’’موم کا   چَھتّہ ‘‘

ہم دونوں، ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں پر  اکیلے بیٹھے تھے۔ وہ،  اپنی دونوں ہم جماعتوں کو لمحہ بہ لمحہ ،اپنے سے  دُور جاتے  ہوئےدیکھ رہا تھا اور میں اُسے۔موسم کی گرمی اور ویرانی کا اثر، ہم سب کی روحوں تک سرایت  کر رہا تھا۔ یہ جون 1994 ء کا ایک گرم دن  اورقریباً  ۱۱ بجے کا عمل تھا۔ صبح کا صرف احساس تھا جبکہ درجہ حرارت دوپہر کا!  یونیورسٹی میں امتحانات کے خاتمے   اور موسم گرما کی  چھٹیوں کےبعد،  ہُو کا عالم تھا۔اِکا ّدُکّا انسان، شعبہ  جات  کی ،طویل راہداریوں میں ،کبھی کبھار نظر آ جاتا۔

آج پہلی دفعہ،  وہ مجھے  اکیلا، اُداس اور  ٹوٹا ہوا سا  لگ رہا تھا۔ اُسکے ہاتھ ، گھٹنوں پر رکھے، جھکے ہوے اور خالی خالی سے  تھے۔ میرے سامنے اچانک وہ منظر پھر گیا،  جب محمد بوٹا، ایک لمبی سی لکڑی پرپرانا کپڑا باندھ کر ، اُسکو آگ دکھاتا، سر پر منڈاسا  اوڑھ کر، چھپر پر لگی، شہد کے مکھیوں بھرے ، چھتوں پر اچانک حملہ آور ہوجاتا۔ چھتے کی ملکہ اور سپاہیوں کیلئے، یہ حملہ قطعاً کبھی بھی غیر متوقع  نہیں ہوتا تھا۔روز ازل سے ہی ، وہ ایسے حملوں کے شکار رہے تھے۔ نسل درنسل  سے ، وہ  اپنے خزانے کی بہترین حفاظت  کی غرض سے خفیہ جگہہیں تلاش  کرتے آئے  تھے۔ انکا  جاسوسی کا نظام بھی  مستعد  تھا اور وہ دشمن کی   منصو بہ بندی سے آگاہ بھی  ہوتا تھا لیکن،  حملہ، ہر دفعہ اس قدر شدید ہوتا کہ اُسکو  پسپا کر نا ،کبھی بھی ، ان کے بس میں نہ تھا۔   شہد کی مکھیوں کا جوابی وار بھی بڑا جاندار ہوتا۔ وہ حملہ آور اور اسکے اردگرد لوگوں پر جان توڑ وار کرتیں اور جان کی بازی لگادیتیں، اور بہت ساری  سپاہ  اپنی جانوں سے ہا تھ دھو بیٹھتی ۔لیکن،  آدم ذاد  کا قوی الجُثّہ وجود، بڑے بڑے ہاتھوں کی تیز رفتار، کاریگری  سے،وہ منٹوں میں کامیاب،سرجیکل آپریشن  کر کے،  مہنیوں کی محنت سے تیارشدہ،  شہد، ایک  بالٹی  میں ڈال کر، میدان جنگ سے بھاگ کھڑاہوتا۔ آگ و خون کے اس جانکاہ  ہنگامے کے باوجود، کچھ  مکھیاں  اپنی جان تو دے دیتیں، لیکن چھتے سے تا حال چمٹی ہوتیں۔ شہد الگ کر لیا جاتا پھر موم سے بنے چھتے  سے لگی،تھوڑی بہت، شہدکو  اتارنے کیلئے اس پر گرم پانی ڈال کر سارا شہد، شربت کیطرح، الگ کرکے، مومی چھتے کو نچوڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا جاتا۔

دو سال  پہلے، پنجاب یونیورسٹی میں، ایم۔اے تاریخ میں داخلہ، بذاتِ خود، ایک منزل ِمقصود تھی ، جو بفضلِ تعالیٰ حاصل ہو گئی تھی۔ میرٹ کی پہلی ہی لسٹ میں میرا نام پانچویں نمبر پر تھا۔جبکہ ابھی دو مزید لسٹیں لگنا باقی تھیں۔ بی۔ اے میں فسٹ ڈویثزن  475 نمبروں پر حاصل ہوتی تھی اورعلمی حلقوں میں بڑی بات سمجھی جاتی تھی۔ راقم نے 490 نمبر حاصل کیے تھے جبکہ نیشنل کیڈٹ کور کے 20  نمبر ملا کر، کل 510  نمبر بتا کر اضافی داد وصول کی جاتی۔علاوہ ازیں،   غیر نصابی سرگرمیوں کے مارکس ملا کر ، ہر قسم کی میرٹ لسٹ   میں، میں ہمیشہ ٹاپ پر رہا۔

گورنمنٹ کالج لاہور  جیسی عظیم  تاریخی  درسگاہ  میں داخلے  کیلئے،   راقم کا نام  دوسری لسٹ میں آیا۔اسکی اکلوتی وجہ  یہ تھی،  کہ کالج ہذا سے فارغ التحصیل، بی۔اے کے  طلباء کو ، میرٹ لسٹ میں، بیرونی  طلباء پر فوقیت حاصل تھی۔ عامتہ الناس میں، پنجاب یونیورسٹی کا دبدبہ تھا جبکہ علمی ذوق رکھنے والوں کے  ہاں، گورنمنٹ کالج کی وقعت! سر ظفراللہ خان ، ڈاکٹر عبدالسلام سمیت ، بڑے بڑے بیوروکریٹس، اعلیٰ عدالتوں کے ججز، قلم کارو فن کار، زیادہ تر، گورنمنٹ کالج کے ہی فارغ التحصیل رہے تھے۔  راقم کی بھی دلی خواہش  تھی کہ یہیں داخلہ لیا جائے لیکن ہاسٹل کی جو سہولیات، اُس وقت، پنجاب یونیورسٹی میں میسر تھیں،  اُنکا عشرِعشیر بھی، یہاں  حاصل  نہ تھیں۔ مثلاً یہاں، گورنمنٹ کالج میں، کیوبکل (الگ کمرے) کا کوئی تصور ہی نہ تھا۔ علاوہ ازیں،  فیسوں  کے لحاظ سے  بھی  پنجاب  یونیورسٹی  سستی تھی۔

دستور یہ تھا کہ لسٹ میں نام آنے اور پہلے سال کی(  تعلیمی اور رہائشی )فیسیں جمع کروا کر آپ، اپنے  متعلقہ  مضمون کے شعبہ کے دفتر  میں آتے ہیں  اور ہیڈ کلرک  کو اسکی ایک نقل جمع کرواتے ہیں۔ اس پر وہ  اس سال شعبہ کیلئے مخصوص ہاسٹل میں کمر ے کی الاٹمنٹ کر دیتا ہے اور  ایک فہرست ،  ضروری سامان کی ساتھ  کر دیتا ، جو انگریزی دور کی  ایک بڑی ہی مفید روایت تھی اور ابھی تک جاری تھی۔

کلاس شروع ہونے سے ایک روز قبل، ہم اپنا بوریا بستر اٹھائے سیدھا، ہاسٹل  نمبر 8 اور کمرہ نمبر 16 پہنچے، جو مین گیٹ اور ریسیپشن کے پاس  ہی ایک ڈارمیٹری تھی۔ کمرہ  بڑا، صاف   اورہوادار تھا۔ سامنے اور عقب میں وسیع بڑے لان تھے ۔ جالی دار دروازے الگ سے موجود تھے۔ علاوہ ازیں،   تین عدد، نواڑی پلنگ ،    درازوںو الے  تین میز ، تین کرسیاں اور دیوار میں نصب  تین قدآور الماریاں بھی موجود تھیں۔ راقم نے ایک طرف چارپائی پر بستر کھول دیا اور چند منٹوں میں ہی ، پہلی الماری میں سامان لگا  دیا ہے   ۔ یہ ساری ٹر یننگ ہمیں،  مختلف  جماعتی، تعلیمی و تربیتی  کلاسوں اور اجتماعات وغیرہ پر جانے کی وجہ سے خوب حاصل تھی۔

اسی اثنا ء میں ایک دبلا پتلا، دیہاتی سا لڑکا کمرے میں داخل  ہوا اور قدرے تمیز سے عاری انداز اور مختلف پنجابی (چکوالی) لہجے میں گویا ہوا۔ موصوف توقیر احمد تھے ۔ میرے روم میٹ اور ہونیوالے ہم جماعت بھی۔ شائد ہم دونوں کا ہی پہلا تجربہ نا خوشگوار رہا ہو گا۔نصیب  اپنا اپنا!

تھوڑی  دیر بعد، راقم ہاسٹل  دیکھنے نکلا۔صاف ،کھلی اور روشن  راہداریاں،ہر طرف سبز لان، دارالضیافت کی طرح ہی، بڑی میس (دارالضیافت )، لانڈری، ٹی ۔وی لاوٗنج،  کینٹین، سپورٹس ہال، ہر منزل  پر،  دونوں اطراف میں، الگ الگ  درجنوں غسل خانے اور بیت الخلاء۔بالائی منزل پر ، سوائے ایک بڑی مسجد ، (جو  جنرل ضیاءالحق  اور جمیعت کے  نئے ’ اسلامی نظام‘  کے ماتحت، بالائی سپورٹس ہال کو  ختم کر کے بنائی گئی تھی)   کمرے ہی کمرے جبکہ تیسری منزل پر سارے کیوبکل کمرے تھے۔ ریسپشن کے پاس، فون بوتھ،  نیوز اسٹینڈ پر 4/5  اردو و انگریزی اخبار، اور چوکیدار کا کمرہ۔ ہر وقت، کچن، لانڈری اور کینٹین میں کا م کرنے والے8 /10  مستقل ملازم دستیاب!

جنرل محمد ایوب خان اور اُسکی حکومت کیلئے دل سے بہت دعائیں  نکلیں، جنہوں نے 50 سال قبل، آئندہ آنیوالے کم از کم ایک سو برس کیلئے ایسی خوبصورت ، مضبوط اور بڑی یونیورسٹی بنا دی تھی۔ رات کے کھانے کیلئے  گھنٹی  بجی،ہوٹل کیطرح، خوبصورت برتنوں میں، بیروں نے کھانا دیا۔ مقدار ضرورت سے زیادہ اور قیمت نہایت مناسب! ہر کھانے کیساتھ ایک سویٹ ڈش بھی دی جاتی۔ قیمت کا تعیین، ایک منفردلیکن منظم نظام کے تحت کیا  جاتا۔ ہر کھانے کا ایک یونٹ (حاضری) مقرر تھی۔ مثلاً دال روٹی کیلئے  2   عدد حاضری، گوشت یا چکن کڑاہی کیلئے  3 عدد، چکن روسٹ اور چاول کیلئے4   عددحاضری۔ میس کا نظام  یونیورسٹی اورہاسٹل  انتظامیہ کی مشترکہ نگرانی میں ایک پرایئویٹ ٹھیکے دار کے پاس ہوتا۔جو مہینہ کے آخیر ، میں اپنی آمدواخراجات کی بنیاد پر ، حاضری کی اوسط  قیمت نکالتا، جو سالہا سال سے ایک اور ڈیڑھ روپے کے درمیان تھی۔کھانے کے بعد، سب لوگ  کینٹین کا  رخ کرتے اور اعلیٰ معیار کی چائے صرف 50 پیسے میں دستیاب تھی۔ خداجانے، ان لوگوں  کا منافع کیا تھا؟ اِنکی گزر اوقا ت کیسے ہورہی تھی؟ کچھ دیر رہنے کے بعد ، سب حقیقت کھل کر واضع ہو گئی۔ ساتوں دن، چوبیس گھنٹے کا کا م تھا۔ لوگ ، بچپن میں اپنے اپنے گاوٗں سے آئے اور اِس ماحول اور اِسکے سحر نے انکو جکڑ لیا تھا۔ عجیب طفیلی سا (پیراسائٹک)  نظام تھا۔ مثلاً کینٹین   والوں  کی رہائش اور کھانا  کچن والوں کی طرف سے مفت  اور اُنکی چائے ،لسّی اِنکی طرف سے مفت! لانڈری والے، اِن  دونوں ،نعمتوں کے بدلے، اُنکے کپڑے  مفت میں دھوتے اور استری کردیتے۔پانی مفت  کاجبکہ بجلی اور گیس ، بغیر کسی تعطل کے، گورنمنٹ کیطرف سے ارزاں نرخوں پر دستیاب ! مفت  کا ٹی۔وی اور اخبار، پورے لاہور میں گھومتی، یونیورسٹی کی درجنوں بسوں میں،  مفت سفر کی سہولت!

