لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالعلی ملک صاحب مرحوم  (ہلالِ جرات)

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عبدالعلی ملک صاحب مرحوم  (ہلالِ جرات)
بحوالہ سید اعجازاحمد شاہ صاحب مرحوم، انسپکٹر بیت المال

جماعت احمدیہ حافظ آباد ، تجنید  کے لحاظ سے ، ماشاءاللہ ایک بڑی اورفعال  جماعت تھی ۔کل ملا کر 400 سے زائد میمبران پر مشتمل تجنید تھی ۔1974 ءکے بعد سے ، مربیان کی تقرری باقاعدہ تھی ۔ جبکہ مولوی غلام احمد صاحب مرحوم  (مولوی فاضل )، ایک عرصہ سے امام الصلوۃ اور سیکرٹری مال کے فرائض ، بڑی تندہی سے انجام دیتے چلے آرہے تھے۔

آپ سیاہ اچکن ، سنہری  کُلّے والی سفید پگڑی ، بڑی داڑھی ، سیاہ وسفید چشمے ،ایک  ہاتھ میں سفید تھیلا اور دوسرے میں  چھڑی  لئے اور احمدیت کی پہچان بنے ، پورے شہر میں گھومتے پھرتے رہتے۔ اور ہرجگہ سوال و جواب  کی محافل سجائے رکھتے۔ بڑے نیک ، متقی،  جماعت میں موجود، ہلکی پھلکی دھڑے بندیوں سے پاک اور متحرک وجود تھے۔

شہر میں ، احمدیت کی دوسری  بڑی اور نڈّر پہچان ، سید ا عجاز احمد شاہ ؔصاحب، انسپکٹربیت المال  مرکزیہ تھے۔ بچپن میں ، ہم آپکو  شہیدِ ملت ، لیاقت علی خان کہتے تھے۔ اُسکی وجہ ، آپ  کی  اُن سے کمال  درجہ مشابہت تھی ۔درمیانہ قد، صحتمند اور گول مول جسم،   گول شیشوں والی عینک ، جناح کیپ اور اچکن ! حافظ آباد میں ،احمدیت  کے اظہار اور تبلیغ کیلئے ،  آپ اور آپ کے گھر والوں سے نڈر،  بے خوف اور بہادر، گھرانہ میں نے آج تک نہیں دیکھا۔

شہر میں سیاسی اور سماجی طور پر کئی  بڑے  احمدی خانوادے  موجود تھے ، جیسے چوہدری ہارون الرشید تھیم صاحب، ملک برکت علی صاحب ،  اور ہمارا اپنا وسیع  خاندان ، جن کے بارہ میں ، لوگوں کو نسلوں سے معلوم تھا  کہ یہ احمدی ہیں ۔لیکن کو ئی بھی ، اپنے مذہب کے اظہار کے لئے پہل نہ کرتا تھا۔  ہمارے جیسے کئی دیگر لوگوں کی شائد یہی خواہش ہوتی  تھی کہ  ’’ خیر‘‘ اِسی میں ہے کہ کسی کو  خود نہ بتایا جائے، البتہ اگر کوئی   پوچھ لے تو چھپایا بھی نہ جائے!

محترم  شاہ صاحب خود، غریب ملک کے باسی اور ایک غریب جماعت کے فرد اور اُوپر سے ’’واقفِ زندگی‘‘  بھی تھے ۔واقف زندگی کا گزارہ الاونس ، نہ آج  کسی کی ساری ضروریات پوری  کرسکتا ہے اور نہ اُس وقت کر سکتا تھا ، سوائے اِس کے کہ اللہ تعالیٰ اُسکی ضروریات ،  اپنے فضل وکرم سےخود  پوری نہ کردے۔

