میاں نور محمد صاحب مرحوم

( 1920-1997)

زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جا نے کس جرم کی پا ئی ہے سزا یاد نہیں

تاریخ وفات: 14 فروری1997 ء

گوسر دی   کا زور ٹوٹ رہا تھا، تا  ہم مو سم میں خُنکی ابھی  باقی تھی۔نصف سے زیادہ   رات بھیگ  چکی تھی۔ شہر کی اک غریب بستی  میں،  چھوٹے سے گھر کے، ایک قدیم کمرے میں،  زرد رنگ کا بلب جل رہا تھا، اُس نے زندگی کوکمزوری کے عا لم میں ،  خامشی سے یوں الوداع کہہ دیا جس  طرح 70  سا ل قبل ، زندگی نے کمزوری اورغربت  کے عا لم اُسے د نیا میں  دھکیل  دیا تھا۔

وہ ا یک دُبلا‘پتلا منھنی سا بچہ ابھی 40 روز کا ہی ہوا تھا کہ اسکی پیاری والدہ فاطمہ بی بی اسے چھوڑ کر اپنے مولا کے حضور حا ضر ہو گئی۔ اسکے دو بڑے بھا ئی ،   جو خود بھی ابھی چھو ٹے ہی سے  تھے۔ یہ  1920ء کی بات ہے۔   پورا گھرانہ ہی  آفت زدہ تھا ۔

اس خا ندان کے بزرگ یعنی  بچے کے دادا، میاں کھیؔوا  ،  اُنکے بھا ئی ،  میاں  جؔیونہ، میاں راجدؔین  اپنے معمر والد میاں محرؔم اور بیو ی بچوں کے ہمراہ،  حال ہی میں، انگریزی حکومت اور اسکےعمّا ل کے ستائےہوئے، اپنی ہی زمینوں پر عائد لگان اور مالیہ ادا نہ کر سکنے  کی وجہ سے ،  مو ضع ہنجرانواں والی  سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو کر،  پنڈی بھٹیاں کے نزدیک ایک گاوں، کوٹ شا ہ عالم     میں آن بسے تھے ۔

میاں کھیؔوا  و امامؔ بی بی کی کُل اولا د،     4 لڑکے میاں محمد مراؔد، میاں احمدؔ دین، میاں فضؔل دین ، میاں مولا ؔبخش اور ایک لڑکی مر یم بی بی   تھی۔ میاں کھیوا کی سا ری اولاد نیک، صالح اور تا بع فرمان تھی۔ میاں صا حب اور  انکے لڑکو ں نے ،  کو  ٹ شا ہ عالم کے آس پا س ، مختلف دیہات میں،  چھو ٹے بڑے قطعہ  زرعی اراضی ، کراے پر  لے کر، زمیندارہ  کا آبائی کا م جا ری رکھا۔

بچوں کی شادیوں کے بعد، میاں کھیؔوا ، اپنے دو لڑکوں  احمدؔ دین اور مو لا ؔبخش کے سا تھ  کو ٹ شا ہ عالم میں ہی رہے جبکہ محمد مراؔد و نیکے تارڑ اور  فضلؔ دین مجوراں وا لی میں شفٹ ہو گئے۔

یہ بچہ،  مجوراں والی  ہی   کی ایک   اندھیری  کوٹھر ی میں پیدا  تھا۔ اسکے والدمیاں فضلؔ دین ، ایک دیندار، محنت کش  لیکن بے حال انسان تھے۔ چنانچہ بچوں کے دادا اور دادی (میاں کھیوا  و  اما م بی بی)  ان تینوں پوتو ں کو اپنے ساتھ ،مو ضع کو ٹ شاہ عا لم ، لے آ ے، جہا ں وہ  اپنے دیگر بھائیوں اور بچوں کیسا تھ رہائش پزیر تھے۔

یہاں ددھیال میں ان بچوں کا سب سے زیادہ خیال انکے چچا  میاں مولا بخش اور  انکی اہلیہ بھاگ بھری  نے رکھا۔ اپنی اِس محبت اور شفقت کی وجہ سے بھی،   وہ بھاگ بھری  ہی تھی ۔

روز و شب گو عُسرت مگر سُرعت سے گزرتے گئے۔یہ کبھی اپنے نا نا میاں راج دین  اور ماموں غلام احمد کے پاس شاہکوٹ آ جاتے اور کئی  کئی  ماہ یہئں قیام کر تے  اورکبھی   واپس  کوٹ شاہ  عالم۔ہجرت اِنکے مقدر میں لکھی جا چکی تھی۔اس دوران،    اِنکے والد نے   دوسری شا دی،   مسماۃ اللہ جوائی  صاحبہ سے کر لی تھی اور 1926 ء   میں  حا فظ آباد  میں اپنا گھر بھی خرید لیا تھا۔اب وہاں بھی ولادتوں کا سلسلہ  شروع تھا۔ سو تیلہ پن،  نہ چا ہتے ہوئے بھی، جنگلی جڑی بوٹیوں کی طرح ہر جگہ نمودار ہو جا تا ہے۔جسکی  وجہ سے،      یہ تینوں بھا ئی  ماں کی ممتا اور شفقت پدری سے حصہ نہ لے سکے۔ ان محرومیوں اور نا ہمواریوں کےواضح  اثرات  ان  بچوں کے ظا ہر و با طن پر اپنے نقوش چھوڑ گئے۔

