(1931ء – 2011ء)
مورخہ 8 نومبر 2011 ء کو سوانزی( ساوتھ ویلز) میں، نماز عید پڑھا نے کے معاً بعد، میں سیدھا ہیتھرو ایٔر پورٹ کیلیے روانہ ہو گیا۔ چند ماہ قبل ہی میں، مع اپنے بیوی بچوں کے سا تھ، بخوشی پاکستان سے ہو کر آیا تھا۔پاکستان کا یہ سفر، باالخصوص ڈایٔریکٹ فلائٹ سے، بہت ہی خو شگوار ہوتا اگر ایک روز قبل محترم تایا جان کی وفات نہ ہوگئی ہو تی، جس سے عید اور پاکستان جانے، دونوں کی خوشی ، جا تی رہی۔ ۔ا نا للہ و انا الیہ رجعون
شام 6 بجے لندن سے روانہ ہو نے والی یہ فلائٹ، اگلی صبح ۹ بجے، اسلام آباد پہنچی، جہاں میرے دو قریبی ،عزیزم قمر احسان اللہ اور اسکے والد محترم صادق مجید اللہ صاحب مو جود تھے۔ بغیر کسی توقف کے بذریعہ کار ، حافظ آبا د کیلئے روانہ ہو گئے۔ موسم نسبتاً کم سرد ، لیکن زیادہ اُداس تھا۔ یادوں کی بارات تو میں لندن سے ہی سا تھ لا یا تھا، لہذا سفر کٹتے دیر نہ لگی اور شام ڈھلتے ہی، ہم مدینہ کا لونی ، حافظ آباد پہنچ گئے۔ یہاں صرف ہمارا انتظار ہی ہو رہا تھا۔با قی سب مو جودتھے ۔ مختصر سلام دعا اور وضو کے بعد ، میں محض دل کی تسلّی کیلئے، اپنے تایا جان کی چارپائی تک آیا اور بلند آواز سے سلام کیا۔ جواب ندارد۔ میں تھو ڑا اور آگے ہوا ، پھر سلام کیا، پھر وہی خامشی، میں نے پر یشان ہو کر ، تا یا جان کا چہرہ اپنے دونوں ہا تھوں میں ایسے لیا، جس طر ح اُس بزرگ نے 27 برس قبل اپنے چھو ٹے بھا ئی اور میرے والد کے چہرہ کو اپنے ہا تھوں میں لیا تھا۔ ہم دونوں کو ہی یہ یقین نہیں ہو رہا تھا کہ قضائے الہی صادر ہو چکی ہے۔
درو شریف اور مسنو نہ د عاوں کا ورد کرتے جنازہ ، احمد یہ قبرستان ڈھینگراں والی روڈ، کیطرف رواں دواں تھا۔ اہل خاندان و شہر سا تھ تھے جبکہ قرب و جوار کی جماعتہاے احمد یہ سے اکثر دوست احباب پہلے سے ہی قبرستان میں مو جو د تھے، جن کی تعداد سینکڑوں میں تھی۔ اُن میں آپکے کئی غیر از جماعت دوست اور کا رند ے بھی مو جود تھے۔ کم از کم 8/10 مربیان شہر و ضلع مو جو د تھے۔ گو جرانوالہ سے بھی امیر صاحب جما عت اور مر بی صا حب ضلع تشریف لائے ہو ئے تھے۔ جنازہ تیا ر تھا ، صف بند ی ہو رہی تھی ۔ اس دوران، بھائی جان ڈاکٹر نا صر احمد اور ہمارے امیر صا حب ضلع حا فظ آباد ، برادرم ڈاکٹر مبا رک احمد صا حب ، خاکسار کے پا س آئے اور بتا یا کہ نما ز جنا زہ تم پڑھا رہے ہو!
