پانچویں خان صاحب ۔ ۔ ۔!

سردارمحمد داوٗد خان، 1953ء میں، برادر ملک، افغانستان کے وزیرِاعظم بنے۔ یہ کرم نوازی، آپکے کزن اور اُس وقت کے افغان بادشاہ، ظاہر شاہ نے آپ پر کی تھی۔ بدلے میں، 1963ء میں آپ نے، شاہ اور بادشاہت دونوں کو ہی ختم کرکے، افغانستان کو ایک ’’اسلامک ری پبلک اسٹیٹ‘‘ اور خود کواُس کا پہلا صدر بنا لیا۔ آپ وطنِ عزیز، پاکستان سے، ہر طرح سے، بے حدّ ’’مُتاثر‘‘ تھے۔ مثلاً صدر بن کر مطلق العنان حکمرانی کا ماڈل آپ نے صدرِپاکستان، محمد ایوب خان صاحب سے سیکھا۔ اور دوسری طرف، سوویت پالیسی کے ماتحت، پاکستان کے (اُس وقت کے) صوبہ سرحد کو افغانستان کا حصہ سمجھتے ہوئے، پاکستان سے مخاصمت، آپکی خارجہ پالیسی کا محور تھی۔

1979ء میں افغانستان پر کئے گئے، سویت یونین کے حملے کی ساز باز میں بھی آپکا نام لیا جاتا ہے کہ آپ نے، پاکستان پر حملہ کرنے کیلئے، سوویت یونین سے مدد کی درخواست کی تھی۔ واللہ اعلم بالصواب! لیکن کیا کریں، ’’جیسا بووٗ گے ویسا ہی کاٹو گے‘‘ کے مصداق اور ’’جیسے آئے، اور ویسے گئے‘‘ کے مِثل، 1978ء میں، آپکی زندگی اور اقتدار، دونوں کا خاتمہ بھی، ایک ساتھ ہو گیا۔

ہماری کہانی میں اِن کا ذکر، مذکورہ بالا وجہ سے نہیں آیا۔ بلکہ اِن کے ’’جانے‘‘کیوجہ سے آیا ہے۔ کیونکہ، ’’مبیّنہ‘‘ طورپر، اِنکا تختہ اُلٹنے والوں کا ’’دھڑن تختہ‘‘ کرنے اوراپنے قومی مقاصد کے حصول کیلئے، سوویت یونین نے، چند ماہ بعد ہی افغانستان پر حملہ کردیا۔

لاکھوں افغان مرد و زن اپنے بچوں اوربَچی کُھچی جمع پونجی کیساتھ، ہمسائے ممالک (پاکستان، ایران اور تاجکستان وغیرہ)  میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ ایک روز میں نے دیکھا کہ ہماری ’’پیلی کوٹھی‘‘ کے باہر، ایک نئی، بڑی اور خوبصورت سی، مِنی بس کھڑی ہے۔ ’’سوزو کوسٹر‘‘ میں سوارپچیس تیس افراد پر مشتمل ایک خاندان، ہمارے سامنے والی گلی میں واقع، ایک احمدی کے خالی اور کرائے کے لئے دستیاب، گھرمیں اُترا۔ گھر کا رقبہ ۵ مرلے سے کچھ کم ہی ہو گا۔ لیکن وہ تمام لوگ سالہا سال، اُسی چھوٹے سے گھر میں مقیم رہے۔ مرد حضرات، بارِیش، بھاری بھر کم شلوار قمیضوں، سروں پر، بڑی بڑی پگڑیاں اور ہاتھوں میں تسبیح پھیرتے، پانچ وقت کی نمازیں، مسجد عثمانیہ میں باجماعت ادا کرتے اور ہر خاص و عام سے سلام ومصافحہ کرتے رہتے تھے۔ اِن کے چہرے مُہرے، لباس خراش اورکستوری و عطرکے استعمال نے، اِنہیں سب کی نظرمیں ’’برگزیدہ‘‘ بنا دیا تھا۔

ایشیائی اقوام میں، صرف پٹھان اور سکھ لوگ ہی، مانگنے اور ہاتھ پھیلانے کو حقیقی طور پر ایک ’’ لعنتی‘‘ کام سمجھتے ہیں۔ باقی سارے تواِسے اپنا اور اللہ کا ’’حق‘‘ گردانتے ہیں۔ ایسی خوبصورت بس تو پورے پاکستان میں نہ تھی۔ لیکن، اگلے روز ہی، اُنہوں نےاُسے ایک لوکل رُوٹ پر ڈال دیا۔ حافظ آباد سے ونیکے تارڑ تک! کچھ مَردوں نے، مکئی کے بُھٹّے لگا لئے، کسی نے کَسّی اورکُدھال اپنے کاندھے پر ڈال لی۔

اُنکی عورتوں کو دیکھنے کی ’’توفیق‘‘ ہمارے سمیت کسی کو حاصل نہ ہوسکی۔ جو مَرد خود اِتنے با حیاء اور پردہ دار تھے، اُنکی مستورات تو سَتر کا کمال نمونہ ہونا ہی تھیں۔

اُدھر، سوویت یونین کے سامنے، افغانستان کی اوقات، ریت کی ایک دیوار کی سی تھی۔ سو وہ گِر رہی۔ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان، ’’سرد جنگ‘‘ تو دوسری جنگِ عظیم  سے ہی جاری تھی۔ لہذا، امریکہ صاحب بہادر، جسے روسی ’’سفید ہاتھی‘‘ کہتے ہیں،  ’’حُبِ افغان‘‘ کی بجائے ’’بُغضِ سوویت‘‘ میں، اِس ریت کی دیوار کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔ امریکہ بہادر نے، ’’جہاد فی سبیل للہ‘‘ کے نام پر، دنیا بھر سے مجاہدین بھرتی کئے، اُنہیں اسلحہ ومالی مدد فراہم کی اوراپنے دیرینہ حریف، سویت یونین، جسے وہ ’’سفید ریچھ‘‘ کہتے تھے، کومار مار کر زخمی کردیا۔ دس سالہ طویل جنگ میں فوجی، مالی اورسیاسی نقصان اور شکست کے نتیجہ میں،  باالآخر سویت یونین کے ٹکرے ٹکرے ہوئے گئے۔

ظاہر ہے، افغانستان، ’’ہاتھی اورریچھ‘‘ کی اِس بڑی لڑائی میں، تباہ و برباد ہوگیا تھا۔ اصل میں، اِس زمین کی قسمت میں امن، ایک معافی، قصاص اور دیت سے مشروط ہے اور رہے گا۔ بد قسمتی سے، اب خود افغانوں کو بھی، اِس بات کا کوئی علم نہیں رہا۔ لیکن لوحِ محفوظ اور کچھ لوگوں کے دلوں میں ’’شَاتانِ تُذبَحان‘‘ کی یاد ابھی بھی تازہ ہے!

ابھی افغانی لوگ، سوویت یونین کے نکلنے اور اُسکے ٹوٹ جانے پر جشن منانے اور آپس میں اقتدار کی بندر بانٹ کرنے میں مصرف تھے کہ روسیوں کے خلاف، اِن کے نام نہاد محافظ، امریکہ نے، 2001ء میں افغانستان پرہی حملہ کردیا۔ 19 سال بعد، امریکی افواج، آجکل یہاں سے نکلنے کی تیاری کر رہی ہیں۔ لیکن امن کی فاختہ، ’’ہنوز دلّی دُوراست‘‘ کے مصداق کہیں اور ہی محوِّ پرواز ہے!

