(1878ء تا 3 فروری 1968ء)
اِس خا ندان کی حالیہ و گزشتہ نیک اعمالیوں کا صلہ، اللہ تعالی ٰ نے یوں دیا کہ 1910ء میں، میاں کھیؔوا مرحوم کے سب سے بڑے فرزند، میاں محمد مراد صاحب کو بفضل تعالی، مہدی ٔدوراں، مسیح موعود اور امام الزماں، بانیؑ سلسلہ احمدیہ کو شناخت کرنے اوراُنکے پیغام کو قبول کرنے کی توفیق ملی۔ (آپکے مزار پر تاریخ ِبیعت 1908ء درج ہے۔ لیکن مورخ احمدیت اور مولف اصحابِ احمد کے مطابق 1910ء ہے)۔
’’پنڈی بھٹیاں میں، حضرت مسیحِ موعود ؑ یعنی اسلام کی نِشاۃ ثانیہ کا پیغام آپکی حیات ِطیبہ میں، قیام جماعت (23 مارچ 1889ء) کے معاً بعد ہی پہنچ گیا تھا۔ رجسڑ بیعتِ اُولیٰ کے مطابق، ایک صاحب منشی عنایت اللہ صاحب، نائب مدرس پنڈی بھٹیاں مورخہ 14 اگست 1892ء کو داخل سلسلہ ہوئے اور ڈھائی آنہ ماہوار چندہ مقرر کیا، مگر افسوس 27 ستمبر1892 کو خود ہی سلسلہ عالیہ سے کٹ گئے اور( سلسلہ ضالّین کےہو گئے۔ نا قل)۔ بعدازاں اللہ تعالی ٰکی نظرِعنایت نے، اس بستی میں سعادت مندوں کی بڑی تخم ریزی کی۔ تاریخِ احمدیت، جلد اول(طبع جدید) صفحہ نمبر646 پرشائع، حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانیؓ کی مستند اور قدیم فہرست کے مطابق، پنڈی بھٹیاں سے پہلے مبائع، حضرت میاں رحیم بخش ؓ صاحب نے مئی اور نوجوان میاں اللہ ودھایا صاحب نے جون 1897ء میں، حضورؑ کے دستِ مبارک پر شرف ِبیعت حاصل کیا۔ 1902ء میں، موضع کوٹ دلاور سے حضرت علی اکبر صاحبؓ ، 1903ء میں حضرت میاں اللہ دتہ صاحبؓ مع اہلیہ محترمہ اللہ جوائی صاحبہؓ و بچگان، 1907ء میں حضرت بدرالدین صاحبؓ کوٹ دلاوراورحضرت میاں غلام رسول صاحبؓ پٹواری، حلقہ بیعت و غلامی میں آنے کا دائمی اور مایہ ناز فخر اور نصیب پا چکے تھے‘‘۔
لیکن، نہ جا نے کیوں، اِن صحابہؓ سے کو ئی رابطہ، حضرت میاں محمد مراد صاحب کا نہ ہو سکا تھا۔ متعدد زبانی و تحریری روایات میں، آپکی بیعت کا واقعہ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کوٹ شاہ عالم سے، بزّازی یعنی کپڑا فروشی کا کا م کرنے کیلئے، قریبی قصبہ، پنڈی بھٹیاں میں آ بسےتھے۔ یہاں آپکی ملاقات، لاہورسے آنیوالے کپڑے کے ایک بیوپاری، میاں علی محمد کھرل صاحب سے ہوئی۔ جو بعدازاں، دوستی میں بدل گئی۔ میاں علی محمد کھرل ایک نیک صفت اور زندہ دل انسان تھے۔ انہوں نے ہی، میاں محمد مراد صاحب اور
آپکے بھائی میاں احمددین صاحب کو قرآن کریم ناظرہ مکمل کروانے میں، ایک استاد کا سا کردارادا کیا ۔ 1908ء میں، انہوں نے، لاہور میں ہونیوالے حالیہ ’’ہنگامے‘‘ یعنی حضرت مسیح موعودؑ کی وفات سے متعلق بتایا۔ان دونوں بھائیوں نے اس بات میں بہت دلچسپی لی اور تینوں نے، مزید تحقیق کرنے کیلئے،مل کر قادیاں جانے کا پروگرام بنایا۔ میاں علی محمد صاحب نے کہا جب میں اگلی بارہ پنڈی آوٗنگا، تو قادیان جائیں گے۔
بعض ناگزیروجوہات کی بنا پر، اُنکی واپسی پرایک برس بیت گیا۔ اس دوران، یہ دونوں بھائی، اللہ تعالیٰ کے حضور مسلسل دعاوٗں میں لگے رہے اور ایک رات میاں محمد مراد صاحب کوخواب میں حضرت مسیح موعود ؑ کی زیارت نصیب ہوئی ۔خواب میں ایک شخص، محبوب عالم نے بتایا کہ آپؑ تو محبوبِ خداہیں۔ حضورؑ نے فرمایا، ہاں ’’میں غلام احمد ہوں‘‘۔اِس پر میاں محمد مراد صاحب نے آپ کے ہاتھ چوم لئے! اس پر آپ کو کامل شرح صدر اور دل میں ہی بیعت ہوگئی تھی۔ سوئے اتفاق، حضورؑ کی وفا ت تو ہو چکی تھی اور حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب رضی اللہ تعالی ٰ عنہ، مسندِخلا فت سنبھال چکے تھے۔ آپ تینوں پا پیادہ، پنڈی بھٹیاں سے براستہ کلسیّاں، سانگلہ ہل آئے اور وہاں سے بزریعہ ریل، لاہور سے ہوتے ہوے بٹالہ پہنچے۔ وہاں سے پھر، پیدل قادیان تشریف لے گئے اور خلیفتہ المسیح الاول ؓکے دست ِ مبارک پر مشرف با بیعت ہوۓ۔ یہ مارچ 1910ء کا واقعہ ہے اور مشہور کتاب، تابعین رفقاء احمدؑ ، جلد اول ص 19 مولٔفہ محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم ۔اے نا شر احمدیہ بک ڈپو، ربوہ (طبع اول دسمبر 1969ء )میں درج ہے۔
