میاں علی محمد صاحب مرحوم

میاں علی محمد صاحب مرحوم
(1917ء تا 1987ء)

آپ  مجوراں والی میں  1917  ءمیں پیداہوئے  ۔(آپکے مزار پر تاریخِ پیدائش 1912 ء درج ہے۔جبکہ میاں دوست محمد  کی تاریخ ِ پیدائش 1919 ء  جبکہ میاں نور محمد کی 1920 ءہے۔اس کے مطابق آپکی درست تاریخِ پیدائش  1917/18 ء بنتی ہے۔راقم )   آپکی عمر بمشکل  3  /4  سال کی ہی تھی کہ آپکی والدہ محترمہ فاطمہ بنت ِمیاں راجدین   صاحب، اپنے تینوں کم سِن بچوں، علی محمد، دوست محمد اور نور محمد کو  اپنے شوہر میاں فضل دین کے ہا تھوں  بلکتا چھوڑ کر اپنے مولا کے حضور حا ضر ہو گئی تھی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔  آپ  تینوں بچے کبھی اپنے داد دادی  (میاں کھیوا  اور امام بی بی )  کے پاس  کوٹ شاہ عالم اور کبھی اپنے نانا   میاں راجدین کے پا س شا ہکوٹ میں پلتےاور بڑہتے  رہے۔

آپ، عمرمیں سب  بھایئوں سے بڑے تھے لیکن صحت میں سب سے کمزور! لہذا ،  ددھیال میں کاشتکاری تو کیا ، آپ کے لیے، بزازی کا کا م بھی دُوبھر تھا۔ آپکے چچا میاں مولا بخش صاحب ،  جن کے ہاں آپ لوگوں کا زیادہ وقت گزرتا تھا ، سلائی کا کا م کرتے تھے۔ اُن کا کا م  انتہائی نفیس  تھا اور زیادہ تر ، قرب و  جوار کے بڑے بڑے زمینداروں کےہاں سے ہی آتا تھا ۔ مشین چلتے دیکھنا ، چوڑیدار کفوں اورسرخ ڈوروں والے  پائنچوں کی تیاری ، آپ کو بھاتی تھی۔ لہذا آپ نے یہی کا م سیکھ لیا۔ جب آپکی عمر شادی کے قابل ہوئی تو آپکی اکلوتی پھوپھی  مریم بی بی زوجہ محمد  کی   صاحبزادی عائشہ بنت ِ محمد سے آپکی شادی ہو گئی۔ شادی کے بعد، کچھ عرصہ آپ ، اپنے والد، میاں فضل دین  صاحب کی خواہش پر، حافظ آباد کے قریب ہی ایک گاوٗں میں مقیم رہے۔ جہاں آپکے ہاں ، یکے بعد دیگرے تین   بیٹیوں کی پیدائش ہوئی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کہ  اِن میں سے کو ئی بھی  چند ما ہ و سال سے زیادہ  زندہ نہ رہ سکی۔دونوں میاں بیوی پر ، اس صدمہ کا گہرا  اثر تھا۔ لہذا، انکے نا نا راجدین صاحب نے آپکو اپنے پاس ، واپس  شاہکوٹ  بلا لیا۔  یہاں اللہ تعالی ٰ نے عائشہ  بی  بی  کو دو خوبصورت بیٹوں، محمد اسمعیل  (1944 ء) اور محمد صادق(1947 ء)سے نوازا۔  ابھی بچے چھوٹے ہی تھے کہ عائشہ  بی بی کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ و انا الیہ رجعون ۔  علی محمدکے بچے بھی اُسی عمر میں ما ں کی ممتا و شفقت سے محروم ہو گئے جس  میں وہ  خود!۔ ابتداء میں آپکی  بھاوجہ اور کزن ہاجرہ بی بی نے ان بچوں کی دیکھ بھال کی اور محمد صادق کو اپنا دودھ بھی پلایا لیکن بعد میں میاں  علی محمد کی دوسری شادی، محترمہ سردار بیگم بنت میاں لدّا سے کر دی گئی جو بچوں کی خا لہ تھی۔(پھو پھی مریم کے خاوند میاں محمد کی وفات کے بعد انکی دوسری شادی میا  ں لدّا  آف سہارن  چٹھہ سے ہو گئی تھی ۔ عائشہ بی بی  اور سردار بیگم، ایک ما ں اور الگ لگ با پوں کی اولاد تھیں)۔