افغانستان، موجودہ دور کا وہ واحد غریب و بدقسمت ملک ہے، جو دوسُپر پاورز کے گولہ بارود کا تختہٗ مشق بنا۔ 14 جولائی، 1903 ء سے لیکرآج تلک، افغانستان میں امن وترقی کا فقدان ہے۔ اللہ تعالیٰ اِنکے حال پر رحم فرمائے، آمین۔

راقم کی عُمراُس وقت قریباً دس سال تھی۔ جب دوسرے سردار محمد دوٗاد خان سے ہماری ملاقات ہوئی۔ یہ ایک بارُعب، باوقار، خاموش طبع اور چاک وچوبند قسم کے، پست قد شخصیت تھے۔ ہمارے محلے داراورحافظ آباد شہرکے واحد احمدی ایڈووکیٹ، میرزا حبیب احمد صاحب مرحوم کے مددگاراورمحافظ تھے۔

میرزا صاحب بھی اپنی وضع قطع میں یکتا تھے۔ مُغل برلاس قوم کا تمغہ اپنی ’’ناک‘‘ پر سجائے رکھتے، انگریزی لباس پہنتے اورسرپر ہیٹ رکھتے تھے۔ عوام الناس، حتّٰی کہ افرادِ جماعت تک سے میل ملاپ نہ تھا۔ اِسی کبر اور بڑائی کی تعلیم، انہوں نے اپنی اولاد کو بھی دی تھی۔ نتیجتہ وہ سارے بھی ’’اِکلاپّے‘‘ کا شکارہوگئے۔

 ’’ انسان ایک سماجی جانور ہے‘‘ کا مشہور سبق،  فاضل دانشورجناب ماسٹر ارسطو صاحب نے، حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش سے بھی تین سو سال قبل دُنیا کو دیا تھا۔ یہ کہ ہر انسان، بڑا ہو کہ چھوٹا، امیر ہو کہ غریب، اپنی ذہنی، تربیتی، جسمانی، معاشرتی اورسیاسی ضروریات کیلئے، دوسروں کا محتاج ہے۔ نیز یہ بھی کہ، برائے مہربانی، ایک دوسرے کی تکریم اورکام کاج کو احترام دینے کی کوششں کریں۔ بد قسمتی سے، برصغیر پاک وہند میں باالعموم اور مسلمانوں میں باالخصوص،  تئیس سو سال گزرنے کے بعد بھی، یہ اطلاع، تا حال نہیں پہنچ سکی!

داوٗد خان، ’’محمود منزل‘‘ کے سامنے، ایک کنال رقبہ کی حویلی کے وسط میں واقع دو عدد بڑے خستہ حال، گودام نُما کمروں میں سے، ایک میں رہائش پزیرتھے۔ جہاں اجناس وآلاتِ کھیتی باڑی کے علاوہ، میرزا صاحب کے گھر کا فالتو سامان بھی پڑا رہتا تھا۔ حویلی کی جنوبی دیوار کیساتھ ایک برآمدہ بھی تھا، جس میں، میرزا صاحب کا گھوڑا، کُتا اور خان صاحب کے تیتر، بٹیر اور بلّی کی بھی رہائش تھی۔

جوانی میں میرزا صاحب گھوڑے پر کچہری جاتے اور داوٗد خان اُس کی لگام تھامے آگے آگے چلتے۔ بعدازاں میرزا صاحب نے اپنا ذاتی یَکّہ/تانگہ بنوا لیا۔ وہ بھی داوٗد خان ہی چلاتے تھے۔ دھیرے دھیرے، یہ سب چونچلے جاتے رہے۔ اور میرزا صاحب، کرائے کے تانگے پر کچہری، آنے جانے لگے۔

گھوڑا تو گاوٗں بجھوا دیا گیا جبکہ تانگہ اور پُرانا ناکارہ ٹریکٹر، حفاظت اوررُعب داری (اسٹیس سمبل) کی خاطریہیں پڑا رہا۔ برآمدے کے پاس ہی ایک پختہ فرش نلکے اور پانی کی نکاسی کیلئے تعمیر کیا گیا تھا۔ یہی، خان صاحب کا غسل خانہ بھی تھا۔ جہاں وہ جمعے کے جمعے، تہبند باندھ کرغسل کیا کرتے تھے۔ جبکہ شمال مشرقی کونے میں، بغیر چھت کے، ایک بیت الخلاء بھی موجود تھی۔

اگست 1984ء میں، ایک روزسہ پہر، ہم لوگ ابھی گھر میں سَستا رہے تھے کہ میرزا صاحب کی چھوٹی صاحبزادی، بڑی پریشانی میں دوڑتے ہوئے ہمارے گھر آئی اور بتایا کہ ’’پاپا‘‘ کو کچھ ہو گیا ہے! جلدی چلیں اور دیکھیں۔ والد صاحب نے اپنا بیگ اٹھایا اور جلدی سے اُسکے ساتھ ہو لئے۔ میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے چلا آیا۔ گرمی وحبس کے باوجود، وہ بیٹھک ٹھنڈی تھی جہاں میرزا صاحب اپنے پلنگ پر بے سُدھ لیٹے ہو ئے تھے۔ والد صاحب نے نبض و بلڈ پریشر چیک کیا۔ ایک عدد انجیکشن بھی لگایا لیکن بے سود! انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر، والد صاحب نے میرزا صاحب کی آنکھیں اپنے ہاتھ سے کیا بند کیں، ایک باب ہی بند ہو گیا۔

آپ نے یہ محاورہ تو سنا ہی ہوا ہوگا کہ ’’ایک در بند، سو در کھلا‘‘! میرزا صاحب کی زندگی کا باب بند ہوتے ہی، اُنکے گھراور حویلی کا دروازہ کھل گیا۔ اُنکے ’’گھربدر‘‘ لڑکوں کو گھرمیں آنے اور لڑکیوں کو گھر سے جانے کی اجازت مل گئی۔ ہمسائے ہو نے کے ناطے، ہمیں بھی گھر اور حویلی میں داخلے کی رسائی حاصل ہو گئی تھی۔

ہم حویلی میں اپنے دوستوں کیساتھ، کرکٹ اور بیڈمنٹن کھیلنے اور تانگے و ٹریکٹر پر جھولا جھولنے لگے۔ خان صاحب کی دھاگے، تِنکوں اور لکڑی سے بنی چیزوں کو دیکھتے اور سراہتے۔ اپنے گھر سے اُن کیلئے، کچھ کھانے پینے کی اشیاء بھی لا کر اُن کو دیتے۔ جس سے ہمارے اوراُن درمیان، تعلقات اچھے چل رہے تھے۔

دوٗاد خان، سرحدی علاقے کا ایک خالص پٹھان آدمی تھا۔ جب وہ میرزا صاحب کے پاس آیا تو ایک نوجوان لڑکا تھا۔ اب وہ ایک عمر رسیدہ شخص تھا۔ اُسکا اپنے خاندان سے رابطہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ چُھٹّی ہی جو نہ ملتی تھی! بیوی کے بارے میں تو یاد نہیں البتہ، اُسکی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی۔ دو بیٹیاں تھیں۔ اپنے مالک، میرزا صاحب کی طرح عیال دار ہونے کے باوجود وہ بیچارہ بھی اکیلا ہی رہا ۔ رفتہ رفتہ خان صاحب بھی بیمار اور کمزور پڑنےلگے اور بالآخر، یہیں، اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو گئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

میرزا حبیب احمد مرحوم کے چار بیٹے اورچار ہی بیٹیاں تھیں۔ میرزا محمود کا نمبر تیسرا تھا۔ زمینوں کی دیکھ بھال کرنے اور زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکنے کی وجہ سے، سب لوگ مرحوم میرزا صاحب سمیت، اِنہیں ’’محمود خان‘‘ پُکارتے تھے۔ یہ تیسرے خان صاحب ہیں، جن سے راقم کا سابقہ پڑا۔

بڑے میرزا صاحب کی وفات کے بعد، گھر بار کی ساری ذمہ داری انہیں کے کاندھوں پر آن پڑی تھی۔ یہ شام کو حویلی میں بیٹھنے لگے تھے۔ گاوٗں اور محلے کے دوست احباب بھی یہاں جمع ہو نے لگے اور حویلی صحیح معنوں میں آباد ہو گئی۔

میرے ایک دوست، ہمسائے، ہم عمر اور ہم جماعت ملک شوکت کے پاس نجانے کیا ’’گیڈرسنگھی‘‘ تھی کہ میرزا صاحب مرحوم  کے چاروں بیٹے، اُس سے رابطے میں رہتے تھے۔ ایک کے بعد، دوسرا، اُس سے ملتا تھا۔ یہ راز بعد میں افشاء ہوا کہ میرزا صاحب کی سخت اور مردم بیزار طبیعت کے سارے جراثیم، اُنکی اولاد میں بالاہتمام منتقل ہو گئے تھے۔ جس طرح، اپنے ہر کام کیلئے، وہ داوٗد خان کے محتاج تھے، اِسی طرح، سب بہن بھائیوں  نے، نوعمرملک شوکت کوآپس میں پیغام رسانی کیلئے استعمال کرنا شروع کیا۔ جواباً بقیہ لوگوں کو بھی ایک دوسرے سے رابطے کیلئے، ملک شوکت کا سہارا لینا پڑا۔ اوریوں وہ ایک بااعتماد رابطہ کار اور ’’سہولت کار‘‘ بن گیا۔

میرزا صاحب کی اولاد کا جماعت احمدیہ حافظ آباد سے تعلق و واسطہ، اپنے والد کی نسبت کچھ زیادہ تھا۔ اُسکی کئی وجوہات تھیں لیکن سب سے بڑی وجہ، لڑکوں کی ’’جلا وطنی‘‘ یا گھر بدری کے دوران، احمدیہ مسجد میں قیام کی سہولت جو موجود تھی۔ جسکا سب سے زیادہ فائدہ، میرزا خلیل احمد یعقؔوب صاحب نے اُٹھایا اور ہمارے قائد مجلس بھی رہے۔

میرزا حبیب خان صاحب کی وفات کے چند ماہ بعد ہی، ہمارے والدِ گرامی کی بھی وفات ہو گئی۔ جماعتی تعلق اور ہمسا ئیگی کی وجہ سے، انہوں نے ہمارا خیال رکھنا اپنا فرض جانا۔ راقم بھی ملک شوکت کے ہمراہ، ہفتہ میں ایک ادھ مرتبہ، محمود خان صاحب سے ملتا تھا۔ روائیتی تعلیم نہ ہونیکے باوجود، محمود خان صاحب، بڑے جہاندیدہ، بردبار اور وضعدارقسم کے انسان تھے۔ اِن سب کے اندر، فقط ایک کمزوری تھی، خاندانی و نسلی تفاخر! خُودداری کی علمبرداری!

