یا اللہ تیرا شُکراے! یہ وہ’’ کلمہ‘‘ حق ہے، جو لندن جیسے بڑے شہروں میں ہر مسلمان (چاہے وہ دل سے مومن ہے یا منافق) دن میں کئی مرتبہ، اُس وقت اداکرتا ہے، جب اُسکوبِنا کسی کوشش کے یا کافی تگ ودو کے بعد، اپنی کار پارک کرنے کیلئے، مناسبِ حال جگہ مل جاتی ہے۔ گزشتہ موسم گرما میں، میں بھی لندن کے علاقے ایلنگ، جو ساوْتھ آل کے قریب ہی واقع ہے، کے ایک ریسٹورینٹ (میکڈونلڈ) میں فریش اپ ہونے کیلئے رُکا۔ خوش قسمتی سے، پارکنگ وہاں پہنچتے ہی مل گئی۔ یہاں، ایک راز کی بات بھی بتاتا چلوں کہ جہاں رش زیادہ ہوتا ہے وہاں پارکنگ جلد مل سکتی ہے۔ شرط ، آپ کا ذ ہین اور چُست ہونا لازمی ہے۔ کاروں کی طرف واپس آتے اور ہاتھوں میں شاپنگ بیگز اُٹھائے ہوئے، لوگوں پر نظر رکھیں اور آہستہ آہستہ گاڑی اُنکے پاس لے جائیں اور ہلکے ہلکے مسکراتے رہیں۔ایک بات اور، اگر مرد و عورت کے چہروں پر سنجیدگی ہو اور مُنہ قدرے، لٹکے ہوئے ہوں تو بغلیں بجائیں کہ شاپنگ مکمل اور پارکنگ پکّی! لیکن اگر ڈھیر سارے شاپروں کے باوجود، دونوں کے منہ بے تحاشہ لٹکے ہوئے ہوں تو کسی اور جوڑے کو ’تاکیں‘ کیونکہ اِس کیس میں،محترمہ عوؔرت صاحبہ نے مرؔد صاحب سے کہہ دیا ہے کہ شاپر گاڑی میں رکھ کر، واپس دوسری دوکان پر جانا ہے۔’’ مرد ‘‘ صاحب جس وجہ سے اپ سیٹ نظر آ رہے ہیں، وہ تو آپ سب جانتے ہی ہیں اور عورت جس وجہ سے پریشان ہے وہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم سب عورتوں والے ہیں!
ویسے، اُس وقت میں بہت خوش تھا کیونکہ نہ تومیرے ساتھ بیوی تھی اور نہ ہی اب پارکنگ کی تلاش! سہ پہر کا وقت تھا ۔ گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے ریسٹورنٹ میں رش کافی تھا ۔ بھاگم بھاگ سیٹرھیاں چڑھ کر اوپرواش روم پہنچا (جس کی وجہ سے ہی میں یہاں رُکا تھا ) ۔ مجھے میکڈونلڈ، صرف دو وجہ سے ہی تو پسند ہے۔ اوّل ، اُسکےصاف ستھرے ٹوائلٹس اور دوسرے یہاں کی سستی اور معیاری کافی !
نیچے آکرمیں کافی لینے کیلئے، لائن میں لگ گیا۔ جی تو چاہتا تھا کہ کِھسک لوں کہ لائن ’ کافی‘ لمبی تھی، لیکن کبھی کبھی، سردیوں میں آئس کریم اور گرمیوں میں کافی کو ’’کافی ‘‘ دل کرتا ہے۔ لہذا کھڑا رہا۔ لائن میں ہر تیسرا چوتھا بندہ پگڑی پہنے ہوا تھا۔ اِسکی وجہ سوائے اِس کے اور کوئی نہیں تھی کہ یہ علاقہ اور ریسٹورنٹ ساؤتھ آل کے قریب تھا۔ ویسے تو ہندواور سکھ، پورے انگلستان میں، ہم پاکستانیوں سے دوگنے پائے جاتے ہیں لیکن ساؤتھ آل تو اُنکے لئے’’ خالصتان‘‘ کا درجہ رکھتا ہے۔ ایسے میں لائن میں کھڑا سب سے اگلا پگڑی بردار، کاوْنٹر سے ٹرے اٹھائے واپسی کیلئے مڑا تو میری توجہ بھی اُسکی طرف مُڑ گئی۔ وہ ایک دُبلا پَتلا اور 50 سال کے لگ بھگ، بزرگ کم نوجوان سا آدمی تھا اور میرے لئے کچھ باعثِ کشش بھی! میری آنکھیں، نجانے کیوں، اُسکے تعاقب میں اور دماغ ماضی کے دھندلکوں میں کھو سا گیا اورقیاس وقیافوں کی کڑیاں ملا نے لگا تھا۔ ایسے میں اچانک پیچھےسے، سُشتہ انگریزی میں، ایک خوبصورت نسوانی آواز آئی۔ جسکا ترجمہ تو ’’ معاف کیجئے‘‘ لیکن مطلب کچھ اور ہوتا ہے ! میں ذراٹھٹھکا! قدرے خوشی اورتھوڑی حیرانی سے پیچھے مڑ کرجو دیکھا، تو محترمہ اپنے بچوں کو ساتھ لیئے، قدرےغصہ سے بولیں مُووْ آہیڈ یعنی ’’اگے مَرو‘‘! میں پریشانی میں ہی واپس پلٹ کرسیدھا ہوا، تو دیکھا کہ لائن کافی آگے بڑھ چکی تھی۔ خیر کاوْنٹر پر پہنچا، کافی لی اورواپس اُسی سردار کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
دیکھا وہ ایک کونے میں اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ اس دوران میں نے اپنے دماغ کی ’ہارڈ ڈسک‘ میں ’’سرچ ‘‘ کی کمانڈ ڈال کر جو ایک نام نکالا تھا ، اُسی کو اپنے لبوں پر رکھ لیا اوراُسکے قریب پہنچتے ہی، سوالیہ انداز میں اُگل دیا! نام سنتے ہی وہ ، چونکا، اورحیرت ذدہ ہوکر، دھیرے سے کھٹرے ہوتے ہوے، میری طرف اُسی سوالیہ اندازسے اپنی اُنگلی اٹھائی ! میں نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا کہ یس! نعیم ۔۔۔ نیما!
دونوں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوگئے۔ کافی، یقیناً گِر گئی ہوتی اگر اس پر ڈھکن نہ ہوتا اور ہم اِسی طرح بغلگیر رہتے اگر ایک اور نسوانی آواز نے ہم دونوں کو چونکا نہ دیا ہوتا۔ اس دفعہ خاتون، اپنی تھی یعنی اُسکی بیوی ! وہ مجھے ایسے ہی دیکھ رہی تھی، جیسے کچھ دیر پہلے میں اُسکے پتی کو!
اُس نے اپنی بیوی سے میراتعارف کروایا اور بتایا کہ میں بھی حافظ آباد سے ہوں! خاتون نے قدرے بے دلی سے اور بظاہر خوشی سے اپنے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا ’’ ست سری اکال جی‘‘ ! اور اپنے سر پر ڈوپٹہ اوڑھنے کیلئے اِدھر اُدھر ہا تھ پھیرا، لیکن وہ ہوتا تو ہاتھ میں آتا! میں نے بھی جواباً وعلیکم السلام کہدیا۔ اُس کیساتھ دو عدد چھوٹے بچے بھی تھے، جنکی عمریں آٹھ دس سال کی ہوں گی۔
ہمارےکرسیوں پر بیٹھنے سے پہلے ہی بچے، اُس ٹرے پر ٹوٹ پڑے، جو تھوڑی دیر قبل اُنکا باپ، اُنہی کے لیے لایا تھا۔ بچوں کے سر پر، بالوں سے بنے، چھوٹے چھوٹے لَڈوسے تھے، جو سفید رومالی میں لپٹے ہوئے تھے۔ میرے دماغ میں، سوالات کا ایسا ہی ہجوم اُمڈ آیا تھا جیسا اِس وقت ریسٹورنٹ میں ہو رہا تھا۔ آپ بھی کچھ لیں! دِلپرؔیت، بڑی صاف انگریزی میں بولی۔ میں نے شکریہ کہتے ہوئے، اپنے ہاتھ میں موجو د کافی کا کپ اُسکو دکھاتے ہوئے، اُسکی کی ایک چُسکی لی۔ جو اِس دوران، ٹھنڈی ہو کر، کافی کے بجائے ’’مِلک شیک‘‘ جیسی ہو چکی تھی۔ میں نے جلدی سے اپنے سوالوں کو فوجی زبان میں ’’حاضر باش ‘‘ہونے کا آرڈر دیا، جس سے وہ ایک دَم لائن میں کھڑے ہوگئے۔ پہلا! تم یہاں رہتے ہو؟ وہ بولا، نہیں ہم کینیڈا میں رہتے ہیں۔ دلپؔی کے ماتا پتا یہاں رہتے ہیں۔ اُن سے ملنے آئے ہیں۔ کب تک یہاں ہو؟ اگلے ہفتے واپسی ہے، اُس نے جواب دیا۔ میں نے اپنا کارڈ نکالا اور بتایا کہ میں قریب ہی ایک جگہ ،سلاوْ میں رہتا ہوں۔ ہمارے ہاں چکر لگاو۔ وہ بولا، ضرور!