ہماری نئی تائی ماں ، سردار بیگم صاحبہ نے دونوں بچوں سے بہت پیار اور محبت  کا سلوک کیا ۔ اور انکو ہمیشہ بنا  اور سنوار کر رکھا۔ لیکن موت کے فرشتہ نے اِدھر  کا  راستہ دیکھ  رکھا تھا ۔ محمد صادق ابھی 5 سال کا ہی    ہوا   تھا کہ اچانک اُسکی طبیعت بگڑی اور وہ اللہ تعالی ٰ کو پیارا ہو گیا۔علی  محمد اپنے گھراور خاندان میں، ’ موتا ، موتی ‘ کے اس کھیل سے بہت  شکستہ دل تھے لیکن صبر کے سوا اور کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔ اوپر سے’’ شریکوں‘‘ کی طرف سے  ننھے ،محمد صادق مرحوم  کی موت  کا الزام بھی  سو تیلی ما ں پر لگا دیا گیا،  جو کہ سراسر غلط تھا۔ جس سے تائی سردار بیگم کو  بھی شدید ذہنی  تکلیف پہنچی  ۔بے سکونی اور بد اعتمادی ، زندگی  کی  ایک عادت  سی  بن گئی تھی۔  ایسی تما م پر یشانیوں کا آسان، آزمودہ  اور مروجّہ علاج ، ہمارے خاندان میں ایک ہی تھا! اور وہ تھا ، ہجرت!    آپ نے اپنے چھوٹے بھایئوں ، حکیم میاں  دوست محمد اور میاں نور محمد  کیساتھ مل کر ، شورے والے کا رخانے میں، چوہدری فقیر اللہ صاحب کے تعاون سے، ایک کنال کا پلاٹ مِل کر خرید لیا اور اس کے تین حصے کر لئیے۔یہ 1957/58 ء  کی بات ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے آپکو تین بیٹیوں، عابدہ بیگم ، ساجدہ بیگم اور خالدہ بیگم سے نوازا۔

آپ، حکیم صاحب  کے مطب کے قریب  ہی ایک نیک صفت بزرگ،  با با شیر محمد  (المعروف  شیرا) کی دوکان پر  ایک طرف،  اپنی سلائی  مشین  رکھ کر، اپنا  کا م کرتے  رہے۔  اس دوران، میاں محمد  اسمعیل کلیم ؔ  نے میٹرک  پاس کر نے کے بعد،  چند ماہ،سکھیکی  منڈی  کے قریب، بطور  ٹیوب ویل آ پریٹر   ، ملازمت کی اور پھر بعد میں، گوجرانوالہ سے  میڈیکل  ڈسپنسرشپ   کا کورس کر لیا ۔  تعلیم  مکمل کرنے کے بعد ،   وہیں گوجرانوالہ  میں ہی ، کچھ  عرصہ  آپ نے ، ٹی ۔بی  ہسپتال میں بطور ڈسپنسر کا  م کیا اور شام کو ایک جگہ اپنی پریکٹس بھی کر تے تھے۔  مہنیہ دو مہینہ بعد،  سانگلہ ہل آتے۔6 ستمبر1968 ء  کو آپکی شادی اپنی  چچا زاد نسیم اختر صاحبہ سے ہو گئی۔ اگلے برس اللہ تعالی ٰ نے آپکو ایک بیٹی زاہدہ پروین سے نوازا۔

حالات و واقعات  میں تغیر، سب وقت اور  تاریخ کے پہّیے کی حرکت کی  بدولت ہے۔ جو جگہ ، تینوں بھایئوں نے، ساتھ  مل کر  رہنے کیلئے خریدی تھی ، 10/11 سال بعد، اب سب، اپنی اپنی  وجوہات کی بنا  پر  بیچنا چاہتے تھے۔ نور محمد، حافظ آباد آ گئے تھے۔  میاں دوست محمد صاحب  کی حکمت  بہت اچھی جا رہی تھی ، اس میں انکے بیٹے  ڈاکٹر محمد طفیل نسیؔم  کی پریکٹس کا بھی دخل تھا۔ انہوں نے  محلہ اقبال پورہ میں ملک خان محمد ( پٹرول پمپ والوں) کا  ،  10 مرلہ کا  خوبصورت مکان مبلغ 20،000   روپے میں خرید  لیا تھا۔تا ہم  میا ں علی محمد صاحب   اور انکے بیٹے محمد اسمعیل  کلیمؔ کے مالی  حالات  کوئی زیادہ   بہتر نہ تھے ۔ لیکن مکان  کی ضرورت اور تبدیلی  کا وقت  آن  پہنچا تھا۔ لہذا،  اُنہوں نے بھی ، مجید گلیچیاں (قالینوں ) والی گلی میں،  ایک پختہ اور خوبصورت مکان  مبلغ  14000 روپے میں خرید لیا تھا۔(صرف ریکارڈ کی درستگی کیلئے  عرض ہے کہ اس مکان  کی خرید کیلئے   رقم  دادا حضور کی طرف سے ہمارے والدین نے  بطور قرضہ حسنہ دی تھی)