وہی، اَرسطوبابا کی سوچ کے برخلاف، کسی دوسرے سے مدد نہ لینے اور بغیر درخواست، کسی دوسرے کی مدد نہ کرنے کا خبط! اِسی ناعاقبت اندیشی نے اُنکے والد مرحوم کا گھر اور اِن کے، اپنے اپنے گھرانے بھی بے حال کردیئے۔

خان صاحب، سردار دیوان سنگھ مفتوؔن کے پیرو تھے۔ سردارصاحب، متحدہ ہندوستان کے مشہورترین صحافی و دانشور تھے۔ تقسیم ہند کے بعد بھی آپکا طوطی بولتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی حکومتیں، اِن کے لکھے کالموں سے لرز اُٹھتی تھیں۔

سردار صاحب، حافظ آباد میں پیدا ہوئے تھے اورآپکی کی خُود نِوشت، ’’نا قابلِ فراموش‘‘ خان صاحب کوگویا حفظ تھی۔ سردار صاحب کیطرح، خان صاحب بھی قدامت پسندی کے رومانس کا شکار تھے۔

زمانے کی تیزرفتاری، قدیم اقدارو روایات کی جلد ہوتی ہوئی رُخصتگی، چارسُو پھیلتی بلوغت و آزادی، آپکا سب سے بڑا ’’المیہ‘‘ تھا۔ دوسروں کی بے اعتنائی کا رونا رونیوالے خان صاحب، دوسروں سے اپنی روا رکھی ہوئی بےرُخی سے خود نابلد تھے۔ راقم کی عمر تھوڑی اور بے چارگی زیادہ تھی ورنہ اُن کو یاد دلائے دیتے! جب ہمارے درمیان  یہ تناسب بدلا اورراقم کو کھری کھری سُنانے کا موقعہ ملا، تو آپ نے سُننا اور ’’دیکھنا‘‘ ہی بند کر دیا۔

تاہم، اُنکی صحبت سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا۔ مثلاً یہ کہ جو لوگ دوسروں سے زیادہ ملتے جُلتے اور ’’کُھلتے‘‘ نہیں، اُنکا رُعب داب دوسروں پر قائم رہتا ہے۔

یہ کہ، اشاروں کنائیوں میں، بغیر کسی کا نام لئے بات کرنے سے نہ صرف، دوسرے کی پردہ پوشی قائم رہتی ہے بلکہ بات کرنے والے کی اہمیت بھی بڑھتی ہے۔ ُسننے والے، بیان کرنیوالے سے مزید جاننے کی جُستجو کا شکار اور اُسکے محتاج رہتے ہیں۔

جیسا کہ، آدابِ مجالس کا پہلا اصول، خاموشی ہے۔ دوسروں کی بات پہلے ُسننا آپکو اِس قابل بناتا ہے کہ جواب دینا بھی ہے یا کہ نہیں!

نیز، مشورہ صرف وہاں دینا چاہیئے جہاں مانگا جائے۔ بغیر مطالبے کے حقیقی ماں، اپنے نومولود بچے کو دودھ بھی نہیں دیتی۔

باوجود، متقی و پرہیزگارنہ ہونے کے، موت کے خوف سے نجات! موت، ایک ایسی حقیقت ہے جس سے فرارممکن نہیں، تو ڈر کا ہے کا؟ اور اگر مُتقی ہو توپھرمرنے کے بعد بھی ’’موجاں ہی موجاں‘‘!

یہ کہ، روزمرہ زندگی میں، خالص سچ! لیکن خاص معاملات میں حکمت کیساتھ سچ! اِسکا مطلب، جھوٹ بولنا قطعاً نہیں ہے۔ بس، بلا ضرورت سچ سے پرہیز!

جیسا کہ، اپنے ماتحتوں کو، اپنے برابر نہ بٹھائیں ورنہ اُنکے دل سے احترام اورہاتھ سے  کام کرنے کی عادت، کمزور پڑتی جائےگی اور پھرآپ دونوں کو خسارہ ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ

لیکن ایسے بہت سے اچھے اصولوں پر عمل کر کے، نہ اُنکی اپنی زندگی سنور سکی اور اِن پرکما حقہ عمل نہ کرکے، نہ ہماری زندگی میں کوئی بڑا بھونچال آیا۔

ہم اُنکے ممنونِ احسان ہیں کہ جب بھی ہمیں اُنکی ضرورت پڑی وہ ہمارے کام آئے اوربقول اُنکے، جب اُن کو ہماری ضرورت پڑی، توہم نے پیٹھ دکھائی! بات یہ ہے کہ دس بیس ہزارسے اُنکا کام نہ بنتا تھا۔ آپکی ضرورت لاکھوں میں تھی جو ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ چنانچہ، آپ نے ہمارے سمیت سبھی سے ناطہ توڑ لیا! دنیا بڑی بے اعتناء ہے۔ پہلے بھی یہی کہتے تھے اور آج بھی اِسی کے شاکی ہیں۔

دسمبر2017ء میں سلاوٗ، انگلستان میں،  ہم نے تیسرا گھر بدلا۔ بچے اب بڑے ہو گئے تھے۔ لہذا، انہوں نے بھی، اِس تبدیلی مکان میں، بھر پور حصہ لیا۔ بظاہرمیراکام کافی کم  ہوجانا چاہیے تھا، لیکن اِس کے باوجود،  اِس تبدیلیِ مکان نے، بہت نڈھال کردیا تھا۔  قبل ازیں، سوانزی میں چار اور لندن میں ایک گھر بدل چکے تھے۔ پاکستان میں بدلے گئے چار گھروں کا ذِکرکرنا، یہاں نامناسب معلوم ہوتا ہے۔ اِسی لئے نہیں کر رہا ۔۔۔۔ ہاہاہا! یہ گھر بھی، ایکدن ہمیں چھوڑنا ہی ہے۔ کرائے کا جو ہوا، بیچارہ!

نئی گلی میں فقط چند ہی مکان ہیں اور سارے ہی ہمارے پاکستانی بہن بھائی! سب کے مکان، ذاتی ہیں، سوائے ہمارے! ہمارے ہمسائے، ہمارے سِکھ مالک مکان کے سخت خلاف ہیں کہ اُس نے، انہیں یہ مکان تاحال کیوں نہیں بیچا۔ آہستہ آہستہ، سب لوگوں سے، ہمارے تعلقات، ہمیشہ کیطرح اچھے ہوگئے۔ اِس دوراں، پتہ چلا کہ ایک بڑے گھر میں، صرف ایک بزرگ ’’خان صاحب‘‘ اکیلے رہتے ہیں۔ اُن کا کسی سے زیادہ ملنا جُلنا بھی نہیں ہے۔ ہم ٹہرے، عادت سے مجبور، روز کوئی نہ کوئی چیز لے کر، آپکے در پر حاضر ہو نے لگے۔ آہستہ آہستہ، اُن کے سپاٹ چہرے پر، خوشگواری کی ’’جُھریاں‘‘ نمودار ہونے لگیں۔

کچھ ماہ بعد، انہوں نے اندر آنے کیلئے کہہ ہی دیا۔ گھر بڑا اور صاف ستھرا تھا۔ ظاہر ہے جوسوال میری طرف سے پوچھنے واجب تھے، آپ بھی وہی جاننا چاہتے ہونگے۔ لو سُنیئے!