نور محمد  پہلے  کی طرح  بچے تو نہ ر ہے لیکن انکا دبلا پتلا اور کمزور جسم ، پیدائش سے لیکر انکی وفات تلک،ُ انکے بِن ماں کے بچہ ہونے پر دلا لت کر تا رہا۔بچپن اپنے تا یا  اور چچا زاد بہن بھا ہیوں  سے کھیل کود کر گزرا  تو نو جوانی میں اپنے بڑوں کا زراعت اور تجارت میں ہا تھ بٹا کر۔اکثر لوگ، اب  بزازی کا کام کرتے۔ا سی طرح کا ندھے اور سا ئیکل پر کپڑا لاد کر ، گاؤں گاؤں پھرتے  جوان ہو گئے۔

اُن دنوں، شادیاں جلدی اور اپنے خا ندان    میں ہو جاتی تھیں۔یہاں بھی ایسے ہی ہوا۔ انکی پیا ری چچی نے اپنی دوسری بڑی بیٹی ،  جو اُنہی  کی طرح دراز قامت لیکن گوری چٹی اور  چست بدن ،  پیاری ہا جرہ سے کر دی۔یہ شاید پہلی خوشی تھی ، آپکی زندگی  میں ! اور شاید اِسی موقع پر  انھیں اپنا  نام ِ نوؔر، بہت اچھا لگا ہو!

شادی کے بعد ، یہ لوگ  شاہکو ٹ آگئے جہاں انکے بڑے بھا ئی  میاں علی محمد اور ننھیال تھا۔ یہاں انکے ہاں دو بچے، عنایتؔ اللہ اور بشا رتؔ احمد پیدا ہوئے۔ لیکن بچپن میں ہی اللہ تعا لی کو پیا رے ہو  گئے۔اس دوران، ہا جرہ بی بی نے اپنے جیٹھ علی محمد کی بیوی عائشہ محمد کی وفات کے بعد ، انکے دو لڑکوں اسماعیؔل اور صادؔق کی خوب دیکھ بھال کی۔

ہجرت  نے ایک مرتبہ پھر انکو براستہ مو ضع کلسّیاں، سا نگلہ ہل  پہنچا دیا جہاں مختلف جگہوں سے ہو کر یہ  تینوں بھائی   (علی محمد، دوست محمداور نور محمد) ایک  متروک کا رخانے  کے ایک بڑے احاطے میں، تین چھوٹے لیکن اپنے الگ الگ مکا نوں  میں آباد ہو گئے۔یہاں اللہ تعالی نے اِنکو ناصرؔہ اور مبؔارکہ عطا  کیں تا ہم اسکی رضا کچھ اور ہی تھی، اس لیے انکو بھی جلد اپنے پاس واپس بلا لیا۔سا نگلہ میں  یہ سبزی اور بزازی کا  خوانچہ لگاتے رہے۔ماہ و سال سُست روی سے گزرتے رہے۔ اسی دوراں ۱۹۶۴ میں ناصر احمد (ثانی)کی پیدائش  ہوئی ، اللہ تعالی نے فضل کیا اور زندگی  اس گھر  میں ٹہرنے پر رضا مند ہو گئی۔لیکن حالات کے جبر نے  ( متحدہ خا ندان  کے مسا ئل اور حا فظ اآباد  میں ایک بہتر معا شی صور تحال  کی  دستیا بی نے) ایک مرتبہ پھر ہجرت پر مجبور کر دیا اور بقول شا عر، ۔۔۔۔۔۔پہنچی وہیں پہ خاک، جہاں کا خمیر تھا۔۔۔۔1965 ء  میں  آپ   حافظ آباد  آ گئے جہاں آپ کے والدین اور چھوٹے بہن بھائی آباد تھے۔ اپنے آبائی محلے میں (رابعہ مصلن) کا مکا ن کرایہ پر لے لیا۔ کچھ عرصہ بعد ایک اور مکا ن (انوری دائی کا)  میں منتقل ہونا پڑا۔

یہاں حال ہی میں، ان کے  چھو ٹے بھا ئیوں، محمد عبد اللہ و بشیر ا حمد نے  ، میونسپل کمیٹی کے زیر انتظام ایک   نئی  قا ئم ہونے والی ، ستارہ مارکیٹ میں، آسان اقساط  پر ،   3 /4   دوکانوں کے  ما لکا نہ حقوق حا صل کیے تھے ۔ایک دوکا ن میں  نور محمد اور انکے چچا زاد بھا ئی اور برادر نسبتی  رفیق احمد نے  جو تو ں کا کاروبار شروع کیا۔ اس اثنا میں انکے ہا ں ایک بیٹی نا صرؔہ کی پیدائش ہوئی۔ یوں پہلی دفعہ  گھر میں رونق اور زندگی میں ٹہراو آ گیا۔  چند سال بعد، عزیزم طاہر احمد کی پیدائش ہوئی اور یہ گھرانہ خوشیوں سے بھر گیا، الحمدللہ!