دُکھ کی اس گھڑی میں ، یہ با ت میرے لیے کسی اچنبھے اور چوب ( چبھن) سے کم نہ تھی۔ میں نے عرض کیا کہ کئی معزز احباب، جما عتی عہد ید اران و مر بیا ن اکرام کی مو جودگی میں اسکی کیا ضرورت ہے؟ تا ہم دونوں کے مسلسل و پیہم اصرار پر ، یہ سعادت خا کسار حصہ میں آ ئی۔ نجا نے اُن دُونوں کے دل میں کیا با ت تھی ، جو انھوں نے یہ فیصلہ لیا تھا۔ و اللہ اعلم با الصواب۔
تدفین کے بعد گھر پہنچے، دیگر عزیز و اقا رب سے ملا قات ہوئی۔ محمود احمد پہلے ہی سے انکی عیا دت کیلیے یہاں مو جو د تھا۔ ایک دو روز بعد اُسکی واپسی تھی۔آہستہ آہستہ دیگر رشتہ دار بھی ، اپنے اپنے گھروں کو اور زندگی اپنے معمول پر لوٹ رہی تھی۔ فقط تا یا جی ہم میں نہیں رہے تھے ۔ ہا ں ! انکی یاد البتہ ، رہ گئی تھی۔
رشتہ کے لحا ظ سے، غیروں سے تعارف کر واتے ہو ئے اور سر کاری و کا غذی کا روائی کے وقت، وہ ہما رے تا یا جان تھے۔ لیکن روز مرہ کی بول چال میں ، ہم انہیں بڑے ابا جی کہتے۔ ہمارے والد بشیر احمد اور تایا جی محمد عبداللہ حقیقی معنوں میں، یک قالب دو جان کے مصداق تھے۔ پیار اور محبت کا جو مثالی رشتہ اور اخوت کا جو اٹوٹ تعلق ، ان دونوں بھایئوں کے درمیان تھا، بس یہی حقیقت تھی ، با قی سب کچھ افسانہ !
یہ گھرانہ6 بھا ئیوں اور 3 بہنوں پر مشتمل تھا۔سارے بشمول والدین ایک ایک کر کے اللہ کو پیا رے ہو گئے تھے۔ میاں علی محمد،میاں دوست محمد , میاں نو ر محمد میاں غلا م علی ، دولت بی بی ، خا تون بی بی محمد عبد اللہ بشیراں بی بی اور بشیر احمد۔
محترم تا یا جان، 1931 ء میں اپنے آبائی گھر، محلہ قتل گڑ ھ میں پیدا ہوئے۔ ہجرت اور غربت کی فضا میں آٹھویں تک تعلیم حاصل کی۔ آپ حسا ب کے مضمون( میتھ ) میں بہت اچھے تھے ۔ اور ساری عمر، آپ نے اس قا ہلیت کا تاج ، اپنے سر پر سجا ے رکھا ، ما شا,اللہ۔ باقی مضامین میں بھی آپ اچھے تھے لیکن انگر یزوں نے ، چونکہ آپ کے آباء کی زمینوں پر قبضہ کیا تھا۔ اسلیے اُنکی زبان سے ذرا خا ر کھا تے تھے۔ لیکن آپ اس محاذ پر بھی کبھی پر یشاں نہ ہو ئے۔
اِس دوران، جیسا کہ دستور تھا، بچپن سے ہی ، ا پنے بڑوں یعنی دادا اور والد کا، ہر کا م میں ہا تھ بٹاتے۔اور یہ کام آج کل کے ڈرائینگ روم سٹا ئل کے کام نہ تھے ۔ بلکہ مشکل اور بھرپور ! مثلا گھر کے ایک کا موں میں ایک کا م بلا نا غہ ، سردیوں یا گر میوں میں، بھینس کیلیے، دُور زمینوں پر جا نا ، چا رہ کا ٹنا، کمر (یا بعد میں) سا ئیکل پر لا د کر گھر لانا۔ اُسکو دیگر چا رے سے ملا کر، بھینس اور گائے کو کھلانا، اس کو پچکا رنا اور بعد میں اسکا دودھ دھونا، جا نور کی اپنی اور پھر اسکی جگہ کی صفا ئی کرنا۔ ۔۔۔ یہ سب کچھ مسلسل اور ایک ہی کام تھا۔۔۔کہنے کو تو نہ ایک فقرہ تھا کہ ’’مج یا گاں نوں ویکھیں پُتر‘‘ !۔ سبحان اللہ!
