پیلی کو ٹھی

 بیت الفضل

کہتے ہیں کہ انسان،  اُڑنے کیلیے پَر   چا ہتا ہے اور پرندہ  ر ہنے  کیلیے گھر!     اپنی پید ائش  کے معا ً بعد، قرونِ ُاولی (  بعید)  میں،  خونخو ار جانوروں اور قوی الجُثہ  درندوں سے بچنے کیلیے،  انسان  غاروں میں رہنے پر مجبور تھا۔ جوں جوں اسکی عقل اور سمجھ نے ترقی کی ، اس نے اپنی عا فیت  اور بقاء کیلیے،  پتھر، لکڑی  اور د ھا ت کے استعمال سے  دفا عی اور زرعی آلات  بنا ئے۔

اِس  حَربی اور فنیّ تر قی نے،   انسان کو اندھیری غاروں سے  نکا ل کر،  ارضی جنت، یعنی  سطح  زمین،  پر رہنے  کا حو صلہ اور  اعتما د   دیا۔ کچے پکے جھو نپڑوں سے لیکر آج کل کے، بڑے ،   پُر آسا ئش ، آرام دہ   اور محفو ظ گھروں تک کا یہ  سفر  ، انسان نے  20  ہزار سا لوں میں طے کیا ہے۔

چھنی ہنجرانواں والی سے کو ٹ شاہ عالم۔ وہاں سے مجوراں والی اور پھر دو با رہ    بذریعہ چھنی ہنجرانواں والی  سے ، ہما رے دادا میاں فضل دین صا حب نے ،  حا فظ آباد    شہر کی ، مغربی سرحدپر واقع ، کچی آبادی،  المعروف محلہ قتل گڑھ میں 1926 ء   میں پہلے کرا ئے  کا ، پھر چند ما ہ  بعد ہی،   ڈھائی  تین مر لے کا  اپنا گھر خر ید لیا۔

یہ محلہ،  ایک بہت اُدس  سی جگہ تھی! کیوں نہ ہو تی؟  اِسکا نا م ہی ،قتل گڑھ  تھا۔ ہما رے ددھیالی  گھر کی با ئیں یا  مغر بی دیوار،  امام با رگاہ سے سا نجھی تھی جبکہ  دائیں یا مشر قی دیوار کیسا تھ ایک چھو ٹی سی  گلی تھی جو ،  اس  محلے  کو، شہر  کی مرکزی  شاہر اہ،  جلا لپور روڈ   سے مِلا تی تھی۔  ارد گرد کے اکثر گھر،  شیعہ مسلما نوں کے تھے۔

 جملہ معترضہ  ہے کہ قدیم دور میں،  دو چا ر قتل ہو جا نے پر اس کا نا م  ،قتل گڑھا،  ر کھ دیا گیا تھا۔  اُن ، اِکےّ     دُکےّ  واقعات کا  موازنہ ، اگر وطن عزیز کے ، آجکل کے ،  حالات  سے  کریں، تو  اس کثر ت سے قتل و غا رت کا با زار گر م رہتا ہے کہ   پورے ملک کا  نا م  ہی ’’قتلستان‘‘    رکھنا پڑے گا۔نعوذ با اللہ!

