بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں دولتِ زَر، زَمین اوردولتِ’’یقین‘‘، تینوں سے، قدرے تہی دست رہا ہوں۔ دن میں خواب، میں نہیں دیکھتا اوررات کووہ میرے پاس نہیں آتے! قصور میرا سہی، لیکن اِس پر بَس، میرا قطعی نہیں! طبیعت میں کَسل، کام میں تَجاہل، مجلس سے بَیٗراورعِرفان کا شوق! عجب طبیعت پائی ہے جناب نے! ماضی پر شاکی، حال سے بےفکر اور مستقبل سے بے خبر! یوں کہیئے کہ بنائے نہیں بنتی!
شائد، ایک نقلی سا’’صوفی‘‘ ہوں! اسلامی تاریخ کے زمانہ وُسطیٰ میں ایسے کردار بڑی کثرت سے ملتے ہیں، جو اِسلامی تعلیمات سے بے تعلق اوراسلامی عبادات پرعمل کئے بغیربھی، محض کسی مرحوم بزرگ کے آستانہ پر، ایک مرتبہ سرجُھکا کر، کسی درگاہ پر ایک نیازگزار کریا کسی مزار پرفقط ایک دِیا جلا کر، دین ودنیا میں کامیابی کا پروانہ پا لیتے تھے!
میرے سلسلے کے ’’بزرگ‘‘ میرے والدین ہیں۔ وہ دونوں بڑی سرکار، حضرت احدّیت، باریٗ تعالیٰ، عزّوجَل کے ماننے والے اوراُسکے پیاروں کے مُرید اور خلیفہ ہیں۔ دونوں کے اسماء میں، بشارت وخوشخبری کا پیغام تھا۔ اور وہ یہ شرف لوگوں میں، تقسیم بھی کرتے تھے۔
حضرتِ احدّیت، بڑی سرکارکی نظرِکرم سے، اِنکی بڑی مَنّتیں اورمُرادیں پوری ہوئیں! لوگ بھی، اِنکو پسند کرتے اورتوجہ کیلئے کہتے۔ حضرت والدِ گرامی کے، دنیا سے پردہ کرجانے کے بعد، حضرت بی بی والدہ صاحبہ نے، صوفیانہ سُنّت کے مطابق میری دستار بندی، بچپن میں ہی کردی، لیکن درگاہ کا نظم ونسق اپنے ہاتھ میں ہی رکھا!
زمانہ بدل رہا تھا۔ تعلیم وآگاہی کا دور دورہ تھا۔ روز اَفزوں، علومِ سائنس، ہمارے بزرگوں کی کرامات کو، عقلیت کی سَاّن پر چڑھا کر، رِدائےعقیدت ومُریدگی کو، تار تار کررہے تھے۔ مادیت پسندی، قوت اور الٰہیت سے تعلق کمزورپڑ رہا تھا۔ لوگ مذہب، درگاہوں اور خانقاہوں سے پیچھے ہٹتے ہوئے، کالجوں، یونیورسٹیوں اور شہروں کا رُخ کرر ہے تھے۔
ایسے میں، حضرتِ والدہ ماجدہ صاحبہ نے، ہمیں، ہمارے دیگر پیرزاد بھائیوں کی طرح، شُترِ بے محار کی زندگی گزارنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ آپ نے قدیم صوفی طریقت کو، ایک بارپھر، اُسکی اصل یعنی اسلامی شریعت کے تابع لا کر ’’عقلیت پسندوں‘‘ کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ تبدیلی ہمارے ایسے ’’صوفیوں‘‘ کے لئے، کسی انقلاب سے کم نہ تھی! والدہ صاحبہ، ایک طرف توہمیں، مرحوم والدِ گرامی صاحب کا خلیفہ اور ولیعہد جَتا کر، عزت افزائی کرتیں اور دوسری طرف، ہماری ہرعامیانہ خواہش کا گلا بھی گھونٹ دیتیں۔ ایسے ہی کڑوے گھونٹ پی پی کر، ہمارا لڑکپن اورجوانی سُرعت سے پھلانگتے ہوئے، سنجیدگی کی دہلیز پر پہنچ گیا۔
ہم جب یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہوئے تو اُس وقت تک، پیری مُریدی اور درگاہوں کے ماحول میں بہت بدلاوٗ بلکہ زوال آچکا تھا۔ لہذا، اب دستار پہنے، گدی پربیٹھنے اور مُفت کی کھانے کی بجا ئے، حضرتِ والدہ صاحبہ، اپنے اُسی فلسفہ حیات کے تابع، درگاہ میں واپس آنیکی بجائے، ’’درسگاہ‘‘ کا رستہ دکھا دیا کہ یہی نبیوں، ولیوں اور صوفیوں کی سنت رہی ہے۔
آپ نے اپنی دُعاوٗں اورآشیرباد سے، ہمیں اپنے آباء کے کام پر لگا دیا۔ سچ کہیں ہم بھی اِس کام سے بہت خوش تھے۔ چونکہ، اپنے ہاتھ سے کما کر کھانے کی عادت ہی نہ تھی۔ سب ضروریات شروع سے ہی خانقاہ کی طرف پوری ہوجاتی رہی تھیں، لہذا گزراوقات میں تنگ دستی کا سامنا ہوا۔ لیکن، والدہ محترمہ، ابھی بھی گاہے بگاہے، مالی امداد بہم پہچاتی رہتیں تھیں۔
پھرمیری شادی ہوگئی۔ بچے ہوئے۔ عیال بڑھتا اور مال مزید کم پڑتا جا رہا تھا! اِس عالم میں، میرے کچھ دوستوں اور بزرگوں نے اِس تنگیٗ داماں کا علاج، ہجرت بتایا۔ نیز یہ بھی کہ انبیاء اور صوفیاء کی سُنت رہی ہے! لہذا، والدہ گرامی سے اجازت لینے پہنچے۔ آپکی دُعاوں کے سائے تلے، انگلستان آگئے۔
ہجرت کیا بَلا تھی؟ ہمیں کیا معلوم تھا؟ ایک قیامت کا نہ ٹلنے والا وعدہ، اعلیٰ حضرتِ احدّیت، اپنی کلام میں بار بار دیتے ہیں کہ جس کے بعد، زندگی تمام ہو جائیگی اور جسم معدوم! ہجرت کرنے والا تودو قیامتوں اور دو فناوٗں سے گزرتا ہے۔ ایک زندگی بھراوردوسری زندگی کے خاتمہ پر!
گھر بار، والدین، بہن بھائی، دوست احباب، نوکری، وطن سب جاتے رہے۔ اِرادت، طریقت، شریعت، عبادت سب اُسلوب ہائے زندگانی میں ضُعف بڑھتا گیا۔ لیکن جس اضافے کیلئے یہ ہجرت ہوئی تھی، فقط وہی نہ ہوا۔ یعنی آمدن واسباب میں اضافہ! ہم جو’’کرنی والے‘‘ بزرگوں کے گدی نشین تھے، یہاں کچھ پہنچے ہوئے بزرگوں کی خدمت میں، خود دُعا کیلئے حاضر ہوگئے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ ’’بچّہ رزق تو مقدّرسے ملتا ہے۔ کیڑے کو مٹی و پتھرمیں اور مچھلی کو سمندر کی تہہ میں ملتا ہے۔ تجھے وہاں بھی ملتا تھا، یہاں بھی ملیگا۔۔۔ لیکن، اُتنا جتنا منظورِخُدا ہوگا!‘‘
عرض کیا۔ حضور، سب دوست ایک سا ہی کام کرتے ہیں بلکہ ہم تو دوسروں سے زیادہ اور اچھا کرتے ہیں! پھر بھی ہمارے ہاں وہ فراخی نہیں ملتی جو دوسروں کے ہاں نظرآتی ہے۔
بزرگ قدرے مسکراتے ہوئے گویا ہوئے: ’’اچھا ہے۔ اِسی طرح کرتے رہو! سب اچھا ہوگا! تنگیء داماں، فَقراور درویشی، سُنتِ انبیاء میں سے ہے!‘‘
مالِ دنیا اور دولتِ یقین سے تہی، میں اپنا سا مہنہ لیکرہی رہ گیا! بچپن میں شرافت، طہارت، عبادت، اور سیادت کے اسباق! جوانی میں، اخلاقیات، ارشادات، درسگاہوں میں خطابات (لیکچرز)! اورعملی زندگی میں، ملازمت، ہجرت، فُرقت، صبر، شُکر اور سُنتِ انبیاء و اصفاء کی نصیحت! کیا یہ سب کچھ ہمارے لئے ہی ہے؟
ایسے دِگرگُوں حالات میں، والدہ گرامی سے محبت، اُلفت اور دوستی ہی میری جمع پونجی رہی ہے۔ اور بقول مرحومہ پروین شاکر، ہماری حالت ’’وہ کہیں بھی گیا، لوٹا تو میرے پاس آیا‘‘ اور محترمہ والدہ صاحبہ کے خیال میں ’’بس اِک یہی بات اچھی ہے، میرے ہرجائی کی‘‘ والا معاملہ ہے۔
محترمہ والدہ صاحبہ میری دھاڑس بندھانے، یہاں میرے پاس بھی آتی رہیں۔ آپ خواب بہت دیکھتیں ہیں۔ اور اکثراُن میں سے سچے بھی ہوتے ہیں! اِسی لئے یاد رکھتی اور سُناتی رہتی ہیں۔ میری حالت تو آپ جانتے ہی ہیں، اُنکے بالکل برعکس ہے!