انہوں نے بتایا کہ ہم میاں بیوی اب اکٹھے نہیں رہتے۔ میرے چاربچے ہیں۔ تین لڑکے اور ایک لڑکی۔ سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اوردو شادی شُدہ ہیں۔ اور کچھ؟ اِسقدر مختصر تعارف سے ہم کہاں سَیر ہونیوالے تھے۔  میری بے تابی میرے چہرے پر عیاں تھی۔

میں نے پوچھا کہ سب کچھ ہونے کے باوجود، آپ اکیلے! ایسا کیوں؟ آپ خوش ہیں؟

بولے: خوش تو نہیں لیکن ٹھیک ہوں۔ اب عادت سی ہوگئی ہے۔ ویسے بھی پاکستان کیطرح، یہاں سب ایک ہی گھر میں تو نہیں رہ سکتے ناں!

آپ اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گے؟ تھوڑے توقف کے بعد اُنہوں نے مجھ سے پوچھا۔

میں نےدبے لفظوں میں اپنے بارے میں کچھ بتایا۔ اور دیگر محلے داروں کی طرف سے داغے گئے تمام سوالوں کا جواب بھی، بغیر پوچھے بتانا شروع کر دیا کہ گھرکرایہ کا ہے، سیونگ بالکل نہیں، آمدن باوجود کوششوں کے، بڑھنے کا نام نہیں لیتی۔ بچے چھوٹے ہیں، پڑھ رہے ہیں۔ اُنکی طبائع میں اُفتادگی پائی جاتی ہے۔ خوفزدہ رہتا ہوں کہ ہاتھ سے ہی نہ نکل جائیں وغیرہ وغیرہ!

بولے، آپکی بیگم صاحبہ کیا کرتی ہیں؟ میں قدرے حیران ہوا کہ خان صاحب میری اتنی ساری پریشانیوں پر ہمدردی جتانے کے بجائے، میری بیگم کے بارے میں پوچھ رہے ہیں!

میں نے بتایا کہ وہ ’’ہاوٗس وائف‘‘ ہیں۔

مُسکراتے ہوئے بولے، ہاوٗس وائف یا ’’ہاوٗس اریسٹ‘‘ ؟

میں نے کہا کہ میں سمجھا نہیں!

بولے، ’ہاوٗس وائف‘ ہونا، یہاں کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہاں دونوں میاں بیوی حتّٰی کہ بچوں کوبھی گھر کے سارے کام، مِل جُل کرکرنا پڑتے ہیں۔ مرد کو کھانا بھی پکانا چاہئیے!

میں نے بے چارگی سے کہا کہ جی میں تو سوائے کھانا پکانے کے، گھر کے سارے کاموں میں اپنی بیوی سے بھی زیادہ حصہ لیتا ہوں!

بولے، تو اِس میں بے چارگی کی کونسی بات ہے! یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ آپکی بیوی صاحبہ کو باہر کام کاج کیلئے تو کوئی دقت نہ ہونا چاہیئے۔

میں نے مِلے جُلے، اثباتی انداز سے سر ہلا دیا۔

بولے، یہاں زندگی جتنی آسان نظر آتی ہے، اُتنی فی الواقع ہے نہیں! آپ جو گوروں کی آسائشیں اورترقیات دیکھ رہے ہیں، یہ اُن سب کے (میاں بیوی اور بچوں کے) کام کرنے کی بدولت ہی ہیں۔ آپ نے، اتنے سال، اکیلے کام کرکے دیکھ لیا ہے، اب دونوں کام کرکے دیکھیں، دِنوں میں حالت بدل جائے گی۔

خان صاحب، میرے چہرے پربے یقینی کے آثاردیکھ رہے تھے۔ تھوڑے توقف کے بعد بولے، آپکا نیا گھر کیسا ہے؟ میں نے ذرا لجَّاتے ہوئے کہا، آپ سے تھوڑا کم تر ہے!

خان صاحب کے چہرے سے شفتگی کے آثار جاتے رہے اور بولے کہ یہ گھر میری بیوی کی کوششوں کا مرہونِ منت ہے۔

لوگوں کے دیکھا دیکھی، اُسکو اپنا گھر لینے کا خبط تھا۔ میں نے اُسکو کئی مرتبہ سمجھایا کہ میرے اکلوتے کی آمدن سے یہ نہ ہو سکے گا۔ اگر اپنا گھر لینا ہے تو تمھیں بھی کام کرنا پڑیگا۔ تیر سیدھا نشانے پر بیٹھا۔ وہ کوئی زیادہ تعلیم یافتہ تو نہ تھی اور انگریزی سے تو اُسکی جان جاتی تھی! اُس نے ایک ہمارے جاننے والے کے ہاں، معمولی سی ملازمت کرلی!

اُس زمانے میں تنخواہ بہت ہی کم تھی۔ بہرحال، اُسکو جب گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کا موقعہ ملا، تو اُسکا اعتماد بڑھا، زیادہ تنخواہ کی خواہش اورحِرص پیدا ہوگئی اور بالآخر، اُسکی انگریزی بول چال بھی بہترسے بہترہوتی چلی گئی۔

ایک جگہ سے دوسری جگہ ملازمت کے مواقع ملنے لگے۔ اُسکی تنخواہ صرف مکان کے حصول کیلئے مخصوص تھی۔ گھر کا خرچ، حسبِ معمول میری تنخواہ سے چلتا رہا۔ اور وہ مکان کیلئے ’’کمیٹیاں‘‘ وغیرہ بھی ڈالتی رہی!

کیا نام بتایا تھا آپ نے اپنا؟

نعیم طاہر، میں نے یاد دلایا۔

معاف کرنا نعیم صاحب، اِس عمر میں نام یاد رکھنا میرے لئے سب سے مشکل امر ہے۔

میں نے اپنی بیوی پر کوئی فلسفہ نہیں آزمایا تھا۔ بات سے بات بنتی گئی۔ لیکن وقت گزرنے کیساتھ اورغوروفکر کرنے سے، جو نتائج اخذ کئے جاسکتے ہیں، وہ ’’تجرباتی فلاسفی‘‘ کہلاتے ہیں۔ یہ بات کرتے ہوئے، خان صاحب کے چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ نمودار ہوئی، جیسے انہوں نے کوئی ’’بڑی‘‘ بات کہدی ہو!

جواباً میرے چہرے پر بھی ایسے ہی آثارنمایاں ہوئے ہونگے۔

اگلے ہی لمحے، آپکے چہرے پر یاس کی سختی چھاگئی اوربولے، میں نے یہ ’’گیان‘‘ اپنی ناکامیوں سے حاصل کیا ہے، افسوس! اِس گیان کا اب مجھے کوئی فائدہ نہیں!

شائد مجھے ہو! میں نے بے تابی سے کہا!

ہاں، ہو سکتاہے!

تو بتائیے، میں نے اشتیاق سے پوچھا!

بولے، میرے خیال میں،  آج کیلئے، اتنا ہی کافی ہے۔

میں شکریہ ادا کرتے ہوئے، قدرے بے دلی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور واپس گھر آگیا۔

کچھ عرصہ بعد، میں دوبارہ اُن سے ملنے گیا۔ وہ کافی ہشاش بشاش لگ رہے تھے۔ میرے اِستفسار پر بتایا کہ میں نے ابھی ابھی اپنا من پسند کھانا کھایا ہے، ’’فش اینڈ چپس‘‘! میرے لئے یہ کوئی عجیب بات نہ تھی۔ ویسے بھی میں اب، چھوٹی چھوٹی باتوں پر پُرجوش نہیں ہوتا تھا۔

کھاوٗ گے؟ خان صاحب نے پوچھا۔

میں نے جان چھڑانے کیلئے کہا کہ ابھی چائے پی کر آرہا ہوں۔ اِسی اثناء میں وہ ایک پلیٹ ایلومینیم فائل سے ڈھکی ہوئی، لے آئے اور کہا کہ گھر لے جانا اور مجھے بتانا کہ کیسا بنا ہے؟

میرے دماغ میں، تجرباتی فلاسفی والی بات، اُس روزسے اٹکی ہوئی تھی اور اب زبان پرٹہر نہیں رہی تھی۔ لہذا اُگل دی۔

آپ پھر سنجیدہ ہوگئے۔ بولے، اپنی ناکامیوں سے نہیں سیکھنا چاہئیے بلکہ دوسروں کی ناکامیوں سے سیکھتے ہیں۔ میں نے جو سیکھا ہے، اُس سے اب میں تو کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا، ہاں، دوسرے اُٹھا سکتے ہیں۔

اِسی لئے تو حاضر ہوا ہوں، آپکی خدمت میں، میں نے بےصبری سے کہا۔

بولے، دوسروں کو طعنہ دینے کی بجائے، اُنہیں مثبت انداز سے، ’’طمع‘‘ دو، ٹارگٹ دو، چیلنج دو!