ہمارا ہاسٹل اور ڈیپارٹمنٹ  ، ایک ہی لائین میں ، لیکن شرقاً غرباً  ،   بالکل مخالف کونوں پر!  ہاسٹل مشرق میں یونیورسٹی کی آخری  بلڈنگ اور شعبہ تاریخ،مغرب میں تعلیمی بلاک کی آخری عمارت! بیچ میں قریبا ً  نصف کلو میٹر سے کچھ کم فاصلے میں، ہاسٹل نمبر 4 ، وسیع سبزہ زار،  دو رویہ خوبصورت سٹرکیں، نہر، دیگر شعبہ جات کی عمارتیں، بینکس،اور بازار ،گزر کر ہمارا شعبہ تاریخ! تعلیم بلاک کا سب سے بڑا کیفے بھی، ہمارے شعبے کے بالکل سامنے! اور پھر وسیع دالانوں کے پار، اساتذہ   کی رہائشی کالونیاں تھیں۔

دو سال سے زائد عرصہ   ، ہم صبح  وشام ، سردی گرمی،   خشکی و برسات میں ان راہوں پر رواں  دواں رہے۔ کبھی تھکے نہ ماندے! دو وجوہات تو سمجھ میں آتی ہیں ۔ ایک حُسن اور دوسری جوانی !  جوانی میں تھکاوٹ کا احساس  تک نہ تھا اور حُسن ہر جگہ بکھرا  ہوا تھا۔ ہر طرف خوبصورت  پھولدار درخت  اور پودے،  تراشے ہوئے راستے،  درمیان میں بہتی  لاہور اور یونیورسٹی   کی خوبصورت  نہر، مستقبل کے دلکش خواب ،آنکھوں میں سجائے،   نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے جُھنڈ،  سچ مچ، یہ درسگاہ  کم  اورایک  سیر گاہ زیادہ لگتی تھی ۔

اگلے روز پہلی کلاس تھی 9بجے صبح! میں حسبِ عادت،  وقت سے کچھ پہلے ہی پہنچ گیا تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیوں کے آس پاس، لڑکے اور لڑکیوں کی ، الگ الگ   ٹولیاں  ، ایک دوسرے سے تعارف حاصل کر رہی تھیں۔ میں بھی آہستہ سے ایک ٹولی سے جا ملا اور متعارف  ہوگیا۔ اسی اثناءمیں سیڑھیوں  سے، ایک بغیر داڑھی کے بزرگ، شلوار قمیص اور ویسٹ کوٹ میں ملبوس، کالج کے پرفیسرز کیطرح،  نیچے اترتے ہوئے، ہمارے سمیت کئی ٹولیوں کو اشارہ کرتے ہوئے ایک بڑے اور ہال نما کمرے کی طرف لے گئے جیسےکہ سدھائے ہوئے پرندے!

یہ آڈیٹوریم نما ، شعبہ تاریخ کا سب سے بڑاکمرہ اور سال اوّل کیلئے، شروع سے ہی مخصوص تھا۔   انہوں نے اپنا تعارف  پروفیسر محمد اسلم ، صدرِ شعبہ تاریخ کے طور پر کروایا۔کچھ اِدھر اُدھر کی ضروری باتیں کیں، جن میں سے ایک یہ کہ پہلا دروازہ اساتذہ کیلئے جبکہ عقبی دروازہ طلباء کیلئے مخصوص ہے۔ نیز یہ بھی بتایا کہ انہیں کِس طرح یہ معلوم پڑتا ہے کہ یہ نئی کلاس کے طلباء ہیں؟بقول اُنکے، جہاں  لڑکے اور  لڑکیوں کی ٹولیاں ،الگ الگ ہوں، وہ سال اول کی کلاس  کا پہلا روز ہو تا ہے۔  چند دن میں ہی یہ سارامنظر بدل جاتا ہے۔اسکے بعدحاضری لی اور پھرتاریخ اسلام  پر ایک شاندار لیکچر دے دیا جو ہم سب کوہی  بہت بھایا۔  ساری گفتگو،  رواں اور سلیس اردو زبان  میں ۔طبیعت بہت سادہ، علم ومرتبہ بے مثال،   ہم سب بہت خوش تھے۔

ابھی لیکچر ختم ہونے میں دو چار منٹ باقی تھے کہ پہلے دروازے سے کسی کوٹ پتلون اور ٹائی میں، ملبوس نے اپنی جھلک یوں دکھلائی کہ ہم سے زیادہ پرفیسر  اسلم صاحب کو نظر آئے۔لہذا، پروفیسر صاحب  نے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا اور باہر نکل گئے ۔نئے پرفیسر صاحب اند ر آئے اور ہم سب سہم سے گئے۔ کیونکہ وہ اپنے روپ سے ہی کوئی منفرد چیز لگ رہے تھے۔ ہم ابھی  سنبھل  ہی نہ پائےتھے  کہ انگریزی زبان میں، شدید ژالہ باری شروع ہوگئی۔   This is Sadiq Ali Gill here, M.A., M. Phil, from University of Punjab, Lahore. I done my doctorate from England while I have taught a course in Massachusett, USA blah blah blah…

ہم سب کے اوسان اُس وقت بحال ہوئے جب آپ لندن میں ایک کورس پڑھا کر لا ہور لینڈ کر گئے اور لیکچر کے آخر پر ،  ہماری حاضری لے رہے تھے۔ اس عرصہ میں  ہمیں صرف یہ بات سمجھ آئی تھی  کہ موصوف  ،ہمیں ایم۔ اے تاریخ کے سب سے’اہم‘ مضمون  کو سب سے  ’مشکل ‘بنا کر پڑھانے والے ہیں اور یہ کہ اُس مضمون کا  نام ’’علم فنِ تاریخ نویسی‘‘ یا     Historiography ہے۔اور یہ کہ  لیکچر،  انگریزی زبان میں ہوا کریگا۔

ہر دو لیکچرز کے بعد، 30 منٹ  کی جو   بریک  ، بلحاظ ٹائم ٹیبل ،’مقّدر‘ یا مقرر تھی۔ وہ   نعمت  عظمی ٰ ثابت ہوئی۔ سب لوگ دوبارہ ٹو لیوں میں بٹ  رہے تھے گوکہ اِس بار ،  اجزائے بناوٹ و  ترکیب میں فرق واضع تھا۔دونوں اساتذہ کی ریٹینگ ہوئی۔ 40 کے قریب ہم جماعت  ، کثرت رائے سے  ، محترم گِل  صاحب کوتین طلاق دینے ہی والے تھے کہ ایک  صاحب الرّائے سینئر نے آگے  بڑھ کر ، بیچ بچاو کروادیا۔اُس نے دلائل کیساتھ ہمیں یہ یقین دھانی کروائی کہ مزید  دو  لیکچرز( انگریزی زبان میں)دینے  کے بعد،  یہی  ڈاکڑ صاحب ، اردو زبان میں موجود،  اپنی  اکلوتی  تصنیف  کو یوں  بیچتے  نظر آئیں گے جیسے حکیم ٹرینوں میں پھکّی !

بریک کے بعد، تیسرالیکچردینے  کیلئے  ایک اور پروفیسر،  ڈاکٹر ، سیدرضاالحق  شاہ  صاحب،  روسٹرم پر موجود تھے۔ان سے کچھ غائبانہ تعارف ہو چکا تھا۔ انگریزی زبان کے حوالے سے،  موصوف کو، ڈاکٹر گِل کا بڑا  بھائی  بتایا گیا تھا  اور یہ کہ یہ سانس بھی انگریزی میں ہی لیں گے کیونکہ  انکی اکلوتی کتاب بھی  انگریزی زبان میں تھی ۔ سانولی  رنگت، اُوپر نیِچے، لوچ کھاتی ہوئی ، تیز آواز، چست بدن، کوٹ پتلون اور نکٹائی  میں ملبوس، ناک پر عینک جبکہ پیچھے سے آنیوالوں کو دکھانے کیلئے، سر کے عقبی حصہ  پر چند بال ،  بھی سجا رکھے  تھے۔موصو ف ،  پا کستان کے سیاسی اور آیئنی امور پڑھانے آئے تھے لیکن ۔۔۔خیر خیر کرکے وقت پوراہو گیا۔

آج کا  چوتھا اور آخری لیکچر، محمد اقبال چاوؔلہ صاحب کا تھا۔ افسوس ! آپکی انٹری، آپکے قد کیطرح،  پہلوں سے  کمتر تھی۔ بظاہرآپ کی شخصیت  قطعاً ایسی نہ تھی جیسے کوئی  طارق عزؔیز یا مرحوم راحت کاظمؔی  ، ہال میں داخل ہوتے ہوئے پکارتا کہ ’’اقبال ہمیشہ  لیٹ آتا ہے، اوراسکے ساتھ ہی،  ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ! پہلے دن واقعی ایسا کچھ نہ ہوا۔ بعد کی ، بعد میں بتاتا ہوں!

بلاشبہ آپ سب اساتذہ میں سے اپنی عمر ، تعلیم و تجربہ اور قد امت میں کم تھےلیکن ہم سے ہر لحاظ سے کافی بڑے تھے! آپ نے اپنا تعارف دیا اور ہمارا نام ۔۔۔بنام لیا۔ لیکچرکی بجائے، کالج اور یونیورسٹی لائف   کے مابین فرق، اعلیٰ تعلیم کے  مقاصد، اُسکے حصول کے طریق،  لایبئریری  کےباقاعدہ  استعمال، ہاسٹل لائف کے فوائد و نقصانات سمیت، ہر بات  بتا کر ہمارے دل جیت لئے۔ یہیں پر بس نہیں، بلکہ ہم سب کو اپنے کمرے میں آ کر، علحیدہ علحیدہ  ملاقات اور اپنے تعاون کی دعوت دے  ڈالی۔موصوف ہمارے سٹوڈنٹ ایڈوائزر بھی تھے۔ قائد اعظم یونیورسٹی ، اسلام آباد سے ایم۔اے ، ایم فل کیا ہوا تھا اور اُسی کے گن گاتے تھے۔  ہماری طرح اردو میں انگریزی کا تڑکہ لگا کر گفتگو کرتے رہے۔

چا وؔلہ صاحب کی آواز کمزور، لیکن ارادے بہت مضبوط!  نظر نیچی اور سوچ بہت بلند! تدریسی تجربہ کم جبکہ لوگوں کی نفسیات پر عبور! مزاج دھیما لیکن اپنی دُھن  کےپکے نکلےا! صحت کمزور لیکن یونیورسٹی ٹیچرزکرکٹ ٹیم کا کپتان نکلے!  وہ  ملنے والوں پر اپنا  رعب نہیں بلکہ اثرچھوڑنے والوں میں ہیں۔  شکل کی بجائے عقل اور حیثیت کی بجائے عملیت   کااثر  چھوڑتے ! جوں جوں، ہم اُن کے قریب ہوتے  گئے، بساط ِزندگی بھی وا ہوتی گئی۔ اُنکی کہی ہوئی باتیں، ضرب المثل ہوتی گئیں۔صحیح معنوں میں ،ایک  ہرفن مولیٰ  شخصیت   نکلے! جمعیت اسلامی کے نزدیک ، شائد وہ ایک ’دہریہ‘ تھے۔ لیکن ، مولویوں کو نا کوں  چنے چبوانے کو ،تاریخ اسلام ، انہوں  نے  حفظ کررکھی تھی۔نمازیں، قائداعظم کیطرح ،  چُھپ کر ادا کرتے تھے اور موج مستی میں ہم سب کے گُرو! قصہ مختصر، اگر آپ نہ ہوتے تو، ہم  اپنے آپکو، مدرسۃ العلوم ، دیوبند  کا فارغ التحصیل پاتے۔

آج  چند  لڑکوں سے ملاقات  رہی،  جو ہمارے ہی ہاسٹل  سےتھے۔اگلے روز،  لیکچرز اُسی ترتیب سے ہوئے لیکن سمجھ بوجھ میں ’اضافہ ریکارڈ کیا گیا‘ ۔ مزید لوگوں سے تعارف ہوا۔ اکثر لوگ چھوٹے قصبوں مثلا ً  چکوال، کہوٹہ، جڑانوالہ، سلاّںوالی، پسرور، چک غازی اور وزیرستان سے آئے ہوئے تھے۔ مزے کی بات یہ کہ  دو لڑکے میر ے کالج (حافظ آباد) سے  میرے ہم جماعت بھی  تھے اورافسوس کہ میں اُن سے آشنا نہ تھا۔ انہوں نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا۔ ایک الیاس چٹھؔہ اور دوسرا فخر عباس جعفرؔی۔ اصل میں ہماری بی ۔ اے کی ایک ہی کلاس تھی، جس میں 106 سے اوپر لڑکے تھے۔ کثرت شہر کے لڑکوں کی تھی جبکہ  دیہاتوں سے آنیوالوں کی  ٹولیا ں  الگ سلگ رہتی تھیں۔  چند سوغاتیں، لاہور اور فیصل آباد سے بھی تھیں۔  دونوں طبقو ں (یعنی  شہری و دیہی)   میں  ابھی تلک ،  صرف چرب زبانی اور  اچھل کود کا ہی فرق ، نمایاں تھا۔’ تفصیلات ‘آنا ابھی باقی تھیں۔

