حکیم میاں دوست محمد صاحب مرحوم

حکیم میاں دوست محمد صاحب مرحوم

(1919ء – 1987ء)

بلحا ظ ِ عمر  منجھلے ، جبکہ  شعور اور پختگی میں  پہلے نمبر پر تھے۔  ز مینداری آبائی  پیشہ تھا۔گو   آپکے دادا ، والد اور تاۓ چاچے اکثر یہی کا م کر تے تھے۔ لیکن آپ کا جی اس کا م میں نہ لگتا تھا۔ نوجوانی اور  فراغت میں،  ارد گرد کے دیہات میں ، بزرگوں نے ،جو  رقبے   ٹھیکے پے لے رکھے تھے، آپ بھی اپنے کزنوں کے سا تھ گھومتے پھرتے رہتے۔اُچکیرا بھی ملحقہ گاوں تھا جہاں کے  خضر حیات  اور اسکے بھتیجے سلطان  خان چڈھڑ بڑے زمیندار، اور نمبر دار تھے۔ ان  سے آپکا یارانہ ہو گیا۔ سلطان کی والدہ عائشہ بی بی آپکو اپنا ہی  بچہ جا نتی تھی ۔ آپ اپنے کزنوں، محمد صدیق، غلام رسول  وغیرہ کیسا تھ اچکیرے آتے اور کئی کئی روز  یہاں رہتے۔ اچکیرے کے پانی یا زمین میں کسی نمک یا کیمیکل کی کمی یا  زیادتی کی وجہ سے،   یہاں کے باسیوں کو غلیظ  قسم  کے پھنسی و پھوڑے  جسم کے ہر حصہ پر نکل آتےتھے۔جراثیم کُش تدابیر  اختیار نہ کرنے کیوجہ سے، بسا اوقات،    یہ متعدی  وباء کی صورت بھی  اختیار کر لیتے تھے۔  وہا ں جانے اور رہنے کی وجہ سے آپ بھی اس مصیبت سے نہ بچ سکے۔

آپ کے ایک  قریبی عزیز (  ماموں) میاں  نذر محمدالمعروف ڈاکٹر ، غالباً ایک کوالیفائیڈ ڈسپنسر تھے اور شاہکوٹ کے سرکاری ہسپتال میں ملازم تھے، (جو اس زمانے میں بڑی با ت تھی) ، سال میں ۲ مر تبہ ، کوٹ شاہ عالم اپنی ہمشیرہ بھاگ بھری اور اسکے بچوں سے ملنے آتے اور اپنے  ساتھ کچھ ولائیتی ( انگریزی )   اور یونانی ادویات بھی  لاتے۔ انکی مقدار اس قدر  ہوا کر تی کہ سارا سال، پورے گاؤں کیلیے کافی  رہتیں۔بھاگ بھری صاحبہ  خود بھی’ ڈاکٹرانی ‘ کے نام سے معروف تھیں۔ دوست محمد نے اپنا بچپن   اور نوجوانی  اِنہیں  (یعنی اپنی چچی  بھاگ بھری  صاحبہ )کے ہاں  گزاری   اوران ادویات کے استعمال  اورانکے  اثرات کو  دیکھتے رہتے۔ اور یہ کام، اُنہیں،  زمینداری سے زیادہ بھاتا تھا۔

