نامور صحافی ، شاعرِ احمدیت ، ایڈیٹر ’’ لاہور‘‘،محترم حضرت ثاقب زیرؔوی صاحبؒ،
جناب حضرت ثاقب زیروی ؒ صاحب کی ذات گرامی ، جماعت احمدیہ عالمگیر اور برصغیر پاک وہند کے علمی، شعری ، ادبی اور صحافتی حلقوں میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔آپ شاعرِ احمدیت کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ 1939 ء سے لیکر 1983 ء تک ، جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسوں میں ، حضرت مسیح ِموعود، حضرت مصلح موعود کے کلام کو خوش الحانی سے پڑھنے کے علاوہ ، آپ واحد شخصیت تھے جو اپنا منظوم کلام بھی، خلیفۃالمسیح کے اختتامی خطاب سے پہلے سناتے تھے۔اور بہت پسند کئے جاتے تھے۔
آپ نے اپنی زندگی ، اسلام احمدیت کی خدمت کیلئے 1945 ء میں وقف کی اور 1953 ء میں ، ہفت روزہ رسالہ ’’لاہور‘‘ کی جماعتی خدمات اور کامیا بیوں کے بعد، حضر ت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ نے آپکو اس دعا اور امید سے کہ آپ ہمیشہ وقف کی روح کو قائم رکھتے ہوئے، اسلام احمدیت کی خدمت کرتے رہینگے، باعزت وقف سے فارغ کیا۔
یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے آپ سے بُلند شان اور مخلص فرزندِ احمدیت سے شرف ملاقات 1991 ء کے اوائل میں حاصل ہوا اور مسلسل 4 /5 سال تک گاہے بگاہے ، آپ سے شرف ملاقات حاصل رہا۔ الحمدللہ!
اپنی خوش نصیبی کی مختصر روداد لکھنے سے قبل ، یہ نہایت موزوں رہے گا کہ میں ، آپؒ کے بارہ میں لکھ کر ، آپکیؒ زندگی کے چھپے ہوئے گوشوں سے قارئین کو آشنا کروں۔
آپ 1918 /1919 ء میں، زیرہ ضلع فیروزپور میں ، حکیم الہ بخش صاحب ؓ ، صحابی حضرت مسیح موعود کے ہاں پیداہوئے۔ حکیم صاحب ؓ نے 1905 ء میں بیعت کی توفیق پائی تھی۔ آپؓ کے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی ۔ محترم محمد صدیق صاحب المعروف ثاقب ذیرؔوی کا نمبر دوسرا تھا۔
آپ کے دادا ، زیرہ کے روءسا میں سے لیکن احمدیت کے مخالف تھے ۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنے بیٹے حکیم الہ بخش صاحب ؓ (یعنی آپکے والدکو ) اپنی جائیداد سے عاق کردیا تھا۔لہذا، یہ لوگ قادیاں چلے آئے۔ وہاں انہوں نے حضرت حکیم مولوی نورالدین رضی اللہ تعالی ٰ عنہ سے حکمت کی مزید تربیت حاصل کی اور گاؤں گاؤں پھر کر ، نہ صرف تبلیغ کرتے بلکہ لوگوں کا علاج بھی کیا کرتے۔ کسی سے دوا کا معاوضہ نہ مانگتے۔ جو کچھ وہ دے دیتے ،اُسی سے گزر بسر کرتے۔ حکیم صاحب ؓ کے والد (اور ثاقب صاحب کے دادا) کی وفات کے بعد، یہ لوگ زیرہ واپس چلے آئے اور اپنے موروثی اور متروک مویشی خانہ ، میں آ کر رہائش اختیار کرلی۔
آپ اور آپکے کے بڑے بھائی محمداقبال دونوں 1933 ء میں میٹرک کے امتحان کی تیاری کررہے تھے۔ محمد اقبال بہت ذہین اور صحتمند نوجوان تھے۔ایکدن اچانک وفات پا گئے۔ آپکے والد نے جنازہ والے دن ، محترم ثاقب صاحب کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ میری غربت نے مجھ سے ایک گناہ کروا دیا ہے ، جس کی سزا آج مجھے مل گئی ہے۔ تم تو جانتے ہی ہو کہ ہماری گزر اوقات بڑی مشکل سے ہورہی تھی ۔میرے دل میں ایک شرک پیدا ہو گیا تھا کہ ا قبالؔ اور صدیقؔ ، جیسے ہی میٹرک کا امتحان پاس کرلیں ، نوکری پر لگ جائیں گے اور اِسطرح ہمارے حالات بہتر ہو جائیں گے!
لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی ۔ میری غلطی تھی اور مجھے سزا مل گئی ہے۔ اب میری کمر ٹوٹ گئی ہے ۔ گھر کی ذ مہ داری ، اب تم سنبھا لو۔ اُسکے بعد، والد صاحب پھر گھر سے کبھی نہ نکلے۔
1934 ء میں محترم ثاقب ؔ صاحب نے ، میٹرک پاس کیا۔ ٹائیپنگ اور شارٹ ہینڈ سیکھی ۔وہیں فیروزپور میں ، ایک دو جگہ ملازمتیں کیں۔ چھٹی والے دن ، اکثر قادیان چلے جاتے ، کسی سے دوستی اور ناطہ نہ تھا۔ نمازیں پڑھتے ، بہشتی مقبرہ دعا کرتے، مجلسِ عرفان سنتے اور واپس گھر آجاتے۔ شعر کہنا ، دُرِّثمین او رکلام محمود سے نظمیں پڑھنا ، بچپن سے شروع کر دیا تھا۔1935 ء ایک موقعہ پر قادیان میں تھے کہ پتہ چلا ، کل خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں ، حضورِ انورؓ تحریک ِجدید کی بابرکت تحریک میں توسیع کا اعلان فرمائیں گے۔ آپ کی توجہ ہوئی ، آمد ہوگئی اور ایک اچھی نظم ہو گئی ۔