میں اُس سے بہت سی باتیں کرنا چاہتا تھا لیکن یہ موقع اور وقت، اِس طرح کی ملاقات کا نہ تھا ۔ میں نے اٹھتے ہوئے ، ہاتھ آگے بڑھایا تو وہ بولا کہ بیٹھو یار کیا جلدی ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں تم بچوں کیساتھ انجوائے کرو، پھر ملتے ہیں ۔ یہ کہتے ہو ئے اٹھا اور نکل پڑا۔ دلپؔی پیچھے سے بولی! بھائی آپکی کافی! میں نے لپک کے کافی اٹھائی اور بن میں پھینکتے ہوئے، گاڑی میں آ بیٹھا۔
گاڑی چلاتے ہوئے مجھے سامنے سڑک کی بجائے اپنا آبائی محلہ قتل گڑھا نظرآرہا تھا۔ قسمت اچھی تھی کہ کسی اور چیز سے مڈھ بھیڑ ہوئے بغیر، میں آدھے گھنٹے میں، اپنے گھر سلاوْ پہنچ گیا۔
ہندوستان کا بٹوارہ، اگست 1947ء میں ہوا۔ لاکھوں مسلمان، اپنا سب کچھ چھوڑچھاڑ کر ہندوستان سے نئے ملک پاکستان پہنچ گئے اور ہزار ہا ملک ِعدم! نیا ملک جن علاقوں پر مشتمل ہوا وہاں پہلے سے ہی مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ ظاہر ہے، یہاں ہندو اورسکھ اقلیت میں تھے۔ جو ہندو یہاں موجود تھے اُنکی اکثریت، زیادہ تر شہروں میں موجود تھی، جبکہ سکھ زیادہ تر پنجاب کے دیہاتوں اور قصبوں میں آباد تھے۔ سکھوں کی زیادہ تر ہجرت، پنجاب میں ہی رہی، یعنی، مغربی پنجاب (پاکستان ) سے مشرقی پنجاب (بھارت)۔ سکھ ایک بہادر اور نڈر قوم ہے ۔ سیاسی اور معاشی طور پر، اُنکی حالت مقامی مسلمانوں سے بہت بہتر تھی۔ ماضی قریب میں، پنجاب کے اکثر حصہ پراُنکی اپنی حکومت رہی تھی جبکہ ماضی بعید میں، تما م مسلمان حکومتوں میں بھی، اس حصہ (پنجاب ) پرانکا بڑا اثرو رسوخ رہا تھا۔ برٹش انڈیا میں بھی، سکھوں کو، انگریزی عمّال کی خاصی آشیر باد حاصل رہی تھی۔ مزید برآں، مذہبی لحاظ سے بھی، تلوار کا ہتھیاراوراُسکے استعمال کے مواقعے، مسلمانوں کی نسبت اِنکو، ہروقت حاصل رہے جبکہ مسلمانوں کی اکثریت کو تو، دو قت کی روٹی بھی میسر نہ تھی ۔ اِسی وجہ سے، اِنکی ہجرت، مسلمانوں کی نسبت خاصی محفوظ رہی تھی ۔ لیکن اُسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اُن کے ساتھ کوئی ظلم نہیں ہوا۔ ایسی درجنوں سچی کہانیاں تاریخ کے اورق پر موجود ہیں، جن میں خداکے نام لینے والوں نے بالٓا خر، ابلیس کو سجدے کردیئے۔ ابھی دو روز قبل ہی، کرتار پور کوریڈور کے افتتاح کے موقعہ پر، سارا میڈیا، اس خبر کو نشر کررہا تھا کہ دو معمر سکھ خواتین (جواب مسلمان ہیں) 71 برس بعد، اپنے سکھ بھائی سے مل رہی تھیں۔ تینوں بہن بھائیوں کی عُمریں 80 سے 85 سال کے درمیان بتائی جارہی تھی۔ اِسکا مطلب یہی ہوا کہ وہ اُس وقت 15/16 سال کی ہونگی ،تبھی تو انہیں یہاں چُھپا لیا گیا تھا ، جبکہ اُنکے مَردوں کو جانے دیا گیا تھا!
بہت کم سکھ خاندان، جو کسی وجہ سے یہاں رہ گئے تھے، وہ بھی ننکانہ صاحب، لاہور، حسن ابدال اور پشاور کے علاقوں میں منتقل ہوگئے، جہاں اُنکے مقدس مقامات موجود تھے اور اُن سے ملحقہ، اُنکی اپنی آبادیاں بھی ۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہمارے 313 درویشان، قادیان میں رہ گئے تھے۔
پاکستان میں ، ہندووں کی زیادہ تر آبادیاں، تھر، تھرپارکر، اور سندھ کے دیہی و شہری علاقوں میں تھیں۔ لیکن ہمارے پنجاب میں اُنکی آبادی بہت کم تھی۔
حافظ آباد میں، ہم تک کئی مصدقہ وغیر مصدقہ اطلاعات، سینہ بسینہ پہنچتی رہیں ہیں کہ تقسیم سے قبل، کو ن کون ہندو تھا اور کس نے اپنی جان و مال کی قربانی دینے کی بجائے، اسلام اور پاکستان کی پناہ میں آنے کو ترجیح دے دی ۔ بچپن سے ہی، ہم اپنے ایک غریب محلے دار امبؔر کو جانتے ہیں، جو دانے بھو ننے والی بھٹی چلاتا تھا، جسکے ساتھ ہی اُسکا چھوٹا سے کچا جھونپڑا، امام بار گاہ کے احاطہ کے اندر ہی واقع تھا ۔اُس نے سوچا ہو گا کہ یہ شیعہ مسلمان اچھے ہیں! سال بھر میں صرف دس دن کی ریاضت ومشقت ہے! یہاں اکٹھے ہوتے ہیں، مفت کا کھانا ملتا ہے اور دیگر سُنیّ مسلمانوں کیطرح نہ تو اِس امام بارگاہ میں کوئی اذان ہوتی ہے اور نہ ہی نماز! کو ئی گھاٹے کا سودا نہیں لگا اُسکو اور وہ بیٹھے بٹھائے ، شیعہ مسلمان بن گیا۔ وہ کسی سے کوئی بات چیت نہیں کرتا تھا ۔ پہلے ہندو جو گیوؔں کیطرح اور اب علیؔ ؔکے ملنگوں کیطرح، گلے اور بازووں میں، منکوں اور موتیوں کے ہار پہنے، اپنے کا م اور حال میں مست رہتا تھا۔ طُرفہ تماشہ یہ کہ وہی کچے ایماں کے حامل، ہمارے مسلمان بھائی، جن کے سامنے یہ سب کچھ ہواتھا، ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی، اب اُسی سے دم درود بھی کروانے لگےتھے، استغفراللہ من ذالک !
دوسرا، ہمارا غریب اور بوڑھا محلے دار بشن سنگھ تھا۔ وہ ہمارے آبائی گاؤں، ہنجرانواں والی سے تھا۔ اور ہمارے بزرگوں کے نامساعد حالات کیوجہ سے، اُنکے ساتھ ہی، یہاں چلا آیا تھا۔ اُسکے پُرکھوں کے ہمارے بزرگوں سے، بھائیوں جیسے تعلقات تھے۔اُسکے سارے رشتہ دار، ہندوستان ہجرت کر گئے تھے۔ لیکن، اِسکو کسی اور چیز نے نہیں، فقط من کے روگ نے، روک لیا تھا ۔ اِسکو اپنی دھرتی ماں، جسکے پیٹ پر یہ پیدا ہوا، جسکی چھاتی پر کھیل کودکر، پلا بڑھا تھا، اورجسکے سینے پر، اِس کے ماتا پتا اور دیگرآباواجداد، سوئے ہوئے تھے، اُس دھرتی ماتا سے عشق تھا۔ اِسکو اپنے آس پاس بسنے والوں سے بھی پیار تھا۔ اِسکو اپنے کُھوو (اپنے گھراور گاؤں کے کنوئیں) سے پریم تھا، جس کا اُس نے پانی پیا ہوا تھا ۔ شائد، ایسا ہی مضمون بیان فرمایا تھا، ہمارے جھنگ کے بزرگ صوفی شاعر حضرت سلطان باہوؒ صاحب نے کہ:
؎ اَسی قربان اُونہاں توں باہوؔ۔۔۔۔جِنہاں کُھو پریم دے جُتّے ہُو!