اچکیرے میں جو حکیم و سنیاسی تھا، اُس سے بھی آپکی اچھی شناسائی  تھی  اور اُسکے دیسی طریقہ علاج سے  خوب    واقفیت  ہو گئی تھی۔علاوہ ازیں، قریبی دیہہ، بھجنےّ ، جہاں پشتوں سے ،  ہمارے  خاندانی حکماء  موجود تھے، سے بھی آپ  نے اِس کا م کی مزید شُدھ بُدھ لی اور واپس آکر ، اُچکیرے میں ہی،  اپنی حکمت کا آغاز کر دیا۔یہ  سارا  سلسلہ تجسس،   علم ، شوق اور خدمت کا تھا۔ یہاں، آپکی رہائش، کھانا اور کپڑا  لَتّا ، سب پہلے سے ہی ،   نمبرداروں کے  ذمّہ تھی۔ جوں جوں لو گ شفا یاب ہو تے گئے۔  اِس استحقاق میں مزید اضافہ ہو تا گیا۔   گاؤں  کے امیر و غریب ، سبھی آپکے احسان مند ہونے لگے اورجب  یہ بات آپکے بزرگوں تک پہنچی تو انہوں نے آپکی  تایا زاد عائشہ بنتِ احمددین  سے آپکی شادی کر دی۔   اللہ تعالی  نےجلد ہی   دو بچے، فاطمہ اورمحمد طفیل   تو  دیئے  لیکن اُنکی ماں  ، یعنی آپکی  اہلیہ عا ئشہ  کو اپنے پا س   واپس  بُلا لیا۔ اناللہ وانا  الیہ راجعون۔

دوست محمد  ایسے ہی  صدمہ سے اپنے  کم سنی میں ، خودبھی  دوچار ہوئے تھے۔ اُس وقت،   بھاگ بھری نے آپکو سنبھالا تھا۔ اِس مرتبہ  ، اُس نے  آپکے بچوں کو  سنبھال لیا ۔  مرحومہ عائشہ  کی ایک چھوٹی ہمشیرہ آمنہ بھی تھی جسکی منگنی ایک دوسر ے کزن کے سا تھ ہو چکی تھی  تا ہم خاندان کے بڑوں نے فیصلہ کیا کہ معصوم بچوں کی خالہ کو ہی انکی’ ماں‘ بنادیا جائے ۔ یہ ہمیشہ سے ہی آسان اور درست فیصلہ سمجھا جاتا ہے لیکن ضرروی نہیں کہ   ہر دفعہ یہ درست بھی  ثابت  ہو! بھانجی اور بھانجے کی محبت ایک طرف، لیکن اپنی زندگی ، اپنی   خواہشات اور خوابوں کی قربانی  قطعًا آسان نہیں تھا۔ کسی نے اُسکی رضا  ہی معلوم نہ کی۔ وہ جس کواپنا  بڑا بھائی اور بہنوئی سمجھتی تھی ، وہ دفعتاً اُسکا ، شوہر بنا دیا گیا اور وہ   خود، بِن بیاہی، دو بچوں کی ماں  ! وہ معصوم اِس  بوجھ کو نہ اُٹھا سکی۔وہ جُھک گئی ۔   چند ما ہ  دَبی رہی  اور باالآ خر، ہمیشہ کیلیے خاموش  ہو گئی۔  انا للہ و انا الیہ راجعون۔

دوست محمد  کا گھر، تیسری بار  ڈھیر ہو گیا تھا۔ لیکن  وہ   با ہمت اور  راضی بر رضا ے الہی رہے۔ اب انہوں نے خود،   بچوں کی  ماں بننے کا فیصلہ کرلیا تھا ۔ بوڑھی  بھاگ بھری  نے اس با ر بھی آپ کے بچوں کو مشکل اوقات میں سنبھا لا۔لیکن  اس با ر وہ  اکیلی نہ تھی بلکہ اس کی بیٹیاں بھی ، اپنی  ماں کا   ہاتھ بٹانے کے قابل  ہو گئی تھیں۔ انہوں نے مل کر ان دونوں بچوں  کی عمومی  دیکھ بھال  جا ری ر کھی۔   اس دوران،  آپ اچکیرے میں ہی  مطب   کر تے رہے  اور بچے وہیں، پرایٔمری سکول  میں جانے لگے۔