میرے پِیرومُرشد، حضرتِ والدین کو، بیت اللہ شریف، روضہ رسولﷺ اور زیاراتِ مقدسہ خانوادہٗ رسولﷺ کا بہت اشتیاق تھا۔ جب شعور پُختہ اوروسائل میسرہوگئے تو1974ء میں کی گئی، آئینِ پاکستان میں دوسری ترمیم، اُنکی خواہشات کی تکمیل میں رُکاوٹ بن گئی۔
سچ پوچھیئے، مذہبی فریضہ تو اپنی جگہ! تاہم، بچپن سے ہی، ایسے نیک خیالات اور عبادات پر، سرکاری پابندی کی وجہ سے، ایسی خواہشات، میرے دل میں توکم ہی مچلتی تھیں! اُس پر مُستزاد، والدِ گرامی کی رِحلت، والدہ محترمہ کی ڈھلتی عُمراور گرتی ہوئی صحت کے باوجود، اُنکی یہ خواہش، اُلٹے زیادہ شدید و توانا ہوتی جا رہی تھی! انگلستان آنے سے پہلے ہی پوچھتیں: کیا اِ س بار لے چلو گے مجھے، اللہ کا گھر اور روضہٗ رسول ﷺ دکھانے؟
میں رہا، دُنیا دار اور وہ بھی تہی دست! ہُوں، ہَاں کرکے، ہر بار، آپکو بُلوا تو لیتا۔ لیکن یہاں آکر آپکی خدمت میں عرض کرتا کہ میری شہریت اورسفری کاغذات، ابھی کچّے ہیں اوراُوپر سے آپ ٹہریں پاکستانی واحمدی! پاکستان سے تو آپکے عمرہ و حج پر جانے کی، تاحال کوئی صورت نہیں اور نائین الیون کے بعد، ویزے، چونکہ اب صرف اپنے ملک سے ہی مل سکتے ہیں، لہذا، یہاں سے بھی باریابی نامُمکنات میں سے ہے۔
آپ 4/6 ہفتوں کیلئے ہی ہمارے ملنے کو آتیں تھیں۔ اِس بار بھی عزیزم ندیم احمد والدہ محترمہ کے ساتھ آ رہے تھے۔ وہی پہلے جیسا شیڈول تھا۔ امسال، یعنی 2008ء میں ہماری کچھ ذرعی زمین فروخت ہوئی تھی۔ چنانچہ رقم دیکھ کر، اِس بار، آپ نے بڑی ضد کی کہ بے شک تُوکہتا تو ٹھیک ہی ہوگا، لیکن کسی دُوسرے سے پوچھ تو سہی! یہاں، انگلستان میں، کوئی ہمیں مرزائی کہہ کر گالی تو نہیں دینے کا! جلوس تو نہیں نکالنے کا! گھر تو نہیں جلانے کا؟ آپکی خواہش کا احترام تو تھا ہی، اب بات میں وزن بھی تھا۔
میں نے اِس ضمن میں جب کچھ پُوچھ تَاچھ شروع کی تو پتہ چلا کہ ماشاءاللہ! یہاں تو، آئے روز، کوئی نہ کوئی احمدی دوست، اِس سفرِمقدس و زیارات کیلئے، آتے جاتے رہتے ہیں۔ ایک دوست نے، برمنگھم میں کسی احمدی دوست کا پتہ بتایا، جنکی اپنی ٹریول ایجنسی تھی۔ اُن سے فون پر بات ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپکا تو نہیں، لیکن پاکستانی پاسپورٹ والا مسئلہ ٹیڑھا ہے! تھوڑا مشکل ہے! تاہم کوشش کرکے دیکھ لیتے ہیں۔ آپ سفری دستاویزات (پاسپورٹ وغیرہ) رجسٹری کردیں۔
رقم کا سوال نہ میں نے کیا اور نہ انہوں نے کوئی تقاضا کیا۔ دھڑکتے دل کیساتھ، میں نے والدہ صاحبہ کو بتایا۔ تو آپ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہ رہا۔ میرے لیئے احرام کی دو چادریں اوراپنے اور اپنی ہمشیرہ یعنی ہماری بڑی خالہ رابعہ بی بی صاحبہ کے کفن کی (چار) چادریں بھی ساتھ لے آئیں۔ (اِس بارہ میں تفصیل سے ذکر بعد آئیگا)۔
جلسہ سالانہ یوکے، جولائی کے آخری دنوں میں منعقد ہورہا تھا۔ آپ وسط جولائی میں یہاں پہنچی تھیں۔ اور آتے ہی ہم نے مطلوبہ کاغذات، برمنگھم بھجوا دیئے۔ جلسہ پر، موصوف ملک صاحب(ایجنٹ) سے ملاقات میں مزید معلومات کا اضافہ ہوا۔
آپ نے بتایا کہ موسمِ گرما کی تعطیلات کی وجہ سے، اِس وقت عُمرے کا سیزن اپنے عروج پراور ٹکٹ وغیرہ بہت مہنگے مل رہے ہیں۔ اور یہ کہ آپکوسعودی ائیر لائن ہی استعمال کرنی چاہیئے۔ گواُسکا ٹکٹ سب سے مہنگا ہوتا ہے لیکن اِس سے وہاں آپکو امیگریشن و انٹری میں کچھ سہولت مل سکتی ہے۔ نیز یہ کہ سعودی امیگریشن کنٹرول کی سخت مزاجی، زبان زدِ عام ہے۔ آپکے معاملے میں ایک کمزوری، معلّم اورعُمرہ پیکج (جس میں ہر چیز کی پہلے سے بُکنگ ہوتی ہے) کا نہ ہونا بھی ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔
اِن معلوم اور نہ معلوم شُدہ باتوں سے میرے حوصلے میں، میرے توکل کی بدولت کمی جبکہ والدہ محترمہ کے توکل اور دُعاوں میں اضافہ ہو رہا تھا۔ میرے پاس، اِس سفر کیلئے، حسبِ سابق کوئی مالی اسباب نہ تھے۔ جبکہ عزیزم ندیم احمد مسلسل اپنے ذرائع سے، رقم کے انتظام میں لگے رہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم اور والدہ محترمہ کی دُعاوں سے، سارے کام، ہمیشہ کیطرح، ایک ایک کر کے ہوتے چلے جارہے تھے۔
10 اگست کوویزہ لگنے کے بعد پاسپورٹ، لندن میں ہمارے ایک جاننے والے سیّد حامد سفیرصاحب کو پہنچائے گئے۔ اُسی روز، ہم سوانزی سے لندن پہنچے اوررات اُن سے وصول پالیئے۔ اگلے روز، 11 اگست کو ٹکٹ بنے اوروہ بھی بذریعہ ای۔ میل ہی ملے۔ لندن میں ہماری رہائش، عزیزم ندیم احمد کیساتھ (جلسہ پر آئے، مرکزی مہمانوں کے گیسٹ ہاوٗس میں) تھی۔ جلسہ سالانہ پر آئے مہمانوں کی کثرت سے ہونیوالی ملاقاتوں کی وجہ سے مقامی احباب کی ملاقاتیں ایک دو ماہ تک روک دی جاتی ہیں۔ لیکن والدہ محترمہ اورعزیزی ندیم احمد کی وساطت سے ہی، حضورِ انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ ِالعزیز سے، اِس موقع پرہماری ملاقات، ایک بشارت اور معجزہ سے کم نہ تھی۔ الحمدللہ علیٰ ذالک! ملاقات بہت خوشگوار اور حسبِ سابق یادگار رہی۔ حضور انور نے بھی ہمیں تسلی دینے کیساتھ ساتھ، کچھ مُفید مشورے اور ضروری نصائع فرمائیں۔
12 اگست بروزمنگل (2008ء) دوپہر ساڑھے بارہ بجے ہماری فلائیٹ تھی اورشیڈول کے مطابق تین گھنٹے قبل، صبح ساڑھے نو بجے، ہم تینوں ہیتھرو ائیرپورٹ پر موجود تھے۔
عزیزم ندیم احمد نے، مجھے ایک بڑی رقم، سٹرلنگ پاونڈز میں دی۔ اتنی بڑی رقم نہ میں نے اِس سے پہلے کبھی دیکھی اور نہ اُسکے بعد! میں نے سوال کیا کہ اِس قدرزیادہ رقم کی کیا ضرورت ہے؟ اُس نے کہا کہ اوّل تو عمرے کا سیزن چل رہا ہے، ہوٹل وغیرہ مہنگے ہونگے۔ دوسرے اگر بچ رہے تو واپس لے آئیے گا۔ تیسرے، شاپنگ وغیرہ کیلئے بھی ضرورت پڑے گی! چناچہ میں نے کچھ رقم والدہ محترمہ کے پرس میں رکھوا دی۔