بشن سنگھ کا خیال تھا کہ ملک کا نام بدلا ہے، لوگ تو نہیں بدلے! زمین تو نہیں بدلی۔ اگرمیں بھی وُہی اور تم بھی وُہی! تو سب جگ ُوہی! ایسی باتیں تو ایک عاشق اور دیوانہ ہی سوچ سکتا تھا ، جو اپنی دھرتی ماں کی مٹی کا باوا ہو۔ عشق، حقیقی ہو یا مجازی، اِن، دُنیا داروں نے کب کسی کا قبول کیا تھا جو اِس کا کیا جاتا! سب لوگ، اِس کو ’’دوسری‘‘ نظروں سے دیکھنے لگے تھے۔ ہر کوئی اِس پر شک کرنے لگا تھا ۔اکثریت کی ُروح، کبھی اقلیت پر غلبہ پائے بغیر چین نہیں پا تی! چاہے وہ کسی مذہب، ملک و قوم سے تعلق رکھتی ہو۔ اور اقلیت، سوائے خداتعالیٰ کی تائیدو نصرت کے کبھی اکثریت نہیں بنتی! وہ اکیلا کیسے کامیاب ہو سکتا تھا؟
بالآخر، اُس نے بھی، شہنشاہِ ہند، جلا ل الدین محمد اکبر کی سوچ، ’’صُلح ِکُل‘‘ یا ہماری سوچ ’’پیغام ِصُلح‘‘ کو اپنانے میں ہی، اپنی عافیت سمجھی! سب سے پہلے، اُس نے اپنی ’کرپان‘ گلے سے اتار کر گھر میں کہیں چھپا دی ۔ یعنی اپنی طاقت وقوت سے تہی ہونے کا عندیہ دیا ۔ پھر، اپنی پگ سے ’کنگا‘ نکال کر، اُسکو مقامی افراد کیطرح ڈھیلا ڈھالا کرلیا ۔اِسکا مطلب یہ تھا کہ اُس نے اپنی پہچان کھو دینے کی نیت کرلی تھی۔ پھر اُس نے اپنے ہاتھ کا ’کڑا ‘بھی نکال دیا ۔ یعنی، وہ ُصلح کی طرف مائل ہو رہا تھا ۔ لیکن سماج اُسکی مثبت سوچ کو، ا’سکی کمزوری پر محمول کررہا تھا ۔ اِس کرب والم میں، اُسکے ’کیش‘(بال ) بھی جاتے رہے۔اور جب، محنت و مزدوری کیلئے، گھر سے باہر نکلنے کے قابل بھی نہ رہا ، تو پھر ’’کچھے‘‘ کے لچھن کی کس کو فکرتھی ؟
اُس بے چارے کی ساری قربانیاں لا حاصل رہیں۔’صلحِ کُل‘ کی پالیسی پر، تو مُلاں نے، شہنشاہِ ہند، جلال الدّین محمد اکبر کو بھی، آج تلک معاف نہیں کیا۔ بشن سنگھ بیچارے کی کیا اوقا ت تھی؟ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی، اُس سکھ سے خداواسطے کا بیر رکھے ہوئے تھے۔ جو نہ اُن سے ملتا تھا، نہ کوئی دُکھ دیتا تھا اورنہ ہی اُن پر کوئی بوجھ تھا ۔اسلام ، امن پسندی کا مذہب تھا جبکہ اُس کے پیرو، انتہاء پسندی کے!
پاکستان ، جغرافیائی لحاظ سے ایک وسیع اور خشک میدانی علاقوں پر مبنی ملک ہے۔ بارش اور سردی بہت کم ہوتی ہے۔ گرمیوں کا دورانیہ خاصہ لمبا ہو تا ہے ۔ موسم گرما میں، مون سون سے قبل ، شام کو اچانک آندھی اور طوفان آجاتے ہیں۔اور بجلی کڑکنے لگتی ہے۔ کچھ دیر بارش برسنے کے بعد، اکثر صبح کے وقت موسم ٹھیک ہو جا تا ہے۔ یہی حال وہاں کے ُملاں کا بھی ہے۔ ایک دن اچانک، اُنکے حال میں، کسی کے خلاف نفرت کا طوفان جنم لیتا ہے۔ جو آندھی کیطرح دیگر(افراد) علاقوں میں بھی پھیل جاتاہے۔ ایسے میں اُنکی غیض وغضب سے بھری تقریریں، آسمانی بجلی کی طرح کڑ کنے لگتی ہیں۔ ایسا ہی ایک طوفان اُس دور میں بھی آیا تھا ۔ لوگوں نے بشن سنگھ کو زبردستی اٹھایا اور اُسکو محلے کی مسجد میں لے گئے۔اور مولوی صاحب نے اُسکو تین دفعہ کلمہ طیبہ پڑھوا دیا ۔ مسجد سے نعرہ ہائے تکبیر کی ُبلند اور فاتحانہ آوازیں، باہرسُننے والوں کے دلوں کو دہلا رہی تھیں۔ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ یہ شور، بشن سنگھ کی پہلی زندگی کے خاتمے پر اُٹھ رہا ہے یا اُسکی نئی (اسلامی ) زندگی کے آغاز پر! اُسکے خیر خواہوں کی جان میں جان اُسو قت آئی جب لوگ اُسکو اپنے کا ندھوں پر اٹھائے، مسجد سے باہر نکال آئے۔ لوگوں کی خوشی دیدنی تھی۔ جبکہ بشن سنگھ جو اب ’’محمد بشیر‘‘ بن چکا تھا ، خود سہما ہوا اور ڈراہوا تھا۔ نجانے کیوں مجھے یہ سب کچھ اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ میں بھی ’’محمد بشیر‘‘ کیطرح ہی ڈرا اور سہما ہوا تھا۔ حالانکہ میں توبفضل ِتعالٰی، پہلے سےہی مسلمان تھا ۔ بشیر جب گھر پہنچا تو وہ اور اُسکے گھر والے روتے اور چیختے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئے اور زارو قطار رونے لگے۔ میرے لئے یہ سب کچھ بڑاعجیب اور تکلیف دہ تھا ۔ کچھ لوگ اِن آنسووں کو خوشی کے آنسو سمجھ رہے تھے اور کچھ میری طرح، اُسوقت نہیں جان پائے ہونگے کہ یہ غم و حُزن کے آنسو تھے، جو بشن سنگھ اور اُسکے خاندان کی ( مذہبی ) موت پرنکلنے والے آنسو تھے۔
میری اورمیرے گھر والوں کی حالت ایک جیسی تھی ۔ سب کو ہی لگتا تھا کہ جیسے کچھ غلط ہو گیا ہے۔ کئیوں نے تو رات کا کھانا بھی نہ کھایا تھا ۔اِسی دُکھ میں، میری آنکھ تو لگ گئی تھی، لیکن صبح پتہ چلا کہ اس کرب میں، ساری رات میرے والدین، سو بھی نہ سکے تھے اورکسی انجانے خوف کیوجہ سے ساری رات، دُعاوں میں ہی بسر کردی!
میرا صبح سکول جانے کو ذرا بھی مَن نہیں تھا لیکن میں’’ منجی‘‘ کو دیکھنے کیلئے، سکول چلا گیا۔ اُسکا پورا نام من جیت سنگھ تھا۔ گھر والے منجیت اور محلے کے ہم عمر لڑکے بالے، اُسکی ’’ت‘‘ کو کھا جاتے اور اُسے ’’منجی ‘‘ اوئے ’’منجی ‘‘ کہہ کر ُبلاتے۔ ہم دونوں ہم عمراور ہم جماعت تھے۔ دونوں ہی دُبلے، پتَلے اور نسبتاً کم شرارتی تھے۔ وہ ہماری گلی میں ہی رہتے تھے اور ہمارے یہاں سے ایک دوسرے کے ہاں کھانے پینے کی چیزوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ اسکی ایک بڑی بہن، پریت کوؔر بھی تھی۔ جبکہ اُسکی ماں کا نام ُسکھوِندرکوؔر تھا ۔ وہ بہت ہی محبت کرنےوالی اور دھیمے مزاج کی، خوبصورت عورت تھی۔ لگتا تھا کہ گھر کے سب افراد، اُسی کی وجہ سے ہی اچھے ہیں۔ اُسکے دانت، سفید موتیوں کیطرح اورہونٹ، ہروقت دانتن کے رنگ سے سُرخی مائل، کتھئی رہتے تھے۔ ہمارے محلے میں سے شائد کسی کو بھی، اُنکے ناموں کے معانی کا پتہ تھا۔ شائد، خود اِن لوگوں کو بھی اِسکا مطلب معلوم نہ ہوگا۔ شعور کی عمر کو پہنچے، تھوڑا علم حاصل ہوا، تحقیق کی تو پتہ چلا کہ کتنے پیارے اوربامعنی نام تھے۔
سکھوں کے تمام نام مفرد اورجنس سے پاک ہوتے ہیں ۔ یعنی ایک ہی نام مرد اور عورت کیلئے استعمال ہوتا ہے۔ مثلاً ’’سُکھوِندر‘‘ مرد اور عورت، دونوں کا نام ہے۔ البتہ، عورتوں کیساتھ ’’کور‘‘ یعنی عورت (جیسے مسلمانوں میں امتہ ۔ بی بی یا بیگم لگا یا جاتا ہے) یا اُسکے باپ کی ذات کا لاحقہ لگا دیا جاتا ہے۔ ’’بشن‘‘ خدا کا نام ہے، جیسے ہندو مت میں رام ! ۔’’سنگھ‘‘ کا مطلب ہے شیراور سردار! ذرا غور تو فرمائیں کہ بشن سنگھ ، گھر کا واؔلی اورسربراہ! سُکھوِندر کور، گھر کی ملکہ ، سُکھ بانٹنے والی! بہن، ’’پریتؔ کور‘‘ اِس گھر میں بھی اوراگلے گھر میں جا کر، محبت بانٹنے والی اور ’’من جیت ‘‘، دلوں کو جیتنے والا!
میں یہ جان کر حیران رہ گیا کہ پچھلی رات، اُنکےگھر کی بھی وہی بِپتا تھی جو میرے گھر کی تھی ۔ وہ ویسے ہی کم گو تھا ، لیکن اُس روز، اُسکی آواز بھی نہ نکل رہی تھی۔ کئی دن بعد جا کر یہ احساس ہو ا کہ اسلام کے ٹھیکے داروں کو، اسُکا نام بدلنے کا خیال تک نہ آیا تھا ۔ اور جب آیا، تو وہ لوگ شہر چھوڑ کر جا چکے تھے۔
اگلےتین چار دن تک، محلے میں خاموشی سی رہی۔ ایک روز صبح، لوگوں نے دیکھا کہ اُنکے دروازے پربڑا سا دیسی ساخت کا تالہ پڑا ہوا تھا۔ کسی کو کچھ معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں گئے ہیں؟ محلے میں چہء مگوئیاں شروع ہوگئیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ اپنے دُور پار کے رشتہ داروں سے ملنے گئے ہیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ وہ ننکانہ صاحب چلے گئے ہیں اور مرتد ہو گئے ہیں۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ محلے کے ہر گھر اور سکول میں یہی باتیں ہورہی تھیں۔
دن گزرتے گئے اورایک مہینہ ہونے کو آگیا۔ اُنکی نہ تو کوئی خبرملی اور نہ ہی کوئی اطلاع آئی! اِس دوران، کئی لوگوں نے مشورے دیئے کہ اِنکے گھر کا تالہ توڑ دیا جائے۔ پہلے تو شرفائے محلہ نے اس بات کی مخالفت کی ۔ لیکن مہینہ پورا ہونیکے بعد، مولوی صاحب کی اجازت سے تالا توڑ دیا گیا۔ بشن سنگھ کا گھر، حسب ِمعمول صاف ستھرا پایا گیا ۔ ہر چیز وہاں موجود تھی، سوائے دو چیزوں کے ، جنکو انہوں نے ایک عرصہ سے ہاتھ تک نہیں لگایا ہوگا ۔ ایک دیوار پر لٹکتی ’کرپان‘ اوردوسری طاقچہ میں رکھی، ریشمی غلاف میں لپٹی ’گیتا‘۔ جب لوگوں کی سنی سنائی باتوں پرمولوی صاحب نےیقین کرلیا اوراپنی تسلی کرلی، تو انہوں نے یہ فتویٰ جاری کردیا کہ ’’وہ سکھ تھا اور ابھی بھی سکھ ہی ہے۔ وہ مرتد ہے اور واجب القتل ہے‘‘۔ ایک مرتبہ پھر محلے کی فضاء نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھی۔ ایک بار پھر، یہ شور باہرسننے والوں کے دلوں کو دہلا رہا تھا۔ کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ یہ شور، مولوی صاحب اور محلے والوں کی اپنی ناکامی پر اُٹھ رہا ہے یا بشن سنگھ کی کامیابی پر! یہ شور، اُسوقت تھما، جب وہاں پر موجود اہل ِایمان، اُنکے گھرکی ہرایک چیزاُٹھا نہ لے گئے اور اُنکے خالی گھر کو ’’شُدھ‘‘ نہ کردیا۔ اگلا مرحلہ یہ تھا کہ اُنکے’’ناپاک ‘‘ گھر کو اپنا کر، کون نیا ’’پاکستان ‘‘ بنائے گا؟ یعنی کون، اِس گھرکا نیا مالک ہو گا؟ اُسکے بھی کئی دعویدار تھے!
گزشتہ رات بھی، خوف وحُزن کے خیالات میں غلطاں، گزری۔ بنیادی طور پر، میں بھی، بشن سنگھ کیطرح، ایک قدامت و رجعت پسند واقع ہوا ہوں ۔ ماضی، مجھےبھی ہمیشہ سے، اپنی طرف کھینچے رکھتا ہے۔ صبح کا سورج رات کی تاریکی کوچیرتے ہوئے ایسے چڑھتا ہے کہ دوپہر تک اندھیرے کا نام و نشان ہی مِٹا دیتا ہے۔ سورج کے روزانہ کے اِس عمل نے بشن سنگھ اور اُسکے خاندان کا نام ہماری زندگیوں سے مٹا دیا تھا۔
صبح اٹھتے ہی میں نے منجؔی کو فون کیا کہ میں آرہا ہوں۔ میں نے اپنی کار، احمدیہ مشن ہاؤس کے پورچ میں کھڑی کی ۔ ہم دونوں، ساوتھ آل میں، ہمارے مشن ہاؤس اور اُنکے گردوارے کے پاس، ایک بڑے سے پارک میں ملے۔ ہیلو ہائے کے بعد، وہ یوں گویا ہوا:
سکھ مت، ُبنیادی طور پر، ہندو مت اوراسلام میں ایک ’’پُل‘‘ تھا۔ باوا جی مردؔانہ صاحب اورباوا جی بالاؔ صاحب، دونوں مسلمان اور باوا جی سرکار گرو نانک صاحب کےبچپن سے، مرن جیون، (جگری) دوست تھے۔ ہماری گیتا مسلمان صوفی بزرگوں کے اشلوکوں اور اکھانوں، سے بھری پڑی ہے۔ باوا نانک صاحب کو محمد ؐ صاحب سے بہت پیارو محبت تھی، اِسی وجہ سے وہ یاترا کیلئے مکہ اور مدینہ بھی تشریف لے گئےتھے ۔ انہوں نے وہاں حج بھی کیا۔ لیکن مسلمانوں نے کبھی، اس بات کا احساس نہیں کیا ۔ اور جو سلوک ہمارے ساتھ صدیوں سے روا رکھا گیا، اُسی وجہ سے، ہمیں مسلمانوں اور پاکستان سے نفرت ہو گئی ہے۔ اُس واقعہ کے بعد، 2 دن تک ، ہمارے گھر چولہا نہیں جلا۔ نہ کسی نے ہمیں پوچھا! ایسے لگتا تھا کہ جیسے اسلام کے نام پر، ایک بکری ذبح کر کے، چھپڑ کنارے پھینک دی گئی ہو! ہمارے پِتا، دل سے تو پہلے ہی مسلمان تھے۔ اُنکے ساتھ کی گئی یہ زبردستی، اُنکواسلام اور مسلمانوں، دونوں ہی سے دُور لے گئی! اُنکے اندر ایک احتجاج نے جنم لے لیا۔ تیسری رات، جب سارے محلے دار سو رہے تھے، ہم رات کی گاڑی سے سکھیکی گئے اور وہاں سے لاہور، مہاراجہ رنجیت سنگھ صاحب کی مڑھی پر پہنچے۔ وہاں ہمارے کچھ بڑوں نے ہماری مدد کرکے، ہمیں ہندوستان بھجوا دیا۔ جب ہم واہگہ بارڈر سے نکل رہے تھے، تو ہم لوگ دھاڑیں مار مار کر رو ہے تھے۔ میرے پِتا، اس صدمے سے بار بار گر جاتے تھے۔ اور زمین کو چومتے تھے۔ جب ہم ہندوستان پہنچے، تو انہوں نے بھی ہمارے ساتھ وُہی سلوک شروع کردیا، جو حافظ آباد والوں نے کیا تھا۔ وہ ہم کو ’’دوسری‘‘ نظروں سے دیکھتے تھے۔ سکھ مت کی جو نشانیاں میرے پِتا جی نے، پاکستان میں تیاگ دی تھیں، وہ سبھی یہاں ضروری تھیں۔ ہمارے اپنے سکھ بھائی ہمیں اناب شناب بولتے تھے۔ وہ ہمیں ’’مُسلے‘‘ کہہ کرپکارتے تھے۔ اُنکا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا، کہ ہم اتنے سالوں بعد، کیوں ہندوستان واپس آئے ہیں؟ ہمیں پاکستان کا ایجنٹ سمجھا جا تا تھا ۔ ہمارے جواب کسی کو بھی مطمعن نہ کر پاتے۔ سکھ لڑکے بھی میری بہن کو ایک مسلمان لڑکی سمجھ کر آوازیں کستے تھے۔ ہمیں تھانوں میں حاضری لگانے کو کہا گیا۔ ہم ہردھرتی کے سینے پر بوجھ بن گئے تھے! رہنے کو گھر نہیں تھا۔ امرتسر کے ایک پُرانے گوردوارے میں، یاتریوں کیلئے بنی ایک سرائے میں ہم رہتے تھے۔ اِس صدمے سے ہی پِتا جی کی جان چلی گئی۔ جبکہ ماتاجی بہت لاغر اور پریشان! پھرباوا صاحب کی کِرپا سے ، ہمارے ایک دُور پار کے رشتہ دار سے دلپرؔیت کا بیاہ ہو گیا ۔ جس روز، آخری مرتبہ ، میں تجھے ملا تھا، اُس دن کے بعد، میں کبھی کسی سکول نہیں گیا۔ پہلے سائیکلوں کی ایک دکان پر کام شروع کیا اور پھر ایک موٹر کارکی ورکشاپ پر نوکری کرلی۔ ایک کچا پکا کوٹھرا کرائے پر لے لیا۔ کچھ عرصہ بعد ماتا جی بھی ’سورگ باش‘ ہوگئی ۔ اورمیں اکیلا ہو گیا ۔ وقت گزرتا گیا۔ میرا کا م بہتر ہو تا گیا۔ ہمارے مالک کا ایک دوست کینیڈا میں ورکشاپ چلاتا تھا ۔ وہ سال دو سال بعد چکر لگا تا رہتا تھا۔ میں چونکہ یہاں کئی سالوں سے کام کر رہا تھا، تووہ مجھے جانتا بھی تھا۔ ایک بار وہ ہندوستان آیا اور آتے ہی مجھے کہا کہ منجی یا ر، گاڑی ذراتنگ کررہی ہے، اِس کا فلاں والا پرزہ خراب لگتا ہے، وہ بدل دے! میں نے، بونٹ اٹھا کر دیکھا تو بتا یا کہ یہ پرُزہ تو ٹھیک ہے، گاڑی البتہ، فلاں وجہ سے دُرست کام نہیں کررہی۔ وہ میرے کام سے بہت خوش ہوا اور میرے مالک سے بولا ، یا ر! یہ لڑکا مجھے دے دے! مالک نے شائد، بے دھیانی میں ہی کہہ دیا، کہ لے جا! کچھ دنوں بعد، وہ آدمی ورکشاپ آیا اور مجھے ساتھ لیجاکر میراشناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنوانے کیلئے لے گیا۔ یہ سارا کام اُس نے کچھ دے دلا کر، دو ہفتوں میں ہی کروا لیا ۔ اوراُسکے بعد وہ واپس کیینڈا چلا گیا۔ کوئی دو تین مہینوں بعد ، اُسکا ایک خط آیا، جس میں میرا اسپانسر اوراگلے کام کی تفصیل لکھی ہوئی تھی۔ میرا مالک، یہ سب دیکھ کر ایک دفعہ تو چکرا ہی گیا تھا لیکن اُس نے مجھے روکا بھی نہیں! فقط ایک شرط رکھ دی کہ وعدہ کرو کہ تم میرے بیٹے کو بھی کینیڈا بلاؤ گے! میں نے یہ شرط منظور کرلی کہ اگر ربّ مجھ غریب و مسکین کی مدد کرتا ہے، تو میں کسی اور کی کیوں نہیں کرونگا! اس طرح میں 20 سال پہلے کینیڈا آگیا۔
منجی کی دُکھ بھری داستان سُن کر، میرا دل پسیج رہا تھا لیکن میں نے اُسکو درمیان میں ٹوکنا مناسب خیال نہ کیا ۔ کیونکہ وہ جس روانی سے گزشتہ چالیس سال کی کہانی مجھے سُنا رہا تھا وہ بھی، میرے لئےبڑی اہم تھی۔
تھوڑا، سانس لینے کے بعد ، وہ بولا: کینیڈا پہنچ کر میں نے اپنے سپنے پورے کرنے کیلئے بہت محنت کی۔ میرے دو ہی سپنے تھے۔ ایک اپنی بہن کو کینیڈا بُلانا اور دوسرے غربت سے نجات حاصل کرنا! میں ورکشاپ پہ کام بھی کرتا تھا اور شام کو انگریزی سیکھنے کیلئے کلاسیں بھی لیتا تھا۔ کیونکہ انگریزی سیکھنے کے بعد ہی، میں مکینک کا ڈپلومہ لے سکتا تھا۔ اس سارے کام میں مجھے دو سال لگ گئے۔ میرا نیا مالک میرے کام سے بہت خوش تھا اورمیری محنت کی قدر کرتا تھا۔ میری رہائش کا انتظام ورکشاپ کے دفتر میں ہی تھا ۔ایک روز میں نے اُس سے کہا کہ میں اپنی بہن کو بلانا چاہتا ہوں۔ تو اُس نے کہا کہ پہلے تُو اپنا گھر بسا لے اور تھوڑے پیسے بنا لے پھر بُلا لینا ۔ ایک دن اچانک بولا کہ کیوں نہ تمھاری شادی کر دی جائے؟ میں کیا جواب دیتا؟ خاموش رہا۔ تو وہ بولا کہ ساراانتظام میں کرونگا، تم صرف ہاں کردو! میں نے کہا ٹھیک ہے۔ اُس نے مجھے بتایا کہ انڈیا میں اُسکی ایک چھوٹی بہن ہے سُرجیت کور، اُس سے وہ میری شادی کرانا چاہتا ہے! سچ پُوچھ یا ر! اس شخص کے مجھ پر بڑے احسان تھے۔ میں نے سوچا کہ اِس سے اچھا موقعہ تو ہو ہی نہیں سکتا، اُسکا بدلہ چُکانے کا! لہذا میں نے فوراً ہاں کردی۔ اُس نے میرے نام سے ہی سپانسر تیار کروا کر، اپنی بہن کو بلوا لیا اور ہماری شادی ہو گئی ۔
سُرجیت، پرائمری پاس، ایک قبول صورت کی اچھی دیہاتی لڑکی تھی۔ میری زندگی میں جو دُکھ اورغم تھے، انکو اپنا غم اور دُکھ مانتی تھی۔ کھانا اچھا بناتی اور گھر صاف رکھتی تھی۔ میں نے ہندوستان آتے ہی، بچپن سے ورکشاپوں پر کام شروع کردیا تھا۔ اور یہاں بھی آئے تین سال ہوگئے تھے۔ کبھی صاف ستھرے اور نہا دھو کر، آرام سے گرم کھانا نہ کھایا تھا۔ ماں کے بعد، کبھی کسی نے میرے ہاتھوں کو، اپنے ہاتھوں میں نہ لیا تھا۔ سُرجیت نے میری آتماما اور شریر، دونوں کو ایک نئی زندگی دی ۔ وہ میرے بغیر نہ خود کھانا کھاتی اور نہ ہی بغیر نہائے دھوئے، مجھے کھانے دیتی! کھانے کے بعد میرے ہاتھ اور پاوں دبانے لگتی، جس سے مجھے سکون آنے لگتا اور میں وہیں صوفے پر پڑا، پڑاسو جا تا۔ مجھے تو دنیا میں ہی سورگ مل گیا تھا یار! میں اپنے کام میں اور تیز ہو گیا اورایک سال بعد ہی، اپنی بہن اور جیجے کو، یہاں کینیڈا بلانے میں کا میاب ہو گیا ! وہ دن تھا جب میرے دونوں سپنے پورے ہو رہے تھے۔ میں وہ دن کیسے بھلا سکتا ہوں؟ کیونکہ اُسی روز، جب میں اپنی بہن کو لینے ائیرپورٹ گیا ہوا تھا، سُر جیت کوؔر ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں چل بسی ۔
منجی کی آواز رُک گئی تھی۔ جبکہ آنسو جاری ہو چکےتھے۔ میری آنکھیں بھی نم تھیں۔ کچھ توقف کے بعد، میں نے پوچھا کہ دلپؔی سے شادی کیسے ہوئی؟
میں نے اپنا گھر اپنی بہن کو دے دیا تھا کیونکہ اب اُس گھر میں مَن نہیں لگتا تھا۔ گھر کیا اُس ورکشاپ سے بھی خوف آنے لگا تھا۔ کچھ عرصہ فارغ رہنے کے بعد، میں نے دوسرے شہر میں ایک ورکشاپ، قابل ِفروخت دیکھی ، جسکے اُوپر فلیٹ بھی تھا۔ میں نے وہ کرائے پر لے لی اور اپنا کام شروع کردیا۔ زندگی واپس یاس و نااُمیدی کیطرف لوٹ رہی تھی ۔ لیکن میری بہن اور اُسکے بچوں نے اُسے روک رکھا تھا۔
دو سال بعد، میرے جیجے کے ایک رشتہ دار، جو انگلستان میں رہتے تھے۔ انہوں نے بات آگے بڑھائی۔ دلپریتؔ ہندوستان میں پیدا ہوئی تھی، لیکن بعد میں وہ یہاں انگلستان آگئے تھے۔ پڑھائی میں توزیادہ نہ چل سکی تھی لیکن انگریزی زبان میں خُوب آگے نکل گئی۔ وہ اِس رشتہ سے زیادہ خوش نہ تھی۔ اُسے میرا مکینک ہونا کبھی اچھا نہیں لگا ۔ وہ ہر ایک کو یہی بتا تی ہے کہ ہمارا گاڑیوں کا گیراج ہے۔
اب کیسے چل رہاہے؟ میں نے پوچھا! اُس نے آہ بھرتے ہوئے ، ایک لمبی اور گہری سانس لی اور بولا! جب ہمارے پاس حافظ آباد میں کچھ نہیں تھا۔ ہم بہت خوش تھے۔ اب میرے پاس سب کچھ ہے، پر یا ر! ہم خوش نہیں ہیں! میں نے کہا یارکہیں یہ ناشکری تو نہیں؟ دلپریت خوبصورت ہے، جوان ہے ، تیرے بچوں کی ماں ہے اور تجھے کیا چاہئیے؟
گھرمثبت جذبات اور رشتوں کی چاشنی سے بنتے ہیں! ایک دوسرے کو اپنانے سے بنتے ہیں۔ قربانیوں سے بنتے ہیں، محض ایک چھت کے نیچےاکٹھے رہنے سے نہیں! وہ قدرے سرد لہجے میں بولا!
