زیر بارِ احساں!

میری والدہ

 

والد اور والدہ کے الفاظ کو اگر جمع کریں تولفظ ’’اولاد‘‘ جنم لیتا ہے۔ جس طرح ظاہری طور پریہ تینوں حروف آپس میں باہم خلط ملط اورصوتی لحاظ سے، ایک دوسرے میں جذب، سُنائی دیتے ہیں، اِسی طرح، جسمانی ورِحمی لحاظ سے بھی، یہ ایک دوسرے کا ہی جُزو ہیں۔ بیان کی حد تک کسی کو بھی، اِس بات سے انکار نہیں ہو گا۔

لیکن، شومئی قسمت سے، اگر کبھی اولاد کواُنکے والدین کی بابت یا والدین کو اُنکی اولاد کی نسبت، آپکو نصیحت کی ضرورت پیش آجاوے تو سمجھ لیجئے کہ وہاں فلسفہٗ حیات ہی خطرے میں پڑگیا ہے اور ’’موت کا منظر‘‘ برپا ہے۔ اور بقول میرے محبوب شاعر، عبید اللہ علیم صاحب، ’’یا رب یہ مسئلہ کبھی آغاز سے اُٹھا‘‘ والی بات ہوگی۔ یہاں اب دَوا (نصیحت) کی نہیں، دُعا کی ضرورت ہے۔

بچّہ، زچّہ کے وجود کا ہی ایک ٹکڑا ہوتا ہے۔ جس طرح فطرت، موسم اور آب و ہوا، نووارد کچّے، کھٹّے اور سبزرنگ آموں میں رَس، ذائقہ اور خوشبوبھردیتی ہے، اِسی طرح، زچّہ وبچّہ کا حُسنِ تعلق اور تعلیم و تربیت، دونوں کو، ایک دوسرے کا حسین عکا س بنا دیتی ہے۔ کاش! ہم نسلِ انسانی کی فصل بھی، آموں کی فصل کی ہی طرح پایا کرتے!

لیکن یہ ’’معاملہ کوئی اور ہے‘‘ والی بات ہے۔

ہم عمومی طورپر، پہلے سے ہی اپنی والدہ محترمہ کے زیرِاثر تھے۔ والد گرامی کی رحلت، ہمیں اپنی والدہ محترم کے مزید قریب اور زیراثر لے آئی۔

ماں کی گود، پہلی درس گاہ ہے۔ یہاں سے آپ کے کان سننے، زبان بولنے اور ہاتھ چلنے کا ہُنرسیکھتے ہیں۔ دین و دنیا کے معمولات سے آگاہی اور اُن میں توازن  کا فن ، اِسی درسگاہ سے شروع ہو کر، مدرسہ، سکول، کالج اور یونیورسٹی سے ہوتے ہوئے، وقت اورمعاشرہ کی سب سے بڑی، تجرباتی اور حقیقی یونیورسٹی یعنی ’’زندگی‘‘ پر مُنتج ہوتی ہے۔

میری کہانی دوسروں سے ذرا مختلف ہے۔ جولائی 1968ء میں، ’’پیلی کوٹھی‘‘ میں جنم لینے کے تین چارسال بعد سے لیکر، 2003ء تک، مجھے اِس گھر میں گزارا ہوا، اپنا ایک ایک پَل یاد ہے۔

زیریں حصے میں ہمارا اور بالائی حصے میں تایا جان مرحوم کا خاندان آباد تھا۔ دونوں گھرانوں کے کُل 18 افراد تومقیم تھے جبکہ مہمانوں کی کثرت بھی اُترتی رہتی تھی۔ کئی تو ہفتوں اور مہینوں تلک ہمارے یہاں قیام کرتے اور گھر کے ہی فرد معلوم پڑتے، جیسا کہ ہمارے نانا جان مرحوم وغیرہ۔

بیت الخلاء/ نظافت کےکام کے علاوہ بھی، کئی خواتین باقاعدہ روزانہ کی صفائی ستھرائی اور کبھی کبھار، کپڑوں کی دُھلائی، اجناس کی صفائی یا دیگرکاموں میں مدد وغیرہ کیلئے، آتی تھیں۔ ہماے بڑوں کی تربیت ہی ایسی تھی کہ ہم اُن سب کو بلحاظِ عُمر، باجی، خالہ اور ماسی کہہ کر بُلاتے۔

لیکن، اِن میں سے، جو ہروقت اور سب سے زیادہ کام کرتی دکھائی دیتی تھیں، ہم سب بہن بھائی اُسے ’’امّی‘‘ کہہ کر بُلاتے تھے اور بالائی منزل کے بچّے اُسے ’’خالہ‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے۔ یہ محترمہ گھرکے تمام کام کرنے میں پیش پیش رہتیں۔ انسانوں کی دیکھ بھال سے لیکرہماری بھینس تک، گھرکے تمام چھوٹے بڑے کاموں سے لیکر شدید گرمیوں کی تپتی دھوپ میں تمام افراد کیلئے، تندور پر روٹیاں لگانے تک! سردیوں میں، کھیسوں، رضائیوں تلایئوں کی سُکھائی، دُھنائی، اورسِلائی وبُنوائی سے لیکر اجناس کی سُکھائی وصفائی تلک! ہر سال اچار ڈالنے سے لیکر، چاولوں/السی کی پنّیاں وپِنجیری بنانے تک! ہروقت مصروفِ عمل رہتیں۔

یہ ہمارے ساتھ رہائش تو رکھتی تھیں، لیکن ہمارے درمیان  پیار اور اُنس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ ہمیں نہلاتیں، کپڑے پہناتیں، کھانا کھلاتیں، اورسکول بھجواتیں۔ مزاج کی بہت سخت تھیں۔ آئے روز جوئیں نکالنے والی ’’ظالمانہ‘‘ کنگھی سے، پہلے تو ہماری چیخیں نِکلواتیں اوربعد ازاں شوربرپا کرنے پر، ہماری ہی کمراور گُدی میں بے دریغ ضَربیں بھی لگاتیں۔

کم از کم، میں نے اُنکو کبھی کھانا کھاتے نہیں دیکھاتھا۔ اکثر کپڑے بھیگے ہوئے رہتے، سر پردوپٹے کی مدد سے پٹی بندھی ہوئی ہوتی۔ چہرے پر، اطمینان یا مسکراہٹ کے بجائے، دُکھ، درد اور کرب کے آثار نمایاں رہتے۔ وہ ہمارے ساتھ، اِسطرح جُڑی ہوئی رہتی تھیں کہ ہمیں ’’ماں‘‘ کی کمی کا احساس ہی نہ ہوتا تھا۔

ہمارے والد صاحب مرحوم، ایک معروف ومصروف شخصیت تھے۔ صبح کی نماز کے بعد، سیر کیلئے نکل جاتے۔ واپسی پر کچھ دیرکیلئے سستانے کو کوشش کرتے جو یہ محترمہ کبھی کامیاب نہ ہونے دیتیں! ناشتہ کرتے، پھرتیار ہوکر کلینک چلے جاتے۔ گرمیوں میں دوپہر کے کھانے کیلئے ضرور گھرآتے اور کچھ دیرسستانے کے بعد، دوبارہ کلینک چلے جاتے۔ شام کو گھر لوٹتے، رات کا کھانا کھاتے اور سو جاتے۔ ٹیلیوژن اُن دنوں ہمارے ہاں تھا نہیں اور ریڈیو فقط بی۔بی۔سی سُننے کی حد تک، اُن کو مرغوب تھا۔ والد گرامی کی سوشل لائف نہ ہونے کے برابر تھی۔ کام والی محترمہ کے سپرد، اپنے بچّے کر دینے کے بعد، آپ اپنے آپ کو مزید آسودہ خیال کرتے ہونگے!

زندگی اِسی طرح رواں دواں تھی۔ ہم چھ بہن بھائیوں میں سے اکثر چھوٹی عمر کے تھے۔ اپنے ہی گھر کی نُکڑ پر بندھے، ہمسائیوں کی بھیڑبکری کی مانند، بے زُبان، ایک ہی قِسم کی طے شُدہ رَو کے پابند! کھانا، سکول جانا، کہا ماننا اور ہروقت کردہ اور ناکردہ کاموں کی جوابدہی کیلئے، غلاموں کی طرح، ڈرے ہو ئے تیار رہنا اور رات کو ایک بسترپر، دو دو افراد کا سو جانا۔ یہ سلسلہ 1982ء تک چلتا رہا۔

کام والی محترمہ، ہماری زندگیوں پر اِس طرح حاوی تھیں کہ اِس اثناء میں، نہ مجھے کبھی اپنی والدہ محترمہ کی یاد آئی اور نہ ہی کبھی اُنکی کمی محسوس ہوئی۔ اِن مُشکل حالات میں، ہماری سب سے بڑی بہن، ہمارے ’’زخموں‘‘ پر مرہم لگانے والی تھیں۔ محترمہ ’’امّی‘‘ صاحبہ، شکل وصورت سے پڑھی لکھی بالکل نہ لگتی تھیں لیکن ہر وقت، دینیات اورسکول کی اُستانی بنی رہتیں۔ کلمے، سادہ نماز، قُرانی و مسنون نبویؐ دُعائیں اورانبیاء علیہ السلام کی کہانیاں یاد کروانے کے بعد، بار بار ہم سے سُن کر بھی، اُنکی رُوح کو چَین نہ آتا۔ یہانتک کہ ہمارے والدِ گرامی کو بھی کہتیں کہ صبح قُران کریم کی تلاوت باآوازِ بُلند، صحن میں کرو اور رات کو سونے سے قبل، حدیثِ مبارکہؐ کا درس بھی دو۔ والد صاحب کی نجانے کیا مجبوری تھی کہ بِلا چُوں چَرا، ہماری طرح ہر بات پر عمل کرتے۔ میری دانست میں والد صاحب چُونکہ اپنے بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے، سادہ لوح انسان تھے اورشائد، لڑنے جھگڑنے کی عادت سے کُلیۃً ناواقف تھے۔

محترمہ، شدید سردیوں کے موسم میں، ہمیں فجرکی نماز کیلئے، ہماری بہنوں کی سُرخ گرم شالیں اوڑھا کر، بِلا ناغہ بھیجتیں۔ علاوہ ازیں، مغرب و عشاء کی نمازوں کی مسجد میں تصدیق کے بعد ہی رات کا کھانا دیتیں۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا ظالمانہ دورتھا، سکول والے ظہر کی نمازاورٹیویشن والے ماسٹر جمشید صاحب، عصر کی نماز پڑھوا کر ہی دم لیتے۔ آہ! ہمارا بچپن! نہ گھر میں سکون اور نہ ہی باہر آرام،  کے مصداق گُزر رہا تھا۔

گرمیوں میں ناشتے سے پہلے، گردن سے پکڑ کر زبردستی ’’سردائی‘‘ پلاتیں یا تربوز کھلا کر، بغیر پراٹھے کِھلائے سکول روانہ کر دیتں۔

دونوں گھروں کا سودا سلف، روزانہ کلینک سے آتا تھا۔ تازہ موسمی پھل فروٹ منڈی سے اور اجناس اپنی زرعی زمین سے آجاتی تھیں۔ یہ سب کام ’’خُدائی خدمت گار‘‘ یا والدِ گرامی کے ڈسپنسرزکے ذریعہ ہوتا تھا۔  رشتہ داروں، محلےداروں اورشہربھر میں پھیلی جماعت کے گھروں میں، آئے روزکی ’’درآمدات وبرآمدات‘‘ ہمم نوجوانوں کی ’’خاکسارتحریک‘‘ کے ذریعہ انجام پاتیں تھیں۔ ’’گرل گائیڈز‘‘ کا سکول وکالج کے علاوہ،  گھر سے باہر نکلنا، انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ویسے بھی لڑکوں کی ’’فوج، ظفرموج‘‘ کا اچار تو ڈالا نہیں جاسکتا تھا۔ لہذا، روٹی وکپڑے کا معاوضہ، اِسی خدمت یعنی ’’جبری مشقت‘‘ سے لیا جاتا تھا۔

