مکرم و محترم محمود ناصر ثاقبؔ صاحب مربی سلسلہ عالیہ

مکرم و محترم محمود ناصر ثاقبؔ صاحب مربی سلسلہ عالیہ

1988  ء کے موسم بہار میں ،  میں  ظہؔر کی نماز کیلئے  مسجد  گیا تو  ایک سادہ اور بھولا بھالا  سا نوجوان  بھی  مسجد میں موجود تھا۔ عمر میں مجھ سے تین  چار سال بڑا،  مناسب قدو قامت ، جسم  پتلا لیکن صحتمند! قبل اِسکے کہ میں آپکا   تعارف  حاصل کرتا  ، مرحوم بابا شیرعلی  صاحب ، خادم مسجد بولے، ’’ایہہ نویں  مربی صاحب آئے نے پُّتر‘‘!   میری   18 سالہ  عمر کے دوران  ، حافظ آباد میں درجنوں مربیان اکرام   آئے اور گئے، لیکن اِسقدر نوخیز، مربی صاحب سے ملنے کا میرا یہ پہلا تجربہ تھا۔خیر ،سلام دعا ہوئی  تو آپ نے اپنا نام  محمود ناصر ثاقؔب  بتایا۔ یہ بھی کچھ عجیب سا سنائی دیا،  جیسے اپنے سارے بھائیوں کا نام بتلا  رہے ہوں!

نماز کے بعد ، جو تین چار خدام موجود تھے،  اُن سے متعارف  ہونیکے بعد ، آپ نے نماز ، روزہ اور چندے کے بارے میں پوچھنے کی بجائے،  یہ پوچھا کہ  کون کونسی کھیل  کھیلتے ہو اور کہاں؟ ہم نے بتا یا کہ سارے’’ کھیل‘‘  ہی کھیل لیتے ہیں ! بولے، صبح نمازِ  فجر کے بعد کرکٹ اور رات کونمازِ عشاء کے بعد بیڈمنٹن  کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ہم نے اثبات میں سر جھکا  دیا!

اگلے روز سے نمازوں کے’’ غلافوں‘‘ میں لپٹی ہوئی  کھیلیں شروع  ہو گئیں۔چند دنوں میں ہی ، فجر کی  حاضری میں خاطر خواہ اضافہ ہو گیا!مقامی بزرگوں کی کئی سالہ نصائع اور ڈانٹ پھُٹکار سے وہ کام نہ ہو سکا جو، نوجوان مربی صاحب کی مسماۃ  ’’کرکٹ ‘‘صاحبہ نے  نمازِ فجر کیلئے اور بیڈمنٹن نے، نمازِعشاء کیلئے کر دکھایا تھا۔

 

ہم مربی صاحب کو’’ سادہ لوح اور دیہاتی ‘‘سمجھ رہے تھے  ۔ وہ آہستہ آہستہ’’ پڑھے لکھے‘‘ اور   ’’شہری‘‘  نکلتے  جارہے تھے۔ ایک روز، کہنے لگے، کہ  محراب   کے دائیں ، بائیں ، متروک اندھیری کوٹھریوں میں ، روحانی خزائن سمیت ، سلسلہ عالیہ کی بڑی قیمتی کتب پڑی پڑی خراب ہو گئیں ہیں ، کسی کو پتہ ہے، اِسکا؟محترم   ڈاکٹر نصیراحمد شریف  صاحب قائد مجلس  تھے اور خاکسار معتمد تھا ۔ ہم نے کہا کہ ہم تو ’’روشن مزاج‘‘ ہیں، ہمارا اندھیری کوٹھریوں سے کیسا  واسطہ؟ کبھی اُدھر گئے ہی نہیں !  بولے کیوں نہ مسجد  کے ماتھے پر، بر لب ِ سڑک موجود ، اپنی 4 عدد دوکانوں میں سے ایک دوکان خالی کروا کر ، اُس میں لائیبریری بنالی جائے؟  جس کا دروازہ ، مسجد کے  اندر، صحن میں کھلے! روشن کمرہ ہو،  خوبصورت الماریاں ہوں، چند میز اورکرسیاں ہوں  جن پر بیٹھ کر احباب، جماعتی و دیگرکتب اور  اخبارات کا مطالعہ کر سکیں ! خدام الاحمدیہ اور جماعت کی میٹنگز  بھی مناسب حال ماحول  میں، بیٹھ کر  کی جاسکیں ۔ قبل ازیں مسجد میں صرف ایک ادھ ہی ، پرانی کرسی موجود تھی ۔