اُسکے منہ سے یہ گہری اورفلسفیانہ بات سُن کر میں حیران رہ گیا! تمہیں میری ماتا جی یاد ہےنا؟ اُس نے مجھ سے پوچھا! میں چُستی سے بولا ہاں، ہاں! وہ بولا ، میرے پِتا کی آمدن نہ ہونے کے برابر تھی۔ ہمارے گھر کبھی کبھی، کھانا پکانے کیلئے کچھ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن میری سورگ باشی ماتا جی نے، کبھی میرے پِتا کو اِسکا ذمہ دار نہیں ٹہرایا تھا۔ اُس نے کبھی ہمیں، اِس بات کا احساس نہ ہونے دیا۔ وہ پیاز کی چٹنی بنا کر یا ہمسایوں کے ہاں سے کچھ لے آتی اور گھر کے سکون کو قائم رکھتی تھی۔ وہ سانولی تھی لیکن اُس کے چہرے پر نور تھا۔ کیا تمھیں بھی وہ ویسے ہی اچھی لگتی تھی جیسے کہ ہمیں؟ کیا تمہیں بھی اُس پر نور نظر آتا تھا جیسے کہ ہمیں؟ وہ لگا تار مجھ سے پوچھتا چلا گیا! میں نے بھی بِنا کسی لگی لپٹی کے، ہاں میں جواب دیتا جا رہا تھا ۔ اور یہی بھی سچ تھا۔ اُسکی آنکھوں میں ایک بار پھر آنسو آگئے۔
ہمیں کا فی دیرہو گئی تھی یہاں بیٹھے ہوئے۔ میں نے کہا کہ چلو کچھ کھاتے پیتے ہیں۔ نہیں، میں ٹھیک ہوں! وہ بولا۔ تُمہیں بھوک لگی ہے؟ اُس نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے کہا نہیں، بس ویسے ہی کہا تھا۔
میں ورکشاپ پر، چھوٹے موٹے کاموں کے پیسے نہیں لیتا تھا ۔ میرے کام میں بہت برکت تھی! دلپریتؔ کو، دوسروں سے، ربّ جانے کیا بَیر ہے؟ ہر وقت مجھے کہتی رہتی ہے کہ اِن ملکوں میں کوئی کام بغیر پیسے کے نہیں ہوتا! پیسے لِیا کرو۔ جب سے میں نے، چھوٹے، چھوٹے کام کے پیسے لینے شروع کئے ہیں، یار، میرے کاروبار سے برکت ہی اٹھ گئی ہے! تو نہ لو پیسے، چھوٹے کاموں کے ! ویسے ہی کرو جیسے پہلے کرتے تھے، میں بولا۔ اُس کی فرمائشیں ہی ختم نہیں ہوتیں! اوپر سے دوسرے لپھڑے! اُس نے منہ دوسری طرف پھیرتے ہو کہا!
لپھٹرے! کیا مطلب؟ میں نے ہلکلاتے ہوئے پوچھا۔ نہیں ایسا کچھ نہیں! وہ بولا۔ وہ بہت دُکھی ہے یار!۔۔۔ اُسکا سب سے بڑادُکھ میرا وہ مکان ہے، جس میں میری بہن رہتی ہے۔ اُسکا دکھ میرا یہ فلیٹ ہے جس میں ہم رہتے ہیں! اُسکا دکھ میری سورگ باش، پہلی بیوی ہے! اُسکا دُکھ یہ ہے کہ میں جسٹن ٹروڈر نہیں ہوں!
دلپؔریت کو صرف اپنے سے، بس اپنے آپ سے پیا ر ہے! میں ایک دفعہ پھر سے اکیلا ہو گیا ہوں، یار! سُرجیتؔ کور نے ایک سال میں میری زندگی کو بدل کے رکھ دیا تھا ۔ یہ دس سال میں مجھے بیس سال پیچھے لے گئی ہے! میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اُس نے دونوں ہاتھوں کو اپنی پگ پرپھیرتے ہو ئے کہا اور بے چینی میں اُٹھ کھٹرا ہوا!
اِس بار میرے پاس، بات آگے چلانے کیلئے، خاموشی کے سوا کچھ نہ تھا۔ ہم دونوں اب پارک میں جوگنگ کیلئے بنی راہداری پر چلنے لگے۔
میں نے اُسکی بے چینی اور پریشانی کو کم کرنے کیلئے کہا کہ بچوں کا کیا حال ہے؟ ’’من جیت‘‘ سے بھی برا حال ہوگا اُنکا! وہ مزید دُکھ سے بولا! میں نے کہا نہیں یار،ایسے نہ کہو! اللہ تعالیٰ بہتر کریگا۔ وہ تھوڑے توقف کے بعد بولا، کیا تم نہیں جانتے، اِن ملکوں میں بچے قانونی طور پر ماں کے ہوتے ہیں؟ میرے تو جسمانی طور پر بھی اپنی ماں کے ہی ہیں! وہ ہر وقت اُنکے کانوں میں ایک ہی بات ڈالتی رہتی ہے کہ اپنے باپ پر نہ جانا! بھوکے مرجاو گے! تھوڑے وقفے سے بولا، یا ر ایک بات تو بتاو، کیا میری ماتا غلط تھی جو ہمیں ہر وقت یہی نصیحت کرتی تھی کہ بیٹا تم نے اپنے پِتا جیسے بننا ہے؟ کیا تھا ہمارا پِتا؟ ایک پانڈی (سامان اٹھانیوالا)؟ ایک تولّا (دانہ منڈی میں اناج تولنے والا) ؟ میں آج جو کچھ بھی ہوں ، میں اپنے ماتا پِتا کی بدولت ہی ہوں اور یہ مجھے کسی کام کا نہیں سمجھتی !
ہر وقت چیختی چلّاتی رہتی ہے بچوں پر، مجھے تو لگتا ہے کہ وہ بھی ایک دن، اِسکو چھوڑ دیں گے! میں ورکشاپ سے زیادہ اب گھر کے کام میں اُلجھا رہتا ہوں! اِس نےتو مجھے ’’پانڈی‘‘ بنا دیا ہے یا ر! ایسی بے سکونی ہے زندگی میں کہ خداکی پناہ ! نہ پاکستان میں امن دیکھا نہ ہندوستان میں! اب کینیڈا بھی ویساہی ہو گیا ہے میرے لئے!
