بسم اللہ ا لرحمن الرحیم
ماسٹر حاجی غفور حسین صاحب مرحوم
غُربت میں اَمارت، کم یابی میں کامیابی، سادگی میں آسودگی ، خَلو ت میں جَلوت، خدمت میں عبادت، بچت میں خوشحالی اور صفائی سے (اِیمان کی حد تک) محبت، اور نہ جانے کیا، کیا سےعِبارت! ۔۔۔ایک خاندان!
1974ء کے خُوں آشوب اور نفرت انگیز، اینٹی احمدیہ فسادات کو گزرے، ابھی تین چار سال ہی ہوئے تھے کہ بفضل ِتعالیٰ، حالات ایسے نارمل ہوئے، کہ غیراحمدی تو شائد بھو ل ہی گئے تھے کہ احمدی’ کا فر‘ ہیں!
1977ء کی بات ہے میں اور محمود، ٹیویشن لینے کیلئے، اِنکے گھر پہلی مر تبہ داخل ہوئے۔ ماسٹر صاحب، ابو کے کولیگ رہے تھے اور بھا ئی بندی کا تعلق بھی تھا۔ جبکہ اِنکی اہلیہ، ابو کی بہن بنی ہوئی تھیں۔ اِنکے یہاں کو ئی نرینہ اولاد نہ تھی اور یہ لوگ مجھ سے بہت لاڈ اور پیارسے پیش آتے تھے۔ میرے کانوں سے یہ بات بھی گزری ہے کہ وہ چاہتے تھے کہ مجھے اپنَا لیں۔ بلا شبہ، گھرانہ اور ماحول بڑا دلکش تھا، لیکن معصوم دل، اِس خیال سے نہ جا نے کیوں گھبرایا سا رہتا، کہ کہیں یہ فیصلہ ہو ہی نہ جائے!
گھر میں داخلہ، ظاہر ہے مرکزی دروازہ سے ہی ہوتا تھا، جو ہماری اپنی روایات کے برعکس، ہمیشہ کُھلا رہتا تھا۔ اِسکے باوجود، اُنکی ڈیوڑھی، ہماری بیٹھک سے بھی زیادہ صاف رہتی۔ ڈیوڑھی سے آپ بیک وقت، اُنکی بیٹھک، صحن یا اوپر چھت کی طرف جا سکتے تھے، جس میں، اُس زمانہ میں بھی، جوتے اِس سلیقے سے رکھے جاتے، جیسے آجکل یورپ میں رکھے جاتے ہیں۔
ماسوائے بارش کے، ہم اکثر اوقات صحن میں ہی بیٹھتے، جس کا فرش سرخ انیٹوں سے بنا تھا اوراِسقدر صاف کہ ہر ایک کا آلتی پالتی مار کر، بیٹھ رہنے کو جی چاہتا۔۔۔ صحن کی اندرونی بدرَو (نالی) کا یہ عالم کہ کا غذ کی کشتی چلانے کو جی چاہتا۔ صحن کے ایک طرف میٹھے امرود کا ایک صحتمند درخت تھا جسکا پھل ہم ہرسال خوب مزے لے، لیکر کھاتےتھے۔ ساتھ ہی، بغیر چھت کے غسل خانہ۔ مشرق کی طرف، برلبِ گلی، بیٹھک تھی۔ کچن کا دروازہ ، صحن کے عین وسط میں، ہمیشہ کھلا رہتا اور مصروف عمل بھی۔ مغرب کی طرف ایک مرکزی کمرہ تھا جو اکثر اندھیرے میں ڈُوبا رہتا، اِس کے اندر، دو مزید چھوٹے کمرے تھے۔
ماسٹر صاحب، دراز قد، کشادہ سینہ، چھریرے بدن، گندمی رنگت اور چاندی بھرے بالوں کے مالک تھے۔ دیہاتی کم شہری تھے۔ ہاتھ اور پاوں بڑے، بڑے اور لمبے تھے۔ چہرے پر ہلکی، تراشی ہوئی موچھیں اور کشادہ دہن تھے۔ میونسپل پرائمری سکول میں پڑھاتے تھے۔ سکول اورگھر سے باہر، سخت گیر مشہور تھے۔ میں نے اُن سےپیار کے نام پر بڑی ما ر کھائی ہے۔ اُنکی اہلیہ، باجی نصرت، صاف رنگ، دبلی پتلی، چھوٹے قد کی، چست و چالاک خاتون، ماسٹر صاحب کے سامنے ، اُنکی بیٹی لگتی تھیں۔ وہ ’’ لاہورن‘‘ تھیں اور یہ فی ذاتہٖ ایک مکمل صفت ہے، جو ہم نے لاہور دیکھنے سے بہت پہلے، آپکی صورت میں دیکھ لی تھی! اِسکی مثال یوں لے لیں کہ وہ بغیرُ استانی ہوئے بھی، ہماری اُستانی صاحبہ تھیں!