جب ، آپ کے  جگری  دوست اور کزن ،  میا ں محمد صدیق  صاحب کی شادی شاہکوٹ میں طے ہوئی۔ تو  یہ بھی طے ہوا کہ آپکی  دلہن،  صغرٰی   رانی صاحبہ ،   شادی کے بعد، ’گاؤں‘ کو ٹ  شاہ  عا لم جانے  کی بجائے ، سا نگلہ ہل ’شہر‘ میں  رہیں گی ۔

لہذا، دونوں دوستوں نے  مل کر ایک سکیم تیار کی۔ پیسے اکٹھے   کیے  اور مو جودہ  ’نسیم منزل ‘ سے چند گھر پرے، بجا نب جنوب ، ایک گھر خرید لیا اوردونوں دوست اپنے اپنے  عیال کے سا تھ یہاں منتقل ہو گئے۔جوایٔنٹ فیملی کے معاملات ، ہمیشہ لمبا عرصہ روانی سے نہیں چلا کرتے۔ بہتر یہی رہتا    ہے کہ کسی منا سب مو قعہ پر ، الگ ہو جا یا جا ئے۔ وہ  مو قعہ آ چکا تھا۔ پہلے آپ چوہدری محمد فقیر اللہ کے ہاں ، کرایہ کے مکان میں منتقل ہوے۔ پھر اُنہی کی راہنمائی میں،   دانشمند اور انسان   دوست   نے اپنے حقیقی بھائیوں، علی محمد اور نور محمد   دعوت دی کہ مِل کر ،  پرانے کا رخانے میں ، ایک کنال کا پلاٹ  خرید کر ، تین حصوں میں  تقسیم کر لیا جائے۔چنانچہ ،  تینوں بھائیوں کو ، رہنے کو ایک کچا کمرہ، بطور کچن ایک چبوترہ، اور کھُلا صحن، مل گیا۔

زندگی  اورتاریخ کا پہیہ ، سُست رو سہی ، لیکن    چلتا رہتا ہے۔بچے بڑے ہو چکے تھے اور دوست محمد بوڑھے!  عزیزہ فا طمہ بی بی  کی شادی اسکے ایک   کزن ، مبارک حمید اللہ کے ساتھ کر دی گئی اور محمد طفیل نسیم ، جنھوں نے  حکیم حاذق   کا با قا عدہ کورس  ،طبیہ کا لج فیصل آباد سے ، اورمیڈیکل سٹور اور   ڈسپنسرشپ کی کوالیفیکیشن لاہور سے حاصل کی تھی، کی شادی حمید اللہ صاحب کی چھوٹی ہمشیرہ صادقہ اختر  سے کر دی تھی۔

’شادی‘ محض خانہ آبادی کا نام نہیں ہے۔ اسکا حقیقی مادہ ، ’شاد‘ یعنی خوشی سے ہے۔ وہ شائد ، ان دونوں کے نصیب میں نہ آ سکی۔  فاطمہ  اور حمید اللہ ، زندگی کی اس دو پہیوں والی  ’ہتھ ریڑھی ‘ کو   پچاس  سال تک  دھکیلتےہوئے، پہلے  لاہور،  پھر بیرون ملک اور باالآخر، ملک ِعدم روانہ ہو گئے لیکن’   شاد‘ نہ ہو سکے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔ ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی ۔راقم سمیت ،  ایک لمبی فہرست ہے لوگوں کی ، جن پر اِن دونوں نے، بے لوث اور بے پایاں  احسانات    کیے ہیں۔ اے  پیارے ، رحیم و رحماں خدا، تو بھی ،  اِن  دونوں پر ، بہت  ہی شفقت ، رحمت اور مغفرت کا سلوک فرما،  آمین۔

تا ہم  محمد طفیل کے ہاں، بہار آ     گئی تھی۔  ما شاء اللہ ! قریبا ً ، ہر سال  ہی  ایک نیا پھول کِھل اُٹھتا۔ سارے گُل ، گُلِ سُرخ! طیبہ رانی، امتہ السلام، محمود اور مقصود ۔ پیارے اور چینیوں سے مشابہ بچے!   دوست محمد اور  کا رخانے کے دیگر   مکین ، سب غموں کو   بھول ہی جا نے وا لے تھے کہ اچا نک     ایک کا لی  آندھی  چلی اور  اندھیرہ ساچھا گیا۔ صادقہ اختر اور ’بہار‘ رخصت  ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