ایک دو بزرگوں کو سنائی ، جن میں مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ بھی تھے۔ آپ کے والد صاحب مرحوم کا مولوی صاحب ؓ سے برادرانہ اخوت کا تعلق تھا ۔ اور آپ مولوی صاحب کو تایا جان پکارتے تھے ۔ انہوں نےبھی نظم پسند کی اور آپکو حضرت صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب ؒ سے ملنے کو کہا۔حضرت میاں صاحب ؒ نے اجازت دے دی اور آپ نے یہ نظم پہلی مرتبہ حضور خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے سامنے پڑھی گئی۔ حضورؓ سمیت ، تما م حاضرین نے بہت پسند کی ۔اِسی شام ، حضرت صاحبزادہ میراز ناصر احمد صاحب ؒ نے ، اجتماع کی رات ، ہونیوالے علمی مقابلہ جات کے سیشن کے دوران میں ، آپکو گھر سے بلوا کر ، کئی نظمیں سنیں اورتما م حاضرین نے پسند کیں۔رات کو ہی ایک 12/13 سالہ بچے نے آپ سے کہا کہ صبح ، ناشتہ آپ ہمارے گھر کریں گے۔ آپ نے بچے سے تعارف کروانے کیلئے کہا تو ساتھ موجود لوگوں نے بتایا کہ یہ میاں طارؔی ہیں ( یعنی حضرت میرزا طاہر احمدصاحب ؒ) یوں اگلے روز ، خاندان ِ حضرت مسیح موعود کے گھروں میں ، آپکی دعوتیں شروع ہوگئیں۔
حضرت صاحبزادہ میرزا ناصر احمد صاحب ؒ سے آپکا دوستانہ ہو گیا۔ آپ نے خدام الا حمدیہ کیلئے کچھ ترانے لکھنے کی فرمائش کی۔ جس پر آپ نے کئی نظمیں اور ترانے لکھے جو ’’ہمارے نغمے‘‘ اور ’’ماہِ کامل‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔
1937 ء میں لاہور آئے اور ایک ادبی رسالہ ’’گنجینہ ادب ‘‘ جو مشہور شاعر اور دانشور ، احسان دانؔش صاحب نکالتے تھے ، میں کام شروع کیا۔ تھوڑی دیر بعد ، یہ بندہو گیا۔ تو 1939 ء میں کو آپریٹو سوسائٹی بینک میں ملازمت کرلی۔
اِسی دوران ، ایک روز، آپکی والدہ صاحبہ نے کہا کہ تم بڑے شاعر بنے پھرتے ہو۔ میں حضرت مسیح موعود کی کتاب ’’حقیقۃ الوحی ‘‘ پڑھ رہی ہوں۔ کلام الا امام کو نظم کیوں نہیں کرتے؟ میں نے ، ضرور کریں گے، امی حضور! چنانچہ آپ نے ، حضور علیہ السلام کی اردو کتب کا نئے سرے سے مطالعہ کیا اور ’’دورِ خسروی ‘‘ کے عنوان سے آپکے پیغام حق کو نظم کیا۔ تمام کلام کیطرح ، آپکے اس مجموعے کو بھی بڑی پزیرائی ملی۔
1945 ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے وقف ِزندگی کی تحریک فرمائی ۔ آپ نے درخواست لکھ دی۔ مئی 1946 ء میں ، صبح ساڑھے آٹھ بجے ، حضور ؓ سے انٹرویو ہوا۔ بڑی مزیدار روداد ہے ۔ اس انٹرویوکی ! حضور ؓ نے فرمایا کہ مولوی عبدالرحمن انوؔر (پرائیویٹ سیکرٹری ) صاحب سے تعارفی خط لیں، آج ہی لاہور جائیں اور کل مولانا عبدالمجید ساؔلک صاحب ، ایڈیٹر روزنامہ ’’انقلاب ‘‘ سے ملیں۔ کام شروع کرتے ہی مجھے تاردیں!
مولانا عبدالمجید سالؔک صاحب مرحوم ، ادب ، صحافت اور مسلمانانِ پنجاب کا ایک بڑا معتبر نام تھا۔ آپکےمصاحبوں میں ، مولانا چراغ حسن حسرؔت، مولانا غلام رسول صاحب مہرؔ ، مولانا ظفر علی خاں، مولانا عطاء اللہ شاہ بخارؔی ، اور شاگردوں میں شورش کاشمؔیری جیسے لوگ شامل تھے۔
یہ تربیت قریباً دو سال تک جاری رہی۔مولانا سالؔک نے حضور انورؓ کی خدمت میں جو خط لکھا تھا ، اس میں صرف دو ہی سطریں لکھی تھیں۔ جناب ممدوح حضرت میرزا محموداحمد صاحب ، لیجئے ساؔلک کا مثنّیٰ (دوسراوجود) حاضر خدمت ہے! ایک استاد کی طرف سے کہی جانیوالی یہ بہت بڑی توصیف اور بات تھی ۔
اس دوران 1947 ء تقسیم ِہند کا واقعہ بھی رونما ہو گیا تھا۔ حضورانورؓ رتن باغ ، لاہور میں مقیم تھے۔آپ ؓ نے بڑی درد ناک آہ بھر کر کہا کہ ہمارا پروگرام تو تھا کہ تم آو گے تو ، امرتسر، گورداسپور یا جالندھر سے اپنا ایک روزنامہ نکالیں گے۔ یہاں تو ابھی دو وقت کا کھانا اور پورے بستر بھی مہیا نہیں ہیں ! چلو ایسا کرو ، فی الحال ، میرے پریس اتاشی بن جاو!