ماسٹر صاحب کی ایک بہن کے علاوہ، جوتین، چار گھر پرے، اِسی گلی میں رہتی تھیں، اِنکا کو ئی اور رشتہ دار، یہاں شہر میں نہ رہتا تھا۔ جبکہ اُنکی بیوی کا توکوئی بھی نہیں! اس کے باوجود یہ لوگ، آپس میں ہی، اپنے گھر میں، جلوت کی زندگی گزارتے اور خوش رہتے۔آئے روز، ماسٹر صاحب کے سسرالی رشتے دار، یہاں مہمان ہوتے اور ہماری شناخت پریڈ ہوتی۔ تنخواہ معمولی، مگر ضرورت کی ہر چیز میسّر! صفائی ایسی کہ خدا کی پناہ! مکھی و مچھر کا گزر محال! سفید کپڑے، بے داغ چادریں و پردے، حتیٰ کہ روز مرہ کا سامان لانے والے تھیلے بھی، اجلے، سفید اور بِنا اِستری کئے، اِستری شدہ دِکھا ئی دیتے! سبحان اللہ ۔ ہر استعمال کے بعد، ماسٹر صاحب، اپنی سایئکل، کپڑے سے اورٹائ، جھاڑو مار کر صاف کرتے۔
جب کبھی ’اندھیرے‘ کمروں میں جانے کا اتفاق ہوا، روشنی ہونے پر، خوشی سے با چھیں کِھل جاتیں۔ پلنگ، بستر، پیٹیاں، ٹرنک اور ڈریسنگ ٹیبل، ہر چیز، صاف ستھری، خوبصورت، سلیقے سے رکھی اور سجی ہوئی ہوتی۔
ماسٹر صاھب کی تین صاحبزادیاں تھیں۔ بےبیؔ سب سے بڑی اور میری ایک اور استانی! ہر وقت رُعب جھاڑنے والی اور میری قابلیت کا ہر لمحہ امتحان کرنے والی۔ظاہر ہے مجھے کیوں اچھی لگتی؟ میرے ِچڑّ جانے پر، وہ مجھ سے محبت جتاتی۔ وہ یہ گمان رکھتی تھی کہ شاید پچھلے جنم میں، میں اُسکا بھائی رہ چکا ہوں! چنانچہ فوراً کھانے پینے کیلئے کو ئی چیز دے دیتی۔ چاکلیٹ کا تو نام بھی نہیں سُن رکھا تھا۔ یہی گچک، گُڑ، بُھنی ہوئی مکئی، چنے اور چاول کے دانے وغیرہ۔
ماسٹرصاحب کی دوسری سنتان، ’فافا‘ ، میری ہم عُمرتھی! ہر سوال، ’’جواب‘‘ اور مضمون میں میری مقابل! اک اور جَھک جَھک، بَک بَک!
