بیت اللہ حاضری کے بعد روضہء رسولﷺ کی زیارت
مورخہ 17 اگست بروز اتوار: صبح سے ہی، طبیعت عجب ملگجی سی ہو رہی تھی۔ مکہ شریف سے رُخصتی وجدائی کی تکلیف وکسک اور مدینۃ الرسول ﷺ جانے کی آرزو اور تڑپ نے، ہم دونوں کوبہت بے چین کر رکھا تھا۔
بس سٹاپ، ہمارے ہوٹل کے پچھواڑے، چند گزکے فاصلے پرہی تھا اورحرم شریف کا ہمسایہ! لہذا، الوداع ہوتے ہوئے، سارے زائرین کو اپنا آخری دیداربھی حرم شریف، بطورتحفہ خود عطاء کرتا ہے، سبحان اللہ!
پچاس نشستوں والی بڑی اور آرام دہ بس میں ہم قریباً دس بارہ افراد ہی ہوں گے۔ زیرِلب دُعاوں، دھڑکتے سینوں اور بہتی آنکھوں سے ہم روانہ ہو گئے۔ اِس دورے میں، اب ہم یہاں واپس نہیں آنیوالے تھے۔ بس آہستہ آہستہ، مکہ شریف کے شہری علاقے سے نکلتی ہوئی، مضافاتی علاقوں سے گزرتی ہوئی، ، بطرف جدّہ و مدینہ منورہ، غیر آباد علاقے میں داخل ہو گئی۔
مکّہ مکرّمہ سے مدینہ شریف کی کُل مسافت بجانبِ شمال تقریباً ساڑھے تین سو کلومیٹر ہے۔ بس 4 گھنٹوں سے کچھ زائد وقت لیتی ہے جبکہ درمیان میں ایک جگہ آدھے پونے گھنٹے کا ایک وقفہ آرام بھی ہو تا ہے۔ جب ہم غیر آباد علاقے سے گزر رہے تھے، میں نے والدہ محترمہ کو بتایا کہ یہ وہی راستہ ہے جس پر آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل، ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے بزریعہ اونٹ ہجرت کا سفر طے فرمایا تھا اور قریباً آٹھ روز میں یہ مسافت طے ہوئی تھی، جو اب 4/5 گھنٹوں کی بات بن چکی ہے۔
والدہ محترمہ نے، یہ سنتے ہی، درود شریف کے پہلے سے ہی جاری ورد کو بلند کیا اورساتھ رونا بھی شروع کر دیا۔ کچھ دیر بعد، کہا کہ تمھیں کیسے علم ہے کہ یہ وہی راستہ ہے؟ میں نے عرض کی کہ جیسے حافظ آباد سے ڈھینگرانوالی، پنڈی بھٹیاں اور ربوہ کا راستہ شروع سے وہی ہے۔ پگڈنڈیاں، کچی راہداریوں میں بدلتی ہیں جو آہستہ آہستہ سڑکوں کی صورت اختیار کرلیتی رہی ہیں۔ چاہے نئی اور کشادہ سڑکیں بن جائیں، منزل کا راستہ وہی رہتا ہے۔ قدیم و اصل راستوں کیسا تھ ساتھ ہی ریل اور روڈ کی تعمیرو ترقی ہوتی رہی ہے۔ لیکن آپ میری بات سے مطمعن نہ ہوئیں۔ تقریباً نصف فاصلہ طے کرنے کے بعد، ایک جگہ بس نے وقفہ کیا۔ کُھلا، نِیم ریتلا صحرا اور اوپرصاف ستھرا، نیلگوں آسمان! یہ ایک چھوٹا سا لیکن بہت خوبصورت اورآزاد سا ریزارٹ تھا۔
حسبِ عادت و ضرروت، سب لوگ واش رومز کی طرف ہی لپکے۔ باتھ روم جدید ہونے کے باوجود بدبوداراور مکھیوں سے بھرے ہوئے تھے۔ یوروپ سے ہو آنے کے بعد، آپکو اِس المیئے کا سامنا تمام مسلمان دنیا میں رہے گا، یہانتکہ مکہ و مدینہ میں بھی!
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے مسلمان عموماً اورایشیائی مسلمان خصوصاً، اس کام کیلئے ایک خاص طبقہ کے لوگوں کے محتاج ہوگئے ہیں۔ یہ جہالت کی انتہاء ہوگی کہ اگر میں اُس معروف طبقہ کا نام بھی لکھوں جو ہمارے پیارے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے ہیں۔ چونکہ یہاں سعودی عرب میں خصوصاً، مکہ و مدینہ میں اُنکی آمد پر پابندی ہے، لہذا، یہ کام ہمارے غریب مسلم بھائیوں کو ہی کرنا پڑتا ہے جو نہ یہ کام کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی اِن سے ہوتا ہے!