چند روز بعد ، لاہور میں انجمن حمایت ِاسلام کے زیر اہتمام ، ایک بڑے مشاعرے کا انعقاد ہو رہا تھا۔جسکی صدارت گورنر جنرل پاکستان خواجہ ناظم الدین صاحب کررہے تھے۔ آپ نے حضورؓ سے ، بطور آپکے پریس اتاشی ، سننے کی درخواست کی ، آپ ؓ نے قبول فرمالی۔ آپ صحافیوں کی گیلری میں جا کر بیٹھ گئے۔ کئی نا مور شعرا کلام سنا چکے تھے اور آخری بڑے اور سرکاری شاعر ، قومی ترانے کے خالق جناب حفیظ جالندھری ابھی اپنا کلام سنانے والے تھے۔ پریس گیلری سے ، آپکے دوست احسان دانش صاحب نے ،(آپ کو بتائے بغیر ) سیکرٹری مشاعرہ کو ایک چِٹ بھیجی کہ اگر ہمارے شاعر جناب ثاقب زیرؔوی صاحب کو نہ بلایا گیا تو ہم تقریب کا بائیکاٹ کردیں گے۔ لہذا، مجبور ہو کر ، آپکا نام پکارا گیا۔ آپ نے ، اس زبردستی کو پسند تو نہ کیا تاہم ، ساتھیوں کے اصرار پر سٹیج پر چلے گئے۔ اپنی بارعب، پر سوز اور مترنم آواز میں ، ایک نظم ’’میراجواب‘‘ جو اصل میں ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کی معرکۃ الاراء کتاب ’’ اسلام کا اقتصادی نظام ‘‘ سے متاثر ہو کر لکھی گئی تھی ( اور مؤلف کی نظر میں ، آسان الفاظ میں ’’جواب ِ شکوہ‘‘ کی ہی ایک شکل تھی ) سنائی۔ خواجہ صاحب سمیت تمام حاضرین نے بہت پسند کی۔ آپ جانے لگے تو خواجہ ناظم الدین صاحب نے کہا کہ ایک اور! آپ نے کہا کہ سر! میں تو مدعو ہی نہیں تھا ۔ یہ یاد تھی ، سو سُنا دی! وہ بولے،بس ایک اور، پھر چلے جانا۔ چنانچہ آپ نے ، اپنی ایک اور نظم ’’پربت کے نظارے‘‘ سنائی ۔اکثر حاضرین آپکو پہلی مرتبہ سن رہے تھے ۔ سٹیج اور پنڈال سے داد دہی کا ایک ہی معیار تھا جو کہ بہت بلند تھا۔ واپس جانے لگے تو خواجہ ناظم الدین صاحب نے پھر کہا کہ ایک اور! اس بار آپ نے کہا کہ سر مجھےاور کوئی زبانی یاد ہی نہیں۔ تو گورنر جنرل صاحب نے کہا ، چلو ، پہلی والی دوبارہ سناو! دوبارہ سنائی ۔ اس دوران حفیظ جالندؔھری صاحب ، جو احمدیت کی وجہ سے ، آپکے پہلے ہی مخالف تھے ، آپکی اس قدر عزت افزائی پر ، اپنی ناسازیء طبع کا بہانہ کر کے چلے گئے۔ اور یوں یہ مشاعرہ آپ نے لوٹ لیا۔
رات 3 بجے کے قریب رتن باغ پہنچے اور صبح کی نماز جلدی پڑھ کر سو گئے۔ صبح 9 بجے، مکرم محمد یوسف صاحب ، پرائیویٹ سیکرٹری نے آپکو 9 بجے اٹھایا کہ حضورؓ آپکا انتظار فرما رہے ہیں اور ابھی تک ناشتہ بھی نہیں فرمایا۔ آپ بھاگم بھاگ ، حضورؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؓ نے بخوشی لاہور سے شائع ہونیوالے قریباًسارے اخبارات، جن پر ، آپکا ذکر، شہ سرخیوں میں درج تھا ، آپکے سامنے رکھدیئے اور اپنی بھر پور خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ مزید یہ بھی فرمایا کہ جب تک اپنے اخبار کا بندوبست نہیں ہو جاتا ۔ مشاعرے پڑھتے رہو! حضورؓ نے اپنی طرف سے 30 روپے ماہوار، گزارہ الاونس دینے کا بھی اعلان کیا۔
چند روز بعد، آپکو ایک تار اور400 روپے کا منی گرام ، اے۔ڈی۔اظہر صاحب جو گزشتہ مشاعرے کے سیکرٹری تھے اور اعلیٰ سرکاری افسربھی ۔ اغلب قیاس یہی تھا کہ یہ پیار جناب گورنر جنرل صاحب کی طرف سے ہی تھا جن سے یہاں، لاہور میں ، آپکی پہلی ملاقات ہوئی تھی ۔ جوں جوں وہ آپکا کلام سنتے گئے توں توں آپکے عاشق ہوتے گئے۔
یہ مشاعرے، چٹاگانگ ، ڈھاکہ اور دیگر جگہوں پر ہونے جا رہے تھے۔ لاہور سے دہلی تک کیلئے، ایک چارٹرڈطیارے کا انتظام سرکار کی طرف سے کیا گیا تھا۔ حضور ؓ نے بخوشی اجازت دی۔ آپ کے علاوہ ، بھارت سےمشہور شعراء جناب فراؔق گورکھپوری ، جگرؔ مرادآبادی اور فناؔ کانپوری صاحب بھی شامل ہوئے۔ جبکہ پاکستان سے ، جناب کلیؔم عثمانی اور حفیظ جالندھری صاحب وغیرہ۔
اس زمانے میں چونکہ ٹی۔وی توا بھی آیا ہی نہیں تھا۔ ریڈیو ہی دستیاب تھا۔ ریڈیو والوں نے کہا کہ رات کا پروگرام ہے۔ ہم نصف گھنٹے کا نشریہ براہ راست کر سکتے ہیں ۔ لہذا، سارے شعرا ئے اکرام اگر ایک ایک غزل پڑھ دیں تو ڈھاکہ والے بھی محظوظ ہو لیں۔ بعد میں مشاعرہ جاری رہے۔
چنانچہ ، گونرجنرل صاحب کی فرمائش پر آپکو سب سے پہلے بلوایا گیا ۔ پھر ایک کے بعد ایک نظم اور غزل کی فرمائش آتی رہی اور آپ ہی سنے جاتے رہے۔ یوں ریڈیو پاکستان ڈھاکہ کا سارا وقت آپ ہی لے گئے۔
ریڈیو اور اخبارات کے زر یعے آپکا تعارف ہوا کی مانند ہر سُو پھیلتا جارہا تھا۔ ماشاءاللہ !
گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین صاحب سے آپکی دوستی ہو گئی تھی جو لیاقت علی خان صاحب کی شہادت کے بعد ، اب وزیراعظم بن گئے تھے۔ اُس دور میں ، سرکاری اور نجی طور پر بڑے بڑے مشاعروں کا رواج تھا۔ جیسے انگریزی روزنامہ ڈان، سالانہ دو سے تین مشاعرے کرواتا تھا، ایسٹ اور ویسٹ پاکستان میں۔
اسی طرح کا ایک مشاعرہ کراچی میں ، سندھ مدرسۃ الاسلام کالج کی گراونڈمیں بھی ہوا۔ ساٹھ ستر ہزار کے قریب مجمع تھا۔ وزیراعظم ، گورنر، وفاقی و صوبائی وزراء ، سفرا اور علمی وادبی لوگوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔ اس مشاعرہ میں بھی ،آپ لسٹ میں آخری بڑے قومی و سرکاری شاعرحفیظ جالندؔھری صاحب سے ذرا پہلے بلائے گئے اور پھر ایسے چھاگئے کہ حفیظ صاحب کی باری نہ آسکی۔
اس طرح کے چھوٹے بڑے سینکڑوں مشاعرے آپ نے پڑھے اور دادِ تحسین وصول پائی۔ آخری یادگار بڑے مشاعرے، چیمسفورڈ کلب، دہلی کاٹن ملز، اور ہمدرد فاونڈیشن کے تحت ، جنگ سے قبل 1965 ء میں دہلی میں پڑھے۔ جس میں برصغیرپاک وہند کے نامور شعراء ، فراؔق، جگرؔ، جوشؔ، عارؔفی ،(علی سردار) جعفرؔی (شکیل )بدایوؔنی،عرؔش ملسیانی ، قتیؔل شفائی ، احمد ندیم قاسمیؔ، ماہرالقادریؔ ، حفیظ ؔجالندھری وغیرہ شامل تھے۔
1948 ء میں ربوہ کا قیام عمل میں آیا۔ آہستہ آہستہ ، دفاتر، کالج اور دیگر جماعتی ادارے منتقل ہوتے رہے۔ اس دوران آپ لاہور کے مشہور ادبی او ر روزناموں ، ’’آفاق‘‘، ’’احسان‘‘، ’’ نوائے وقت‘‘ میں لکھتے اور چھپتے رہے۔ 1950 ء میں وکالت تبشیر میں چوہدری مشتاق احمد باجوؔہ صاحب کے ساتھ کام کرنے کے علاوہ روزنامہ ’’ الفضل ‘‘ میں سیاسی خبروں کا ایک ورق بھی ترتیب دیا کرتے تھے۔
لاہور میں، آپ نے مولانا چراغ حسن حسرؔت صاحب کے ساتھ مل کر ، ایک ادبی رسالے’’لاہور‘‘ کا ڈیکلریشن نکلوا رکھا تھا۔مولانا تو کراچی میں ریڈیو پاکستان میں ملازم ہو کر چلے گئے تھے جبکہ آپ ربوہ آگئے تھے۔ ایک روز، حضورِ انورؓ نے آ پ سے پوچھا کہ مجھے علم ہوا ہے کہ تمھارے پاس ایک ڈیکلریشن ہے ؟ آپ نے کہا ، ہے تو سہی ، لیکن لاہور میں قابل ِعمل ہے! حضورؓ نے فرمایا ، کوئی بات نہیں۔ میں تمھیں ایک سال کی رخصت دیتا ہوں، تم جا کر اپنا پرچہ نکالو! کتنا سرمایہ تمھیں درکار ہے؟ آپ نے کہا ، کہ حضور! اگر آپ رخصت دیتے ہیں تو اسکا بندوبست بھی میں خودہی کر تا ہوں۔ آپ سے فقط دعا کی درخواست ہے!
