میرا ددھیال

ذیل میں، میاں فضل دین صاحب مرحوم کی   اولادِ نرینہ  کے مختصر حالاتِ زندگی  بیان کئے جا رہے ہیں۔ انہی میں محترم  میاں فضل دین صاحب مرحوم ،    کا   ذکر ِ خیر بھی شامل رہے گا۔

میرے آنگن سے قضاء لے گئ چُن چُن کے جو پھول

جو خدا کوہوےپیارے،میرےپیارےہیں وُہی

امتِ مسلمہ، بمشکل  ابھی حضرت عمرؓ کی شہادت کا غم   بھولی تھی کہ حضرت عثمانؓ کی  جانکاہ شہادت نے ایک با ر پھر اسکی روح تک کو ہلاکررکھ دیا۔ اِسی طرح،  حضرت علیؓ کی شہادت بھی محض ایک  حادثہ  نہ تھی بلکہ صدمات اور واقعات کی ایک دردناک لڑی تھی۔جسکا  انجام واقعہٗ  کربلا کی  المناک صورت میں سامنے آیا۔

شہادتِ عثمانؓ کے معاً  بعد،  بد قسمتی سے ،امت دو حصوں میں بٹ گئی ۔ ایک گروہ  نے حضرت  علی ؓ کی بیعت کر لی اور شہادت عثمان ؓ  کے واقعہ کی تفتیش  شروع کر دی، جبکہ دوسروں نے اُم المومنین حضرت عا ئشہ ؓ اوروالئِ شام،  امیر معاویہ ؓ کی معیت میں،  قِصاصِ عثمانؓ کا عَلم بلند کر دیا۔  بد اعتمادی، بے صبری اور بدانتظامی نے اِن  گروہوں کے درمیان،   دو خوفناک جنگوں، جنگِ جمل سن 36 ہجری بمطابق 656 ء   اور جنگِ صفین(بصرہ اور کوفہ کے درمیان) 37 ہجری بمطابق657ء کو برپا کر دیا ، جن میں ، باالترتیب 10 ہزار اور70 ہزار مسلمان جاں بحق ہو گئے۔ ان میں صحابہؓ اور تابعین ؒکی بڑی تعداد شامل تھی۔ اناللہ وانا  الیہ راجعون۔

خلا صہ کلام یہ کہ، باوجود 80 ہزار شہادتوں  کے ، مسلم و غیر مسلم لوگ ، جنگِ جؔمل اورجنگِ صفیؔن کی بجاے، عمومی طور پر ،    واقعہ  کر بلا ء ، جسمیں  فقط 70 شہادتیں ہویں، کے بارہ میں جا نتے ہیں۔ بلا شبہ، نواسہءرسول ﷺ  اور  د یگر اہلِ بیت کی شہادت بہت ہی تکلیف دہ سانحہ تھی۔ لیکن وقت کیساتھ ساتھ انکے مقبرے تعمیر ہوتے رہے اورانکی سجاوٹ میں مزید اضافہ ہوتا  رہا۔ زایرین  کیلیے کئی منزلہ اور عالیشان  عمارتوں کے علاوہ ، تیل کی دولت  سے ما لا مال ، ایران وعراق دونوں نے ، کربلاء کو ایک جدید شہر بنا دیا اور  ایک لحاظ سے ،  ظلم وبربریت ،  غربت ومہاجرت اور دکھ و الم سے بھری صحرائی   بستیوں، بصرہ وکربلا ء سے ساری اُداسیوں کو نکا ل با ہر کیا۔لیکن آج بھی، اِن شہروں کی  فضاء  ، اُس غم کی یاد سے  دِلوں کو غمگین کر جاتی ہے۔

مذکورہ بالا ، تاریخی  تمہید کا مقصد یہ تھا کہ  سانگلہ ہل ،  ہمارا وطنِ ثانی تھا۔ ہم ہمیشہ، خوشی خوشی یہاں آتے اور کئی کئی روز یہاں رہتے۔شہر آباد تھا۔ رونق تھی۔روشنیاں تھیں، محبتیں تھیں۔لیکن  ایک قسم کی اُداسی تھی جو   بادلوں کی طرح ، چھائی رہتی اور کچھ چھپائے ہوئے   رکھتی تھی۔

سنِ شعورمیں جب قدم رکھا ،  تو  محسوس کیا  کہ اک   شہر  جو آباد تو  ہے   لیکن  جیسے کہ  کر بلاء!  مصا  ئب سے گھرے مہا جرین ،نسل در نسل  بِن ماؤں کے بچوں کا شہر،  ان گنت ،   بچھڑے،  جیون سا تھیوں کےبغیر   جئے، اکیلے  سا تھیوں کا شہر! اسکی فضاء شروع سے ہی اداس تھی لیکن  ہم اسکی  تاریخ سے نا بلد تھے ۔ ہر جأ  ُ’’اِکلاپّے ‘‘کے دُکھ اوربُجھی ہوئی آہوں نے، زمین کو     شورہ  زدہ  اورپانی کو کھارا (نمکین)  کر دیا تھا ۔ غیر آباد کارخانے میں جا بجا  کچے گھروندے، جیسے  کہ’ قبرگوستان‘! کارخانے کی    ُبلندومضبوط  لیکن  ’با نجھ‘   ِچمنی،  سراۓ (ریلوے سٹیشن)  کے مشرق و مغرب میں  دور تلک پھیلے  ویرانے، شام کو ، ہر جگہ سے  غروب ِ آفتاب کا  منظر!     کم سنی میں سب کا  حَسین اور جوانی میں سب کا  اُداس   شہر ، سا نگلہ ہل!

غم کی اِس داستان کا آغاز، مجوراں والی میں 1920ء کے آخری مہینوں میں ہواتھا۔ جب، فاطمہ بنت ِمیاں راجدین،  اپنے تین کم سن بچوں، علی محمد، دوست محمد اور نور محمد کو  اپنے شوہر میاں فضل دین کے ہا تھوں  بلکتا چھوڑ کر اپنے مولا کے حضور حا ضر ہو گئی تھی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔  یہ تینوں بچے کبھی اپنے داد دادی  (میاں کھیوا  اور امام بی بی )  کے پاس  کوٹ شاہ عالم اور کبھی اپنے نانا   میاں راجدین کے پا س شا ہکوٹ میں پلتےاور بڑہتے  رہے۔  سن ِبلوغت اور اپنی شادیوں کےبعد،  تینوں 1956/57 ء میں سانگلہ ہل میں منتقل ہوگئے۔ آگے کی داستانِ رنج و الم ملاحضہ ہو: