حضرت حافظ میرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ

 

حضرت حافظ میرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ

(1909۔1982)

آخیر دسمبر 1981 ء  کی  رات تھی  اور ہر طرف  جشن کا سا ساماں تھا۔ خوبصورت، رنگ برنگے شامیانے اور برقی قمقمے،  صاف ستھرے   اور آہستہ آواز میں بات کرتے لوگ،   جیسے کوئی شادی کا  موقع  ہو! اکثر  جانے پہچانے لوگ! میں اپنے والد ، تایا جان اور دیگر کزنوں کے  ہمراہ   تھا۔عمر چھوٹی ،  سارے دن کی تھکاوٹ  اور آنکھوں میں نیند  کے غلبے  کی  وجہ سے،  مجھے  زیادہ  علم  نہ تھا  کہ ہم  کہاں ہیں اور کس لئے آئے ہیں؟ ہم آہستہ آہستہ آگے بڑھتے اور ہجوم سے قطاروں کی شکل اختیار کرتے جارہے تھے۔ میرے اور محمود کے ہاتھ میں ، کانے(تِنکوں) سے بنا  ہوا ، ایک ایک  کھلونا بھی تھا۔ کسی نے بڑے پیار سے وہ ہم سے لے لیا  اور کہا کہ آپکی  واپسی  اِدھر سے ہی ہو گی ، پھر لے لینا۔ جوں جوں ہم آگے بڑھ رہے تھے ، فضاء میں خاموشی     گہری اور پاوں میں قالین کی تہہ  دبیز ہوتی جارہی تھی۔ اس پُروقار اور پُر اسرار ماحول میں،  والد صاحب نے مجھے اور محمود کو دس ، دس روپے کے دو نئے نوٹ دیئے اور کہا کہ ’’یہ حضور ؒ کی خدمت میں دینا ہے اور اپنے لئے دعا کا کہنا ہے کہ اللہ میاں ڈاکڑ بنائے‘‘۔ سرگوشی  میں کہی گئی آپکی یہ بات ، ماحول  میں خاموشی کیوجہ سے ہمیں صاف صاف  ُسنائی دی۔ ہم قصرِ خلافت   ربوہ میں موجود تھے ۔ لیکن ، ہماری توجہ اب بھی ، پیچھے رہ جانے والے اپنے کھلونے اور ہاتھ میں پکڑے دس روپے  کے نوٹ کی طرف زیادہ تھی تاآنکہ  چند قدم مزید آگے بڑھنے پر ، سامنے روشنی   ،  نوُر  اور مسکراہٹوں کےامتزاج سے معطر،منظر  نظر آنے لگا۔ وہ بہت مسحور کُن لگ رہا تھا۔ ہمارے شہر و ضلع کے امراء اور کچھ دیگر نمایاں احباب بھی   حضورِ انورؒ کے دایئں بائیں کھڑے تھے۔ اچانک ایک جانی پہچانی آواز  آئی ، السلام وعلیکم  ورحمتہ اللہ ۔۔۔اسکے ساتھ ہی میرا ہاتھ ،  کرہ ارض  پر موجود ، سب سے بزرگ تراور حسین تَر،   وجود کے ہاتھ میں آگیا۔آ پکا ہاتھ،  بہت نرم  اور گُداز تھا۔ پیچھے سے یاد کروایا گیا کہ دعا! میں نے کہا حضور دعا کریں کہ میں ڈاکٹر بن جاوں! حضور مسکرائے کہ پوچھا کہ کونسا ڈاکٹر؟ میں جواب  معلوم نہ ہونے پر بھینچ سا گیا! حضور ؒ نے دست ِشفقت سے میرے  رخساروں پر ہاتھ پھیرا! کسی نے یاد  لایا کہ نذرانہ    پاس  لگے اِس  ڈھیر پر ڈال دو! میں نے دیکھا  تو بغل  میں، واقعی نوٹوں کا  ایک ڈھیر لگا ہوا تھا۔ اب قطار واپس مڑ رہی تھی ،  اب کہ  آنکھوں میں نوٹوں کا ڈھیر اور اپنے کھلونے کو واپس پانے کی تڑپ  تھی ۔ چند لمحوں میں ہی ، ہم اُسی جگہ پر پہنچ گئے۔ کھلونا پا کر خوشی دوبالا ہوگئی اور واپس اپنی رہائش گاہ ایوانِ محمود پہنچ گئے۔