سرخ گلاب، پیلے پڑنے شروع ہو گئے ۔گلاب تو ہمیشہ سے سُرخ ہی تھا۔ انسان کی متلوَن مزاجی ، جِدّت پسندی، بے صبری  اور نا شکری  نے ، اِسکے رنگ بدل ڈالے۔کیا کیجئے ! قدرت نے خود حضرتِ   انسان کو  نِصف  اختیار جو سو نپ رکھا  ہے۔  تاریخ کا گورکھ دھندا کب کسی کی سمجھ میں آیا تھا جو اب آتا۔ چو تھی بار دوست محمد  کا گھر ڈہیہ گیا تھا۔

سانگلہ ہل ، شروع دن سے ہی ریلوے کا جنکشن تھا۔جنکشن  وہ جگہ ہوتی ہے جہاں راستے ملتے اورپھر ُجدا ہوجاتے ہیں۔   مسافروں  کیلئے اس میں بڑی سہو لت اور کشش ہوتی ہے۔ فرشتے بھی  شائد’مسافر‘ ہیں۔انکا کو ئی گھر اور مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا۔جو کام اُنکے سپرد کیا جا تا ہے، بس  ُاسکو مکمل کر نے کی دُھن میں مگن  رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ  سا نگلہ ہل  جنکشن بھی انکو بھاتا تھا۔ تبھی تو وہ ادھر سے با ر بار گزرتے رہے اور ہمارے پیاروں کو اپنے ’پیارے‘ کے پاس پہنچاتے ر ہے!

مقصود احمد منیب ، نور محمد کی طرح،  دودھ پیتا   جبکہ باقی بھی کم سن تھے ، جو دادا اور پھوپھی نے سنبھال لیے، با الکل اُسی طرح جس طرح ۳۰ سال قبل،  نورمحمد اور اسکے بھائیوں کو  سنبھالا گیا تھا۔محمد طفیل کی دوسری شادی تدفین کے اگلے روز  ہی ،دوست محمد کے  دیرینہ  دوست اور کزن محمد صدیق  کی بڑی  صاحبزادی   مسماۃ شہناز اختر صاحبہ  سے کر دی گئی۔ تاریخ  کا بے  رحم   پہیہ آگے بڑھ گیا اور نئی نئی زندگیاں ظہور میں  آنے لگیں ۔

حکیم میاں دوست  محمد  صاحب نے سانگلہ ہل میں  تا حال کو ئی مطب نہیں  کھولا تھا۔ تاآنکہ  انکے بیٹے، میا ں محمد طفیل نسیم نے،  اپنی  پریکٹس ( کلینک )، دانہ منڈی میں شروع کر لی۔ اِس سے قبل آپ مختلف  دیہات میں جا کر ، اپنے مخصوص مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے۔اور لوگ آپ کے گھر  آ کر دوا لیتے تھے۔ کلینک کی شمال مشرقی  دیوار کیساتھ ایک بنچ  پر آپکی نشست  ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں بہت شفاء رکھی تھی۔ جو بھی ایک دفعہ آپ کو اپنی نبض دکھا لیتا، تو پھر کہیں اور نہ جاتا۔راقم نے خود مشاہدہ کیا ہے کہ کئی دفعہ آپ  کلینک پر موجود نہ ہوتے یا شہر سے با ہر گئے ہو تے، مریض آتے اور علم ہو نے کے با وجود ، لا چار بیٹھے رہتے۔ ڈاکٹر  صاحب انہیں کہتے کہ میں دوائی بنا دیتا ہوں ، چند دن بعد آ کر ، حکیم صاحب کو دکھا لینا ۔ لیکن  وہ راضی نہ ہوتے۔ بڑے بڑے  زمیندار، انکے گھر والے، محکمہ زراعت، پٹوار  و مال خانہ اور تھانیدار، پہلے  آپکے  گُھٹنوں کو ہا تھ لگاتے اور بعد میں اپنا مدعا بیان کرتے۔ آپکی آمدن ، بھائی جا ن طفیل سے ہمیشہ زیادہ رہی۔ ما شاءاللہ