ہاں! آج ایک بات اوربھی  ہوئی تھی۔ تیسرا پریڈ ، ابھی شروع ہی ہوا تھا کہ ایک خوبرو نوجوان !  مجھے یاد ہے اس نے، کریم کلر کی پتلون اور گہری سبز، چیک دار شرٹ پہنی ہوئی تھی، نے فرنٹ ڈور سے اند ر آنے کی اجازت چاہی۔ڈاکٹر رضا شاہ صاحب   نے اُسے اندر آنے دیا لیکن ساتھ ہی  تفتیش شروع کردی۔کہ آپکو پتہ ہے کہ یہ کونسی کلاس ہے؟ کس کی کلاس ہے؟ اور طلباء کیلئے کونسا دروازہ ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب کو یہ  بہت عجیب اور  بُرا لگ رہا تھا۔ سب کی نظریں نئے آنیوالے پر گڑی تھیں۔نہ جانے مجھے وہ کیوں اپنا اپنا سا لگا۔کلین شیو، سر پر سیاہ گھنے اور بنے ہوئے بال، ہاتھ میں نوٹ بک لئے،  وہ پرسکون، استازی المکرم کے خاموش ہونے کا منتظر تھا  ! جونہی شاہ صاحب سانس لینے کیلئے رُکے، اس نے دو لفظ بولے: سوری سر! یہ میری پہلی کلاس  ہے! اور آگے بڑھ کر، سب سے پچھلی نشست پر جا کر بیٹھ گیا۔ اِس بات پر ڈاکٹر صاحب کی  تو، بولتی بند  اور ہم سب کی ہنسی نکل گئی۔ساری کلاس نے مڑ کر اُسکی طرف دیکھا لیکن  اُس نے کسی کی طرف بھی نہیں ۔

کچھ دیر خاموشی رہی، پھر ڈاکٹر صاحب    ایک تجربہ کار استاد کیطرح یوں گویا ہوئے  ’’ کہ  میں کہہ رہا تھا۔۔۔اور سکوت توڑ دیا ۔

کلاس ختم ہوتے ہی سب لڑکے آہستہ آہستہ، ایک ایک کر کے ،  اُسی کی طرف چل دیئے۔ سب کا پہلا سوال ایک ہی تھا کہ نام کیا ہے؟  نو وارد کا نام بھی اُسی کیطرح الگ سا تھا۔’اے ۔ڈی  چوہدری‘!  اس نے اپنا نا م  ، ایسے پُر اعتماد لہجے میں بتا یا  کہ کسی نے  بھی نہ پوچھا کہ اے ۔ ڈی  کِس کا مخخف ہے؟  اس کی عمر کم اور تجربہ ہم  لوگوں سے زیادہ لگ رہا تھا۔  وہ گوجرانوالہ ڈویژن سے تھا اور ہمارے ہاسٹل میں ہی اُسکی الاٹمنٹ ہوئی تھی۔ ابھی تک مجھے اپنی کلاس میں صرف ایک  وُہی بھایا تھا۔

آخری لیکچر چاولہ صاحب کا تھا۔ انہوں نے آتے ہی بتا یا کہ دو روز بعد ،  ہمارے سینٗیرز ہمیں ویلکم ڈنر دے رہے ہیں۔ اور اس بارہ میں ہمیں کچھ بریف بھی کیا ۔ ساتھ ہی بتا یا کہ اس کے جواب میں، چند روز بعد، ہم لوگوں کو بھی جوابی  ڈنر دینا ہوگا اور اس کے انتظا م کیلیےٗ ہم میں سے  ہی  ایک کمیٹی بنائی جائے گی اور خود موصوف  ہماری معاونت کریں گے۔ ہم سب  یہ جان کر بہت خوش ہوئے۔

دو روز بعد ،  دوپہر سے ہی ڈیپارٹمنٹ میں  ڈنر  کی تیاریاں  ہورہی تھیں۔ شامیانے لگائے جارہے تھے ۔ ہم جماعت  لڑکیوں کی  بھنبھنا ہٹ آہستہ آہستہ اب  چہچہاہٹ میں تبدیل ہو رہی تھی۔ اُنکی سرگوشیاں، اب ہما رے کا نوں تک پہنچ  رہی تھیں۔ اُنکے نام ، اُنکے کپڑوں کے مسائل ، اب مشترکہ مسائل بن رہے تھے۔ اِسی سے مجھے بھی  عشایئے پر اپنے لباس کا خیال پیداہوا۔  میں نے  بھی ، حسبِ عادت  اپنا سب سے نیا ، سفید رنگ کا  شلوار قمیص  منتخب کر لیا۔ رات یونیورسٹی پہنچے، تو ڈیپارٹمنٹ  کودلہن کیطرح سجا ہوا پایا ۔  رنگا رنگ کی  روشیناں  جگمگا رہی تھیں ۔   پرفیوم  اور کھانے کی خوشبوئیں ہر سو پھیلی ہو ئی تھیں۔ زرق برق لباس میں ملبوس ہماری ہم جماعت  و سینئیررز، کسی اور ہی ڈیپارٹمنٹ کی مخلوق لگ رہی تھیں۔ سوائے  اساتذہ  اکرام کے ، جو اپنے چہروں کی بجائے، حسبِ مراتب،  اپنے اپنے گنج سے پہچانے جا تے تھے ،وہ  بھی خوبصورت اور منفرد  لگ  رہے تھے۔

یہ میرے لئے  انتہائی اہم اور پر مسرت  موقع تھا۔ کیونکہ  اس سے قبل ’عشا ئیے ‘ کا لفظ صرف   اخباروں میں ہی پڑھا تھا۔ جب  سب لوگ جمع ہو گئے  تو ہمارے  ایک سینئیر سہیل بھٹیؔ صاحب(جو بعد میں سول جج بن کر وزیرآباد میں تعینات ہوئے)   مائیک تھامے نمودار ہوئے ۔ اور  بڑے ادبی انداز سے  ، اساتذہ  کا  وہ تعارف ، جو ابھی تک ہمیں نہیں ہوا تھا ، کروا کر ، خالی سٹیج   کو پُر کروانے لگے۔  اس کے بعد، ایک دو  سینئرز نے فیضؔ اور فراؔز   کا رومانوی کلام سنایا۔  ا یک دو نے گانے سنائے، اساتذہ نے بھی کچھ، اگلے پچھلے  دلچسپ  قصے سنائے۔ آخر میں ایک  آواز آئی کہ اب  ’ووٹ آف تھینکس‘ کے لئے پلیز ویلکم مسٹر اے۔ڈی چو ہدری!

باوجود  اِسکے کہ نہ تو  مجھے ’ووٹ آف تھینکس ‘ کا پتہ تھا اور نہ ہی  مجھے اپنا  نام  پکارے جانے کی  کوئی رتی بھر اُمید تھی ۔ پھر بھی نہ جانے کیوں، اے ۔ ڈی کا نام سن کر مجھے چنداں اچھا نہ لگا۔  یہی حال کئی اور لوگوں کا بھی تھا جو میرے ساتھ بیٹھے  ہوئےتھے۔ ہم سب  آپس   میں کندھے اور تیوریاں چڑھانے میں مصروف تھے جبکہ  مو صوف  تھینکس کرنے میں!  بہر حال تالیوں کی گونج نے اُسکی  تقریر  اور ہماری پریشانی کا خاتمہ کردیا۔   کھانا بو فے اسٹائل میں اور 4 سٹار معیار کا  تھا۔ سب لو گ اپنی اپنی مرضی سے اپنی ضرورت کے مطابق لے رہے تھے ۔ ہر چیز وافر اور لذیز تھی۔ مختلف قسموں کے ڈرنکس  بھی موجود تھے۔ اس قِسم  اور اِس معیار کا کھانا ، اس سے قبل، شائد ایک  دفعہ اسلام آباد  میں، ایک شادی پہ کھایا تھا۔ اِسی  دوران،  میرا ، اے ۔ ڈی سے سامنا ہو گیا۔ اس نے سیا ہی مائل شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی اور اُسکا چہرہ  دمک رہا تھا۔ باوجود ا چھا لگنے کے ، مجھے اس سے خواہ مخواہ کا حسد سا  ہو گیا  تھا۔ اس نے میرا حال چال پو چھا ۔ اور باتوں باتوں میں  کہنے لگا کہ  نعیم یہ لاہور ہے!  یہاں رات کے فنکشنز  میں  قدرے گہرے رنگ کے کپڑے ، زیادہ اچھے لگتے ہیں۔  ذرا اپنے اردگرد نظر دوڑاو اور دیکھو کہ تمہا رے  علاوہ  کسی نے  سفید لباس نہیں پہن رکھا!  پھر بولا! ویسے تم  اچھے لگ رہے ہو! یہ کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ میں  کچھ دیر کیلئے ساکت کھڑا رہا  کیونکہ مجھے یہ اندازہ تو  ہو رہا  تھا  کہ میرے اور بیروں کے علاوہ کسی نے سفید لباس نہیں پہنا ہو ا تھا!

میں ساری رات، اپنی  اِس  نادانستہ برپا ہونیوالی غلطی میں غلطاں،  سو بھی نہ سکا تھا۔ اِس ساری کشمکش میں ،  وہ بھی مجھے کبھی  اچھا اور کبھی  بُرا  لگتا رہا۔ صبح کلاس میں میں ذرا بجھا بجھا سا رہا۔ بریک میں وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا  کہ اگر رات کو میری کوئی  بات ناگوار گزری ہو تو میں معذرت چاہتا ہوں!  مجھے لگا کہ وہ بھی رات کو میرے متعلق سو چتا رہا ہے۔  لہذا ، اُس سے متعلق میری غلط فہمی دُور ہوگئی اور ہم دوست بن گئے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والی ہماری کئی کلاس فیلوز نے آج اے۔ ڈی کو، کل کی پریزنٹیشن پر مبارکباد دی اور تعارف ہوا۔ میں بھی ساتھ ہی  تھا اور  میرے لیے  یہ لمحات تو ، رات سے بھی زیادہ حسین تھے، جبکہ اے۔ ڈی  اِن سے جان چھڑا رہا تھا۔  جب ہم زرا لگ ہوئے تو میں نے اِس  بیزاری کی وجہ پوچھی تو بولا،  میاں صاحب!    آپکو ایک گرُ کی بات بتاوں؟ میں نے کہا ، بتاؤ! بولا، ’’ جب لڑکی  خود چل کر  آئے تو اُس سے آپکی طرح  چمٹ  نہیں جانا  چاہیئے‘‘ ۔ میں  دوسرا سوال داغنے ہی والا تھا   تو، بولا ! میاں صاحب  مجھے آپکا بھی پتہ چل گیا ہے کہ کِس پانی میں ہو اور آپکے سوال کا بھی! باقی باتیں کل!  چلو اوپر چلتے ہیں ،سر چاوؔلہ صاحب کے پاس۔

اُنکا دروازہ ہمیشہ کیطرح کھلا  تھا  ۔ ایک دو لوگ پہلے سے بیٹھے تھے۔ میں پہلی مرتبہ انکے کمرے میں گیا تھا ااتنا   نروس تھا کہ یہ بھی نہ دیکھ سکا  کہ کون  بیٹھا ہو ا ہے۔ چاولہ صاحب نے بھی اے ۔ڈی کو  شاباش دی ۔ اے ۔ڈی بہت ریلیکس تھا۔ اس نے  چھوٹتے ہی کہا کہ سر ، ہماری ٹیم تیا ر ہے ۔ پھر اُس نے میرے سمیت ان سب کے نام لے دیئے  جن سے ہم نیچے سر سری طور پر مل کر آرہے تھے۔ میں نے اُوں، آں کرنے کی کوشش کی ، اس نے میرا پاوں دبا کر  خاموش  کر دیا۔ سر نے اس کو پہلے سے بھی زیادہ داد دی۔ اِس پر ، اگلے ہی لمحے اُس نے اجازت طلب کر لی اور ہم با ہر نکل آئے۔