سارے ہوائی جہازتو قریباً ایک جیسے ہی ہوتے ہیں لیکن سعودی ائیرلائن میں تو مسافر بھی ایک ہی طرح کے تھے! یعنی اکثریت پاکستانیوں کی اور جو بَچے کُھچے عربی تھے، وہ پتلون اور ٹی شرٹس میں ملبوس، ہماری طرح ہی لگ رہے تھے۔ اکثریت پاکستانی مردوں کی احرام باندھے ہوئے تھی۔ گو ہمارے سمیت سارے زائرین کے پاس یہ سہولت موجود تھی کہ وہاں مکّہ شریف کی اصل حد کے باہر، قریباً ۸/۱۰ میل کے فاصلے پر، مسجد عائشہ، مقامِ تنعیم پراحرام باندھا جاسکتا ہے لیکن لوگوں کی سوالیہ نظروں سے ہمیں کچھ مزید گھبراہٹ کا سامنا رہا۔
ابھی ہم برطانیہ کی فضاوٗں میں ہی تھے کہ ظُہر کی اذان کی آواز آنا شروع ہوگئی۔ اِدھر اُدھر دیکھا تو ایک ’’نقلی عربی‘‘ صاحب، بیت الخلاء کے پاس، جوتھوڑی سی جگہ بچ رہتی ہے، پر کھڑے اذان کہہ رہے ہیں اور لوگ ’’مسجد عثمانیہ‘‘ حافظ آباد کیطرح، جوق در جوق، نمازباجماعت کیلئے، تگ ودو کررہے تھے۔
ہندوپاک اورعرب خواتین وحضرات پر مشتمل، فضائی میزبان، اِس اُدھم پَیل اور رُکاوٹوں کے باوجود، مسکراتے ہوئے، اپنے کام میں مشغول تھے۔ خیر، باآوازِ بُلند تکبیر کہی گئی، 5/7 افراد کے علاوہ کسی کے لئے جگہ ہی نہ تھی۔ چناچہ نامراد ہو کر اکثر اپنی اپنی جگہ پر واپس آگئے۔ البتّہ، کچھ استقامت پسند وہیں کھڑے رہے۔ اور پَہلوں کے نماز ادا کرنے کے بعد، اپنی نماز ادا کرنے لگے۔ ہم نے بھی اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے، اپنی نمازیں قصرو جمع کرلیں تھیں۔ وہ ہمیں ’’بے نماز‘‘ سمجھ رہے تھے اور ہم انُہیں ’’بےسمجھ‘‘! ہردو گھنٹوں بعد، یہ ڈِرل ہوتی رہی۔ اور ہمارے سمیت فضائی عملہ، مسکراتے ہوئے، اپنے ہاتھ ملتا رہا۔ شائد، ایماں کی حرارت والوں نے، نمازِ مغرب بھی ادا کرلی تھی۔ لیکن جب وہاں اُترے تو سورج صاحب ابھی ’’چڑھے‘‘ ہوئے تھے۔
مشہوروبین الاقوامی جدّہ ائیرپورٹ پرجَدّ، جَدید یا جِدّت کے کوئی آثار ہمیں نظر نہ آئے! شائد، انہوں نے ہمیں ’’اقلیتی مسلمان‘‘ جانتے ہوئے، پچھواڑے میں اُتار دیا تھا۔ واقعہ میں ہی، یہ ٹرمینل تو وزیرآباد کا ٹرین سٹیشن لگ رہا تھا۔ سارا ماحول ہی ایسا تھا۔ خاموشی، اُداسی، بے سروسامانی! ہم تو سعودی لوگوں کو شاہ فہد کیطرح، سُرخ و سپید سمجھتے تھے لیکن یہ کیا؟ جو معدودے چند ہمارے ’’مظاہرے‘‘ میں آئے، یہ تو گندمی اور قدرے سیاہی مائل رنگ کے، ہماری طرح کے ہی غریب غربا قسم کے لوگ تھے۔
انگلستان و یورپ میں، ائیرپورٹس، سٹیشن، سینما گھر، سٹیڈیم یا ایسی ہی رش آور جگہوں پر، دھکم پیل یا وقت کے ضیاع کا اب کوئی تصور اور رواج ہی نہیں رہا۔ ’’ہسدے آو اور نچدے جاو‘‘ والی بات ہوگئی ہے۔ جبکہ پاکستان وایشائی ممالک میں بدستور ویسے ہی حالات ہیں۔ میرا ذاتی خیال تھا کہ امیر ملک ہونے اور ہر سال لاکھوں عازمینِ حج کے آنے اور جانے کیوجہ سے، یہاں کے لوگوں کی خوب مشق (ٹریننگ) ہوگئی ہوگی۔ لیکن عُقدہ یہ کُھلا کہ ٹریننگ اور تجربے کے باوجود، اوّل تو ’’اِنکا کوئی کام کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ اور اگربادلِ ناخواستہ، کوئی کام کرنا پڑ ہی جائے، توچُستی نامی کسی بھی چیز سے یہ بیچارے اورنودولتیئے، ناآشنا ہیں‘‘۔
لمبی قطاروں، جانچ پڑتال کیلئے کھولے گئے، کم کاوئنڑز، مغرورافسران اور سُست روی سے جاری یہ عمل، ہم نے مسلسل دُعاوں اور خوف کی حالت میں طے کیا۔ کیونکہ ہمارے لئے تو یہی مقامِ ’’منکرونکیر‘‘ تھا، یعنی مسلم و غیر مسلم تسلیم ہونے اور آگے جانے کا فیصلہ، ایک ہی سپاہی کے ہاتھ میں تھا۔ الحمد للہ، ایک اور منزل سَر ہوگئی۔
ائیرپورٹ سے، پیدل چلتے ہوئے جب باہر نکلے تو پتہ چلا کہ ہم تو’’فیصل آباد‘‘ پہنچ گئے ہیں! کئی ’’ہیگا ویگا‘‘ لوگ ہماری طرف، یوں لپکے جیسے مُرغی، چیھچھڑے کی طرف! اُن میں سے ایک دوست نے، زبردستی ہمارا اکلوتا اور چھوٹا سا بیگ چھینا اور اپنی گاڑی کے پاس لے گیا۔ اِس دوران میں ریٹ پوچھتا رہا اور وہ ماں جی، ماں جی کی رٹ لگاتا رہا۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ جدّہ سے مکّہ شریف کا فاصلہ 80/85 کلومیٹر ہے۔ لوگ 200 ریال مانگتے ہیں اور 100/150 میں مان جاتے ہیں۔ میں چونکہ ’’حساب‘‘ کے مضمون میں، اپنی بیوی کی طرح، کمزور لیکن، ’’کِتاب‘‘ میں اُس سے بہت بہترواقع ہوں۔ لہذا، ایک پاونڈ میں 8 ریال کا حساب، وِرد کیطرح، جہاز میں ہی کرتا رہا تھا۔
مصوف نے کرایہ نہ بتانا تھا اور نہ ہی بتایا۔ خیر، بے دلی سے، کار میں بیٹھ گئے۔ میں نے نام پوچھا تاکہ بات چیت میں سہولت رہے۔ اسلم جاوید، وہ بولے۔ غلطی مجھ سے یہ ہوئی کہ میں نے اُن سے یہ بھی پوچھ لیا کہ پاکستان میں کہاں سے ہیں؟ بس اِس بات پر وہ اِس قدر ’’ناراض‘‘ ہوئے کہ پھر اگلا ایک گھنٹہ سفر کا، ہماری ’’جوابدہی‘‘ میں ہی گزرا۔ ہم سے پوچھے گئے سوالات، کئے گئے اعتراضات اور مُفت مشورہ جات کی فہرست درج ذیل ہے:
نام ؟
کام ؟
برطانیہ کیوں گئے؟
مُعَلّم کے بغیر کیوں اور کیسے آئے؟
ہوٹل وغیرہ پہلے کیوں بُک نہیں کیا؟
کتنی بار عُمرہ و حج کیا؟
مدینہ منورہ کی بجائے، پہلے مکّہ کیوں جارہے ہیں؟
اِتنی عمر ہوگئی ہے آپ لوگوں کی، اب کیوں آئے ہو؟
یہاں سے مکّہ شریف کی حَدّ شروع ہوتی ہے۔ کافروں کا آگے جانا منع ہے! ایک کافر آگے چلا گیا تھا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو خود بتا دیا تھا۔
عُمرے کے بعد واپس کیوں جاتے ہو؟ یہاں سے پاکستان جاو، قریب ہی ہے۔
میں آپکو سَستا ہوٹل لے کر دونگا، وغیرہ وغیرہ۔
خیر، خُدا خُدا کرکے، ہم مکہ شریف پہنچ گئے۔ مسجدِ حرام کی میناریں دیکھ کر،آنکھیں، پہلے سے ہی کمزورایمان وایقان کے حامل شخص کو، اور بھی بے یقین، بنارہی تھیں۔ البتہ والدہ صاحبہ کی آنکھوں پر کوئی فرق نہ پڑا۔ وہ پہلے بھی نم رہتی تھیں اور اب بھی ویسے ہی تر تھیں۔ البتہ فضا میں دُور کہیں پُرانے زمانے کے، مٹی کے تیل سے چلنے والے ٹیوب ویل کی ہُو، ہُو، ہُو کی ہلکی ہلکی آواز، مسلسل آرہی تھی۔ یہاں تک کہ ہم مکّہ مُکرمہ کی بڑی اور اُنچی عمارتوں میں گِھرگئے لیکن ہنوز، اُس آواز میں کوئی کمی نہ آئی۔ پھر میں نے مُڑ کر جو پچھلی نشست پر دیکھا تو اچانک سے آوازمیں تعطل آگیا!