میں نے اپنی بیوی کو یہ ٹارگٹ اپنی فلاسفی کی وجہ سے نہیں دیا تھا۔ میں نے تواُس کی خواہش وطمع کی تکمیل کیلئے ایک راستہ بتایا تھا۔ جب اُس نے وہ حاصل کر لیا تو مجھے علم ہوا کہ اگرکسی کی خواہش کو، اُسکا ٹارگٹ بنا دیا جائے تو وہ اُس کے حصول کے لئے، ہر کوشش کر گزرتا ہے۔ یہ ہے میری تجرباتی فلاسفی! اوراِس کامیاب تجربہ کیلئے، میں اپنی بیوی کا مشکور ہوں!

اگر ایسا ہے تو آپکی علیحدگی کی کیا وجہ ہے؟

میری توقع کے برخلاف، آپ نے ایک ہارے ہوئے جواری کی طرح بُلند لیکن کھوکھلا سا قہقہ لگایا۔

ہماری ’’طلاق‘‘ نہیں، علیحدگی ہوئی ہے۔ یہ ہماری بیوی صاحبہ کی اپنی معاشی ترقی اور میرے بچوں کی، آزادی پسند طبائع، کیوجہ سے ہوئی ہے۔

میری بیوی میرے معاشی حالات کی وجہ سے کبھی بھی مطمعئن نہیں رہی تھی۔ اِس مُلک میں بھی، جہاں سب کو ہی، کچھ کرنے یا نہ کرنے کے باوجود، بہت کچھ حاصل ہو جاتا ہے، اُس نے اپنے اور بچوں کے معصوم ذہنوں میں محرومیت کے جراثیم پیدا کردئیے تھے اور میرے جیتے جی، میرے بچوں کو ’’یتیم‘‘ بنا دیا تھا۔ جیسے کہ ’’نہ فُلاں چیز ہمارے پاس ہے اور نہ تمھارے باپ نے ہمیں یہ لیکر دینی ہے‘‘۔ ہر بچے کی کسی ایک جائزوناجائز خواہش پر بھی اگر ’’نہ‘‘ کہدی تو باقی چار افراد نے اُسی ’’نہ‘‘ کو چارسے ضرب دیکر، اپنی زندگی اور میری زندگی کو عذاب بنا دیتے! طُرفہ تماشا یہ کہ بجائے، بچوں کو سمجھانے بُجھانے کے، بیوی صاحبہ، اپنے پیسوں سے مطلوبہ چیز بچوں کو لا کر دے دیتں، جس سے بچے، مجھ سے دُور ہونا شروع ہو گئے۔

اگرطبائع میں ایسا اختلاف تھا توآپکو بچپن سے ہی اپنے بچوں کو اپنی فطرت کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنا چاہئیے تھی!

ایسا ہی کیا تھا محترم! بچے جب تک ہائی سکول نہ گئے تھے، میرے ساتھ بہت مانوس (اٹیچیڈ) تھے۔

پھر اچانک کیا ہوا؟ میں نے پوچھا۔

جب تک بچے چھوٹے اورمیری مدد کے محتاج رہے، وہ ہم دونوں میاں بیوی کی سُنتے رہے ۔ اِن آزاد وترقی یافتہ مما لک میں، ہم جیسے تارکینِ وطن کو مشکلات، اپنے بچوں کی بلوغت (ٹین ایج) کی عمر سے پیش آنا شروع ہوتی ہیں۔ ماں باپ سارا دن کام میں مصروف رہتے ہیں اور بچے سارا دن سکول میں، اپنے ہم عمر، آزاد خیال دوستوں اوراساتذہ کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔

یہاں ہائی سکول و کالج میں، بچوں کے اندرخود اعتمادی اور فیصلہ سازی جیسی صلاحیتوں میں، سرکاری سطح پر، خوب نشوونما کی جاتی ہے۔ ہم ایشیائی لوگوں میں اِن دو خصوصیات سمیت دیگرکئی صلاحیتوں کا استحقاق، والدین اور گھر کے بڑے افراد کے پاس ہوتا ہے یا رکھا جاتا ہے۔ لہذا، جب ہمارے بچے، اِس میدان میں قدم رکھتے ہیں تو بڑی آسانی سے، اپنے دیگر ہم عمرمغربی دوستوں کیطرح برتاوٗ کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اور جب اُنکے والدین، ایسے روئیے سے اُنہیں منع کرتے اور سختی کرتے ہیں تووہ اپنے والدین اور گھر کے ماحول سے بغاوت، پراُتر آتے ہیں۔

حسبِ عادت، اُنکی بات پوری ہونے سے قبل ہی میں بولا کہ اِسے ہی شائد ’’جنریشن گیپ‘‘ کہتےہیں!

وہ جِنجھّلا کر بولے: جنریشن گیپ، کوئی چیز نہیں ہے۔ بالکل فضول اور لایعنی ٹرم ہے!

میرے چہرے پر بڑا سا سوالیہ نشان دیکھ کر، انہوں نے اپنی بات جاری رکھی۔ جس طرح چشمے، ندی نالے اور دریا، اپنا راستہ خود بناتے ہوئے بہتے چلے جاتے ہیں، بالکل اِسی طرح، نسلِ انسانی بھی، مختلف زمانوں اور ایجادات کیساتھ آگے بڑھتی چلی جارہی ہے۔ مشرق ہو یا مغرب! ’’جو بووٗ گے وہی کاٹو گے‘‘ والا، لافانی اصول ہی چل رہا ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ جب آپکے گھراور باہر کا ماحول مختلف ہو گا اوراگر آپ اِس فرق کو پاٹنے کیلئے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کریں گے، توآپکی اِس کمزوری کے نتیجے میں، جن حا لات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، لوگ اُس کو عام طور پر، ’’جنریشن گیپ‘‘ کہہ راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی کوتاہی تسلیم نہیں کرتے، بلکہ مغربی تہذیب کو بُرابھلا کہنا شروع کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر باہر بارش ہورہی ہواور آپ چھاتے کے بغیرباہر نکل جائیں توآپ کے بھیگ جانے کی ذمہ دار، بارش نہیں! آپ کی اپنی کوتاہی، یعنی چھتری نہ لیجانا ہوگا۔

خان صاحب کے دلائل واقع میں ہی لاجواب تھے لیکن میرے دماغ میں سوالات ایک کے بعد ایک کرکے پیدا ہوتے چلے جارہے تھے۔ حالانکہ اپنے زمانہ طالبعلمی میں، دورانِ کلاس، شائد ہی کوئی سوال، میرے ذہن میں آتا تھا۔

پھرآپ سے کوتاہی کیوں اورکیسے ہوئی؟

مجھ سے بہت کوتاہیاں ہوئی ہیں نعیم صاحب! میں نے یہ سب اپنی کوتاہیوں ہی سے توسیکھا ہے۔ کاش! کوئی اِس سب سے فائدہ اُٹھا لے!

میں نے ابھی تھوڑی دیر قبل آپکو بتایا تھا کہ میرا مسئلہ ’’بیرونی‘‘ نہیں، ’’اندرونی‘‘ تھا۔ خان صاحب بولتے ہوئے، اُٹھے اور دیوار پر لگی، پہلی فوٹو کی طرف بڑھے۔ یہ میرا بڑا بیٹا سلامت علی خان ہے۔ میں بھی آپکے پیچھے کھڑا ہوکر اُس تصویر کو دیکھنے لگا۔ وہ ایک خوبرونوجوان کی، کوٹ اور ٹائی میں ملبوس، مسکراتی ہوئی، پورٹریٹ فوٹو تھی۔ یہ انجنئیر ہے اور دبئی میں، ایک کمپنی میں کام کرتا ہے۔

گھر میں بڑا ہونے کے ناطے، ہم میاں بیوی کی سب سے زیادہ تکرار، اِسی نے ہی سُنی اور دیکھی ہے۔ میری محبت کی وجہ سے مجھ سے اور ماں کی ممتا کی وجہ سے، اُس سے پیار کر تا تھا۔ جب بڑا ہوا، کالج میں گیا تو میں نے اُس سے گھر کے ماحول کو بہتر کرنے کیلئے، ہلکی پُھلکی بات چیت شروع کی تاکہ وہ اپنی ماں کے مقابل میری کچھ مدد کرسکے اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی تربیت میں، میری مدد کر سکے!