گھرکے اندر، بہن بھائیوں اورعزیزواقارب کے بچے بچیوں کیساتھ (لُڈو، کیرم بورڈ، سٹاپو، رسّہ پھلانگنا، گوٹیاں کھیلنا جیسے مشغلے ہوتے یا گھرکے سامنے واقع خالی پلاٹ میں، ہمسائے اور محلے کے دیگرہم عمرلڑکوں کیساتھ ہرطرح کا کھیل (ہاکی، کرکٹ، فُٹبال، اخروٹ وکانچ کے بنٹے، یَسّوپنَجّو، گِلی ڈانڈہ، باڈہ و کبڈی، بندر کِلّہ، چور سپاہی، اورسیگریٹ کی خالی ڈبیوں سے بنائے ہوئے پتّے کھیلنا)، اپنی ہی چھت پر پتنگ بازی ہو یا اپنی ذرعی زمینوں کی راہ پرواقع سیم نالوں اورچھپڑوں پر، مچھلیوں کا شکار! گھریلوانتظامیہ کی طرف سے، مستقل پابندی، ناپسندیدگی اور نگرانی کے باوجود، بفضلِ تعالی ہم پاکستان اور ایران کی طرح، مُلک چِین جیسے دوستوں کی مدد سے، اپنے ’’اہداف‘‘ حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے رہے۔ کئی دفعہ، ’’سرجیکل سٹرائیکس‘‘ بھی ہوئیں، جُرمانے ادا کرنے پڑے، ’’اثاثے‘‘ بھی ضبط ہوئے، لیکن، اللہ تعالٰی بڑا مُسبّبُ الاسباب ہے۔ وہ سب کا ہی مدد گار ہے۔

ہم بہن بھائیوں میں سے تو کسی میں، اِس ’’ظالمانہ‘‘ سامراج کی مزاحمت یا اُس سے ٹکرانے کی ہمت نہ تھی، اور لگتا ہے کہ والد صاحب کو ’’لا اِکراہ‘‘ والی آیت کا پتہ ہی نہیں تھا۔ واللہ اعلم باالصواب!

ہروقت، اپنی’’دھونس اور دھاندلی‘‘ جمانےکے باوجود بھی، ’’محترمہ‘‘ کے مطابق، دُنیا میں سب سے نالائق اور نااہل بچّے ہم تھے۔ (’’سلیکٹڈ‘‘ کا لفظ تو اُنکو آتا نہ تھا ورنہ ہم وہ بھی ہوتے) اور سب سے اچھے بچّے ہماری مقامی صدرصاحبہ لجنہء خالہ حمیدہ بیگم صاحبہ (زوجہ فتح محمد قریشی صاحب مرحوم)، محترمہ بشیربیگم صاحبہ (زوجہ چوہدری شوکت حیات تھییم صاحب مرحوم) اور محترمہ ریاض بانو صاحبہ (زوجہ سید سجاد حیدر صاحب مرحوم) کے تھے۔ ۔۔۔لو کر لو گل!

1982ء میں، ہم اپنے آبائی گھر سے فقط سو ڈیڑھ سو گز پرے، ایک کرائے کے چھوٹے سے مکان میں اُتر آئے۔ ’’محترمہ‘‘ بھی ہمارے ساتھ ہی چلی آئیں۔ اِس کے باوجود بھی ہم بہت خوش تھے۔ کیونکہ ہم بچوں کوبتایا گیا تھا کہ جلد ہی ہماری بڑی بہن کی شادی ہونیوالی ہے۔ نئے کپڑے، نئے جوتے، کم ازکم تین عدد چُھٹیاں، اورسارے رشتہ داروں سے مُلاقات ہونے والی ہے۔ اور دوسرے یہ کہ ہمارا نیا اور بڑا مکان بھی بننے والا ہے۔

نئے گھر میں، میں نے کچھ تبدیلیاں محسوس کیں۔ والد صاحب کا ہمارے ساتھ رابطہ پہلے سے بہترہوگیا۔ ہم دوپہر کا کھانا اکٹھے کھانے لگے اور آپس میں باتیں کرنا بھی شروع ہوگئے۔ ابتداء ہماری ہمشیرہ کی شادی کی تیاریوں اور انتظامات سے متعلق باتوں سے ہوئی۔ پھر نئے گھر کا نقشہ اورتزئین وآرائیش، اِن باتوں کا محور ہو گئے۔

دوسری بڑی تبدیلی، میں نے کام کرنے والی محترمہ میں دیکھی۔ اُن کے چہرے مُہرے اور لباس خراش میں کافی بدلاوٗ آگیا تھا۔ لگتا تھا جیسے وہ گھر کی مالکن ہوں! والد صاحب، اُن کیطرف دیکھ کر بات کرنا کیا شروع ہوئے، محترمہ بھی آپ سے ہنس ہنس کر باتیں کرنے لگی تھیں۔ آپکے سر سے پٹی اورچہرے پر سے کرب، دُکھ اور رنج کے آثار یکسر جاتے رہے۔ شائد اِسکی وجہ یہ تھی کہ میں اب ہائی سکول کا طالبعلم ہو گیا تھا۔ خود نہا دھو لیتا اور کپڑے بھی پہن لیتا تھا یا کوئی اور! لیکن اِس سب کے باوجود میرے اور کام والی، ’’امّی‘‘ کے تعلقات میں کوئی بہتری نہ آسکی۔

نئے گھر میں آنے کے4/5 ماہ بعد ہی، پہلا وعدہ تو پورا ہو گیا۔ شادی پر بہت مزہ رہا۔ بڑی بہن کی رُخصتی سےگھرمیں، غم اورخوشی کی ملی جُلی فضاء کئی ماہ تک چلتی رہی۔ دوسرے وعدہ کے ایفاء ہونے سے قبل، اگلے برس یعنی نومبر 1984ء میں، اچانک والدِ گرامی کو اجل سے بُلاوا آگیا اور وہ بِلا تاخیر، اپنےمولیٰ کے حضورحاضر ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ ہمیں آج تلک پتہ نہیں چلا کہ آنہیں اتنی جلدی کیوں تھی؟ اُس وقت تو ہم بہت چھوٹے تھے۔

24 گھنٹے تک، دماغ اورزندگی، ایک مکمل ’’لاک ڈاوٗن‘‘ کی کیفیت میں رہنے کے بعد، ’’سمارٹ لاک ڈاوٗن‘‘ کی طرف چل پڑے۔ آہستہ آہستہ، والد صاحب مرحوم کے علاوہ، زندگی کا سارا کاروبار، واپس اپنی رَو میں آگیا۔

ایک روز شام کو، ہم دوست مسلم ہائی سکول کی گراوٗنڈ ( کے اُس حصہ میں جہاں آجکل مسجد فاطمۃ الزہرہ واقع ہے۔ یہاں پر قدیم شمشان گھاٹ یا مندرکے ٹوٹے پھوٹے آثار تھے) میں کرکٹ کھیل رہے تھے۔ میں نے، اپنے پاوٗں میں آنے والے، ایک ’’روڑے‘‘ کو، زمین سے اُٹھا کر ایسے ہی پرے پھینکا تو وہ گراوٗنڈ میں پہلے سے موجود کئی مُرغیوں میں سے ایک، (جوہمارے ساتھ ہی کھیل کود رہی تھیں) کی کمر میں لگا تو وہ بیچاری وہیں بیٹھ کر’’رونے‘‘ لگی۔ ہم بچے بھی بہت پریشان ہوئے اورفوراً کھیل روک کر، اپنے اپنے گھروں کو ’’فرار‘‘ ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

گھرآکربھی، میں بہت پریشان تھا۔ باوجود اِس کے کہ یہ ایک بِلا ارادہ برپا ہونیوالے حادثہ سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ ابھی چند منٹ ہی گزرے ہونگے۔ مغرب کی اذان ہوا چاہتی تھی کہ دروازے پر زور دار دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا تو سامنے، ریاض کمہار اورچند چھوٹے بڑے لوگوں نے میری طرف اُنگلی اُٹھاتے ہوئے، شورمچانا شروع کر دیا کہ یہی ہے ’’مُلزم‘‘! ظاہر ہے، اندرون خانہ بھی اِس احتجاج کی صدائیں پہنچ چُکیں تھیں۔ محترمہ ’’امّی‘‘ صاحبہ نے ’’اسِتغاثہ‘‘ کا دعویٰ سُنا۔ مجھ سے تصدیق چاہی، جو مجھے کرنا ہی تھی۔ آپ نے مُدعی سے کہا کہ اِس کی دیت کیا لوگے؟ مُدعی نے بتایا 5 روپیہ!۔ محترمہ نے فوراً ہی قصاص ادا کر دیا اورنیم مُردہ مرغی کو لے کر، ذبح کروا لیا۔ مجھ سے، اِس بابت مزید کوئی باز پُرس نہ کی۔

یہ میرے لئے بہت بڑی بات تھی۔ چند برس قبل تو یہ محترمہ محض دو آنے چُرانے پر ہاتھ اورتھوڑا سا جھوٹ بولنے پر قینچی سے ہماری زبان کاٹنے کو دوڑ تی تھیں اورآج اِتنے بڑے نقصان پر خاموش! کیا ہمارا سچ بولنا، بَھا گیا تھا یا اِس احتجاج کو فوری طور پرفرو کرنا مقصود تھا؟  یا پھراُن کو اپنی بدلی ہوئی حیثیت کا احساس تھا؟ ہمیں کیا خبرکہ کیا تھا؟ ! ہماری عُمر کی طرح، شائد، سمجھ بھی ابھی چھوٹی تھی!

والدِگرامی کی وفات سے 3 / 4 برس قبل، جب ہم ابھی پیلی کوٹھی میں ہی مقیم تھے کہ آپ نے علی الصبح ایک خواب دیکھا تھا کہ کسی ویرانہ میں ایک اونٹ سواری کیلئے تیار بیٹھا ہوا ہے۔ آپ نے فوراً میرے دو چھوٹے بھائیوں، عزیزم وسیم احمد و ندیم احمد کو اونٹ پر سوار کروا دیا اورمجھے اونٹ کی مُھارپکڑا کر، آگے چلنے کیلئے کہا۔ میں مُھار پکڑنے سے گھبراتا اور ڈرتا ہوں لیکن آپ، بالاؔخر مجھے اِس کام پر مجبور کر لیتی ہیں اور ہم روانہ ہو جاتے ہیں۔

آپ گھبرا کر اُٹھتی ہیں۔ میرے والد صاحب کو نماز فجر کیلئے اُٹھاتی ہیں اورخواب سُناتی ہیں۔ اُس پر میرے والد صاحب نے پوچھا کہ دونوں چھوٹے بچے گرے تونہیں تھے؟ آپ نے کہا کہ نہیں! تو کہا کہ اچھی خواب ہے۔ اُس وقت شائد، کسی کے وہم وگُمان میں بھی آنیوالے واقعات کا علم نہیں تھا۔

خیر، میری دانست میں تویہ کام والی محترمہ، پہلے ’’امّی‘‘ سے’’مالکن‘‘ بنیں اوراب والد صاحب مرحوم کی جگہ لینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اُنہی کی طرح پیاراور تحمّل سے بات کرنے لگیں۔ اب دھیرے دھیرے، اِس سے ایک قدم آگے بڑھکر’’عزت افزائی‘‘ کرنے پر اُتر آئیں تھیں۔ صاف ظاہر تھا کہ ایک روز، یہ ہماری ’’والدہ محترمہ‘‘ بن کر، میرے ہاتھ مُھار پکڑانے کی تیاری کررہی ہیں!