خیر،  قتل گڑھ   میں، امام  با رگا ہ  ، جہاں تعزّیہ  اور دیگر تبر کا ت  رکھے جا تے ، کیسا تھ  ،  ایک امام با ڑہ (میدان ) بھی تھا  ، جہا ں مجا لسِ عزّا  ، لنگراور  ما تمی تقاریب   کا انعقاد ہو تا تھا۔   آخری اسلا می مہینے ذوالحج کے  اختتام  سے قبل    ہی، اس پورے علا قے کی رونق بڑھنا شروع ہو جا تی۔  ارد گرد کے علا قوں سے، محبّانِ علیؓ و حسنینؓ، شہد اےٗ  کر بلا ،  کا سوگ منا نے کیلیے ، اما م با ڑہ میں ، عا رضی رہا ئش کا اہتما م کر لیتے۔  مخیّر شیعہ و سُنّی  مسلما نوں کیطر ف سےمفت ،لنگر ِحسینی،   کا انتظام  کیا جا تا۔ چھو ٹے، بڑے، مرد ، عورت  اور بچوں کی  خو ب  ریل پیل رہتی۔ وطن ِعزیز، جغرافیا ئی لحا ظ سے ،  چو نکہ  خطِ استوَا  ، کے قر یب واقع  ہے، اس لیے ، مو سمی  ادوار  کا،    معتد بہ حصّہ گرم  رہتا ہے۔  اس کا مطلب یہ ہے کہ  30    میں سےقریباً 20   سال، محّرم الحرام کا    مہینہ،  نسبتاً  گرم  مو سم میں،  آ تا ہے۔ہمارا ددھیالی و   آبائی   علاقہ ہونے، خاندان کے کئی دیگر افراد  کی بھی اسی علاقہ میں رہائش  ، نیز اِسی محلے میں  ، ہما ری جا مع مسجداحمد یہ  اور کئی معزز  احمد ی احباب کے گھر  واقع  ہو نے کی وجہ سے، یہ عِلاقہ ،ہما را  پنا عِلاقہ، تھا  ۔ ہم بے دھڑک،  موسم اور وقت کی قید سے آزاد،  گھو متے اور  پھر تے تھے۔

قتل گڑھ چوک کے قریب ہی، جلا لپور روڈ پر ایک دو منزلہ شاندارعمارت ،  پیلی کو ٹھی  سب کی نظروں کو بھا تی  تھی۔ قیام پا کستان  سے چند بر س قبل ہی،  ایک ہندو رئیس نے اِسے تعمیر کروایا تھا۔ اُسکی بد قسمتی کہیئے یا ہماری خوش قسمتی،  کہ تقسیمِ ہند نے اسے یہاں رہنے کا مو قع نہ دیا،    اللہ بہتر جا نتا ہے !    راجہ ضیا ء الحق صا حب نے ،  بذریعہ متروکہ کلیم سکیم  یا قیمتا ً اسے حا صل کیا تھا ۔راجہ  صاحب  ہما رے  تا یا جی کے دو ست تھے۔آپکا زیادہ تر    خا ندان     راولپنڈی میں   مقیم تھا ۔ انہوں نے کبھی جو بے دلی سے کہا کہ سو چتا ہوں کہ میں بھی  وہاں منتقل ہو جا وں! تا یا جی نے جھٹ اپنی  خواہش بیا ن کر دی کہ ایک وعدہ مجھ سے بھی کرو  کہ جب کبھی،  تم  اِس گھر کو بیچو گے ، تو  سب سے پہلے مجھ سے با ت کرو گے!   آپ کو اس با ت کا  اِسقدر یقین تھا کہ آپ گھر کے ہر ایک فرد کو ، سالوں پہلے بتا چکے تھے کہ ایک دن  یہ گھر ہما را ہو گا، انشاءاللہ!

1967 ء میں یہ   کوٹھی، مبلغ 27000 روپے کی خطیر رقم  کے عِوض خریدی گیئ ۔ قر یباً3000  روپے دیگر اخراجا ت بھی  اٹھے۔   یہ اپنے حدود اربعہ اور محلِ وقو ع کے لحا ظ سے ، حا فظ آبا د شہر کی  سب سے  اعلی اور  نما یا ں  ترین عما رات میں سے   ایک تھی۔ شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والی مرکزی سڑک، جلا لپو  ر روڈ پر و اقع ، سطح زمین سے کم از کم   5   فٹ بلند( کر سی) ،  تین اطراف گلیوں  کی وجہ سے،  نہا یت روشن اور ہوا دار ،  50    فٹ     کشا دہ عرض اور  35  فٹ  بلند عمارت!   ما تھے  پر پیلے  رنگ کی قلعی   ، درمیان میں عموداً اٹھتے  ہوے  سفید رنگ کے بلندو بالا ستون  ،  لوہے کے جنگلے  سے  بنا ،  صدر دروازہ ،   جبکہ عقب میں   دوسرا  ،  روز مرہ  ، عام   استعمال کا  دروازہ ۔  لو گ،  اِسکو اندر سے   دیکھنے آتے  رہتے اور  جو بھی آتا ، خوش ہو تا اور دعا ئیں دیتے جا تا۔