آپ اپنے پا نچوں بھائیوں میں،   سب سے   بھاری جسم اور رُعب  دار شخصیت  کے ما لک تھے۔مردانہ گرج دار آواز، چہرے پر سفید گھنی داڑھی،  سفید دیسی پگڑی ،  ہلکے رنگوں کا ، سفیدی مایل  دیسی کُرتا،  دیسی جوتا، اورتہبند استعمال کرتے۔ آپ  صرف نہانے اور حجا مت  بنوانے کیلئے ہی سر ننگا کرتے۔ گرمیوں میں تینوں بھائی ، ایک ہی طرح کا  سانٹل کا چیک دار،  رومال سر پر رکھتے۔ البتہ شدید سردیوں میں چترالی ٹوپی اور ویسٹ کوٹ  کا استعمال بڑھا دیتے۔  پہلے بھی ذکر ہوا ہے ، ماشاءاللہ آپکی آمدن  بہت اچھی تھی ، لہذا،  قمیص  کے نیچے ہمیشہ ’سلوکا‘ (چار جیبوں والی دیسی بنیان ) استعمال کرتے۔جس میں   بڑے بڑے نوٹ ہوتے۔

آپ با قاعدہ تہجدگزار،نماز با جماعت اوراسلامی  شعائر  کے پابند،  قرآن  کریم کی روزانہ کئی مر تبہ  تلاوت کرتے،  رمضان المبا رک  میں اکثر  اعتکاف کی توفیق پاتے۔ اپنوں  اور غیروں سے محبت اور حُسنِ سلو ک کر نے والے اور مشکلات میں مدد دینے والوں میں سے تھے۔پُرانے موصی تھے۔رات کو نیند،  بہت کم لیتے۔دن میں بیٹھے بیٹھے سستا لیتے۔ عموماً،   جب کسی کے ہاں، کو ئی  مہمان آتے یا  کوئی کسی  کا  مہمان  ہو تا  ،  تو نمازوں  اور خصوصاً با جماعت نماز کی طرف وہ  توجہ نہ  ہو تی جو  ہونی چاہیئے تھی! سا نگلہ ہل میں ایسا کو ئی چانس نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نہایت مغفرت کا سلوک فرمائے، مرحوم تایا جان نے اس معاملے میں کبھی سُستی نہیں دکھائی ۔ خوشی کا موقعہ تھا یا پھر غم کا !  اذان کی آواز کانوں میں پڑی نہیں اور ُانہوں نے ، بلند آواز سے سب کو  نماز  کیلئے  مسجد جا نے  کا حکم دیتے ہوئے خود بھی  اُٹھ جا نا ہے ۔ ہم حافظ آباد میں بھی مسجد میں نمازوں کیلئے جاتے تھے لیکن با جماعت نماز  کا جو لطف سا نگلہ میں آتا تھا وہ الگ ہی تھا۔اسکی دو بڑی وجوہات تھیں۔بچپن میں،  حافظ آباد  کی مسجد  میں،  ہم ایک دو نمازوں کیلئے ہی  جاتے ، حاضری عموماً کم اور خاندان کے افراد بھی  ا ِکاّ دُکاّ   ہی نظر آتے۔ جبکہ سانگلہ ہل،تو  فرشتوں کی جماعت تھی۔ ہر  نماز میں حاضری   بے مثال!  ہمارا سارا خاندان ، مردحضرات، بوڑھے  ، جوان اور بچے ، سبھی حاضر!سب  مرد ، رشتہ داروں سے ملاقات وُہیں ہو جاتی۔ اِسکا کریڈٹ لِیڈر شپ کو جا تا ہے۔جماعتی اور خاندانی!  چوہدری محمد فقیر اللہ صاحب مرحوم و مغفور ، ایک لمبا عرصہ  امیر جماعت رہے۔ اپنی نیکی ، تقوی ٰ اور نمونے سے انہوں نے، اپنے دَور کے  بڑوں میں،  جو نیک اور پاک  تبدیلی پیداکر دی تھی، کم از کم دومزید  نسلوں تک   جماعت  سانگلہ ہل نے اسُکا  میٹھا  پھل کھایا۔

