حضرت میرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمۃ اللہ علیہ

حضرت میرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمۃ اللہ علیہ
حضرت میرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمۃ اللہ علیہ
(1928۔2003)

اِس بار دسمبر بھی   تھا اور رمضان  کریم    کا  بابرکت مہینہ بھی !  سردی سے زیادہ ٹھنڈ تھی اور میرے لیے تو  شدید تر تھی ۔ کیونکہ  ماحول   ہی پورے کا پورا  بدلا ہو اتھا۔ یہ بھی قصرِخلافت ہی   تھا  ۔ بے پناہ وقار اور احترام ، ہر چیز سے جھلک رہاتھا۔ لیکن یہاں  گزشتہ تجربے کے برخلاف  بہت زیادہ  خاموشی تھی۔   گنتی کے چند لوگ تھے اور وہ بھی اپنے اپنے کام میں مصروف! والدِ محترم اس بار میری  راہنمائی کیلئے موجود نہ تھے۔ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث  ؒ کی وفات کے دو سال بعد، 1984 ء میں ، آپ  بھی اللہ تعالیٰ  کے حضور حاضر  ہو گئے تھے۔  لیکن اپنے ایک پیارے شاگرد کو  میری معاونت کیلئے چھوڑ گئے تھے۔ اُس نے   بڑے تپاک سےمجھے  وصول کیا ۔ میں چونکہ مسافر اور روزے کے بغیر  تھا ، لہذا  ، مسجد بیت الفضل   لندن  کے کچن سے ،  بیمار افراد اور مہمانان کیلئے ،محدود پیمانے پر تیار شدہ،  دوپہر کا شاندار  اور گرم کھانا کھلایا۔ جس سے میری جان میں جان آئی۔ میں دو روز قبل   (30 نومبر 2002 ء بروز جمعہ کی شام )  پہلی دفعہ  لندن  پہنچا تھا۔اس  مختصردورہ   کا  سب سے  بڑامقصد ، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ سے ملاقات تھی۔   ہیتھرو ائر پورٹ    سے  ، میرے محسن اور   بزرگ، محترم  لئیق احمد طاہر صاحب مبلغ  سلسلہ عالیہ انگلستان کے   نو عمر بیٹے ، عزیزم طارق احمد طاہر اور میرے برادرِنسبتی عزیزم سمیع الحق ورک نے مجھے اِس  سُرعت ’’ اُٹھایا ‘‘ جیسے  خدا نخوانستہ ، میرے  یا اُنکے پیچھے پولیس لگی ہوئی ہو !   یہ عُقدہ بعد میں کھلا کہ  جہاں سے میں ’’اُٹھایا ‘‘گیا تھا،  در اصل ، وہاں روانگی کیلئے  ’’اُتارا ‘‘جاتا ہے! اور یہ کام   کچھ غیر قانونی سا تھا ، اسی لیئے  آناً فاناً  کرنا پڑاتھا۔   چند منٹوں میں ہی ، ساوْتھ آل مشن ہاوس پہنچ گئے۔محترم مربی صاحب اور اُنکے گھر والوں نے، رمضان المبارک  کی مصروفیات  کے باوجود،  میرا بے حد خیال رکھا  حالانکہ ، میں اِس احترام کا قطعاً حقدار نہ تھا۔ محترم مربی صاحب اور انکے  گھر والے ، بڑے  خوبصورت ،خوب سیرت، خوش اخلاق ، خوش آواز اور نیک لوگ  ہیں۔ آپ  کا مجھ پر  سب سے بڑا احسان  یہ ہے کہ آپ کی کوششوں سے ہی میری حضورِانور ؒ سے ملاقات  کی حسرت پوری ہوئی ۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ  و احسن الجزا فی الدنیا و فی الآخرۃ۔

دراصل ،  حضورِ انورؒ گزشتہ  کئی  ماہ سے علیل  چلے آ رہے تھے اور خطبہ  جمعہ  کے لئے بھی نہیں آ پا رہے تھے۔گوآپکی صحت  اب پہلے سے بہتر تھی لیکن   احباب ِجماعت  سے معمول کی  ملاقاتیں تاحال   بند تھیں  ۔ صرف  مرکزی اور جماعتی  عہدیدار ہی  اپنے دفتری اور  مفوضہ  کاموں میں ، حضور ؒ سے راہنمائی کیلئے  بوقت  ضرورت مل  رہے تھے۔ محترم مربی صاحب نے ، میرے پہنچنے سے پہلےہی  ، محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو فیکس کی  اور محترم میجر (ریٹائرڈ) ملک محمود  احمد صاحب  (جو حضورِانور  کے سکیورٹی انچارج  ہیں ،  حافظ آباد شہر سے ہیں اور   والد صاحب  مرحوم کے بطور ناظم ،   ایک طِفل  اور بطور اُستاد،  ایک شاگرد اور بطور قائد ، ایک خادم  رہ چکے تھے)   سے بھی کہہ دیا تھا  کہ آپ بھی  محترم   پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سے مل کر ،   ایک بار، حضورِانور ؒ کی خدمت میں  ملاقات کی درخواست پہنچا دیں۔پھر جیسے حضورانور ؒ کی منشاء اور ارشاد ! ہمارے سرآنکھوں پر  !