سو آرام اور وقفے کا سارا سُرور جاتا رہا۔ ہر جگہ مکھیوں کی بہتات تھی۔ چائے کی طلب اور ضرورت تو تھی، اُسی پرہی اکتفا کیا۔ والدہ صاحبہ کی بے چینی تاحال برقرار تھی۔ لہذا ہم دونوں اپنے ڈرائیور کے پاس گئے جو کہ ایک ہندوستانی یا بنگالی، سادہ لوح اور نیم خواندہ مسلمان بھائی تھا! اُس نے میرے اِصرار پرہی میری بات کی تائید کردی، جس کے بعد، والدہ محترمہ نے مجھ ناچیز کو ایک بار پھر ’’عالم‘‘ تسلیم کر لیا اور برلبِ سڑک، جہاں کشادہ موٹروے پر اِکّا دُکّا گاڑیاں دوڑ رہیں تھیں، فرطِ جذبات سے، مٹی کو اپنے ہاتھوں سے سہلانا شروع کر دیا۔
سفر دوبارہ شروع ہوا اور ڈیڑھ دو گھنٹے بعد ہم مدینہ منورہ کے مضافاتی علاقہ سے ہوتے ہوئے، آہستہ آہستہ شہر میں داخل ہو گئے۔ منزل کیطرح، غروبِ آفتاب کا وقت بھی قریب آ رہا تھا۔ مکہ مکرمہ کی طرح یہاں بھی نظریں دُور سے ہی مسجدِ نبویﷺ کی میناروں کی دید کی طالب تھیں۔ الحمد للہ وہ یہاں بھی پوری ہوئی۔ دھیرے دھیرے، ہماری بس شہر کے وسط میں واقع، لاری اڈا پہنچ کر رُک گئی۔
بذریعہ ٹیکسی، قریبی ’’بنگالی محلّہ‘‘ کی ایک مکان نما سرائے پہنچے، جسکا پتہ ہمارے احمدی بنگالی دوست، جناب وقیع الزمان صاحب نے لندن میں دیا تھا۔ یہ واقعی ایک دیسی وضع کی سرائے تھی، جس میں چند ایک کمرے نیچے اور اُتنے ہی بالائی منزل پرواقع تھے۔ جس راستہ پر چل کر ہم یہاں پہنچے تھے، وہ کچا، خستہ اورکچی پکی نالیوں پر مشتمل تھا۔ اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ہم قدیم و غریب راج شاہی یا ڈھاکہ کے نواح میں گھوم رہے ہیں نہ کہ روضہ رسول ﷺ سے چند سو گز دور موجود ہیں۔
کاونٹر سے فارغ ہوئے اور بالائی منزل کے ایک کمرے میں اپنا سامان رکھا۔ فریش ہوکر، واپس اُسی راستہ سے ہوتے ہوئے، مسجدِ نبویؐ پہنچے۔ یہ راستہ والدہ صاحبہ کے ہمراہ پیدل قریباً 25/30 منٹ کا تھا۔ جبکہ میرے لئے 10 سے پندرہ منٹ کا ہوگا۔ اپنی آمد پر شُکرانے کے نوافل ادا کئے۔ نمازِ مغرب و عشاء ادا کیں۔ روزہ رسول ﷺ کے قرب میں پہنچے۔ سلام و درود بھیجا۔ اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔
رات اور دن کا فرق دونوں مقاماتِ مقدسہ پر نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ سارا ماحول اور منظر، روشنی اور نورکے ہالے میں رہتا ہے۔ گھڑی کے حساب سے رات کے دس بج رہے تھے۔ مسجدِ نبوی کے اطراف میں ایک بڑی رِنگ روڈ ہے، جس کے پار، عالیشان اور مہنگے ترین ہوٹلز، پلازے اور مارکیٹیں واقع ہیں۔ اِنکے درمیان، ہرطرح کے، چھوٹے بڑے، ریستوران، کھانے پینے کے سٹالز اور خوانچے، دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگوں نے بنارکھے ہیں۔ ہم نے ایک پاکستانی ہوٹل سے کھانا کھایا۔ اور واپس اپنی سرائے میں آگئے۔
آج کا دن بھی، ہمارے لئے، تاریخی، بہت بابرکت اوربھرپور تھا۔ روضہء رسول ﷺ پر حاضری ایک خواب کی تعبیر، قسمت پہ ناز، دل میں سکون وسرور کیساتھ ساتھ ایک اضطراب کا بھی باعث تھی۔ یوں کہیئے کہ ’’دِل مانگے مور‘‘ کے مصداق!
