خاندانِ میاں کھیوا صاحب مرحوم ۔ ایک تعارف!
عِلم تاریخ، معلومات کا خزانہ، حقایٔق و معارف اور واقعات کے بیان کا ایک ایسا بہتا دریا ہے جو، اپنا راستہ خود بنا تا اور ہرلمحہ، رواں دواں ہے۔ ہم سب تاریخ کے طالبعلم ہیں اور اپنی اپنی بساط کے مطابق، تاریخ کے مضمون میں، تقریری (زبانی) ، تحریری، مادی (تعمیری) ا ور تحقیقی لحاظ سے، اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
تمام چھوٹے اور بڑے، سچے و جھوٹے مذاہب کے نزدیک، انسانی تاریخ کی عمر قریباً 7 ہزار سال پرانی ہے۔فنِ تحریر5 ہزار سال، جبکہ کاغذ کی تاریخ تقریباً 3 ہزارسال پرانی ہے۔ تاریخ دانوں کے مطابق، تما م معلوم اور مصدقہ آثارو شواہد کی بنیاد پر، حالیہ نوع ِ انسانی کا آغاز، قریباً 20 ہزار سال قبل ہوا تھا۔ یہ ساری معلو مات اپنی اپنی جگہ ثِقہ اور دُرست ہیں۔ اسی لیے، اسلام احمدیت سمیت کسی مذہبی پیروکار نے، کبھی اس با ت کو نہیں جھٹلایا اور نہ ہی جھٹلایئں گے۔
وجہ یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پہلے،حضرتِ انسان کو پیدا کیا ۔ اور اپنے قانونِ فطرت کے تابع، اُسکی جسمانی، نسلی اور ذہنی افزائش اور ترقی ہونے دی ۔اُسکے دماغ اور اُسکی سوچ وسمجھ کو بالغ ہونے دیا ۔ یہ عرصہ، ہزارہا سال پر مبنی تھا۔ یہاں تک کہ وہ ایک جاندار مخلوق سےایک معاشرتی مخلوق بن گیا۔اب اُسکو اپنے پلان کے مطابق، ایک با کمال انسان بنانے کیلئے، قریباً 7 ہزار سال قبل، حضرت آدم علیہ السلام کو، معاشرے میں پہلے سے موجود، سینکڑوں و ہزاروں انسانوں کیلئے اپنا ’پیغامبر‘ اور لوگوں کیلئے بطور، ’رہبر‘ مقرر فرمایا۔
علم ِتاریخ کے مُسلِمّہ اصول و ضوابط کے مطابق، تحقیق و تفتیش کا ایک طے شدہ طریقہ کا ر ہے۔ مثلاً، جب کسی قضیہ سے متعلق، مصدقہ جسمانی ( یا مادی)، تحریری یا زبانی ثبوت اور شواہد میسر نہ آسکیں، تو عصری شہادتوں سے، ماضی میں ہونیوالے واقعات کے بارہ میں ایک مبسوط اور حقیقت بر مبنی ، رائے قائم کی جاتی ہے اور اس بارہ میں، دوسروں کی معلومات اور رائے جاننے کیلئے اس بات کو شائع یا مشتہر کیا جاتا ہے۔ ناقدین کے اعتراض کی روشنی میں مزید چھان پھٹک کی جاتی ہے ۔ برس ہا برس، اِس تحقیقی مواد کو بطور حوالہ پیش کیا جاتا ہے۔ تب جا کر یہ با ت بذات ِخود ایک’ حوالہ‘ بن جاتی ہے۔ لیکن جھوٹ اور غلط با ت ،کبھی صداقت کا درجہ حاصل نہیں کر پاتی، چاہے وہ 1400 سال سے پیش کی جا رہی ہو۔ مثال کے طور پر، شیعہ مسلک کے کئی عقائد کی تر دید! جنکی سنَد ، سنتِ نبویﷺ سے، زبانی ،تحریری اورعملی طور اور تواتر سے ثابت نہیں۔
مذکورہ بالا اصول وقوانین کو بروئے کار لاتے ہوئے، ہم با آسانی ، درج ذیل نتا ئج پر پہنچ سکتے ہیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ راقم کے والد(ڈاکٹر) بشیر احمد مرحوم کے 4 بڑے بھایئوں نے اوسطاً70 برس کی عمر پائی ہے، جبکہ دادا میاں فضل دین مرحوم اور اُنکے تین بھائیوں نے اوسطاً 80 برس! راقم کے پڑدادا میاں کھیوا مرحوم اور اُنکے دو بھائیوں نے اوسطاً90 سال سے زائد عمر پائی ہے۔ یہاں تک کا ثبوت اور ریکارڈ تو موجود ہے۔ مذکورہ بالا، تین پُشتوں کی اوسط عمر 80 برس بنتی ہے۔لہذا، ما ضی میں ایک جیسے حالات وواقعات کی بنیاد پریہ اندازہ لگانا قطعاً دشوار نہیں ہوگا کہ اِن سے پچھلی ، کم از کم دو، تین پُشتوں کے حا لات بھی ملتے جلتے ہی رہے ہونگے۔لہذا ،دستیاب وبہترین معلو مات اور غالب قیاس پر مبنی، اپنی خاندانی تاریخ کا، قریب ترین پشت سے آغاز، میاں مَتّی یا متّے سے کریں گے۔