قائد صاحب اور خاکسار نے تجویز کو نہائت معقول ، اور قابل ِعمل قرار دیا ۔ صدر جماعت احمدیہ  حافظ آباد  چونکہ ہمارے اپنے تایا جان چوہدری محمدعبداللہ صاحب  تھے۔ ہم  دونوں  اُنکی عاملہ  کے میمبر بھی تھے جبکہ مربی صاحب کو بھی  وہ  اپنے بیٹوں کی طرح ہی  چاہتے  تھے۔آپ  نے ہماری بات سُنی اور تھوڑی  سی تگ و دو اور  اپنی  روائتی   عادتِ التواء کے بعد، مقامی جماعت کی  عاملہ  کے سامنے رکھ دی۔  بفضلِ تعالیٰ،  منظوری کے بعد اِس تجویز پر کام شروع ہو گیا۔

ابتدائی تخمینہ مبلغ 5 ہزار روپیہ  کا لگا یا گیا تھا ۔ تین مخیرّ دوستوں نے ایک ایک ہزارروپے  کا عطیہ دیا ، جو اُس زمانے میں بہت  بڑی بات تھی ۔ ان میں ، ہمارے سابق قائد مجلس،  جناب میرزا خلیل احمد صاحب  یعقوؔب  ، ڈاکٹر ناصر احمد صاحب منیؔر  مرحوم (جرمنی والے) اور ۔۔۔تھے۔ جبکہ پانچسو روپے دینے والوں میں، ہمارے سمیت  کئی احبابِ جماعت شامل تھے۔قائد صاحب مجلس ، ’’لائبریری  کمیٹی ‘‘ کے صدر اور  خاکسار سیکرٹری  تھا ۔ محترم مربی صاحب  اس پروجیکٹ کے’’ ڈائریکٹر جنرل ‘‘!

مسجد  کے مین دروازے سے ملحق، ایک  دوکان خالی کروائی گئی ، اُسکی چھت ، فرش اور دیواریں ، پریم کوٹ سے  ایک احمدی مستری دوست  سے مرمت اور تیار کروائی گئیں ۔ جبکہ مزدوری کا کام بطورِ وقار عمل خدام نے خود کیا۔ پریم کوٹ سے ہی  جناب ولایت حسین  صاحب سے ، جو محلہ بہاولپورہ میں فرنیچر کا کا م کرتے تھے،  سے ارزاں نِرخوں پر، 12 عدد کرسیاں اور 4 عدد میزیں بنوائیں گئیں  ۔مقامی  تھانے کے سامنے  واقع  ، ایک دوکان مغل ؔ میٹل  ورکس،  سے پہلے 4  عدد  بعد ازاں دو مزید ، جستی،  شیشہ لگی  ، خوبصورت (سیف نما) کتابوں کی الماریاں بنوائی گئیں۔ اور دو ماہ کے قلیل عرصہ میں ہی  ایک خوبصورت  لائبریری تیا ر ہو گئی۔

محترم مربی صاحب کے تعاون سے ہی ، مجلس خدام الاحمدیہ  کی گرانٹ سے ،  نظارتِ اشاعت اور احمدیہ بک ڈپو  ، ربوہ سے رعائتی  قیمت پر، سینکڑوں کی تعداد میں  کتب خریدی  اور کچھ عددتحفتاً  حاصل کی گئیں۔مخالفانہ حالات  اور حفظ ما تقدم کے طور پر ، مجلس خدام الاحمدیہ کی ایمبولینس میں،غیر معروف اور لمبے روٹ سے ہو تے ہوئے،  دوسرے  روز،  رات  گئے،  حافظ آباد پہنچے۔

