ، جب ہم پرائمری سکول کے ٹاٹوں کی دھول چاٹ رہے تھے۔ یہ وہ   زمانہ  تھا، جب  اعلیٰ  تعلیم  دینے والے استادکا کردار،   علم   کی ترویج  کا معیاراور ادارے کی  تنظیم اور وقعت اپنے عروج پر تھی۔ اِن ساری بہنوں نے ہماری طرح ہی عام مضامین ، جیسے باالترتیب، انگریزی، فارسی ، اسلامیات اور صحافت میں  ایم ۔اے کیا تھا۔ تمام نے اپنے کیرئیر کا آغاز، لیکچررشپ سے ہی کیا تھا ، لیکن پھر اپنے مثبت  ،   وسیع اور بہترین تعلقات کی بنیاد پر ، کئی اداروں سے وابستہ ہوکر  ، بڑے  بڑے وجود بن گئیں تھیں ۔ صوبائی اور وفاقی    سطح  پر ، معقر علمی و ادبی حلقوں میں ، اِن تمام بہنوں کی،  اپنی الگ الگ پہچان تھی ۔ لیکن اِس با ت کا علم ،  حافظ آباد میں زیادہ لوگوں  کو نہیں تھا۔ ہمیں بھی، بہت   بعد میں  جا کر ،  تھوڑا  بہت علم   ہی ہو سکا تھا۔   اِسکی  کئی وجوہات تھیں۔ ایک تو یہ کہ صحیح  معنوں میں  ،  بڑے اور علمی لوگ،  اپنی بے جا نمود ونمائش نہیں چاہتے۔ دوسرے ،  چھوٹے شہروں سے ترقی  پا جانے لوگوں کے جاننے والے، اپنے جائزوناجائز کاموں کے لئے، اُنکی زندگی اجیرن کر دیتے ہیں۔

فوزیہ بی بی کی شادی کے موقعہ پر ، قاسمی ؔصاحب ، امجد اسلام امجدؔ صاحب، نصرت ٹھاکؔر ، ایوب خاؔور اور عظمی ٰ گیلاؔنی صاحبہ سے بھی ملاقات ہو ئی ۔ ا نکے  علاوہ بھی کئی نامور لوگ شادی پر موجود تھے۔میری والدہ اور ہمشیرہ بھی ہمراہ تھیں۔

احمد ندیم قاسمی ؔ صاحب نے اردو اور انگریزی میں ایم ۔اے کررکھا تھا۔صحافت بطور پیشہ  اور شعرو نثر بطور شوق اپنایا۔ آپکا رجحان شروع سے ہی ترقی پسندانہ تھا۔ جسکی وجہ سے ، ایوبی مارشل لاء  اور بھٹو کے آمرانہ دور میں کئی مرتبہ پابندِ سلاسل بھی رہے۔ پہلی مرتبہ ،  ادیبوں اور قلمکاروں کی تنظیم سازی پر کا م آپکا   بڑانمایاں کارنامہ تھا ۔ ایسی کئی تنظیموں   کی سربراہی کرتے رہے۔ روزنامہ’’ امروز ‘‘کے ایڈیٹر رہے جبکہ انگریزی  روزناموں،  ڈان، دی جنگ  اور دی نیوز سے  بھی وابستہ رہے۔ کئی نئے و  پرانے  علمی جرائد اور رسالوں کے ایڈیٹر بھی رہے۔ اِن میں سے ’’نقوش‘‘ اور’’ فنون‘‘ کا مرتبہ ، اردو ادب کے انسائیکلو پیڈیا کا سا ہے۔

افسانہ نگاری  آپکا خاص  شعبہ تھا ۔ پاک وہند میں اپنے دور کے سب سے  کامیاب   افسانہ نگار سمجھے جاتے رہے۔ آپ پاکستان کے ان معدودے چند ، دانشوروں میں سے تھے  ، جنکی وجہ سے پاکستان  کا نام ، دنیا بھر میں ، عزت و  احترام سے لیا جاتا تھا۔

بڑی خوبصورت  ا ور پُر کشش شخصیت کے مالک تھے۔ دیگردانشور لوگ ، آپکو سننا پسند کرتے تھے۔ لیکن ایک دن ، آپ کو مجھے بھی سننا پڑگیا تھا۔ میں نے اُنہیں اپنی اکلوتی ،وارد ہونےوالی شاعری سنائی ۔ آپ نے  کچھ اور سنانے کو بھی کہا ، لیکن  میرے پاس اِسکے علاوہ اور کچھ  سُنانے کو  تھا نہیں۔ اُنہوں نے کہا کہ کوشش جاری رکھیں۔ تاہم ، جو میں نے اُنہیں   سنایا،  وہ شاعری میں میری آپ بیتی تھی اور ہمارے بلائی صحن میں ہی وارد ہو ئی تھی ۔ عرض ِ خدمت ہے:

بارش ہوئی ، جل تھل ہو گیا

بوندیں پڑیں ، تو  میں کھو گیا

خوشبو تھی ، موتیئے کی عجب !

گلاب بھی  تھا ، کچھ کھلا کھلا!

رنگ برسات نے ہی ایسا دکھلایا

یہ موسم اک برس بعد آیا!

جانتے ہو وہ دِلرُبا کون تھی ؟

وہ بارش تھی، جس نے مجھ کو تڑپایا !

 

آپکا وطن ِعزیز کیلئے  لکھا گیا ،   ایک  شہرہ آفاق ، دعائیہ منظوم کلام  ، آپ  ہی کی مغفرت  اور بلندی ء درجات  کیلئے  پیشِ خدمت   ہے :

خداکرے مری ارضِ پاک پر اُترے

وہ فصل ِ گُل جسے، اندیشۂ   زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے، وہ کھلا رہے برسوں

یہاں خِزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے، وہ  ہمیشہ سبز رہے

اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں  یہاں ایسی بارشیں برسائیں

کہ پتھروں سے بھی روئیدگی محال نہ ہو

خداکرے کہ وقار اِسکا غیر فانی ہو

اور اِس کے حسن کو تشویش ِماہ و سال نہ ہو

اور ایک فرد ہو  تہذیب وفن  کا  اوج ِکمال

کوئی ملول نہ ہو،  کوئی خستہ حال نہ ہو

خداکرے مری ارضِ پاک پر اُترے

وہ فصل ِ گُل جسے، اندیشۂ   زوال نہ ہو