محترمہ سے متعلق، یہ تو میری سوچ اور میرا مسٗلہ تھا۔ اجتماعی طور پر، والد مرحوم کی رحلت، ہماری زندگی میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا باعث ہوئی۔

روزانہ کی آمدن، کلینک سے سودا سلف اورمنڈی سے پھل فروٹ آنا بند ہوگیا۔ دو عدد دُکانوں اورپیلی کوٹھی کے زیریں حصہ کے کرائے کی مدّ میں ایک معمولی رقم نے ماہوار آمدن کی جگہ لے لی۔ یہ رقم فقط، گھر کے کرائے، کھانے پینے کے اخراجات اور سکول و ٹیویشن کی فیسوں کیلئے بھی ناکافی تھی۔ لہذا، محلے میں، چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں ڈال کر، قرض لیکر اوربعدازاں پلاٹ و زرعی زمین بیچ کر، اُن قرضوں کی ادئیگی اوردیگراضافی اخراجات پورے کرنے پڑتے۔

یہ ساری تنظیم وترتیب محترمہ ’’امّی‘‘ صاحبہ نے، اپنی دانست اور کچھ قریبی عزیزو اقارب کے مشورہ سے، میرے ذریعے، انجام دینا شروع کردیا۔  مجھ سے کاغذ پر ایک لِسٹ بنواتیں، پیسے دیتیں اور میں بازار سے سودا سلف لاتا۔ ہرچیز کا ریٹ بتاتا اورخرید کی رسید دکھاتا۔ سبزی اور گوشت کے سِوا، ہر چیز ماہانہ بنیادوں پر، تھوک کے حساب سے لائی جاتی۔

دوسروں کے اچھے بچوں کی طرح بننے کے علاوہ اب ہم پر اپنے والد صاحب مرحوم کی طرح، مزید اچھا بننے کا دباوٗ بھی ڈال دیا گیا تھا۔ میری عُمر15 سال ہو چلی تھی اورمیٹرک کا امتحان ہونیوالا تھا۔ والد صاحب مرحوم کے کپڑے اور جوتے مجھے پہنائے جانے لگے۔ ہنسی مذاق کی فضاء تو، نومبر84ء سے مفقود تھی۔ ہر وقت پڑھائی، نمازوں کے قیام اور نیک و تقویٰ شعاربننے کی گردان، ہمارے گھر کا ’’ورد‘‘ تھا۔  بشمول ’’اُنکے‘‘ ہم سب کی زندگیوں سے اُبالی پن اورغصّے کی کیفیات کو، نکال باہر کرنے پر زورتھا۔ لڑکوں اور لڑکیوں کیلئے یکساں حقوق طے کردیئے گئےتھے۔ والدین کو حاصل ’’خصوصی مراعات‘‘ کا بھی خاتمہ کر دیا گیا تھا۔ گویا کہ ایک نرم اور قابلِ عمل، ’’اسلامی سوشل کم کمیونسٹ‘‘ انقلاب برپا کردیا گیا۔ جسے ’’بوژوا‘‘ یعنی جَنتا نے، بخوشی قبول کر لیا تھا۔

خاندان، محلّے اورمیمبرانِ جماعت سے بے حدّ محبت، شفقت اوراحترام کے اظہارنے، ہمیں اِن تبدیلیوں کو اپنانے میں بہت مثبت کردار ادا کیا۔ لوگوں کے منہ سے، ہروقت والد صاحب مرحوم کیساتھ ساتھ ’’امّی‘‘ صاحبہ کی تعریفیں سُن سُن کر، اُن سے متعلق میرے جذبات میں بھی مثبت اثرات کا ظہور ہونے لگا تھا۔

میڑک میں، اپنی جماعت میں تیسری جبکہ سکول بھر میں چوتھی پوزیشن حاصل کی،  لیکن ’’امّی‘‘ صاحبہ کی توقعات کا معیارحاصل نہ ہوا۔ وہ ہروقت، باآوازِ بُلند ہماری اعلٰی اور یونیورسٹی تک تعلیم حاصل کرنے کیلئے دُعائیں کرتی رہتیں۔

ایف۔ ایس۔ سی کی تعلیم کیلئے میرا داخلہ گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ میں ہوگیا۔ جس کیلئے مجھے پہلی مرتبہ گھر سے نکنا تھا۔ ہاسٹل میں داخلہ نہ ہوسکنے کی وجہ سے، مجھے اپنے ایک احمدی ہم جماعت دوست،  کامران شہزاد (مرحوم) کیساتھ، اُسکی پھوپھو کے گھر واقع محلہ ’’گھوڑے شاہ‘‘ نزد عالم چوک میں رہنا تھا۔ جہاں سے کالج کا یکطرفہ فاصلہ 6/7 میل کا تھا جو کہ سائیکل پر طے کرنا تھا۔ چونکہ سائیکل اور جوانی دونوں نئی نئی تھیں۔ لہذا، سب کچھ نارمل سا لگ رہا تھا۔  ’’محترمہ‘‘ نے سامان تیار کیا اور میں اطمینان سے، سائیکل پر اپنا سامان لاد کر مقررہ وقت پر لاری اڈا پہنچ گیا۔ جہاں کامران مرحوم پہلے سے منتظر تھے۔  دونوں بس پر سوار ہوکر، خوشی خوشی، عالم چوک (گوجرانوالہ) اُس گھر میں پہنچ گئے۔

خالی، نیا بنا ہوا صا ف ستھرا، چھوٹا سا گھر اور وہ بھی بلا معاوضہ! اللہ تعالیٰ بھی کتنا مہربان ہے۔ وہاں وہاں سے دیتا ہے، جہاں سے گمان بھی نہیں ہوتا، سبحان اللہ! مالکان، حال ہی میں کینیڈا شفٹ ہوئے تھے۔ دو کمروں کا گھر تھا۔ ایک کمرے میں اُنکا سامان، ایک میں ہمارا!

رات کو کھانے کیلئے باہر نکلے، مزدوروں کے ایک ٹھیلے پر، بڑی بیزاری سے کھانا کھایا۔ مٹی والی چائے پی اورآکر سو رہے۔

صبح  ہوئی، تیا رہوئے، اور سائیکل پرکالج کیلئے روانہ ہوگئے۔6/7 میل کا سفر، 12 میل  کی مسافت بن گیا تھا۔ ہم نے گوندلانوالہ روڈ کا صرف نام ہی سنا ہوا تھا۔ وہاں کسی نے سائیکل نہیں چلائی تھی۔ خداکی پناہ ! صبح کے وقت رش  کا وہ عالم  کہ ’’عالم چوک ‘‘ سے ہی نفرت ہوگئی ۔ سائیکل جیسی آسان اور چھوٹی سی سواری چلانا بھی دُوبھرتھا!  ٹوٹی ہوئی سٹرک اوروہ بھی مٹی، دھول اور دھویں  کے بادلوں میں گم! اس روڈ پر، سوائے ہوائی جہاز کے، دنیا کی ہر چلنے اور نہ چلنے والی چیزموجود تھی۔ بجلی کی موٹریں، تھریشر، کولراورنجانے کیا کیا بنانے والی چھوٹی بڑی دُکانیں اورفیکٹریاں، برلبِ سٹرک موجود تھیں۔  چھوٹی بڑی کوئلے کی بھٹیاں اور فرنس!  ہتھ ریڑھیاں، گدھا، گھوڑا، بھینس اوراُونٹ سے چلنےوالی گاڑیاں، تانگے، رکشے، سوزوکی ویگنیں، بسیں، کاریں ۔۔۔ یعنی، براستہ چوک گھنٹہ گھر، تنگ بازاروں سے ہوتے ہوئے، جب کالج پہنچتے تو سفید شرٹ، ’’سُرمئی‘‘ ہو چکی ہوتی۔ اور ہم، ’’صحرائی جانور‘‘ لگ رہےہوتے!

ایک دو دن کی بات ہوتی تو کوئی حرج نہیں تھا، اِس ’’تپسیا‘‘ کو انجام دینے میں! لیکن روز، روز کی  یہ چلّہ کشی، ہم سادھوؤں کے بس کا روگ نہیں تھا۔

ستمبر کےملگجے موسم اور خزاں کی آمد  نے مجھ پر، گھر کے آرام یافتہ ماحول سے دُوری اور اُداسی کے گہرے سائے مرتب کرنے شروع  کردیئے۔ دوران ِکلاس، آنکھوں میں نمی جبکہ (عالم چوک والے)  گھر میں، آنسووں کا سیلاب رہنے لگا تھا۔

وہی گھر، جہاں میں خود کو مظلوم و محکوم سمجھتا تھا، اب ایک ’’نعمت کدہ‘‘ معلوم ہوتا تھا۔ چند روز بعد گھر لوٹا تو ’’امّی‘‘ صاحبہ نے بھی اُسی بے تابی سے مجھے گلے لگایا، جیسے میں نے اُنہیں! بعد میں بہن بھائیوں نے مجھے بتلایا کہ وہ میری یاد میں ہر وقت اُداس وغمگین رہتیں اورمیرے لئے بہت دُعائیں کرتیں تھیں۔

میں نے اُنہیں حافظ آباد کالج میں اپنی مائیگریشن کروانے کے بارہ میں بتایا تو اُنہوں نے اِس کی کوئی مخالفت نہ کی، جس سے میرا حوصلہ بڑھا۔ کامران کی بھی یہی حالت تھی۔ لہذا، چند ہفتوں میں ہی، ہم دونوں حافظ آباد واپس آگئے۔ سب اِس بات پر خوش تھے۔

اُن دنوں جماعت کی بڑھتی ہوئی مخالفت اور ہمارے اپنے بدلے ہوئے حالات کی وجہ اِس آبائی محلہ سے دُور جا کر ایک نئے اوربڑے گھر کی تعمیرممکن نہ رہی تھی۔ ہمارے کرائے کے گھر سے مُلحق ایک 5 مرلے کا پلاٹ، ہماری خواہشات کا محور بن گیا۔ اتفاق سے اُنہی دنوں، میرزا یوسف کا حقِ ملکیت اپنے والد میرزا حبیب احمد مرحوم کی میراث سے ثابت ہو گیا اوروہ ہمیں بیچنے پر رضامند بھی ہوگئے۔ اِس معاملہ پراورشہر کے دوسرے حصوں میں موجود اپنے تین عدد پلاٹوں کی فروخت کے سلسلہ میں میری محترمہ ’’امّی‘‘ صاحبہ کی گھر میں اوراپنے تایا جان مرحوم سے اکثربات چیت ہوتی رہتی۔ میری عُمر، سمجھ ، شعور اورذِمہ داریوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا تھا۔

اِس دوران میں نے آپ کوصائب الرّائے اورہم بہن بھائیوں کے حق میں بہت مثبت و مُفید پایا۔ آپکی اللہ تعالیٰ اوراُسکے رسولﷺ سے محبت، آپکی قیامِ نمازو روزہ کیلئے مثالی سعی، آپکی ذِکر اللہ، ذِکرِ مصطفٰے ﷺ پر رواں طبیعت، ہمارے سامنے تھی۔ بفضلِ تعالیٰ آپکوکئی مرتبہ رمضان المبارک کے دوران گھرمیں اور دومرتبہ مسجد مبارک، ربوہ میں، اعتکاف کرنے کی بھی توفیق ملی۔ اللہ تعالٰی نے بھی جواباً، اپنے وعدے کے مطابق، آپکی بے شماردعاوٗں کوشرفِ قبولیت بخشا تھا۔ آپکو مبشررویاء سے نوازا۔ نبی پاکﷺ، اُمہات المومینین رضی اللہ تعالٰی عنہما، خُلفائے احمدیت کی زیارتیں نصیب فرمائیں۔ بیت اللہ و روضہ رسول ﷺ کی زیارت بھی نصیب فرمائی۔ یقین کی دولت سے نوازا۔ اور یہی حالت وہ ہم سب بہن بھائیوں میں بھی دیکھنا چاہتی تھیں۔