آپ لاہور آئے۔ اپنے ایک وکیل دوست شکراللہ خان صاحب سے مشاورت کی ۔ انہوں نے دو سو روپے بطور امداد اور ایڈوانس اپنے اشتہار کیلئے دیئے۔ آپ نےاُس رقم سے 24 صفحے کا ایک پورا پرچہ تیا ر کیا ۔لاہور میں، جسکو دکھایا ، اس نے بڑا پسند کیا۔ اس پر آپ کئی کاپیاں لیکر سیدھے کراچی ،( بڑے بھائی )چوہدری محمدعبداللہ خاں صاحب(برادرِاصغر چوہدری سر محمدظفراللہ خاں صاحب ) کے ہاں پہنچے۔انہوں نے بھی پرچہ بہت پسند کیا اور پوچھا کہ کس قدر سرمایہ چاہیئے کہ ایسا پرچہ نکلتا رہے اور جماعت کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتارہے؟ ’’میں نے موٹا موٹا حساب لگا کر کہا کہ اگر 3 ہزار روپیہ کا بندوبست ہو جائے تو پھر اپنے جیتے جی ،میں یہ پرچہ بند نہ ہونے دونگا، انشاءاللہ!رات کو میں گورنرجنرل ہاوس آگیا۔ خواجہ صاحب بھی پرچہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ اور اند ر اپنی اہلیہ کو بھی دکھایا۔ دونوں نے اپنی طرف سے ایک ہزار روپیہ عطیہ دیا۔ اگلے روز جب میں بڑے بھائی سے ملا، تو انہوں نے مجھے 1300 روپے کے اشتہارات کیلئے ڈرافٹس (چیک) دئے اور اپنی جیب سے 200 روپے اور لاہور کیلئے واپسی کا ٹکٹ الگ سے خرید کر دیا‘‘۔ اس طرح ہفت روزہ ’’ لاہور ‘‘ کا آغاز ہوا۔ اورآپکے اپنے عزم اور وعدے کے مطابق، آپکی زندگی میں مسلسل 45 سال تک ، بفضل ِ تعالیٰ چھپتا رہا ۔
اس دوران ، جماعت احمدیہ اور رسالہ پر کئی قسم کی مشکلات اور مصائب آئے، بندشیں لگیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وہ ہوا ہوتی گئیں۔ 1953 ء کے پر آشوب دور میں ، رسالہ لاہور اور مدیرِلاہور نے بہت فعال کردار ادا کیا۔ مارشل لاء کے سخت قوانین کے تحت ، چند ماہ کیلئے ، دیگر پرچوں کیساتھ ’’لاہور‘‘ بھی بند کر دیا گیا ۔قبل ازیں، تعلیم الاسلام کالج کی گرانٹ بندہوئی، حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب، ’’سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب‘‘،’’ ایک غلطی کا ازالہ‘‘ وغیرہ کی ضبطیاں بھی ہوئیں۔ لیکن مدیر ِلاہور اور ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ کو ، ہر معاملے میں ، بفضل تعالیٰ مقبول خدمت کی توفیق ملتی رہی!