اس دوران ، میری اس خواہش  کی تکمیل کیلئے محترم مربی صاحب بطور خاص دعا اور صدقہ بھی کرتے رہے اور مجھے بھی دعا کی تلقین  کرتے رہے۔ اگلے  دن ،  بروز ہفتہ شام کو دفتر پرائیویٹ سے اطلاع آگئی کہ  خاکسار، اگلے روز بروز اتوار ، مورخہ  2 دسمبر،  بعد نماز ظہروعصر  دفتر تشریف لے آئے، تو  پھر دیکھتے ہیں۔ مربی صاحب  اور خاکسار، دونوں   ہی ایک دوسرے سے زیادہ خوش نظر آرہے تھے۔صبح ایک نو احمدی  انگریز دوست  کیساتھ میں مسجد کیلئے روانہ ہو گیا ۔ میجر محمود احمد ملک صاحب سے یہ میری پہلی ملاقات تھی لیکن ٹی ۔وی پر ، اکثر حضور انورؒ کیساتھ دیکھ دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ ہم ہمیشہ سے ہی  ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔ یہ آپکا بڑا پن تھا۔ آپ  نے بھی بڑی محبت سے والد صاحب ، دیگر رشتہ داورں  اور جماعت احمدیہ حافظ آباد  کے قدیم  اور مخلص احباب  کا نام لے لیکر  ذکرِخیر کیا۔ آپکی یاداشت  بہت اچھی  ہے، ماشاءاللہ!

سردیوں میں یہاں دن بہت چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے ظہروعصر کی نمازیں   جمع  کر لی جاتیں ہیں۔نمازوں کی ادائیگی  اور  کھانے کے بعد ،   آپ کیساتھ ہی دفتر پرئیویٹ سیکریٹری میں آئے۔  گنتی کے چند لوگ اپنے اپنے ڈیسک پر  کام میں  مصروف تھے۔ سب سے مصافحہ  ہوا۔ آخر میں محترم  منیراحمد جاوید صاحب کے پاس پہنچے۔ انہوں نے بتایا کہ حضورؒ نے  ، میری درخواستِ ملاقات قبول  فرمالی ہے۔ اب جب یہ  لائٹ روشن ہوگی (آپ نے دروازے  کیساتھ لگے ایک بلب  کی طرف اشارہ کیا) آپ اند ر جائیں گے اور جب حضور انور ؒ  واپسی کیلئے سلام کریں  تو فوراً اٹھ جایں اور پچھلے دروازے سے نکل جائیں۔حضورؒ کے دفتر میں احترام کا یہ عا لم تھا کہ آپ یہ باتیں مجھ سے ایسے کر رہے تھے جیسے کوئی راز بتا رہے ہوں! مجھے  چونکہ بتا یا گیا تھا کہ  تصویر کی درخواست پہلے کرنی چاہیئے۔ لہذا ، میں بھی یہ  عاجزانہ  درخواست محترم سیکرٹری صاحب سے کردی۔ آپ نے فرمایا کہ حضورانور کی صحت کے پیشِ نظر  ، تصویر  کی اجازت بالکل نہیں ہے۔ اس سے میرے اپنے  دل میں  بھی بہت کمزوری کی کیفیت  پیدا ہوئی اور حضورانورؒ   کی صحت اور جسمانی  کمزوری سے متعلق بھی  بہت   خیالات پیدا ہوئے۔ اسی اثنا ء میں لائٹ روشن ہو گئی اور سب کے چہرے بھی ایک دم روشن ہوگئے۔درود شریف  کا ورد، ہر زباں پر جاری تھا۔  جیسے ہی میں نے کمرے میں قدم رکھا ، حضور ِ انورکا پُرنوُر، کھِلا ہوا ، نورانی چہرہ  اورسر پر سفید چاندی نمُا پگڑی ، کرسی پر بیٹھے ہو ئے بھی آپ مجھ سے  قدآور لگ رہے تھے ، ماشاءاللہ۔ واللہ! شیر ِببّر  کی طرح   نظر آئے اور میرے سب واہموں کو   روندتے ہوئے فرمایا :