گو، زبانی طور پر راقم اِن سے بھی پہلے کی دو پشت کے لوگوں کے نام موسوم ’’ارجؔانی‘‘ ولد ’’سوکھَّلیؔ‘‘ بھی جانتا ہے۔
یاد رہے کہ ماضی میں تبدیلی کا عمل انتہائی سُست رو تھا ۔ معاشرہ اور فرد کی زندگی میں جو تبدیلی، آج کی سائنسی ترقی اورصنعتی انقلاب ( انڈسٹریل ریولیوشن) کی بدولت، اب دس برس میں آجاتی ہے، ماضی میں وہ سو سال میں بھی نہیں آتی تھی۔ اس تاریخی حساب کتا ب کی روشنی میں، راقم کا یہ ماننا ہے کہ’’ میاں مؔتی‘‘ کی پیدائش کا زمانہ 1765ءکے لگ بھگ کا ہے۔ وہ زمانہ ، چونکہ تعلیم کے عمومی فقدان اوربے روزگاری کا زمانہ تھا، لہذا، شادیاں نوعمری میں ہی ہو جاتی تھیں ۔ لیکن اگر کسی بھی قسم کے ممکنہ نا مساعد حالات مثلاً بیماری، اولاد کی دیر سے پیدائش یا نرینہ اولاد سے قبل مسلسل کئی بیٹیوں کی پیدائش، وغیرہ کیو جہ سے، نسل کی ترقی میں رکاوٹ وغیرہ جیسے معاملات کو غور میں لاتے ہوئے ، اگر شا دی کی اوسطاً آخری عمر25 برس مقرر کی جائے ،تو میاں متیؔ کی شادی 1789ء کے لگ بھگ ہوئی ہو گی ۔ اِس بنیاد پر، انکی بڑی نرینہ اولاد ، میاں کھؔان (یا خان) کی پیدائش 1790ء کے لگ بھگ کی بنتی ہے۔
اسی طرح میاں کھاؔن (خان) کی اپنی شادی 1815ء کے لگ بھگ ہوئی اور انکی اولاد ِنرینہ ، ’’میاں محرؔم‘‘ کی پیدائش بھی 1815ءکے لگ بھگ ہوئی۔ جبکہ میاں محرمؔ کی شادی 1840 ء کے لگ بھگ ہوئی ۔ اُنکے تین بیٹوں ، میاں جیؔونہ ، میاں کھیوؔا اورمیاں راجدؔین، کی پیدائش 1840 تا 1845 ء کے درمیان میں ہوئی۔ ممکن ہے کہ کوئی اس بیان سے متفق نہ ہو۔ لیکن اُسکے پاس، اِس بات کو جھٹلانے یا غلط ثابت کرنے کیلئے کوئی دلیل اور ثبوت نہیں ہو گا، انشاءاللہ۔
میاں جیوؔنہ، میاں محرّؔم صاحب کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ آپکے 4 بچے تھے: فاطمؔہ بی بی، میاں غلام محمد، میاں فتح مؔحمد اور روشناؔئی بی بی۔ میاں جیونہ کی اولاد میں سے ، آپکی دو نواسیوں، محترمہ بھاگ بھری بنت سَید محمد و فاطمہ بی بی صاحبہ اورعائشہ بی بی بنت میاں لدّا و روشنائی صاحبہ، اور ایک پوتی ، صغراں بی بی بنت میاں غلام محمد کی شادیاں، اپنے احمدی کزنوں کیساتھ ہوئیں ۔وگرنہ میا ں جیوؔنہ کی کوئی اولاد، باوجود ، اپنے چچا میاں کھیوؔا صاحب کے احمدی بچوں سے دینی بحث ومباحثوں اور قادیان کی زیارتیں کرنےکے، احمدیت کو قبول کرنے سے محروم رہی۔
میاں راجدؔین، میاں محرّؔم صاحب کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ آپکی دو شادیاں ہوئی تھیں۔ پہلی بیوی سے آپکے دو بچے تھے۔ بیٹی فاطمہ بی بی تھی( جو راقم کی بڑی دادی اماں تھی ) دوسرے میاں غلام محمد تھے۔ یہ بھی احمدیت کی دولت سے محروم رہے تھے۔