ہمارے پاس ’’روابی البُستان‘‘ ہوٹل کا پتہ اورحوالہ تھا، جو مسجد الحرام کے بالکل نواح میں بتایا گیا تھا۔ موصوف لائے تو وُہیں، لیکن بااصرارہمیں ایک پاکستانی سرائے میں لے گئے۔ ہمیں ایسا لگا کہ ہم ’’دارالضیافت‘‘ آگئے ہیں۔ پاکستانی طرز کے ایک مکان میں، دو تین بڑے ہال نما کمروں میں درجنوں چارپائیاں بچھی ہوئی ہیں۔ عورتوں اور مردوں کے کمرے، الگ الگ۔ 50 ریال روزانہ فی چارپائی! ہمیں یہ دیکھ کر ہی اُلجھن ہو رہی تھی، لیکن اِنتظامیہ، ہمیں زبردستی، ’’کموڈ والا‘‘ باتھ روم دکھانے پر بضد تھی، جو گھر کی دیوڑھی میں ہی واقع تھا۔ اُسکو دیکھ کر، مسجد بلال کے، گندے نالے پر واقع خوفناک بیت الخلاء کا منظر، ہماری ’’نمناک‘‘ آنکھوں میں پِھر گیا۔
ہماری ’’آخری خواہش‘‘ کی درخواست پر، موصوف ہمیں قریب ہی موجود، ہمارے والے ہوٹل، ’’البُستان‘‘ میں لے آئے۔ اب آپکی اپنی رُخصتی کا وقت قریب تھا۔ ہم نے کرایہ پُوچھا۔ توآپ نے پہلی اور آخری بار بتا ہی دیا: 300 ریال! ہم جو یُوں بھی تھکے ہوئے تھے اور تُوں بھی تھک چُکے تھے بولے، کہ جناب عالی، عام ریٹ 100/150 کا سُنا تھا۔ پھر یہ ڈبل اور ٹرپل کیوں؟ ’’پِیک سیزن‘‘! مشہورذرعی، مزاحیہ ریڈیو پروگرام کا کردار المعروف ’’ با با نِظام دین‘‘ مرحوم یاد آگئے کہ ’’ساری مشکلاں دا اِکّوحلّ! نواب ٹُوَل، نواب ٹُوَل! خیر 200 ریال میں بات طے تو نہ ہوئی تاہم ختم ضرور ہوگئی! جاوید صاحب، بظاہر خوش تو نہ تھے لیکن ناراض بھی نہ ہوے۔ لہذا، فوراً اپنا بزنس کارڈ مرحمت فرمایا اور اِسی طرح کے ’’سستے‘‘ نِرخوں پر، باقی ماندہ زیارات کرانے کا بھی مژدہ سُنایا۔ ہم جواُن کے اخلاص، روئیے اورمصاحبت سے مایوس ہو چکے تھے، اب تائب ہوکر، ’’عالم چنّا‘‘ ہوٹل میں داخل ہوگئے۔
’’عالم چنّا‘‘ اِس لئے کہ شائد 15/12مرلہ رقبہ ہوگا اور شائد اِتنی ہی منزلیں! ہر منزل پر 10/12 چھوٹے کمرے، ایک ادھ سٹور، سیڑھیاں اور لفٹ! نویں منزل پر، کمرہ نمبر11۔ دونوں کو ملائیں تو 911 نمبرکمرہ۔ قبل ازیں، ریسیپشن، مری کے ہوٹلوں کی طرح صاف ستھری، پھول پودے، قیمتی صوفے وغیرہ۔
ہمیں لندن میں، ایک ڈبل بیڈ روم کا کرایہ 100 سے 120 بتایا گیا تھا۔ یاد رہے، جس دوست نے ہمیں یہ معلومات بہم پہنچائی تھیں، وہ جون میں، یعنی چھٹیوں سے قبل عمرہ کے لئے آئے تھے، وہ بنگالی احمدی تھے۔ یہ ہوٹل، بنگالی وعربیوں کی ’’مشترکہ پیش کش‘‘ تھی۔ ظاہر ہے کہ بنگالی زبان بول کر جو رعایت اُنہوں نے حاصل کی وہ ہمیں تو میسر نہ آسکتی تھی! ویسے بھی اب تو ’’پِیک سیزن‘‘ تھا۔ آخر یہ ’’پیک سیزن‘‘ کیا ہو تا ہے؟
موسمِ گرما کی تعطیلات کے دوران، نہ صرف آسودہ حال لوگ، پورے یورپ، انگلستان، امریکہ و کینیڈا سے اپنے بیوی بچوں کے ہمراہ عمرہ کی ادئیگی کیلئے آتے ہیں بلکہ اِن مغربی ممالک میں رہنے والے، عربی ممالک کے لوگ بھی کثرت سے، اپنے اہل وعیال کیساتھ، واپس اپنے گھروں اور عمرہ کی سعادت کرنے کو آتے ہیں۔ اِس وجہ سے اِسے ’’پِیک سیزن‘‘ کہتے ہیں۔ کاوٗنٹرپر جو کہ بنگالی وعربی ’’شٹاف‘‘ موجود تھا، نے 200 ریال روزانہ کا ریٹ سُنا کر پریشان کردیا! اُسکو بھی انگریزی کا شائد صرف ایک ہی فقرہ آتا تھا: ’’پِیک سیزن‘‘! واللہ، یلّہ، خَلّاص، خَتم کی تکرار کے بعد، 180 پر بات طے ہوگئی۔ 5 روز کا ایڈوانس مبلغ 900 ریال جمع کروایا۔ لفٹ کے ذریعے اوپر پہنچے اور کمرے میں داخل ہوگئے۔
وطنِ عزیز، پاکستان میں ایسا اتفاق ہوتا ہی رہتا تھا کہ باہر سے بس اور ویگن بہت شاندارنظرآرہی ہوتی تھی اور اندر تختے اور بینچ نُما نشستیں دھری ہوتیں تھیں۔ ایک بلب اورٹوٹی پھوٹی چھت! اِسی طرح، دس ضرب بارہ کی اِس کوٹھری میں، دو سنگل پلنگ، ایک چھوٹی سی ڈریسنگ ٹیبل، چھوٹا فریج اور دو قیمتی چیزیں، ائیرکنڈیشنر اورمُلحقہ باتھ روم! فوراً کاپی پنسل لیکر حساب لگایا۔ یومیہ 22/23 پاونڈز بنتے تھے۔ خوشی ہوئی، کیونکہ اسی قدرہی کرایہ ہم یو۔ کے جلسہ سالانہ کے دنوں میں ’’بیڈ اینڈ بریک فاسٹ‘‘ ہوٹل میں ایک ڈبل بیڈ روم کا دیتے ہیں۔ لیکن وہ کمرے شاندار، بڑے، آرام دہ اور ناشتہ سمیت ہوتے ہیں۔ خیراللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کیا۔ غُسل کیا۔ اپنی تاریخی سفید شلوار قمیض پہنی اور آسودہ ہوگئے۔
رات کے 11 بج رہے تھے۔ میں اکیلا ہی نیچے چلا گیا تاکہ فون کی سِم، کچھ کھانے پینے کا سامان وغیرہ لے آوٗں۔ ہوٹل کی سیڑھیوں پر کھڑا ہوا، تقریباً سو ڈیڑھ سومیٹر کے فاصلے پر، بائیں طرف بجانبِ مغرب، مسجد الحرام کے مینار اوردرودیوارروشن تھے۔ دل تو بہت چاہتا تھا کہ ابھی جایا جائے تاہم جیسا کہ پرگرام بنا ہوا تھا کہ صبح، مقامِ تنعیم سے ہوکر ہی زیارت وعمرہ کیلئے جائیں گے، انشاءاللہ۔ دائیں اور سامنے کیطرف، ہوٹلز، دُکانیں اور بازار! چہارسُو، روشنی ہی روشنی تھی! اندھیرا، فقط دُوراُفق پر اور بمشکل تمام نظر آرہا تھا۔
ہر طرف چہل پہل، لوگ ہی لوگ! ہر نسل، رنگ، زبان اور خدّوخال کے حامل مرد وزن، چھوٹے بڑے، خوش وخرم ! دن اور رات کا فرق مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے گِردونواح میں مفقود ہے۔ اِسی طرح سرود و گرم کا احساس بھی!