با ہر کے کا موں میں ، ارد گرد، ٹھیکے پر لی ہو ئی زمینیں اور دیگر کاروبار تھے۔ زندگی اسقد ر مصروف تھی کہ پڑ ھائی کیلیے نہ تو وقت میسر تھا اور نہ ہی والدین کا وژن! اللہ بخشے ! دادا جا ن کے بقول پڑ ھ لکھ کر بھی تو ، یہی کچھ کر نا ہے۔ ’’مج نو ں کون ویکھ سی؟‘‘ جو کہ واقعی ایک اہم سوال تھا۔ لہذا آپ کو تعلیم کا سلسلہ چھو ڑنا پڑا۔ لیکن سب یہ ما نتے ہیں کہ جو بھی پڑھا، بہت خوب پڑھا، ما شا ء اللہ۔ میتھ کے علا وہ، معا شر تی و جغر افیایی علوم، پٹوار، قا نون اور کو رٹ کچہری کے گو رکھ دھندے آپ خو ب جا نتے اور سمجھتے تھے۔ آ پ اپنے ہم عصروں، بڑوں اور چھو ٹوں ، میں سب سے زیا دہ پڑھے لکھے بزرگ ما نے جا تے تھے۔
خدا تعا لی کے فضل سے آپکا زہن اور حا فظہ دونوں بڑے زر خیز تھے ۔ جو بات ایک دفعہ ُسن، پڑھ اور دیکھ لیتے ، یاد رہتی۔ میں نے آ پکو وکلاء ، قا نون گو حضرات، پٹواریوں، زمینداروں (بڑے اور چھو ٹے) ہر ایک سے ملتے اور اپنی قا بلیت کی داد وصول کر تے ہو ے دیکھا ہے۔
علاوہ ازیں ہر شعبہ ہا ے زندگی، چا ہے وہ زرا عت ہو یا تجا رت، طب ہو یا حکمت، رقبہ ہو یا عمارت، خدمت ہو یا عبادت، سیر ہو کہ سیا حت، ارادت ہو یا سیادت، ہر پہلو ہا ے زیست میں ، بفضل تعا لی، با مر اد ا نسان پا یا۔
آپکے اپنے بقول، یہ محض اللہ تعا لی کی دین اور والدین کی دعاوں اور اُنکی اپنی محنت کا ثمر تھا۔ اللہ تعا لی نہا یت رحم کا سلوک فر ما ے اور کر وٹ کرو ٹ جنت عطا فر ما ے ہما ری دادی جا ن کو، اہل خا ندان جا نتے ہیں کہ کس قدر’’ شیر یں اور محبت آویز ‘‘ اسلو ب تھا آپکا !۔۔۔ تا ہم جو نیک اور با وقا ر اسلوب ہما رے تا یا جان نے اختیا ر کیا، وہ ہما رے دادا جا ن کی میر ا ث تھی ۔
آپ نہا یت خو برو، سرخ و سپید ما ئل بہ گندمی ،رنگت کے حا مل، تنو مند اور مردانہ و جا ہت کے ما لک اور قسمت کے دھنی انسا ن تھے۔ جس چیز کو چھو تے، بفضلِ تعا لٰی سونا بن جا تی۔ مذکو رہ با لا صفا ت ، گو شت پو ست کے انسان کا قد کا ٹھ، جس طر ح بلند کر تی ہیں ، اُسی طرح ، باآسانی، اُسے بے راہ رو بھی بنا سکتی ہیں ۔ لیکن بفضل ِتعالیٰ ، آ پ ایک نیک سیر ت اور با حیاء انسان تھے۔یہ ایک نہا یت با ریک اور غور طلب با ت ہے۔