اگلے روز، مورخہ 18 اگست بروز سوموار، ہم صبح صبح ہی تیار ہو کرمسجدِ نبویؐ چلے آئے۔ آج ہم نے ہوٹل سے ویل چئیرلے لی تھی۔ لیکن راستہ اس قدر غیر ہموار تھا کہ ہم دونوں ہی تکلیف میں رہے اور آئندہ اِسکو استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ مسجدِ نبویؐ کے تمام اطراف (اندرون و بیرون) سے آنکھیں ٹھنڈی کیں۔ روضہء رسولﷺ پر سلام و درود بھیجا اور جنت البقیع اورمضافات کی زیارت کی۔ نمازیں ونوافل ادا کیے۔ تلاوتِ قران کریم ادا کی۔ اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔
واپسی پر میں نے، دو بڑے ہوٹلوں سے، جو مسجد کے بالکل سامنے واقع تھے، سے کرایہ کی بابت دریافت کیا تو وہ ہمارے 5 دنوں کے برابر، ایک روز کا بتایا گیا۔ لہذا، بِلا چُوں چَرا، ’’انگوروں کو کھٹّاّ‘‘ ہی تسلیم کرلیا۔
مسجد الحرام کے برعکس، مسجد نبوی عام مسجدوں کی طرح چوکور شکل کی ہے۔ اس کے چاروں طرف مسجد کے وسیع اورکُھلے دالان (صحن) ہیں جن کے درمیان، دیو قامت قِسم کی بڑی بڑی خوبصورت اورمنقّش، آہنی چھتریاں، بطورشائبان ایستادہ ہیں جودھوپ اور بارش سے زائرین کو بچاتی ہیں۔ یہ وسیع دالان، سروس ایریا کا کام کرتے ہیں۔ رش کے دنوں میں یہاں صفیں بنا کر نماز بھی ادا کی جاتی ہے۔
مسجدِالحرام المکہ و مکرمہ کی طرح، مسجد نبویؐ میں داخلے کیلئے بھی، بہت بڑے اورعالیشان دروازے ہیں۔ جن کے اسماء خلفائے راشدین اورسعودی بادشاہوں کے نام پر رکھے گئے ہیں۔ اِسی طرح، مسجد کے اندر بھی، دورِ خلافتِ عثمانیہ کے زمانہ سے کچھ دروازے موجود ہیں۔
قبلہ، مسجد کی جنوبی سمت میں ہے (یعنی مکّہ مکرمہ، مدینہ کے جنوب میں واقع ہے)۔ اس جانب مسجد تھوڑی سی آگے نکلی ہوئی ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے زمانے کی مسجد ہے۔ سعودی دور میں دو مرتبہ اس کی توسیع کی گئی ہے، جو عثمانی دور کی مسجد سے شمال، مشرق اور مغرب کی جانب ہے۔ اس آگے نکلی ہوئی جنوبی دیوار میں امام صاحب کا مصلیٰ ہوتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی مقرر کی ہوئی مسجد، اس کے اندر ہے۔ اسی کو آپؐ نے جنت کا حصہ قرار دیا ہے۔ یہ ریاض الجنۃ کہلاتا ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے قالین سبز رنگ کے ہیں جبکہ پوری مسجد کے کارپٹ سرخ رنگ کے ہیں۔
ریاض الجنۃ میں، حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے منبر و محراب نمایاں ہیں۔ آپ کے مصلیٰ کی جگہ سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ نے 91ھ میں محراب تعمیر کروائی۔ موجودہ مسجد نبوی کے محراب سے ذرا سا دائیں جانب، حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا منبرو مصلیٰ ہے۔ اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔
ریاض الجنۃ کے بائیں جانب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا روضہ مبارک ہے۔ یہ دراصل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا حُجرہ تھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی وفات ہوئی اوریہیں آپؐ کو دفن کیا گیا۔ دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہما کے حُجرے بھی یہیں تھے ۔ انہی کا ذکر سورة الحجرات میں ہوا ہے۔ سیدہ فاطمہ اور علی رضی اللہ عنہما کا گھر بھی ساتھ ہی واقع تھا۔
اس پورے ایریا کے گرد سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں، سبز رنگ کی جالیاں لگا کر اِسے محفوظ کر لیا گیا تھا۔ تین اطراف میں یہ جالیاں سبز ہیں اور جنوبی سمت میں ان کا رنگ سنہری ہے۔ سنہری جالیوں میں ہی مواجہہ شریف ہے۔ یہ ان جالیوں میں تین سوراخ ہیں جن میں سے بڑے کے عین سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی قبرانور ہے۔ چھوٹے دونوں سوراخوں کے سامنے سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی قبریں موجود ہیں۔ یہیں کھڑے ہو کر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور آپ کے قریبی ساتھیوں کے لئے سلام ودرود پیش کیا جاتا ہے۔ اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔
اِن جالیوں کے پیچھے سے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ اِن کے پیچھے ہی آقا نامدار، حضورﷺ کی قبرمبارک ہے۔ اصل میں انٹرنیٹ پر بے شمار، سچّے اور درست شواہد موجود ہیں، جن کے مطابق اِن جالیوں کے پیچھے، سبز رنگ کے دبیز پردے ہیں، جواینٹ ومٹی سے بنے، گنبد نما کمرہ کی دیواروں پر ڈالے گئے ہیں۔ اُس کمرے کے اندرنیچے گہرائی میں وہ تمام مقابر موجود ہیں اور نبی مکرم ﷺ کی قبرمبارک کے ارد گرد تو، سیسہ پلائی ایک دیوار بھی بنائی گئی ہے۔ اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد وبارک وسلم انک حمید مجید۔
لیکن، اِس ساری تفصیل سے ہمارے سمیت کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جب مکّہ مکرمہ میں کعبہ شریف کے سامنے ہوتے ہیں، تولگتا ہے کہ خُدا تعالیٰ کے دربارمیں کھڑے ہیں۔ اور جب روضہء اقدسﷺ کے سامنے کھڑے ہوں تویُوں لگتا ہے، آقاﷺ کے حضورحاضرہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے حجرات کے بالکل پیچھے اصحابِ صُفّہؓ کا چبوترہ ہے۔ یہ اب بھی ایک چبوترے کی شکل میں ہے جس پر لوگ عبادت کرتے ہیں۔
جنت البقیع:
جنت البقیع مدینہ منورہ کا تاریخی قبرستان ہے۔ یہ مسجد نبویؐ کی شرقی دیوار کے ساتھ ہی واقع ہے۔ پہلے مسجد اور قبرستان کے درمیان ایک محلہ تھا لیکن 1985ء کی تعمیر و توسیع کے بعد مسجد اور بقیع میں کوئی فاصلہ نہیں رہا۔ یہ قبرستان روضہ انورﷺ سے محض دو منٹ کے پیدل فاصلے پر ہے۔ اس کا دروازہ عموماً فجر اور عصر کے بعد کھولا جاتا ہے۔
موجودہ وہابی و سعودی خاندان کی حکومت سے قبل، جنت البقیع کا نقشہ بھی ہمارے پاکستان کے قبرستانوں جیسا ہی تھا، جہاں اہل سنت واہل تشیع حکمرانو وعوام نے، حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے احکامات کے برخلاف، پُختہ قبریں اور ان پر عالیشان عمارتیں تعمیر کی ہوئی تھیں۔ 1905ء میں ان عمارات کو گرا دیا گیا اور تمام قبور کو ایک ہاتھ کے برابر کر دیا گیا۔ یہاں یہ متعین کرنا ممکن نہیں ہے کہ کون صحابی کہاں دفن ہیں کیونکہ عہد صحابہ (رضوان اللہ اجمعین) میں قبروں پر کتبے لگائے جاتے تھے اور نہ ہی انہیں پختہ بنایا جاتا تھا۔
ہزارہا صحابہ اکرامؓ ، تابعین، تبع تابعین اور ان کے بعد امت کے بے شمار علماء و صالحین یہاں مدفون ہیں۔ یہاں مدفون صحابہؓ میں سب سے مشہور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی صاحبزادیاں سیدہ زینب، رقیہ، ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن بھی یہیں دفن ہیں۔ امہات المومنین بھی، سوائے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے، سب کی سب یہیں ہیں۔ آپ کے صاحبزادے ابراہیم اور نواسے حسن رضی اللہ عنہما بھی یہیں دفن ہیں۔
مسجدِ نبویؐ میں ایک بڑی لائبریری اور میوزیم بھی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اُس طرف جانے کا موقع نہ ملا۔
مکّہ مکرمہ کے برعکس، مسجدِ نبویؐ کے اندرونی حصّہ میں اور روضہء رسول ﷺ کی زیارت کیلئے، مردوں اور خواتین کیلئے الگ الگ حصّے اور انتظام روا رکھا جاتا ہے۔ لہذا، کچھ گھنٹوں کیلئے ہم دونوں، ماں بیٹا کوبھی جُدا ہونا پڑتا تھا، جو ہم پربڑا گراں گزرتا تھا لیکن یہ اُس سُرور اور خوش قسمتی کے مقابل کچھ بھی نہ تھا، جس سے، بفضلِ تعالیٰ، ہم فیضیاب ہو رہے تھے۔
ہم نے، مسجد کے شمالی صحن میں، مرکزی دروازہ، بابِ فہد، جس طرف ہمارا (بنگالی محلہ) تھا، ایک گھڑیال کو نشانی مقرر کر رکھا تھا۔ اور اِلّا ماشاءاللّٰہ مقرر کردہ وقت پر، ہم دونوں وہاں پہنچ جایا کرتے تھے۔
آج ہی ہم نے اپنی بہنوں، بھاوجوں اوراپنی اکلوتی اہلیہ صاحبہ کیلئے، والدہ محترمہ کیطرف سے طلائی زیورات، بطورتحفہ بھی خریدے۔ میں سوچتا ہوں کہ یہ ہم نے آج کیوں خریدے؟ جبکہ ہمیں ابھی دو دن مزید یہاں رُکنا تھا اوراِسقدر زیورات اپنے پاس یا ہوٹل میں رکھنا سراسراندیشہء نقصان تھا!