میاں کھیوؔا، میاں محرّؔم کے منجھلے بیٹے اور ہمارے جدّ امجد ہیں۔ انکی پیدائش1843/ 1845ء کے لگ بھگ کی ہے۔ البتہ اِنکی وفات 1938ء میں ۔۔تقریباً 95 سال کی عمرمیں، کو ٹ شاہ عالم ، نزد پنڈی بھٹیاں میں ہوئی ۔
میاں کھیؔوا مرحوم اور انکی اہلیہ امام بی بی نے، (80ـ90 سال کی عمر تک) اپنے بچوں، پوتے پوتیوں اوربھتیجے، بھتیجیوں کو، کوٹ شاہ عالم میں خود پال پوس کر جوان کیا ۔ آپ کی پیدائش، موضع ہنجرانواں والی میں ہی ہوئی۔ آپکے والد میاں محرؔم اورآپکے دادا میاں کھاؔن (خان ) مسلمان تھے۔ تا ہم، آپکے پڑدادا میاں مؔتی کے مذہب سے متعلق ہمیں کو ئی علمِ واثق تو نہیں،حُسن ِ ظنّی یہی ہے کہ وہ بھی مسلمان تھے۔اس حساب سے راقم کا خاندان ، پچھلی سات پشتوں سے بفضل تعالی ٰ ، ایک مسلمان خاندان ہے۔ الحمدللہ!
بفرضِ محال، میاں متؔی سے متعلق، اگر یہ حُسنِ ظنی درست نہ بھی ہو تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اُنکےوالد مسمّی ارجاؔنی صاحب اور دادا مسمّی سَوکھلّی صاحب ، تو لازماً پنجابی اورسکھ مذہب سےہی تھے۔ اِس دعویٰ کی سب سے مستحکم دلیل آپکی ذات، قوم ہنجرا جٹ ہو نا ہے۔ یہ لوگ مالک زمیندار تھے۔ آبائی پیشہ کھیتی باڑی تھا ۔ اس بات کا ثبوت، میاں کھیؔوا مرحوم کی اپنی ذات، زندگی اور پیشہ سے ملتا ہے۔
یہ لوگ، عمومی طورپر، نیک صفت، مذہبی اور صوفی مزاج کے حامل تھے۔نما ز روزہ کے پابند اور دینی مجالس سجانے کے رسیا تھے ۔اسی لئے چوہدری کہلانے کی بجائے ’میاں‘ کہلوائے۔ معاشی لحاظ سےتساہل پسندی اور کاہلی کا شکار تھے۔ کاشتکاری، محض اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے کیا کرتے تھے نہ کہ کاروبارکو ترقی دینے کیلئے!
جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ 1849ء میں انگریزوں کے پنجاب پر قبضہ کرنےکے بعد، کئی سال تک، اپنی ہی زمینوں پر عائد لگان اور مالیہ ادا نہ کر سکے۔دوسری طرف، انگریزی حکومت کا قانون اوراُس پرعملداری بھی ضرب المثل تھی۔ایسے جرموں کی سزا ز مین کی قُرقِی اور’کِڑیکی‘ (یعنی سر عام بانسوں سے بنے سانچے سے باندھ کر بدنی سزا دینا) تھی۔ یہ انِکو گوارا نہ تھا۔ لہذا، میاں محرؔم ، اپنے بیوی بچوں(میاں کھیؔوا، میاں جیوؔنہ اورمیاں راجؔدین کے ہمراہ)، مو ضع ہنجرانواں والی سے، ہجرت کر کے، چھُپتے چھُپاتے، اپنے رشتہ داروں کے پاس، پنڈی بھٹیاں کے نزدیک ایک گاؤں، کوٹ شا ہ عالم میں آن بسے۔ یہ 1875ء کے لگ بھگ کی بات ہے۔ یہاں بھی، ان لوگوں نے، کو ٹ شا ہ عالم میں، اور اِسکے آس پا س، مختلف دیہات میں، چھو ٹے بڑے قطعہائے زرعی اراضی، ٹھکیے پر لے کر، زمیندارہ کا آبائی کا م جا ری رکھا۔
اپنے معمر والد، اور بھائیوں کے علاوہ، میاں کھیوؔا صاحب و امام بی بی صا حبہ کی اپنی اولا د، 4 لڑکے، میاں محمد مراؔد، میاں احمدؔ دین، میاں فضل ؔدین ، میاں مولا ؔبخش اور ایک لڑکی بنام مر یم ؔبی بی تھی۔ اسم کھیؔوا، بطور نا م ، بالکل نا مانوس سا لگتا ہے۔ پنجابی زبان و ادب میں ، اِسکے د و مطالب، معلوم ہیں۔ اول، ملاح ، یعنی کشتی ’’کھیئنے والا‘‘، دوسرا، کھانا کھلانے والا، یعنی ’کھیووان والا‘ یعنی مہمان نواز! اِسی طرح، میاں جیوؔنہ (یعنی لمبی عمر پانے والا ہو!) ، میاں راجدؔین یعنی دین میں راج کرنےوالا یعنی عالمِ دین!