اُس وقت وہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا۔ لیکن اپنی تمام جائزو ناجائز خواہشات کی تکمیل کیلئے، اُسے اپنی ماں کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ لہذا، وہ اُس سے اختلاف بھی نہ کر سکتا تھا۔ نیز، کالج میں دیگر دوستوں کی سنگت میں، ’’میری زندگی، میری مرضی‘‘ کے دلکش ماٹو، اور بے فکر زندگی میں، ماں باپ کے لپھڑے میں پڑنے سے گریزاں ہی رہا۔

ماں کیطرف سے ہر وقت اپنی محرومیوں کے راگ آلاپے جانے اور آئے روز میری طرف سے صفائیاں دیئے جانے سے، اُکتا کر، بالآخر، اُس نے ہمارے معاملات سےبیزاری اختیار کرلی! میں اِس معاملے میں اُسے زیادہ غلط بھی نہیں سمجھتا تھا۔ اور سختی کرنے کا انجام، تو اِس سے بھی بھیانک ہو سکتا تھا۔

آہستہ آہستہ، وہ ہم سے پوچھنے کی بجائے، اپنی مصروفیات کی، فقط اطلاع دینے پر آگیا۔ اور ہم اُسی کوہی غنیمت جاننے لگے۔ خان صاحب نے ایک لمبی سانس لی۔

باوجود، اُسکی حمائت حاصل نہ کرسکنے پر، میں اُس سے ناراض نہیں ہوا۔ البتہ، دُکھ بہت ہوا۔ اور ہم سب کا نقصان بھی ہوا۔ یہ بات کہتے ہوئے، خان صاحب واپس مڑے تواُن کی آنکھیں بھر چکیں تھیں۔ آپ نے ڈائننگ ٹیبل سے ایک ٹشو پیپر لیا اور وہیں ایک کرسی پر بیٹھ گئے۔ آنکھیں صاف کرنے کے بعد، اپنی بات جاری رکھی۔

اُس نے، گھرکے اکثر معاملات میں دخل اندازی بند کردی تھی۔ بعدازاں،  یونیورسٹی ہاسٹل میں شفٹ ہوگیا۔ جو کبھی ہماری خوشیوں کا محورتھا، اب ہر وقت دوستوں کیساتھ خوش رہنے لگا۔ ذہین تھا اور خاصا سمجھداربھی! پڑھائی کے بعد نوکری شروع کرلی۔ اپنی ایک دوست کیساتھ شادی کرکے، وہیں دبئی میں سیٹل ہوگیا۔

مجھے تو یہ سب کچھ نارمل لگ رہا ہے! میں نے سکوت توڑتے ہوئے کہا۔

نہیں! یہ وہ پھل نہیں، جو میرا حاصل تھا۔ ہم میں محبت کم، احترام کا رشتہ زیادہ ہے۔ ایسے ہی جیسے ہمسائیوں کیساتھ ہوتا ہے۔ خان صاحب نے مضبوط ہوتی ہوئی آواز میں کہا۔

ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا! وہ بولے۔ میں، سلامؔت کے مستقبل کے بارے میں ہمیشہ دُعا گو رہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اُس کو، اُس دکھ سے بچائے جو میرا مقدر بنے، آمین۔ ہم دونوں نے بیک وقت کہا۔

میں ابھی تلک دیوارپرلگی تصاویر کےپاس، لیکن خان صاحب کی طرف منہ کئے ہوئے کھڑا تھا۔ دوسری تصویر، ٹی شرٹ پہنے، ایک مسکراتے ہوئے، صحتمند بچے کی تھی! نعمت علی خان! خان صاحب نے تعارف کروایا!

یہ میرا دوسرا بیٹا ہے۔ لندن میں رہتا ہے اورسائیکک کنسلٹنٹ ہے۔ خان صاحب خاموش رہے۔

اِس کے بارے میں کچھ نہیں بتائیں گے؟ میں نے پوچھا!

یہ ہمارا بہت پیارا بیٹا ہے۔ بچپن سے ہی اپنے آپ میں رہنے والا، کم گو! سلامتؔ کی انفرادیت پسندی نے، نعمت خان کو چھوٹے بھائی کی محبت اور دوستی کی ’’نعمت‘‘ سے محروم کرکے، اکلاپے کا شکار کردیا۔ یہ اپنی نوجوانی کے دور میں، اِسی مڈھ بھیڑ کا شکار رہا۔

آپ لوگوں نے، اِس معاملے میں کوئی کردار کیوں ادا نہیں کیا؟ میں نے حیرانی سے پوچھا۔

کیوں نہیں! بہت کیا!۔ ۔ ۔ ۔ ساری اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں! اُوپرسے دوسرے عوامل، معاملات کو اوربھی خراب کردیتے ہیں۔ ایک بچہ جو پہلے ہی گٹھی ہوئی طبیعت کا مالک ہو۔ دوست بنانا نہ جانتا ہو، گھرکے عمومی ماحول سے بھی خوش نہ ہو۔ اُسکی تعلیمی کارکردگی، اِن سب باتوں کی وجہ سے متاثرتو ہو گی! نوجوانی میں، اپنے ہم جماعتوں کے سامنے، اپنی تعلیمی کارکردگی کی خراب، ماہانہ رپورٹ، شدید ندامت کا باعث بنتی ہے اور بچہ ہر چیز سے ہی بیزار ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہاں پر، لڑکے لڑکیوں کے آزادانہ میل ملاقات کے معاملات اور معمولی اختلافات کیوجہ سے آپس میں علیحدگیاں (بریک اپس) بالکل ایسے ہی سمجھے جاتے ہیں، جیسے ہمارے ہاں نکاح اور طلاق! یہی وجہ ہے کہ انگلستان و یوروپ میں، نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بے چینی اورڈیپریشن کی شکایات بہت عام ہیں۔

بفضلِ تعالیٰ، میرے بچے اِس معاملہ میں، ہماری عمومی اچھی اور مذہبی تربیت کی بدولت محفوظ رہے ہیں۔ لیکن نعمؔت، ذہنی طور پر تضادات کا شکاررہا۔ اوّل تو وہ کسی بات کوکوئی اہمیت ہی نہ دیتا تھا، جیسے رشتے، لباس، دوست، ڈسپلن، روٹین وغیرہ۔ اوراگر کسی چیز کو اہمیت دیتا بھی، توپھرانتہا پسندی کی حد تک! میرا مطلب ہے پرفیکشن کی حد تک!  یونیورسٹی جانے تک وہ خود بھی بہت پریشان رہا اور ہمیں بھی پریشان رکھا۔ مثال کے طورپر، وہ 18/19 سال کی عمر میں شادی کرنا چاہتا تھا۔ بہت سمجھایا، مانتا ہی نہ تھا۔ اوراب شادی کے ذکر سے ہی دُور بھاگتا ہے۔

ہم نے اُسے کئی ماہرین سے ملوایا۔ لیکن وِل پاور(قوتِ ارادی) میں کمی و کمزوری نے، اُسے اِس مضمون میں دلچسپی لینے کے سوا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں پہنچایا۔

یونیورسٹی جا کر، اُسکو پڑھائی، مقصدیت اور زیست کی سمجھ آنا شروع ہوئی۔ اوریوں اُس نے اپنی کمزوریوں پرکچھ قابو پا لیا ہے۔ الحمدللہ!

تیسری تصویر، ایک دُبلے پتلے نوجوان کی سکول بلیزر میں تھی۔ باوجود اِسکے کہ میں خان صاحب کی طرح کوئی تجربہ کار اور زیرک انسان تو نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی، اُس عمر میں جو جوش، اُمنگ اور جذبہ ایسی پورٹریٹس میں ہوتا ہے، وہ مجھے نظر نہ آیا۔ یہ بات خود میرے لئے باعثِ تشویش تھی۔ لیکن،اِس کے باوجود، میں نے خان صاحب سے کوئی سوال نہ کیا کہ مبادہ اِس سے خان صاحب کو کوئی مزید تکلیف پہنچے۔

تھوڑی دیر بعد، خان صاحب خود گویا ہوئے۔ یہ میرا سب سے چھوٹا بیٹا

اصا لت علی خان ہے۔ یہ صحیح پٹھان بچہ ہے۔ ابھی پڑھ رہاہے اور ماشاءاللہ پڑھائی میں بہت اچھا ہے۔

پٹھان بچہ؟ میں سمجھا نہیں! میں نے سوالیہ انداز سے پوچھا۔

یہی جو پٹھانوں اور سکھوں کے بارہ میں آپ لطیفے پڑھتے اور سنتے ہو! خان صاحب نے نیم دلانہ مسکراہٹ سے کہا۔ ہم لوگ بڑے جذباتی ہوتے ہیں۔ سوچ بچارسے کام نہ لینے والے!