لیکن اِس کی وجہ جو بھی تھی، اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمیں اور ہمارے اموال کو اپنی حفاظت میں رکھا، الحمد للہ وثم الحمدللہ! علاوہ ازیں زیورات کے، عطریات، زری خطاطی کے نودرات، بچوں کیلئے تحائف بھی آج کے روز ہی خریدے گئے۔
رات، ایک پاکستانی ہوٹل میں کھانے کے دوران، کئی روزبعد، ٹی وی دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جہاں یہ خبرچل رہی تھی کی صدرپرویزمشرف نے استعفیٰ دے دیا ہے۔ میرے سمیت، وہاں موجود سب لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگا۔ عجب اتفاق ہے کہ گزشتہ روز، یعنی 17 اگست کو جنرل ضیاء کی برسی تھی اورآج دوسرے آرمی چیف کی رُخصتی! اللہ پاکستان کی مدد فرمائے۔ یاد رہے کہ ہم نے ہر جگہ، وطنِ عزیزکوبھی اپنی دُعاوں میں بھر پور طورسے یاد رکھا۔
مورخہ 19 اگست بروز منگل: آج ہم زیاراتِ مدینہ کیلئے روانہ ہوئے۔ مسجدِ قبا، مسجدِ قبلتین، بئرِ رومہ، جبل ومیدانِ اُحد ا ور کھجور پیک کرنے والی ایک بڑی فیکڑی دیکھنے بھی گئے اور وہاں سے بطور تحفہ کھجوریں بھی خریدی۔
موجودہ مدینہ منورہ، ایک گول شکل کا شہر ہے، جس کا مرکز مسجد نبویؐ ہے۔ مسجد کے ارد گرد ایک سڑک بنی ہوئی ہے، جسے مدینہ کا پہلا رِنگ روڈ کہا جاتا ہے۔ یہ مسجدِ نبویؐ کی حدّ بندی ہے۔ اس سے چھ سات کلومیٹر کے فاصلے پر دوسری رِنگ روڈ ہے۔ یہ موجودہ مدینہ کی آبادی کی باؤنڈری لائن ہے۔ اس سے مزید فاصلے پر تیسری رِنگ روڈ ہے ۔ یہ حرم مدینہ کی باؤنڈری لائن ہے۔ اِسی روڈ سے مشرقی سمت ریاض، شمالی سمت تبوک، مغربی سمت بدر اور جنوبی جانب مکہ اور جدہ جانے والی ہائی ویز نکلتی ہیں۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ مکّہ مکرّمہ سے مدینہ آنیوالی سڑک کا نام ’’طریق الہجرہ‘‘ ہے۔ جسکا ترجمہ ’’ہجرت والا راستہ‘‘ ہے۔ اِس سے میری کہی بات کی مکمل تصدیق ہوگئی، الحمد للہ!
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے دور کا مدینہ، موجودہ شہر کے سیکنڈ رنگ روڈ کے دائرے میں آباد تھا۔ اس دور میں مختلف خاندانوں کی الگ الگ بستیاں تھیں جو اس پورے علاقے میں ایک دوسرے سے وقفے وقفے سے پھیلی ہوئی تھیں.