خواجہ ناظم الدین صاحب گورنر جنرل اور بعدازاں بطور وزیراعظم پاکستان (ستمبر 1948 تا اپریل 1953 ء)کے علاوہ، گورنر پنجاب سردار عبدالرب نشتؔرصاحب (1949تا 1951 ء)، نواب امیر محمدخان المعروف نواب آف کالا باغ (1960تا 1966 ء) آپکے گہرے ذاتی دوستوں اور رسالے کے مداحوں میں سے تھے۔
بھٹو دور میں ، 1974 ء جماعت احمدیہ کے خلاف ہونیوالے فیصلے کے بعد، آئے روز ایک نئی مصیبت جماعت اور رسالے کیلئے کھڑی کر دی جاتی۔’’ڈیفنس آف پاکستان رولز ایکٹ ‘‘کے تحت کئی جھوٹے مقدمات قائم کیے گئے۔ ’’لاہور‘‘ کے پرچے اٹھا لئے جاتے، ترمیم سے دو ہفتے قبل رسالہ بند کردیا گیا۔ آپکو گرفتار کرنے کی کوششیں بھی، کئی مر تبہ کی گئیں۔ اس ضمن میں لاہور اور سرگودھا میں ہونے والے واقعات بڑے دلچسپ اور ایمان افروز ہیں۔ اللہ تعالی ٰ آپکو اور خلفاء کو سچی اور مبشر خوابیں بھی دکھا تا تھا اور وہ بعینہ پوری ہو جاتی تھیں۔الحمدللہ! ان تمام واقعات کے، اپنے وقت کے مشہور و معروف صحافی اور دانشور(جنہیں بعد میں جنرل ضیاء الحق نے اپنی مجلس شوریٰ کا میمبر اور کئی کمیٹیوں کا میمبر بھی بنایا تھا ۔ جناب م۔ ش (محمد شفیع) صاحب بزاتِ خود گواہ تھے ۔جناب م۔ش صاحب کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اور الثالث ؒ سے کئی ملاقاتیں کرنے کی توفیق ملی اور بڑی نیاز مندی کا سلوک رکھتے تھے۔ ثاقب ؔ صاحب آپکو دل سے احمدی تسلیم کرتے تھے)۔ حکومتی ہتھکنڈوں کے خلاف ، بفضل تعالیٰ ، عدالتوں سے ریلیف لیا جاتا۔ علاوہ ازیں، جناب م ۔ش صاحب اور احسان دانشؔ جیسے قدآور اور ترقی پسند صحافیوں اور علمی وا دبی حلقوں سے لوگ آپکی مدد کو آتے۔ جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب اورجسٹس ایم ۔ایس قریشی صاحب جیسے آپکے قدردان ، ڈی۔ایم (دوست محمد ) اعوان ( ایڈووکیٹ جنرل پنجاب) ، راجہ لہراسپ خاں( ایڈووکیٹ جنرل پنجاب )جیسے غیر احمدی وکلاء جبکہ میراز نصیر احمدصاحب ایڈووکیٹ ، بیرسٹر ادریس نصراللہ صاحب ، چوہدری عزیز احمد باجوہ صاحب ، مبشر لطیف صاحب جیسے احمدی وکلاء کی ٹیم ، زوالفقارعلی بھٹو کے پرسنل آرڈرز کے سامنے بھی ایک ڈھال بن جاتے رہے۔
1974 سے پہلے’’ لاہور‘‘ ایک علمی وادبی رسالہ تھا اور جماعتی لائن پر کچھ مضامین اس میں شامل رہتے تھے۔ لیکن 74ء کے فیصلے کے بعد، مدیرانِ اخبارات ورسائل کی انجمن میں ، جب آپ نےایڈیٹرز اور مالکان سے ، احمدیت کے بارے میں کم از کم حقائق چھاپنے کی بات کی تو ، وہ تمام یک زبان ہوکر بولے کہ’’ بھائی ، دوستی اور تعلقات اپنی جگہ پر اب ت یہ و ہمارے ایمان کا معاملہ ہے۔ہم آپکی حمایت نہیں کر سکتے!‘‘ اس پر آپ نے بھی علی العلان کہا کہ پھر ہمارے بھی ایمان کا معاملہ ہے۔ اس لئے میں بھی تم جیسوں کے ساتھ نہیں چل سکتا۔ یہ کہہ کر، انکی انجمن سے نکل آئے۔
اس روز سے ، ’’لاہور‘‘ کی پالیسی میں علمی و ادبی کیساتھ ساتھ ’’سیاسی امنگوں ‘‘کے ترجمان کا اضافہ بھی کر دیا گیا ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ 7 ستمبر کو جب جماعت کے خلاف فیصلہ سنایا گیا۔ اس روز ٹی ۔وی ۔پر سارا خبر نامہ جماعت کے خلاف نشریے پر مبنی تھا۔ خبرنامے کے اختتام پر ، اناونسر نے کہا آئیے اب جناب ثاقبؔ زیروی صاحب کی آواز میں نعتیہ کلام سنتے ہیں! سبحان اللہ !
ترمیم کرنے والوں کے منہ پرتقدیر کی طرف سے یہ کیسا معنوی طماچہ تھا اگر کوئی سمجھے تو! خوبصورت نعتیہ کلام کا مطلع عرضِ خدمت ہے:
تو حبیبِ ربِّ جلیل ہے، تیری عظمتوں کا جواب کیا
تومقامِ فخِرخلیل ہے، تیری رحمتوں کا حساب کیا !
1975 ء کے آخر تک آپ ، ریڈیو ، ٹی ۔وی اور سرکاری و نیم سرکاری مشاعروں پر مدعو کئے جاتے رہے۔ بعد میں یہ سلسلہ بھی موقوف ہوا۔
لیکن جنرل ضیاءالحق کے دور میں ،’’لاہور‘‘ کے خلاف ہتھکنڈے پہلے سے بھی بڑھ گئے۔ بھٹوؔ دور میں ، کبھی کبھار ،سرکاری اور نیم سرکاری اشتہارات رسالے کو ملتے رہتے تھےجن سے گزارا ہو جاتا تھا۔ مولانا کوثر نیاؔزی، جوبھٹو دور میں وفاقی وزیر مذہبی امور تھے ، ثاقبؔ صاحب کے خاص مداحوں میں سے تھے۔
5 جولائی 1977 ء کو مارشل لاء کے نفاذ کے بعد 26 /27 جولائی کو جنرل ضیاء الحق لاہور آئے اور مدیران ِاخبارات و جرائد سے ملاقات بھی رکھی ۔ سب نے ان کو خوش آمدید کہا اور انہوں نے بھی اسلامی نظام سے متعلق بڑے حسین خواب دکھائے۔آخر میں ، جنرل ضیاء نے آپکا نام لیکر کہا کہ سب نے کچھ نہ کچھ بات کی ہے لیکن آپ نے کچھ نہیں پو چھا! اس پر آپ سے جو مکالمہ ہوا،وہ بھی بڑا دلچسپ ہے ۔ خیر جنرل ضیا ء نے کہا کہ آپ سے تفصیل سے بات ہو گی۔ آپ کبھی ایوان صدر تشریف لائیں۔ روئیدادخان صاحب ، جو اس وقت ، انفارمیشن منسٹر تھے، ان سے کہا کہ بھئی ثاقؔب صاحب کو زحمت دیں کبھی! آپ نے میٹنگ کے اختتام پر ، روئیداد خان صاحب، جن سے آپکی یاد اللہ پہلے سے تھی پوچھا کہ جناب کب بلا رہے ہیں ہمیں؟ انہوں نے کہا ، مسکراتے ہو ئے جواب دیا : انشاء اللہ ! اب کبھی بھی نہیں !۔۔۔