سکول، کالج اور جماعت کے ماحول میں بھی ہم اپنے اوردوسروں میں فرق دیکھ رہے تھے کہ کس طرح دینی، سماجی ومعاشرتی معاملات میں، ہمیں وہاں پر دی جانے والی تعلیم سے، ہم اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں، پہلے سے ہی کس قدر زیادہ  آگاہ تھے۔ سچ سے پیار، جھوٹ سے نفرت، چھوٹوں پر شفقت، بڑوں کا احترام، گھرکے کاموں میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا، کفائت شعاری، سعادت مندی اورخوفِ خدا کی عادت ہم سب میں کیسے رائج ہوئی؟

اُستادوں کا رویہ دیکھتے تو’’امّی‘‘ کی یاد آتی! کہیں وہ ہماری’’ اُستانی‘‘ تو نہیں تھیں؟ بعد میں پتہ چلا کہ وہ تو کبھی سکول ہی نہیں گئیں۔ اُنکو تو ا، ب، پ کے حروف تک کی پہچان نہیں تھی۔ ہمیں زبردستی قرآن مجید پڑھوانے والی محترمہ نے خود تو، ’’بغدادی قاعدہ‘‘ تک نہیں پڑھا تھا لیکن ہمارے لئے، اتنی زیادہ تگ ودوکِس لئے؟

والد صاحب مرحوم کی کمی کے باوجود، ہمیں ہمارے گھر کا ماحول بہت مثالی لگنے لگا تھا۔ ہر چیز ایک نظم وضبط کی پابند تھی۔ امن وسکون کا گہوارہ! کیا یہ محترمہ کی مقبول دُعاوٗں کا ثمر تھا یا اُنکی ہم پرکی گئی بے انتہا محنت کا؟ ٹہرئیے! یہی وہ لمحہ ہے جس نے میری کام والی ’’امی‘‘ کا رُتبہ بُلند کرکے اُنہیں میری ’’والدہ محترمہ‘‘ کا درجہ دے دیا۔

جب میرے شعورنے اِس بات کا تجزیہ کیا کہ بچپن میں، ہم پرجو ’’ظلم‘‘ ’’جبر‘‘ اور ’’مشقت‘‘ روا رکھی گئی تھی، وہ آپکی محنت تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب والد گرامی کی مصروف زندگی کیوجہ سے، ہماری تعلیم و تربیت کی ساری ذمہ داری آپ کے کندھوں پر تھی۔ لہذا، آپ ہم چھ بہن بھائیوں کی زندگیوں کے ہر پہلوپرکڑی نظر رکھے ہوئے تھیں۔ اور وہ کڑی نظر بھی ایک معروف و مقبول مقولے کے مصداق کہ ’’نوالہ سونے کا دو لیکن دیکھو شیرکی نظرسے‘‘ کے مصداق تھی۔

آپ نہ صرف ایک نیک اور دُعاگو والدین کی اولاد، ایک نیک و باعمل انسان کی شریک حیات، بلکہ بفضلِ تعالٰی، خود بھی نیکی وتقویٰ کی راہوں پرچلنے والی تھیں۔ گھرباراور دُنیا داری کی بے انتہا مصروفیت اور ذمہ داریوں نے، آپ کے دل ودماغ سے، ایک مومن کا مقصدِ حیات کبھی اوجھل نہیں ہونے دیا۔ ’’کوٹ شاہ عالم‘‘ جیسے پسماندہ گاوٗں میں پیدا ہونے، قرآنِ کریم اور سکول کی تعلیم حاصل نہ کرسکنے کے باوجود، آپکا ضمیر، ذہن اور ارادہ انتہائی اعلیٰ درجہ کا تھا۔ آپ نے اپنے روشن دل و دماغ کو اپنی تختی اور نوٹ بُک بنا لیا تھا۔ جو بات بھی ایک دفعہ سُن لیتیں، وہ رقم ہو جاتی! اپنے، سُسر میاں فضل دین صاحب مرحوم سے قُران کریم ناظرہ سُنتیں اور خاوند سے باترجمہ۔ شام کو خاوند سے ہی احادیثِ مبارکہﷺ کا درس لیتیں۔ اپنے والدین اور بزگوں سے سُنی ہوئی، انبیاء اکرام علیہ السلام و صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اوربزرگانِ اسلام و جماعت کی سیرت پر مبنی کہانیاں، نہ صرف ازبر تھیں بلکہ ہروقت اور ہر ایک کو سُنانے کا جذبہ بھی! میں پوری ذمہ داری سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ علم کے حصول اوراُس میں اضافے کی حسرت، جس قدر میں نے، آپ اورآپ کے والدِ محترم، میاں مولا بخش صاحب مرحوم میں دیکھی ہے، اپنے خاندان کے کسی اور فرد میں نہیں دیکھی۔

آپکی شخصیت میں موجود، تربیتی وانتظامی صلاحیتوں کا کچھ تذکرہ پہلے بھی گزر چکا ہے۔ چند مزید باتیں یہاں بھی درج کئے دیتا ہوں۔

خاندان، جماعت اور حافظ آباد شہر کی حدّ تک، ہمارے گھرانے کی مثال دئیے جانا ہمارے لئے بمِثل ’’گھرکی مُرغی دال برابر‘‘ والی بات تھی۔ لوگ عموماً اِس ’’حُسنِ انتظام‘‘ کا باعث،  ہمارے والد صاحب مرحوم کو سمجھتے تھے۔ لیکن حقیقت میں، اِس کا کریڈٹ ہماری والدہ محترمہ کو جاتا ہے۔ جیسا کہ آپ اُوپرپڑھ آئے ہیں کہ خود والد صاحب مرحوم بھی، اُس رَو کے ماتحت تھے جو والدہ محترمہ گھر میں چاہتی تھیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں میرا داخلہ، اورسکالرشپ ملنے کا اعزاز، بجائے خود،  والدہ محترمہ کی شدید خواہش اورمقبول دُعاوٗں کا ثمرتھا۔ یہ ہماری کی گئی تعلیم وتربیت کا ہی نتیجہ تھا کہ سکول و کالج کے بعد یونیورسٹی کے اساتذہ کی توجہ، شفقت اورقربت مجھے حاصل رہی۔ یہ کیا سلسلہ ہے اور کیسے ہوتا ہے؟ اِس عمل کا تجربہ مجھے اُس وقت ہوا جب میں خود ایک اُستاد بنا! جس طرح، ایک اچھا دکانداریا ایک دیانتدار پھل فروش، ایک اچھے گاہک کا سامان تولتے یا دیتے ہوئے، کوئی کنکر، ونڈ یا خراب دانہ پھل کا،  فوراً نکال باہرکرتا ہے۔ با لکل اِسی طرح، ایک اُستاد کو اپنے سامنے بیٹھے ہوئے درجنوں شاگردوں میں سے، اچھے، شریف اور محنتی طالبِ علم کی پہچان فوراً ہو جاتی ہے۔ یہ توتجربے اوربڑوں کی باتیں ہیں۔ میں آپکو کم تجربہ کار اور نو خیز نوجوانوں کی بات بتاتا ہوں۔

ایم ۔اے کی کلاس میں، دینی ودنیاوی لحاظ سے، ہمارے دو ساتھی سب سے محترم تھے۔ ایک عبدالباسط مجاہدؔ۔ یہ بلوچ النّسل اوراِنکے والد مرحوم ایک معروف قومی،  قاری القرآن تھے۔ جبکہ دوبھائی اورایک بہنوئی فوج اورفضائیہ میں اعلیٰ عہدیدار تھے۔ جبکہ فراز انجم خان کے والد، اُس وقت ایدیشنل چیف سیکرٹری پنجاب تھے جبکہ دو بڑے بھائی بھی سول سروس میں تھے۔ دونوں نے بعد میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کی۔ باسطؔ اسلام آباد اورفراز پنجاب یونیورسٹی میں ہی پڑھا رہے ہیں۔ یہ دونوں میرے بہترین دوست رہے۔

باسطؔ میرا روم میٹ بھی تھا۔ ہم دونوں میں بہت احترام کا رشتہ تھا۔ اُس نے فوارً ہی میری والدہ سے غائبانہ تعلق قائم کر لیا تھا۔ ہمیشہ اُنکے لئے سلام اور اپنے لئے دُعا کی درخواست کا پیغام دیتا تھا۔ وہ کبھی آپ سے نہیں ملا۔ لیکن پھر وہ آپکا معتقد کیسے ہوا؟ یہ نہ اُس نے مجھے بتایا اور نہ مجھے کبھی اُس سے پوچھنے کا خیال آیا۔

لیکن میرے جودوست آپ سے مِلے، یعنی خالد محمود، الیاس چٹھہؔ، فخرعباس جعفریؔ، عبدالقیوم، سیدّ احمد، مظّفر ملک، سعادت ورک، حمید نواز اورسمیع ورک وغیرہ،  وہ آپ کے معترف ومعتقد ہوجاتے۔ اور مجھے باسطؔ کیطرح، ہر وقت امیّ جان کیسی ہیں؟ دُعا کیلئے کہنا، شروع ہوجاتے ۔ سچ پوچھیے تو مجھے بعض اوقات یہ بات کچھ عجیب بھی لگتی۔ مقامی جماعت کے نوجوانوں کی طرف سے ’’خالہ جی‘‘، ’’خالہ جی‘‘ کی گردان تو ہم بچپن سے ہی سُنتے آ رہے تھے، لیکن یہ وہ لوگ تھے جو آپکو فقط ایک یا دومرتبہ ملے ہونگے!

خیر، تعلیم مکمل کرنے کے چند ماہ بعد ہی، اللہ تعالٰی نے فضل کیا اورپنجاب پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کرکے، بطور لیکچرار شعبہ تاریخ کے، نمایاں اور باعزت روزگار مل گیا۔ پنجاب یونیورسٹی میں سے، ہمارے سینکڑوں سینئرز اور کلاس فیلوز میں سے، فقط ہم تینوں یعنی فراز اور مجھے پنجاب میں اور باسط کو بلوچستان کمیشن کے ذریعے ملازمت ملی تھی۔ کم ازکم میری حدّ تک تویہ کامیابی،  اللہ تعالٰی کے خاص فضل، میری والدہ محترمہ کی شبانہ روز اوردیگر کی دُعاوٗں کی بدولت تھی۔

مولانا ظفرعلی خان گورنمنٹ ڈگری کالج وزیرآباد کے سٹاف میمبرزمیں سے کوئی بھی میرے اور میرے والدین کے بارہ میں نہیں جانتا تھا۔ ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ کئی اساتذہ نے، اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ میرے والدین سے ملنا چاہتے ہیں! میں نے اُنہیں والد صاحب کی وفات سے متعلق بتلا کرمعاملہ حل کرنے کی کوشش کی جس پراُلٹا، اُنکا میری والدہ صاحبہ سے ملنے کا اشتیاق مزید بڑھ گیا۔

یقین کریں کہ اُردوکے ایک نہایت سُلجھے ہوئے، اسٹنٹ پرفیسر، محمد نذیر اعوان صاحب (جوبعد میں پروفیسر اورصدرِ شعبہ بھی ہوگئےتھے) جب اُن کو یہ علم ہوا کہ والدہ محترمہ، عزیزی سلمان احمد کی پیدائش کی وجہ سے، سیالکوٹ آئی ہوئی ہیں، تو وہ ایک اور کولیگ کیساتھ ملنے کیلئے، سیالکوٹ آگئے۔ وہاں انہوں نے جو باتیں کیں وہ باعث ذاتی شرم، میں لکھنے سے قاصر ہوں، لیکن اُن کا مفہوم یہی تھا کہ بطور بچیوں کا باپ ہونے کے، میں اُس ہستی سے ملنا چاہتا تھا، جو بچوں کو ’’نعمت‘‘ بنانے کا ہُنرجانتی ہے۔ خیر، اُنہیں کیا علم کہ کیا بیتی ہے، ’’انساں سے گوہر ہونے تک‘‘ ؟