چھوٹی بڑی دُکانوں پر، دُنیا کی ہرچیز وافر دستیاب تھی۔ اِسی طرح، دوکاندار بھی ہرایک قوم سے تھا لیکن زبان سب کی ایک ہی تھی! 5 ریال، 10 ریال، 20 ریال، 30 ریال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ویسے اُردو کی بجائے اگر ’’ہندوستانی‘‘ کہا جائے تو مناسب رہیگا۔ کیونکہ، برِصغیرسے، سب سے زیادہ لوگ وہاں کام کاج اورزیارات کیلئے آتے جاتے ہیں۔ لہذا، اُنکےعربی مالکان یا کفیل لوگ بھی، اُردو ہندی کوسمجھتے ہیں۔
میں خوشی خوشی واپس کمرے میں آیا تو دیکھا والدہ محترمہ کافی پریشان تھیں۔ اُنہیں حوصلہ دیا اور کچھ کھانے کوپیش کیا۔ آپ نے بہت تھوڑا سا کھانا کھایا۔ نمازیں ادا کرنے کے بعد ہم سو گئے۔
13 اگست، بروز بُدھ: گزشتہ روز کی تھکاوٹ اور ائیرکنڈیشن کی ٹھنڈک کی وجہ سے، صبح نماز کیلئے ہماری آنکھ ہی نہ کُھلی! نو دس بجے اُٹھے، تیار ہوکر، احرام کی چادریں لیکر، ہوٹل سے نکلے۔ باہر ایک پاکستانی ہوٹل سے ناشتہ کیا۔ اور ہوٹل کے پچھواڑے میں ہی واقع لاری اڈے سے مسجد عائشہ کیلئے شٹل سروس کی بس لی۔ غالباً 4 ریال کی ٹکٹ (50 پنس) تھی۔ بسیں برطانوی معیار کی اورائیر کنڈیشنڈ تھیں۔ قریباً 11/12 کلومیٹر کا فاصلہ اور کشادہ سڑکیں! 15/20 منٹ میں پہنچ گئے۔ وہاں، مسجد کے باہر، مردوخواتین کیلئے الگ الگ غسل خانے بنے تھے، جہاں پر بعداز غسل، مرد حضرات احرام اور خواتین نیت باندھ لیتی ہیں۔ عوتوں کا لباس صاف لیکن روز مرہ کا ہی ہو تا۔ چہرہ ڈھانپنا ضروری نہیں، لیکن نوجوان عورتیں اکثر نقاب میں تھیں۔ سیاہ چولے نما بُرقعے بھی عام تھے۔ دو دو نفل نیت کے ادا کرنے کے بعد، اپنے پُرانے پہناوے شاپنگ بیگ میں ڈال کر، ساتھ لئے اور اگلے لمحے بذریعہ بس واپسی اور مسنون دعاوں کا ورد شروع ہو جاتا ہے۔
واپس لاری اڈہ پہنچے۔ چند قدم پر ہی مسجدِ حرام کا بیرونی صحن شروع ہوجاتا ہے۔ یوں تو مسجد کے چھوٹے بڑے دروازوں کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے لیکن بڑے 6 دروازوں کے نام یوں ہیں: بابُ الصّفَا، بابِ ملک عبدالعزیز، باب ملکِ فہد، بابُ العُمرۃ، بابِ ملک عبداللہ اور بابِ الفتح۔ ہم حسبِ سہولت، مختلف اوقات میں، اِن میں سے چار دروازوں سے داخل ہوتے رہے۔
بہرحال، درود شریف اور ذکرِ الہی کرتے اور ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے، بابِ عبدالعزیز سے مسجد حرام میں داخل ہوئے۔ سامان اورجوتوں کو ایک مخصوص نشانی والی جگہ پر رکھتے ہوئے، دھڑکتے دلوں کیساتھ سیڑھیاں چڑھتے گئے کہ یہاں تک کہ کعبہ شریف کی چھت نظر آنا شروع ہوئی۔ جوں جوں ہماری دھڑکنیں تیز، دُعاوں اور درود شریف میں روانی، آہوں اور سسکیوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا تھا، تُوں تُوں، بیت اللہ شریف ہمارے سامنے، انعامِ خداوندی کیطرح بڑہتا جارہا تھا۔
پہلے ہم نے کھڑے کھڑے باقاعدہ دُعا کی پھروہیں سجدہ ہائے شُکر بجالائے۔ ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیں۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ یہ خواہش بھی پوری ہوگی! الحمدللہ و ثم الحمد للہ! ہمارے دادا، پردادا، پڑدادا اور اِسی طرح ننھیالی آباء و اجداد، نسلوں کی نسلیں، اِس بیتُ العتیق کو دیکھنے کی آرزو اورحسرت اپنے دلوں میں لیئے، اپنے خالق و مولا کے حضور حاضر ہوگئیں!
اب سیڑھیاں اُترنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ جوں جوں ہم نیچے اُترتے ہوئے، اپنے ذُعم میں، کعبہ شریف کے قریب ہو رہے تھے، کعبہ شریف ہم سے دُور ہوتا جارہا تھا۔ بظاہر تو یہ صرف اونچ نیچ کا معاملہ تھا! لیکن میری نظر میں، پہلی قُربت، خوش آمدید اورمہمان نوازی کا انداز و نظارہ تھا۔ جبکہ دوسری دُوری، مُطاف کی وسعت کی دُوری تھی، ’’سعی‘‘ کی دُوری تھی! یعنی کوشش کرو، آگے بڑھو اور خداتعالیٰ کے گھر اوراُسکے شعائرسے ملو!
ایک بار پھر، دُعا کی۔ دو نفل ادا کئے اورسجدہ شُکر بجا لائے۔ اپنی اپنی نمازِ ظہروعصر ادا کی۔ اوراپنا اپنا پہلا عمرہ ادا کیا۔ سبحان اللہ، الحمدللہ، و اللہ اکبر!
اللہ تبارک وتعالیٰ قبول فرمائے، آمین۔
بیت اللہ:
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنایا جانے والا پہلا گھر، بیت العتیق! گردشِ ایام نےاِس گھر اور اِس میں عبادت کرنے والوں کو پراگندہ کردیا تھا اور یہ ایک وادی غیر ذِی ذرع ہوگئی۔ سوائے، اُس واحد ویگانہ کے کسی کو اِس بات کا علم نہ تھا۔ یہانتک کہ اُس نے اپنے پیارے اور ابوالانبیاء حضرت ابراھیم علیہ السلام ، اُنکی اہلیہ، حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور اُنکے پیارے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی رُوحانی، دینی اورجسمانی قُربانیوں کو قبول فرماتے ہوئے، بطور انعام، رہتی دُنیا تک کیلئے، اُنہی پاکباز اور جانثار وجودوں کے مبارک ہاتھوں سے، اِس وادیٗ ’’بَکّہ‘‘ میں اپنے گھر کی تعمیرِ ثانی کروائی۔
یہ گھربیت اللہ، یہ مقام، مسجدِ الحرام اور یہ شہر مکّہ کہلایا۔ اِس گھر، مقام اور شہر کی بنیادوں میں، اِن تینوں کی، درد مندانہ نیک تمنا ئیں، جاں سوزآہیں، سِسکیاں اوربھرپورمقبول دُعائیں شامل ہیں۔ میں نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ اِس شہر میں، آبِ ذم ذم کے سوا اور کچھ پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن دُنیا کی ہر نعمت، ہروقت اور وافر موجود ہے۔ ہم نے دیکھا بھی ہے اورسُنا بھی ہے کہ لندن، پیرس اورروم، آدھی رات کو بُجھ جاتے ہیں۔ لیکن یہاں دِن اور رات میں تفریق صرف گھڑیوں پر صادر ہوتی ہے۔ پوری دنیا سے امیروغریب مواحدین، اِسں سرزمین پر، اپنی جبینوں کو جُھکانے کو بے چین رہتے ہیں۔
خانہٗ کعبہ کی موجودہ شکل مُربع نُما مستطیل ہے۔ شمالاً جنوباً 44 فٹ لمبا اور شرقاً غرباً 33فٹ چوڑا ہے۔ اِسکی اُونچائی 45 فٹ ہے۔ نامعلوم وقت سے اِس پر سیاہ ریشمی غلاف چڑھا رہتا ہے۔