چھو ٹے بھا ئیوں کی قسمت عروج پر تھی۔ انھوں نے بر لب  (مرکزی) سڑک ،  1967 ء  ایک بڑا دو منزلہ  گھرالمعروف ’’پیلی کوٹھی‘‘  خریدلیا تھا، جس کی بالائی منزل  کے وسطی کمر ے میں  ایک بزرگ  چارپائی  پر دراز رہتے۔ ہر کو ئی، آ تے جا تے  انکو سلام اور آداب بجا لاتا، انکی خریت دریا فت کرتا۔ آئے  روز  ایک نئی  خوشخبر ی اس بزرگ کو پہنچتی رہتی ۔ پوتے پو تیاں کی پیدائش، نئی نئی  مزروعہ و غیر  مزروعہ جائیدادیں ۔۔نور محمد بھی  گا ہے بگا ہے، اپنے والد میاں فضل دین سے ملنے آتے رہتے۔

یہ 1971 ء کی بات ہے، ایک روز  بزرگ کی  دوسری بیوی  سے، بڑے بیٹے نے ایک نئی مزروعہ زمین کے کا غذات ، بغرض خوشنودی  اُنکے آگے، بغرضِ دعا  پیش کئے  تو بزرگ نے خو شی کا ا ظہا ر نہ کیا۔ بیٹے نے  وجہ پو چھی  تو بزر گ بو لے،  کہ میر ے نوؔر محمد کے پا س رہنے کو اپنا گھر نہیں اور  تم روز ایک نئی جائید ا د کے کا غذ مجھے دکھا نے آ جا تے ہو!

وہ فرما نبردار  بیٹا اُٹھا  اور سیدھا اپنے پٹواری  دوست  کے پاس پہنچا۔ ترکھانانوالی گلی میں ایک ڈھائی مرلہ کا مکا ن  اپنے بھا ئی کو دِکھا کر، کا غذ بنو ا کر  فقط دو تین  دنوں  میں ہی  اپنے والد کے حضور پیش کر دیے۔والد نے خو شی سے دونوں بیٹوں  کو اپنے سینے سے لگا یا، ڈھیر ساری دعائیں دیں۔ گھر بھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ا ِسی خوشی  اور سکون کی حا لت میں  اس بزرگ نے چند روز  بعد ، قضاے الہی کو لبیک  کہہ دیا۔ یہ دسمبر 1971 ء کی رات تھی۔ انا للہ وانا الیہ رجعون۔

زندگی کے چرخے نے ایک اور چکر مکمل  کر لیا تھا۔نو ؔر محمد جو خود، اپنے دو سگے بھائیوں سے چھوٹے تھے،  لیکن  حافظ آباد میں مو جود اپنے دوسرے  دو  بھایئوں سے بڑے  تھے، نے اپنے والد کی  جگہ سنبھال لی۔یہ بہت درست اور صحیح تخت نشینی تھی، لہذا صاد  ثا بت ہوئی۔  دونوں  چھوٹے بھائیوں نے اپنے والد کا  تاج اپنےبڑے بھائی کے  سر پر رکھا اور میاؔں کا لقب سے نوازے گئے۔یہ اپنے خا ندان کے وہ فقیر منش شاہ  ثا بت ہوے، جو  اپنی روٹی روزی  ٹو پیاں سی کر یا   قرآن مجید کی کتا بت  سے کسب کرتے تھے۔ یہ  با ت مغل شہنشاہ اورنگزیب  عا لمگیر سے متعلق مشہور ہے۔ تا ہم،   یہ با ت تا ر یخی حوالوں سے  زیا دہ  ثا بت ہے کہ اورنگز یب نے نہ ہی کوئی  نماز چھوڑی اور نہ  ہی کو ئی بھا ئی  زندہ چھوڑا!

لیکن ، میا ں نور محمد نے اپنے والد سے  نیکی ، تقوی،قرآن مجید سے محبت، شعائِر اسلام کی پا بندی، نظام جما عت سے وفاداری ،عزیزو اقا رب سے انس اور حسن سلوک، اغیار کی خیر خواہی ، شجا عت، برد باری،  حق گو ئی، عدل گستری اور عفو و در گزر سے معاملات طے کرنے کی وراثت پا ئی تھی۔

’’سلطنتِ فضلیہ‘‘ کی سر حدیں  دور و نزدیک تمام اطراف پھیلی ہو ئی تھیں۔ اورنگزیب کے بر عکس ، اِنکے دو بڑے حقیقی   بھا ئیوں نے بھی ،   اِنکی سیادت کو بخو شی قبول کیا۔زمینی حقا ئق بھی اِنکے  ہی حق میں تھے۔  یہ ’’دلّی ‘‘ (حافظ آباد) میں مو جود تھے، ’’ٹکسال ‘‘ (خزانہ) بھی  یہاں تھا۔ رعایا   (خاندان) کی کثر ت بھی یہاں تھی۔ سب سے بڑھ کر ، دو   اہم ولی عہد سلطنت بھی یہیں مقیم تھے۔  فقط دو  بھا ئی  ، ما ورالنہر (سا نگلہ ہل) میں  آباد تھے۔