 

اس نئے گھر میں ہی تایا  جی کی چوتھی اور آخری اولاد،  برادرم محمد احمد جمیؔل  کی ولادت 1969 ء  میں ہوئی۔  اس دوران،   برادرم  ڈاکٹر اسمعیل  کلیم ؔ صاحب کے ہاں بھی شاہدہ پروین ،مبشرہ پروین اور عزیزم راحیل احمد  کی ولادت ہوئی۔

1972/73 ء  حکیم دوست محمد صاحب کی وساطت سے ، بھائی جا ن محمد  اسمعیل  کلؔیؔم صاحب کو ، سنٹرل جیل، شیخوپورہ میں ملازمت  مل گئی۔یہ  جا ب کئی حوالوں سے  بڑی پُر کشش تھی۔ جیل کا   ڈاکٹر ، جو ’میڈیکل سپرنٹنڈ‘نٹ کہلاتا تھا، لاہور میں رہتا اور ہفتہ دس دن میں صرف ایک ادھ  دفعہ ہی یہاں چکر لگاتا تھا ۔ لہذا سارا انتظام  ڈسپنسر کے ہا تھ میں ہوتا۔ وطن ِعزیز میں، ہر جگہ قریب قریب یہی صورتحال تھی۔ قیدی تو قیدی، جیل کا سٹاف بھی  اپنی  طبّی سہولیات  کیلئے،   اِنہی کے رحم وکرم  پہ تھا۔ نیز،   قید یوں کی بیماری کی رخصت ،  عدالتوں میں پیشی سے استثناء،  ملاقات  اور جبری مشقت سے بچنے کی کنجی ، صرف  اور صرف  ’ڈاکٹر‘ کے ہا تھ میں تھی  جبکہ  ڈاکٹر کی  ’کنجی‘،  اُسکے ڈسپنسر کے ہا تھ میں!

علاوہ ازیں ، جیل ملازمین  کیلئے، عمومی سیکیورٹی  کے حصار میں، کوارٹرز بنائے گئے تھے۔ انہی میں سے ایک میں،  بھائی جان  کی رہائش تھی۔بلحاظ مرتبہ اس رہائش کا نمبر4   تھا۔ یعنی، جیل سپرنٹنڈنٹ، ڈپٹی  سپرنٹنڈنٹ ، میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ڈاکٹر) اور ڈسپنسر۔ باقی سب کا نمبر اسکے بعد تھا۔  ایک دو سال بعد ہی ، آپکا   تبادلہ کیمبل پور ہو گیا ، جو کہ  بہت دور تھا۔ لیکن تایا جی مرحوم کی ’حکمت عملی ‘  نے یہ حکم نا مہ بھی واپس کروادیا تھا۔یہیں  عزیزم شکیل احمد خرم ؔ کی ولادت ہوئی۔ آپ  1982/83  ء  تک اِسی ملازمت اور  کوارٹر  میں ر ہے اور با الآخر، لمبی رخصت لیکر، ملازمت کو خیر آباد کہہ دیا اور، جنڈیالہ روڈ  پر ایک دوکان اور مکان ، کرایہ پر لے کر،  اپنی پرایئویٹ پریکٹس شروع کردی۔