قادیان میں چند روزہ قیام نے آپکی کا یا ہی پلٹ دی تھی۔ قادیان کی بستی اور اِسکے باسیوں سے آپکوعشق ہو گیا تھا۔ آپکی بیعت، ایک حقیقی بیعت تھی۔ جس کا مطلب، اپنے آپ کو مرشد کے ہاتھ پر بیچ دینا اور اپنی ذات کی نفی کر دینا ہوتا ہے۔ یہ وہی سودہ تھا، جس کا ذکرسورہ الفتح اور قران پاک میں با ر بار آتا ہے اور دلوں پر وہ سکینت اترتی ہے کہ انسان، اپنا سب کچھ بھول کر ایمان و سکون کی یہ دولت، جلد از جلد، دوسروں تک پہنچانے کیلئے، بذاتِ خود ایک بے چین روح بن جا تا ہے۔ اور ہر دم، اِسی فکراورتگ و دو میں رہتا ہے کہ ایمانِ حقیقی کے اِس نُوراور روحانیت کی اِس خوشبو کو، دوسروں تک جلد از جلد پھیلا سکے۔ آپ نے اِس نیک کام کا آغاز اپنے گھر سے ہی کیا۔ سب سے پہلے، اپنے گھر والوں کواِس حق، سچائی اور اِس نعمت غیر مترقبہ کو قبول کرنے کی دعوت دی۔ کیا ہی مبارک وہ گھڑی ہوگی اور وہ دن ہو گا، جس دم اور جس روز، آپکے 75/80 سالہ والد ِمحترم میا ں کھیوؔا صاحب نے احمدیت قبول کی ہوگی؟ کیا روح پرور منظر ہوگا؟ سبحان اللہ! پھر ایک کے بعد ایک، آپکے چھوٹے بھائیوں، میاں فضل دین صاحب اورمیاں مولا بخش صاحب اور اُنکے اہلِخانہ کو، اللہ تعالی ٰ نے حق کو قبول کرنے کا شرف بخشا، الحمدللہ فالحمدللہ علی ٰ ذلک !
اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین کا علم تو آپکے پاس پہلے ہی سے تھا، اب مامورِزمانہ ، حضرت مسیحِ موعود ؑ پر ایمان لانے کی برکت سے، آپ دُنیائے عرفان کے لامحدود حقائق و معارف سے مالامال ہوگئے تھے۔ دن رات، اب آپکا یہی شغل تھا۔ اور بقول، مورخ احمد یت، حضرت مولانا دوست محمد صاحب شاہدؔ ، اپنے خاندان کے قبول احمدیت کی رُوداد بیان کرتے ہوئے اور پنڈی بھٹیاں کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’’حضرت میاں محمد مراد صاحب، جیسے صاحبِ کشف بزرگ، پُرجوش داعی الی اللہ اور سلسلہ عالیہ کے جانثار فدائی اور شیدائی، (یہاں) سر فہرست تھے۔ جنہیں ظلمت کدوں کا گو ہر شب چراغ قرار دیا جاے تو قطعاً مبالغہ نہ ہو گا‘‘۔
میاں محمد مراد صاحب کی ہی درخواست پر، خلیفۃالمسیح الاول ؓ نے، جماعت کے جیّد عالم، حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی ؓ کو آپ کی معاونت کیلئے پنڈی بھٹیاں بھیج دیا۔ حضرت مولانا راجیکی ؓ صاحب کئی روزیہاں مقیم رہے اور مباحثوں و مناظروں کے ذریعے، بہتیروں کی ہدایت کا موجب بنے۔ آپ اپنی سوانح عمری، ’حیات قدسی ‘ کے صفحہ 29-30 میں، انہی ایام کا ذکر کرتے ہوئے، میاں محمد مراد صاحب کے بارہ میں یوں رقمطراز ہیں:
’’پنڈی بھٹیاں کے احمد ی میاں محمد مراد صاحب درزی، نہایت ہی مخلص اور جو شیلے احمدی اور تبلیغ کے دیوانے اور شیدائی ہیں۔ جن کی تبلیغ اور عمدہ نمونے سے شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ اور اُنکے خسر( شیخ عبد الرَّب صاحب لائلپوری ۔ ناقل ) ہندووں سے اسلام احمدیت میں داخل ہوے تھے‘‘۔
دھیرے دھیرے، اللہ تعالی ٰ نے آپکو ایک ’با ثمر‘ اوراپنے نا م کیطرح ’با مراد ‘ داعی الی اللہ بنا دیا۔ اور کم از کم 150 سعید روحوں کی راہنمائی کی توفیق، آپکو حاصل ہوئی (بحوالہ روزنامہ الفضل، 20 اپریل 1935ء) اِن میں کئی نام قابل ذکر ہیں۔ تاہم اِس وقت، راقم، آسمانِ احمدیت کے دو درخشندہ ستاروں کا ہی ذکر کرنا چاہتا ہے ۔
اوّل، جناب شیخ عبدالقادر صاحب (پیدائش 1909ء)، مربی سلسہ عالیہ احمدیہ لاہور اور مولّف کتاب ’’حیاتِ طیبہ‘‘ سابق سوداگرؔ مل ہیں۔ اِنکے قبولِ اسلام و احمد یت ( 1924 ء) کے حالات بیا ن کر تے ہوئے، خالدِ احمدیت، حضرت مولانا ابو العطاء صاحب جالندھریؒ لکھتے ہیں:
’’ با ت یوں ہوئی کہ تحصیل حافظ آباد کے اسی گاوٗں (ذخیرہ بیرانوالہ نزد پنڈی بھٹیاں ۔ ناقل) میں، جس میں سوداگرمل ایک ہونہار کھتری ( مڈل پاس) نوجوان کی حیثیت سے رہتے تھے (اورکاروبار میں اپنے خاندان کا ہا تھ بٹا رہے تھے) ۔ ایک مخلص احمدی اور درد مند مسلمان، میاں محمد مراد بھی بزازی کی دوکان کر رہے تھے اوراُنکی نیکی اور راستبازی کا شہرہ دور دورتک تھا۔ ہمارے عزیز دوست سوداگرمل، حال شیخ عبدالقادر کا تعارف، جناب میاں محمد مراد صاحب سے ہو گیا اورانہوں نے، اِس نوجوان میں رُشد و سعادت کے آثار دیکھ کر، اِسے تبلیغِ اسلام شروع کردی۔ اسلام کی معقول تعلیمات کا دل پر اثر ہونا شروع ہو گیا۔