یار، ساری بیویاں ایک جیسی ہی ہوتی ہیں! میں نے مُنہ دوسری طرف کرتے ہوئے کہا! نہیں یار! اُس نے جِھلّاتے ہو ئے فوراً جواب دیا! کیا میری اور تمھاری مائیں’’ بیویاں‘‘ نہیں تھیں؟ کیا سُؔرجیت کوربیوی نہیں تھی؟ کیا تمھاری بیوی ایسی ہے؟ میں نے خاموشی میں ہی عافیت جانی! کیونکہ اِس سے ایک نیا پنڈورا بکس کُھلنے کا اندیشہ تھا اوریہ خطرہ، اِس وقت، میں قطعاً مول نہیں لینا چا ہتا تھا۔ کیا وہ کام وام بھی کرتی ہے؟ میرا مطلب جاب وغیرہ؟ میں نے پوچھا! اُس نے غیراِرادی طور ایک بھرپور قہقہہ لگایا اور بولا ابھی تک بدھو ہی ہو؟ میں نے کہا ، کیا ہوا؟ بولا، میرے بھائی، جو عورت ساری رات ٹی۔ وی دیکھتی ہو، وہ صبح خاک کام پر جائے گی۔ ڈرائیونگ وہ نہیں کرتی! کیوں؟ میں نے جھٹ سے پوچھا! کیو نکہ وہ مجھے دنیا کا سب سے بڑاخوش نصیب سمجھتی ہے۔ میں نے حیرانی سے مسکراتے ہوئے، اُسکی طرف دیکھا اور کہا کہ اِسمیں کیا پرابلم ہے؟ ۔ وہ رُکا اورمیری طرف مڑ کر کہنے لگا: جناب عالی! وہ خود کوانجلینا جوؔلی سمجھتی ہے اورہروقت اُسی کی نقلیں اتارتی رہتی ہے۔ اور مجھے یہی جتلاتی رہتی ہے کہ میں خُوش قسمت ہوں، جوایسی حسینہ کا پتی ہوں۔ میں نے کہا یہ تو کوئی بُری بات نہیں۔ اکثر عورتوں کو یہ خبط ہو تا ہے! وہ ایکبار پھر جِھلّا کر بولا ، لیکن اکثرعورتوں کو یہ خبط نہیں ہوتا کہ اگر وہ گاڑی چلائیں گی تو سُرجیت کیطرح سورگ باش ہو جائیں گی! وہ سمجھتی ہے کہ اُسکے مرنے کا اُسکو تو کوئی فائدہ ہونیوالا نہیں، البتہ، مجھے ضرورفائدہ ہو جانے گا، اُس کو خدشہ لگا رہتا ہے ۔ اِسی لیئے، میں ہی اُسکا ڈرائیور بھی ہوں ، شوفر اور شوہر بھی، سب کچھ ! یہ کہہ کر، وہ تیزی سے آگے قدم مارنے لگا اور مجھے پیچھے چھوڑ گیا۔
میں نے حالات بہتر بنانے اور نیا موڑ دینے کیلئے موضوع بدلنے کا ارادہ کیا اور ہلکے سے مزاحیہ رنگ میں ہی پیچھے سے کہا کہ وہ ۔۔۔ وہ سُنو! ’’اِسلام ‘‘ کے بارے میں کیا خیال ہے جناب کا ؟ وہ ہولے سے مسکرا دیا اور بولا، مجھے یقین تھا کہ تم یہ سوال ضرور کرو گے!
اسلام کے بارے میں تو خیال نیک ہے لیکن مسلمانوں کے بارہ میں نہیں! اب تومیں پورا سکھ بھی نہیں رہا ہوں! میں تو اپنی پہچان، کب کی کھو چکا ہوں۔ یا یوں کہہ لو کہ میں ’آفاقی‘ ہو گیا ہوں! سب ست (سچ )ہے ، سب ست(سچ) ہے! اس نے ہندووں اورسکھوں کے نمشکاراور’’پرنام‘‘ کیطرح، دونوں ہاتھ جوڑتے ہو ئے کہا!
ہندو، مسلم ، سکھ ، عیسائی اور یہودی سب ٹھیک ہیں۔ سب ہی ربّ کا نام جپتے ہیں ۔ سب مذاہب کے گرو، اوتار، رِِشی اورراہب، نیک اور اچھے لوگ تھے۔ سب کے سنسکار اچھے تھے۔ لیکن اُنکے ماننے والے، سارے ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہیں!
تھوڑی دیر رُک کر، میں نے کہا کہ اگر تمہیں یا د رہا ہو کہ ہم احمدی مسلمان ہیں اور ہمارا ایک نعرہ یہ بھی ہے کہ ’’ محبت سب کیلئے اور نفرت کسی سے نہیں ‘‘ !
مجھے بھی تمھاری طرح سب یاد ہے دوست، وہ بولا! کینیڈا میں آپ لوگوں کا ایک بہت بڑا مرکز بھی ہے، میں جانتا ہوں! تمھارا ماٹو ہی تو میرا ماٹو ہے! میں تو تم لوگوں سے بھی ایک قدم آگے ہوں۔ وہ کیسے ؟ میں نے پوچھا !
ہم دونوں مذہب کے نام پر، لوگوں میں کوئی تفریق نہیں کرتے۔ رائٹ؟ اُس نےکہا۔
ہم دونوں انسانیت کی قدر کرتے ہیں اورسب کو ایک سا مانتے ہیں۔ رائٹ؟ وہ کہتا جا رہا تھا ۔۔۔ لیکن میں تو سب کو سچا بھی مانتا ہوں۔ میرے نزدیک تو سب ست ہے! جبکہ تم مسلمان تو دوسرے ساروں کو کافر قرار دیتے ہو!
میں بولا، نہیں دوست! ہم احمدی مسلمان، رام، کرشن، بدھا، کنفیوشس اور بابا گرو نانک کو اپنے اپنے دور کے اوتار، رِشی، اور پیغمبر مانتے ہیں۔ اسی طرح، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰ ؑ کو خداتعالیٰ کے پیارے اور خاص نبی اور رسول مانتے ہیں۔ میرے اس بیان پر، وہ پہلی دفعہ کسی قِسم کی دفاعی پوزیشن پر آتا ہوا دکھائی دیا۔
کبھی گروہرسہائے ( ضلع فیروز پور، انڈیا) گئے ہو؟ میں نے پوچھا ۔ بولا نہیں۔ وہاں کیا ہے؟ میں نے کہا کہ بابا گرو نانک کے اصلی تبرکات ہیں! حضرت میرزا غلام احمد صاحب قادیانی، امام مہدی علیہ السلام کا یہ دعوی و ایمان ہے کہ با با گرو نانک صاحب، صاحبِ کشف والہام بزرگ تھے۔ آپ ہندووں میں صرف اِس بات کی گواہی دینے کیلئے پیدا ہوئے تھے کہ اسلام ایک سچا دین ہے اور خدا کیطرف سے ہے۔ لگتا تھا کہ اب اُسکے خاموش ہونے کی باری تھی ۔ ہم کافی دیر سے چل رہے تھے، لہذا ایک بنچ پر بیٹھ گئے۔
تھوڑی دیر بعد بولا ، دیکھ یار! میں نے تمھیں بتا دیا ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ، ٹھیک ہیں اورمیں اپنی جگہ ! میں ربّ پرمیشر کو مانتا ہوں اورحضرت محمد صاحب کو بھی اُتنا ہی مانتا ہوں جتنا کہ باوا گرو نانک سرکار کو!
میں نے ساری زندگی کسی کا کچھ نہیں بگاڑا۔ ہمیشہ اچھا ہی کیا ہے! مجھے لگتا ہے مرنے کے بعد بھی میرے ساتھ اچھا ہی ہوگا ! تُو فکر نہ کر! اُسکی آوازآ ہستہ پڑرہی تھی ۔ لگتا تھا کہ اب وہ تھک سا گیا ہے۔ تھوڑی دیر بعد بولا! میں نے ایک کہاوت سن رکھی ہے کہ ایک زمانے میں ایک گناہگار شخص تھا میری طرح، جب وہ پُورا ہونے (مرنے ) لگا تو اُس نے اپنے پیاروں سے کہا کہ مرنے کے بعد میرے شریر کو چِتا دکھانا (آگ سے جلا دینا) اور میری راکھ ہوا میں اُڑا دینا ۔ جانتے ہو، اُس نے یہ کیوں کہا تھا ؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا ! اُس کے باوجود، وہ بولتا چلا گیا۔ چنانچہ اُسکے گھر والوں نے ایسے ہی کیا۔ لیکن خُدا نے فرشتوں کو حُکم دیا اوراُسکی راکھ کو اکٹھا کرکے، اُسی جسم کیساتھ، اپنے سامنے کھڑا کردیا۔ پوچھا، اب بتا کہ تم نے ایسا کیوں کرکیا؟ وہ ہاتھ جوڑ کر بولا! اے مولا! تیرے حضور پیش ہو نے سے ہی ڈرتا تھا۔ تاکہ مجھ غریب سےکوئی حساب کتا ب نہ ہو جائے! ربّ کو اُس پر رحم آیا اوراُسکو معاف کردیا ۔ کہاوت ختم کرتے ہوئے اُسکے چہرے پر ایک اطمینان تھا ۔ شائد اُس نے، اِسی آس کو ہی اپنی مُکتی اور نجات کا حل سمجھ لیا ہوا تھا ۔ دوسرے ، شائد وہ یہ بھی سمجھتا ہو گا کہ اِس کہانی کو سننے کے بعد، میں ایک سرد آہ بھروں گا اور چُپ سادھ لونگا !