آپ مہینے کا تین چوتھائی  حصہ ، اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے شہر سے باہر رہتے۔ آپکی اہلیہ محترمہ سعیدہ  بیگم صاحبہ ، بڑی خوش مزاج،ہر ایک سے  خندہ پیشانی   سے پیش آنیوالی اور انتہائی   خوداعتماد  خاتون تھیں۔ علامہ اقبال   کے ’’فلسفہ خودی ‘‘ کی ایک جیتی جاگتی  مورت!   اپنے وسیع عیال  کی دیکھ بھال کرتیں ۔ آپ کے ماشاءاللہ  4 بیٹے اور 3 بیٹیاں تھیں ۔شہر کی شرپسند ، کشمیری آبادی کےمحلے میں آپکا گھر تھا، جن کے آوارہ لڑکوں نے ہمارے ناک میں دم کررکھا تھا، لیکن شاہ صاحب کے لڑکوں کے ساتھ ، اُنکا بڑا یارانہ تھا۔ اِسکے باوجو د شاہ صاحب کے لڑکے ، نمازوں ، اجلاسوں  اور جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوتے۔ اِس کا ساراکریڈٹ اُنکی والدہ محترمہ کو جاتا تھا۔

مالی تنگ دستی  کے سوال کو دوبارہ چھیڑنا، جہالت کی بات ہو گی۔ لیکن اُنکے گھر کی صفائی ، ستھرائی  اور سلیقہ  شعاری کو  دیکھ کر ، کسی  کا دھیان ہی اِس طرف نہ جاتا تھا۔ یہ وصف اور ہنر بھی ہماری آنٹی سعیدہ صاحبہ نےہی،  اپنی اولاد کو سکھایا تھا ۔ بچے زیادہ تعلیم تو حاصل نہ کرسکے لیکن  جو کام بھی ملا ، اُسے کرنے میں کبھی  عار محسوس نہ کرتے۔

جن ایام میں ، شاہ صاحب مرحوم  گھر (یا شہر)میں ہوتے، ہماری جماعت میں رونق آجاتی ۔نمازوں کے بعد ، سوال وجواب کی محافل سج جاتیں۔ اسلامی  و جماعتی تاریخ  اور بزرگوں کے  علمی وتاریخی اورسبق آموزواقعات ، بڑے دلچسپ انداز سے سناتے۔ دیگر بزرگان کی نسبت ، آپکے جوابات  لوگوں کو اس لئے زیادہ بھاتے اور یاد رہتے کیونکہ آپ  ہرپوچھے گئے  سوال  یا اعتراض کے علمی جواب کیساتھ ساتھ ، ایک ادھ  برمحل لطیفہ اور ’’الزامی‘‘ جواب بھی بتاتے،  جسکو سننے کے بعد، ہمارے پنجابی اور ڈیٹھ صفت لوگوں  کی صحیح طرح تسلی ہوجا تی اورہرایک   کو مسکت جواب بھی  مل جاتا تھا ۔

بڑی بیٹی ۔۔۔جنکو ہم سب باجی ’’ بے بی‘‘  بلاتے تھے، نے ٹیچنگ  کا کورس کرنے کے بعد ، قریبی گاوں میں  ملازمت اختیار کرلی تھی جبکہ بڑے بیٹے سید خالد احمد شاہ صاحب نے ’’سیّد آپٹیکس  ‘‘کے نام سے اپنے دوست   (قاضی مقبول صاحب کے بیٹوں  ) کی ایک دوکان کرائے پر لیکر، کام شروع کردیا۔

لیکن منجھلا  بیٹا،  سیداقبال احمد،  نوجوانی میں ، مسلسل  کفایت شعاری اور ’’غربت ‘‘کے خلاف باغی ہو گیا تھا۔ اُسکی شکائیات بھی گھروالوں تک پہنچتی تھیں۔ پٹائی بھی ہوتی تھی ۔ اِسکے  باوجود، وہ  اپنے والدین اور بہن بھائیوں سے بہت پیارو محبت رکھتا تھا اور اُنکی مدد کرنا چاہتا تھا  لیکن  ’’ہتھیلی پر سرسوں  جمانے کیطرح ‘‘،  جلدی میں!