جناب میاں محمد مراد صاحب، 1924ء کے سالانہ جلسہ پر قادیان جاتے ہوئے، تبلیغ کی غرض سے اپنے ہمراہ ایک مقامی باشندہ، اللہ جوایا مصلّی کو لے گئے تھے، جو قادیان کی زیارت اور وہاں کے ماحول سے نہایت نیک اثر لے کر آیا تھا۔ مگر واپسی پر لوگوں کے دریافت کر نے پر یہ کہنا شروع کر دیا کہ قادیان میں تو دوکا نداری اور ٹھگ بازی ہے۔ سوداگر مل کیلئے یہ صورتحال ایک معمہ سے کم نہ تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ قادیان کا مقامی نمائندہ، میاں محمد مراد نہایت عمدہ اور پا کیزہ زندگی بسر کر رہا ہے اور لوگ اُسکے اخلاق کی تعر یف کرتے رہتے ہیں، مگر اللہ جوایا مصلّی کہتا ہے کہ قادیان میں دوکانداری اور ٹھگ بازی ہے! اِس الجھن کو حل کرنے کیلئے، سوداگر مل نے اللہ جوایا مصلّی سے تنہائی میں دریا فت حال کیلئے ملنا ضروری سمجھا۔ اِنہوں نے اللہ جوایا کو اپنے بھائیوں کی دکان میں رات کو بلایا (اور حقیقت دریافت کی)۔۔۔۔ اللہ جوایا نے بے ساختہ کہا کہ میرابیان غلط ہے۔ میں گاوٗں کا (کمّی) کمین ہوں۔ گاوٗں کے زمیندار، قادیان والوں کے خلاف ہیں، اِس لیے میں لوگوں کے سامنے سچی بات نہیں کہہ سکتا! میں عام لوگوں کو تو اُنکی مرضی کے مطابق بات کہتا ہوں تا وہ خوش ہوں ورنہ حقیقت یہ ہے کہ اگر اسلام دنیا میں کہیں ہے تو وہ صرف قادیان میں ہے۔ ۔۔۔ اللہ جوایا کی اِس گفتگو سے سوداگر مل کے دل کی، نہ صرف الجھن ہی دور ہوگئی بلکہ وہ اِس عزم کے ساتھ وہاں سے اٹھے، کہ میں خود قادیان جاوٗں گا اور اپنی آنکھوں سے حالات کا مشاہدہ کرونگا۔ اگر چہ، سوداگرمل، عام مسلمانوں کی پستی، علم سے محرومی، اخلاقی گراوٹ اور اقتصادی بد حالی کو دیکھ کر، اسلام سے متنفّر تھے۔ مگر میاں محمد مراد صاحب کی دل میں کُھب جانے والی سادہ باتیں اور دل کو موہ لینے والا نمونہ، انہیں مجبور کر تا تھا کہ وہ قادیان جا کر حالات کو خود دیکھیں۔ اُسوقت یہ عجیب کشمکش میں مبتلا تھے۔ زبان سے کہتے کہ اگر سارا جہان بھی مسلمان ہو جائے، تب بھی میں مسلمان نہ ہو نگا۔ مگر دل کُشاں کُشاں، اِس کوچہ کی طرف جا رہا تھا‘‘۔
(از قلم مولانا ابو العطاء جا لندؔھری، بعنوان ’’مولف کتاب ’حیات طیبہ‘ کے مختصر حالات ‘‘ ، 16 مارچ 1960ء)
چنانچہ اگلے ہی روز، یہ دونوں قادیان روانہ ہو گئے ۔ وہاں پر سوداگرمل، کی ملاقات تمام کبارصحابہ ؓسے ہوئی اوراسلام کی حقانیت پر خوب تبادلہ خیال بھی ہوا، نتیجتاً، تیسرے یا چوتھے روز، آپ نے خلیفۃالمسیح الثانی ؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت حاصل کرلی۔ الحمد للہ!
دوسرے درخشندہ ستارے کا کیا کہنا! اگر پوری کہکشاں بھی کہئیے، توغلط نہ ہو گا۔ یہ ہیں، ہمارے مورخِّ احمدیت، جناب حضرت مولانا دوست محمد شاؔہد صاحب مرحوم (1927 ءتا 2009ء)۔
سب سے پہلے، آپکے چچا میاں عبدالعظیم صاحب نے، 1928ء میں پھر آپکے والدِ ماجد، حافظ محمد عبداللہ صاحب مرحوم نے 1933ء میں، حضرت میاں محمد مراد صاحب کی دُعاوں اور کوششوں سے احمدیت قبول کرنے توفیق پائی ۔ یہ گھرانہ نہایت شریف، غریب اور محنت کش لوگوں پر مشتمل تھا اور پنڈی بھٹیاں میں ہی مقیم تھا۔ اللہ تعالیٰ کے رحم کی نظر، اِن دونوں بھائیوں پر پڑی اورپھر اِن لوگوں کی قسمت ہی سنور گئی۔ لیکن اِنکے والد میاں رحمت اللہ (رنگریز) نے اپنے بچوں اور میاں محمد مراد صاحب کی جان توڑ مخا لفت سے، پنڈی بھٹیا ں میں، ایک طوفانِ بد تمیزی پیدا کردیا تھا۔ چنانچہ، اِن دونوں بھائیوں کو قادیان منتقل ہونا پڑا۔ اللہ تعالی ٰ نے دونوں بھائیوں کو لعل و جواہر سے نوازا۔ بڑے بھائی حافظ محمد عبداللہ کو حضرت مولانا دوست محمد شاہدؒ ؔ ( مورخّ احمد یت) اور چھوٹے میاں عبدالعظیم صاحب کو مولوی خورشیداحمد صاحب انوؔر، مدیر ’’بدؔر، قادیان‘‘ اور درویشِ قادیان عطا کئے۔
حضرت مولانا دوست محمد شاہدؒ ؔ مرحوم کی وفات، مورخہ 26 اگست 2009ء کو ربوہ میں ہوئی اور حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مورخہ 28 اگست کو اپنے، خطبہ جمعہ فرمودہ جامع بیت الفتوح ، لندن میں کمال شفقت سے آپکی سیرت کا تفصیل سے احاطہ کیا ۔ یہ خطبہ مورخہ 18 ستمبر کے الفضل انٹرنیشنل کے شمارے میں طبع ہوا ہے اور بار با ر پڑھنے اور سبق حاصل کر نے کے لائق ہے۔