ذیل کی سطور میں خانہٗ کعبہ، اِس کے حصّوں، ارکان (کونوں) اوراِسکے قریب اہم مقامات کا اسلامی اور جغرافیائی تعارف پیش کیا جا رہا ہے۔ آسان الفاظ میں خانہ کعبہ کی سمتیں یوں سمجھی جا سکتی ہیں۔
حطیؔم شمالی دیوار کے سامنے ہے اور مقامِ ابرہیمؑ شمال مشرقی کونے میں واقع ہے۔
حَجرِاسود جنوبی دیوار کے مشرقی کونے میں۔ جبکہ اِسی دیوار کے مغربی کونے میں رُکنِ یمانی ہے۔
بابِ کعبہ ومُلتَزم مشرقی دیوارمیں ہے۔
زمزم کا کنواں بھی کعبہ شریف سے مشرق کی جانب ہے۔
حطیم:
خانہٗ کعبہ کی شمالی دیوار کے ساتھ بشکل کمان کچھ خالی جگہ ہے۔ اِسکے ارد گرد چھوٹی چھوٹی دیوار ہے۔ لیکن اوپر چھت نہیں۔
امام مسلم رحمہ اللہ تعالٰی نے حضرت عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا سے حدیث بیان فرمائی ہے کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے بارے میں سوال کیا کہ کیا یہ بیت اللہ کا ہی حصہ ہے؟
تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا جی ہاں! عائشہ رضي اللہ تعالٰی عنہا بیان کرتی ہیں میں نے پوچھا کہ اِسے پھر بیت اللہ میں داخل کیوں نہیں کيا گيا؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جواب تھا کہ تیری قوم کے پاس خرچہ کے لیے رقم کم پڑ گئی تھی ۔
میں نے کہا کہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا کیوں ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا تیری قوم نے اسے اونچا اس لیے کیا تا کہ وہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل کریں اورجسے چاہیں داخل نہ ہونے دیں ۔
اور اگرتیری قوم نئی نئی مسلمان نہ ہوتی اوراِن کے دل اس بات کوتسلیم کرنے سے انکارنہ کرتے تو میں اِسے ( حطیم ) کوبیت اللہ میں شامل کردیتا اوردروازہ زمین کے برابرکردیتا”۔
’’میزابِ رحمت‘‘ خانہٗ کعبہ کی چھت کا طلائی پرنالہ بھی اِسی احاطہ میں گرتا ہے۔
حجرِاسود:
سیاہ رنگ کا یہ پتھر، بہت متبرک اور شعائراللہ میں سے سمجھا جاتا ہے۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے ہی اِسے یہاں نصب کیا تھا۔ طواف کا آغاز یہیں سے کیا جاتا ہے اوردورانِ طواف اِسکو حقیقی طور پر یا اشارۃً بوسہ دینا سُنت نبوی ﷺ ہے۔ یہ خانہٗ کعبہ کے جنوب مشرقی کونہ میں نصب ہے۔
مُلتَزم:
حجرِاسود اور بابِ کعبہ کے درمیان شمال۔ مشرقی دیوار کا حصّہ مُلتزم کہلاتا ہے۔ حج کرنیوالے واپسی کے وقت کعبہ کے اِس حصّہ سے اپنے سینہ کو لگاتے ہیں جیسے معانقہ کیا جاتا ہے۔ ’’بیت اللہ‘‘ سے الوداع ہوتے ہوئے محبت و زیارت کا یہ ایک والہانہ انداز ہے۔
رُکنِ یمانی:
خانہ کعبہ کا جنوب مغربی کونہ چونکہ یمن کی سمت ہے اِسی لئے اِسے ’’رُکنِ یمانی‘‘ کہتے ہیں۔ طواف کے وقت اِس کو کونہ کو چھونا اور بوسہ دینا مستحب ہے۔
مقامِ ابرہیمؑ:
بیت اللہ کے دروازے اور مُلتَزم کے سامنے قدرے مشرق کیطرف ایک قُبہ (گنبد نما، سونے کا جالی دارپنجرہ) ہے۔ جس میں وہ پتھر رکھا ہوا ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیمؑ نے خانہٗ کعبہ کی دیواریں چُنیں تھیں۔
طواف کے سات چکر لگانے کے بعد، جو دو رکعتیں نفل ادا کرنا واجب ہیں، اُنکا اِس مقام پر ادا کرنا زیادہ ثواب کا موجب ہے۔
زمزم:
مقامِ ابرہیمؑ کے بائیں جانب مشرق کی طرف زمزم کا چشمہٗ یا کُنواں واقع ہے۔
صفا ومروہ:
کعبہ شریف کے جنوب میں، قریب ہی دو چھوٹی چھوٹی پہاڑیاں واقع ہیں۔ پہلے صفا کی چوٹی آتی ہے اورپھر بجانبِ مشرق، مروہ آتی ہے۔ جہاں حضرت ہاجرہؑ نے اپنے شیرخوارلختِ جگر، حضرت اسمعیلؑ کے لئے پانی کی تلاش میں سات چکر لگائے تھے۔ اِس عمل کوشریعت میں ’’سعی‘‘ کہتے ہیں۔
صدیوں سے، لاکھوں زائرین کی بار بار ’’سعی‘‘ کرنے کی وجہ سے، یہ راستہ (جسے ’’مُسعی‘‘ کہتے ہیں) ہموارسا ہوگیا تھا۔ اصل چوٹیوں کے کچھ آثار کو محفوظ کرکے، اب راستوں کو نہایت آسان اور کشادہ بنا دیا گیا ہے۔ ایک چکر کی لمبائی تقریباً 395 میٹر ہے اور کُل سات چکروں کا سفر قریباً پونے تین کلومیٹر بنتا ہے (مکّہ مکرمہ کے تاریخی مقامات: ڈاکٹرمحمد نجیب قاسمی)
ظاہر ہے، روزانہ سیر نہ کرنے والے کیلئے، یہ سات چکر لگانا کوئی سہل کام نہیں ہے۔ باوجود سارا راستہ ’’مُسعی‘‘ بھی ائیر کنڈیشنڈ اور ہوادار ہوتا ہے لیکن انسان پسنیہ سے شرابوراور تھک جاتا ہے۔
مُطاف:
خانہ کعبہ کے اردگرد، (مسجدِ الحرام کا صحن) سفید سنگِ مرمرکا وسیع دالان، جہاں طواف کے سات چکر لگائے جاتے ہیں، مُطاف کہلاتا ہے۔
13 اگست 2008ء کو، بعداز نمازِ ظہر، ہم نے اپنا پہلا عُمرہ بشمول طواف، ’’سعی‘‘ اور’’قصر‘‘ مکمل کیا۔ طوافِ کعبہ، والدہ صاحبہ نے، میرے ساتھ خود چل کرکیا۔ آپکی خوش قسمتی کہ پہلے ہی روز، اپنے پہلے طوافِ کعبہ کے دورانِ ہی، آپکو تسلی کیساتھ، حجرِ اسود کا بوسہ لینے کی توفیق حاصل ہوگئی۔ یقیناً اِس کامیابی میں میری بھر پور کاوش تھی لیکن اپنی بھرپُور کوششوں کے باوجود، میں تیسرے یا چوتھے روز یہ سعادت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ اور عجب اتفاق دیکھیں، کہ بعد اِسکے نہ محترمہ والدہ صاحبہ کو اور نہ ہی مجھے، دوبارہ یہ سعادت میسر ہوئی! وُہی، ’’یہ محبت تونصیبوں سے ملا کرتی ہے‘‘ والا معاملہ ہے۔
’’سعی‘‘ کا آغاز ہم دونوں نے مل کر ہی کیا تھا لیکن دو چکر ہی لگانے کے بعد، محترمہ والدہ صاحبہ کا چلنا محال ہوگیا۔ ’’مسعی‘‘ میں ہی ، بہت سارے لوگ، خالی ویل چئیر لئے، سڑکوں پر رکشوں کیطرح گھوم پھر رہے ہوتے ہیں۔ اور ہدیّہ پر، یہ مناسک ادا کروا دیتے ہیں۔ لہذا، ایک نوجوان سے 8 ریال میں یہ مدد لے لی۔ اِس کے بعد، میں ہوٹل سے ہی ویل چئیرمستعار لے لیتا۔ بعض اوقات، وہاں دستیاب نہ ہونے پر، مسجدِ احرام کے دروازوں پر سے، جہاں اِسکا وافرانتظام موجود ہو تا تھا۔