میرا بُراحال ہو رہا تھا  اور وہ فاتحانہ انداز سے  ہُو ہاَ کر رہا تھا۔  اُس نے میرا بازو پکڑا  اور  سیدھا کیفے کو چل دیا۔  کیفے میں زیادہ تر  لوگ سبزہ زار میں لگی میز کرسیوں پر  بیٹھنا  پسند کرتے تھے ۔ ایک تو ماحول  اچھا لگتا تھا  دوسرے  پرایئویسی بھی  قائم رہتی تھی۔ اس نے چائے اور سموسوں کا آرڈر دیا  اور جیب میں سے ایک سیگریٹ نکالا ، اسے بغور دیکھا اور پھر ، پُر سکون انداز میں اُسے سلگا یا اور ایک لمبا  سا کش لیا ۔ پھر  ایک سکوت کے بعد، بولا،  نعیم صاحب! جن کے اندر کچھ ہو تا ہے  وہی قدم آگے بڑھاتے اور ترقی کرتے ہیں۔  تمھارے سمیت مجھے 5 کلاس فیلوز نے   اپریشیئیٹ کیا۔ بس یہی وہ لوگ ہیں جو اِس کا م کو سمجھتے تھے ، یہی ہیں جن کے اندر ، بات کرنے کا حوصلہ ہے اور یہی وہ  لوگ ہیں جو  لیڈر بننے کے  بھی اہل    ہیں   ۔اس سے قبل  کہ میں کچھ کہتا، اس نے دیر بعد  دوسرا کش لگایا اور ہا تھ کے اشارے سے مجھے روک دیا۔دھوئیں کا بڑا سا بادل اوپر اچھال کر،  مسکراتے ہوئے   پوچھا کہ جانتے ہو  لیڈر کون ہو تا ہے؟ میں  تھوڑا تذبذب  کا شکار ہو ا تو بولا! ’وہ جو لیڈ کر تا ہے ،  پہل کر تا ہے‘۔میں نے کہا پھر بھی  تمھیں نا م پیش کرنے سے پہلے ،  ایک مرتبہ  اُن سے  پوچھ تو لینا چاہیئے تھا۔  بولا، پو چھ کر چلنے والے کلرک ہو تے ہیں ، میاں صاحب،  لیڈر نہیں!  اِن میں سے  کو ئی بھی ، اِس ’اعزاز‘ سے پیچھے نہیں ہٹے گا جو اِن کو بِن مانگے ملنے والا   ہے۔ کیا تم  نہیں آو ٔگے میرے ساتھ؟  اُس نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ میں نے کہا کہ میں تو اِس لئے آونگا کہ میں تمھارا دوست ہوں۔اس نے ایک  بھر پور قہقہہ   لگایا اور تیسرے کش کے بعد ، دیر تک سیگریٹ کو بجھاتے ہوئے بولا، دوست؟ نعیم صاحب ،  آج ہماری پہلی ملاقات ہے اور آپ مجھے اپنا دوست کہہ رہے ہیں!  میں  اُسکی با ت سے تھوڑا  سا جھلّا سا گیا تھا ، لیکن اگلے ہی لمحے اس نے میز پر رکھے میر ے ہاتھوں  پر ہاتھ رکھتے ہوئے  کہا،  یہی تو  وہ بات ہے جو میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تم میر ے دوست ہو،  اس لیے کہ تم آگئے بڑھے تھے ۔ اسی طرح وہ امبیؔلہ  ، ثروؔت،  جعفرؔی  اور ملک  ارشد بھی  آگئے بڑھے ہیں اور دیکھنا ،  یہ سارے ہمارے ساتھ  ہی آئیں گے۔  چائے آ چکی تھی ۔میں نے پوچھا کہ کیا تم چاوؔلہ صاحب کو پہلے سے جانتے ہو؟ بولا نہیں۔ میں  آج  اُن سے دوسری دفعہ ملا ہوں۔ میں نے کہا تو  پھر،  ’ووٹ آف تھینکس ‘  کیلئے  قرعہ فال تمھارے نام کیسے نکلا؟  بو لا! میاں صاحب،  اس پرچی پر صرف ایک ہی نام تھا، آپکے بھائی کا، اس نے چائے  کا کپ رکھتے  ہو ئے کہا۔ میرے تاثرات دیکھ کر بولا، ’’ سر! میں خود اُن سے ملا تھا اور پوچھا تھا کہ ہماری طرف سے کون  تھنیکس بولے گا؟   سر نے جواب  دیا  تھا کہ ابھی تک تو کوئی نہیں!  میں نے کہا اگر آپ   پسند فرمائیں  تو بندہ ٗ ناچیز حاضر ہے!  وہ بولے میں  تمھارا  نام لکھ لیتا ہوں اور بعد میں  کنفرم کرونگا ۔  جناب عالی!  آپکی کلاس کا کو ئی بندہ یا بندی ، اُوپر اُن کے پاس  ، اِس کا م کیلئے نہیں گیا ۔چنانچہ وہ بھی خوش اور میں بھی! اِسی کو تو  لیڈ کرنا کہتے ہیں ۔ اور  یاد رکھو،  ہر اچھا استاد اور  کامیاب  باس،  ایسے ہی جراٗت مند  لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو اُن کے کا م کو  آسان بنا دیں‘‘۔

اُسکی باتیں سیدھی میرے دل میں گھرکر  رہی تھیں۔ اُسکے معصوم اور   کلین  شیویڈ  چہرے  پر نہ نظر آنیوالی  سفید ڈراھی اسکے پیٹ میں  کہیں پنہاں تھی۔  وہ اب اُٹھنا چاہتا تھا اور میرے  سوال ابھی باقی تھے۔ کہنے لگا کہ  رات کو کھانے کے بعد ملتے ہیں۔وہ لایبئریری کیطرف  چلا گیا  اور میں ہاسٹل واپس آگیا۔

پڑھائی  دن بدن مشکل ہوتی جارہی تھی ۔ اوپر سے انگریزی میں لیکچرز، روزانہ کے نوٹس،  اور ہر  ٹیچر کیطرف سے  دی جانے والی  پے در پے  اسائنمنٹس  نے ، یونیورسٹی  میں  نئے نئے  آنیوالوں کی  ساری خوشیاں  چھین لی تھیں۔  لڑکیوں کا تو بُراحال تھا۔  تمام کی  تمام،  لیکچر  کے دوران  آنکھ بھی نہ جھپکتی تھیں کہ مبادا  ، استاد ِمحترم کی زبانِ مبارک سے نکِلا ہوا لفظ   کہیں اِدھر سے  اُدھر ہی   نہ ہو جائے۔ لڑکے  بھی بصد شوق  نوٹس لیتے تھے لیکن   قدرے  ہوش مندی کیساتھ۔میں تو لڑکوں سے بھی کم  نوٹس لیتا تھا ۔ اِسکی وجہ میری لیاقت نہیں بلکہ دوران ِلیکچر میری ذہنی ’’غیر حاضری‘‘ تھی۔ مجھے اِس با ت کا احساس بہت دیر بعد ہوا۔ مثلاً  جب کبھی  دورانِ لیکچر ، استاد محترم  کوئی سوال کرتے  اور طلباء  اُسکا جواب دے چکتے   اور اگر اِس دوران،   استاد ِمحترم مجھ سے پو چھ ہی لیتے کہ بھائی تمھارا کیا خیا ل ہے؟  تب میں اچانک (ذہنی طور پر)  کلاس میں واپس آتا  اور مجھے سوال  ہی نہ پتہ ہوتا ۔ اس  پر سارے ہنس پڑتے ، سوائے اے ۔ڈی کے۔ایکدن  اُس نے پوچھ ہی  لیا کہ کیا پریشانی چل رہی ہے  ؟ میں نے کہا کوئی نہیں۔ بولا دوست بھی کہتے ہو  اور جھوٹ بھی بولتے ہو اور وہ بھی میرے پیارے سے  منہ پر!  میں مسکرا دیا ۔آئیں، بائیں اور شائیں سے کام چلا لیا۔

سب سے کم نوٹس  اے۔ ڈی لیتا تھا۔ میں نے اُسکی وجہ پوچھی  تو اُس نے کہا، دیکھو!’’  لیکچر  سننے کیلئے ، کتاب پڑھنے کیلئے اور اسائنمنٹ لکھنے کیلئے ہوتی ہے ، سمپل از ڈیٹ ‘‘اس نے کندھے اُچکائے!   اُسکی ہر بات مختصر اور جاندار ہوتی  اور مجھے لا جواب  کر دیتی تھی۔  وہی مجھے پہلی مرتبہ اپنے ساتھ مین  (مرکزی)  لا ئیبر یری میں لیکر گیا اور ڈھیر ساری کتا بیں  لا کر میرے سامنے  میز پر ڈھیر کر دیں۔میرے بولنے سے پہلے ہی وہ خود  بولا!  ’’یہ وہ کتابیں ہیں جن کے حوالے  آج کے تما م لیکچرز میں دیئے گئے ہیں۔ میں صرف بندوں ، اُنکے کارناموں اور کتابوں کے نام ہی نوٹ کرتا ہوں۔  اس نے ایک کتا ب پکڑی اور بولا، اِس  کو غور سے دیکھو،  اس کا نام پڑھو، مصنف کا نام پڑھو،   فہرست مضامین  دیکھو،  اور آج   اس میں سے  بیان شدہ حوالے کو کھول کر پڑھو۔۔۔تو تمھاری اس کتا ب سے دوستی ہو جائے گی۔اور پھر  تمھیں  یہ کبھی نہیں بھولے گی۔  5 /10 منٹ لگتے ہیں اور ایک گھنٹے میں تم  5 ۔6  کتابوں سے دوستی کر سکتے ہو‘‘۔ میں مبہوت اُسکی طرف دیکھ رہا تھا۔ میر ےلئے تو وہ سُقراط  ہو تا جا رہا تھا اور میں بُقراط!

دِن بدن ،میری طرح، ہماری ہم  جماعت  لڑکیوں کا گھیرا بھی ، اُسکے گِرد ، تنگ ہو رہا تھا۔ وہ اُنکے لئے،    انگریز  ی  کے  ’ڈاکٹر‘  کے طور پر اُبھر رہا تھا۔  میں  گھر سے لائی ہوئی ، بھائی جان ناصر احمد کی ، تاریخی  ڈکشنری ، جو اپنی  ضخامت ،  جسَامت اور عمر ،  گو یا ہر لحاظ سے قدیم اور معتبر تھی ، کیساتھ کافی وقت گزاراتا تھا ور الفاظ ڈونڈھنے  کی کو شش کرتا لیکن  پوری طرح کا میابی نہ ہوتی۔ میں نے  جب اُسکو یہ دکھائی تو حسب سابق ، کھلکھلا کر ہنس رہا۔ اور  بولا ہر’اولڈ‘ چیز ’گولڈ‘ نہیں ہوتی سر!۔ زمانہ چال قیامت کی چل گیا اور آپ  ابھی تک ، فیروز سنز کی ’فیروزاللغات‘ سے چمٹے ہوئے ہیں۔ نہ جانے ،  چمٹ جانے کی یہ عادت تم کب چھوڑو گے؟ اُس نے مجھے چھیڑتے ہو ئے کہا!   مزید کہا کہ  میاں صاب ! لائیبریری سے آکسفورڈ  یونیورسٹی  کی لرنرز  ڈکشنری استعمال  کیا کرو۔

ابھی  دو چار روز ہی گزرے تھے کہ  اے ۔ ڈی نے ایک میٹنگ  کال کرلی۔ ہم5/6  لوگ ایک کمرے میں  اکٹھے ہوئے۔ اور اس نے ایک لیکچرر کیطرح ہم سب کو،  آنیوالے پروگرام کے بارہ میں بریف کرنا شروع کر دیا۔اور  بلیک بورڈ پر ، ایک کا میاب  نقشہ نویس اور  ایک   فلمی  ڈائریکٹر کی طرح  پورا  پلان سمجھانے لگا ۔ کہ کون کیا  اور کیسے کرے گا؟ کون  کلاس سے ڈنر کیلئے   پیسے اکٹھے کریگا؟ وغیرہ وغیرہ۔ ہم سب، آپس میں، گھل مل سے   گئے تھے۔ ہمارا گروپ،  اب بڑھتا ہی جا رہا تھا۔  مجھے جو،  جو اچھا   لگ رہا تھا  وہ  میرے ذریعے ہی ,  اے۔ ڈی کیطرف   بڑھتا  جا رہا تھا۔ اکثر ایسا ہوتا  کہ  لائیبریری میں ، آخری کونے والی  میز  پر ، وہ ’راجہ اِندر‘ بنا اپنی داسیوں کے درمیان اکیلا بیٹھا ہوتا۔  اور ہم دوسری  میزوں پر بیٹھے،  کَن اکھیوں  سے اُسکی طرف دیکھتے  رہتے اور اُس  کی قسمت پر رشک کرتے ۔ جہاں   ایک خاص  حلقہ میں،  اُسکی مقبولیت بڑھ رہی تھی  وہاں  دوسری طرف   کچھ لوگ  ، اُسے نا پسند بھی کرنے لگے تھے۔  اُس سے قربت کی وجہ سے ، اکثر لوگ مجھ  سے اپنے دل کی بات کہہ دیتے تھے۔ اس میں  طلباء کے علاوہ ،   لائیبریری اور نچلے درجہ کا   سٹاف   بھی شامل ہو رہا تھا۔

میں نے جب  اُسے، اِس بات کیطرف توجہ دلائی تو بولا۔ لوگ  تو جلتے ہیں ، جلنے دو۔تم تو جانتے ہو کہ  لڑکیاں تو  اپنے کا م سے میرے پاس آتی ہیں۔میں اُنکی راہنمائی اور مدد کر دیتا ہوں اور بس! میں نے کہا کہ باہر کیفے میں بیٹھ جایا کرو۔ بولا ، واہ صاب واہ!  اپنے ہی بھائی کو  خود کشی  کا مشورہ دے رہے ہو!  تم بچاو گے مجھے جمیعت سے؟ گھر کی با ت گھر میں ہی رہنے دو۔

خیر ہمارے   جوابی  عشائیے  کا پروگرام  خوب کا میا ب رہا اور  سینیئرز کے مقابلہ میں زیادہ  جاندار رہا۔  اے۔ ڈی  نے اساتذہ کو بڑے سُشتہ  مزاحیہ انداز میں، انہی کی نقلیں اتار کر  سٹیج پر بلا یا جو بہت  سراحا گیا اور اسا تذہ  اُسکے مزاحیہ جملوں کو  اپنی کلاسوں میں بھی  دہراتے رہے۔  شاعری،  گانے اور چھوٹے چھوٹے مزاحیہ خاکوں میں ، جو اس نے خود لکھے اور  ترتیب وئیے تھے  اور اُن میں مرکزی کردار بھی  ادا کیا تھا  ، نے پروگرام کو یا دگار بنا دیا تھا ۔ مجھے بھی اُس نے ہر دوسرے   ایکٹ (پروگرام) میں شامل کر رکھا تھا۔  اُسکی صلاحیتوں کی  سالِ دوم نے بھی خوب  داد  دی اور سہیل وڑائچ نے تو  ااس پروگرام کو ’’اے۔ڈی شو‘‘ کا نام دے دیا ۔