میرے چہرے پر سوال ہنوزبرقرار تھا۔ لہذا، خان صاحب کے پاس بھی خاموشی توڑنے کے سوا، کوئی اور چارہ نہ تھا۔

اِس بےچارے کی محرومیاں، نعمت خاں سے ملتی جُلتی ہی ہیں۔ ابھی یہ چھوٹا ہی تھا کہ اِس کی بہن فرؔح پیدا ہوگئی۔ وہ چونکہ اکلوتی اورسب کی لاڈلی تھی۔ سب اُسکی طرف متوجہ ہوگئے۔ اِس کے بڑے بھائیوں کے بارہ میں تو میں بتا ہی چکا ہوں۔ اُن کی، اِس سے لاپرواہی، اِسے بہت کَھلتی (چُبھتی) تھی۔ یہ اچھے گریڈز لیکر بھی، اپنی کامیابی پر خوش نہ ہوتا اورچڑچڑے پن کا شکاررہا۔ برداشت کی کمی اور بات بات پرشدید ردِ عمل دیتا تھا۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے کہ یہ درست ہے کہ ہم ایشیائی والدین اپنے بچوں کیساتھ دوستی نہیں کرپاتے، اُنکی اُس طرح حوصلہ افزائی نہیں کرپاتے، جس طرح کہ یہاں کی جاتی ہے۔ اُن کو وہ آزادی نہیں دے پاتے جو وہ اپنے جیسے دوسرے ہم عمروں میں دیکھتے ہیں۔ چاہے اِسکی کوئی بھی وجوہات ہوں، یہی وہ معاملات ہیں، جس کے نتیجے میں، بلوغت کی عمر(ٹین ایج) میں پہنچ کر، دونوں یعنی والدین اوربچوں کومسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

میں چونکہ خود کچھ عرصہ بعد، ایسے ہی حالات کا سامنا کرنے والا تھا۔ لہذا اِس معاملے میں، میری دلچسپی حدّ سے بڑھی ہوئی تھی۔

پہلے بیٹے کے بدلے ہوئے رویئے کے بعد، آپ نے دوسرے اور تیسرے کی اصلاح کیلئے کیا کوششیں کیں؟

یہ بہت اہم بات آپ نے پوچھی ہے۔ خان صاحب نے کہا۔

میری شادی، میرے والدین اورمیری، یعنی دونوں کی مرضی سے ہوئی۔ آپ اِسے ’’ارینجڈ‘‘ اور ’’لوَّمیرج‘‘، دونوں ہی کہہ سکتے ہیں۔ یہ ہمارے گھرکا ماحول تھا۔ اُس وقت کے پاکستان میں، یہ بات، ماں باپ اور اولاد کے مابین، ہم آہنگی یعنی ’’انڈرسٹیڈنگ‘‘ کا، ایک بہترین پیمانہ تھی۔ ہم میاں بیوی بھی، آپس میں بہت خوش تھے۔

جس طرح، ایک عام آدمی، پھولوں اور فصلوں کے بیج اور ابتدائی سبز پنیری کو دیکھ کر، یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ کون سا پھول یا پھل اُگایں گے، سوائے، ایک ماہر مالی یا کاشتکارکے! اِسی طرح، آنے والے، بدلتے ہوئے حالات میں، انسانی رویوں کے اظہار کی بنیاد بھی، بیج میں ہی پوشیدہ ہوتی ہے۔

میرے خیال میں، برصغیرپاک وہند میں، خاندان میں کی گئی شادیوں کو ’’کامیاب‘‘ کہنے کی بجائے ’پائیدار‘‘ کہنا زیادہ مناسب ہے۔ اور اِس کی ایک بڑی وجہ، جوڑوں اور اُنکے والدین کا، آپس میں مکمل تعارف اورایک دوسرے سے آگاہی ہے۔ کوئی بات، رویہ اورعادت دوسرے فریق سے چھپی ہوئی نہیں ہوتی۔ اُس کے بالمقابل، خاندان سے باہر شادی کرنے میں، یہ سہولت میسر نہیں ہوتی۔

آج کل کے حالات میں، جہاں اِس امر کی جانچ پڑتال کی ضرورت بہت بڑھ گئی ہے، اُسی قدر، اِس کوشش کوانتہائی معیوب سمجھا جارہاہے۔ دونوں طرف سے! یعنی لڑکے اور لڑکی والے! ’’پرائیویسی‘‘ کے نام پر! عزت داری کے نام پر!  اوراِس بات کا نتیجہ ہم سب دیکھ بھی رہے ہیں اوربدقسمتی سے سمجھنا بھی نہیں چاہتے!

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ خاندان سے باہر شادی نہیں کرنی چاہیئے۔ بلکہ یہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ شادی، دو نوجوانوں کے ازدواجی تعلقات قائم کرنے کا نام نہیں! بلکہ شادی اُس بڑھی ہوئی، انتہائی ذمہ داری کا نام ہے، جو بچوں کی تربیت کی صورت میں، آپکے کاندھوں پر پڑنے والی ہوتی ہے۔ معزرت کیساتھ، میں یہ ماننے کو تیار نہیں کہ ہمارے سمیت، ہماری نسل کے نوجوانوں نے یا آجکل کی نسل نے، اِس بڑے اور اہم موضوع پر کبھی سوچا بھی ہو یا غوروفکر کرنے کی کوشش بھی کی ہو!

اولاد پیدا کرنا اوراُس کو پالنا پوسنا، سِرے سے کوئی بڑی بات ہی نہیں۔ یہ تو ایک فطری عمل ہے، ہمارا کوئی کمال نہیں! سارے جانور، یہی کچھ تو کرتے ہیں اور کرتے آئے ہیں۔ اِس کے بالمقابل، ’’تربیت‘‘ ایک کام اورکارنامہ ہے۔ ایک انسانی بچے کی تربیت، ایک پوری نسل کی تربیت کی محتاج ہے! معاشرتی علوم کے ماہرین کےنزدیک ایک نسل کی کم ازکم عمر، 40 سال ہے۔

سادہ الفاظ میں، ماں باپ، خاندان اور معاشرہ مل کر، ایک بچے کی 40 سال تک، مثبت رنگ میں تربیت کریں تو بہترین پھل حاصل ہو سکتا ہے۔ اور ہم ٹہرے، پتھر مار کر درختوں سے پھل توڑنے والی قوم!

خان صاحب انتہائی جذباتی انداز میں، بڑی روانی سے بولتے جارہے تھے اور میں، پہلے سے زیادہ متاثراوراپنی بڑھتی ہوئی ذمہّ داریوں سے مزید پریشان ہوئے جارہا تھا۔

مجھے اعتراف ہے کہ میں نے اِس بارے میں بالکل کچھ نہیں سوچا تھا۔ میں نے سمجھا تھا کہ جس طرح ہم بہن بھائی پَل بڑھ گئے تھے، میرے بچے بھی پَل بڑھ جائیںگے۔ اِس ضمن میں، میری سب سے بڑی اُمید میں ’خود‘ تھا کہ میں اپنے بچوں کو اپنی طرح ڈھال لونگا۔ میں بطور باپ، زیادہ تعلیم یافتہ اور اپنے فرائضِ منصبی سے، اپنے ماں باپ کی نسبت زیادہ آگاہ تھا۔ دُعائیں بھی بہت کرتا تھا! الحمدللہ، میرے بچے کسی بدی اور بُرائی کا شکارتو نہیں ہوئے، فقط ۔ ۔ ۔ آپس میں پیار، محبت، اعتماد، ذہنی سکون اور اطمینان کی کمی کا شکار ہوگئے! خان صاحب کی آواز دھیمی پڑتی چلی گئی۔

’’تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے‘‘! ’’میاں بیوی گاڑی کے دو پہّیے ہیں‘‘! وغیرہ وغیرہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نعیم صاحب! ہاتھوں اور پہیوں کا سائز بھی تو ایک جیسا ہونا چاہیئے! دینِ اسلام میں جو ایک لفظ ’’کُفو‘‘ بیان ہوا ہے ناں! وہ بڑی بنیادی چیز ہے۔ ہم کم علمی، قبول صورتی اور کمزور دینی حالت کو، اپنی ذات، دھن دولت اوررشتےداریوں سے ’’کُفو‘‘ مہیا کرنے کی جو بھونڈی کوشش کرتے ہیں، اُس کے ایسے ہی نتائج نکلتے ہیں۔