اِس  چند سیکنڈ طویل ملاقات پر آج  39 برس گزر  چکے لیکن اِسکا پاکیزہ اثر، حسین یادیں اور خوشگوار ماحول   آج بھی ترو تازہ ہے۔ یہ ہوش میں ، میری  حضورؒ سے پہلی اور آخری باالمشافہ  ملاقات اورمصافحہ تھا۔ اس سے قبل  ، ربوہ میں کثرت سے آنے جانے ، بیت المبارک   میں نمازوں اور بیت الاقصی ٰ میں نماز جمعہ  کی ادائیگی  اور خصوصی طور پر مجلس اطفال الاحمدیہ کےمرکزی اجتماعات کے مواقع پر  حضورِ انور ؒ کو قریب سے دیکھنے کی سعادت ملتی رہتی تھی  لیکن  حضورانور  ؒ سے مصافحہ اورقریب سے   بات کرکے ، ہم بھی خوش  نصیب ہو گئے۔۔ الحمدللہ علی ٰذالک !

تقریبًا 6 ماہ بعد، حضورانورؒ کی طبیعت  ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ، اچانک خراب ہوئی۔ آپ  مسجد فضل ، اسلام آباد  کے گیسٹ ہاوس میں ٹہرے ہوئے تھے ۔ لیکن  بقضائے الٰہی، آپ مورخہ 8 جون 1982 ء کو وفات پا گئے۔ اناللہ وانا الیہ رجعون۔

آ پ  اللہ تعالیٰ  اور اس کے پیاروں کے ،  بہت  ہی پیارے  وجود تھے۔ میرے بزرگ والدین ، آپکی وفات پر گھر میں  بچوں کیطرح رو رہے تھے  اورکہتے جاتے تھے کہ آج ہم یتیم ہو گئے ہیں! جماعت کا تو  اب اللہ ہی حافظ و ناصر ہے۔ بے شک ، یہی سچ  اور برحق  تھا! آپ جیسے لوگوں کی دعاوں کو  قبول فرماتے ہوئے، اللہ تعالیٰ نے جماعت کو آپکا   بہترین نعم البدل دے دیا اور تمام زخم ، دنوں میں بھر دیئے، الحمدللہ !

آپ محبت کے سفیر  اور امن و سلامتی کے پیغامبر  تھے۔  شدید ترین مخالف احمدیت بھی ،  جب حضرت حافظ میرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح  الثالث ؒکے سامنے  آتا تھا،  تو بولنے سے پہلے ضرور ایک دفعہ رُکتا  اور سوچتا  تھا کہ یہ شخص   غلط نہیں ہو سکتا!  پھر اُسکی شامتِ اعمال ، اُسکا عقیدہ اور اُسکی  اندھی وپرانی روش ، اُسکو آگے بڑھ جانے پر مجبور کردیتی تھی!ایسی کئی مثالیں ، 1974 ء میں قومی اسمبلی  میں ، جماعتِ احمدیہ  کے خلاف  ہونیوالی کاروائی کے دوران ، سامنے آئیں۔حتی ٰ کہ ، اِس  ضمن میں ، اُس قبیل کے ایک  سرگنہ  اور (مولناٰ) فضل الرحمان کے والد، (مولناٰ)  مفتی محمود  کا اپنا   آڈیو بیان بھی واٹس ایپ پر دستیاب ہے۔ آپکی وفات پر اظہارافسوس کیلئے ہرجگہ سے احمدی اور غیر احمدی احباب  ربوہ تشریف لائے۔ ان میں ، حافظ آباد  سے ایک متمول   غیر از جماعت دوست سیٹھ نصیرالدین صاحب بھی تھے  ، جو آپ کے جسدِاطہر کو دیکھ کر ہی  ، آپ ؒ اور احمدیت کی سچائی  کے قائل ہوگئے۔ اور رو رو کر کہتے کہ کاش آپکی زندگی میں آپؒ کو دیکھا ہوتا ، آپؒ کو سُنا ہوتا!

مرحوم عبیداللہ علیؔم صاحب  کی زبان سےیوں  خراج تحسین پیش کرتا ہوں :

تم بھی اے کاش کبھی دیکھتے سنتے اس کو

آسماں کی ہے زباں یارِ طرحدار کے پاس

یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے

چل کے خود آے مسیحا کسی بیمار کے پاس

یونہی دیدار سے بھرتا رہے یہ کاسۂ دل

یونہی لاتا رہے مولا ہمیں سرکار کے پاس

پھر اُسے سایۂ دیوار نے اٹھنے نہ دیا

آ کے اک بار جو بیٹھا تیری دیوار کے پاس

تجھ میں اک ایسی کشش ہے کہ بقول غالبؔ

خود بخود پہنچے گلِ گوشۂ دستار کے پاس