میاں محمد مراد صاحبؒ کی زندگی، ہم سب کیلئے ایک روشن مینار کی مانند ہے۔ پنڈی بھٹیاں، ابھی کل تک، ہمارے سامنے، ضلع گوجرانوالہ کی سب سے پسماندہ تحصیل رہی ہے۔ 100 سال پہلے اِسکی کیا حالت رہی ہوگی؟ بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے! آپ کے گاوٗں، کو ٹ شاہ عالم کو نہ تو کوئی سڑک جاتی تھی اور نہ ہی کوئی بس! وہاں نہ تو کوئی پختہ گلی تھی اور نہ کوئی مکان! نہ بجلی تھی اور نہ ہی کوئی سکول! پنجابی بھی (جھنگ مگھیانہ کے) جانگلی لہجہ میں بولی جاتی تھی۔ آپ نے سکول کا منہ تک نہ دیکھا تھا۔ قرآن کریم بھی بیس پچیس سال کی عمر میں، اپنی دکان پر بیٹھ کر، اپنے تاجر دوست، محترم علی محمد کھرل صاحب کی مدد سے مکمل کیا تھا۔ لیکن، اللہ تعالٰی سے والہانہ تعلق اور محبت کے نتیجے میں، آپکی گفتگو لوگوں کے دلوں میں اتر جاتی تھی۔ مامورِزمانہ کی برکت، خلیفۃالمسیح الاول ؓ کی دعاوٗں اور اپنی محنت و ہمت سے، آپ نے نہ صرف پڑھنا سیکھا بلکہ لکھنا بھی سیکھ لیا۔ مورخِّ احمدیت نے، آپکا دور، ’’پنڈی بھٹیاں کی دینی و روحانی تاریخ کا سنہری دور‘‘ قرار دیا ہے۔
اُس زمانہ میں، ابھی شہروں و دیہات میں، موجودہ نظام جماعت (یعنی صدارت و امارت) رائج نہیں ہوا تھا۔ آپ، پنڈی بھٹیاں میں، انجمن احمدیہ قادیان کے سیکرٹری تھے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے ارشادات کی روشنی میں، آپ نے، کئی عظیم الشان جلسہ ہائےعام کا انعقاد کیا۔
پہلا جلسہ مورخہ 14 اگست 1931ء کو، صدر آل انڈیا کشمیر کمیٹی، حضرت امام جماعت احمدیہ کی ملک گیر تجویز پر ہوا، جس میں مرکز سے تین بزرگ مربیان کے علاوہ مقامی سر کردہ غیر احمد ی احباب نے بھی خطاب فرمایا۔ اس جلسہ کی رپورٹ، آپکے قلم سے، الفضل 25 اگست 1931 ص 9، کالم 1 پر یوں شائع ہوئی:
’’ 14 اگست، رات کے وقت مسلمانان پنڈی بھٹیاں کا کشمیر ڈے کا جلسہ زیر صدارت چوہدری علی محمد صاحب منعقد ہوا۔ مولوی ظہورحسین صاحب مولوی فاضل نے قریباً دو گھنٹے کشمیر کے حالات، نہایت درد انگیز لہجہ میں بیان فرمائے۔ حاضرین جلسہ پر اچھا اثر ہوا۔ مجوزہ ریزولیوشن بالاتفاق پاس کئے گئے۔‘‘
دوسراجلسہ، 8 نو مبر 1931ء کو ’’سیرت النبیﷺ‘‘ کے موضوع پر، زیر صدارت، چوہدری محمد حسین صاحب ایل۔ ایل۔ بی وکیل کے منعقد ہوا۔ (چوہدری صاحب موصوف کا تعلق پنڈی بھٹیاں سے تھا اور وہ قیام پاکستان سے قبل، تحصیل حافظ آباد میں واحد مسلمان وکیل تھے۔)۔ اِس جلسہ میں، چوہدری علی محمد اور میاں محمد مراد صاحب کے علاوہ، اُنکے بڑے بیٹے، ماسٹرغلام محمد عؔبد صاحب نے بھی تقاریر کیں۔ اس جلسہ میں،غیر مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے۔ (بحوالہ الفضل 3 دسمبر1931ء)
1934ء میں، ہندو اصلاح پسند تنظیم (حقیقت میں شِدّت پسند)، آریہ سماج نے’’ شُدّھی‘‘ (یعنی مقامی غریب مسلمانوں کو زبردستی، پاک کر کے، دوبارہ ہندو بنانے کی تحریک) چلائی، تو جماعت احمدیہ نے اپنے مبلغین، معلمین، واقفینِ زندگی اور (واقفینِ عارضی) رضاکاروں کو، پورے ہندوستان میں پھیلا دیا تاکہ وہ عامۃ المسلمین کو اکٹھے ہونے، اسلام کی حقیقی تعلیمات سے رُوشناس کروانے، اور اُنکو حوصلہ و ہمت، بہم پہنچا سکیں۔ یہ ایک بہت بڑی خدمتِ اسلام تھی بلکہ جہاد تھا۔ جس میں، ہمارے کئی جوانوں کی جانیں بھی گئیں۔ بہت سے زخمی بھی ہوئے اور محض خداتعالٰی کے دین کی سرفرازی کے لئے، ہر قسم کی تکالیف کا سامنا کیا۔
تیسرا جلسہ عام، اِسی سلسلہ میں، اپریل 1934ء میں، منعقد ہوا۔ جس میں احمدی و غیر احمدی شرفاء نے شرکت کی ۔ اس جلسہ کی کامیابی کا ثبوت ’’انجمن اصلاح المسلمین، پنڈی بھٹیاں ‘‘ کا قیام ہے۔ (بحوالہ الفضل، یکم مئی 1934ء)
اِن پے درپے، مذہبی وسماجی اور میدانِ تبلیغ میں، کامیابیوں کے نتیجے میں، مسلمانوں اور ہندووں، دونوں قوموں کے لوگ، آپکے جانی دشمن بن گئے تھے۔ اِس مخالفت کا مرکزی کردار، میاں رحمت اللہ، المعرف میاں رحماں (مورخ احمدیت کے دادا) اور سابق سوداگرمل کے بھائی تھے۔ میاں’رحماں‘ کے تین بڑے بیٹے، بشمول اللہ بخش صاحب ، نہ صرف احمدی ہو چکے تھے بلکہ احمدیت کے منادی بھی بن چکے تھے۔میاں محمد مرادؒ صاحب کو، برسرِ بازار، گندی گالیاں دینا، پتھر مارنا اور قتل کی دھمکیاں دینا، ان کا دستور بن گیا تھا۔ 1935ء میں میاں رحمت اللہ نے، مولوی محمد حسین صاحب کولو تارڑوی کیساتھ مل کر، میاں محمد مراد صاحب اور اپنے ہی تینوں بیٹوں کو مباہلہ کی دعوت دے دی۔