تومیں کہہ رہا تھا کہ میں نے اپنے بچوں کو اپنے والدین سے زیادہ وقت دیا۔ بہتردینی ودنیاوی تعلیم دینے کی کوشش کی۔ خود ساتھ مل کر کھیل کود کے مواقع بھی بہم پہنچائے، سیروسیاحت بھی خوب کی۔ وقت دیا لیکن اِس سب کے باوجود ۔۔۔ ایک بیج کو نشوونما کیلئے محض زمین یا محض پانی کی ضروت نہیں ہوتی۔ اُسے دھوپ، ہوا اوربار باردیکھ بھال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ ایک آدمی نہیں کر پاتا۔ دوسرے ساتھی کا تعاون بھی درکار ہوتا ہے۔

یاد رکھیں، جب ہم ٹی۔وی، فریج یا کوئی اور چیز لینے کیلئے جاتے ہیں تو دُکاندارہمیں، اُس چیز کے بارے میں کتنی معلومات دیتا ہے! دیتا ہے کہ نہیں؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔  ہم بھی اُس سے سوال کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ توجب ایک نئے بننےوالے گھر اورنئی نسل کو جنم دینے والے جوڑے کو، بنانے کا وقت آتا ہے تو دونوں اطراف کو اِن باتوں سے متعلق خوب دیکھ بھال اور بات چیت کرنی چاہئیے کہ نہیں؟

بالکل کرنی چاہئیے! میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔

پچھلے وقتوں میں، ہمارے بزرگوں کے سارےکام ، بقول اُنکے، اللہ تعالی ہی کرتا تھا، یعنی وہ خود کچھ زیادہ سوچ بچارنہیں کرتے تھے۔ لیکن آجکل ہم سارے کام خود ہی کرتے ہیں۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا ’’ساتھ اور فائدہ‘‘ نہ ہمارے پچھلوں نے اُٹھایا اور نہ ہی ہم اُٹھا رہے ہیں۔

خان صاحب! ابھی آپ نے ذکر کیا کہ آپکے بچے بگڑے نہیں، بس ’’من موجی‘‘ سے ہوگئے ہیں۔ اِس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ آپ خود ہی تو کہتے ہیں کہ ساری اُنگلیاں برابر نہیں ہوتیں! کہیں یہ ناشُکری کے ذُمرے میں تونہیں آتا؟ میں نے بڑی ہمت کرکے پوچھا۔

شکوہ، صبراور ناشُکری میں، شائد صرف ’’آواز اورانداز‘‘ کا ہی فرق ہوتا ہے۔ گو حقیقت میں بہت ’’بڑی‘‘ بات ہے۔ چُپ رہے تو صبر اور شُکر! اگر بول پڑے تو شکوہ اور ناشُکری! دوسرے، دل پر جو ایک بار گزرجاتی ہے، وہ بُھلائے نہیں بھولتی، سوائے اللہ تعالیٰ کے خاص فضل اور کرم کے نتیجے میں! میں آپکے سامنے دو مثالیں رکھتا ہوں:

حضرت یعقوبؑ نے بھی صبر کیا لیکن حضرت یوسفؑ کیلئے سالہاسال روتے رہے۔ جب دوسرے بیٹے (بنیامین) کو لیجانے کی باری آئی، تو ایک بار پھر، حضرت یوسفؑ کا قصہ لے بیٹھے۔ اُس کے با لمقابل، آپکےؑ دادا حضرت ابراھیمؑ کی مثال لیں، اپنی بیوی، بڑھاپے کی عُمر میں، اپنے اکلوتے نولود بچے حضرت اسمعیلؑ کو، جنگل بیابان میں، چُپ کے روزے سے چھوڑ آتے ہیں۔ اور جب کئی سالوں بعد ملنے کو جاتے ہیں تو، پہلے سے بھی بڑی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں! کبھی آپ نے کہیں سُنا یا پڑھا ہےکہ بی بی ہاجرہ یا حضرت اسمعیلؑ نے کوئی تکرار کی ہو کہ کیا پہلی قربانی کافی نہیں تھی کہ اب جان لینے بھی آ گئے ہو؟

یہ حضرت ابراھیمؑ اور اماں ہاجرہ کے ایک دوسرے پریقین، ہم آہنگی اور اللہ تعالی پرکامل ایمان کی کہانی ہے۔ جسکا پھل ’’صبر‘‘ تھا۔ جب صبرکی نعمت حاصل ہوجاتی ہے تو سوائے شُکرانے کے کچھ بھی سرزرد نہیں ہوتا۔ یہی حال ہمارے نبی ﷺ کا حال تھا! آپﷺ کا یقین اورہم آہنگی، اللہ تعالیٰ کیساتھ تھی۔ اُمھات المومینن، اولاد اور صحابہ اکرام رضوان اللہ علیھم اجمعین، سب بعد میں آتے ہیں۔ باالرفیق الاعلیٰ! باالرفیق الاعلیٰ ۔ ۔ ۔ ۔ سب سے پہلے ہے۔  یاد ہے ناں؟

اللہ تعالیٰ ناشُکری سے بچائے۔ میں تواپنی کوتاہیوں کی بات کرتا ہوں اور اپنے فیصلوں پر نادم ہوں!

میں تو خان صاحب کے سامنے لاجواب ہو جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ ایسے شخص کی بیوی اور بچے کیسے اِس کے اثر سے دُور ہوگئے؟ اِسی سے ملتی جُلتی بات میں نے کہہ ڈالی۔

بولے، میرے ایک دوست تھے وہ کہہ تھے کہ جو مرضی کرلو! تربیتِ اولاد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی ہوتی ہے۔ وہ سچ ہی کہتے تھے۔ یقیناً میری دُعاوں اور اعمال ہی کی کمزوری ہے! آپ نے گہرا سانس لیتے ہوئے، اپنی بات جاری رکھی۔ ویسے بھی کئی نبیوں اور ولیوں کی اولاد اور اُنکے اہل، اُنکی آل نہیں بن سکے۔ واللہ اعلم باالصواب!

اور آپکی بیٹی؟

فرح، میری بیٹی! وہ شادی شُدہ ہے اور خوش وخرم ہے، ماشاءاللہ!

میری بیوی، اُسی کیساتھ رہتی ہے۔

کیا آپکی طلاق ہوگئی ہے؟

نہیں، نہیں! بس ’’طبائع‘‘ کی طلاق ہوئی ہے۔ خان صاحب، بے دلی سے مسکراتے ہوئے بولے۔

اور یہ اتنا بڑا گھر اور آپ اکیلے؟

اکیلے؟ اوہ نہہ! ہم سب ساتھ ہی تو رہتے ہیں!

میں خانصاحب کے جواب سے بھونچکا سا رہ گیا۔

ہم سب کی زندگیوں، یادوں، خوشیوں، مسکراہٹوں، بے چینیوں، بیزاریوں، آہوں اورآنسووٗں سے بھرا ہوا ہے، یہ گھر! بچے ملنے آتے رہتے ہیں۔ اور کئی کئی روزیہاں میرے ساتھ قیام بھی کرتے ہیں!

گزشتہ برس، جب میں اپنے بھانجے کی شادی کا کارڈ دینے کیلئے حاضر ہوا تو مسکراتے ہوئے پوچھا کہ آپ نے خوب تحقیق کرلی ہوگی؟

میں نے کہا کہ کہاں خانصاحب! ہم قدامت پسند اور جٹ لوگ ہیں! اِتنی آسانی سے اپنی غلط روایات سے منہ موڑنےوالے نہیں! فقط، دُور پار کی عزیزداری کی سند ہی کافی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ہم ’’متوکل‘‘ لوگ ہیں! اِس پر، ہم دونوں نے ایک ساتھ، بھر پُور قہقہہ لگایا۔

شادی میں، شامل ہوئے۔ میری توقع کے برخلاف، آپ نے کسی سے بھی کُھل کر، کوئی بات چیت نہ کی۔ بعد میں، میں نے پوچھا تو کہنے لگے، میاں! آپ کو جو، سب کچھ بتا دیا ہے۔ یہ کافی نہیں؟ اگر آپ ہی کچھ فائدہ اُٹھا لیں تو میرے لئے غنیمت ہوگا۔

اپنی زیست کی نصف صدی، پچاس سال، میں بھی پورے کرچُکا ہوں۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب کسی اور خان صاحب سے ملنے کا موقع اور ضرورت رہ گئی ہے۔ اب شائد میں خود ہی پانچواں خان صاحب ہوں!

 

پیش لفظ