میں نے کہا یہ کہاوت، ہمارے پیارے نبی ﷺ کی ایک حدیث شریف سے لی گئی ہے اور سچ ہے۔ لیکن تم صرف ایک آپشن لینا چاہتے ہو، مکمل حل کیوں نہیں لیتے؟ اُس نے حیرانگی سے میری طرف دیکھا جیسے کہ وہ سمجھا نہیں! میں نے کہا کہ تم اپنے آپ کو اُس شخص کیطرح خدا کے سامنے پیش کرکے، اُسکے رحم کی آپشن لینا چاہتے ہو!
میں نے کہا کہ وہ مالک ہے۔ ہو سکتا ہے کہ تمھاری باری آنے پرخدا کہے ایسے کئی لوگ آئے اورمیں نے اُنہیں معاف کر دیا۔ لیکن آج ایسا کوئی ارادہ نہیں، تمھارا تو حساب ہو گا۔ معافی ختم اور حساب کتاب شروع ! کچھ بھی ہو سکتا ہے، یار!
ربّ، آخر ربّ ہے! اُسکے چہرے پر، میرے بولتے رہنے کی خواہش، میَں صاف دیکھ رہا تھا ۔ لہذا، اُسکو مزید تکلیف دیئے بغیر میں بولا! کیوں نہ خداتعالیٰ سے دوستی کر لی جائے اورمحض چانس لینے کی بجائے، پہلے ہی سے حالات اپنے حق میں ساز گار کر لئے جایئں؟ وہ کیسے؟ منجی بولا! وہ ایسے کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان تو ہے ہی سب سکھوں کا،اُمید ہے کہ فرشتوں کو بھی مانتے ہوگے؟ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی سے اپنے لیے ہی بنائے ہیں! وہ خاموش رہا۔ تمام رسولوں یعنی رِشیوں اور اوتاروں کی سچائی کا اقرار، تو تھوڑی دیرقبل، تم کر ہی چکے ہو! باقی ساری کا ئنات ربّ کی، تو مرضی بھی ربّ کی! کسی کو مارے، جیون دے، کم دے یا زیادہ، لڑکی دے یا لڑکا ! دے یا نہ دے ۔ سب ٹھیک؟ اِسکا مطلب یہ ہواکہ تم اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر بھی ایمان رکھتے ہو! کرما، مُکتی، نجات اور روزِِ حشر سے کیسے انکار کرسکتے ہو؟ کیو نکہ بقول تمھارے، نیک سکھوں ا ورمومن مسلمانوں کی مُکتی اور نجات تو سورگ ہی ہے نا! ظاہر ہے، ربّ بھی سورگ میں ہی ہو تا ہے۔ ہمارے نزدیک تواللہ تعالیٰ کو دیکھنا اور اُس سے ملنا ہی جنت الفردوس ہے! کیا تم اِن سب باتوں کو نہیں مانتے؟ وہ بدستور خاموش رہا ! کیا تمھیں اِن سب سے انکار ہے؟ بولو!!! نہیں! اُس نے ہولے سے کہا ! پھر تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے، منجی!
یہی اسلام کی اساس (بنیاد )ہے! یہی وہ پانچ بُنیادی ارکان ِاسلام ہیں، جنہیں ہم رواں اُردو میں اللہ تعالی ٰ پر ایمان، اللہ تعالیٰ کے فرشتوں پر ایمان، اللہ تعالی ٰکے رسولوں پر ایمان ، اُنکی لائی ہو ئی کتابوں پر ایمان ،اللہ تعالیٰ کی تقدیر ِخیروشر پر ایمان اور روز آخرت پر ایمان کہتے اور یقین کرتے ہیں! اِنکو ماننے والا ہی مسلمان کہلاتا ہے۔ تم مسلمان ہو میرے دوست! مسلمان!
اِس اقرار کے بعد، خاموشی کچھ زیادہ ہی ہو گئی تھی! مجھے ایسے لگتا کہ اُسکو سکون اور اطمینان حاصل ہوگیا ہے لیکن حقیقت میں وہ تھک چکا تھا ۔ شائد وہ یہ بھی سوچ رہا ہو کہ میں بھی اُسکے ساتھ وہی کچھ کر رہا ہوں جو40 برس قبل، اُسکے باپ بشن سنگھ کے ساتھ ہوا تھا۔ لہذا، میں نے، اُسے اپنے مشن ہاوس لیجانے کا ارادہ ملتوی کردیا، جو یہاں سے صرف چند گزکے فاصلے پر تھا، جہاں ہم اِسوقت بیٹھے ہو ئے تھے۔
تمھاری گاڑی تمھارے سنٹر میں ہی پارک ہے؟ منجی نے سُکوت توڑتے ہوئے پوچھا ۔ میں نے کہا کہ ہاں! چلو وہاں چلتے ہیں! میری خُوشی کی انتہا نہ رہی! دل ہی دل میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کر ر ہا تھا کہ جس نے میرے بچپن کے دوست سے مجھے ملایا اور مجھے اِس قابل بنایا کہ میں اُسکی راہنمائی کر سکوں۔
مشن ہاوس میں فریش اپ ہونےکے بعد، ہم لائبریری میں بیٹھ گئے۔ میں کچن سے چائے بنا لا یا ۔ چائے کے دوران بھی خاموشی ہی رہی ۔ پھر اچانک وہ بولا : تمھاری اللہ سے دوستی کیسی ہے؟ نکل جاو ٔگے؟ میں اِس سوال سے سچ مچ پریشان ہو گیا تھا لیکن میں اُسے پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اچانک ایک اور حدیثِ نبوی ﷺ ، اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالی ! جسکا مفہوم یہ ہے کہ اپنے بھائی کیلئے بھی وُہی پسند کرو جو تم اپنے لیے کرتے ہو! میں نے کہا کہ میں اپنے آپ کو ، اُس کہاوت کے کردار سے بہتر پا تا ہوں! میں ربّ کی قدرت پر ایمان اور اُسکی ناراضگی مول لینے سے ڈرتا ہوں۔ اُسکی بندگی کا دم بھرتا ہوں اورسچ پوچھو تو اُسکی دوستی کا تاحال طلبگار ہوں! کیونکہ میں بہت کمزور ہوں۔ میری بھرّائی ہو ئی آواز سُن کروہ اٹھا اور مجھے گلے سے لگا کر رونے لگا !
کہنے لگاکہ 40 سال پہلے، ہمارے آنسو، ظلم ، جبراور استبداد کی وجہ سے بہے تھے اور آج کے آنسو! اللہ تعالیٰ کی رحمت، محبت اور شکرانے کے آنسو ہیں! سکھ مت شروع سے ہی اسلام کے قریب ہے۔ لیکن مسلمانوں اور سکھوں کی اپنی کو تاہ اندیشیوں نے اور غلط رویّوں نے، اِس ُپل کو’’ ُپل صراط ‘‘بنا دیا ہے۔ جس کو پار کرنا بڑا ہی مشکل ہے ۔ میرے پِتا، ’’محمد بشیر‘‘، میں نے لُقمہ دیا (جس پر ہم دونوں مسکرادیئے) جی ! اِس پُل صراط کیطرف وہ اپنی مرضی سے ہی چل رہے تھے لیکن جس انتہاپسندی کا مظاہرہ وہاں کے لوگوں نے کیا تھا، اُس سے بازی پلٹ گئی تھی ۔ آج سوہنے ربّ تعالیٰ نے ایک دفعہ پھر ہم پر اپنی کِرپا کی ہے۔ شکریہ دوست! میری مدد کرنے کا! اللہ تعالیٰ تمھیں اِس نیکی کا اجرِعظیم عطافرمائے، آمین۔
ہم دونوں نے وضو کیا! کلمہ شہادت دُہرایا! صدقہ دیا، نماز پڑھی اور گھر واپس آگئے۔ اُس رات مجھے خوشی سے نیند نہ آئی۔ میں ماضی میں ہی گھومتا رہا۔ منجی کے ماں باپ کیلئے دعائیں کرتا رہا۔ اپنے ماں باپ کیلئے دعاگو رہا ۔ کیونکہ اِس کامیابی کے پیچھے اُنکے نیک سلوک کا بہت ہا تھ تھا ۔ رَبِّ ا غْفِر وَرحم وَا اَنتَ خیرُالراحِمیِن۔
مسودہ اپریل 2019