اُسکی  اِسی  بے تابی کیوجہ سے،  خاندان نے کچھ عرصہ تنگی میں بھی گزارا اور پھر  ایکد ن  وہ اچانک شہر سے غائب ہو گیا۔ پتہ چلا کہ وہ اپنے ماموں کے پاس  روالپنڈی چلا گیا ہے جنکا وہاں لوہےکا   کا روبار  تھا۔ پھروہ اُس دن تک  واپس نہیں آیا،  جبتک کہ وہ اِس  قابل نہ ہوگیا کہ اپنے والدین کو، احترام کیساتھ ،  اپنے ساتھ اسلام آباد  لے جائے۔ سالہا سال بعد، میری اُس سے ملاقات 1989 ء میں ہوئی ۔ سیّد سینٹری سٹور، پشاور موڑ ، اسلام آباد میں،  اسکی دوکان پر! اس نے میلوڈی چوک ، آبپارہ  میں ، ایک خوبصورت گھر کرائے پر لے رکھا تھا ، جہاں وہ اپنے  والدین کی خدمت کیا کرتا تھا۔  حافظ آباد کے احمدی لوگوں سے ، نا لائق اور نِکمّا ہونے کی   باتیں  سننے والا، امیرجماعت اسلام آباد چوہدری علیم الدین صاحب( ریٹائرڈ  ڈپٹی سیکرٹری فنانس ، فیڈرل گورنمنٹ ) کا دست ِراست بنا ہو ا تھا۔

چوہدری صاحب جماعتی میٹنگز کیلئے اکثر اوقات ربوہ آتے جاتے ، حافظ آباد  پیلی کوٹھی  پر آرام کیلئے  رُکتے۔سفر  چونکہ بہت لمبا تھا  اور بزریعہ جی۔ٹی روڈ ہی ممکن تھا۔ موٹر وے تو ابھی  بنی  نہیں تھی۔ چوہدری صاحب نے  ایک دو دفعہ یہاں  رات کو قیام بھی کیا۔ جبکہ اقبال صاحب،  اپنی ہمشیرہ  کے یہاں رات بسر کرتے۔ اِس وجہ سے ، بھائی جان ناصر احمد کی ، چوہدری صاحب سے اچھی دوستی ہو گئی تھی۔

حافظ آباد سے آنیوالے، ہر احمدی و غیر احمد ی کے اسلام آباد میں، ہر طرح کا ، جائزو ناجائز،  کام  کروانے کیلئے اپنی دوکان اور کاروبار چھوڑ کر، اِس طرح بھاگتا ، جیسے چند برس قبل،  وہ جلدی سے اپنی زندگی بنانا چاہتا تھا۔اِن سب کی رہائش اور کھانا،  سب کچھ اِسکی ذمہ داری ہوتا۔اپنی گاڑی اور ٹیلی فون اِس طرح استعمال کرتا جیسے ہم حافظ آباد میں سائیکل اور ’’انٹرکام ‘‘ ٹیلی فون  استعمال کرتے تھے۔  اُسکی دوکان ، ایک کامیاب  ٹریول ایجنسی سے کم نہ تھی ۔ جہاں ہر وقت، ویزے لگوانے والوں کا تانتا بندھا رہتا! بہت سوں کی مرادیں ، اِس سے پوری ہوئیں۔ سیّد اقبال شاہ  کا نام، اپنے والد کی شہرت و عزت کو مزید بڑھارہا تھا۔

انسان کمزور ہے ۔ اِس میں خامیاں  اور کمزوریاں بھی ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے۔غلطیاں اور  گناہ  معاف فرمادے، آمین۔ ہمیشہ سترپوشی اور مغفرت فرماتا رہے، آمین۔

میں ،محموداور بھائی جان ناصر احمد ،  کئی مرتبہ اُسکے مہمان بنے۔ اُسکے گھر میں ، ہمیں حقیقی طور، پر اپنے گھر کا سا  ماحول ملا۔ آنٹی سعیدہ مرحومہ اور اُنکے بچے ، ہمیں اپنے بھایئوں کیطرح رکھتے۔ ایک دفعہ میں اپنی والدہ کیساتھ اور آخری  مرتبہ اپنے تایا جان مرحوم کیساتھ، اسلام آباد  گیا۔ دونوں مرتبہ ، وہ اور اُسکے بہن بھائی ، میری والدہ  کو مامی،  مامی اور تایا جان مرحوم کو  ماموں، ماموں کہتے  نہ تھکتے تھے ۔ اور اِسی رشتے سے اپنے عزیزو اقارب سے  متعارف کرواتے تھے۔امی جان کو اور مجھے،  اپنی والدہ کے ساتھ ،اپنی گاڑی پر ،  پورے اسلام آباد کی سیر بھی کروائی۔