اگلے روز کلاس میں ، کسی کا بھی پڑھنے کو دل نہیں تھا۔  ٹیچرز بھی گز شتہ  شب کے پروگرام   کی کامیابی سے بات شروع کرتے اور اے۔ڈی پر بات ختم کردیتے۔اے ۔ ڈی کا ستارہ عروج پر تھا۔کلاس  میں موجود  اُسکے ناقدین کی رائے بھی اُسکے متعلق مزید بہتر ہوئی۔

میں نے اُس سے پو چھا ، تم  اتنا کچھ   کیسے   کر  سکتے ہو؟ کیسے؟ ذرا اپنے، اپنے  گھروالوں  اور والدین  کے بارہ میں تو کچھ بتاو؟  وہ  کچھ بتا نے کے موڈ میں  تھا  اور نہ  میں آج  اُسکو   چھوڑنے کے موڈ میں!  خیر، میرے اصرار پر  اُس نے جو  بتا یا  ، میں اُس سے مزید حیران وپریشان ہو گیا۔میرا خیال تھا  کہ وہ  ایک امیر اور انتہائی پڑھے لکھے گھرانے کا فرد اور اپنے بہن بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا ہو گا۔ اِسی وجہ سے ہی تو وہ  اتنی سمجھداری کی باتیں کر تا ہے  اور ہر فن مولا  بنا ہوا ہے۔  لیکن اُس نے بتا یا کہ وہ   گھر میں سب سے بڑا اور  یونیورسٹی میں آنیوالا  اپنے گھر کا پہلا  فرد ہے۔ اُسکے والد میٹرک پاس جبکہ اسکی والدہ تو سرے سے  پڑھنا لکھنا  ہی نہیں جانتی۔ اُسکا ایک چھوٹا بھائی، اپنا معمولی سا کاربار کرتا ہے جبکہ ایک بھائی  فوج میں نیا نیا افسر ہوا ہے۔ میں نے جھٹ کہا کہ یہ ہوئی نہ بات ! فوجی افسری  اور کاکول اکیڈمی کی رنگین  زندگی کی  جھلک  ہی تو ہے جو تمھاری زندگی میں ہر سُو نظر آتی ہے۔ اس پر وہ ہنس دیا اور ہمیشہ کیطر ح،   جیب میں سے ایک سیگریٹ نکالا ، اسے بغور دیکھا ، سہلایا اور پھر ، پُر سکون انداز میں اُسےسلگا  کر ایک لمبا  سا کش لیا ۔   ایک سکوت کے بعد، بولا،  نعیم صاحب ! فوجی  جوان  ہو یا افسر، اُسکی زندگی  قوم اور ملک  کی حفاظت کے لئے وقف ہوتی ہے۔ وہ اپنی جان اور زندگی ہماری خوشیوں کیلئے  گروی رکھ دیتے ہیں کہ جب بھی وقت آئے  اور ضرورت  پڑے، اسکو تُڑوا (کیش کروا) اپنے ملک کو بچا لیں۔ کہاں کی افسری اور کہاں کی عیاشی! ویسے میرا بھائی مجھ سے چار سال چھوٹا ہے۔ میں نے اُس سے کیا سیکھنا ہے بلکہ وہ مجھ سے سیکھتا ہے۔   میں مبہوت اُسے دیکھتا رہ گیا !

اسائنمنٹس کی مارکنگ  اور نتائج کے بعد ، کلاس میں  مقابلے اور پڑھائی کا دور شروع ہو گیا تھا۔ میری اور فراز انجمؔ کی   پوزیشن  کا فی بہتر رہی تھی ۔فراز  پست قد کا ،اُردو سپیکنگ،  ایک بہت  ہی سلجھا ہو ا لڑکا تھا۔ اُسکا خاندان  نہ صرف انتہائی پڑھا لکھا بلکہ اعلی ٰ سرکاری ملازمتوں پر فائز تھا۔ اسکے والد پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری تھے جبکہ دو بڑے  بھائی بھی سول سروس میں تھے۔  یہ لوگ انتہائی دیانتدار اور سادہ مزاج تھے ۔ مزنگ  کے  قریب ، گورنمنٹ آفیسرز ریزیڈینسنز (جی ۔او ۔ آر ۱۱ ) میں   رہتے تھے لیکن ، بیوروکریسی کی   روایتی   اکڑ فوں اِنکے پا س  سے بھی نہ گزری تھی ۔ اِسی وجہ  سے یہ ہمارے کسی کا م نہ آسکا۔ یہ ، ہمارے شعبہ کے ڈے۔ سکالرز (لاہور کے مقامی ،  یعنی روزانہ گھر سے آنیوالے طلبا ء) کا لیڈر تھا۔بی ۔اے گورنمنٹ کا لج لاہور سے کیا تھا۔ اِسکی انگریزی ، ہم سب سے اچھی  تھی لیکن طبیعت   اور مزاج کی وجہ سے،  اپنے تک ہی محدود رہتا تھا۔ایم ۔اے پاس کرنے کے بعد ، صرف ہم دو نوں  ہی  پنجاب پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے ذریعے بطور  لیکچرر منتخب  ہوئے تھے۔

میرے اور  اے۔ ڈی کے  نمبروں میں کو ئی خاص فرق نہیں تھا۔ میں نے  ایک مرتبہ اُس سے پوچھا کہ  میں پڑھائی میں  تم سے زیادہ   محنت کرتا ہوں  لیکن  پھر بھی تم    سے آگے نہیں نکل سکا ۔ تھوڑا  سا سر کھجانے کے بعد بولا۔ ڈئیر ! تم ایک بہت محنتی  لڑکے ہو۔  لیکچر سنتے ہو، پھر جا کر پڑھتے ہو، پھر نوٹس بناتے ہو اور پھر امتحان سے پہلے بھی  خوب پڑھ کر پیپر حل کرتے ہو!  اگر لیکچر یا دوسر ی باتوں کو  پہلی دفعہ ہی ،  غور سے سنو اور اُنکو سمجھنے کی کوشش کرو تو  معاملات انتہائی آسان ہو جاتے ہیں۔ ہم لو گ بحیثیت ِقوم،   کلاس ، جمعہ کے خطبہ اور دیگر  مجالس میں جسمانی طور پر  تو  بڑے شوق  سے گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں لیکن ذہنی طور پر حاضر  نہیں ہوتے۔  تمھارا بھی یہی مسلئہ ہے۔ اپنی اس عادت کو بدلو،  پلیز!  اس نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا اور میں ، حسب سابق ، اپنا سا منہ لیکر رہ گیا۔

کلاس شروع ہوئے ابھی چند روز ہی ہوئے تھے ایک پٹھانوں کیطرح، سرخ و سپید رنگ کا ، بارِیش ،  خوبصورت نوجوان  عبدالباسط مجاہؔد   ،  مخصوص نشست پر ، بطور ناظم شعبہ تاریخ ، کے داخل ہوا۔ اِس سے قبل ، محض کنٹرول قائم رکھنے کی خاطر ایک  شخص محمد عابد نامی  کبھی کبھی ہماری کلاس میں آتا تھا۔ اس پر مستزاد(اضافہ) یہ کہ  باسط کی الاٹمنٹ میرے کمرے میں ہو گئی۔ شروع میں تو میں بہت گھبرایا  لیکن بعد میں یہ بہت اچھا ثابت ہوا۔ باسط کا  داخلہ تو جمیعت کی سفارش پر ہوا تھا لیکن وہ اِس قبیل کا آدمی بالکل بھی نہیں تھا۔ وہ بھی فراز کیطرح انتہائی پڑھی لکھی اور نیک صفت خاندان  سے متعلق تھا۔بلوچ  النسّب تھا۔  اُس کے  والد، قاری نور محمد صاحب مرحوم  چک لالہ میں کسی ملٹری سکول میں اسلامیات اور قراٗت سکھاتے تھے۔ دو بھائی اعلی ٰ فوجی آفیسر تھے۔  ایک  فضائیہ میں سکوارڈن لیڈر جبکہ دوسرے میجر تھے۔ ایک بہنوئی بھی سکوارڈن لیڈر تھے۔  جنرل ضیا ء الحق اور جنرل   حمید گُل    کے  چاہنے والے   اور  بہت مذہبی  اور دیندار گھرانہ تھا ۔   تقریبا ً دو سال ہم ایک ہی کمرہ میں رہے۔

باسط کا ڈومیسائل بلوچستان  کا تھا ۔ لہذا ، اُسکی ملازمت   بطور لیکچرار، لس بیلہ کالج  میں، ہم سب سے پہلے ہو گئی تھی۔ اُس سے باقاعدہ  خط و کتا بت اور رابطہ رہا۔ اس نے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے، ماضی کے اُس واقعہ پر بھی  معذرت کی جسکا ذکر ذیل کی سطور میں آنیوالا ہے  ۔ مجھے ایک مرتبہ اسلام آباد میں ، اُن کے گھر میں  بھی رہنے کا اتفاق ہوا تھا ، با وجود اِسکے کہ وہ جانتے تھے کہ میرا تعلق جماعتِ احمد یہ سے ہے۔ 7۔8 سال بعد ہم ایک مرتبہ پھر ، ایم ۔فل  کیلئے اسی شعبہ میں اکٹھے ہو ئے۔ تعلقات مزید برادرانہ ہو گئے۔

فخر عباس جعفرؔی اور الیاس  چٹھہ میر ے گرائیں (میرے شہر سے) تھے۔ آہستہ آہستہ ہماری دوستی گہری ہوتی چلی گئی۔ فخر عبا س کلاس میں ’پرنس ‘کے نام سے جا نا جا تا تھا۔ کلاس میں سب سے خوبصورت اور خوش لباس  لڑکا تھا۔ جب تک میں   ، اُسکے گھرسے ہو نہیں آیا تھا ، اُسکی اصلیت سے کو ئی بھی واقف نہ تھا۔ وہ رجائیت پسند (خیالی دنیا میں رہنے والا) تھا۔ اس نے ، بر سرِ کلاس و اساتذہ  کو یہ  تعارف  کروایا تھا کہ وہ رئیسِ ونیکے تارڑ (حافظ آباد کا نواحی قصبہ )ہے۔ وہ گاؤں  میں اپنی زندگی اور رہن سہن  کا وہ رومانوی نقشہ پیش کرتا تھا، جو اردو ادب میں ، جاگیردار کا لائف سٹائل تھا۔ اُسکا لباس ،اُسکی   گفتار اور اُسکے اطوار ا، سبھی اُسکی  سچائی کی  گواہی  دیتے نظر آتے تھے ۔  لوگوں کو  توکوئی  شک نہیں گذرا اور ہمیں یقین نے اپنے قریب  پھٹکنے  تک نہیں دیا۔  کیونکہ ونیکے تارڑ    تو کیا   ہم تو’ کو لو تارڑ‘ اور ’رسول پو ر تارڑ‘  تک کے تمام قصبات اور اُسکے باسیوں سے اچھی  طرح آشنا تھے۔ گزشتہ کئی صدیوں سے یہاں تارڑ وں کے خاندان مالک زمینداراور رئیس چلے آ رہے ہیں اور اُنکے آباء کے ناموں سے وہاں کے، غیر تارؔڑ  لوگ ، تو ہل جاتے ہیں، یہ جعفرؔی صاحب کس کھیت کی مولی تھے ؟ خیر جیسے تیسے کر کے ، جعفرؔی نے ہمیں چُپ کا روزہ رکھنے کو کہا اور خود لگے کُھل کھیلنے!  اُنکی حقیقی زندگی بڑی  مشکلات سے عبارت تھی۔ انکی  ایک  ہمشیرہ  ، جسکی شادی  ایک مقامی زمیندار سے ہوئی تھی، اِن کا خرچ اُٹھا ارہی تھی  اور کپڑے لنڈابازار سے لیتے تھے۔ پا نچ مرلے کی ’حویلی‘ کی نہ تو دیواریں تھیں اور نہ ہی دیودار( لکڑی )کے ستون و دروازے!    اصل میں ، مستنصر حسین تارؔڑ ، اشفاق احمد، بانو قدسیہ ، فیؔض و فراؔز   وہ  ملزمان  تھے جنہوں نے جعفرؔی  صاحب کو رجائیت پسند بنادیا تھا۔  اِسکے علاوہ ، صوفی ازم سے کچھ واسطہ ، انکے والدِمحترم مرحوم کو رہا تھا۔ جسکی الف ۔ب کا  انِکو  بھی کچھ علم تھا۔  اُس  ابتدائی اور قلیل  ’روحانی ‘ علم  کو ہر طرح   سے آزمانے کے باوجود،  بد قسمتی سے گھر بیٹھے ،  دولت مند ہونے کا کوئی نسخہء کیمیا اِن کے ہاتھ نہ لگ سکا۔

ایم۔اے کےبعد بھی، میرا ان سے گہرا رابطہ رہا۔ اُسکی وجہ ، اِنکی  غیر مطمئن  زندگی تھی ۔    کبھی لاہور، کبھی اسلام آباد اور کبھی ونیکے تارڑ! حافظ آباد چونکہ درمیان میں پڑتا  تھا ۔ لہذا، اکثر آنا جا نا رہتا تھا۔ کاش میں اِنکے کا م آیا ہو تا! لیکن اُسکے لیئے میرا ’’شاہجہاں ‘‘ ہونا لازمی تھا!!