چنانچہ ، سب سے پہلے ، اشتہارات بند ہو ئے۔پھر کئی دفعہ نیوز پرنٹ (اخباری کاغذ) بھی نہیں دیتے تھے۔ اور آخر پر’’لاہور‘‘ کا ڈیکلریشن (چھاپنے کا اجازت نامہ) بھی ، ’’پریس رولز آف پاکستان آرڈیننس ‘‘کے تحت منسوخ کر دیا گیا ۔ خیر اس حکم کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیساتھ ساتھ ’’لاہور‘‘ پھر بھی کبھی کبھی ، کسی نہ کسی طرح، چھپتا رہا۔ خفیہ ایجنسیاں، پریس، اور ڈاک خانوں سے پرچے اٹھاتی رہیں۔ یوں 1984 سے لیکر 1992 تک ’’لاہور‘‘ کو بے حد تنگ کیا گیا۔ رسالے کی ہفتہ وار اشاعت 4000 ہفتہ سےکم ہو کر چند سو پرچوں تک محدود رہ گئی ۔ سی۔ آئی ۔ڈی نے مرکز اورادارہ ’’ لاہور‘‘ اور جماعت احمدیہ لاہور تک سے تفتیش کی کہ اگر کوئی اور بھی اِس کی معاونت میں شامل ہو تو دھر لیا جائے ، لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے معاملات حل ہوتے گئے۔
1962 ء میں رسالہ کی دسویں سالگرہ کے موقع پر 72 صفحات پر مبنی شمارہ شائع ہوا۔ جس میں بڑے بڑے لوگوں کے مضامین شامل ہوئے۔ آغاشورؔش کاشمیری صاحب جو بڑے پکے احراری اور جماعت احمدیہ کے سخت مخالف تھے۔ لیکن محترم ثاؔقب صاحب کے ساتھ بہت پیار کا سلوک رکھتے تھے۔ آپ اپنا ہفت روزہ’’ چٹان‘‘ نکالتے تھے او ر ِاسی نام سے قائم پریس کے بھی مالک تھے۔ جناب ثاقؔب صاحب کے دفتر میں آئے اور بڑا شکوہ کیا کہ’’ تم نے مجھے اس یادگار شمارہ میں کچھ لکھنے کو کیوں نہیں کہا؟ ثا قؔب صاحب نے کہا کہ میں نے جانا کہ آپ ہمارے رسالے میں کیونکر لکھنا چاہیں گے! اس پر آغا صاحب نے کہا کہ میں نے ایک نظم کہی ہے، اس موقع پر، وہ چھاپ دو! ثاقؔب صاحب نے کہا کہ رسالے کا ڈرافٹ تیار ہے۔ ابھی کاتب نے اداریہ لکھا ہے اور اب تو کوئی جگہ باقی نہیں رہی ۔ اس پر شورؔش صاحب نے کاتب سے اداریہ پکڑا، ثاقؔب صاحب کے لکھے ہوئے اداریہ میں سے کچھ کاٹ چھانٹ کر کے اپنی نظم کی جگہ بنائی اور پھر وہ نظم بھی اداریہ کیساتھ پہلے ہی صفحے پر چھپی۔
اسی طرح ، بانی نوائے وقت ، جناب حمید نظاؔمی صاحب بھی ثاقب صاحب کو اپنے بچوں کیطرح پیار کرتے تھے۔ انہوں نے بھی اس شمارے میں ایک مضمون دیا تھا ۔ حالانکہ انہوں نے ایک جگہ لکھا بھی ہے کہ سوائے ’’لاہور‘‘ کے انہوں نے کبھی کسی اور اخبار اور رسالے میں کبھی کچھ نہیں لکھا! اسکے علاوہ ہر سال ’’سالؔک نمبر‘‘ اور’’ جمالؔی نمبر ‘‘بھی نکلتے تھے ۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے، دوستی ، پیار، محبت، احسان، اخلاص، بھائی چارے اور مروت کی ! ساؔلک صاحب کے بارہ میں تعارف تو اوپر گزر چکا ہے۔’’ جماؔلی ‘‘سے مراد، میرمحمد جعفر خان صاحب جماؔلی آف روجھان ہیں۔جو قائدِاعظم ؒ اور محترمہ فاطمہ جناح کے بڑے معتمد رفیق تھے۔یہ بلوچوں میں سے سب سے معزز سردارتھے اور انکی عزت واحترام مرؔی ، بگتؔی ، جاؔم اور مینؔگل سب کرتے تھے ۔ان سرداروں سے آپکے تعلقات کا آغاز 1954 ء میں ہوا تھا۔ میر جعفرخان جماؔلی صاحب نے آپکو اپنا چھوٹا بھائی قرار دیا تھا اور یہ بات پورابلوچستان جانتا تھا۔نواب محمد اکبر بگٹؔی مرحوم (سابق گورنر و وزیراعلیٰ )ہوں یا میرمحمد ظفراللہ جمالؔی (سابق وزیر اعلیٰ ہوں یا وزیراعظم ) ثاقؔب صاحب مرحوم، سب کےلئے بڑے احترام کی جگہ پر تھے۔
مذکورہ بالا واقعات، آپکی اور آپکے احباب کے اعلیٰ کردار، روادار ی اور وضع دار خصوصیات کے آیئنہ دارہیں۔
1976 ء میں ، ’’لاہور‘‘ کی سلور جوبلی منائی گئی ۔ اس کا سارا خرچ اور انتظام حضرت چوہدری سر محمدظفراللہ خاں صاحب کی طرف سے ، اُنکی خواہش پر ، لاہور کے ایک ہوٹل میں کیا گیا تھا۔
1952 ء میں جب ’’لاہور‘‘ کا آغاز ہو ا تھا، اس دور میں ، ہفت روزہ، ’’آفاق‘‘، ’’چٹان‘‘،’’ اقدام‘‘ ، ’’قندیل‘‘ اپنے عروج پر تھے ۔ بڑے بڑے نام ان سے جڑے تھے۔ اِنکے اپنے پریس تھے۔ انکے علاوہ بھی کئی نمایاں رسالے جیسےقاسؔمی صاحب کا ’’نقوش ‘‘ اور ’’فنون‘‘ بھی بڑی شان سے نکلتے تھے۔ سرکاری سرپرستی اور مالی آسائشوں کے باوجود، سوائے ’’لاہور‘‘ کے سارے ایک ایک کرکے گم ہو گئے۔ لیکن ’’لاہور‘‘ اللہ تعالی ٰ کے فضل وکرم اور مدیر ِ لاہور کے اپنے الفاظ کہ’’ایک دفعہ یہ پرچہ نکلنا شروع ہو گیا تو پھر میں اسے بند نہیں ہونے دونگا ‘‘کے مصداق، آج تک چل رہا ہے، الحمدللہ علی ٰذالک!
آپ نےخود ایک موقع پر کہا کہ’’ ہر طرح کی مشکلات کے باوجود، یہ پرچہ وقت پر نکلتا اور دستیاب ہوتا رہا۔گو اسکو باقاعدہ رکھنے میں ، میری اپنی زندگی کا ہر پہلو بے قاعدہ ہوگیا‘‘!