مکا ن گوکہ   دو منزلہ تھا ۔ تا ہم اسکی بالائی چھت، مضبو ط و بلند منڈیروں سے محفو ظ   کر کے،   قا بلِ    استعمال بنا ئی گئی تھی۔  نچلی منزل  پر،6    عدد کشا دہ  کمرے  ،2  عدد  بر آمدے، ایک کشا دہ درمیا نی صحن،  اور دو  عدد غسل خا نے تھے جبکہ با لا ئی منزل پر ، 5  کشا دہ کمر ے  ، ایک خو بصورت  بالکنی  نما  راہداری،  بڑا اور کھلا صحن ، ایک بر آمدہ اور ایک غسل خا نہ تھا۔  ما لک مکا ن ، چو نکہ ایک آسودہ حال آدمی تھا اور خِشت ساز ی کی صنعت سے وابستہ تھا۔ لہذا ، اپنی زندگی کی بہتر ین  اینٹ، ریختہ   اور کا ریگر،    اُس نے اِس مکا ن کی  تعمیر میں  استعما ل   کیے  ۔ اِسی طر ح،    اعلی ٰمعیا ر کی  لکڑی  اور بہتر ین  بڑھئی  کی خد ما ت بھی    حا صل کی گئیں تھیں۔

ہر کمر ے میں کم از کم  2 عدد دروازے تھے اور بعضو ں میں تین بھی۔ ہر کمرے میں ہوا اور روشنی کیلیے کھڑکیاں اور روشندان ، وافر مقدار میں رکھے گئے تھے۔ پہلی چھت  14  فٹ اونچی رکھی  گئی تھی   جبکہ دوسری 12 فٹ کی بلند ی پر۔ ساری چھتیں لکڑی کے مضبو ط اور موٹے شہتیر وں اور  بازوں (بالو ں) سے  تیا ر کی گئی تھیں ۔ صرف با لائی منزل پر،  ایک   ضروری راہداری کنکر یٹ یا  لینٹر،  ڈال کر بنا ئی گئی تھی ۔1967 ء سے لیکر  2007 ء   تک ، چا لیس سالوں میں،  نہ تو اسکی چھتیں ٹپکیں، نہ لکڑی کو گُھن لگا  اور نہ ہی کوئی  دیو ار ٹیرڑ ھی ہو ئی۔  جب بھی  ، بڑوں نے ،  اس میں ،کو ئی تبد یلی  سو چی،   تو وہ با آسا نی ممکن ہو گئی۔ بلکہ ہر نئے  مِستری نے سا بقہ ما لک اور سا بقہ مستر ی کو داد ہی  دی۔ سبحان اللہ!

شا دیوں اور  بد لتے ہو ئے حا لا ت کی بدولت ، گھر میں کئی نئے طرز کے با تھ روم اور غسل خا نے   تعمیر ہوئے۔ برآمدوں کو کمروں اورملحق غسل خانوں (  اٹیچیڈ با تھ رومز) میں ڈھا لا گیا۔   البتہ زیر یں اور با لا ئی  کشا دہ صحن ،  جو ں کے توں ہی رکھے گئے۔

    ہما ری رہا ئش زیریں حصہ میں  تھی اور بالا ئی منزل پر،  ہما رے  تا یا  جی کی۔ بو قتِ خر ید ،  زیر یں حصے  کا بر لب سڑک حصہ ،  محکمہ  زراعت نے   ، بطور دفتر کر ائے  پر لے رکھا  تھا  ، جو بعد میں خا لی کروا لیا گیا۔  کچھ عر صہ  بعد  یہاں بھا ئی جان خا لد احمد  نے ،1983 ء/84 ء  کھاد کی ایجنسی کھو ل لی تھی۔ جبکہ  عقبی حصہ،  ہما رے استعما ل میں تھا۔    مشرقی  پختہ بر آمدے میں سا ئیکل سٹینڈ ،  جلا نے کی لکڑی اور بھینس کا واڑہ تھا۔ بھینس کے تر ک کر نے کیبعد،  یہیں ہمارا کچن بنا۔