اِس ملاقات کا ذِکر، وہ بڑے فخر سے کالج کے سٹاف روم میں کیا کرتے تھے۔ اُس کےبعد، تو گویا ایک راہ سی کُھل گئی! کئی اور اساتذہ بھی مختلف اوقات میں حافظ آباد ہمارے گھر تشریف لائے اوروالدہ محترمہ سے ملے۔

تھوڑا سے پیچھے، واپس چلتے ہیں۔ ایف۔ ایس۔ سی کے دوران میرا، والدہ محترمہ سے، دوستانہ شروع ہو گیا تھا، جو بی۔ اے کے دوران محبت میں بدل گیا تھا۔ مجھے رات کو دیر تک پڑھتا دیکھ کر، وہ بہت خوش ہوتیں اور دُعائیں دیتیں۔ بی۔ اے کے دوران چونکہ تمام بہنوں کی شادی ہو چُکی تھی، کھانا پکانے کی ساری ذمہ داری، ایک بارپھر، آپ پر آگئی تھی۔ میں برتن، کپڑے دھونے اور گھر کی صفائی سُتھرائی میں آپکی مدد کیا کرتا تھا۔ آپ مجھے، مختلف قسم کا میٹھا بنا بنا کر دیا کرتی تھیں۔ اختلاف اور تکرار توپہلے بھی نہ ہونے کے برابرتھی، البتہ محبت اوراحترام کا بہت عمل دخل ہوگیا۔ علاوہ ازیں، آپس کے اعتماد اور بھروسے میں بھی مزید اضافہ ہوتا جارہا تھا۔

ایم۔ اے کے سالِ اوّل کے امتحانات کے موقع پر، کچھ گھریلو معاملات اور کچھ یونیورسٹی انتظامیہ کی امتحانات کے شیڈول میں ’’چھیڑخانی‘‘ اور ردّوبدل کیوجہ سے، اچھی تیاری نہ ہو سکی تھی۔ یونیورسٹی روائت کے مطابق، ایم۔ اے کے امتحانات میں،  ہر پرچے کے درمیان تین روز یا کم از کم دو روز کا وقفہ ہوتا رہا تھا۔ لیکن امسال انہوں نے ایک روزچھوڑ کر، پرچہ رکھ دیا تھا۔

ہاسٹل میں موجود، ہماری کلاس کے اکثرطلباء نےیہ فیصلہ کیا کہ ہر پرچے کے بعد والا پرچہ چھوڑدیا جائے تاکہ اِس وقفہ کو آنیولے پرچے کی تیاری کیلئے استعمال کیا جاوے۔ بات میں وزن تھا کہ فیل ہونے یا کم نمبروں میں پاس ہونے سے تو بہتر ہے کہ سپلیمنٹری یا اگلے سال کیساتھ امتحان دیا جائے۔

میں بھی اُن سے پوری طرح متفق تھا۔ امتحان میں ابھی دو چاردن ہی باقی تھے۔ ایک رات، امّی جان کا فون آیا۔ امتحان کی تیاری کا پوچھا اور ساتھ ہی بولیں کہ بیٹا سارے پرچے دینے ہیں، انشاء اللہ تم کامیاب ہو جاو گے۔ میں نے اُنہیں یہاں کی صورتحال بتانے کی کوشش کی کہ یہ بہت مشکل ہے اور دوسرے یہ کہ سارے ساتھی بھی، ایسا ہی کرنیوالے ہیں۔ لیکن آپ نے سختی سے مجھے حُکم دیا کہ ۔ ’’نہ ہم فیل ہوتے ہیں اور نہ ’’سَپلی‘‘ لیتے ہیں۔ تم سارے پرچے دو گے اور اچھے نمبروں سے پاس ہوگے۔ مجھے اللہ تعالٰی نے بتا دیا ہے‘‘۔ اور فون بند!

میں منہ لٹکائے کمرے میں آیا۔ باسط اور توقیر کو بتایا کہ مجھے تو اب سارے پرچے دینے ہونگے، امّی جان نے کہہ دیا ہے۔ یہ پہلے ہی والدہ محترمہ کے معتقد تھے۔ بات پھیلتی گئی اورمیرے دیکھا دیکھی سب نے ہی امتحان دے دیا اوربفضلِ تعالٰی، سب پاس بھی ہوگئے۔ میرا کیا تھا؟ مجھے تو اچھے نمبروں میں پاس ہونا ہی تھا، الحمدللہ!

میرے اپنے بہن بھائی بھی، کبھی کبھار یہ کہہ دیتے کہ آپ کی دُعائیں نعیم کے حق میں زیادہ قبول ہوتی ہیں۔ اِس پر وہ کہتیں کہ میں تو سب کیلئے ایک جیسی ہی دُعائیں کرتی ہوں۔ دُعاوں کی قبولیت کیلئے جو ضروری محنت درکار ہوتی ہے، شائد وہ زیادہ کرتا ہے!

7 / 8 سال کی ملازمت کے بعد، جب میں نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ فِل کی ڈگری کیلئے دوبارہ پڑھائی شروع کی تو خاندان اوردیگر جاننے والوں کیطرف سے زیادہ حوصلہ افزائی نہ ملی۔ ویسے یہ کام بھی اتنا آسان نہ تھا۔ وزیرآباد میں نوکری بھی جاری تھی اور پھر ہفتہ میں 3 / 4 دن وزیرآباد سے لاہور جانا شام کی کلاسیں لے کر نصف شب کو واپس پہنچنا تھا۔ جبکہ گھر میں ایک ’’عدد‘‘ بیوی اور 3 عدد ’’شیرنُما‘‘ بچے بھی تھے۔ لیکن والدہ صاحبہ کی طرف سے مکمل حمایت ملی۔

بعدازاں جب میں نے برطانیہ آنے کا پرگرام بنایا تو باوجود، اِسکے کہ یہ ہم دونوں کیلئے بہت گَراں تھا، حسبِ سابق، آپ نے اِس کی بھی کوئی مخالفت نہ کی۔ میں نے جب، اُنہیں بتایا کہ میں وہاں جا کر پڑھوں گا بھی، تو اِس پرجو اُداسی ہورہی تھی وہ بھی جاتی رہی۔

میں نے جب برطانیہ جانے کیلئے اپنے اوربیوی بچوں کے ویزے کیلئے درخواست دی تھی، تومیرے اکاوٗنٹ میں فقط اڑتیس ہزار روپے تھے اور وہ بھی بڑی مشکل سے اِدھراُدھرسے پکڑکرجمع کیے تھے۔ میرے حق میں جانیوالے صرف دو شواہد تھے۔ اوّل، سرکاری ملازمت اور دوئم، ایک مرتبہ پہلے برطانیہ جا کر واپس آجانا تھا۔ اُس پرمستزاد یہ کہ 11 ستمبر2001ء کے حملے بھی ہوچکے تھے، جسکے نتیجہ میں پاکستان جیسے اسلامی مُلکوں سے مغربی ممالک کے ویزے مِلنا بہت مشکل ہو گیا تھا۔ تاہم، سوائے والدہ محترمہ کے کسی کو یقین نہیں تھا کہ کامیابی ہوگی۔

لیکن اللہ تعالٰی کے بے پناہ اورجاری فضلوں سے اوروالدہ محترمہ کی مقبول دُعاوٗں کے طُفیل، ایک کے بعد ایک کامیابی نصیب ہوتی رہی۔ 10 اکتوبر2003ء کو ہم لندن ہیتھرو ائیرپورٹ اُترے۔ 20 اکتوبر کوکیس داخل کیا۔ پہلا انٹرویو 3 نومبر کو اوردوسرا بڑا انٹرویو27 نومبر کو ہوا۔ اور 15 دسمبر کو بفضلِ تعالیٰ دوماہ کے اندر کیس، ہوم آفس سے ہی کامیاب ہوگیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب 10 / 20 سال میں کیس پاس ہوا کرتے تھے۔ ہمارے وُکلاء کے مطابق تو یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا جبکہ عام لوگوں کے مطابق تو ’’ایک ادھ دفعہ ہی ایسا سُننے میں آیا تھا‘‘۔

خیر، سوانزی (ساوٗتھ ویلز) پہنچے۔ ستمبر 2004ء میں، ویلز یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں، ایم۔اے ’’بین الاقوامی تعلقات‘‘ میں داخلہ لیا۔ صبح یونیورسٹی اور شام کوایک پرائمری سکول میں، (جس میں عزیزی سلمان و نعمان بھی پڑھتے تھے) صفائی و سُتھرائی کیلئے، سرکاری ملازمت کرلی۔ ابھی پوری طرح خود بھی سنمبھل نہ پائے تھے، لیکن امّی جان سے دُوری، حسبِ سابق، گوارا نہ تھی۔

مقبول دُعاوٗں کی بہتی گنگا ہو اور کوئی ’’مورکھ‘‘ ہی ہوگا جو اُس میں ہاتھ نہ دھوئے یا  نہ نہائے! اپنے اسائیلم کو پاس ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا تھا کہ امّی جان کو سپانسر کردیا۔ لوگ ہنستے تھے۔ لیکن مجھے اللہ تعالٰی کی ذاتِ بابرکات، والدہ محترمہ کی مقبول دُعاوٗں اور سپانسرلیٹرسے لَف شُدہ اپنی ’’خاکروب‘‘ کی سرکاری نوکری کے رنگین و تصدیق شُدہ خط پر پورا یقین تھا کہ یہ ہوگا اور ضرور ہوگا۔

سبحان اللہ والحمدُ للہ! امّی جان کا ویزہ لگا اورحُسنِ اتفاق دیکھئے کہ عزیزم ندیم احمد کا بھی جلسہ سالانہ یو۔کے کیلئے، بطورنمائندہ انجمن تحریکِ جدید، انتخاب ہو جاتا ہے۔ یعنی امّی جان کا پہلی مرتبہ کا ہوائی سفر، انتہائی آسان ہوگیا۔

آپکی آمد سے چند ماہ بیشترہی میں نے گاڑی بھی لے لی تھی۔ جس سے یہاں بھی آپکی آمد ورفت میں، بفضلِ تعالیٰ بہت آسانی رہی اور میرے سالوں پُرانے خوابوں کی تعبیر میں، آپ اگلی نشست پر تشریف فرما ہوتیں۔

یہاں سڑکوں پرٹریفک اور رفتاردونوں ہی زیادہ ہوتے ہیں۔ لندن اورسوانزی کا آنے جانے کا سفر750 کلومیٹر سے زیادہ کا ہے۔ موٹروے پر سپیڈ تو خاصی زیادہ رہتی ہے ۔ میں نے پوچھا کہ آپکو کوئی ڈر یا خوف تو محسوس نہیں ہوتا؟ توکہنے لگیں کہ سفرکی دُعائیں پڑھ لینے اور اللہ تعالٰی کے سُپرد کر دینے کے بعد کیا خوف! جب کہ میرا بیٹا ہر کام ہی اچھے طریقہ سے کرتا ہے! میری گاڑی اورڈرائیونگ، دونوں کودیکھ دیکھ کر، بہت خُوش ہوتیں۔

یہاں بھی، آپ نے ’’اُمّ سوانزی‘‘ کا مرتبہ پالیا تھا۔ وہ دوست، جِن کی مائیں اللہ تعالیٰ کے حضور ہوچُکی تھیں اوروہ بھی، جن کی مائیں پاکستان میں تھیں، سب آپکو ’’امّی‘‘ ، ’’امّی‘‘ پکارتے اورباری باری، اپنے گھر لے جاتے۔ آپکے آنے سے، جماعت میں خوشی کی ایک نئی لہرپیدا ہوجاتی۔ جب 2008ء میں، ہم عُمرے کے لئے گئے تو قائد مجلس کے ساتھ ساتھ، قائم مقام صدرجماعت بھی تھا۔ آپ نے کئی مرتبہ کہا کہ تم جلد صدر بننے والے ہو! اوربفضلِ تعالیٰ آپکی یہ بات بھی چند ماہ بعد ہی پوری ہوگئی۔