والدِ محتر م کی وفات کے بعد ، دیوان ِخا ص ، شا ہی محل (پیلی کو ٹھی ) سے  تر کھانانواں والی گلی میں منتقل ہو گیا تھا۔ دونوں ولی عہد ، بلا نا غہ ،  دربارِ ایزدی میں سر جھکا نے کے بعد، یہا ں کو رنش بجا لانے کو آ تے ۔  راقم بھی ، جب  کبھی ،  اپنی کسی  دنیاوی غرض یا ولی عہد ثاؔنی  (بشیر احمد) سے ما لی امداد کی خا طر ،  صبح سویرے  حا ضر ہو ا تو دیکھا کہ میاں صا حب  ،  وسطی پلنگ پر آلتی پالتی  مارے  جلوہ افروز  ہیں ، مو سم  کے مطا بق  کاندھوں پر  ، گرم یا نرم رِدا  ٔنے ، ذمہ داریوں کے بوجھ کو چھپا یا ہوا ہے۔ راقم نے کبھی آپ کو ننگے سر بھی نہیں دیکھا۔ سر پر ہمیشہ قبا،  عما مہ، یا چترالی ٹو پی ہو تی۔ ولی عہد ،  آپکے دایں اور بایں  نشستیں   رکھتے۔ ما درِ ملت، ملکہ عا لیہ ،  روزانہ  اپنے سفید اور خوبصورت ہا تھوں سے  چائے  تیار  کرکے  پیش کر تیں۔ دینی و دنیا وی معمالا ت پر ہلکی پھلکی   با ت چیت  ہو تی۔  یہی تو حقیقی’’ سحر بین‘‘ تھا۔

حا ضری کے بعد ، دونوں ولی عہد ، اپنے اپنے محلات کو لو ٹتے ۔ تیا ر ہوتے، اور روزانہ کی مہما ت سر کرنے نکل پڑتے۔  میاں صا حب بھی کچھ دیر بعد، ’’دیوا ن عام‘‘ ، ستا رہ ما رکیٹ ، کیلیے روانہ ہو جا تے۔جہا ں آپ، شا ہی خا ندان کے دیگر افراد، چھو ٹے  شہزادوں،  جما عتی  دوست احباب ، عوام اور غر یب لوگوں کیسا تھ کچھ وقت گزارتے اور  سا تھ میں   ریا ضت بھی کرتے۔       شروع میں ، میاں رفیقؔ احمد اور بعد میں نا صر احمد ثانیؔ ، ہمہ وقت، آپکی خدمت میں حا ضر ر ہتے۔

آپ لو گوں کوپہننے کیلیے سستے داموں  جوتے  مہیا کرتے،  ا ُنکے  تن ڈھا پنے  کیلیے کپڑوں کی رعا یتی  نرخوں والی ،   دوکا نوں کی راہ دکھا تے۔ حتی کہ ان کپڑوں کی سستی   سلائی کیلیے ، ایک درزی  بھی ہمہ وقت در پر مو جود رہتا۔   اِس اثنا  ء میں  ایک وقت ایسا بھی آتا کہ لو گوں کی آمدو رفت میں کمی آ جا تی اور میا ں صا حب ’’مراقبے‘‘ میں  چلے  جا تے۔

راقم نے  مراقبوں اور چلّہ کشیوں کے با رے میں کئی کہانیاں  بچپن سے سُن رکھی ہیں۔ما ضی بعید  میں اکثر ریا ضتیں قبول ہو جا تی تھیں ، ما ضی قر یب میں ، جعلی پیروں کے چلوں کے  قصے زباں زد  عام   بلکہ بد نام رہے ہیں۔آپکی  ریاضت ، قر یبا  70  سال پر محیط  تھی۔ جسکا بظا ہر کوئی    نقد نتیجہ سا منے نظر نہیں آتا لیکن  ’’کراماً کا تبین ‘‘نے  اپنے کئی دفتر  بھر لیے تھے۔

آپکی وفات کے قریب20   برس بعد، کراما کا تبین نے ، ان دفتروں یا بہی کھاتوں سے کچھ معلو ما ت  پبلک کر دیں جس طرح، کئی تر قی یا فتہ مما لک میں معلومات، ’’پا نا مہ کیس‘‘ کی طر ح  سا منے آ جا تی ہیں۔راقم ، چو نکہ تا ر یخ کا طا لبعلم ہے اور کئی تر قی یا فتہ ممالک کی خا ک چھا ن چکا ہے، نے   بذات خود، یہ معلو ما ت دیکھیں ہیں۔ یہ معلو مات محدود، مختصر اور تجر یدی  زبا ن  میں میسر ہو تی ہیں تا کہ نقصِ  ا یمان و امن کا خطرہ نہ ہو۔

وہاں اشاروں کنا یوں میں صرف فیصلے درج ہوتے ہیں جن پر  بحث  یا تبد یلی کی کو ئی گنجا ئش نہیں ہو تی۔وہا ں لکھا تھا:

۱۔نور محمد ، ہما رے پیا روں میں سے تھا، اور ہے۔ اور وہ اپنے پیاروں کیسا تھ ہے۔

۲۔نور محمد اور اسکے دو بڑے بھا ئیوں  علی محمد اور دوست محمد کے ذریعے ، ہم اس خا ندان اور دیگر لو گوں کو یہ  سبق دینا چا ہتے تھے کہ ہم  ما ں کی ممتا اور با پ کی نگرانی کے بغیر بھی،  لو گوں کو نہ صرف ،  پا لتے پو ستے  ہیں بلکہ نیک ، با ثمر اور بزرگ بنا سکتے ہیں۔

۳۔ہم نے اُن بھا ئیوں کو مختلف  ما لی و جسما نی کمزوریوں اور عوارض میں مبتلا کر کے ، با قی   افراد کو  اِن تکلیفوں سے بچا  یا  تھا کیونکہ وہ اُس برداشت اور تحمل کے اہل نہ تھے جس سے ان تین بھائیوں کو نوازا گیا تھا۔

۴۔نور محمد  کو دوکان و مکان  اُسکے بھا ئیوں نے نہیں دیا تھا۔ ہم نے اُسکی تحر یک    میاں فضل دین کے دل میں ڈالی اور انتظام و انصرام  اسکے دیگر لڑکوں سے کروایا  تاکہ وہ پھلیں پھولیں۔

۵۔محمد عبد اللہ و بشیر احمد  بھی ہما رے  یو سف کیطرح اپنے والد اور بہن بھا ئیوں سے محبت رکھتے تھے، تا ہم اُنکی سوچ ایک خا ص حد سے  آگے نہ بڑھ سکی۔

۶۔ نو ر محمد اور   ہا جرہ نے کما ل صبر ، شکر،وقار اور ہنر مندی  سے آزما ئشوں کا مقابلہ کیا۔ اُنکے نصیب میں  محنت سے کسب ِحلال  اور بچوں کا محض  پیٹ پا لنا لکھا تھا۔  اِس میں سے بھی وہ چندوں کی ادائیگ کرکے،  ہما ری مزید   رضا کا مورد  بنے۔

۷۔ نور محمد کو ہم نے بذاتِ خود علم و حکمت سکھا ئی ۔ بظاہر وہ کو ئی دنیا وی تعلیم نہ رکھتا تھا۔لیکن لوگ اپنے اہم امور میں اُس سے مشورہ کرتے۔

۸۔ نور محمد ، قنا عت، سا دگی، بردبا ری، صلح جوئی اور مہمان نوازی کا نشان تھا۔ اُسکا دستر خوان محدود لیکن پا ک تھا۔ اسکی بیوی ہا جرہ اسکے لیے ایسے ہی تھی جیسے ہما رے ابرا ھیم کیلیے اُسکی ہا جرہ۔

ہم نے مرد کو، عو رت پر  ایک درجہ فو قیت بخشی ہے اور اُس میں مقا بل کو بر داشت  کر نے اور مقا بلہ کی طا قت  ودیعت کی ہے۔ ہم نے عورت کو  نسبتا کمزور اور ٹیڑھی  پسلی سے پیدا ئش دی ہے۔ اُسکے اندر نما ئش، تفاخر، اور  موازنہ کی حِس زیا دہ ہے۔ حتَّی کہ اپنے بہن بھا ئیوں تک سے مقا بلہ کر تی ہے۔

ہم نے ہا جرہ کو اسکی بہنوں کے مقا بل بہت کم ما یہ بنا یا۔ وہ اپنی بہنوں سے  لباس، خراش اور  ظروف و زیور میں اُسی قدر کم تھی جسقد ر ، نور محمد  اپنے چھو ٹے بھا ئیوں سے۔ لیکن  ہا جرؔہ بی بی نے کبھی نور محمد کو اس بات کا ذمہ دار نہ ٹہرا یا۔ کبھی بہنو ں سے نہ ما نگا۔ سب کچھ ہماری طرف ہی لوٹا دیا۔

کچھ اور بھی با تیں تھیں، جو  راقم سے نہ تو پڑہی گئیں اور نہ ہی سمجھ  آ سکیں۔ راقم نے اوراق ِ ادھر اُدھر    پلٹے اور  اسے یہ جا ن کر بہت خو شی ہویی کہ خا ندان کے کئی اور بزرگوں کے کا غذات بھی وہیں رکھ ہوئے تھے۔ راقم نے جلد ی جلدی    کچھ نو ٹس اُن لوگوں سے متعلق بھی لے لیے ، جنھیں بعد میں قلم بند کرنا تھا۔