اِس تاریخی مباہلہ کی 12 شرائط، مورخہ الفضل 19 اپریل 1935ء میں شائع شدہ ہیں۔ مباہلہ کی صدارت کے فرائض، دو مقامی روساء اور مقتدر شخصیات، میاں دوست محمد صاحب ذیلدار اور میاں محمد حسین صاحب نے پورے انصاف اور دیانت سے انجام دیں۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے مخالفینِ احمدیت اور طالبانِ مباہلہ پر اتمام حجت کیلئے، مرکز سے دو جید علماء حق، حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؔ صاحب ؒ اور حضرت حافظ غلام رسول صاحبؓ وزیر ؔآبادی بھی، پنڈی بھٹیاں بھجوائے۔
مورخّ احمدیت، بعمرآٹھ سال، بذات ِخود اِس تقریب میں موجود تھے۔ بہر حال، دعائے مباہلہ ہوگئی۔ اورجھوٹوں کے لئے لعنت ملامت مانگی گئی۔ باوجود ایذاءرسانی اور شدید مخالفت کے، اللہ تعالی ٰ نے، جماعت ِمُبا ئعین کو نہ صر ف محفوظ و مامون رکھا بلکہ اُنکے مال واولاد اورعزّت میں برکت دی ۔ جبکہ فریق ِثانی کو ناکامی، موت اور ذِلّت پہنچائی۔ سب سے پہلے میاں رحمت کی بیوی فوت ہوئی، جو اسکا واحد معاشی سہارا تھی۔ پھر اُسکا چھوٹا بیٹا، غلام محمد، جومحلہ عاقل والا کی مسجد کا امام تھا، نےاُسی خانہ ٗخدا میں ہی خود کشی کر لی۔ تیسر ے، کچھ عرصہ، حسرت و یاس میں جلنے اور بجھنے کے بعد، میاں رحماں بھی چل بسا۔ ( بحوالہ الفضل،17 و 27 مئی 1936ء)
مولوی محمد حسین (کولو تاڑوی) نے، چونکہ الفاظ مباہلہ نہیں دہرائے تھے اور شائد دل میں استغفاربھی کرتا رہا تھا، اُسکا احوال معلوم نہیں ہو سکا۔ تاہم اُس تاریخی مباہلہ کی کاروائی اور نتائج دونوں الفضل میں، (میاں رحمت اللہ کے ہی اُن خوش قسمت بچوں، جو اُسکی اپنی گود سے نکل کر احمدیت کی آغوش میں آگئے تھے) کے ہاتھوں ہی تحریر کردہ اورباالترتیب، شائع شدہ ہیں۔
میا ں محمد مرادؒ صاحب، جس طرح دینی، روحانی اور اخلاقی طور پر نمایاں مقام رکھتے تھے، اِسی طرح ظاہری طور پر بھی انتہائی خوبرو، خوش لباس، اور خوش اطوار انسان تھے۔ سفید پگڑی، ویسٹ کوٹ و شیروانی اورسردیوں میں گرم اوور کوٹ استعمال کرتے تھے۔ خداداد رُعب کے مالک تھے، لیکن تبلیغ اسلام و احمدیت کیلئے، حضرت بانی سلسلہ عالیہ ؑ کی تعلیمات کے ماتحت، فقیروں کیطرح، مسلم و غیر مسلم، امیروغریب، ہر طرح کے لوگوں کے، پیچھےپڑے رہتے تا کسی طرح وہ گمراہی سے بچ سکیں اور راہ ِہدایت پا سکیں۔
آپکی شادی محترمہ حسین بی بی صاحبہ، (ہمشیرہ حکیم غلام محمد صاحب ودھارتی آف پنڈی بھٹیاں) کے ساتھ ، ونیکے تارڑ میں ہوئی۔ مخالفین، اکثر آپکو نعوذ باللہ ’’نامراد‘‘ کہہ کر پکارتے اور یہ بدعاء دیتے کہ جس طرح تم نے ہم سے ہماری اولاد چھین لی (یعنی احمدی بنالیا) خداکرے تمھاری اولاد ہی نہ ہو! لیکن بفضلِ تعالیٰ، آپکی اکثراولاد توام (جوڑا، جوڑا ) پیدا ہوئی۔ 7 بچے، ماسٹر میاں غلام محمد عبؔد صاحب و فاطمہ بی بی صاحبہ، میاں دوست محمدصاحب و ایک بچی جو پیداہوتے ہی وفات پا گئی، میاں نور محمد صاحب (اکیلے)، میاں شریف احمدصاحب و میاں بشیر احمدصاحب اورمحترمہ ذینب بی بی صاحبہ کی ولادت بھی، اکیلے ہوئی۔آپ کے سارے بچے، ماشاء اللہ پڑھے لکھے اوراحمدیت سے اخلاص اور خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والے تھے ۔ ایک اہم با ت، آپ نے، سوائے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے بشیر احمد (درویشِ قادیان) کے، تمام بچوں کے رشتے اپنے چھوٹے بھائیوں کے ہاں طے کئے۔ اِس سے آپکی اپنے بھائیوں سے اُلفت اورخاندانی محبت کا پتہ ملتا ہے۔ اِِس حقیقت سے، اُس بیا نیہ کی بھی نفی ہوتی ہے، جب کوئی میاں صاحبؒ اور اِنکے بھائیوں کے درمیان، مذہبی بنیادوں پرتفرقہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
قادیان سے آپکی محبت، اُس روز ہی پیداہوگئی تھی جس روز، آپ نے اِس پاک بستی میں قدم رکھا تھا۔ آپ اپنے زیرِتبلیغ لوگوں کو، اپنے ساتھ قادیان لیکر جاتے اور وہاں قیام کے دوران، اپنی روح کی تازگی کا بھی سامان کرتے۔ یقیناً وہاں رہا ئش کی خواہش، تو بہت ہوگی، لیکن مرورِِزمانہ سے، ایسا نہ ہو سکا۔ لیکن آپ نے اپنے بچوں کے ذریعے یہ حسرت بھی پوری کر لی۔ آپکے، سب سے بڑے بیٹے، میاں غلام احمد عبؔد صاحب نے تو وہاں باقاعدہ رہائش کر لی۔ آپ اکثر اُسکے پاس رہنے لگے۔ جبکہ سب سے چھوٹے بیٹے نےتو ، 313 درویشانِ قادیان میں شامل ہو کر، سارے خاندان کیطرف سے، قادیان سے عقیدت و محبت کا مقبول نذرانہ پیش کر دیا، ما شاءاللہ !