امیرؔ صاحب  ہوں یا حکیمؔ صاحب! جب وہ خود نماز  کیلئے موجود  تھے ، تو غیر موجود کی ’تفتیش‘ تو بنتی تھی!  لہذا، بیٹا تھا یا پھر پوتا،  بڑاتھا یا پھر چھوٹا، مقامؔی تھایا مہماؔن  ،سب کیلئے ایک ہی اصول تھا۔ راقم کو کئی مواقع پر ، حافظ آباد سے آئے ہوئے ، اپنے  اکثر عزیزوں کوبھی  ، ایک ساتھ، سانگلہ ہل کی مسجد میں  دیکھ کر بہت عجیب، بہر حال  اچھا لگتا تھا۔ہم بچوں کو بھی پانچوں وقت کی نمازیں مسجد میں ادا کرنا ہوتیں۔  راقم نہایت عاجزی کیساتھ، اللہ تعالی  کے حضور دعا گو  ہے کہ محض  اپنے فضل اور کرم کے نتیجے میں، ہمیں بھی اپنے بزرگ تایاجان کی اس نیک عادت کو اپنانےکی توفیق بخشے، آمین ۔

اپنے والدین سے نہایت ادب ، محبت اور احترام سے پیش آتے ۔ باقاعدہ، حافظ آباد آ کر اُن سے ملتے۔اپنے بڑے بھائی میا ں علی محمداور تمام چھوٹے بھایئوں سے بھی انتہائی  پیار اور احترام کا رشتہ تھا۔سب سے چھوٹےبھائی بشیر احمد  کو ’ڈاکٹر  صاحب ‘کہہ کر بلاتے اور اُن سے بڑے کو ’چوہدری ‘محمد عبداللہ کہہ کر مخاطب ہوتے۔     اِسی طرح ، اپنے سے چھوٹے کو، میاں نو ر محمد! اپنی حکمت کے تجربات سے آگاہی دیتے۔اور تحفتاً جڑی بوٹیاں اور تیار شُد مرکبات   بھی  دیتے رہتے ۔

اپنی بہنوں اور خاندان بھر کی خواتین   کو بہت عزت دیتے۔ انکے حقوق کی سب سے زیادہ  حفاظت کر نے والے تھے۔یہ با ت  نہا یت غور طلب ہے کہ ، خاندانی  ’سیاست ‘اور اخِتلافات کی بدولت ،آپکی دوسری بہو سے متعلق، صحیح یا غلط ، بہت سی غلط فہمیاں اور باتیں، زباں ذدِ عام تھیں۔  تایا جی مرحوم نے کبھی ان باتوں کو اہمیت نہ دی۔ آپ  نے اپنی  دوسری  بہو کو بھی وہ عزّت دی جسکی وہ مستحق  تھی  اور اُس  نے بھی ہمیشہ  ،آپ  کا وہ احترام  ملحوظ رکھا، جو آپ کے شیان ِشان تھا۔  فجزا ھما اللہ تعالی و احسن االجزاء۔ ااسی طرح ، اپنی پوتیوں اور بھتیجیوں کے اعتماد  ( مورال) کو بُلند رکھنے کیلئے، آپ ، بچپن سے ہی     اُنکے نام   مردانہ  صوت پر پکارتے۔ جیسا کہ طیّب ، چھّم ، عابدؔ ، ساجدؔ، خالد  وغیرہ  ۔ ایک مُنفرد کلیہ ، اعتماد  میں اضا فہ کا ،  اپنے پوتوں  کیلئے بھی تھا، جسکی مثال ،کم از کم ہمارے  خاندان میں اور کہیں نہیں ملتی ،  وہ یہ کہ، اپنے کم سِن  پوتوں  اور بھتیجوں کےنام اکثر پورے طو ر سے   لیتے۔مثلاً میاں محمد محمود  احمد، میاں محمد  مقصود احمد، ڈاکٹر محمد اسمعیل کلیم، ڈاکٹر محمد طفیل  نسیم وغیرہ۔  سبحان اللہ!