زیریں بیٹھک میں والد صا حب کا پلنگ تھا اور کچھ کر سیاں ۔ سا تھ والا  کمر ہ   والدہ صا حبہ کا  ، جبکہ اسکے سا تھ والے بڑے کمرے  میں ہم  بہن بھا ئی رہتے تھےاور یہیں پر ہمارے  بڑی بڑی  جستی پیٹیاں اور ٹر نک بھی پڑے تھے۔ یہیں ،پنجیری ،بھی رکھی جا تی۔      معتدل گرم  مو سم میں، نچلے صحن میں، چار پا ییاں ڈالی جا تییں جبکہ زیا دہ گر می  پڑنے پر ،  اوپر وا لے صحن میں۔زراعت والوں کے نکلنے کے بعد، ایک درمیا نی کمر ے کو  ، بھا یی جان نا صر احمد نے ، خو بصورت ڈرایینگ روم کی شکل دی۔  نیا صو فہ سیٹ ،نیی الیکٹر ک وایئرنگ،  دیواروں  پر ، دیدہ  ذیب رنگین گلوب، نیا  پنکھا، خو بصورت و رنگین پر دے اور ٹیوب لا یٹیں۔۔۔ہما را گھر اس نئی بیٹھک سے ہی ،نیا ، بن گیا تھا۔ سب  بہت خو ش تھے۔

با لائی منزل میں، با یں جا نب ، پہلا کمر ہ بطور  بیٹھک ،  بھا یی جا ن نا صر احمد کا تھا۔ دوسرا کمرہ  اور ملحقہ بر آمد ہ  بلحا ظِ مو سم ، بطور کچن۔ اگلا کمرہ  بطور سٹور، پھر ایک  بڑا، مستعطیل  کمرہ   بطور  مرکزی رہا ئش گا ہ  اور آخری کمرہ بھی بطور رہا ئش اور سٹور استعمال ہوتا۔ بالا ئی صحن زیادہ کشادہ تھا  جس  کے ایک طرف  منڈیر کے سر   پر ، پودوں کیلیے خو بصورت  کیا ریاں بنی ہو ئی تھیں۔ ان   میں سے ایک میں ،تُلسی ، کا  قدیم پودا ، ہندو   مالکان  کا لگایا ہوا پہلے سے ہی مو جود تھا   اور  ہم اسے مہندی  (حنا) کا پودا  کہتے  تھے۔  بہت  بعد میں جا کر  معلوم ہوا کہ ، تُلسی ،  ہؔندو مت  میں  ایک بہت    مبارک  سمجھا  جا تا ہے اور   آنگن  کے وسط  میں  لگا یا جا تا ہے۔ اس پودے کی  عمر بہت  لمبی  ہو تی ہے۔ با وجود، ہر روز صبح صبح، اس کو پا نی دینے اور  اُسکے سا منے ’’پرارتنا ‘‘ کر نے  کے،  اس پودے کا  قد اور حجم   نہیں بڑھتا۔  دو اور  اہم اور قدیمی  پودے، جنکی خو شبو  سے پورا آنگن معطر رہتا وہ  مو تیے اور  نیاز ؔبو (پودینے ) کے تھے ۔ تا یا جی مرحوم  نیا ز بو کے  چند  تا زہ  پتے  روز کھا تے اور ہمیں بھی کھا نے کو  کہتے  کہ ہا ضم ہو تے ہیں۔ 

گر میوں میں دونوں  گھروں کی چار پیاں   بھی اس با لا ئی صحن  میں بچھا ئی جا تیں اور مو تیے کے تا زہ  پھول  توڑ کر سر ہانے رکھے جا تے۔  صحن کے  مشرقی   طر ف   ، ایک کو نے  میں، گر میوں میں روٹیاں پکا نے کیلیے،  ایک  ذاتی تندور بھی  لگایا گیا تھا۔  جہاں  نہ صرف ہما رے لیے    بلکہ ہما ری  دوسری خا لاوں کے گھروں کیلیے بھی  روٹیاں پکا  ئی  جا تیں ۔   گُڑ کی میٹھی اور بیسن کی نمکین  (مِسّی )  روٹیو ں کے علاوہ ،’’ ٹاپ ‘‘ ، ہم  سب کی پسندیدہ  روٹی  تھی۔ اِسکے ساتھ ایک چھپر (جس کو ہم چھپڑ کہتے) بھی تھا جسکے نیچے چار پیاں رکھی جا تیں اور اوپر،  مو سمی  ایندھن المعروف’’ با لن‘‘!