الیاس  چٹھؔہ کا تعلق بھی ایسے ہی ایک  غریب  گھرانے سے تھا ۔ البتہ اُسکی ’ذات‘  کی پکُارنے،  اُسکا قد ، اُسکی ا صل حیثیت  سے،   بُلند  رکھنے میں ، اُسکی بہت مدد کی۔ سوائے ایک دو واقعات کے ، جب اُس نے بڑے  مشکل حالا ت میں میر ی  بڑی مدد کی،  جس پر میں ہمیشہ اس کا احسان مند رہوں گا،  اُس نے چٹھؔہ ذات کا مقام میری نظروں سے  گرانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اُسکے ایک دو کزن بھی، ہاسٹل میں،  اُسکے ساتھ رہتے تھے۔ مُفت خوری  ، چُغل خوری، شر پسندی ،  عیب جوئی  اور مطلب براری  اُنکا دِل پسند مشغلہ تھا۔

معاملہ کچھ یوں ہوا کہ سال دوم میں، کئی وجوہات کی بنا پر ، کلاس میں تین گروپ بن گئے تھے۔ ایک ہمارا،’’معتدل مزاج‘‘،   دوسرا لاہوری اور فیصل آبادی لوگوں کا’’شہری‘‘ اور تیسرا دیہاتی لوگوں کا۔ پہلا گروپ لیڈر، اے ۔ڈی، دوسرے کا عاصم ؔ اور تیسرے کا لیڈر چٹھؔہ تھا۔ کلاس میں،  ہونے والے ہر ایشو، علمی  یا غیر نصابی، سب معاملات میں ، اِن کے مابین کھینچا تانی ہونے لگی تھی۔ گروپ بندی کے اس  کھیل  سے  ہمارے سینئر اور جونیئرز  تک متاثر ہو رہے تھے۔  چٹھے کا گروپ، کسی معاملے پر   کبھی ہماری سپورٹ کر تا اور کبھی حزب مخالف  کی۔

اس دوران، عمران بدر ، جو حافظ آباد سے ہی تھا ، اور ہمارا جونیئر تھا ۔ وہ ’[شہری ‘‘ گروپ کے ہتھے چڑھ گیا۔ اُس  بیوقوف کو ،    یونیورسٹی میں ہماری عزت ہضم نہیں ہوئی تھی  ، بجائے اِسکے کہ وہ خوش ہوتا کہ ضلع حافظ آباد سے تعلق  رکھنے والے، نعیم ، اے۔ڈی، فخرعباس  اور چٹھؔہ،  پورے شعبہ تاریخ   پر اپنی علمی ، ادبی اور دیگر صلاحیتوں کے بل بوتے پر چھائے ہوئے ہیں، اُس نے  اُلٹا، ہمارے مخالفوں کو جا کر یہ بتا دیا کہ یہ تو مرزائی ہے!  بس پھر کیا تھا۔ نفرت اور بائیکاٹ کا طوفان امڈآیا ۔ اصل میں سب کو ہی  یہ حقیقت  جان  کر  دلی دکھ اور تکلیف پہنچی تھی ۔ہماری کلاس کا   ایک  وفد، صدر  شعبہ اسلامیات و  خطیب جامع مسجد یونیورسٹی  آف پنجاب  کے پاس  بھی گیا اور فتویٰ پوچھا۔ انہوں نے کہا  کہ ’’جو کچھ بے خبری میں ہو گیا ۔ اُسکا تو تم پر کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ، اب احتیاط لازم ہے۔ اُسکو ہاسٹل سے نکالو اوراُسکا بائیکاٹ کرو‘‘۔ جیسے ہی  یہ لوگ، ہاسٹل پہنچے،  تو چٹؔھہ، میرے اور اُنکے درمیاں  کھڑا ہو گیا  اور  بر ملا  میرے حق میں بیان داغ دیا  اور  علی الاعلان کہا کہ جو کوئی بھی  اِسکو ہاتھ لگائے گا، تو پھر اُسکی ماں اپنے کانوں کو ہا تھ لگائے گی!  بس پھر کیا تھا۔ سب جھاگ کیطرح بیٹھ گئے۔ ماحول میں بہت تلخی گُھل چکی تھی۔  فائنل امتحانات  چند روز میں شروع ہو نیوالے تھے، لہذا،   ہاسٹل چھوڑنے میں عافیت تھی۔

اللہ تعالی ٰ کو حاضرنا ظر جان کر حلفاً کہتا ہوں کہ  مجھے یہ آفر بھی دی   گئی  کہ’’  اگر میں ’’مسلمان‘‘  ہو جاؤں   تو مالی امداد بھی ملے گی، ڈ یپارٹمنٹ کی جس لڑکی سے چاہوں ، شادی بھی کروانے کی کوشش  کریں گے اور  یہ کہ سب سے پہلے میری ملازمت کا  بھی ، سب مل کر انتظام کریں گے‘‘۔میں نے ارشد علی سے کہا کہ کیا تمہیں  تاریخِ اسلام میں، اِس سے ملتی جلتی کوئی بات   یا د نہیں آئی؟ بولا نہیں۔   پھر میں نے  اُسکو بتا یا اور پوچھا کہ کیا اب بھی تم لوگوں کی آنکھیں نہیں کھل رہیں؟  سوائے  ایک دوسرے پر افسوس  کرنے کے ، ہم دونوں کی سمجھ میں اور کچھ نہ آیا۔اِس واقعہ کے بعد  ہم صرف، اپنے  پہلے پرچے والے دن اکٹھے ہو ئے تھے۔ چند لوگوں نے فقرے کسَے، ٹیچی ٹیچی کے آوازے بھی لگائے۔سب تنگ کرنے والے، کسی نہ کسی رنگ میں میرے اور اے۔ڈی کے زیر ِاحسان تھے۔     لیکن  اب معاملہ اُنکے ’’ایمان ‘‘ کا تھا۔ اگلے پرچے  میں ، مَیں امتحانی ہال میں، اُسوقت داخل ہوا، جب سب لوگ  نشستیں سنبھال  چکے تھے اور اِسی طرح پرچے کا  وقت ختم ہونے سے 5 منٹ پہلے ہی باہر نکل آتا۔اِس حکمت عملی سے،  میں نے، دوران امتحان،  اپنی نئی  ٹینشن میں کافی کمی کرلی تھی۔ امتحانات ختم ہوئے اور سب اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ وہاں اِکلاپّے میں ، سب کو اپنا  اور دوسروں کا نتارا کرنے کا موقع ملا۔  کیا پا یا اور کیا کھویا؟ یہ   جاننے کا موقع ملا۔ جب اپنی اپنی الگ  رائے اور سوچ کو مرتب کرنے کا موقع ملا تو میر ے پتے پر خطوط آنے شروع ہو گئے۔ باسؔط، ارشؔد، عبدالحمؔید، جعفرؔی ، یونسؔ وغیرہ سب کے خطوط آج بھی میر ے پاس محفوظ ہیں۔ سب  نے اپنے کئے پر معافی مانگی ۔ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں آئے گئے۔ سب پہلے جیسا ہو گیا۔ اللہ سبحانہ وتعالی ٰ اپنی پیاری کلام میں فرماتا ہے کہ ہم دنوں کو ادلتے بدلتے رہتے ہیں۔ یقیناً، اِس میں عقلمندوں کیلئے بہت ساری  نشانیاں ہیں۔ الحمدللہ علی ٰ ذالک !

ہماری کلاس میں دو ارشد تھے ۔ ایک ارشدعلی  ، چھوٹے قد کا  وزیرستان  سے اور دوسرا ملک محمد ارشد لمبے قد کا ملکوال، چکوال سے۔ دونوں سے میرا اچھا تعلق تھا۔ بلکہ چھوٹے  ارشد   کو  تو  لوگ میرا  دُم  چھلّہ بھی کہتے تھے۔ اُسکی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک تو وہ عادتاً اپنے پیسے ، انرجی، محنت اور اشیاء کو بچا کر رکھنے کا رسیا تھا  اور دوسرے وہ   بہت  بڑا طفیلیہ  (پیراسائیٹ)  تھا۔ مثلاً میری کتب ، میرے نوٹس اور اسائنمنٹس ، ہر چیز ، ہروقت اُسکی دسترس میں تھی۔ مجھے اور اے ۔ ڈی کو  اس  کا  صرف فائدہ یہ تھا کہ ہر قسم کی خبریں،  ہمیں ملتی رہتی تھی!!!

اُسکا قد، اسکی شکل ، واقعی   شاہ رخ خان سے ملتی   تھی  اور ہیر سٹائل اس نے اُس جیسا بنوا رکھا تھا  ۔ سادہ مزاج،  کمزور معاشی و معاشرتی شخصیت کا حامل  ارشد علی ، میرے احمدی  ہونے کا علم پا کر  میرے سامنے رو پڑاتھا۔ اُسی نے مذکورہ بالا  آفر، باسط ، حمید  ودیگر کی مشاورت سے میرے  سامنے رکھی تھی۔

ملک ارشد، دراز قد،کم گو اور ہیرو  شکل متوسط   طبقے کا نوجوان تھا۔ اُسکو  فیضؔ و فراؔز کا رومانوی کلا، م  کافی حد تک ازبر تھا اور تحت الّلفظ ، اچھے انداز میں پڑھ لیتا تھا۔ہماری ٹیم کا مستقل میمبر تھا۔ کبھی کبھی پڑھائی کے اوپر بھی بحث مباحثہ ہو جاتا تھا۔  صحیح معنوں  سپورٹس مین ُلک تھی ۔کرکٹ کا دیوانہ  اور مشہور تھا اِسکا جاوید ملک  سے یارانہ!

جاوید ملک کا قد کا ٹھ ،  شکل اور عقل، ہو بہو، ارشد علی  (چھوٹے)سے ملتی جلتی  تھی۔ صرف مالی لحاظ سے یہ  اُس سے بہت بہتر حالت میں تھا۔ اسِکے بھائی کسی دوسرے  ملک میں  برسرروزگار تھے، جسکی وجہ سے یہ نت نئے اور  فیشن ایبل کپڑے پہنتا۔ بال سیاہ، لمبے اور سنورے ہوئے ہوتے۔ بلا شبہ، ایک  خوبرو نوجوان تھا۔ لیکن ان دونوں ہیروز کی حالت، تامل فلموں کے ہیرو کیطرح تھی۔ جس طرح تامل فلم ، ہندوستان میں زیا دہ دیکھی جاتی  اور زیادہ پیسہ کماتی ہے لیکن اِسکے باو  جود، اُسکے ہیرو ، ہیروئین کو کون جانتا ہے؟

دونوں گلے میں سونے کی چین ڈالے، گلے کے بٹن کھولے اور ہاتھوں میں انگو ٹھیا ں پہنے، اپنی  ’قسمت ‘آزماتے رہتے تھے۔ کم از کم  اپنے  شعبہ تاریخ  میں  تو اِنکو کوئی کا میابی نہ مل سکی۔ دوسروں کی خبر ہم کو نہیں ہے مگر!