چھوٹوں سے بڑی شفقت سے پیش آتے۔باالخصوص،    بچوں کی دلداری میں بہت حظ اٹھا تے۔ہمیں سبق آموز کہانیاں  اور لطائف بھی سُناتے ۔مختصر علمی اورزہنی آزمائش کے   مقابلے کرواتے اور نقد انعام سے نوازتےتھے۔ آجکل کے دور میں تو لوگوں کو   اپنے بھانجے اوربھتیجوں کے نام نہیں آتے، جبکہ آپ اپنے پوتے اور پو تیوں کے ہم عمر عزیزوں کو انکے نام سے بُلاتے۔اپنی گود میں لے کر پچکارتے۔ من پسند کھانے کی اشیاء لے کر دیتے۔

سانگلہ ہل اور گردو نواح کی تما م  جماعتوں کے  اخبارو رسائل ،  الفضؔل  ،  لاہورؔ و دیگر ماہنامے، چونکہ آپکے مطب پر آتے ، چنانچہ ، ہر وقت جماعت کے   لوگوں سے  بڑی تعداد، میں رابطہ رہتا۔اسی بہانہ سے ہماری بھی لوگوں سے شناسائی رہتی۔یہاں الفضل اخبار، احمدی اور غیر احمدی یکساں پڑھتے اور خبروں پر  پا کیزہ تبصرے، ہر وقت  جاری رہتے۔ شوگر مل  (بھی چونکہ ایک احمدی  زمیندار،  چوہدری نبی احمد صاحب کاہلوؔں  ،  نے لگائی تھی ،  جوبعد میں ۱؁۹۷۲ میں بھٹو حکومت  میں، نیشنلایٔزڈ کر لی گئی )کے احمدی  افسران  و ملازمین   جو، پورے پاکستان سے آے ہوتے، انُکا  مرکز بھی ، آپکا مطب ہی تھا۔  شہر کے تاجر، اساتذہ، اورپولیس اور پٹوار کے لوگ بھی آپکا بہت احترام  کرتے۔