اپریل 1990 ء میں ، میں محترم محمود ناصر ثاقؔب صاحب، مربی سلسلہ عالیہ حافظ آباد کے ہمراہ ، گلیکسی لاء چیمبرز، ٹرنر روڈ، لوئر مزنگ، لاہور پہنچا ۔درجنوں سیڑھیاں چڑھ کر ، تیسری منزل پر واقع ، ایک دروازے کے سامنے کھڑے ، اپنا سانس درست کر رہے تھے جس پر ایک چھوٹی سی تختی ’’دفتر ہفت روزہ لاہور‘‘ کے نام کی لگی ہو ئی تھی ۔ مربی صاحب، اپنے زمانہ طالبعلمی جامعہ احمدیہ کے دوران ، ایک مرتبہ پہلے بھی محترم ثاقؔب صاحب سے مل چکے تھے۔ لیکن یہ کافی پرانی بات تھی ۔ لہذا، ہم دونوں ہی تھوڑے گھبرائے ہو ئے تھے۔ دستک دی ، دروازہ کھلا تو محترم ثاقؔب صاحب کا بارعب وجود، ایک بڑی سی میز کے پیچھے لگی ، آرام دہ اور گھومنے والی کرُسی پر براجمان تھا ۔آپ حسبِ سابق سیاہ چشمے اور سفید قمیص شلوار میں ملبوس تھے۔ آپکی اچکن کونے میں ایستادہ ، ایک ہینگر میں لٹک رہی تھی۔ داہنی طرف، آپکی ہی میز پر، آپکے بیٹے مکرم یاسر منصور صاحب ، اس سے اگلی چھوٹی سی میز پر مکرم چوہدری فیض احمد صاحب (مینیجر’’لاہور‘‘) اورمحترم ثاقبؔ صاحب کے چہرہ رخ، سامنے والی دیوار کیساتھ ٹیک لگائے، نچلے تخت پوش پر ، دو عدد بزرگ کاتب ،قلم دوات سے روائتی طور پر کتابت کر رہے تھے۔
دو اجنبی نوجوان بلکہ نو واردوں کے ، بغیر اطلاع چلے آنے پر ، سب کے چہروں پر خوشی کے بجائے، قدرے حیرانی کے آثار نمایا ں تھے ۔ لہذا، ہم نے چھوٹتے ہی سلام دعا کے بعد اپنا تعارف کروایا جس سے ماحول پر سکون ہو گیا۔ ہماری اگلی بات سُن کر ’’سکون‘‘ کا ماحول قدرے ’’ خوشی‘‘ کے رنگ میں آ گیا ۔ ہم نے بڑے ادب اور لجاجت سے ، حافظ آباد( شہر و ضلع) کیلئےرسالہ ’’لاہور‘‘ کی ایجنسی کی درخواست کر دی تھی ۔اس دوران چائے بھی آگئی۔ آپ نے حا فظ آباد کے مشہور بزرگوں کا تعارف لیا ۔ خلفاء کی آپ سے شفقتوں کے واقعات ، بات بات پر ، خوشبو بکھیر رہے تھے۔ اس اثنا ء میں ، مکرم فیض احمد صاحب نے کاغذات تیار کر دیئے۔ 1984 ء کے مخالفانہ حالا ت کے بعدروزنامہ ’’الفضل‘‘ کیطرح ، ’’ لاہور‘‘ کی بزریعہ ڈاک ترسیل بھی بند ہوچکی تھی ۔ شہر میں 8/10 شمارے ’’لاہور‘‘ کے آتے تھے۔
اِس بار ہم نے کل 15 شماروں کی درخواست کردی تھی۔ایجنسی کی کمیشن وغیرہ منہا کر کے ، فی قاری ، ماہانہ چار عدد شماروں کا ہدیہ صرف 3 روپے اور سالانہ 36 روپےبنتا تھا۔ جبکہ دوسری طرف روزانہ کے ایک اخبار کی قیمت 3 روپےتھی ۔ لیکن اِس قدر رعایت کے باوجود بھی پورا ضلع حافظ آباد اس کارِخیر کو جاری نہ رکھ سکا اور 4/5 سال کے بعد ہی یہ ایجنسی ختم کر نا پڑی۔
ان 4 سالوں کے دوران میں اور عزیزم ندیم احمد، اپنی تعلیم کے سلسلے میں لاہور میں ہو نے کی وجہ سے نیز رسالے کا بل ادا کرنے کیلئے ، کئی مرتبہ ، دفتر’’ لاہور ‘‘گئے۔ ہر مرتبہ، محترم ثاقؔب صاحب سمیت تمام لوگ بڑی محبت سے پیش آتے۔ ہمیشہ چائے اور بسکٹ سے تواضع کرتے۔لیکن سب سے زیادہ مزہ اس وقت آتا جب آپ ، خلفائے احمدیت، بزرگان جماعت اور صاحبان ِ اقتدار سے ہو نیوالی اپنی ملاقاتوں او ر واقعات کا احوال سناتے۔اُس وقت ، ہماری پرواز ،عرش پر ہوتی !
آپکی یادداشت کمال کی اور طبیعت بڑی رواں تھی ۔ کاش! میں اُسوقت ڈائری رکھتا! کاش ! اُس وقت میرے پاس ٹیپ ریکارڈر ہوتا! میرے تاریخ میں ایم ۔اے کرنے پر، آپ بڑے خوش تھے۔ مجھے لکھنے لکھانے کی طرف توجہ کرنے کا کہتے۔ آپ فرماتے کہ میں تو اب بوڑھا ہو گیا ہوں ۔طبیعت بھی ناساز رہتی ہے۔ اب یاسر منصوؔر ہی زیادہ کام دیکھتا ہے ! میں تو عادتاً یہاں آجاتا ہوں۔ اب آپ جیسے لوگوں نے ہی اس کام کو آگے لیکر جانا ہے!
ہمارے سامنے ہی’’ لاہور‘‘، ہاتھ کی کتابت سے کمپیوٹر کمپوزنگ پر منتقل ہوا۔ ایک مرتبہ میں نے ایک مضمون’’امریکہ کا زوال‘‘ لکھا! آپ نے اُس کو دیکھ کر، اِس بارے میں مزید تحقیق کر نے اور دوبارہ لکھنے کو کہا۔ جب مجھےاس پر آمادہ نہ پایا تو بلا تردّد، کاتب کو بلا کر کہا ،لیجئے استادِ محترم! نعیم صاحب کا مضمون لیجئے! پہلی مرتبہ آپکے منہ سے اپنا نام سُن کر ، ایسے لگا جیسے آپ ، جلسہ سالا نہ میں اپنی نظم سے پہلے ، میرا نام پکار رہے ہوں!