راقم کے نزدیک ، میاں محرؔم صاحب یا تو خود ایک عالم انسان تھے یا کم ازکم، اُنکی نسبت و تعلق، اپنے وقت کے کسی بڑے عا لم سے تھا! یہ بات خدا لگتی ہے! تبھی تو انہوں نے اپنے فرزندوں کے ایسے بامعنی نا م تجویز کئے یا کروا ئے تھے۔یہیں پر بس نہیں۔ خود میاں کھیؔوا صاحب مرحوم تو، اِس پہلو سے، اپنے والد محترم سے بھی ایک ہاتھ آگے نکل گئے۔ اپنے بچوں کے نام، پہلے سےبھی بڑھکر ، بامعنی اور با کمال رکھے یا رکھوائے۔ جیسا کہ ، محمد مراد، احمددین، فضل دین اور مولا بخش! سبحان اللہ !
اگر،کسی کو، کوئی شک گزرے کہ بس، ایسے ویسے، عام سے لوگ ہی تھے تو بتلائے کہ اپنے بچوں کے نام ، واپس اپنے آباء کے نا موں، مثلاً ارجاؔنی، سو کھؔلّی، متّیؔ یا اروؔڑہ ،کرملیؔ، وغیرہ کیوں نہ رکھے ؟ جس طرح، میاں کھیوا صاحب ، خود بھی ایک ’اللہ لوک‘ اور نیک پرور انسان تھے، اِسی طرح، آپکی سا ری اولاد بھی بفضل تعالی، نیک، صالح اور تا بع فرمان ہوئی۔
آپ کے آباء اورآپکی اپنی نیک طینت زندگیوں کا ایک ثمر، اللہ تعالیٰ نے یوں بھی دیا کہ امام ُالزَّماں اور مسیح ِدوراں کی شناخت اوراُس پر ایمان لانے کی توفیق 1910 ء میں آپکو ملی۔ آپ کے سب سے بڑے فرزند، حضرت میاں محمدمراد صاحب ؒ نے اِس خاندان میں سب سے پہلے حضرت خلیفۃالمسیح الاول ؓ کے ہاتھ پر، قادیان جا کر شرفِ بیعت حاصل کیا۔ بعدازاں، آپکے ہی ذریعہ سے، آپکے والدین اور بہن بھائیوں نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔
میاں کھیوا صاحب مرحوم، زیادہ وقت کوٹ شاہ عالم میں ہی رہائش پذیر رہے لیکن اِنکے بڑے بیٹے میاں محمد مراد صاحب نے ، شادی کے بعد، پنڈی بھٹیاں میں سکونت اختیا رکرلی تھی۔ لہذا، میاں کھیوا صاحب نے بھی، بعدازاں، ایک مکان، پنڈی بھٹیاں میں خرید لیا تھا جو اُنکی وفات کے بعد بیچا گیا۔
آپکی وفات کے بارہ میں دو آراء ہیں کہ پنڈی بھٹیاں میں ہوئی یا پھر کوٹ شاہ عالم میں؟ قرین قیاس یہی ہے کہ کوٹ شاہ عالم میں ہوئی کیونکہ آپکی تدفین بجھنےّ /کوٹ بدردین میں ہوئی، جو کوٹ شاہ عالم سے ایک ڈیڑ ھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ اور اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ یہ 1938ء کے لگ بھگ ہوئی اورآپکی عمر 90 برس سے زائد تھی ۔