جیل کی ملازمت، ’نوکری‘ نہ تھی بلکہ ’افسری‘ تھی۔ہر قسم کی کمزوری ، کوتاہی ، پیٹی بند بھائیوں کے تعاون سے ’ ہَوا ‘ہو جاتی ۔ تیل اور دال کا بھاوٗ، تو  اُس وقت پتہ چلتا ہے،  جب  انسان ’ لیول فیلڈ‘ پر مقابلے  کیلئے  اُترتا ہے۔  بھائی جا ن کو بھی اِسکا اِحساس  اُس وقت ہوا ،  جب اِنکا اپنا بیٹا بیمارہوا۔ انہوں نے اپنی ساری کو شش  کر لی ،مگر بخا ر ایسا  تھاکہ  اترنے کا نا م ہی نہ لیتا!  ڈاکٹر پر ڈاکٹر بدلے لیکن  شفاء ندارد!  ۔ شیخوپورہ، حافظ آباد، لاہور، سب جگہ گھوم لیا ، تو کسی نے بتا یا کہ  مین بازار میں ، قاری امین  صاحب کی مسجد کے پاس،  حکیم عبدالرزّاق   صاحب  سے  ملو۔ وہاں پہنچے، ساری رام لیلہ سنائی۔ حکیم صاحب نے نسخہ تجویز کیا ، دوا اور دعا،  دونوں ساتھ کر دیں۔تیسری خوراک پہ  ہی عزیزم راحیل احمد کا  بخار، جو  کئی ہفتوں  سے آیا ہوا تھا، جاتا رہا۔ اگلے ہی روز، بھائی جان ، جذبات تشکر سے لبریز ، حکیم صاحب کی خدمت  میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ آپ کی شاگردی  چاہتا ہوں! حکیم صاحب نے آپکی بات سنی،کوائف جانے اور یوں گویا ہوئے:

’’میاں! آپ کا تجربہ پریکٹس کیلئے کافی ہے۔ یا د رکھو کہ شِفاء نہ تمھارے ہا تھ میں ہے نہ تمھاری دوا میں!   شِفاء اُس ذاتِ باری کے ہا تھ میں ہے۔ دواؔ دو یا کہ زہؔر،   تمھارا کا م رات کو شروع ہو گا۔ اُس کے حضور جھکو اور مریض کیلئے شفاء ، اُسی سے  مانگو!۔

ٹریننگ مکمل  ہو گئی ،سبحان اللہ! کیا نگینے لوگ تھے ، جو خاک بسر ہو گئے۔ اے اللہ اُن پر اور انکی اولادوں پر بھی رحم  فرما ، آمین۔

اِدھر،سانگلہ ہل میں، تایا جی علی محمد کی عمر، نظر ،صحت اور کام ،  سب  میں تیزی سے کمی  واقع  ہو رہی تھی اور کلیؔم بھائی  جان کی عیال داری  اور اِخراجات  میں مسلسل اضافہ! ان مالی مشکلات کا حل ، تائی جان  نے یُوں نکا لا کہ  بچیوں کو میٹرک  تک تعلیم  دلوانے کے بعد،   با جی  عابدہ کوسلائی اوربا جی ساجدہ  کو   اُون کی بُنائی کے کام پر لگا دیا۔ اس کا م کیلئے ،  سِنگر کمپنی کی بنی، ایک جدید مشین بھی خرید لی۔  اس سے نہ صرف  بچیوں میں اعتماد  جبکہ  گھر میں کچھ آسودگی آنا شروع ہو گئی، الحمدللہ!

قدیم  ہی سے ، ہمارے ایشیائی معاشروں  میں، بچی کی پیدائش کیساتھ  ہی،  ماں باپ کو ، اُسکی شادی کی فکر لاحق ہو جاتی ہے۔ جس سے اپنی اور بچیوں کی زندگیوں کو، ایک طرح کی  مصیبت میں ڈال دیتے ہیں۔اسلام پر ایمان  تو  بجا  لیکن دعا  اور توکّل جیسی آزمودہ نعمتوں سے  نا بلدلوگ!   اُوپر سے، خاندان میں، پسند کے رشتے  طے نہ  ہونے کی وجہ سے ، پہلے سے موجود ، رشتوں  کو توڑنے پر تُل جاتے ہیں۔نئی رشتہ داریوں کی بنیاد وں میں  بھی ،پچھلے رنج وغم ،  اُداسیوں ، ناکا میوں اور ماضی کی تلخیوں  کو  ملا،  نادانستہ  طور پر ملا کر  کمزور کر دیتے ہیں۔  پھر انکو درست  کرنے  کی  نا کام کوششں  میں، بعض اوقات  ، تکلف اور جھوٹ  کا سہارا لینا پڑتا ہے، جو آگے جا کر  مزید  پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔

اللہ تعالی ٰ نے  کمال  فضل اور رحم کیا  کہ اسلام  کی تعلیم اور محمدعربی  ﷺ کا اسوہ حسنہ اور تربیت ہمیں بہم پہنچا دی۔ لیکن ہم نے اسلام کا اپنا اپنا  اسلوب  (Version)  بنا رکھا ہے۔  ہماری  خوش  بختی کہ بانیٗ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے  1400  سال بعد ،  ہمیں  دوبارہ ، اسلام کی حقیقی تعلیمات سے روشناس کروا دیا ،   لیکن  ہم نے اُس نعمت سے بھی،  کما حقہ ُ   فائدہ نہیں اٹھایا۔ جو  غیروں میں ہوتا تھا،  ہم بھی اس سے بچ نہ سکے۔ نئے رِشتے   بنا نے کے چکر میں پرانے رشتے توڑ نے لگے۔ محبتیں ، نفرتوں میں بدلنے لگیں۔ایک کے بعد ایک ،محترم بزرگ  کی’’َ بَلی ‘‘ اِس  آگ کو بجھانے اورٹھنڈا کرنے  کیلئے دی جا نے لگی۔ کئی سال بعد، اس ’سرد جنگ‘ کا خاتمہ ہو گیا۔ ہماری  ’دیوارِبرلن ‘ جرمنی  کی اصل  دیوار سے  چند سال پہلے ہی  گر گئی تھی۔  ہمارے گوربا چوف اور کلنٹن ،    میاں نور محمد اور میاں دوست محمد تھے۔ یہ 1988 ء کی بات ہے۔ اِسی سال  ، ہماری دو  تایا زاد بہنوں عابدہ بیگم اور ساجدہ بیگم کی شادیاں ایک ہی روز    انجام  پا ئیں، الحمدللہ۔  دونوں نوجوان  ، محمد امجد صاحب (ربوہ)  اور محمد حنیف صاحب  (سیالکوٹ) ، ایک دوسرے سے کُلیّ طور  پر ،  نا آشنا تھے۔ لیکن اب دونوں اس گھر کے داماد و بیٹے اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے تھے۔  دونوں رشتے ، محترمہ تائی جا ن نے طے کئے تھے اور بفضلِ تعالی ٰ بہت اچھے ثابت ہوئے۔  الحمدللہ ! ابھی اِن خوشیوں   کی خوشبو فضاء میں بکھری ہو ئی  تھی کہ یکا یک ، سیاہ بادل کی ایک ٹُکری  آسماں پر نمودار ہوئی اور ہمارے تایا جان میا ں علی محمد کو  اپنے مولا کے حضور لے گئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

آپ حقیقی معنوں میں  درویش تھے۔۔۔۔ خالی  درویش صفت  ہی نہیں!   نہایت حلیم، عاجزمزاج اور ملنسار شخصیت  کے ما لک اور اپنے کا م سے کا م  رکھنے والے۔  دُبلا پتلا   جسم اور ہلکی پُھلکی روح !   اپنے بہن  بھائیوں میں سب سے بڑے ہونے کے باوجود، چھوٹوں کی قابلیتوں  کاادراک و  اقرار کرتے رہے اور اپنا قد م   ایک ایک کر کے پیچھے لے جا تے رہے۔ اور یوں،   بِلا جھجک اور بِلا تردّد، سب سے پیچھےجا   کھٹرے ہو گئے۔۔۔ ناراض ہو  کر نہیں، بلکہ ایسے جیسے ایک با پ  اپنے بچوں کو اپنے سامنے ڈور  لگاتے اور دُور بھاگتے دیکھتا  اور خوش ہوتا ہے ۔جیسے ایک بوڑھا   چرواہا ،  دُور ، دامن میں پھیلے،  اپنے بڑے سے ، ریوڑ کو اپنے سامنے ، دیکھتا اور خوش ہو تا ہے۔ لیکن ۔۔۔پیچھے سے!

چھوٹی چھوٹی داڑھی، ترچھی  وتراشی ہوئی موچھ۔  درمیانہ قد،  ہلکے رنگوں کا ،   دیسی کُرتا،  دیسی جوتا، اورتہمبند استعمال کرتے۔ یہ تینوں بھائی ، ایک ہی طرح کا  سانٹل کا چیک دار،   صافہ (بڑا رومال )سر پربطور پگڑی باندھتے۔ سردیوں میں چترالی ٹوپی ،  ویسٹ کوٹ   اور گرم لوئی کا استعمال بڑھا دیتے۔

اکثرنماز یں با جماعت اورمسجد میں جا کر ادا کرتے۔ تہجد گزار اور اسلامی  شعائر  کے پابند، اپنوں  اور غیروں سے محبت اور حُسنِ سلو ک کر نے والے  تھے۔پُرانے موصی تھے۔رات کو نیند،  بہت کم لیتے۔دن میں بیٹھے بیٹھے سستا لیتے۔ اپنے کام پر جاتے اور آتے وقت، برادرِخورد، حکیم دوست محمد صاحب  سے ضرور ملتے۔ وہاں ، الفضل اور دیگر اخبارات کا مطا لعہ شوق سے کرتے۔