دو نو جوان کم عمر  شہزادے، اپنے بڑوں کی عادت کے تا بع، اکثر اوقات، دیوان عام میں حا ضر ہوتے۔یہاں انکو بھی، بمطا بق مو سم کو ئی مشروب  یا دستیاب  چیز کھا نے کیلیے پو چھی اور پیش کی جا تی۔ مشہور افسا نہ و ڈرامہ نگار، پروفیسر اشفا ق احمد صا حب، جنکی نظر اور نثر۔۔۔ ما ضی ، حال اور مستقبل  کے کئی سو سال کا احا طہ کر تی تھی، نے ریٹائرمنٹ کے بعد، پی ٹی وی پر ایک پرو گرام’’ زاویہ‘‘  کے عنوان سے کیا تھا۔ یہ پروگرام جس میں وہ حکمت کی با تیں، سبق آموز واقعات اور قصے بیان کرتےاور   اکثر ایک ’با بے ‘ کا ذکر کر تے۔ وہ ’با با ‘ ہی اس پروگرام کا ہیرو تھا۔ وہ ہر مشکل کا حل مہیا کر دیتا تھا۔ وہ غیر احمدیوں بھا ئیوں  کے نزدیک  تو وہ  حضرت خضر ؑ  ہو سکتے ہیں، لیکن حقیقت میں ، ہر دور کا ایک اپنا  خضر ہوتا ہے اور ہما رے دور کا خضر ہما را  ’’بابا‘‘ ، میاں نور محمد تھے۔

ہم  چھٹی جما عت میں داخل ہوئے تو دیوان عام،  ہما رے اسکو ل کے راستے میں پڑتا تھا۔آتے  جا تے کو ر نش بجا لاتے۔ ہفتہ وار اور طویل دورانیہ کی تعطیلات  کے دوران باقاعدگی سے حا ضر ہوتے۔ با با جی کا طرز کلام، نرم رو، شیر یْں  نیز خاندانی ، دنیاوی اور  واقعاتی شہادتوں سے لبریز ہوتا۔ با توں با توں میں، ہما ری ذہنی حا ضری کا امتحان بھی  کر تے، یوں کہ ، با ت کر تے کر تے، خا موش  ہو جا تے اور سوالیہ نظروں سے  پو چھتے کہ  ایسا کیوں ہوا؟   آ گے کیا ہو ا ہو گا؟ یا کیا ہونا چا ہیے تھا؟  سبحان اللہ! انکی مجلس میں ،  کو ئی  ذی شعور تو اکتاتا    نہ تھا۔

نعیم احمد و محمود احمد سے آپ کو  ایک خاص لگا وٗ تھا۔ اُن سے حسن ظن رکھتے اورانہیں  خا ندان کا مستقبل  سمجھتے۔  صاف ظا ہر ہے کہ آپ ، اُن دونو ں  سے عمر میں بڑوں  شہزادوں سےشائد    وہ امید نہ  رکھتے ہوں۔ (واللہ اعلم با الصّواب) اُسکی ایک بڑی وجہ تو یہ ہو سکتی  ہے کہ بڑے شہزادے، اکثر دربا ر سے دُور  رہتے۔ یوں مَیل ملاقات کی کمی سے ، توقعات  بھی کم ہو جا تی  ہیں۔

قدیم رومن پا دشا ہت میں، صرف بڑا بیٹا ہی تخت کا  وارث ہوتا تھا اور با قی  قا ئل !  مسلما نو ں نے  البتہ ،  عدل گستری کر  تے ہو ے، چھو ٹے بیٹوں کو بھی ، دیگر ریا ستوں، علا قوں کی سیا دت یا گو رنری دیکر  جو نیکی کی، وہ  اکثر و بیش تر ،اقتدار کی ہوس بن کر،  آپس کی خانہ جنگی پر منتج ہو ئی۔ اسی وجہ سے کو ئی مسلمان حکمران خا ندان  جم کر زیا دہ عر صہ  حکو مت نہیں کر سکا۔

دوسرے، جہاں ولیعہدوں اور شہزادوں کی نہ صرف کثرت ہو بلکہ عمروں میں بھی تفاوت ہو،  وہاں اختیا ر کا ارتکا ز  بڑوں کے پا س زیادہ رہتا ہے۔ ہما را نمبر بہت بعد  میں  آتا تھا۔ دونوں ولیعہد  حیا ت تھے۔ بڑے  شہزادے  امور ِمملکت میں اُس  وقت  شا مل ہوے، جب چھو ٹے ولی عہد  کا 1984 ء  میں اچا نک انتقال ہو گیا۔  اُس خلا  کو پر کر نے کیلیے  شہزادوں کو  نئی ذمہ داریاں دی جا نے لگی۔ با با  سا یئں کی حا لت ، شا ہجہاں بادشاہ جیسی  ہو گئ، جنہیں  بادشاہ اورنگزیب عالمگیر  نے محل کے گو شے یا تہ خانے میں ۔ چھو ٹے شہزادوں کا اتا لیق  بننے کی درخواست حکماً  نا فذ کر  دی تھی۔ یہاں با با جی  کو بھی، آڑے ٹیڑھے  وقت میں،  قریبا22  سال بعد، دیوان عا م  سے  ، دُور کسی کو نے میں ،  انتقال کا حکم دے دیا گیا۔ راقم بھی اس  پر وانے پر دستخط کرنے والوں میں شامل تھا۔ تا ہم خدا اور اُسکے  بندے گواہ ہیں کہ  دُہائی دی گئی کہ یہ  ظلم ہے۔زیا دتی ہے۔ جواب ملا کہ یہ محض تبد یلی ہے۔دیوان عا م یوں ہی رہے گا لیکن اب( شہرکی )  نچلی اور نشیبی طرف۔اور ان دستخطو ں کے عوض کم سن شہزادوں کو انعام بھی ملا۔ ایک  لاکھ پچیس ہزار اشرفی!