1989 ءمیں اور تایا جان مرحوم  ، آنٹی سعیدہ کی سب سب چھوٹی بیٹی نوشؔی کی شادی میں شرکت کیلئے گئے تھے۔شادی کا انتظام مشہور زمانہ ، فائیوسٹار، میریٹ ہوٹل میں کیا گیا  تھا۔ ہم  حسبِ دستور،  رات والی ٹرین  کے زریعے صبح  روالپنڈی پہنچے تھے ۔ ریلوے سٹیشن کے باہر ، گرم حماموں  میں ہمیشہ سے ہی ہماری تیاری  کا سارا انتظام  موجود ہوتا تھا۔ ہم شیو وغیرہ کروا کراور نہا  دھو کر، جتنی دیر میں فارغ ہوتے تھے، باہر سے کپڑے استری ہوکر آجاتے تھے۔ساری رات، بغیر سوئے، سفر سے تھکے ماندے، گرم پانی سے نہا کر ، تازہ دم ہوجاتے اور نئے کپڑے پہن کر فریش  اپ ہو جاتے تھے۔ بہترین کام  اور مناسب دام !

اُنکے گھر پہنچے ، بہت آو بھگت ہوئی۔ بہترین ناشتے کا انتظام تھا۔ وہاں سے ہوٹل آئے۔  اقبال بھائی ،  خود مجھے اور تایا جان کو ہوٹل کے کمرے میں لیکر آئے اور کہا کہ تھوڑی دیر آرام کرلیں ! اتنا خوبصورت ، خوشبودار اور بڑا کمرہ  !  سبحان اللہ ! جنت کا ٹکڑا لگتا تھا۔ نہ اِس سے پہلے کبھی ایسا خوبصورت اور سجا ہو اکمرہ  دیکھا تھا  اور نہ ابتک ہی  دیکھا ہے! کتنےہی  مہمان آئے ہوئے تھے۔ رشتے دار اور دوست احباب ! ایسے عالیشان  ہوٹل کا کمرہ تو ہمیشہ سے ہی  مہنگا بُک ہوتا  ہے۔ ایک یا دو کمرے ہی لئے ہونگے ، کیونکہ اُنکا گھربھی  ہوٹل کے پاس ہی تھا۔ جہاں اکثر رشتہ دار ٹہرے ہو ئے تھے۔ پھرہمیں ہی  یہ آفر کیوں دی گئی تھی؟

محض للہّی محبت  کی خاطر، جو اِن لوگوں کو ہم سے تھی۔ احمدی بھائی چارے کے نتیجہ میں ،   جتنا کچھ  حسنِ سلوک ہمارے والدین  یا ہم لوگوں نے اِن سے، حافظ آباد میں کیا ہو گا، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے ۔میری نظر میں ،  اُس کا حساب کتاب تو  میں اور محمود نے ہی، اسلام آباد جا جا کر برابر کر دیا ہو گا۔ اصل میں تو  ، یہ احسان تھا ، جو نیکی سے بھی ایک درجہ بلند  ہے۔ اللہ تعالیٰ   اِن سب کو  ، اِس حسنِ سلوک کی بہترین جزاء عطافرمائے اور اِنکی نسلوں میں بھی اِن ثمرات کو منتقل کرتا چلا جائے۔ آمین۔