مقامِ ابراہیم پر دو دو نوافل ادا کئے۔ مناسکِ عمرہ ادا کرکے قریباً ساڑے چار بجے، مسجدِ حرام سے نکلے۔ بال تِرچھوائے یعنی ’’قصر‘‘ کروائے جبکہ والدہ صاحبہ کے بالوں سے بھی تھوڑے سے بال، قینچی سے قصر کئیے۔
گھر آئے، غُسل کیا اور احرام کھول دیا۔ والدہ صاحبہ بہت زیادہ تھک چکی تھیں۔ لیکن یہ سب اُنکی اپنی خواہش و پروگرام کے مطابق ہی ہوا تھا۔
میں باہر سے کھانا لے آیا، کھجور، پھل، جوس، سب کچھ! لیکن آپ کی زبان پر، حسبِ عادت یہی بات تھی کہ مجھے بھوک نہیں! انتہائی کم کھانا، آپکی عادت رہی تھی۔ خربوزہ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے۔ اخلاقاً میں بھی کم کھا نے لگا۔ ہم اب ایک آدمی کا کھانا لیتے اور دونوں مِل بانٹ کر کھا لیتے۔ جبکہ میرا کام روز روز بڑھتا جا رہا تھا۔
خیر، اُسی روزشام کو، میں اکیلا اپنے بزرگ پیرِطریقت و والدِ گرامی، ڈاکٹر بشیراحمد صاحب مرحوم کی طرف سے عُمرہ کی ادائیگی کیلئے، مقامِ تنعیم کی طرف روانہ ہوا۔ اِس بار میرا دل بہت گداز تھا۔ ایسی حالت تو میرے اپنے عُمرے کے وقت بھی نہ تھی۔ خیرغُسل کیا۔ احرام و نیت باندھی۔ دو نفل نماز ادا کی۔ ذکرِ الٰہی و درود شریف، اُن دنوں خود بخود سانسوں میں رواں ہو جاتا ہے۔ واپس مسجدِ حرام پہنچا۔ نمازِ مغرب وعشاء ادا کیں۔ اور پھر عمرہ کی ادائیگی مکمل کی۔ دوسرا ’’قصر‘‘ کروایا یعنی، اِس بار سر پر مشین پھروائی۔ الحمدللہ! اللہ تعالیٰ والد صاحب مرحوم کے حق میں قبول فرمائے، آمین۔
گھر آیا، تیسری مرتبہ غُسل کیا۔ احرام دھویا۔ رات کا کھانا کھایا اور سو رہے۔
مورخہ 14 اگست بروز جمعرات: میں اور والدہ صاحبہ تیار ہوکر ناشتے کیلئے گئے۔ آج ہم نے حلوہ پوری اور لسّی کا ناشتہ کیا۔ واپسی پر، ہوٹل سے ویل چئیر لی اورمقامِ تنعیم کیلئے روانہ ہوگئے۔ آج میرا تیسرا عمرہ، اپنے تایا جان چوہدری محمد عبداللہ صاحب اور والدہ صاحبہ کا دوسرا عمرہ، ہماری تائی صاحبہ اور اُنکی بڑی ہمشیرہ محترمہ رابعہ بی بی کی نیت سے تھا۔ نمازِ ظہرین، مسجدِ حرام میں ادا کرنے کے بعد عُمرہ کی ادائیگی کی توفیق پائی۔
اِس بار والدہ محترمہ نے طواف اور سعی، ویل چئیر پر ہی مکمل کئے۔
آج، زم زم کے کنویں کے پاس لگی ٹونٹیوں پر، بہت سی خواتین، بڑی مشکل سےچھوٹے چھوٹے گلاسوں کی مدد سے، نہ صرف اپنے ساتھ لائے ہوئے کفن کی چادروں بلکہ اپنے آپ کوبھی بھگو رہی تھیں۔ اُنکے ساتھ آئے محرم مرد حضرات بھی، اِسی کارگزاری میں مصروف تھے۔ ایشائی مرد حضرات پر مشتمل انتظامیہ، اُنکوایسا کرنے کرنے سے روک رہی تھی لیکن کوئی اُنکی بات ماننے کو تیار نہ تھا۔
ہماری والدہ گرامی بھی، اپنے غیراحمدی رشتہ دار اور محلے دار خواتین دوستوں کے، زیرِ اثر، اپنا اور اپنی ہمشیرہ کے کفن کی دو دو چادریں ساتھ لائی ہوئی تھیں۔ میں اِس معاملے سے بالکل لا تعلق تھا۔ یعنی میری نظر میں، نہ یہ کام غلط تھا اور نہ صحیح! لہذا، ہم بھی اِس ’’مُشقتِ لایعنی‘‘ میں شریک ہو گئے۔
ایک سفید لیکن چھوٹی ریش کے حامل، اُڈھیرعُمر، دُبلے پتلے، لامبےقد کے بزرگ، ہمارے تایا جان مرحوم میاں نُور محمد صاحب کے ہم شکل، ہمارے پاس آئے اوروہابی وسعودی حکومت کی ہدایات کو یوں بیان کرنے لگے:
’’ یہ آپ لوگ کیا کررہے ہیں؟ یہ شرک ہے۔ آبِ زم زم نہ عذاب سے بچا سکتا ہے اورنہ جنت میں لے جاسکتا ہے۔ جس پانی کی تکریم ہونی چاہئے آپ اُسے زمین پر گرا رہے ہیں‘‘۔ صرف اِس قدر سُننا تھا کہ میرے ہاتھ رُک گئے۔ پہلی مرتبہ سُننے پروالدہ محترمہ پر کوئی خاص اثر نہ ہوا۔ وہ بطور ایک عورت بولیں: سارے ہی کرتے ہیں۔ آپا باؔنو، پرؔوین، طاؔہرہ، نگینؔہ، وغیرہ وغیرہ۔ دوسری مرتبہ، یہی بات جب میں نے دُہرائی۔ کہ بزرگ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ اُس وقت تک چادریں نصف کے قریب ہی بھگوئی گئی تھیں، آپ نے بھی اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔ میں اپنے اِس عمل پر بہت شرمندگی محسوس کررہا تھا۔ لہذا، ہم فوراً ہی اُس جگہ سے دُور ہٹ گئے۔
میں دوبارہ، اُس بزرگ کے پاس گیا اورمعذرت کی۔ اور اُن سے مکّہ شریف کے دیگر مقدس مقامات کی زیارتوں کیلئے کسی معتبرڈرائیور کے بارہ میں دریافت کیا، توکہنے لگے کہ کل میری چھٹی ہے۔ ہم کل صبح 10 بجے چلیں گے اور جمعہ کی نماز تک واپس آجائیں گے، انشاءاللہ!
خیر، ہم مسجدِ حرام سے باہر نکلے۔ اس بارمیں نے ’’حلاقّہ‘‘ کروایا یعنی سر منڈوایا اور والدہ محترمہ نے کچھ مزید بال تِرچھوائے۔
گھر آئے، غُسل کیا اور احرام کھول دیا۔ شام کا کھانا کھایا۔ والدہ صاحبہ گزشتہ روز کی طرح ہوٹل پر ہی رہیں۔ اور میں اپنے دادا جان، میاں فضل دین صاحب مرحوم کیطرف سے عمرہ ادا کرنے کیلئے، ایک بار پھر، مقام ِ تنعیم کیلئے روانہ ہوگیا۔
مناسکِ عمرہ ادا کرنے کے بعد، جب میں دوسرا حلاقہ کروا رہا تھا تومیرے سرپر کافی زخم آرہے تھے اور خون بہہ رہا تھا۔ اصل میں، حج وعمرہ زائرین کی کثرت سے ’’قصروحلاقّہ‘‘ کروانے کی وجہ سے، حجام لوگ کافی مصروف ہوتے ہیں۔ نیز پاکستان اور دیگر ممالک سے آئے ہوئے، نا تجربہ لوگ بھی ، اپنی دیہاڑی لگانے کے چکر میں، انتہائی تیزی اور ’’بے مروتی‘‘ سے یہ کام کرتے ہیں۔ 10 ریال، 10 ریال کی آوزیں لگاتے، جہاں دیکھا ’’سَرمونڈھ‘‘ دیا، والی بات تھی۔ خون روکنے کیلئے، موصوف، سر پر پھٹکری کی ’’گاچی‘‘ یا ٹِکّی پھیر رہےتھے۔
علاوہ ازیں، بابا جی نے یہ بھی بتایا تھا کہ اصل میں تو عُمرہ یا حجّ توفقط اپنا ہی ہوتا ہے۔ چلو ایک ادھ کسی فوت شُدگان یا بے بس لوگوں کی طرف سے بھی کر لیا جائےتو ٹھیک ہے۔ باقیوں کیلئے تو، طوافِ کعبہ ہی کافی ہوتا ہے۔ اِسی طواف کے دوران، اُن کیلئے خوب دُعائیں کرلو! ویسے بھی، اب 4 مکمل عُمرہ جات کرنے یعنی، مقام ِ تنعیم جا کر احرام باندھنا، سعی کرنا اور حلاقّہ کروانے کے بعد، نہ تو زیادہ وقت میسر تھا اور نہ ہی طاقت!