جبلِ اُحد:
مسجد نبوی کے شمالی جانب (یعنی قبلہ وکعبہ کے مخالف سمت) بابِ فہد سے، اُحد پہاڑ صاف نظر آتا ہے اور محض دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔
یہ براؤن رنگ کا پہاڑ ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مجھ سے اور میں اِس سے محبت رکھتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں اکثر تشریف لایا کرتے تھے۔ پہاڑ کی بلندی کچھ زیادہ نہیں لیکن پھیلاؤ کافی زیادہ ہے۔ احد کے دامن میں ہی سن 3 ہجری میں، اسلام وکُفر کے درمیان دوسری جنگ ہوئی تھی۔ یہیں ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جو کہ تیر اندازوں کی پہاڑی کے نام سے مشہور ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مرور زمانہ سے یہ پہاڑی گھس کر اب کافی چھوٹی ہو گئی ہے۔
مسجدِ قبا:
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم مکّہ سے ہجرت فرما کر، سب سے پہلے قبا میں قیام پذیر ہوئے۔ یہ اس زمانے میں مدینہ کی نواحی بستی تھی۔ یہاں کی آبادی بھی سیدنا مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی دعوت کے نتیجے میں اسلام قبول کر چکی تھی۔ اس مقام پر آپ نے ایک مسجد تعمیر فرمائی جو دورِ نبویؐ کی پہلی مسجد ہے۔ قرآن مجید میں، اللہ تعالیٰ نے ایسی مسجد قرار دیا جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔
مسجد قباء مکہ سے آنیوالی موٹروے پر واقع ہے۔ اگر آپ مکہ کی طرف سے مدینہ میں داخل ہوں تو کہیں مڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سڑک سیدھی مسجد قبا تک آتی ہے۔ قبا کا علاقہ نہایت ہی زرخیز اور سر سبز و شاداب ہے۔ مسجد قبا کے ارد گرد گھنا سبزہ ہے اور کھجور کے کئی فارم ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے میں بھی یہ ایک زرعی علاقہ تھا۔ یہیں وہ فیکٹری تھی، جو ہم نے دیکھی تھی۔
ایک حدیث میں مسجد قبا میں دو رکعت نماز پڑھنے کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ اس سے عمرہ ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم بھی یہاں نماز پڑھنے کے لئے ہر ہفتے تشریف لایا کرتے تھے۔ ظاہر ہے مقصد محض نماز کی ادائیگی نہیں بلکہ قبا کے لوگوں کی تعلیم و تربیت بھی رہا ہوگا۔ اس مسجد کی پہلی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے کی۔ دوسری تعمیر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ہوئی جس میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اضافہ کیا گیا۔ بعد میں اس کی تعمیر و تجدید ہوتی رہی۔ اب اِس مسجد میں 20000 افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔
مسجد قبلتین:
مسجد قبلتین، مسجد نبویؐ سے تقریباچار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ مسجد ہے جہاں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نےبحالتِ نماز، وحیِ الٰہی کے تابعِ اپنا رُخ بیت المقدس سے پھیرکر خانہ کعبہ کی طرف کر لیا تھا۔
یہ ایک نہائت غیرمعمولی بات تھی اورحقیقی مومنین کے سوا بہت سوں کیلئے ایک ابتلا بھی!
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کعبہ کو اپنی پوری امت کا قبلہ مقرر کیا تھا۔ بنی اسماعیل ہمیشہ اِس سے وابستہ رہے ۔ بنی اسرائیل بھی شروع میں، اِسی کی طرف منہ کرکے نماز اور قربانی کا اہتمام کرتے رہے۔
جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے یروشلم میں بیت المقدس کی مسجد تعمیر فرمائی تو اس کے کچھ عرصے بعد بنی اسرائیل نے اُسے اپنا قبلہ قرار دے لیا۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی بعثت کے وقت ذریت ابراہیم کی دونوں شاخیں، یعنی بنی اسماعیلٔ و بنی اسرائیل، اپنے اپنے قبلے کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے اور اس کے بارے میں شدید نوعیت کے تعصب میں مبتلا تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں اقوام کے وہ افراد جو حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی پیروی پر متفق ہو چکے تھے، کی آزمائش کے لئے مدینہ ہجرت کے بعد کچھ عرصے کے لئے بیت المقدس کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر کیا۔ اس سے بنی اسماعیل کے تعصب پر ضرب پڑی لیکن ثابت قدم قریشی صحابہ نے اللہ کے حکم کے سامنے تمام تعصبات کو قربان کر دیا۔