اپنے بچوں ، بھائیوں ، بھتیجے اوربھتیجیوں سے بہت پیار اور احترام سے پیش آتے۔ حکیم صاحب کی طرح، بچوں کے نام پورے احترام سے لیتے۔ جیسے ڈاکٹر محمد طفیل نسؔیم صاحب! اسی طرح،  اپنی بچیوں کو بھی عابؔد، ساجؔد اور خالدؔ کے نام سے پکارتے۔دیگر رشتہ داروں سے بھی بہت اخلاص اور تواضع سے پیش آتے۔ باوجود، مالی مشکلات کے، بڑے مہمان نواز تھے۔ ایک لمبا عرصہ، قریباً ۲۵سال، گھر میں بھینس یا  گائے رہی۔ دودھ، مکھن اور دیسی گھی سب اپنے گھر کا تھا۔ جانور کی خوراک، دیکھ بھال اور صفائی ستھرائی  قطعاً آسان کا م نہیں تھا۔  سب  اس ذمہ داری میں شریک رہے، کیا لڑکے اور کیا لڑکیاں۔ لیکن حقیقت میں، اس کا سہرا ہماری تائی سردار بیگم کے سر تھا۔ انہوں نے صحیح معنوں میں اپنے خاوند سے ایک  قدم آگے بڑھ کر ، ساری عمر  اُ نکا سا تھ دیا۔  بلاشبہ ، ہماری تائی جان ایک مردانہ جگرے کی حامل خاتون ہیں۔ اللہ تعالی ٰ انکو صحت و تندرستی  عطا فرمائے، آمین۔آپ  کھلے ذہن اور مثبت سوچ  کی حامل  خاتون ہیں، موقع محل کے مطابق ، بڑے اور چھوٹوں سے ہنسی مزاح سے بھرپور گفتگو کرتیں ہیں۔ لیکن ڈسپلن کی بڑی سخت! اپنے بچوں  کی تربیت سے متعلق بڑی سخت گیر!   بقولِ اقبال :

ہوبزم یاراں تو ابریشم کی طرح نرم

رزم ِباطل ہو تو فولاد ہے مومن !

دونوں میاں بیوی، کی مہمان نوازی  کا معیار بہت بلند اور قابلِ ستائش تھا  ۔ آپ لوگوں  کا دستر خوان ، رزق حلال ، خلوص اور دل سے تیار کردہ پکوانوں پر مشتمل ہوتا۔اور  اس قدر لذیز ہوتا کہ سُبحان اللہ!۔ تائی صاحبہ، صحن میں واقع ، ’ اوپن کچن‘  میں، اپنے ہاتھوں سے کھانا تیار کرتیں۔  پراٹھوں ، روٹیوں اور سالن میں، مہمانوں کیلئے ،   مکھن اور دیسی گھی کا بے پناہ استعمال کر تیں۔خالص دودھ بلحاظ موسم ، گرم یا سوڈے کی بوتلوں میں ملا کر دیتیں۔ اللہ تعالیٰ انکو اس حسنِ سلوک کی بہترین جزاء دے ،اور اِنکے بچوں کے اخلاص اور رزق میں بھی برکت دے ،  آمین۔

آپ کے دیگر بزرگوں اور  بھائیوں  کیطرح،   اللہ سبحانہ ٗ و تعالی ٰ  کی ذاتِ با برکات، آپ سے بھی خوش تھی ۔ اُس ، رحیم وکریم نے آپکی مناجات اور  دعاؤں کو قبول کر لیا تھا۔محمد اسمعیل کلیم ؔ سے لیکر محمد احمد جمیل ؔ تک ، پانچوں بچے، بفضل ِ تعالیٰ، نیک ، صالح ، فرمانبردار، اور صاحب اولاد ہوئے ہیں۔فاالحمدللہ علیٰ ذلک

اللہ تعالیٰ اپنے افضال وانوار آپکی روح پر بھی جاری رکھے اور آپ کے  درجات بلندتر  کرتا رہے، آمین۔ نیز آپکی ، کی ہوئی مقبول دعائیں ،  نسل در نسل ہم سب کے حق میں  پوری فرمائے، آمین۔

میاں علی محمد صاحب مرحوم