مورخہ 15 اگست بروزجمعۃالمبارک: صبح نمازِ فجر، مسجدِ الحرام میں ہی ادا کرنے کے بعد، ہم نے درج ذیل طوافِ کعبہ برائے ایصالِ ثواب، ادا کئے:
میں نے اپنے نانا جان، میاں مولا بخش صاحب مرحوم کی طرف سے اور والدہ محترمہ نے میری نانی جان محترمہ بھاگ بھری صاحبہ مرحومہ کی طرف سے مکمل کیا۔ اور دو دو نوافل، مقامِ ابراہیم پر ادا کئے۔
دوسرا طواف، میں نے اپنے مُحسن بزرگ، میاں محمد مُراد صاحب مرحوم کی طرف سے اور والدہ محترمہ نے میری دادی جان محترمہ اللہ جوائی صاحبہ مرحومہ کے ایصالِ ثواب کی خاطرمکمل کیا۔ اوردو دو نوافل، مقامِ ابراہیم پر ادا کئے۔
تیسرا جوڑا طوافِ کعبہ کا، میں نے اپنے تایا جان، میاں نور محمد صاحب مرحوم کی طرف سے اور والدہ محترمہ نے میری تائی جان اور اپنی بڑی ہمشیرہ محترمہ ہاجرہ بی بی صاحبہ مرحومہ کی طرف سے مکمل کیا۔ دو دو نوافل، مقامِ ابراہیم پر ادا کئے اور دُعائیں کیں۔
وقت بھی کافی ہوررہا تھا اور بھوک بھی لگ گئی تھی۔ واپس آکر، پہلے ہوٹل سے ناشتہ کیا اورپھر اپنے کمرے میں آگئے۔ گو مکہّ شریف کی گرمی، پاکستان کی نسبت بہت کم تکلیف دہ تھی۔
میرے پاس، شلوار قمیض کے دو ہی جوڑے تھے۔ روزانہ رات کو، ایک دھوکر، کمرے کے باہر بالکونی میں ڈال دیتے اور صبح بغیر استری کئے پہن لیتے۔ تیار ہوکر، نیچے آئے اور محترم بابا جی کی پُرانی سفید، ٹویوٹا کرونا میں سوار ہو کر سب سے پہلے، غارِ حرا کے پاس پہنچے
غارِ حِرا:
مکّہ سے قریب واقع ایک پہاڑ، جبلِ نور میں واقع ایک غار، جہاں آقاومولا حضرت محمد مصطفٰے ﷺ پر، پہلی وحی نازل ہوئی تھی۔ سڑک سے پہلے ساٹھ، ستر فٹ نیچے جا نا پڑتا ہے، پھرجبلِ نور کی چڑھائی شروع ہوتی ہے۔
والدہ صاحبہ کیلئے تو یہ سفرممکن ہی نہ تھا۔ میں نے بھی وقت کا احساس کرتے ہوئے، فقط دُعا اور دُور سے زیارت کو ہی غنیمت جانا۔
مِنیٰ:
اگلی منزل مِنیٰ تھی۔ مکّہ سے بجانبِ مشرق، تین میل کے فاصلے پرایک وسیع وعریض میدان ہے۔ دُور سے ہی، ہزارہا، چھتری نما گول، سفید، مستقل خیمے ایستادہ تھے۔ یہ منظردیکھنا، بہت ہی بھلا لگتا ہے۔ اِتنے ہی مزید خیمے، ایّامِ حجّ کے دوران اور لگا دئیے جاتے ہیں۔
مکّہ میں پہلے طواف کے بعد، حجاج، 8 ذُوالحجہ کو مکّہ سے مِنیٰ آجاتے ہیں۔ رات یہاں قیام کرنے بعد، اگلے روز یعنی 9 ذُوالحجہ کو مقامِ عرفات چلے جاتے ہیں۔ وقوفِ عرفات کے بعد واپس آکر، یہیں یعنی مِنیٰ میں، 10 سے 13 ذُوالحجہ کے دوران ’’رَمی الجمار‘‘ یعنی تینوں شیطانوں کو کنکریاں ماری جاتی ہیں اورسنتِ ابراہیمیؑ کی اتباع میں، قربانی بھی یہیں کی جاتی ہے۔
ہم نے یہ سارا نظارہ، گاڑی میں ہی کیا اور چلتے چلتے مقامِ عرفات پہنچ گئے۔
مقامِ عرفات:
مکّہ سے شمال مشرق کی طرف قریباً 9 میل کے فاصلے پر، یہ وہ عظیم الشان میدان ہے جہاں 9 ذُوالحجہ کو تمام حجاج اکرام، نمازِ ظہر سے پہلے جمع ہوتے ہیں اور مسجدِ نمرہ، جو بہت بڑی اور خوبصورت مسجد ہے، سے امام خطبہ حج پڑھتا ہے۔ پھرظہروعصرکی نمازیں قصروجمع کرکے ادا کی جاتی ہیں۔ غروبِ آفتاب تک یہاں ٹہرنا لازم ہے۔ اِسے ’’وقوفِ عرفات‘‘ کہا جاتا ہے اور حج کا رُکنِ اعظم سمجھا جاتا ہے۔
ہم نے یہاں اُتر کر اللہ تعالیٰ کا ذکر وشُکر ادا کیا۔
مُزدلفہ:
9 ذُوالحجہ کو غروبِ آفتاب کے بعد حجاج کرام عرفات سے مزدلفہ آکر عشاء کے وقت میں مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی قصروجمع ادا کرتے ہیں۔ کُھلے آسماں تلے رات بسر کرتے ہیں اور نماز فجر کے بعد قبلہ رخ کھڑے ہوکر دعائیں کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے::
فَاِذَا اَفَضْتُمْ مِنْ عَرَفَاتٍ فَاذْکُرُوااللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ ۔ البقرۃ 199
’’جب تم عرفات سے واپس ہوکر مزدلفہ آؤ تو یہاں مشعر حرام کے پاس اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔‘‘
مشعرالحرام ایک چھوٹی سے پہاڑی ہے اوراس جگہ ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے جس کو مسجد مشعر حرام کہتے ہیں۔ چونکہ ذکر اور دُعا کا حکم، خود خدا تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے۔ لہذا، خشوع وخضوع سے دُعا کی توفیق پائی، الحمد للہ ! مُزدلفہ، مِنٰی اور عرفات کے قریباً درمیان میں پڑتا ہے۔
اِن ایمان افروز زیارات کے بعد، ہم مکّہ واپس آگئے۔ تمام سفر 50 میل کے لگ بھگ رہا ہوگا اوروقت 3 گھنٹوں سے بھی کم صرف ہوا تھا۔ غالباً 150 ریال دئے تھے۔ لیکن بزرگ نے کوئی بات نہ کی تھی۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ۔ ہوٹل آئے، کھانا وغیرہ کھا کر دوبارہ حرم شریف گئے۔ نمازِ ظہر وعصر ادا کیں۔ اور شام کو درج ذیل طوافِ کعبہ ادا کئے۔
عزیزم وسیم احمد کی طرف سے میں نے اوربھابھی زاہدہ وسیم کی طرف سےمحترمہ والدہ صاحب نے!
عزیزم ندیم احمد اور صدف ندیم کی طرف سے طواف کرنے اور نمازِ مغرب و عشاء کے بعد، ہم لوگ واپس پلٹے۔
کھانا کھایا اور تھوڑی دیر کمرے میں آرام کیا، کمر سیدھی کی۔ ہم دونوں کو سوائے رات کے سِوا، سونے کی عادت ہی نہیں۔ آج ہمارا شب بیداری کا ارادہ تھا۔ لہذا، نصف شب کے قریب، ایک بار پھر، کعبہ شریف حاضر ہوگئے۔ چند نوافل ادا کرنے کے بعد، میں نے اپنی اہلیہ صائمہ، والدہ مرحومہ شیخ لطیف احمد صاحب اور والدہ مرحومہ آصف اقبال بسراء کی طرف سے طواف کی توفیق پائی۔
نمازِ تہجد و فجر ادا کرنے کے بعد، ہم واپس کمرے میں آئے اور گھوڑے بیچ کرسو رہے۔
مورخہ 16 اگست بروز ہفتہ: مسلسل ریاضت اور آمدوفت کی وجہ سے جسم تھکاوٹ سے چُور ہو رہے تھے۔ لہذا، دوپہر تلک سوتے رہے۔ غُسل کیا اورتیار ہوکر، آج بڑے اہتمام سے کھانا کھانے کا پروگرام تھا۔ سری پائے اور نان سے اپنی تواضع کی۔ کیا اورکیسے کھائے؟ میں نے شوربے سے نان اور امّی جان نے، ضیاع سے بچانے کیلئے، بوٹیاں کھا لیں۔ تازہ نان اور شوربہ امّی جان کوبھی بہت بھایا اوریُوں ہم دونوں نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔ ساتھ ٹھنڈی، ٹھنڈی کھیراوراُسکے بعد گرما گرم چائے بھی!
یہاں سے فارغ ہوکر، سیدھے حرم شریف پہنچے۔ نمازیں ادا کیں اور بعد میں درج ذیل طوافِ کعبہ اور مقامِ ابراہیمؑ پر دو دو نوافل برائے ایصالِ ثواب ادا کئے:
بھائی جان ناصر احمد و باجی شمیم اخترصاحبہ
بھائی جان طارق احمد و باجی طاہرہ پروین صاحبہ
میاں محمود احمد و آپی مبارکہ بیگم صاحبہ
نماز مغرب وعشاء ادا کرنے کے بعد، الوداعی سلام ودرود پڑہتے ہوئے، ہم حرم شریف سے، اُداس دِل واپس ہوٹل آئے۔ صبح 9/ 10 بجے، ہماری مدنیہ منورۃ کیلئے روانگی تھی۔