تقریباً ڈیڑھ برس کے بعد دوبارہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کے وہ لوگ جو مسلمان ہو چکے تھے یا مسلمانوں کے قریب تھے، آزمائے گئے اور ان میں سے منافقین کا پردہ چاک ہو گیا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”نادان لوگ ضرور کہیں گے : انہیں کیا ہوا، کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے، اس سے یکایک پھر گئے؟ (اے نبی!) آپ ان سے فرمائیے: مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے ، سیدھی راہ دکھا دیتا ہے۔ تو اسی طرح ہم نے تمہیں ایک ”امت وسط“ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں کے سامنے حق کی گواہی دو اور رسول تم پر حق کی گواہی دیں۔ پہلے جس کی طرف تم منہ کرتے تھے، اس کو تو ہم نے صرف یہ آزمانے کے لئے قبلہ بنایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کون الٹا پھر جاتا ہے۔ معاملہ تھا تو بڑا سخت، لیکن ان لوگوں کے لئے سخت ثابت نہ ہوا جو اللہ کی ہدایت سے فیض یاب تھے۔ اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ یقین جانو وہ لوگوں کے حق میں بہت رحیم و کریم ہے۔
یہ تمہارے منہ کا ہم بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لو، ہم تمہیں اسی قبلے کی طرف پھیرے دیتے ہیں، جسے تم پسند کرتے ہو۔ مسجد الحرام کی طرف رخ پھیر دو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو، اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کرو۔ یہ اہل کتاب خوب جانتے ہیں کہ یہ حکم ان کے رب کی طرف ہی سے ہے اور برحق ہے، مگر اس کے باوجود یہ جو کچھ کر رہے ہیں، اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ تم ان کے پاس کوئی بھی نشانی لے اؤ، یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہ کریں گے اور نہ تم ان کے قبلے کی پیروی کرو گے۔ ان میں سے کوئی گروہ بھی ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگر اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے ، تم نے ان کی خواہشات کی پیروی کی تو تمہارا شمار یقینا ظالموں میں سے ہو گا۔ (البقرہ 144۔146)
طبقات ابن سعد کی روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں بشر بن براء بن معرورؓ کے ہاں دعوت پر تشریف لائے تھے۔ یہاں ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا اور آپ نے نماز ادا کی۔ تیسری رکعت میں یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ نے اس کے حکم کے مطابق اپنا رخ تبدیل کیا۔ چونکہ یہ 180 درجے کی تبدیلی تھی، اس لئے لامحالہ آپ کو چل کر مخالف سمت میں آنا پڑا ہوگا اور صحابہؓ کو اپنی اپنی جگہ پر ہی اپنا رخ تبدیل کرنا پڑا ہوگا۔ بعد ازاں اس حکم کی منادی پورے مدینہ میں کردی گئی۔
مسجد قبلتین بھی جدید بنی ہوئی ہے۔ یہ سفید رنگ کی بہت بڑی مسجد ہے جس کے اطراف میں گھنا سبزہ اور درخت ہیں۔
بئر رومہ
بئررومہ وہ کنواں ہے جسے بئر عثمانؓ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ مدینہ کے اس بڑے کنویں کا نام ہے جو مسجد قبلتین کے قریب ہی واقع ہے۔ اس کنویں کا پانی نہایت شیریں، لطیف اور پاکیزہ ہے۔ اُس زمانہ میں حضرت عثمان نے اس کنویں کو ایک لاکھ درہم کے عوض خرید کرمسلمانوں اور تمام لوگوں کیلئے وقف کر دیا تھا۔ یہ برلبِ سڑک ایک باغ نما جگہ ہے اور ایک سبز رنگ کا بورڈ بھی لگا ہوا تھا جو کہ عموماً سعودی حکومت پسند نہیں کرتی۔
مقامِ بدر:
عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ بدر، مدینہ سے ملحقہ ہی کوئی میدان تھا جہاں، کفرو اسلام کے درمیان پہلی باقاعدہ جنگ ہوئی۔ اصل میں، بدر، مدینہ منورہ سے لگ بھگ 80 میل دُور، بجانبِ جنوب ( ومکّہ مکرمہ) چھوٹی چھوٹی چٹانوں پر مشتمل، ایک قصبہ تھا۔ لہذا، اِس دورہ کے دوران، وہاں جانے کی توفیق نہ مل سکی۔
سہ پہرکو ہم نے مزید شاپنگ کی۔ کھجوریں، ٹوپیاں و جائے نماز لیئے۔ شام کوپھر کچھ وقت مسجد میں گزارا۔ نمازیں ادا کیں، روضہء اقدس ﷺ پر حاضری دی اور واپس اپنے کمرہ میں آگئے۔
مورخہ 20 اگست بروز بُدھ، ہمارا مدینہ منورہ میں آخری جبکہ مجموعی طور پر، چوتھا دن تھا۔ اگلے روز، علی الصبح ہماری جدّہ کیلئے روانگی تھی۔ لہذا، ہم نے قریباً سارا وقت ہی مسجد میں گزارا۔ نمازیں ادا کیں، قرآنِ پاک کی تلاوت کی اوردرود شریف کا ورد کرتے اورزیارات کرتے ہوئے، رات واپس اپنے کمرے میں آگئے۔
آج مورخہ 21 اگست بروز جمعرات، صبح ساڑھے 6 بجے، بذریعہ بس، جدّہ ائیرپورٹ کیلئے، ہماری روانگی تھی۔ سامان زیادہ ہونے کی وجہ سے، ٹیکسی منگوالی تھی۔ تقریباً 4 گھنٹوں سے کچھ زیادہ کا سفر تھا۔ ایک دفعہ پھراُداسی، شُکرانے وخوشی کے ملے جُلے جذبات سے معمور ہمارا سفر شروع ہوا۔ الحمد للہ، وقت پر جدّہ ائیرپورٹ پہنچ گئے۔
فلائیٹ بھی اپنے وقتِ مقررہ 12:25 پرروانہ ہوئی اورلندن وقت کے مطابق، شام 5 بجے کے قریب ہیتھرو ائیرپورٹ پر لینڈ کرگئی۔ عزیزم برادرم ندیم احمد صاحب گُلاب کے پھولوں کے ہارلئے، استقبال کیلئے موجود تھے۔ وہاں سے ہم سیدھا مسجد بیت الفتوح سے ملحق، مکرم ومحترم مبارک احمد صاحب ظفؔر کے گھر پہنچے۔ یہاں بھی ہم نے آتے ہی، سب سے پہلے غُسل کیا اور کپڑے تبدیل کئے۔ گزشتہ دس روز سے یہ ہمارا معمول بن چُکا تھا۔ اِنہوں نے پُرتکلف عشائیے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ فجزاھم اللہ تعالی۔
کھانے سے فارغ ہوتے ہی، ہم اپنی کارمیں، جویہیں پارک کی گئی تھی، سوانزی کیلئے روانہ ہوئے۔ یہ بھی 300 کلومیٹر سے کچھ زائد کا سفر تھا۔ کئی روز کی رُوحانی وجسمانی ریاضت اور رت جگوں کیساتھ ساتھ، آج ہی مدینہ منورہ سے جدّہ تک ساڑے چار گھنٹوں کا سفر اور پھر6 گھنٹوں کی جدّہ سے لندن تک کی فلائیٹ اور اب پھر مزید 4 گھنٹوں کی مسافت!
تھکاوٹ اپنے عروج پرتھی۔ خیرحسبِ عادت، دُعائیں کرتے ہوئے نکل پڑے۔ عزیزم ندیم احمد میرے ساتھ فرنٹ سیٹ پر اور والدہ محترمہ پچھلی نشست پرتشریف رکھے ہوئے تھیں۔ ہنسی خوشی، سفر کی باتیں کرتے، راستے میں کافی پیتے ہوئے، قریباً آدھی رات کو ہم گھر پہنچ گئے، الحمدللہ وثم الحمدللہ!
والدہ محترمہ ہرجا اور ہرآن، دونفل نمازشُکرانے کی توفیق پانے والا وُجود ہیں۔ ہم، چند کوڑی صدقہ ادا کرنے پر ہی اکتفا کرنیوالے! بہرحال، گھر پہنچ کر، بچوں سے مل کر، اور اپنے بسترپر آرام کرنے سے ساری تھکن جاتی رہی، الحمدللہ!
جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چُکا ہے کہ یہ عبادات و زیارات، جوانی اور شرطِ صحت سے جُڑی ہوئی ہیں۔ جتنا آپ صحتمند اور چُست ہونگے، اُتنا ہی زیادہ لُطف اورفائدہ آپ اُٹھا سکیں گے۔ والدہ صاحبہ کی پِیرانہ سالی کی وجہ سے، نہ یہ میرا ساتھ پورے طرح سے دے پائیں اور نہ میں اِنہیں تنہا چھوڑ کر، خود کہیں جاسکا۔ لیکن اِس کے باوجود، یہ محض اللہ تعالیٰ کا ہم دونوں پرخاص فضل وکرم تھا کہ ہمیں اِن زیارتوں کی توفیق حاصل ہوسکی۔
ذاتی طورپرمیں یہ سمجھتا ہوں کہ میری خوش بختی اور خوش نصیبی دوگنی ہے۔ اوّل یہ کہ مجھے اِن عبادات و زیارات کی توفیق حاصل ہوئی، جو محترمہ والدہ صاحبہ کی بدولت ہی ہوئی۔ دوم یہ سعادت والدہ محترمہ کی خدمت کرتے ہوئے ملی!
آپ سب سے دُعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیک نیتی سے مانگی گئی تمام دُعاوں اورآہ وزاریوں کو، اپنی جناب سے قبول فرمائے اورہمارا انجام بخیر فرمائے، آمین۔