نوازش علی رانجھا، مُڈھ رانجھا ضلع منڈی بہاءالدین سے ایم۔این۔اے ، شاہ نوار رانجھؔا کا بھتیجا اور  رشتہ دار تھا۔ دُبلا پَتلا اور سانولہ سلونا۔ طبیعت اور مزاج کا دھیما ، میر ے ساتھ والے کمرے میں رہتا  تھا۔ اُسکی طبیعت  ، ایک  مخصوص  بیماری کی وجہ سے کچھ نا سازرہتی  تھی ، اِس  کا اثر اسکی  ہرچیز پر نمایا ں تھا۔ اس کا   ایک کزن محمد   نواز رانجھؔا ، ایف ۔سی کالج  سے ایم۔انگلش کر رہا تھا اور یہاں،  اِسکے ساتھ مفت رہائش  کے مزے اٹھا رہا تھا۔اُسکی آنکھیں بڑی بڑی اور  شکل میرے ایک جاننے والے فوجی افسر کیساتھ بہت ملتی تھی ۔ وہ اپنے زُعم میں ، بڑا انگریزی دان بنتا تھا ۔لیکن جب مجھ سے اور اے ۔ ڈی سے پالا پڑا تو تیر کیطرح سیدھا ہوگیا۔ اے۔ ڈی  کا بہت بڑا فین تھا۔ اُسکو اپنا گرو مانتا تھا۔ مجھے بھی نعیم بھائی،  نعیم  بھائی  کہتا نہ تھکتا تھا۔  بعد ازاں،اُس نے پنجا ب پبلک سروس کمیشن سے کسی  ایگزیکٹیو پوسٹ  کا امتحان پا س کر لیا تھا ۔عرصہ ہوا،  دونوں رانجھوں سے رابطہ نہیں ہے۔  محسن شاہنواز   رانجھا   (موجودہ  وفاقی  وزیر مملکت ) بھی اُنکا کزن اور لاء کا  سٹوڈنٹ تھا۔

فیصل آباد سے دو سورمے ہماری کلاس میں آئے۔ عاصم یونس اور محمد سعید!   عمومی طور ہر،  ہم  پنجابی جٹ لوگ تو  اتنے نخریلے اور لاپرواہ  ہیں کہ محض کسی کے لہجے ، زبان  اور لباس  کی وجہ سے ہی  فیصلے کر لیتے ہیں کہ کس کی عزت کرنی ہے اور کس کی نہیں۔تقوی ٰ، خاندانی نسب ،  وضع داری، احترام ِ انسانیت  اور بھائی چارے کے بنیادی  اسلامی و اخلاقی اصول ، برصغیر پاک وہند میں ، یا تو اولیاءاللہ نے  اپنائے یا پھرجماعتِ احمدیہ نے ہی سِکھائے ہیں۔بد قسمتی سے غیراحمدی  جاٹوں نے تو ذات پات کے غیرفطری و غیر اخلاقی   اصولوں کو ، ہنود کی طرح  خالص ہو کراپنا رکھا ہے۔  پنجاب  کیا پورے پاکستان میں ،ہم نے مہاجرین کی ہجرت،  انکی جانی ، مالی  و خاندانی قربانیوں کی جو بے توقیری کی ہے ، اُسکی مثال  ڈھونڈھنا بھی، میر نزدیک، ایک گناہ ہے کجا کہ ہما ری قومی تاریخ اِسکو ہجرتِ مدینہ سے  تشبیہ دیتے نہیں تھکتی۔ مشرقی  پنجاب  کے ، محنت کش اور باغیرت مسلمان راجپوتوں کو ہی لیں، ان بیچاروں کو محض  لہجہ و  زبان   کی بنا پر، مقامی پنجابیوں نے ہمیشہ تحقیر کا نشانہ بنایا۔ حالانکہ راجپوت قوم چاہے وہ ہنود تھے یا مسلمان، وہ  اپنی  زمینداری،  محنت کشی ، شجاعت، اور نسبی ثقافت میں جٹوں سے بھی افضل تھے۔یہاں ہم نے اُنکو  آرایئوں کے برابر بنا دیا۔   یہ تو ابھی کل کی بات ہے کی ضیاء کے خاتمے کے بعد،  90 ء کی دہائی  میں ہونیوالے پے در پے الیکشنوں کے نتیجے میں یہ لوگ سیاسی اقتدار میں آکر ، اپنا کچھ نام اور پہچان بنانے میں کا میاب ہوئے ہیں۔

خیر بات ہو رہی تھی عاصم اور سعید کی۔ اُس زمانے  میں، میری سوچ  بھی عمومی جا ٹوں کیطر ح ہی  تھی۔  میں ، اے ۔ڈی ، چٹھہ اور دیگر شمال وسطی، مقامی  پنجاب کا  ٹولہ، ہریانہ و جالندھر ڈویژن ،  سےآنیوالے اور   ’’ ہیگا  وا‘‘ بولنے والوں کا خوب ’’توا ‘‘لگاتے۔ ہمیں اُنکی بول چال کی وجہ سے،  اُنکی ہر چیز عجیب اور بے سرو پا لگتی تھی۔ ان کا  لڑکیوں سے بات چیت کرنا ہمیں بڑامعیوب لگتا تھا۔  آج  میں ، اِس رویہ کا بہت بڑا نا قد ہوں لیکن اس دور میں جوانی  تو دیوانی تھی۔ لیکن کچھ قصور اِن کا بھی تھا۔ یہ دونوں ’’نو دولتیوں‘‘ کیطرح اورکچھ اپنی اوقات سے بڑھ  کا م کرنے کی کوشش کرنا چاہتے تھے۔  پہلے روز سے ہی مجھے وہ نہ بھائے تھے۔ خدا  جا نتا ہے کہ وہ واقعی اچھے تھے یا بُرے،  پر وہ ہمارے نہ ہو سکے۔ فیصل آباد ڈویژن سے6 لڑکیاں اور3   لڑکے تھے۔ ان کی لڑکیاں  ہمارے گروپ میں تھیں، جن کا  اِن کو بڑا رنج تھا۔ یہی  وہ وجہ تھی  جسکی بنیاد پر ، انہوں نے ، سال ِدوم  میں، لاہوری  ’ہم خیال‘ لو گوں کو ساتھ ملا کر اپنا الگ گروپ بنا  نے کی کوشش کی ۔  شعبہ  و ہاسٹل کی سیاست ہماری تعلیم و تربیت کا ایک لازمی جزو بن چکی تھی۔ اے۔ ڈی کی  وجہ سے میر ی پو زیشن نمبر 2 کی تھی۔ ہمارا گروپ،   لیڈرز کا گروپ تھا۔ تعلیمی قا بلیت کے لحاظ سے، غیر نصابی  سرگرمیوں کے لحاظ سے، ناظم  شعبہ( جمیعت)  باسؔط اور اساتذہ   کے اعتماد کے لحاظ سے ، ہم  بر تر اور مضبو  ط  پوزیشن میں تو تھے لیکن   کسی کا چیلنج ہمیں  ہر گِز، گوارا نہ تھا ۔

لہذا ہم نے ،  عاصم اور سعید، جو اِس  اپوزیشن کے سر غنہ تھے کو خوب  اور مزیدار طریقوں سے  ایسا تنگ کرتے کہ  وہ  بیچارے رو دیتے۔ ’تنگ کرنیوالی ‘ ہماری اِس حکمت عملی کا  انچارج  ہمارا ایک ممبر(جسکا ذکر اوپر گزر چکا ہے)تھا ۔ دوسرا، ممبر اُنکے ساتھ رہ کر خبر لاتا، ہم  شام کو  میٹنگ کرتے اور اُنکے کا م کا  توڑ سوچتے اور پھر کامیابی سے اپنے مقاصد حاصل کرتے۔ اگلا سارا دن انکو کلاس میں ناکامی پر آوازے کستے !

حافظ عبدا لصبور  اور محمد اکمل دونوں کہوٹہ سے آئے تھے۔ دونوں کے داخلے ، غیرنصابی رعائیتوں کی وجہ سے ہوئے تھے۔ سادہ لوح، متوسط طبقہ سے متعلق تھے۔ ہمارے گروپ میں ہی بیک بینچرز تھے۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا تھے کہ  حفظ اور کہوٹہ سے آنے کی وجہ سے اُنکی اضافی تکریم کی جائےگی۔ اے ۔ ڈی نے واضع کر دیا تھا کہ ان دونوں باتوں کی وجہ سے ، آپ اپنا حصہ ٔتکریم (داخلے کی صورت میں) پہلے ہی  وصول کر چکے ہیں ، لہذا اس سے زائد کی توقع ، ہم سے عبث ہے۔ایک اور اہم بات بھی جب شرارتاً ایک مرتبہ چٹھہ نے حافظ صاحب سے ایک مشہور معاملے پر  خاص سوال کیا کہ   ایسا کیوں ہے؟ میں حافظ صاحب کا صرف جواب آپکو بتا دیتا ہوں جس سےآپ کو انکی ذہنی حالت کا پتہ چل جائے گا۔ انہوں نے جواب دیا’’ کہ اللہ تعالیٰ کی کلام ایک نو ر ہے۔ اور نور گرم ہوتا ہے اور یہ گرمی حفاظ کو اُس غلط کا م پر اکساتی ہے‘‘۔ لاحول و لا قوۃ  ۔

تا ہم باسط کی ان دونوں سے گہری دوستی تھی ۔محمد یونس عامر بھی اُنکےقریبی  ساتھیوں میں  سےتھے۔ ماضی میں دبئی وغیرہ میں کام کرنے اور انگلش ٹیچر رہنے  کے بعد  ایم ۔اے میں داخلہ لے کر اپنی سمجھداری کا ثبوت دیا۔

عامر، فیصل آبادی گروپ میں  اور  کلاس میں سب سے لمبے قد کے تھے۔ سالِ  اوّل   کے سالانہ امتحان  سے چند روز قبل ،  اچانک ایک دن خبر آئی کہ  اُنکی نومولود بچی  کا انتقال ہو گیا ہے۔انہوں نے رو روکر اپنا  بُرا حال کر لیا اور ہم شرارتیوں  نے اس بات پر ہنگامہ برپا کر دیا کہ اِس شادی شدہ نے، یہ بات خفیہ کیوں  کررکھی؟  اس پر مستزاد یہ کہ انکے حمائیتیوں نے  ساری کلاس کو   جنازے کیلئے  ماموں کانجن  جانے کی تجویز دے ڈالی۔  چونکہ باسط اُنکے ساتھ تھا لہذا گروپ کو بھی ساتھ جانا پڑا۔ یونیورسٹی بسوں کا انتظام عملی طور پرجمیعت  کے کنٹرول میں تھا۔ کرایہ کی مدّ میں 30 فیصد طلباء کو دینا ہو تا تھا بقیہ سرکاری کھاتے سے۔ وہ صرف  3۔ 4  روپے فی کس بنتا تھا۔ سوزو کمپنی کی نئی ، لمبی اور شاندار بسیں اور یونیورسٹی  کی  فلیگ کیرئیر بسوں کی ، ان عامیانہ سڑکوں پر عجب شان ہوتی تھی۔ لوگ امڈّ امڈّ کر ہمیں دیکھتے تھے۔    بس رات گئے  3 بجے روانہ ہوئی اور صبح 8۔9بجے وہاں    پہنچی ، نا شتہ کیا  اور نماز جنازہ میں شرکت کے بعد واپسی بزریعہ فیصل آباد  (جہاں عاصم و سعید وغیرہ کی طرف سے دوپہر کے کھانے کا انتظام تھا )  واپس  لاہور پہنچ  گئی ۔ ہم سب لوگ راستے میں ہنستے گاتے  اور لطائف سے دل بہلاتے رہے ۔ عامر بھی ہمارے ساتھ ہی  واپس آگیا تھا  کیونکہ اگلے روز پیپر تھا۔

اِسی طرح کے دو اور  واقعات بھی   ہوئے تھے، ایک  ہم جماعت انیلا  کے والد صاحب فیصل آباد میٰں  اور دوسرے نوازش علی  کے دادا منڈی بہاءالدین میں وفات پا گئے۔ لیکن اس دفعہ، ایک تو  پسماندگان ہمارے ہم سفر نہ تھے ۔ دوسرے امتحانات بھی نہ تھے۔  لہذا ہم سب نے بہت مزے کئے۔ہم نے ایسے سفروں  کو ’’افسوس پارٹی‘‘ کا نام دے رکھا تھا   ۔جوانی، دیوانی!

عبدالحمید گجر ہٹا کٹا اور گورا چٹا صحتمند لیکن دیہاتی نو جوان  تھا۔تعلق بھلوال سے تھا۔ اعتماد کی کمی اور رٹا لگانے کی زیادتی  کا شکار تھا۔ کافی عرصہ تو اُسکی آواز ہی نہ نکلی۔ پھر آہستہ آہستہ  پسرور سے آئے ایک انتہائی سادہ اور مسکین صورت ہم جماعت خالد حسین سے اُسکا تعلق پیداہو گیا۔ خالد حسین کو دیکھ کر ہمیں،  سوارمحمدحسین شہید، نشانِ حیدر  کی یا د آتی تھی۔  فرق صرف یہ تھا کہ موصوف شہیدسوار  محمد حسین  سے، صحت شجاعت، اعتماد اور ہمت وغیرہ وغیرہ ہر لحاظ سے کمزور تھے۔ حمید کے اُجڈ پن کی انتہا یہ تھی  کہ  اپنی  بدنی قوت کا  اظہار زور سے ہا تھ مار کر یا   کسی کی کمر میں بے دھیانی سے مکا مار کر  ، کرتا تھا۔ شروع میں ہر ایک نے برداشت کیا لیکن خالد کی طرف سے اس سے متعلق شکایا ت بدستور ملتی رہیں۔ ہم اُسکو منع بھی کرتے رہے۔ لیکن اُس نے ان باتوں کو سنجیدگی سے نہ لیا۔  لیکن ایکد ن اُس نے میری کمر میں ، اِس زور کا مکا مارا کہ میری  سانس ہی رک گئی۔سب مجھے سنبھالنے  لگے اور اسے برابھلا کہنے لگے۔ وہ تھوڑا گھبرا سا گیا تھا اور شرمندہ بھی  ہو رہا تھا۔  جیسے ہی مَیں کچھ بحال ہوا تو میں   اٹھتے ہی ہاتھ اُٹھائے اس پر جھپٹا کہ سب حیران ہو کر رہ گئے۔اس نے دفاع کے طور پر اپنا منہ اپنے بازووں اور ٹانگوں میں  اسطرح    چھپایا جس طرح  کچھوا اپنی گردن  اپنی جسم میں کھینچ لیتا ہے۔گو دوستوں نے بیچ بچاو کرواکر ، حقیقت میں ہم دونوں  ہی کی جان بچائی،  لیکن  اصل میں،  مَیں بلِّی مارنے  میں کا میاب ہو گیا  تھا۔   وہ شائد کبھی نہ کرتا، تاہم دوسروں کے اصرار پر ، اس نے سوری بول دیا اور ہماری دھاک ، یونہی مفت میں قائم ہو گئی۔ جسے چاہے مولیٰ دے!