اس صحن کی چھت ہم سب کیلیے بہت کا ر آمد اور مفید تھی۔ ہم یہاں، بلحا ظِ مو سم ،  ہر  طرح کا   کھیل  کھیلتے   ۔ سرخ اینٹوں سے بنا ،  خو بصورت فر ش، بارشوں میں، ہم ، پر نالوں کے  مہنوں  (دہانوں ) میں، پُرانے کپڑے ٹھو نس کر ، پانی اکٹھا کر لیتے اور  مچھلیوں کی طرح تیر تے پھر تے۔ خشک  مو سم  میں ، والدین یہاں انا ج  پھیلا کر سُکھا تے۔ شادیوں کے دوران، یہی صحن  ایک  بڑے دالان  کے طور پر کا م آ تا۔  سبحان اللہ!

    دوسری با لا ئی  چھت ، جہاں  پر گھر کیلئے پا نی کی ٹینکی اور  ابتدا ئی  بیت الخلاء بھی  تھا ،     سب لوگ بھر پو ر انداز  میں، برعا یت  پر دہ،  وہا ں آتے   جا تے ۔ وہاں بیٹھنے کیلیے، بجا نب  شمالی سڑک،  دو بڑی بڑی  شہہ نشینیں  بنا ئی گئی تھیں۔  ہم بچے وہاں کھیلتے کو دتے  اور   پتنگ با زی کر تے۔ اس سے موزوں چھت، اس ،مقصدِ عا لیہ، کیلیے ہما رے پو رے خا ندان   میں حا فظ آ با د میں تو  کیا    ، پو رے پا کستان میں نہ تھی۔ مو سم خزاں میں، درختو ں کی چھنّا ئی کے بعد ، ہر سال کثیر مقدار میں با لن( ایند ھن)   اس چھت پر بھی   سٹور کیا جا تا۔ سب سے بڑ ھ کر، ابتدا ً ، گھر بھر کی اکلوتی بیت الخلا بھی اسی چھت پر واقع تھی ۔ کیا زما نہ تھا صبر اور ڈسپلن کا !   سا رے گھر کے  10 / 15  افراد علی الصبح یہا ں ،حا ضری، دیتے۔ بلا مبا لغہ،  ایک لا ئن لگ جا تی۔   تا ہم بچوں کو اسثتنا ء حا صل تھی کہ وہ  درمیا نے  فلور پر ، مشرقی دیوار کیسا تھ واقع  پر  نالے پر ہی اپنا ،بو جھ ، ہلکا کر سکتے تھے۔   

یہاں میں،  ان غریب، محنت کش   اور مسیحی  برادری کے مردو خواتین  کے لیے ،   دل  کی گہرا یو ں سے،  نیک تمنا وں  کا اظہار کر نا چا ہتا ہوں   اور اُنکے لیے دعا گو ہوں ، جنہوں نے اپنا اور اپنے پیاروں کا ،محض پیٹ پالنے کیلیے ، ہمارے پا خا نے ، اپنے سروں پر ، اُٹھا  کر، ہمیں را حت پہنچائی ۔ اِس مشقت کے اُٹھانے کو،  انہیں  علی الصبح ، اپنے گھروں سے نکلنا  پڑتا۔ اکثر گھروں میں،   بیت الخلاء بالائی منازل پر واقع تھے۔لہذا،انہیں روزانہ  کئی کئی  با ر    سیڑ ھیاں چڑھنا   اترنا پڑتیں۔ اللہ تعالی رحم فر ماے، با جی پر وین پر، اُسکی والدہ پر اور اسکی نا نی ماں جیو ؔاں پر،  جو برس ہا برس ، یہ نا پسندیدہ  خدمت ، محض  رزقِ حلال کما نے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے   بجا لاتی رہیں۔ بے شک ہمارے والدین، رحمدل اور دو سروں کا خیا ل رکھنے والے تھے۔ نہ صرف تنخواہ  بلکہ کپڑا لتّا، موسمی پھل اور اناج  بھی  دیا جا تا۔ صبح کا نا شتہ، چائے  و غیرہ  دی جا تی۔ سب سے بڑھ کر، سارے گھر انے کی دوا   دارو بھی مفت دی جا تی۔ با وجود اس  سب  کے ،   وہ ہمارے مُحسن تھے۔یا باری تعالیٰ تو بھی  اُن سے احسان کا سلوک فرما، آمین۔