تا ریخ اپنے  آپکو دُہرا رہی تھی۔گوتا ریخ کا  اپنے آپ کو دُہرانا  ہمیشہ  اچھا نہیں ہوتا۔  کئی با تیں مقدر ہو تی ہیں اور وہ ہو کے رہتی ہیں مثلا پیدائش، بچپن، جوانی، لڑکپن، بڑھاپا، پیرانہ سالی اور موت! تا ریخ کے اس پہیہ کو کوئی نہیں روک سکتا۔تا ہم، لڑائی جھگڑے، جنگ و جدل  اور فتح و شکست کو، مذاکرات، حکمت عملی  اور تدبر سے روکا اور بدلہ جا سکتا ہے۔یہی دانشمندوں کا کا م ہے۔اسی لیے فلسفہ تا ریخ میں ، یہ بحث بڑے کا م کی ہےکہ بادشاہتوں اور سلطنتوں کی پیدایش اور عروج و ذوال میں، کا ر فرما اسباب اور وجوہا ت کو اگر دانشمند  افراد ، خاندان یا قبائل و اقوام  سنبھال لیں تو اِقبال اور دوام اُنکا مقدر بن جا تے ہیں وگر نہ زوال اور مذّلت  اُنکا مقدر ٹہرتی ہے۔

فقط 160 برس قبل،  بہا در شاہ ظفر، شہنشاہ ہند کی خاندانی سستیوں، غلط حکمت عملیوں، فوجی اور دفا عی کمزوریوں  کی وجہ سے 1857 ء میں انگریزوں سے شکست کھا کر ، دہلی کے تخت سے اٹھا کر رنگون (برما) منتقل کر دیے گئے۔جہاں  سے، وہ تین سال کے عرصے میں ہی، اگلے جہاں منتقل ہو گئے۔ یہاں بھی کچھ ایسے ہی ہوا۔ ’’دیوان عا م‘‘ نشیب میں  سجا لیکن رونق نہ ہو ئی۔نہ وہ  مصا حب  تھے اور نہ ہی وہ شہزادے! کارو با ر سلطنت بدل گیا تھا۔ شہزادے بیرون شہر و ملک چلے گئےتھے ۔

یوں تو  شا ہوں کی زندگیوں میں سفر کو ئی معنی نہیں رکھتا۔ ہمارے شاؔہ نے بھی سا ری زندگی سفر اور ہجرت میں  بسر کی، تا ہم،  آخری ہجرت، آخری ہی ثا بت ہوئی۔ جسم کیسا تھ سا تھ روح پر بھی  اسکا اثر پڑا اور پھر تا ریخ کا اصلی اور نہ رکنے والا پہیہ اپنا چکر مکمل کر گیا۔  سلطنت تما م ہو ئی۔ اب فقط مسکو کا ت (سِکوّں) سے بادشاہوں کا پتہ ملتا ہے۔

ایک شہزادہ اعلی تعلیم حا صل کر نے کے بعد ، سر کا ر کا ملازم ہو گیا تھا۔  اس نے ابھی 2  ما ہ قبل ہی اپنی مر ضی سے  شادی رچا لی تھی۔ اُسکا تو یہ  عا لم  تھا کہ  ہر روز ، روز ِعید اورہر  شب، شبِ برات! وہ اپنے بزرگ استاد و اتا لیق کو بھو لا  تو نہ تھا لیکن وہ اُسکا ہوا بھی نہ تھا۔  اپنی   رنگین مصروفیات سے وقت نکا ل کر ، وہ  دو  مر تبہ اُنکی عیا دت کو بھی گیا۔ اسکی دلہن بھی ہمراہ تھی۔  آپ نے شاہو ں کی طرح، اپنی در گا ہ پر ، اُسکا والہا نہ استقبال کیا۔حسنِ سلوک کیا۔ مادر ملکہ  نے  جوڑے کی  بلائیں لیں، دعا ئیں دیں۔شہزادے کا دِل مسرور تھا لیکن اُسکا دما غ  اور  آنکھیں ، اُسکے دل  کا  سا تھ نہ دے رہی تھیں۔وہ دیکھ  رہا تھا کہ    نہ چا ہتے ہو ئے  بھی ہر چیز، بزرگ شاہ  اتالیق  کے دل پر پڑے  بو جھ کو اور  بڑھائے  جا تی تھیں۔اور  فقط چند   روز  بعد، علی الصبح یہ خبر آن پہنچی کہ حضرت ِعزرائیل اُنکے ہاں سے ، با مراد واپس لوٹ گیے ہیں۔

انا للہ وانا الیہ را جعون۔

یہ درست ہے کہ  کچھ  شہزادے  کم عمر، کم عقل اور کمزور تھے۔ تا ہم، کچھ شہزادے بڑے، سمجھدار ، با عث روزگار  اور صا حب جا یئداد بھی تھے۔ لیکن بقول شاعر، حق تو  یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا!