تھوڑی دیر، اس انتہائی آرام دہ  اور خوبصورت کمرے میں ، مستقبل کےحسین لیکن ادھورے خواب لئے  (کیونکہ ، جاگتی آنکھوں کے خواب کیسے پورے ہوسکتے ہیں ؟)   ہم نیچے ہال میں آگئے ، جہاں مہمان آنا شروع ہو گئے تھے۔ احمدی  مہمانوں کے علاوہ ، حافظ آباد سمیت  بہت سے غیر احمدی مہمان بھی مدوعو تھے۔ ایک بہت ہی خوبصورت اور با وقار اور بارعب  بزرگ ،  سٹیج کے بالکل سامنے تشریف فرما تھے۔ میری نظر اُن پر پڑی تو  پھر ہٹی نہیں ! میں نے اقبال بھائی سے پو چھا کہ یہ حضرت کون ہیں؟

وہ  حسبِ عادت ، اپنی  تیز اور چہکتی ہو ئی آواز میں بولے! جنرل ملک !  میں نے پو چھا کون جنرل ملک ؟ بولے اپنے احمدی جنرل عبدالعلی ملک صاحب ! میں ابھی  ایف ۔ایس ۔ سی امتحان سے فارغ ہو ا تھا یا تھرڈ ائیر میں تھا۔ مجھے کیا پتا کہ کوئی احمدی جنرل بھی ہوتے ہیں!  اِسکے ساتھ ہی،  مجھے  بازو سے پکڑا اور اُنکے پاس لے گئے اور پنجابی میں  کہا جنرل صاحب !  یہ میرے ماموں ڈاکٹر بشیر احمد صاحب کا بیٹا ہے حافظ آباد سے آیا ہے۔ کہتا ہے کہ جنرل صاحب سے ملنا ہے!

جنرل صاحب ،   کمال محبت  اور ملا طفت سے ملے  اور نرم زبان سےیوں گویا ہوئے ، کہ  آپکی  ’’جرنیلی‘‘ ، ہم پر مشکوک ہو گئی !   آپکا  چہرہ پُر نور ،  ہاتھ رُوئی کے گالوں کیطرح  انتہائی نرم و ملائم اور سفید تھے ۔یہ  سب  میرے شک کو یقین میں بدل دیتے اگر اُس وقت،  آپ نے سوال وجواب نہ شروع کر دیئے ہوتے!  مثلاً پڑھتے ہیں ؟ کونسی کلاس میں ؟ کیا بننا چاہتے ہیں ؟  وغیرہ وغیرہ۔

اِس دوران ،   جو بھی  وہاں سے گزرتا  آپ سے مصافحہ کیئے بنا  نہ رہتا۔  شخصیت ہی ایسی تھی ۔ آپ کی عمر اس وقت   70/75  برس کے قریب تھی ۔ کوئی بیماری نہیں تھی ۔ قدرتی  بڑھاپا تھا  لہذا، آپ کرسی  پر بیٹھے بیٹھے ہی سب سے مصافحہ کرتے جا تے۔ انتہائی منکسرالمزاج اور کم گفتار وجود تھے  ۔ وہاں رنگا رنگ قسم  کے لوگ ، شوخ وچنچل حسینائیں بھی تھیں ۔لیکن میری توجہ جن دو لوگوں نے کھینچی تھی ، آپ اُن میں سے سرِ فہرست تھے۔

انٹر نیٹ  ابھی ایجاد نہ ہوا تھا ۔ اگر ہو بھی چکا تھا تو پاکستانیوں  کی دست بُرد سے، تاحال  محفوظ تھا۔ کتاب اور اخبار وغیرہ میں ایسے  نابغہ روز گار  لوگوں کے چھپنے پر پابندی تھی ۔ جنرل ضیاء کو مرے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے۔بے نظیر بھٹو صاحبہ کی حکومت بننے کے باوجود، ضیاءالحق کی باقیات ابھی دھن دھناتی پھر رہی تھیں۔جماعت کا  لٹریچر بھی ، 1984 ء کے آرڈیننس  کی پابندیوں کے بعد سے ، نا معلوم تہہ خانوں میں پڑا تھا۔ ہمیں کیسے پتا چلتا  جنرل صاحب اور ان کے بھائیوں کے بارہ میں!