حکیم  میاں دوست محمد صاحب،  بلاشبہ، ’سلطنتِ فضلیہ ‘ کے سب سے بڑے ’صوبے ‘ سانگلہ ہل کے والی تھے۔یہاں ہمارے سب سے بڑے تایا میاں علی محمد سمیت ، خاندان کے کئی دیگر گھرانے آباد تھے۔یہاں کے سارے معاملات آپ ہی دیکھتے۔اگر کو ئی مسٔلہ حل نہ ہو پاتا، تو آپ ’پہلی گاڑی‘ پکڑ کر  ’’دِلیّ‘‘ ،  یعنی  حافظ آباد پہنچ جاتے۔  مرکز میں آپکا  ڈنکاہ  (پروٹوکول) بادشاہ کے برابر تھا۔’’آوازہ‘‘  بُلند کیا جاتا اور’’ نقارے‘‘ کسَے جاتے کہ ’حکیم صاحب ‘ آ رہے ہیں یا آ چکے ہیں۔   شہر سے باہر،  ’’چوکی‘‘ یعنی ، ریلوے سٹیشن  سے  استقبال دئیے جاتے۔ بڑے شہزادے شاہی  سواری  (موٹر سایئکل ) لئیے  موجود ہوتے۔ بعد ازاں ، چھوٹے     شہزادوں   محمود اور راقم  کو بھی یہ تو فیق حاصل ہوئی ہے۔  آپ اکثر دیوان خاص میں اُترتے۔ شام کو جب محل سراء آتے، تو کبھی اکیلے نہ ہوتے۔   ہمیشہ ، ولیعہدان سلطنت   میں سے کو ئی ایک  پیشوائی  کرتا۔مَلکِاَیئں صدر دروازے پر آپکا استقبال کرتیں۔    صدر نشست  پیش کی جاتی اور اعلی ٰ دستر خوان چُن دئیے  جاتے۔رات گئے تک بات چیت رہتی۔ چینی کے پیالوں میں چائے کے دور چلتے۔صبح جب ہم  سکول جانے کیلئے اٹھتے تو معلوم پڑتا کہ آپ’ پہلی گاڑی‘ سے واپس جا چکے ہیں۔

اِس شَاہ نُما کو  لوگوں نے پانچویں مرتبہ اور راقم  نے  پہلی مرتبہ  ، مورخہ6 نو مبر 1984 ء کو ایسے  گِرتے دیکھا  کہ  پھر وہ  دوبارہ کبھی   اُٹھ  نہ سکے۔اپنے سب سے چھوٹے اور پیارے بھائی  ڈاکٹر بشیر احمد کی جواں سال  موت  کی اطلاع پا کر  آپ ’پہلی گاڑی‘ سے  حا فظ آ باد  پہنچے اور راقم نے دیکھا کہ بھائی کی میت دیکھ کر اک دلدوزبلند  آہ بھری اور   ڈھڑام سے زمین پر آگرے۔بھاری وجود تھا۔ سبھی آپ کی طرف لپکےلیکن آپ کے صدمے کا کوئی کِنارہ نہ تھا۔آپکا دُکھ، دو چند تھا۔ایک تو جوان  بھائی کی موت کا غم اور دوسری، بے بسی! آپ ایک حاذق حکیم تھے لیکن  اپنے  پیارے بھائی  کو  بچا نے کا کو ئی موقعہ نہ مل سکا تھا۔

آپ اس صدمے کیساتھ مزید تین سال ہی  جی سکے۔آپ نے ساری عمر موت کے فرشتے اور ساۓ کو اپنے ارد گرد پایا۔  اپنی  جواں سال  ماں،  دو بیویاں،   اپنی جواں سال بہو!  اپنے والد اور دیگر پیارے عزیزوں کو مٹی کے سپرد کرنے کے باوجود،  اِس   مرد آہن کی  ہمت نہ ٹوٹی تھی۔ اب کی با ر یہ عالی ہمت ،  خود ہی ٹوٹ گیا تھا  ۔ پہلے جوش    گیا۔ پھر توانائی  اور پھر  رُوح ہی  رخصت ہو گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

یہ 27 اگست 1987 ءکادن تھا۔ابھی لوگ  جواں سال بشیر احمد  کی جدائی کا نوحہ پڑھ رہے تھے کہ خاندان کی چھت ہی گر گئی ۔۔۔۔۔سانگلہ ہل  ، شروع سے ہی ا یک جنکشن تھا۔ لگتا ہے  موت کے فرشتوں کو  بھی  یہ  بھاتا تھا۔!تبھی تو وہ اِدھر سے با ر بار گزرتے رہے اور ہمارے پیاروں کو اپنے ’پیارے‘ کے پاس پہنچاتے ر ہے!

 

اے خدا بر تر بت او بارش رحمت ببار

داخلش کن از کمال  فضل در بیت النعیم