خدا  تعا لی ، سر جان ہیرنگٹن  صاحب کا بھی بھلا  کرے، جنھوں نے   1592 ء میں  ، جدید فلش سسٹم  کی بنیاد رکھی۔  رینگتے رینگتے ،  اِس نظام  نے انگلستان  سے ہندوستان تک کا سفر، قریباً  ساڑھے تین سو سال میں طے کیا ۔   ہما رے بزرگوں نے بھی  ، اولیں فر صت میں،  اس نظام سے  استفادہ کر لیا۔یہ 1984 ء  کی بات ہے۔   اکثر لو گ ہما رے ہا ں اس نظام کو دیکھنے آتے۔

جولائی  1968  ء میں میری پیدائش،  اس گھر کی پہلی خوشی ثابت ہوئی۔ پھر با جی نسیم  اختر کی شادی !   پھر وسیم احمد، مسعود احمد، ندیم احمد، اعجاز احمد، فیا ض احمد،  رافعہ نا صر، میمونہ نا صر،  عمارہ  خا لد، محمد حسیب اللہ ،مصور احمد اویس بشری خا لد، مہروز احسان اللہ، شہر یار احمد اورآخری پیدا ئش،   اس گھر میں عزیزم فر حان جا وید کی ہو ئی ہے۔

جہاں اس گھر میں نئی نئی زندگیوں نے جنم لیا،   وہیں کچھ لوگوں نے اسی گھر سے،  زندگی کو خیر آبا د بھی کہا۔ ان میں سب سے پہلے ہما رے پیا رے دادا جان میا ں فضل دین مر حوم    1971 ء،   ہما ری دادی جان محتر مہ اللہ جوائی صاحبہ 1974 ء اور ہمارے والدین کی  پھوپھو مر یم بی بی  صا حبہ بنت میاں کھیواؔ مرحوم ،   1976 ء میں ۔

اس گھر سے  ہم سب کی بہت ہی حسین و خوشگوار یادیں  وابستہ ہیں۔  کسی کا بچپن، کسی کا لڑکپن اور کسی کا بڑھا پا  یہاں پر گزرا۔  لیکن، الحمد للہ!   خو شی ہی ،  سب کی یا دوں   کا  محور  ہے۔  کھا نا  پینا، ہنسنا  کھیلنا ،  پیا ر ، محبت  اور اتفاق سے عبارت  یہ عمارت!  رو نق ہی رو نق  تھی   جہاں!

ہر قسم  کا مو سمی  پھل فروٹ،  سبزی و تر کاری ، کثرت کیسا تھ، اپنی زمینوں  اور بازار سے، وافر مقدار اور تعداد میں آتی۔ سردیوں میں  تو مو جیں ہو جا تیں۔ خشک میوہ جا ت، کئی کئی روز تک چلنے والے روغنی پکوان جیسے چاولوں اور السی کی پنیاں، انواع و ا  قسام کی دالیں  و  پنجیریاں    بنتی تھیں۔ گندم اور دھان (چاول ) ،  کینوں ما لٹے ،   مکیی کے بھٹوں  اور  مو نگ پھلی کی بو ریاں،  چلغوزے، پستہ ، با دام  ،  اخروٹ  اور سنگھا ڑوں کے توڑے، انڈوں کی  پیٹیاں، ریوڑی، مرونڈے ، پھٹورے، مودے حلوای کی دوکا ن سے کھو ے کے پیڑے، سمو سے، کچوریاں ، قسمہا قسم کے گڑ، روو ( گنے کا رس)  کے پیپے اور بوولی (خا ص قسم کا گا ڑھا  دودھ)    کے دوھنے،   یہ بیش قیمت  انعامات با ر با ر  اور  سالہا سال   ، ہر مو سم سر ما میں  دیکھتے۔ اور اس  وقت تک دیکھتے رہے ،  جبتکہ  اللہ تعالی کے ،  دو پسندیدہ  اور نیک  وجود  ہما رے  والد  اور  تایا ، ہما رے سا تھ تھے۔ مو سم گرما  کا حال اس سے مختلف نہ تھا۔  خربوز ے اور ککڑیوں  کی چھٹیں (بڑے بورے) تربوز کے ریہڑے، تروں اور کھیروں کے تو ڑے، کچے اور پکے  آموں  کے ٹو کر ے،  قسمہا قسم کے شربت، کھو ے کی قلفیاں، فلودے، دودھ  سوڈے  اور آیس کریم ،  تخم ملنگے، گوند گتیرے،  صبح  سویرے  میٹھی و کسیلی سردایاں،   دہی و بَن  اور چنے کلچے ، کے نا شتے ! الحمد للہ فالحمدللہ علی ذالک