تیسری، ہماری چھوٹی پیاری، ’ تلّو‘ تھی ۔ لاڈلی اور ننّھی گڑیا! ہم سب اُس سے یکساں پیار کرتے۔
ماسٹر صاحب، اُس زمانہ میں بھی،اپنی چھٹیوں کا صحیح اور بھر پور استعمال کرتے تھے۔ مُریدکے اور لاہور میں اُنکے عزیز اور سسرال تھے، وہاں جاتے، مری اور اسلام آ باد بھی جاتے۔ حضرت داتا گنج بخش ھجویری ؒکے مرید ین میں سے تھے۔ اُنکے عرس میں، کم از کم ، تین دن کیلیے ضرور شریک ہوتے، جو کہ لاہور والوں کیلئے ، اُس زمانہ میں ایک گونہ ’’فرض‘‘ کی حیثیت رکھتا تھا۔ واپسی پربہت سے تبرکات بھی سب کیلئے لاتے، مجھے بھی کئی تحفے ،خصوصی طور پر دیتے۔
1980ء میں،اللہ تعالیٰ کیطرف سے، آپ کو حجِّ بیت اللہ ادا کرنے کی توفیق عطا ہوئی۔ اُس زمانے میں، حج پر جانا بڑا، غیر معمولی اور مبارک واقعہ تھا۔ اسکول کے تمام اساتذہ، طالبعلم، سارا محلہ اور ہمارے گھر سے بھی اکثر لوگ اِس موقع پر، رُخصتی اور اجتماعی دعا کیلئے وہاں موجود تھے۔ عصر کا وقت تھا۔ شام کو ’شاہین ایکسپریس‘ سے کراچی روانگی تھی، آگے بحری جہاز سے، تقریباً دو ہفتوں کا خطرناک سفر تھا۔ اِسی طرح واپسی کا سفربھی! دراصل، ناکافی و نا مناسب سہولتوں کیوجہ سے، ہرسال، ہزار ہا عازمینِ حج ، دوران ِ سفر ہی، اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو جاتے تھے۔ اِسی لئے، سب رو رہے تھے کہ دوبارہ ملاقات ہوگی بھی کہ نہیں! ابو کے سگے ماموں، مہردین صاحب بھی، ماسٹر صاحب کے ساتھ ہی حج پر ہی جا رہے تھے۔ دونوں قافلے، ہماری پیلی کو ٹھی کے سامنے اکٹھے ہوے۔ اور پیدل ہی، اسٹیشن کیلئے روانہ ہوئے۔ اِن مبارک اورلمبے سفروں میں، ایک عرصہ ساتھ رہنے کی وجہ سے، عازمین کی آپس میں بہت گہری دوستیاں ہو جاتیں تھیں۔ یہی، اِن حضرات کیساتھ بھی ہوا اور یوں ہمارے رشتے مزید گہرے ہو گئے۔
اُس سال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور کرم سے، بہت سوں کے حج قبول کر لئے تھے۔ ماسٹر صاحب اور ہمارے ابو کے ماموں کا بھی، ماشاءاللہ۔ میرے پاس ثبوت ہیں! دونوں با خریت واپس آئے اور حاجی کہلائے۔ اللہ تعالیٰ نے ماسٹر صاحب کو نرینہ اولاد (محمدعمران سلمہ تعالی ) سے نوازا ۔ ما موں لوگوں نے کاروبار میں راستبازی بڑھا دی، اللہ تعالی ٰ نے کاروبار بڑھا دیا۔ اِس میں اور جائداد میں بہت برکت ڈالی۔ وغیرہ وغیرہ۔
1981ء میں، ہم چھٹی جماعت کیلئے، ہائی سکول میں داخل ہو گئے۔ نیا سکول، نئے اساتذہ، نیا ماحول، ماسٹر صاحب سے رابطہ کم سے کم ہو تا گیا۔ کبھی کبھار، آتے جاتے، رستے میں سلام دعا ہو جاتی۔ چند سال ہی گزرے تھے کہ اچانک یہ دِلخراش اطلا ع ملی، کہ ما سٹر صاحب کا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال ہو گیا ہے۔ انا للہ واناالیہ راجعون ۔
کسی کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ ماسٹر صا حب، ماشاءاللہ، ساری نمازیں با جماعت، گلی کی مسجد میں جا کر ادا کرتے تھے، چاق و چو بند اور صحتمند، پیدل چلنے والے اور کم کھانے والے اور خوش رہنے والے، انسان تھے۔ اُنکے گھر کا ماحول بہت خوشگوار تھا۔ پھر یہ کیسے ہوا؟ بے شک، اللہ تعالیٰ ہی ہمارا ربّ اور مالک ہے اور اُسی کی رضا پہ سر جھُکانا اور صبر کرنا ہی ہماراکام! اللہ تعالیٰ اُن پر اور اُنکے پیاروں پر، اپنی رحمت ، کرم اور مغفرت کی چادر کئے رکھے، آمین و ثم آمین۔
میرے بعد،عزیزم وسیم احمد کی عزیزی محمدعمران سے دوستی ہوگئی تھی اوربا جی نصرت صاحبہ سے رابطہ رہا۔ عزیزم ، اُنکے لئے، خریداری بھی کرتا ، بل وغیرہ جمع کرواتا اور ہر لحاظ سے، اُنکے لئے، ایک نا فع وجود بن گیا تھا،ماشاءاللہ ! یہ سلسلہ کئی سال تک چلتا رہا، یہاں تک کہ عزیزم عمران احمد، برسرِِ روز گار اور صاحب ِ خانہ ہو گئے۔ فجزاھماللہ تعالیٰ واحسن الجزاء۔
اور بقول شاعر، اکبر اِلہ آبادی، جو انہوں نے سر سیّد مرحوم کے بارہ میں کہا تھا :
ہماری باتیں ہی باتیں تھیں، سیّد کا م کر تا تھا
نہ بھولو فرق جو ہےبات کرنےاورکا م کرنے والے میں!