بڑی ہمت اوربہادری سے کئی بار پاکستان سے برطانیہ اورپھر پاکستان واپسی کا سفر، اکیلے ہی کیا۔ ہربار، حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ایک مرتبہ تو لازمی اورکئی مرتبہ دو مُلاقاتیں بھی ہوجاتیں۔ ہماری بارباریادھانی کے باوجود، آپ حضور سے بڑی بے تکلفانہ ہوجاتیں۔ حضور بھی، ازراہ شفقت، جواباً آپ سے اِسی طرح، بے تکلف ہو جاتے۔

پنجاب یونیورسٹی سے ریگولرایم۔اے اورایم۔ فِل کرنے کے باوجود، وہاں ’’ڈگری ایورڈ کانووکیشن‘‘ کا کوئی موقع نہ مِلا۔ پرائیویٹ کالج اوریونیورسٹیاں تو یہ کانووکیشن منعقد کرتی تھیں لیکن سرکاری ادارے، فنڈز نہ ہونے کی وجہ سے یہ معاملہ ’’گول‘‘ کر جاتے تھے۔

2006ء میں یہاں ویلز یونیورسٹی کے کانووکیشن میں مجھے ڈگری دی گئی۔ بفضلِ تعالیٰ، والدہ محترمہ اُس میں بطور سرکاری مہمان کے شامل ہوئیں۔ یوں ہماری پیدائش سے بھی قبل، جب آپ والد صاحب کے ساتھ لاہور جاتیں تو پنجاب یونیورسٹی (اولڈ کیمپس) کےسامنے سے گزرتیں اوریہ خواہش اوردُعا کرتیں کہ ’’یا باری تعالیٰ میری اولاد کا بھی اِن اعلیٰ اداروں میں تعلیم کا حصہ رکھنا‘‘ ۔ آپکی یہ دُعائیں، تین مرتبہ، میرے ذریعہ، ایک مرتبہ آپی مبارکہ اورایک مرتبہ عزیزم ندیم احمد کے ذریعے پوری ہوئیں۔ اور بعد میں آپکے نواسے نواسیوں اوراب پوتے پوتیوں کے ذریعے پوری ہو رہی ہیں، الحمد للہ علیٰ ذالک!

میرے والدین کوبیت اللہ شریف، روضہ رسولﷺ اور زیاراتِ مقدسہ خانوادہٗ رسولﷺ کا بہت زیادہ اشتیاق تھا۔ جب معاملات سنمبھلے اوروسائل میسرہوگئے تو، 1974ء میں ہونے والی، آئینِ پاکستان میں دوسری ترمیم، اُنکی خواہشات کی تکمیل میں رُکاوٹ بن گئی۔

برطانیہ آنے اور جانے کے بعد تو، آپکی یہ خواہش، پہلے سے بھی زیادہ شدید ہوگئی تھی! انگلستان آنے سے پہلے ہی پوچھتیں: کیا اِ س بار لے چلو گے مجھے، اللہ کا گھر اور روضہٗ رسول ﷺ دکھانے؟

میں عرض کرتا کہ میری شہریت اورسفری کاغذات، ابھی ’’کچّے‘‘ ہیں اوراُوپر سے آپ ٹہریں پاکستانی اوراحمدی! پاکستان سے تو آپکے عُمرہ و حج کیلئے جانے پر پہلے ہی پابندی ہے جبکہ نائین الیون کے بعد، ویزے، صرف اپنے ہی ملک سے مل سکتے  ہیں۔ لہذا، مجھے تو یہ ناممکن سی بات لگتی ہے۔ لیکن آپ کہاں ٹلنے والی تھیں!  کہتیں کہ بے شک تو ٹھیک ہی کہتا ہوگا، لیکن کسی دُوسرے سے پوچھ تو سہی! یہاں، انگلستان میں، کوئی ہمیں مرزائی کہہ کر گالی تو نہیں دے گا! جلوس تو نہیں نکالے گا! گھر تو نہیں جلائے گا؟ آپکی خواہش کا احترام تو تھا ہی، اب بات میں وزن بھی تھا۔

آپ 4/6 ہفتوں کیلئے ہی ہمارے ملنے کو آتیں تھیں۔ 2008ء میں بھی عزیزم ندیم احمد والدہ محترمہ کے ساتھ آ رہے تھے۔ وہی پہلے سا شیڈول تھا۔ ابھی حال میں ہی ہماری کچھ زرعی زمین فروخت ہوئی تھی۔ چنانچہ رقم کی دستیابی دیکھ کر، آپ نے بڑی ضّد کی کہ ’’چلو چلو مّکّے چلو‘‘، ’’چلو چلو مدینے چلو‘‘ !

خیر، ایک احمدی دوست سے بات ہوئی، جنکی اپنی ٹریول ایجنسی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ آپکا تو نہیں، لیکن پاکستانی پاسپورٹ والا مسئلہ ذرا ٹیڑھا ہے! تھوڑا مشکل لگتا ہے! تاہم کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ لہذا، ضروری دستاویزات اُنکو بذریعہ ڈاک ارسال کردیں۔

مورخہ 10 اگست 2008ء کو اُنکا فون آیا کہ الحمد للہ علی ذالک! آپ دونوں کے عُمرے کےلئے ویزے لگ گئے ہیں۔ دو روز بعد، جدّہ کیلئے فلائیٹ ہے۔

اب مجھ سے نہ پوچھئے کہ یہ کیوں اورکیسے ہو رہا تھا؟

یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی کرم نوازی اور ہمارے لئے کسی معجزہ سے کم بات نہیں تھی! ہمارے کئی غیراز جماعت، عزیز رشتہ دار، آپکو اپنے ساتھ، عُمرہ وحج کیلئے دعوت دیتے۔ لیکن آپ کی زبان پر صرف ایک ہی بات ہوتی کہ ’’میں بشیراحمد کے ساتھ جاوٗں گی‘‘۔ والد صاحب کی وفات کے بعد، آپ کہتیں کہ میں تو’’نعیم احمد کیساتھ ہی جاوٗں گی‘‘۔ دیکھیں کیسے شان سے اللہ تعالیٰ نے آپکی خواہشات اوردُعاوٗں کو شرفِ باریابی بخشا!

آپکی ذاتی زندگی پر نظر ڈالیں، تو ہرشعبہ ہائے زندگی میں آپ ہمارے لئے ایک نمونہ ہیں۔

خُدا اوراُسکے پیارے رسولﷺ سے محبت! اِس محبت کو جانچنے کا ظاہری پیمانہ تو، عبادات کا بجا لانا ہے۔ آپ اِس ’’حقِ بندگی‘‘ کو بجا لانے میں، بفضلِ تعالیٰ، ہم سب سے آگے اورمستعد رہی ہیں۔ غم ہو کہ خُوشی، آپ اِن فرائض کی ادائیگی میں ’’دیر‘‘ کو بھی برداشت نہیں کرتیں۔ اللھم ذِد فزد! حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام اورآپکے خُلفاء سے احترام ومحبت کو آپ جُزو ایمان سمجھتی ہیں۔ اورجماعت کی ہر تحریک پر لبیئک کہنے والوں میں آگے آگے رہتی ہیں، ماشاءاللہ!

آپکی علم دوستی! قرآن کریم، احادیثِ نبویہﷺ، خطابات وخُطباتِ امام، دینی علوم سُننے، یاد رکھنے اوراُنہیں بیان کرنے کا حدّ دے بڑھا ہوا شغف، آپکی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے، ماشاءاللہ! اِسی بنیاد پر، اللہ تعالیٰ نے آپکوایک کامیاب اورباثمر داعیہ اسلام و احمدیت کا رُتبہ بھی عطا فرمایا ہے۔ آپکے ذریعے سے، اللہ تعالیٰ نے بہت سی سعید رُوحوں کو حقیقی اسلام یعنی احمدیت قبول کرنے کی سعادت بخشی ہے۔

جب ہم بہن بھائی چھوٹے تھے تو آپ ہر رکعت میں صرف سورہ اخلاص ہی پڑھا کرتی تھیں۔ اب آپ کو ماشاءاللہ، کئی صورتیں اورمنتخب آیاتِ قرآنی زبانی یاد ہیں۔

آپکی یادداشت، بفضلِ تعالیٰ، 83 سال کی عُمر میں بھی مثالی ہے۔  آپ نے، حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی تحریرات ومنظوم کلام کی بدولت اُردو زبان سے سناشائی پیدا کی اور اپنے بچوں کیساتھ اُردو بولنا سیکھا۔ آپ کوحضرت مسیحِ موعودؑ، صوفیاء اسلام اوراپنے والد مرحوم (ہمارے نانا جان، جو بذاتِ خود پنجابی زبان کے شاعرتھے) کا بہت سا اُردو اورپنجابی، حمدیہ ونعتیہ کلام زبانی یاد ہے۔ بچپن سے ہی یہ اورایسے ہی دُعائیہ اشعار ہمارے کانوں میں رس گھولتے رہے ہیں:

میری دُعائیں ساری، کریو قبول باری
میں جاوٗں تیرے واری، تُوکرمدد ہماری
ہم تیرے در پے آئے، لیکراُمید بھاری
یہ روز کر مبارک، سبحان من یرانی
اے قادر و توانا! آفات سے بچانا
ہم تیرے در پہ آئے، ہم نے ہے تجھ کو مانا
غیروں سے دل غنی ہے، جب سے ہے تجھ کو جانا
یہ روز کر مبارک، سبحان من یرانی!

ماشاء اللہ! اِس قدر ذہین ہیں کہ اُردو و انگریزی کے اکثر مشکل الفاظ کا ترجمہ کرنے سے پہلے ہی، اُس کے سیاق و سباق کی مدد سے، ازخود اُس لفظ کا ترجمہ بتا دیتی ہیں۔ اورحدیثِ نبویہﷺ کی ہدائت کے تابع، ’’مھد سے لحد تک‘‘ علم حاصل کرنے پر یقین رکھتی ہیں۔

آپکا، پڑھی لکھی خواتین سے بھی اُسی طرح، پیارمحبت اوردوستانہ ہے جیسا کہ غیرتعلیم یافتہ کیساتھ۔ ۔ خاندانِ اقدس حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور بزرگانِ جماعت کی خواتین ہوں یا پرفیشنل پرفیسرزیا ڈاکٹرز خواتین! سب، پہلی ہی مُلاقات میں، ایک دوسرے کی گرویدہ ہو جاتیں ہیں۔

جن سے آپکو علاج کی غرض سے بھی ملنا ہوا، وہ بھی آپکی دوست بن جاتیں تھیں جیسا کہ گوجرانوالہ کی ڈاکٹرنصیرہ مجوکہؔ صاحبہ، ربوہ کی ڈاکٹر نصرت صاحبہ و ڈاکٹرفہمیدہ مرزا صاحبہ وغیرہ! اکثراحباب وخواتین کے سامنے، آپ کو اورہمیں یہ اصرار کرنا پڑتا ہے کہ آپ پڑھ لکھ نہیں سکتیں۔ بس اللہ تعالیٰ کا خاص فضل و کرم ہے آپ پر!