ستمبر1982 ء  میں  ہم لو گ با جی شمیم اختر کی شادی اور دیگر وجو ہا ت کی بنا پر ،  عا رضی  طور پر ، منور احمد مغؔل صا حب  کے،  ایک کر ائے کے  گھر   میں منتقل ہو ئے۔ اپریل 1983 ء  میں شادی ہوئی   اور  نومبر 1984 ء  میں والد  صاحب کی وفا ت  سے ، سا رے  پروگرام ہی بدل گئے۔

پیلی کو ٹھی  بھی،  ہمارے سا تھ ، غم و حزن کا شکا ر  ہو گئی۔ اُسکا  اپنا رنگ  بھی  ، پیلا اور پھیکا ،     پڑ گیا تھا ۔ پہلے اسکے  ہاں  سے رونق  کم ہو ئی  ، پھر   خو شی   کی فضاء ر خصت  ہوئی ۔  پھر تا یا جی کی   اُداسی   اور بیماری   نے اسے اور کمزور کر دیا ۔ بھا ئی جا ن  نا صر احمد، چو نکہ  میڈیکل پریکٹیشنر  تھے انہوں نے  یہ محسوس  کر لیا تھا  اب اس  پیا رے    بزرگ وجود(پیلی کوٹھی )   کا   بچ رہنا  مشکل ہے۔ تو انہوں نے ، مرحوم  تا یا جان  کو  اس بزرگ  کے ، بڑے   آپر یشن،   پر راضی کر لیا۔ ہم نے بھی، چارو نا چار،   اثبا ت  کا وزن ، اُن کے پلڑے میں ڈال دیا   ۔  چنا نچہ  2007 ء    میں یہ  آپریشن  شروع ہوا اور تین سال تک  چلتا رہا۔   ہم سب  بھی ، اُس کے سا تھ    دکھ اور کرب  سے  گزرتے رہے۔   اللہ تعالی نے ایک با ر پھر،   ہم پر اپنے  بے پناہ کرم اور فضل کا سایہ کیے رکھا اور آپر یشن کا میاب ہو گیا۔  نتیجتاً   ایک  نئی   زندگی اور ایک نیا روپ  ہماری  ،پیلی کو ٹھی، کو  حاصل  ہو گیا۔ ما شاء اللہ !  سرخ و سپید، تنو مند، اور تین  منزلہ  ہسپتال کی  عظیم الشان تعمیر 2010 ء  میں   ہو گئی  تھی۔

اِسکا نیا رنگ روپ بھی، ہما رے  تا یا جا ن مرحوم کی بدولت ہی آیا تھا۔  جو  اُنکی ،  قا بلیت،  الوالعزمی، حو صلے، جو انمردی او ر تخلیقی صلاحیتوں  کا منہ بولتا ثبو ت ہے۔    اللہ تعالی سے  دعا ہے کہ وہ وقت جلد اور خیر و خو بی والا آے جب ڈاکٹر شہر یا ر  احمد اور ڈاکٹر مہروز احسان اللہ اپنے    دادا  مرحوم کے تیا ر کردہ  ہسپتال میں ، بالترتیب اپنے   پیا رے تا یا  اور  والد ڈاکٹر نا صر احمد سلمہ تعالی ،  کیساتھ   مل کر کا م کریں اور  اپنے نا نا ،  ڈاکٹر بشیر احمد مر حوم  کا نا م روشن کر یں، آمین و ثم آمین۔

 

پیلی کوٹھی ،  زندہ آباد!