یہ تو ہمارا ہی کمال ہے کہ ہم نے اُنکو بھلا یا نہیں اور انکے سارے ’’پیٹی بھائیوں‘‘  کا تعارف،  خود ہی  حاصل کرلیا ۔

لیفٹیننٹ جنرل(ریٹائرڈ)  عبدالعلی ملک صاحب 1920 ء میں پنڈوری  ضلع راولپنڈی میں ملک غلام نبی صاحب مرحوم  کے ہاں پیدا ہوئے۔ ( اس چھوٹے سے گاؤں  نے ، ان دو  بھائیوں سمیت،  پاک فوج کو 6 جنرل دیئے تھے )18  برس کی عمر میں برٹش انڈین آرمی   میں کمیشن لیا۔ ملٹری اکیڈمی  میں  فوجی ٹریننگ کیساتھ ساتھ  ،  بی ۔ایس ۔سی  انجینئرنگ  کی ڈگری لی۔1965 ء کی جنگ کے دوران،  آپ بریگیڈیئر تھے اور چونڈہ کے محاذ پر کمانڈ کر رہے  تھے۔ جہاں پر ، جنگ عظیم دوم کے بعد، ٹینکوں کی سب سے بڑی اور تاریخی   جنگ لڑی گئی۔

اِسی جنگ کے دوران ، آپکے بڑے بھائی اور پاک فوج کے مشہورِ زمانہ جنگی منصوبوں ’’آپریشن جبرالٹر‘‘ اور’’ آپریشن گرینڈ سلام ‘‘  کے خالق ، لیفٹیننٹ جنرل اخترحسین  ملک صاحب(1917۔1969 ء)  بطور کمانڈر چھمب جوڑیاں سیکٹر،  بھارت سے برسرپیکار تھے۔ آپ  اپنے منصوبے کو کامیابی سے ہمکنارکرتے ہوئے، انڈین کشمیر کے اند ر مورچہ  زن تھے اور قریب تھا کہ سرینگر پر ، قبضہ ہو جاتا۔ جس سے  کشمیر کا  سلگتا اور دیرینہ  معاملہ حل ہو جا تا۔ صدرِ پاکستان اور  آرمی چیف ، فیلڈمارشل ، جنرل  محمد ایوب خان  نے اپنے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہوئے،  کوتاہ اندیشی سے ، اپنے  قریبی جنرل  یحیی ٰ خان کو، جسکو وہ اپنے بعد ، فوج کا سربراہ بنانا چاہتے تھے ، چھمب سیکٹر کی کمان سونپ دی۔ تاکہ وہ  سرینگر  فتح کر کے ، قوم کی نظروں میں  مقبول ہو جائے اورپاک فوج  کی کمان سنبھال لے جسکے بدلے میں ، بعدازاں ، ایوب خان کوتاحیات،   پاکستان  کی صدارت،  مل جائے۔

لیکن یہ سارا زبانی جمع خرچ  ، اُنکے پست ارادوں کیطرح مٹی میں مل گیا۔ نہ کشمیر ملا، نہ ایوب خان، صدرِمملکت ہی رہ سکا اور نہ ہی   اُسکا  چہیتا جنرل  یحیی ٰ خان،کبھی عوام کو قبول ہوسکا۔ لیکن اِس خود غرضی کا خمیازہ ، قوم آج تک بھگت رہی ہے۔

یہ میں اپنا  یا جماعت احمدیہ کا  موقف  بیان نہیں کررہا ۔ بلکہ  یہ بات  میں نے،  جنرل گُل حسن ، (جو یحییٰ   خان اور جنرل موسی ٰ خان کے بعد )، پاکستان آرمی کے سربراہ بنے  تھے ،  کی   خود نوشت،  ’’پاک فوج کا آخری کمانڈر انچیف ‘‘ میں  خود پڑھی ہے۔ ایسا ہی ایک  بیان ، کرنل رفیع الدین صاحب  کی کتاب ،’’بھٹو )مرحوم( کے آخری 323 دن‘‘  کے مؤلف نے وزیراعظم  زوالفقارعلی بھٹو کے حوالے سے بھی  تحریر کیا ہے۔ علاوہ ازیں، قدرت اللہ شہاب  کی مشہور زمانہ کتاب ’’شہاب نامہ ‘‘ اور مشہور مصنف ، ضیاء دور کے ڈائریکٹر جنرل ، آئی ۔ایس ۔پی آر، بریگیڈیئر  محمد صدیق سالکؔ  مرحوم نے بھی اپنی ایک سے زائد کتابوں میں ،اِس بارے میں ،  لکھا ہے۔  ہر ایک نے یہ  واقعہ بیان کرتے ہوئے، جنرل اختر حسین ملک کی بطور انسان اور جنرل بہت  تعریف کی ہے۔