اب میں اِس گھرانے کی، ایک بہت نمایاں نیکی کا، بغرضِ دُعا، ذکر کرنا چاہوں گا۔ ماسٹر صاحب مرحوم کے بڑے بھائی، نعمت اللہ صاحب المعروف ’نِم نِم‘ کو اپنے گھر رکھا ہواتھا۔ نم نم ایک پڑھے لکھے، خوبرو اور چُست بدن انسان تھے۔ کسی معاملہ ومعاشقہ میں ناکامی یا کسی اورشدید ذہنی صدمہ کی وجہ سے اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھے تھے۔ ہر وقت نِم نِم کے الفاظ کیساتھ ، ہر کسی کو، بظاہر مطمعن (Convince ) کرنے کی کو شش کرتے رہتےتھے ۔ بے ضرر تھے۔
ایسے ذہنی مریض کی ظاہری حالت، ہمارے خاندان کے کئی با شعور لوگوں، جیسےمبشر بھائی، منور بھائی، ظفر بھائی، رفیق احمد، اورمنیراحمد ایسے لوگوں سے بھی بہتر تھی۔ نم نم ، ہر وقت تیار رہتے۔ صاف ستھرے کپڑے پہنتے۔ خود شیو بنا تے۔ اِس بے لوث نیکی کا سہرا، بلا شبہ ، دونوں، ماسٹر صاحب اور باجی نصرت صاحبہ کو جا تا ہے۔ اللہ تعالی ٰ ان دونوں کو اور اِن کی اولاد کوبھی اجرِعظیم سے نوازے، آمین۔
دنیا گول ہے! اِس کا مطلب ہے کہ گھوم کرواپس وہیں سے گزرتی ہے۔ بدقسمتی سے میرا، اِن پیارے لوگوں سے رابطہ نہ رہا تھا ۔ برس ہا برس بعد، 1994ء میں، پنجاب یونیورسٹی کے آخری سالانہ ڈنر میں، میں اینکراورایکٹنگ کے جوہر دکھارہا تھا اور بہت اونچی اُڑان میں تھا ۔ کھانے کے دوران، کسی نے پیچھے سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور ایک بُھولی بِسری لیکن جانی پہچانی آواز نے کہا ’’اوئے نیمے‘‘! میں نے، ششدرو حیراں، فوراً پیچھے مڑ کر دیکھا کہ ’بے بی‘ کھڑی تھی۔ ہم دونوں کی خوشی کی کوئی اِنتہا نہ تھی۔ دنیا کتنی چھوٹی ہے! میں نے پو چھا تم یہاں کیسے؟ اُس نے بتایا کہ اسُکا خاوند ، ہمارےشعبہ تاریخ کے ہیڈ پروفیسر محمد اسلم صاحب کے، لے پالک بیٹے ہیں اور میں اُنکی بہو! بہت بہت اچھا لگا، یہ جان کر!
اللہ تعالیٰ ان سب کا حامی وناصر رہے، آمین۔ ہم 40 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد بھی، اپنے گھروں کا معیار اورما حول اُن جیسا نہیں بنا سکے ۔ واللہ اعلم باالصواب۔ مجھے دلی افسوس ہے ، کہ میں اِن سمیت اپنے کسی اُستاد اور محسن کے کسی کا م نہیں آسکا۔ اللہ تعالیٰ مجھے معاف فرمائے، آمین۔