نعیم احمد طاہر صاحب ، حافظ آباد سے۔۔۔السلام علیکم ورحمتہ اللہ۔۔۔میں نے آگے بڑھکر دست ِمبارک کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور بوسہ لیا۔ فرمایا  ، بیٹھیں۔۔۔آپ کا  لئیق طاہر صاحب سے کیا رشتہ ہے؟ میں نے  بتایا۔ پھر پوچھا کہ آپ کیپٹن ڈاکٹر  بشیر احمد کے بیٹے ہو؟  جو ربوہ میں پریکٹس کرتے تھے؟  میں نے اپنے والد صاحب کے متعلق  اور میجر محمود احمد  ملک سے  اُنکے تعلق کے بارے میں بتایا۔ پھراپنے   بزرگوں، محترم  میاں محمدمراد صاحب  اور حضور انورکے  استاد ، ماسڑ میاں غلام محمد عبؔد صاحب کے بارہ میں بھی بتایا۔ اپنے بہن بھائیوں اور دیگر عزیزوں  سے متعلق دعا کیلئے کہا۔ عزیزم یاور احمد کی پیدائش چند روز بعد متوقع تھی ، اس کے لیئے شہد بغرض  دعا و گُڑھتی  پیش کی۔اچھے اور نیک لوگوں کی نظریں نیچی ہوتی ہیں اور مجھ جیسے ننگ اور حریص  کی نظریں ، مسلسل آپکے پرُنور وجود پر گڑی تھیں۔ آخر،   آپ نے سلام کیلئے ہاتھ آگے بڑھا یا اور ساتھ ہی محترم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب  بھی کمرے میں نمودار ہوگئے۔ میں دوبارہ آپکے ہاتھوں کے بوسے لیتے  ہوئے ، واپس  مڑااور باہر نکل آیا۔ چندمنٹ  ، ایک ساعت میں ہی بِیت گئے تھے۔ خداکی قسم! میں واپس مڑ جانا  چاہتا تھا۔ کہ حفاظت ِخاص پر معمور  دوست نے مجھے روکا۔ اور کہا کہ سب کو ایسا ہی لگتا ہے کہ ابھی تو ملاقات شروع ہی ہوئی تھی کہ ختم بھی ہو گئی!  میرادوست اور بھائی سمیع الحق ورک بھی   مجھے لینے کے لئے وہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے بھی مجھے دلاسہ دیا۔

اپنی تو حالت ایسے تھی جیسےآپ ؒ ہی کے محبوب  اور عظیم  شاعر  عبیداللہ مرحوم  نے کہا تھا:

 

نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس

اک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار کے پاس

اس کی ایک ایک نگاہ دل پہ پڑی ایسے کہ بس

عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لبِ اظہار کے پاس

یوں ہم آغوش ہوا مجھ سے کہ سب ٹوٹ گئے

جتنے بھی بت تھے صنم خانہ پِندار کے پاس!

 

دونوں ملاقاتوں میں 20 سال کا  وقفہ  تھا۔لیکن نُور اور قُدس کے ہالوں نے  ،  اس درمیانی عرصہ کو مِٹا دیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ  کل میری ملاقات خلیفۃ المسیح الثالث ؒسے اور آج خلیفۃالمسیح الرابع ؒ  سے ہوئی ہے ۔ یہی دو دن  کی زندگی  ہے جو گزر گئی ہے ،  دو دن  اور باقی رہ گئے ہیں! ان حسین، مہکتی اور بجلی کی طرح تیزی سے گزرتی  لیکن  چمکتی یادوں کو لئے، اگلے روز میں واپس جرمنی   آ گیا۔ جہاں سے چند دن بعد واپس پاکستان آگیا۔ مجھے پاکستان آئے ابھی ساڑھے تین ماہ ہی ہوئے تھے کہ مورخہ 19 اپریل   2003 ء کو یہ دل ہلا دینے والی خبر ملی کہ حضور انورؒ کا انتقال ہو گیا ہے۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!

ہم سب اپنے والدین کیطرح رو  رہے تھے اور کہتے جاتے تھے کہ آج ہم یتیم ہو گئے ہیں! جماعت کا تو  اب اللہ ہی حافظ و ناصر ہے۔ بے شک ، یہی سچ  اور برحق  تھا! اللہ تعالیٰ نے جماعت کو آپکا   بہترین نعم البدل دے دیا اور تمام زخم ، دنوں میں بھر دیئے، الحمدللہ !