حافظ آباد کے مُربیان شہروضلع، جب بھی تحصیل وضلع کے تربیتی و تبلیغی دورہ پر جاتے، تو صدرصاحبہ لجنہ ضلع اوروالدہ صاحبہ کو ضرور ساتھ لے لیتے۔ اور ہمیشہ آپکی بات چیت اورمعاملہ فہمی کے معترف ہوتے۔

کمال کی انتظامی صلاحیتیں! والد صاحب کی زندگی میں اوروفات کے بعد، دونوں ادوار میں، آپ نے، اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری، احسن رنگ میں ادا کی۔ یہ آپ ہی کا خاصہ ہے۔ ہم جو آپ کی تربیت یافتہ اولاد ہیں، اِس ذمہ داری کے ادا کرنے میں، آپکے معیارسے بہت کم تررہے ہیں۔ آپکی تربیت کے عناصرمیں، دُعا سرِفہرست تھی۔ آپکی، تہجد کے نوافل کی باقاعدہ ادائیگی، اِس کا واضع ثبوت ہے۔ نیز، ہرخوشی اورغم  کے موقع پر، نوافل کے ذریعے، اللہ تعالیٰ سے ’’راضی بر رضا‘‘ رہنے کی توفیق، آپکی حیات کا نمایاں وصف رہا ہے۔ جس میں ہم انتہائی کمزور ثابت ہوئے ہیں۔

دوسرا عنصر، عملِ پیہم! مسلسل محنت! کام، کام اوربس کام! آپ اوپرپڑھ آئے ہیں کہ آپکے نزدیک، زندگی عمل کرنے کا نام ہے۔ آپ ’’حرکت میں برکت‘‘ ہے کی داعیہ ہیں۔ وقت کے ضیاع سے اِس قدر نفرت ہے کہ جب میں رات کو دیر تک خاموشی سے پڑھ رہا ہوتا تومیرے پاس آکر پوچھتیں کہ پڑھ رہے ہو کہ ایسے ہی بیٹھے ہوئے ہو؟ آواز نہیں آرہی!

اُوپرذکر گُزرچُکا ہے کہ باوجود، مشکل مالی حالات کے، ہمارے گھر کا معاشی اورمعاشرتی نظام ایسے خوبصورت اور منظم انداز سے چلایا جیسے کسی سرکاری افسرکے گھرکا! ہر چیزاپنے ٹھکانے پر رکھی ہوتی۔ بستربچھے ہوئے اورفرش صاف !  آوازیں اورنظریں نیچی جبکہ مقاصد اور اِرادے بُلند! بہن بھائیوں میں لڑائی تو درکنار، اختلافات کی نوبت تک نہیں آنے دی، الحمد للہ۔

آپ لجنہ اماءاللہ حافظ آباد شہر وضلع کی سرگرم رُکن اورمیمبرعاملہ رہیں اورپھر 6 سال تک، بطور صدرلجنہ شہر بھی، خدمت کی توفیق پائی۔

ہمارے آباءواجداد، قدامت پسندانہ نظریات کے حامل تھے لیکن ہماری دادی جان مرحومہ کے آنے سے، خواتین کے حقوق میں بہت اضافہ ہوا۔ اپنی ’’ریٹائرمنٹ‘‘ کےبعد، دادا جان مرحوم، اپنے ساتھ  رہنے والے، دونوں بیٹوں کے دن بھر، کام پر ہونے کی وجہ سے، میری والدہ محترمہ کو اپنے نمائیندہ کے طور پر، کئی لوگوں کے پاس بھیجتے۔ مثلاً، جب میرے ایک ماموں رفیق احمد صاحب مرحوم کو، حافظ آباد میں، ایک مکان کی تلاش تھی تو اُنہوں نے ایک گھر دیکھا لیکن اُسکا کرایہ زیادہ تھا۔ مرد حضرات کے مابین بات طے نہ ہوسکی۔ اُس پر، میری والدہ صاحبہ، مالک مکان بزرگ کے پاس گئیں اوراُن سے کہا کہ مجھے اپنی فُلاں بیٹی سمجھیں اورمیرے بھائی کے بہترمستقبل کیلئے، میری مدد کریں۔ بُزرگ نےآپ کی بڑی عزت افزائی کی اورمکان کی چابی آپکے حوالے کردی!

ایسے کئی واقعات ہمارے سامنے ہیں، جب ہماری زمینوں اورجائیداد کے سنگین واقعات چوہدری ہارون الرشید یا دیگربڑے اورطاقتور لوگوں کیساتھ درپیش تھے۔ متعلقہ اداروں اورمرد حضرات کے مابین تصفیہ نہ ہونے پر، دادا جان اورہمارے تایا جان، ہماری والدہ محترمہ کو بطورسفارتکار، اُن لوگوں کی والدہ، اہلیہ یا بہنوں کے پاس بھجواتے اور بفضلِ تعالیٰ ایسے تمام قضیئے حل ہو جاتے۔

ہمارے نئے گھرکی تعمیر 1987ء میں ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئی ہے۔ نئے گھرکے تین اطراف پہلے سے گھر موجود تھے اورمروجہ قانون وروایات کے مطابق، نئے گھر کی دیواروں اور چھتوں کیلئے، ہمیں ہمسائیوں کی دیواروں میں، برابری کے حصے کا حق حاصل تھا۔

بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں موجود، ’’خود غرضی، انا پرستی اور خواہ مخواہ ہر معاملہ میں ٹانگ اڑانے کی وجہ سے‘‘ تینوں ’’شریف‘‘ ہمسائیوں نے، مستری اورمزدورں کو کام کرنے سے روک دیا۔ محترم تایا جان مرحوم نے بڑی دلیری اور تعدّی سے اپنا حق جتایا اورمستری اور مزدوروں نے بھی، ہمارا ساتھ دیا لیکن منور مغل کے مرحوم والد، قاضی عزیزالحق صاحب مرحوم اورفیروز صاحب مرحوم، تینوں نے ہی، ہمارا حق دینے سے روک دیا۔

یہ نہیں تھا کہ یہ لوگ ہمارے ہمسائے نہ تھے یا ہمارے ان سے تعلقات خراب تھے! بدقسمتی سے، زر،  زمین اور جایئداد کے معاملات میں، ہندوپاک معاشرے میں صدیوں سے ایسی ہی ناحق اور بد روایات چلی آرہیں تھیں۔

اِس پر ایک مرتبہ پھر، والدہ محترمہ نے، اِن گھروں کی بیویوں اوربہو بیٹیوں کے تعاون سے یہ معاملہ حل کروالیا۔ الحمدللہ!

شُجاعت، لیڈرشپ کا  ایک اہم ستون ہے۔ اورآپکی شجاعت، ہمارے والد صاحب مرحوم سے بھی بڑھی ہوئی تھی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد، ہم سب، اپنے ہی گھر میں، رات کو سوتے ہوئے ڈرتے تھے۔ لیکن، آپ کی مسلسل ہمت اور شجاعت دکھانے کی وجہ یہ خوف، ہم سے جاتا رہا۔

ویگن، بس اورٹرین میں، لوگوں کو تبلیغ کرنے پر، ہم سب آپکومنع کرتے لیکن آپ بات سے بات نکال کرخود ہی تبلیغ شروع کردیتیں۔ ’’موت کا ایک دن مقرر ہے‘‘۔ وہ آنی ہی ہے توپھرکیوں ڈرنا؟ یہ آپ کا جواب ہوتا ہے۔

مَکّہ شریف کے سفرکے دوران جب ہم میدانِ عرفات پہنچے تو وہاں ایک عرب، سجا ہوا اُونٹ لئے بیٹھا تھا۔ اِرد گرد، چند ایک ہی زائرین تھے۔ آپ نے کہا کہ لگتا ہے، آج اِس بیچارے کا کام نہیں چل رہا تو کیوں نہ اِس کی مدد ہی کردی جائے۔ میں نے حیران ہوکے پوچھا وہ کیسے؟ تو بولیں ایسے! اوراونٹ پر جا بیٹھیں۔ میں ہکا بکا رہ گیا۔ خود مجھے بھی بُلاتی رہیں، لیکن مجھ میں آپ سی ہمت و طاقت کہاں؟

اِسی طرح، اِس واقعہ سے چند برس قبل جب آپکی عُمر70 برس سے زائد تھی، آپ دیگر بچوں کیطرح، کوہ مری میں گھوڑے پر بھی سوار ہوگئیں۔

ہوائی جہاز کا سفربھی، بہت سے لوگوں کے لئے ایک خوفناک تجربہ ہوتا ہے۔ 10/11 سالہ عزیزی نعمان احمد بڑی مشکل سے ہوائی جہازاوربحری جہاز پرسوار ہوتا تھا۔  لیکن آپ نے اکیلے کئی مرتبہ لندن کا لمبا سفر کیا اور واپس بھی گئیں۔

سخاوت و انفاق فی سبیل للہ! شجاعت کیطرح، آپکی سخاوت کی عادت بھی، ہمارے والد صاحب مرحوم اوردیگربزرگوں سے  بڑھی ہوئی تھی۔ اپنے غریب وکمزور بہن بھائیوں سے لیکرہرسائل اورسفید پوش (جوسوال نہیں کرتے لیکن ضرورتمند ہوتےہیں) کی حسبِ توفیق مدد کرتیں۔ کئی معاملات میں اپنی حیثیت سے بڑھ کربھی، مدد کی توفیق پاتیں ہیں، الحمدللہ! ہمارے والد صاحب مرحوم بھی کہتے تھے کہ ’’تمھاری والدہ کے ہاتھ میں سوراخ ہیں‘‘ یعنی دولت، صدقہ وخیرات ٹہرتی ہی نہیں بلکہ نکل جاتی ہے۔

ہرسال، گندم و چاول کی فصل آنے پر، اُس وقت تک اپنا حصہ محفوظ نہیں کرتیں جبتکہ جاننے والے مستحق افراد کا حصہ اُٹھوا نہ دیتیں۔ اِسی طرح، سال بھرکے دوران بھی، آنیوالے سائلین اورمستحقین کو، بفضلِ تعالیٰ اپنی بساط کے مطابق مدد بہم پہنچاتی رہتی ہیں۔

اِسی طرح، قربانی کے گوشت کی تقسیم میں بھی بہت فیاضی سے خویش، اقرباء مساکین اورغُرباء کا حصہ، اپنے حصہ میں سے بھی نکال کر ادا کرتیں۔ یہ میں ایک جانور کی قُربانی کے گوشت کی بات نہیں کررہا۔ بفضلِ تعالیٰ کئی مرتبہ، ہمارے والدین کو سات اورنو قربانیاں کرنے کی توفیق بھی ملی ہے۔ دو، تین تو معمول کی بات تھی! اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ یاد رہے کہ یہاں اِن باتوں کا ذکر، اپنے بچوں کی معلومات اوراُنکے اندر اِس سُنتِ ابراہیمیؑ کو جاری رکھنے کے شوق وجذبہ کی خاطر کیا ہے۔ وگرنہ ہماری کیا طاقت، توفیق اور اوقات! بس، اللہ تعالیٰ قبول فرماتا رہے، آمین۔

مساجد کی تعمیروتوسیع کیلئے، جماعتِ احمدیہ نے حسین اسلامی تعلیم کے ماتحت، خواتین کو اپنے زیوارت کی زکوٰۃ و صدقہ نکالنے اوراپنے تئیں آگ سے بچانے کیلئے، زیورات کی قُربانی کرنے کی، مرکزی اور مقامی طورپر تحریکات کیں ہیں۔  آپکو بھی دیگرنیک ومتقی خواتین کیطرح، اپنا زیور، اِن مدّات میں دینے کی ہمیشہ توفیق ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ بااحسن تمام قبول فرمائے، آمین۔

ہم ابھی نئے نئے، کرائے کے گھر میں آئے تھے۔ ایک روزمَیں، سردیوں میں، اپنے محلے کے ایک غریب گھر سے، مُرغی کے تازہ انڈے لینے گیا تو دیکھا کہ شدید سردی کے عالم میں اُنکے پاس گرم بستر بھی پورے نہ تھے۔

میں نے گھر آکر بات کی تو والدہ محترمہ نے، اُسی وقت، ’’پیٹی‘‘ سے دو عدد نئے اورمکمل بسترنکالے ۔ ایک مجھے پکڑایا اور دوسراخود اُٹھایا اور ’’بیری والے‘‘ گھر دے آئیں۔

ابھی پچھلے ہفتے (جنوری 2021ء) کی بات ہے کہ میں نے بیس ہزار روپے بطور صدقہ تقسیم کرنے کیلئے آپکو بھجوائے۔ چند روز کے وقفے سے، میں نے، اپنی دانست میں، آپکے خوش کرنے کیلئے پوچھا کہ صدقہ کی رقم مل گئی ہے؟ آپ نے جواباً فرمایا وہ تو تقسیم بھی ہوگئی ہے۔ میرا خیال تھا کہ کم ازکم مہینہ بھر تو لگے گا اُسکی تقسیم میں! لیکن آپ نے تو چار دنوں میں ہی اُس کو تقیسم کردیا۔ الحمدللہ!