اپنی زندگی کے آخری چند برس آپ نے حافظ آباد میں اپنے دوسرے نمبر پر بڑے بیٹے، میاں دوست محمد صاحب کے ہاں گزارے۔ اور مورخہ 3 فروری 1968ء کو اپنی جان، جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔ آپکی تدفین، بہشتی مقبرہ، ربوہ میں ہوئی۔
گو آپ ؒ، حضرت مسیح موعود ؑ کے اولین تابعین میں سے تھے لیکن، بفضل تعالٰی، آپؒ اپنے ایمان، اِتقاء اورعلم کے لحاظ سے، صحابہ ؓ کے رنگ میں ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ و حضرت مصلح موعود ؓ سے آپکا ذاتی تعلق تھا۔ کبار صحابہ رضوان اللہ علیھم سے آپکی حقیقی دوستیاں تھیں۔ آپ ؒ صاحبِ کشف بزرگ تھے۔ موٗلف تابعین رفقاء احمد کے مطابق، آپکو 14 مارچ 1914ء کو اللہ تعالی ٰ نے کشفاً دکھلا دیا تھا کہ ’’ خلیفہ اول کی وفات ہوگئی ہے اور اُنکی جگہ محمود ایدہ اللہ الودود، خلیفہ ثانی مقرر ہوئے ہیں‘‘۔ بے شک آپکا وجود، نہ صر ف ہمارے خاندان کیلئے بلکہ بُہتوں کیلئے ’’گوہر شب چراغ‘‘ تھا۔ آپ ؒ ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کے ولی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپکی بہت ساری دعاوں کو شرفِ قبولیت بخشا۔ اب ہماری باری ہے کہ ہم بھی آپکے ؒ درجات کی بلندی کیلئے، اپنے مولیٰ کریم کے حضوردعائیں کرتے رہیں۔ ہم اُنکے خاندانی وارث تو بے شک ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں اُنکی نیکی و تقویٰ کی میراث کا بھی، وارث بنائے، آمین۔
آپکی اولاد کا مختصر تعارف:
ماسٹر غلام محمد عبؔد صاحب بھی اپنے والد مرحوم کیطرح ، ایک دیندار، پڑھے لکھے اور پر جوش داعی الی اللہ تھے، ماشاءاللہ! آپ اپنے وقت میں، خاندانِ میاں کھیوا کے پہلے میٹرک پاس نوجوان تھے ۔علاوہ ازیں آپ نے منشی فاضل و ادیب فاضل اور ٹیچرز ٹریننگ کا کورس بھی کیا تھا۔ پنڈی بھٹیاں ، ہیڈ ساگر ، حافظ آباد کے علاوہ مدرسہ احمد یہ، قادیان میں بھی مدرس رہے۔تقسیم ِ ہند کے بعد آپ ہجرت کر کے حافظ آباد آگئے ۔ پھر، 1974 ءکے پُر آشوب دور کے بعد ، اپنے بچوں کے پاس ، لاہور (سعید پارک ، شاہدرہ ) چلے گئے ۔ وہیں 90 ءکی دہائی میں آپ دونوں میاں بیوی کی وفات ہوئی۔ آپ کو حضرت صاحبزادہ میرزا طاہر احمد ؒ (بعدازاں خلیفۃ المسیح الرابع ) کو ابتدائی جماعتوں میں پڑھانے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔آپ ایک مستجاب الدعا بزرگ تھے۔آپکی شادی اپنے چچا میاں احمد دین صاحب کی بڑی بیٹی محترمہ اللہ جوائی صاحبہ سے ہوئی جو خود بھی پرائمری پاس اور نہایت سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔ صاحب اولاد ہوئے۔ اِنکے 7 بچے تھے۔ مکرم مبارک حمید اللہ صاحب ، محتر مہ امتہ الحمید صاحبہ ، مکرم صادق مجید اللہ صاحب، صادقہ اختر صاحبہ، اعجاز مرحوم ، ظفر احسان اللہ صاحب اورامتہ النصیر صاحبہ ۔
ہم تینوں بھائیوں کے نام بھی موصوف نے تجویز کیئے۔ دین کا اعلیٰ علم تھا۔ راقم کی آپ سے بہت ملاقات رہی لیکن اپنی کم عمری اور نا سمجھی کیوجہ سے ، ان سے زیادہ اکتساب فیض نہ کر سکا ، وائے حسرت!