اِس اعزاز کی قدور قیمت آج بھی مرے دل میں اُسی طرح محفوظ ہے اور میرے کانوں میں سرور کے رس گھول رہی ہے۔خیر ، میرامضمون ، جوں کا توں چھاپ دیا ۔ اِسکے بعد، مجھے اُسی حوالے سے جانتے اور پکارتے کہ بھائی اب کس کے زوال کی باری ہے؟
ہر ایک کی طرح ،شائد آپکو بھی ، میرے چہرے پرچکنے چکنے پات نظر آتے ہونگے۔ جوبدقسمتی سے ، میری اپنی کو تاہیوں ،کمزوریوں ، وقت اور حالات کی تپش نے جلا کر رکھ دیئے اور میں آپ سمیت کسی کے معیار پر بھی پورا نہ اُتر سکا۔
اسکی وجہ جو میں سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ ہم نے کلام الاامام ، ’’پیر بنو! پیر پرست نہیں !‘‘ تو پڑھ لیا لیکن نہ اُس کو سمجھا اور نہ ہی اس پر کماحقہ عمل نہیں کیا ۔ جنہوں نے عمل کیا، وہ تو ثاقب زیرؔوی بن گئے اور جنہوں نے ہماری طرح ، محض دلوں میں قدردانی اور کانوں میں سرورکو ہی جگہ دی ، و ہ زمیں پر کیڑے مکوڑوں کیطرح رینگ رہے ہیں۔
محترم ثاقؔب زیروی صاحب کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت مبشر اور سچی خوابیں آتی تھیں۔اُن خوابوں پر آپکو اس قدر یقین ہو تا تھا کہ بلا جھجک دوسروں کو بتا دیتے تھے۔ یقین کی یہ دولت کہاں سے آئی تھی ؟ ظاہر ہے، اپنے خداتعالیٰ سے پیار ، تعلق ، یقین اور توکّل سے آئی تھی ۔ یہ ’’ شرح‘‘ کا وہ سرمایہ تھا جو آپکے دل میں تھا! یہ آپ نے کیسے کمایا تھا ؟ آپکے والد صاحب مرحوم کے زمانے سے ہی ’’ زیرہ ‘‘ والے گھر میں ایک گوشہ ’’ بیت الدعا ‘‘ کے نام سے موسوم تھا ۔لاہور میں تو ہر جگہ کوہی آپ نے ’’ بیت الدعا ‘‘ بنا دیا تھا ۔ جب بھی کوئی پریشانی اور ابتلاء آتا، آپ، خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاتے۔ اور نوافل ادا کرتے تھے۔ اپنے منہ بولے تایا جان ، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ کیطرح اکثر اوقات ، آپکو فوراً نوید، سنُا یا دِکھا دی جاتی تھی ۔
میرے قیام لاہور کے دوران ، جب کبھی جامع دارالذّکر مسجدگڑھی شاہو میں ، نماز جمعہ ادا کرنے کا موقع ملا۔ میں نے آپکوہمیشہ پہلی صف میں ، قبلہ رخ ، مسجد کے بایں حصہ میں (جب امام خطبہ کیلئے کھڑا ہوتا تو اسکا دایاں بنتا تھا )سنتیں ادا کرتے ہو ئے پایا۔ میں نے کئی مرتبہ باقاعدہ گھڑی پر وقت دیکھ کر نوٹ کیا کہ آپ کم ازکم 45 منٹ میں، 4 عددسنتیں ادا کرتے۔ سبحان اللہ!
1995 ء میں، وزیرآباد ملازمت اختیار کرنے ، پھر مقابلے کے امتحانوں، قیادت علاقہ کی ذمہ داریوں میں ایسا مصروف ہوا کہ ، لاہور کا رستہ ہی بھول گیا۔ اصل میں ، میں خود اِسی قابل تھا کہ بھُلا دیا جاتا!
اس دوران ، ہمارے اور سب کے پیارے، جناب حضرت ثاقؔب زیروی صاحب ، مورخہ 13 جنوری 2002 ءکو قریباً 83 برس کی عمر میں ، اپنے بہت ہی پیارے آقا و مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔
لیکن ، اپنے سدا بہار حمدیہ و نعتیہ کلام ، فکرواحساس میں ڈوبی نظموں جیسے ،میرا جواب، یاد دھانی ، پربت کے نظارے، عہدوپیمان، اور انجام وغیرہ میں، اِسی طرح ، اپنی علمی ، ادبی اور سیاسی تحریروں میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہیں گے، انشاءاللہ تعالی!
شاؔد عظیم آبادی نے، آپ سوں کیلئے ہی کیا خوب کہا ہے:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں،ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
تعبیر ہے جسکی حسر ت وغم ، اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
لاکھون ہی مسافر چلتے ہیں، منزل پہ پہنچتے ہیں دو اک
اے اہلِ زمانہ قدر کر، نایاب نہ ہوں کمیاب ہیں ہم
2006 ء میں ، جناب چوہدری فیض احمد صاحب مینیجر’’ لاہور‘‘ ، لند ن جلسہ سالانہ پر آئے اور اپنی بیٹی کے ہاں ٹہرے ۔ میں ان دنوں 6 ماہ تک لندن میں ٹہرا ہوا تھا اور آپکے داماد اکبر صاحب بھی ہمارے محلے دار تھے۔ وہاں ایکدن اچانک فیض صاحب سے ملاقات ہو گئی ۔ میں نے اُنکو اور اُنکے اقارب کو چائے پر بلایا۔ وہاں ہم ، سارا وقت جنابِ ثاقب ؔزیروی صاحب مرحوم اور دفتر ’’لاہور‘‘ کی ہی باتیں کرتے رہے۔
یہاں ایک موقعہ اُس محسن کے ذکر ِخیر کا بھی ہے جسکی بدولت مجھ ناچیز کی آنکھیں ،جناب محترم ثاقب زیرؔوی صاحب سے عظیم الشان ، عاشقِ ربِّ جلیل، جیّد ثناء خوان ِرسولِ عربیﷺ ، حضرت مسیح موعود ؑ کی نصائع پر پورا اترنے والے، حضرت مصلح موعودؓ کے دینی فرزند ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے دوست اور حضرت خلیفۃ المسیح الربع ؒ کے بڑے بھائی کو دیکھ کر ٹھنڈی ہو سکیں۔
موصوف کا ذکر میرے کئی دیگر مضامین موجود ہے ۔ لیکن ا ِس مضمون سے متعلقہ ہونیکی وجہ سے ، یہاں بھی اُنکا ذکربغرض ِ دعا کر دینا نہایت مناسب معلوم ہو تا ہے۔جنہوں نے اپنے نام میں’’ ثاقب ‘‘ کا لاحقہ بھی جناب حضرت ثاؔقب زیروی صاحب سے متاثر ہو کرہی لگایا تھا۔ میری مراد ، محترم محمود ناصر ثاقب ؔ صاحب مربی سلسلہ عالیہ سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ، آپکو اِس کار خیر کی بہترین جزا عطا فرمائے اور ہمیشہ آپکا حامی و ناصر رہے، آمین۔