سخاوت صرف صدقہ و خیرات کے کاموں میں، مال ودولت خرچ کرنے کا نام ہی نہیں۔ اپنی ضرورت کی قیمتی و عام روزمرّہ کی اشیاء دوسروں کے استعمال کیلئے دینا بھی، سخاوت ہے ۔ اِسی نیکی کی تعلیم، اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سورۃ الماعون میں بھی دی ہے۔ آپ گھر کے استعمال کی اشیاء اور زیورات بھی لوگوں کو بوقت ضرورت و طلب دینے میں خُوشی محسوس کرتی ہیں۔ بفضلِ تعالی، یہی عادت اپکے بچوں میں بھی پائی جاتی ہے، ماشاء للہ!

صرف یہی نہیں، خاص موسمی سوغات یعنی چاول و السی کی پنیّاں، مختلف قسم کی پنجیریاں، شکرپارے وپکوان بنانے کا فن آپکو خوب آتا تھا اور آتا ہے، ماشاءاللہ! چنانچہ، عزیزواقارب، جماعت اورمحلّے داریا توہمارے گھر اپنا سامان لے آتے یا پھر، آپکو اپنے ہاں دعوت دیکر، آپ کی مدد سے یہ اشیاء تیار کرواتے۔

صفتِ سخاوت کا ایک لطیف پہلو یہ بھی کہ خود بھی کسی سے سوال نہ کرنا! آپ اپنے بچوں سے بھی کبھی کچھ نہیں مانگتیں۔ اللہ تعالیٰ آپکی ساری ضرورتیں از خُود پوری فرماتا رہا ہے، ماشاءاللہ!

مہمان نوازی: الحمدللہ! ہمارے ددھیال اورننھیال، دونوں میں مہمان نوازی کا وصف بہت نُمایاں رہا ہے۔ اور یہ اپنوں و غیروں، دونوں طرح کے لوگوں کیلئے ہی یکساں ہے۔ ایک مرتبہ، ہماری دادی جان مرحوم نے، ہمارے آبائی گھر( محلہ قتل گڑھ، جو شہرکی مغربی سرحد پر واقع تھا اوراُس سے آگے، ’’سولنگی رسول‘‘ تک کوئی آبادی نہ تھی) کے پاس، غروب آفتاب کے وقت ایک بارات ٹہری ہوئی دیکھی، جو اندھیرے اورخطرے کیوجہ سے، اب اپنی منزل، سولنگی کیطرف سفر جاری رکھنے سے قاصر تھی۔ آپ نے فوراً اپنی بہوبیٹیوں کی مدد سے، اُنکا کھانا تیار کیا۔ اپنی ہمسائی، رسولاں بی بی مرحومہ کے تندورسے روٹیاں لگوائیں، اور محلّے بھرسے اضافی چارپائیوں اوربستروں کا انتظام کرکے بھی اُنکوبہم پہنچایا۔

قدیم جامع مسجد احمدیہ، سے ہمارا آبائی گھرسو دو سو گزکے فاصلے پر تھا۔ لہذا، اکثر مسجد میں آنیوالوں کے کھانے اور بستر ہمارے دادا جان مرحوم کے یہاں سے جاتے۔ اور بفضلِ تعالیٰ، یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔ اِسی طرح ایک لمبا عرصہ، لجنہ کی گیلری کی ہفتہ وار صفائی اورپردوں کی دُھلائی کے کام میں بھی، بڑے زوق و شوق سے شامل ہوتی رہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔

حافظ آباد میں ہمارا وسیع خاندان آباد رہا ہے۔ بیرون شہر سے آنیوالے مہمان، اکثرہمارے ہی گھر میں ٹہرنے کو ترجیح دیتے۔ کیونکہ اُنکو یہاں بہت آرام اورسہولت ملتی تھی۔ والد مرحوم کی زندگی میں، مالی فراخی کیوجہ سے، تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اُسکے بعد بھی، اِس مہمان نوازی میں، آپ نے کمی نہیں آنے دی۔ آپ مہمان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اورباعثِ برکت جانتی ہیں۔

ہماری نانی جان کی وفات کے بعد، ہمارے نانا جان کا اکثر وقت ہمارے ساتھ ہی گزرا۔ اِسی طرح ہمارے سب سے چھوٹے ماموں کو بھی آپ بچپن میں ہی، اپنے گھر لے آئی تھیں۔ اور اُنکی تعلیم وتربیت اور شادی کرنے کے بعد، اُنکو الگ گھرمیں جانے دیا ۔

مرکزی مہمانوں اور حُفاّظِ اکرام کے کھانے کا اہتمام بہت شوق سے کرتیں اور کرواتیں۔ اُنکو تحائف دینے میں بھی بہت فراخ دلی کا مظاہرہ کرتیں۔ جب بڑے وفود، مسجد میں آتے اورکھانے کا انتظام مقامی لجنہ کے سپرد ہوتا، تو مسجد میں جا کر، کھانا پکانے کی توفیق پاتیں۔

جماعت احمدیہ کے لئے غیرت اوراپنی عزتِ نفس و خُودی کا تحفظ: آپکی طبیعت میں انکساری، صلہ رحمی، کفائت شعاری، ہاتھ سے اور آگے بڑھ کر کام کرنا، معاملہ فہمی، درگُزر کرنے جیسی سب عادات، بفضلِ تعالیٰ ، بدرجہ اتم موجود ہیں۔ لیکن کسی موقع پربھی، جماعت احمدیہ، خُلفاء، نظامِ جماعت اوراپنی عزتِ نفس اورخُودی سے کسی کو کھیلنے کا موقع نہ دیتیں۔ چاہے کوئی مال یا رُتبہ کے لحاظ سے کتنا ہی بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو!

چند سال بیشترکی بات ہے کہ آپ لجنہ کے ایک وفد کیساتھ کولو تارڑ گئیں۔ یہ لوگ تبلیغ کی غرض سے، ایم۔این۔اے افضل حسین تارڑ کے گھر بھی گئیں۔ چوہدری صاحب کے ایک بڑے قریبی رشتہ دار اوربزرگ، چوہدری علی محمد تارڑ صاحب مرحوم، ہمارے دادا مرحوم کے دوست تھے اور ہماری والدہ کو اپنی بیٹی کہتے تھے۔

اُس موقع پر، سائرہ افضل تارڑ صاحبہ جو اپنے والد کے بعد ایم۔ این۔ اے  تھیں، خاندان کی دیگرخواتین کے ہمراہ موجود تھیں۔ جب یہ وفد وہاں پہنچا تو مقامی احمدی تارڑ خاندان کی خواتین کو تو انہوں نے کُرسیوں اور چارپائیوں پر جگہ دی لیکن مقامی صدرلجنہء صاحبہ جو ’’تارڑ‘‘ نہیں تھیں اور ’’ذات پرستوں‘‘ کے نزدیک ’’کم ذات‘‘ سے تعلق رکھتی تھیں، کو زمین پر ہی بیٹھنے دیا۔ اِس پر آپ فوراً اُٹھ کھڑی ہوئیں اور اُنہیں فوراً اپنی کُرسی بیٹھنے کیلئے دے دی۔ وہ بے چاری اِس عزت افزائی کو قبول کرنے میں بہت تامّل برت رہی تھیں لیکن آپ نے زبردستی اُنکو اپنی جگہ پر بٹھا کر، وہاں پر موجود خادماوٗں کو خود تحکّمانہ انداز میں کہا کہ جاو سب کے بیٹھنے کےلئے کُرسیاں اور چارپائیاں لے کر آوٗ!

آپ کے اِس جرات مندانہ اقدام سے، سب ’’چودھرائنیں‘‘ آپ کو اپنے سے بڑی ’’چودھرائن ‘‘ جان کر، آپ سے مرعوب ہوگئیں، اور آپ سے ہی بات چیت  شروع کردی۔ آپ نے، بس اِسی پر اکتفاء نہ کیا بلکہ سب کو بتایا کہ ہم احمدی، حضورِ پاک ﷺ اور حقیقی اسلام کی تعلیمات کو ماننے والے ہیں اور ذات پات کی تفریق کو روا نہیں رکھتے۔

اِسی طرح، سفروحضر میں، اگرکوئی مخالفِ احمدیت، جماعت کے بارے میں غلط بات کرتا تو موقع پر ہی اُسکی بات کو غلط اورجھوٹ قرار دے دیتی ہیں۔

نوجوانی سے لیکر گزشتہ 40 / 45 برس کے دوران میرا آپ سے کوئی اختلاف نہ ہوا تھا۔ ابھی ڈیڑھ دو برس قبل، ایک رشتہ کے طے کرنے میں، میں نے آپکی مرضی کے برخلاف، ایک فیصلہ کیا۔ اِس پر، آپ نے سخت نارضگی کا اظہارکیا اوربدقسمتی سے، بات رسمی سلام دُعا تک ہی رہ گئی۔ ہم دونوں پر یہ ابتلاء بہت بھاری تھا۔ میں اپنی دانست میں غلط نہیں تھا لیکن اُنکا موٗقف تھا کہ خاندان و گھر کی سربراہی ہنوز، اُنہی کے پاس ہے۔ لہذا، صحیح یا غلط، آخری فیصلے کا اختیار، تا زیست اُن کے پاس ہے۔

بعد ازاں، دو برپا ہونیوالے تکلیف دِہ واقعات کے بعد، مجھے پیچھے ہٹ کر، اپنی غلطی اور اُن کی سیادت کو تسلیم کرنا پڑا اور آپ نے مجھے معاف کرتے ہوئے، اپنے گلے سے لگا لیا۔ یہ اور ایسے ہی کوئی اورواقعات اِس بات کا بھی ثبوت ہیں کہ آپ نیکی و تقویٰ کیساتھ ساتھ ایک معاملہ فہم،  نڈراور بہادر’’جٹ‘‘ خاتون ہیں جو بطوربیٹی، بیوی، بہو، ماں، بطور ساس اورخوشدامن کے، اپنی عزتِ نفس کا احساس رکھنے والی اوراپنے انداز سے معاملات طے کرنیوالی ہیں۔

میں اور میرے بہن بھائیوں میں، آج جوبھی اچھائی اوربھلائی ہے وہ محض اللہ تعالیٰ کے بے پایاں فضل وکرم، اُسکی رحمتوں، جماعتِ احمدیہ کی برکتوں، بزرگانِ دین اور ہمارے آباء واجداد کی دُعاوٗں کی بدولت ہیں۔ لیکن ہماری تعلیم وتربیت میں بنیادی کردار ہماری عظیم والدہ محترمہ کا ہے۔ جتنی بھی خامیاں، کوتاہیاں، کمزوریاں اورناکامیاں ہم میں نظر آتی ہیں، وہ سب ہماری ذات کیوجہ سے ہیں۔

آپ سب سے عاجزانہ دُعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری والدہ محترمہ کو صحت وتندرُستی والی، خوشیوں اورخُوشخبریوں سے معمور لمبی عُمر عطافرمائے اورآپکی تمام دُعاوٗں کو حسبِ سابق قبول فرماتا رہے، آمین و ثُم آمین۔

جہاں جہاں ہوں میں ناکام،وجہ میں ہوں
جہاں جہاں ہے میرا احترام،تم سے ہے
(وصی شاہ سےمتاثرہوکر)