محترمہ فاطمہ بی بی صاحبہ کی شادی ، اپنی چچی مراد بی بی کے چھوٹے بھائی میاں علی محمدسپّل (بارہ دے چک ) نزد، پنڈی بھٹیاں کیساتھ ہوئی۔انکے 5بچے محمد عبداللہ، بشیر احمد، رشید احمد، رفیق احمد اور شکیلہ بیگم ہوئے۔ بد قسمتی سے علی محمد صاحب اپنی بیعت پر قائم نہ رہ سکے اور یہ گھرانہ اپنی اصل سے، ہر لحاظ سے کٹ گیا۔
میاں دوست محمدصاحب مڈل پاس اور بابو قسم کے، نفیس شخصیت کے مالک تھے۔آغاز میں اپنے والد صاحب کی دوکان پر انکی معاونت کرتے تھے ۔ جنگ عظیم دوم(1939۔1944 ) کا زمانہ تھا اور ہندوستان کے برطانوی حکمران ، چین و جاپان کیطرف سے ہندوستان پر حملوں سے سخت پریشان تھے۔ برما ، محاذِ جنگ بنا ہواتھا۔ انگریزی افواج، مشرقِ وسطیٰ (Middle East) اور یوروپی محازوں پر لڑ رہی تھیں۔ جبکہ ہندوستان کا دفاع ، محض دیسی سپاہ پر چھوڑ دیا گیا تھا۔ ان حالات میں مقامی، پڑھے لکھے لوگوں کی بھرتی کیلئے بڑی تگ ودو کی جارہی تھی ۔ میاں دوست محمد بھی انہی میں سے ایک تھے۔ ہمارے خاندانی پس منظر کے حوالے سے ، یہ بڑی عجیب سی بات تھی لیکن دوسری طرف، جماعت احمدیہ بھی ، اِن قومی دفاع کی کوششوں میں تعاون کو سراح رہی تھی۔ چنانچہ ، میاں محمد مراد صاحب نے اس معاملے میں بھی پہل کر دکھلائی او ر دین کیساتھ ساتھ، ایک بیٹا ملک و قوم کے نام بھی وقف کر دیا۔آپ بطور فوجی بھرتی ہوئے اور نان کمیشنڈ آفیسر کے رینک ، ’’لانس نائیک‘‘ کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہوئے اور پینشن کے حقدار ٹہرے۔
ریٹائرمنٹ کے بعد، اپنے چھوٹے بھائی شریف احمد کیساتھ مل کر ’’شریف بُوٹ ہاوس ‘‘ کے نام سے کاربار شروع کیا اور ایک لمبا عرصہ یہ شراکت داری جاری رہی۔ ایک وقت میں، مالی لحاظ سے ، اپنے بہن بھایئوں میں ، سب سے خوشحال زندگی گزاری۔ خاندان میاں کھیوا صاحب کا سب سے پہلا خوبصورت اور پختہ مکان آپ نے ہی خریدا۔ اسی طرح، گو متروکہ کلیم کی ہی سہی،اپنے بڑے بھائی ماسٹر غلام محمد عبؔد صاحب سے ، شہر کے عین مرکز میں، برلب سڑک، دو عدد ، بڑی بڑی دوکانیں بھی خرید لیں تھیں۔ 70 ۔80 سال کی عمر تک چاک وچوبند وجود تھے۔ بچوں اور بڑوں سے بڑے تپاک سے ملتے۔
آپکی شادی ، اپنے چچا میاں فضل دین صاحب کی دختر (اور راقم کی پھوپھو) محترمہ خاتون بی بی سے ہوئی۔ آپکے6 بچے ہوئے ۔ میاں بشارت احمد صاحب، محترمہ بشری بیگم صاحبہ ، امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ ، ، خالدہ بیگم صاحبہ، شاہدہ بیگم صاحبہ اورخالد احمد صاحب۔اللہ تعالی ٰ نے سب کچھ دیا لیکن کچھ آزمائشیں بھی آئیں ۔بے شک، ہم سب اپنے پروردگار کی شُکر گزاری میں کمزور ہیں !
میاں نور محمد صاحب ، اپنے والد کیطرح ایک نیک فطرت ، نماز روزہ کے پابند اور ملنسار انسان تھے۔ آپ بھی مڈل پاس اور پیشے کے لحاظ سے پوسٹ مین تھے۔ ا س وقت اِس قدرتعلیم اور سرکاری ملازمت کی بڑی وقعت تھی۔ آپکی رہائش حافظ آباد میں ہی رہی۔آپکی شادی آپکے چچا میاں مولا بخش صاحب مرحوم کی سب سے بڑی صاحبزادی (راقم کی خالہ) زینب بی بی سے ہوئی تھی۔ اِنکے 4 بچے تھے۔ میاں مبشر احمد صاحب ، منورہ بیگم صاحبہ، میاں منور احمد صاحب اور میاں مظفر احمد صاحب۔دونوں میاں بیوی نیک پاک اور بھلے مانس لوگ تھے ۔اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ غیب و حکمت ہی بہتر جانتی ہے کہ کیونکر، غربت و ناداری، ساری زندگی ، اِنکے آنگن میں، ہمسایئوں کے گھر میں لگے ، جامن کے ایک گھنے پیڑ کیطرح تناور اور سایہ فگن رہی؟ کیوں اپنے تین بیٹوں سے جُڑی ، اِس نیک جوڑے ، کی خوشیاں، آرزؤں اور خواہشات کو، اُنکے ساتھ انکی قبروں میں لے گئی؟
عجیب اتفاق ہے کہ یہ راقم کے ایک بزرگ تا یا کے ’’ہم نام‘‘ ، ’’ہم زُلف‘‘، ’’ہم محلہ‘‘ اور ’’ہم حالات ‘‘ تھے ۔ دونوں دوست اور کزن، نیک نیت ، نیک اخلاق اور نیک اعمال گھرانے تھے۔ ہمیشہ ، بقول ِشاعر!
زندگی جبرِ مسلسل کیطر ح کا ٹی ہے۔ جانے کس جرم کی پا ئی ہے سزا یا د نہیں !۔۔۔کے مصداق رہے۔ اللہ ‘ مالِکُ الُملک وھوالعزیز الحکیم!