آپکی درگاہ کے رنگ، کبھی بھی شوخ نہ  ہوئے!  ازل سے  پھیکے  ہی رہے۔صرف ایک روشنی ہوا کرتی تھی، ایک نور تھا۔وہ بھی رخصت ہوگیا۔ 14  فروری       1997  ءکو صبح ۹ بجے، سورج پوری طرح اپنی سنہری کر نوں کیساتھ چمک رہا تھا ۔گو خنکی مو جود تھی لیکن آنگن میں روشنی نہ تھی۔

گزشتہ دنوں، جنا ب چیف  جسٹس آف پا کستان ، میا ں ثاقب نثار صاحب نے،  16 جنوری  2019 ء کو  لا ہور میں ، ایک  بڑی دبنگ  اور مشہور تقر یر میں ’’با بے رحمتے‘‘  کا ذکر کیا جسکا میڈیا میں بہت چرچا رہا۔ مجھے  اس  با ت کی پہلی سما عت میں  ہی ، اپنے  بزرگ  تایا نو ر محمد مر حوم   کی یا د آئی۔ مضمون لکھا جا چکا تھا۔ پھر بھی میں اس  خوبصورت  حوالے کو شامل کرنے سے اپنے آپ کو روک نہ سکا۔ یہ ہما را  ’بابا رحمتا‘  تھا۔ غر یب، مسکین، سفید پوش  مگر با کردار، رحمدل اور انصاف پسند! سارے خاندان کے مقدمات،  اِس ما ل و زر میں کمزور،مگر اخلاقی لحا ظ سے    مضبوط ،  عادل کے سا منے  پیش ہو تے۔ کئی معاملات میں ، آپ ہمارے ’وکیل‘ بھی ہوئےاور ہماری  غلطیوں کی وجہ سے’ ذلیل ‘بھی۔  لیکن کبھی جتلایا  تک نہیں، کبھی ’فیس‘  بھی لی!  قر بانی، مصلحت ، صبر اور خاموشی کا  کوہ وقار، میرا با با نور محمد ، میرا بابا رحمتا! ۔ فجزا  ھم اللہ خیرا ً ویغفر اللہ لہ

آپ صحیح معنوں میں غریب اور مسکین تھے۔ یہ دونوں الفاظ عربی زبان کے ہیں۔ ان کے حقیقی معنے بالاترتیب، مہاجر (غریب الوطن )اور   ( کام   کا ج نہ ہو نیکی وجہ سے ) پر سُکون کے ہیں۔ سا دگی کی تصویر، صبر اور شکر کا پیکر، نرم رو، نرم گفتار،  حلیم  و حکیم،   شستہ مزاج اور زندہ دل!  مولانا  ظفر علی خان نے کیا خوب نعت کہی ہے کہ:

دل جس سے زندہ ہے وہ تمنا تمہیں تو ہو

ہم جس میں بس رہے ہیں وہ دنیا تمہیں تو ہو

بلا شبہ ،آپ کے دل میں  بھی، اپنے خا لق حقیقی کی اور اسکے پیا رے محبوب صلی للہ علیہ وسلم  اور آپ کے تما م پیا روں کی محبت  مو جزن تھی۔ اللہ تعا لی  ٰ آپ  اور آپکی اہلیہ پر اپنی رحمت اور مغفرت کی  چھا یہ کر ے اور آپکے درجا ت بلندسے بلند تر فرما تا چلا جا ے، آمین۔

بوڑھ  (برگد) کا درخت، اپنے  وجود، حجم، پھیلاوٗ اور چھایا کی بنا پر،  تمام درختوں کا بزرگ  ما نا  جا تا ہے۔ زمین پر اسکا نشان بہت  بڑا اور نما یا ں ہو تا ہے اور  ہم سب  موضع ڈھینگرانوالی میں ، اپنے بو ڑھ کے درخت سے آشنا ہیں۔ لیکن اِسکا ایک المیہ بھی  ہوتاہے۔کہ  یہ جسقدر ’’پگ‘‘ اور  چھاتا ، یہ بزرگ درخت   اپنے  سر پر رکھتا ہے اُسی قدر ویرانہ اور بنجر پن اِسکے نیچے ہوتا ہے ۔اِسکی جڑوں کا پھیلا و بھی اتنا ہی ہوتا ہے  جتنا اسکا  چھا تا ، جسکی وجہ سے نیچے کچھ نہیں اُگ سکتا۔ اللہ نہ کرے ایسا کبھی  ہما رے سا تھ ہو، آمین۔

اے خدا بر تر بت او بارش رحمت ببار

داخلش کن از کمال  فضل در بیت النعیم

مزار میاں نور محمد صاحب مرحوم