زاہد حسین، لاہور سے  اور قراۃالعین جڑانوالہ سے تھیں۔  دونوں کی شکل  بھی ملتی  تھی۔ دونوں ہی چشمے لگائے، سر جھکائے اور نہ بولنے کی شرط پر  ہی  یہاں داخل ہو ئے تھے۔ ہم نے انہیں ’’جڑواں‘‘ قرار دے رکھا تھا۔   دونوں محنتی بھی تھے ۔اور ہر وقت سنجیدگی اور پڑھائی میں مگن رہتے تھے۔ لیکن  تواتر سے ہر  امتحان میں  ، بفضل تعالیٰ  ہمارے نتائج اُن سے بہتر رہے۔ واللہ ذو الفضل العظیم !

شہباز علی خالص  لاہوری لہجے اور وضع کا  تھا۔ڈسکو ڈانسر اور بلیک بیلٹ ہولڈر!6 فٹ قد اور شور شرابہ اور مستی میں رہنے والا!  ہم نے اُسکو متھون چکرورتی کا نام دے دیا تھا۔ پہلے دن جناب نے، بِلا  فرمائش  ہمیں کراٹے اور ڈانس  کا مظاہرہ ، وہ بھی مفت میں دکھا دیا  تھا ۔ بس پھر کیا !    جب بھی   ہم چاہتے  تو  انہیں’ نچا  ‘بھی لیتے اور تالیوں کی گونج میں ’گھما‘ بھی لیتے تھے۔لالہ موسی ٰسے ، شوکت جاوید کی شہباز سے بہت دوستی تھی۔ محمد رمضان بھی لاہور سے تھا ۔ تین یہ اور چوتھے زاہد کا  خوب’’ چارانہ ‘‘ تھا۔ بس ایک جیسے،ملتے جلتے   اور  بے ضرر  سے لوگ تھے۔جب شعبہ کی کرکٹ ٹیم بنی تو محمد رمضان بہترین کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا۔ اسی طرح  سعید ، چٹھہ ، عاصم ، ملک ارشد وغیرہ اچھے کھلاڑی تھے ۔ ہم نے ٹورنامنٹ کو بہت انجوائے کیا۔

مٹی سے اٹے چہروں، ٹاٹوں  کے ہم رنگ  لباسوں،  اور ہاتھوں  کو بیدوں کی چوٹوں سے  سہلاتے ہوئے، پرائمری  سکول سے جب   ہائی سکول پہنچے،  تو ایسے لگا کہ جیسے   حوالات سے جیل منتقل ہو گئے ہوں۔سنا  ہے کہ جیل جانے کے بعد ، قیدی کی زندگی میں کچھ سکون اور  حالات میں بہتری آجاتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی  کچھ ایسا ہی ہوا۔ کچھ کمروں میں کرسیاں، کچھ میں بینچ اور کچھ کلا سیں بدستور    زمین پر۔ گرمیوں  کسی کمرے میں پنکھا نہیں  تو سردیوں میں   کسی  کمرے  میں کھڑکی  اور دروازہ ناپید!

پانچ سال یہاں سزا کاٹنے بعد  جب   کالج پہنچے تو لگا  کہ ضمانت ہو گئی ہے۔ الحمدللہ! کرسی، میز، ڈیسک، بینچ ، لائیبریری،  کتاب اور اخبارکی دستیابی اورسب سے بڑی بات،  مارکوٹ سے نجات  مل گئی!  اُوپر سے عزت واحترام  کے دریچے گو یا  خود بخود   واہ ہونا   شروع ہوگئے۔ گھر، محلہ اور شہر  میں ہماری  پہچان  اور شناخت  قائم ہو ئی ۔  اسا تذہ کی طرف سے، ہم پر،  پہلی دفعہ اعتماد کے اظہار نے تو کایا ہی پلٹ دی۔  اس سے اگلی منزل یونیورسٹی  تھی۔ ہمارے زمانے میں،   وطن عزیز  کی آبادی  اور یونیورسٹی  میں پہنچنے  کی تعداد میں  شرح تناسب ، ایک لاکھ میں سے ایک  فرد تھی۔ سو اس طرح تو  ہم سِکّہ بند ، ’’لاکھوں میں ایک‘‘  قرار پائے! ماشاءاللہ!

خیر، آجکل تو سرکاری اور نجی (پرائیویٹ) یونیورسٹیوں کا ایک  لنڈا بازار گرم ہے۔ اور اُسی تناسب سے  تعلیم و تدریس  اور ڈگری کا معیار بھی گر گیا ہے۔

 

دنیاوی تعلیم کی آخری منزل،   برِصغیر  پاک وہند کی  عظیم،تاریخی اور ثقافتی مادرِعلمی ، المعروف  پنجاب  یونیورسٹی میں  پہنچ کر، ہم جیسے کہ  ایک ارضی جنت میں اتر آئے تھے۔ باوجود جمیعت طلبہ اسلام کی کمزور ہوتی ہوئی گرفت کے،   آزادی کے نئے مطالب سے آگاہ ہوئے۔ اپنی مرضی سے کھانا ، پینا ، سونا ، جاگنا، رہنا، سہنا، پڑھنا، لکھنا،کھیلنا، کودنا اور سیکھنا! سب اپنی مرضی سے !  جنہوں نے اپنی مرضی سے،  اس آ زادی سے مثبت فائدہ اٹھایا وہی حقیقی   فائدے میں رہے۔ اور جنہوں نے اِس آزادی میں بھی ، اپنے ذہنوں کو کم عِلمی، کم فہمی، کم ہمتی  کا غلام بنائے رکھا ، وہ  آدم کیطرح ، اِس جنت سے بھی نکال دئے گئے۔

اسکول و کالج کے برعکس ،حُسن اور رنگ   اِس جہانِ علم کو مزید  زینت  و  جمال  بخشتے ہیں۔  طلباء   اس مخلوط طرز تعلیم سے  ، دونوں فائدے ، ایک ساتھ حاصل کرنا  چاہتے ہیں۔ یہ خواہش،  یہ راستہ،   جو  بظاہر بڑا  آسان نظر آتا ہے  ، اتنا ہے نہیں!   شعور، پختہ عمر،  مشرقی روایات، خاندانی  گرفت، مذہبی  ماحول ،   معاشرے  اور جمیعت کا ڈر، اور خوف ِخدا ، وہ  عوامل ہیں کہ  سال اول و دوم کی کل تعداد 100  کے قریب ہو تی ہے۔  ان میں سے صرف  4 ۔6 لوگ تھے کہ جو مذکورہ بالا دونوں مقاصد میں کا میا ب رہے۔  یہ وہی جوڑے تھے، جو آسمانوں پر پہلے سے  قائم ہو چکے تھے اور یہاں تو صرف ایک دوسرے کو ڈھونڈنے آئے تھے۔ باقی ہلکی پھلکی  پھوار تو  قریباً ہر ایک پر پڑتی ہے اور موسیقی کی جلترنگ  تو ہر وقت جاری رہتی ہے۔

کافی لوگ ایک دوسرے کے اچھے دوست بنے۔ شعبہ میں ،سب سے زیادہ چاہا گیا وجود،  اے ۔ ڈی چوہدری  تھا۔شاہد کپوؔر کیطرح معصوم  ہیرو!   میں نے  ایک دن اُس سے پوچھ ہی لیا کہ  اِن پچاس  میں سے کون وہ   خوش نصیب ہے ،  جسکے ساتھ تو یونی کے بعد بھی رہنا چاہیگا؟   اُس نے بار بار پوچھنے کےباوجود بھی  کو ئی جواب نہ دیا۔ میں نے کہا کہ اگرکوئی نہیں ہےتو، تم یہ میلہ کیوں سجائے رکھتے ہو؟

بولا! میں کسی کے پاس  کبھی خود نہیں گیا۔ یہ سب  کسی نہ کسی کا م سے میرے پاس خود ہی چل کرآتے رہے ہیں۔اور میں نےکبھی کسی کو انکار نہیں کیا۔  میں نے اِنکو ہمیشہ سب کے سامنے،  لایئبریری میں،  اپنی تسکین کیلئے نہیں،  بلکہ اِنکی عزت واحترام کو قائم رکھنے  کیلئے،  سب کے سامنے رکھا!   تاکہ  ہر بات سب کے سامنے رہے اور  کسی کو کوئی غلط فہمی  نہ  ہو جائے ۔  میں حسبِ سابق،  اُسکا منہ تکتا  رہ گیا !   وہ  مزید  بولا!  میں نے  ایک ٹیوٹر  کیطرح  اِنکی مد د کی ہے۔ یہ  مجھے اچھے لفظوں میں یاد کرتی ہیں اور اُس وقت بھی کریں  گی جب ہم یہاں نہیں ہونگے!

جنتِ ارضی میں،  حوروں کے درمیان  اے۔ڈی چوہدری ہم سب سے جداتھا۔  صحیح ہے جو کسی نے کہا تھا جو دنیا کو چھوڑتے ہیں دُنیا ، اُسکے پیچھے بھاگتی ہے۔ اور جو دُنیا کے پیچھے بھاگتے ہیں ، دنیا کبھی اُن کے ہاتھ نہیں آتی۔

یہ ہماری، دو آخری ہم جماعت تھیں جو آج اُس سے ملنے آئی تھیں۔ پچھلے کئی روز سے اِس طرح کی الوداعی تقریبات جاری تھیں۔ میری آنکھیں ہر روز نم ہو رہی تھیں اور اے۔ڈی کا  چہرہ  صرف اُداس!میں  اُسکو دیئے جانے والے خطوط، کارڈز ، پتہ جات ، اور تحائف سنبھالنے میں لگا  رہتا  اور وہ  جانیوالوں کو نئے اور کامیاب مستقبل کی نوید دینے میں! آج وہ اکیلے میں بات کرنا چاہتی تھیں۔ اے ۔ ڈی نے سوری کہہ کر کہا کہ آخری روزمجھ سے ،  میرا  ہی  اصول   توڑنے کی توقع نہ رکھو!    تم تو جانتی ہو کہ میں اور نعیم کوئی دو نہیں  ہیں، بلا جھجک بولو!  آواز کی بجائے، کافی دیر،  دبی دبی سسکیاں اور آہیں سنائی دیتی رہیں ؟ بہت دیر بعد ، ایک بولی کہ کیا ہم ہمیشہ اکٹھے نہیں رہ سکتے؟  اپنی  اُدا س سی مسکراہٹ  کو  کام  میں لا تے ہوئے ، اُس نے وہی گھِسا پِٹا فقرہ بولا جو،  اِس سے پہلے وہ کئی ایک  کو کہہ  چکا تھا ۔ وہ اِن کے لئے نیا  تو تھا لیکن میرے لئے بہت پرانا !’’ تم جسقدر پیاری اور قابل ہو، مجھ سے بہت  اچھا  اور قابل  مستقبل  تمھارا منتظر ہے۔ انشاءاللہ ! اپنا خیال رکھنا!‘‘ ہمارا دھیان ایک کی طرف تھا ۔ اتنے میں، دوسری  پہلی سے بھی زیادہ  گہری آہ بھر کر روتی ہوئی، سڑھیوں کے ایک کونے میں  جاکر ، قدرےبلند آواز میں  رونے لگی۔اے ۔ ڈی اور پہلی والی نے اُسکو دلاسہ دیا اور ہاسٹل چلنے کو کہا! انکے روانہ ہونے سے میری تو جان میں جان آئی ۔

آج پہلی دفعہ،  وہ مجھے  اکیلا، اداس اور  ٹوٹا ہوا سا  لگ رہا تھا۔ اُسکے ہاتھ ، گھٹنوں پر رکھے، جھکے ہوے اور خالی  تھے ۔ وہ  ایک  خوبرو اور قابل ترین نوجوان  اور زندہ دل انسان تھا ۔ نہ جانے کیوں دیوتا  سا بنا  رہا ۔ ہم سب اُسکے معترف تو بن گئے تھے لیکن اُسکے رازدان نہ بن سکے تھے۔ علم و فن  کے شہد سے  بھرے اِس  چھتّے نے، ہم سب کو کچھ نہ کچھ دے  کر،  شائد، اپنا  سب کچھ ہی  دے دیا  تھا۔وہ گُپت تھا اور گم  ہی ہو گیا ۔ہر کوئی سمجھتا تھا کہ وہ میرے ذریعےسے  اُسکا پتہ  پا لے گا۔  اورجب ہم آخری مرتبہ یونیورسٹی  سے نکلے تو  میں نے سمجھا  کہ ہم کونسا  ہمیشہ کیلئے بچھڑ رہے ہیں ، بعد میں پتہ پوچھ لیں گے۔ لیکن آج 26  سال سے وہ لا پتہ ہے ۔ نجانے کہاں اور کس حال میں ہے؟دعاہے کہ خدا تعالی ٰ اُسکا حامی وناصر رہے، آمین۔