میاں شریف احمد صاحب نے بھی مڈل تک ہی تعلیم حاصل کی تھی۔ اپنے والد صاحب کے ساتھ ہی کاروبار کا آغاز کیا اور اسی طر ف ہی زیادہ رجحان رکھتے تھے۔ بعدازاں حافظ آباد منتقل ہو گئے اور ایک عرصہ تک یہاں بھی بزازی کا کام کیا۔ پھر، اپنے بھائی میاں دوست محمد کیسا تھ مل کر ، ’باٹا‘ اور ’سروس‘ شوز کمپنیز کے قریب ہی ’’شریف بُوٹ ہاوس‘‘ کھول لی۔بہت سادہ طبیعت ، سادہ لباس و خراش کے مالک ، صحیح معنوں میں درویش صفت انسان تھے۔خود دولت کے پیچھے نہ بھاگنے والے البتہ دولت اُنکے پیچھے بھاگ کر آتی تھی۔ اِنکے بچے بھی اِنہی کیطرح، ظاہری آن بان سے عاری رہے۔ اپنے چچا سے کاروبار کی علیحدگی اور تبدیلی کے بعد، اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل و کرم سے بہت نوازا۔کاروباری ، مالی اور دینی لحاظ سےبہت ترقی کی۔ میاں شریف احمد کی شادی اپنے چچا میاں فضل دین صاحب مرحوم کی سب سے چھوٹی بیٹی (راقم کی پھوپھو) بشیراں بی بی کیساتھ ہوئی۔ انکے 9بچے تھے۔محترمہ پروین صاحبہ ، محترمہ مسرت پروین صاحبہ، مکرم مبارک احمد صاحب ، محترمہ منصورہ بیگم صاحبہ ، مکرم مقصود احمد صاحب ، مکرم محموداحمد صاحب ، محترمہ مصبا ح ناز صاحبہ ، محترمہ منزہ کنول صاحبہ ، محتر مہ مبینہ کو کب صاحبہ۔
میاں صاحب کی ایک بات راقم کو اچھی طر ح یاد ہے کہ وفات سے قبل آپ کی ٹانگوں اور گھُٹنوں پر ورم آگیا تھا جس کی وجہ سے چلنےپھرنے میں کافی تکلیف تھی ۔ لیکن اس کے باوجود ، آپ دیواروں کا سہارا لیکر، بڑی ہمت اورمشقت سے، مسجد میں نماز با جماعت کیلئے آیا کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ آپ کی ان کاوشوں کو قبول فرمائے اور اجرِعظیم عطا فرمائے، آمین۔
میاں بشیر احمد صاحب( درویشِ قادیان) آپکےؒ سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔ پنڈی بھٹیاں میں ہی پیداہوئے اور پلے بڑھے۔تعلیم غالباً میٹرک تھی۔ بعدازاں اپنے خاندان کے ہمراہ حافظ آباد منتقل ہو گئے۔کچھ عرصہ اپنے بڑے بھائی ، ماسٹر غلام محمد عبد کے پاس ، قادیان میں بھی مقیم رہے۔ 1947 ء میں تقسیم ہند کے وقت، مرکزِ احمدیت کی حفا ظت کیلئے، حضرت مصلح موعودؓ نے 313 جانثاروں کی قر بانی مانگی۔ وقفِ زندگی کی یہ قربانی ، بہت اعلیٰ اور بڑی قربانی تھی۔ یہ محض ایک فرد کی نہیں بلکہ پورے خاندان کی قربانی تھی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میاں محمد مراد ؒ کو یہ توفیق بھی ملی کہ انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے اور لاڈلے بیٹے کو مرکزِاحمدیت کی حفاظت کیلئے قادیان بھیج دیا۔ حالات اِس قدر خراب، غیر یقینی اور دِگرگوُں تھے کہ کچھ خبر نہ تھی کہ زندہ بھی رہیں گے یا کہ نہیں! کبھی ملاقات بھی ہوگی کہ نہیں؟ فقط اللہ تعالی ٰ پر توکّل تھا کہ وہی حفیظ ہے، وہی عزیز ہے اور وہی بہترین رفیق بھی۔
اللہ تعالیٰ نے آپکیؒ اس قربانی کو بھی شرف ِ قبولیت بخشا۔ حالات بہتر سے بہتر ہوتے گئے۔ آپ نے یو۔پی میں جا کر ، خود بیٹے کیلئے رشتہ پسند کیا اور ایک مخلص احمد ی خاندان میں آپکی شادی کی۔ محترمہ مبارکہ بیگم کے بطن سےآپکے 5 بچے پیدا ہوئے۔ مکرم منیراحمد صاحب حافظ آبادی ، مکرم نصیر احمد صاحب حافظ آبادی، محتر مہ ناصرہ بیگم صاحبہ ، امتہ الحفیظ صاحبہ، امتہ العزیز صاحبہ ۔
مکرم منیراحمد صاحب حافظ آبادی، وا قف ِ زندگی ، کو اللہ تعالیٰ نے، جماعتِ احمدیہ میں انتہائی اہم ذمداریوں کو ادا کرنے اور اپنے دادا محترم میاں محمد مراد صاحب مرحوم و خاندان کا نام بلند کرنے کی توفیق عطافرمائی ہے۔ آپ ناظر امورِعامہ، وکیل المال تحریک جدید، اور اس وقت ، ناظرِاشاعت و وکیلِ اعلیٰ قادیان کی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے اور مزید ترقیات سے نوازے، آمین۔
محترمہ زینب بی بی صاحبہ بھی ، خاندان ِ میاں کھیوا کی ابتدائی، چند پڑھی لکھی خواتین میں سے تھیں۔ اپنے والد صاحب اور بھایئوں کی صحبت میں اور قادیان میں قیام کی بدولت ، آپکی عادات و اطوار میں ایک واضع اور مثبت فرق تھا۔ آپ نے انتہائی مشکل مالی حالات میں اپنی ساری زندگی بسر کی لیکن اپنے خاوند اور بچوں کا بہت خیال رکھا اور انکا اعتماد و حو صلہ بلند رکھا۔ آپ مڈل پاس تھیں۔ آپکی شادی اپنے چچا مکرم میاں احمد دین صاحب مرحوم کے بیٹے مکرم میاں غلام رسول صاحب کیساتھ ہوئی۔ اللہ تعا لیٰ نے آپ دونوں کو 6 بچوں سے نوازا۔ محتر مہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ، مکرم سرفراز احمد صاحب ، مکرم خالد احمد صاحب، مکرم ظفر احمد صاحب، مکرم ناصر احمد صاحب اور محترمہ خالدہ صاحبہ۔