عبدالعلی  ملک، 1965 ء کی جنگ میں بریگیڈئیر تھے اور چونڈہ کے محاذ پر سنیہ سپر تھے جب آپکو اپنے بڑے  بھائی جنرل اختر ملک  کی   چھمب جوڑیاں کے محاذ  پر شاندار کامیابیوں کے باوجود ، اچانک تبدیلی کی اطلاع ملی تھی ۔ فوج کے دوسرے خیرخواہ اور قابل افسران کی طرح  ، آپ بھی ، آرمی چیف کے  اس فیصلے سے بڑے رنجیدہ ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے اپنے فرض اور ڈیوٹی پر ، اِس دُکھ اور زیادتی  کا سایہ تک نہیں پڑنے دیا اور کامیابی سے دشمن کے ٹینکوں کی مدد سے کیے گئے ایک بڑے اور سخت حملے کو  ناکام بنادیا تھا۔

پاک فوج کی  اپنی دستاویز،  کتابوں اور رسالوں کے علاوہ ، بین الاقوامی  فوجی  جرائد میں بھی ، اِن دونوں بھائیوں کے کارناموں کو صراہا گیا ہے۔ جنرل اختر ملک صاحب کی لکھی کتب ، پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں اب بھی بطور نصاب شامل ہیں ۔

جنرل اخترحسین  ملک صاحب، بعد میں ، پاک فوج کے ایک اہم حصے ،’’ منگلا کور‘‘ میں بطور کمانڈر، خدمات  انجام دے رہے تھے ۔ 1969 ء   ترکی میں سیٹو (ساوتھ ایسٹ ایشین ٹریٹی  آرگنائزیشن )کے  ایک اہم اجلاس  میں شرکت کیلئے گئے ہو ئےتھے کہ  ایک حادثہ میں  اپنی اہلیہ  کے ہمراہ،  کار ایکسیڈنٹ میں شہید ہو گئے۔  ترکی اور بعدازاں پاکستان میں پورے فوجی اعزاز  کیساتھ ، آپکی  تجہیزوتکفین عمل میں لائی گئی ۔ حکومت پاکستان نے آپکو  ’’نشانِ حیدر‘‘ کے بعد،  دوسرے  بڑے فوجی اعزاز ’’ہلال جرات ‘‘ اور سول اعزاز ’’ستارہِ قائدِاعظم ‘‘ سے نوازا۔

جنرل عبدالعلی ملک  صاحب نے 1971 ء کی جنگ میں بطور میجر جنرل اپنی خدمات انجام دیں۔ اور1974 ء میں بطور لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ ہو گئے۔ اپنے بھائی کیطرح ہی دونوں اعزازات، ’’ہلال جرات‘‘ اور’’ ستارہ قائداعظم ‘‘ حاصل کئے۔ آپ چونکہ انجنیئرنگ کور سے تعلق رکھتے تھے۔ لہذا، منگلا ور تربیلا ڈیمز کی تعمیر میں بھی، قوم نے آپکی خدمات  سے فائدہ اٹھایا۔

آج بھی ، آپ،کسی ایک  بھائی سے متعلق  گوگل کریں ، تو دونوں بھائیوں کی  تصاویر اور کامیابیوں کی داستانیں،  آپ کے سامنے آجائیں گی۔اللہ تعالیٰ ، آپ دونوں  کے درجات بلند فرمائے اور  آپکے اہل خانہ اور نسلوں کو بھی ، آپکے نقش ِقدم پر چلتے ہوئے،  کامران و کامیاب فرمائے، آمین۔