اگلے کئی روز تک ، نئی آنیوالی اور پرانی کتب  کی ، مضمون وار  فہرست بندی ، درستگی،(  اُن پر) لیبلز اور نمبر لگا کر ، کیٹلا گنگ کی گئی ۔

اِس محنت طلب کام میں خاکسار کو ، جناب منیر احمد قریشؔی صاحب، مکرم آصف مجیدؔ صاحب(اب مربی سلسلہ عالیہ)، عزیزم ندیم احمد طاہرؔ صاحب(اب نائب وکیل المال ثانی) ، محمد اعظم فاروقی ؔصاحب (حال مربی سلسلہ عالیہ) سمیت کئی خدام و انصار کا  بھرپور   تعاون حاصل رہا۔ محترم مربی صاحب کی شادی  خانہ (فروری 1989 ء) سے قبل ،مربی ہاؤس کے دروازے اور کچن  ہمارے لیئے ، چوبیس گھنٹے کھلے رہتے تھے ۔ ہر وقت چائے اوربوقت ِضرورت ، کھانے  کا انتظام  ہم وہاں ہی  کرلیتے تھے۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ واحسن الجزاء۔

یہی  لائیبریری، ایک  سال بعد1990/91  ء میں ، 70 سالہ قدیم  جامع مسجد حافظ آباد کی نئی، پختہ  اور خوبصورت  تعمیر کا پیش خیمہ بنی ۔ لائبریری کی تعمیر کی طرح ، مسجد کی تعمیر ِنو کا سہرا بھی  ہمارے ، سادہ لوح، نیک صفت اور منکسرالمزاج  نوجوان مربی سلسلہ جناب محمود ناصر ثاقؔب صاحب   کے سر ہے۔ اب  ، آپکو بھی اُنکے نام کی حکمت سمجھ میں آگئی ہوگی؟   کہ وہ  ماشاء اللہ تین آدمیوں جتنا کا م کر سکتے تھے ، اسی لئے آپ کا نام دوسروں سے مختلف تھا۔ گو اس نئے پراجیکٹ  کو بھی ابتداًء ہم تینوں نے ہی شروع کیا تھا۔ بعد میں برادرم  ڈاکٹر مبارک احمد صاحب، محترم ڈاکٹر ناصر احمد منیرؔ صاحب، محترم بشیر احمد بھٹہ، رشید احمد بھٹہ اور نزیر احمد بھٹہ سمیت دیگر دوست احباب اس کارِخیر میں نمایاں خدمت کی توفیق پاتے رہے۔  اس کامفصّل ذِکر، محترم تایا جان  مرحوم کے مضمون میں کر دیا گیا ہے۔

اسی لائیبریری میں، رسالہ ’’لاہور‘‘ کے اجراء کیلئے ہم لوگ  لاہور میں ، ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ کے دفتر میں  پہنچے  تھے اور ایک عہد ساز  شخصیت، جناب حضرت  ثاقب ؔزیروی صاحب مرحوم ومغفور  سے شرف ِملاقات حاصل کیا  تھا۔  جناب محمود ناصر ثاقؔب صاحب  حافظ آباد سے  گوجرہ   بطور مربی ضلع  ٹوبہ ٹیک سنگھ  اور پھر دفتروکالت ِ تبشیر سے ہو تے ہوئے ، اعلائے کلمۃاسلام کیلئے براعظم افریقہ چلے گئے۔ وہاں برکینا فاسو، پھر مالے او ر اب واپس برکینا فاسو  میں تعینات ہیں ۔ ہر دو ممالک میں آپکو  بطور،  امیر جماعت و مشنری انچارج کی  مقبول  خدماتِ دینیہ   بجا لا نے کی توفیق ملی   ہے۔حضور ِانورتقریباً  ہر جلسہ سالانہ  پر،  اِن دو ممالک میں اللہ تعالیٰ کی تائیدو نصرت   کے واقعات    اکثر بیان  فرماتے ہیں۔ اللھم ذد فزد، آمین۔