آپ نے جس طر ح کا احترام والد ین کے سا تھ روا رکھا ، وہ ہما رے لئے ضرب المثل ہے۔ دیگر افراد خا ند ان و بہن بھا یوں کیسا تھ آپکا سلو ک کیسا تھا ؟ میں زیادہ نہیں جا نتا۔ ہا ں! یک با ت البتہ ، میرے روز مرہ کے مشا ہد ہ میں تھی، وہ یہ کہ آپ اپنے چھو ٹے بھا ئی سے جسطر ح کا بر تاو کر تے، وہ یا د گا ر اور مثا لی تھا۔ اس تواتر سے میں نے انہیں اپنے چھو ٹے بھا ئی سے احترام کیسا تھ پیش آتے دیکھا ہے کہ آجکل کی دنیا میں یہ ایک خواب و خیا ل ہی لگتا ہے۔ نا ممکن ہے کہ ایسا انسا ن اپنے بڑوں سے کو ئی کم تر سلو ک روا ر کھ سکے۔ یہ ہے ہما ری وراثت۔ یہ ہے ہما را خا ندانی امتیاز! یہ کسی کی دو لت کی وجہ سے نہ تھا بلکہ یہی اُنکی تر بیت تھی۔
آ پ دونوں بھا ئیوں کی پیشا نیاں کُشادہ تھیں۔ اخلاص ، محبت اور محنت کے نتیجے میں وافر رزْق، خدا تعالی نے انکے مقدر میں لکھ دیا تھا۔ نتیجتا ًیہ کا م بدلتے ر ہے اور کا میابیاں انکے قدم لیتی رہیں ۔ بچپن اور جوانی میں اپنے ما مووں کے زیر اثر، بزازی (کپڑا فروشی) کام شروع کیا۔گھر گھر، گلی گلی اور پھر گا ؤں گا ؤں، سا ئیکلوں پر ، سردی اور گر می کا لحاظ کیے بغیر ، محنت اور لگن سے نہ صرف دام کما یا بلکہ نا م بھی! بعد میں ، تھا نہ صدر کی دیوار کیسا تھ با ہر کیطر ف بر لب سڑک ، کپڑوں کا ایک پتھا را ( خوانچہ) لگا یا۔اس اثنا ء میں، میو نسپل کمیٹی نے ستارہ ما رکیٹ کے منصوبے کا آغاز کیا تو سب سے پہلے را بطہ کرنیو الوں میں آپ بھی شا مل تھے۔یہی نہیں، آپ نے دیگر احمد ی و غیر احمد ی عزیزواقارب و محلے داروں کو بھی اس منصوبے سے بھر پور فا ئدہ اُٹھا نے کی طرف توجہ دلا ئی۔ بذات خود، پہلے ایک، پھر دو، پھر تین اور با الآخر، چار دوکا نوں کے ما لکا نہ حقوق حا صل کر لیے۔ بعد ازاں جب کمیٹی کیطر ف سے ، ما رکیٹ کے دوکا نداروں / ما لکان کی انجمن کی صدارت کیلیے الیکشن یا تقرری ہو ئی تو آپ کو ستا رہ ما رکیٹ کا پہلا چیرٔ مین منتخب یا مقرر کیا گیا۔
آپکی شخصیت ہر فن مو لیٰ تھی۔ کھیتی با ڑی کا شوق آپکی رگ رگ میں بستا تھا۔ پبلک ڈ یلنگ اور کا رو با ر کی سمجھ بو جھ میں ، آپکا ڈنکا بجتا تھا ۔ طب کا علم آپ نے اپنے بڑے بھا ئی اور بزرگوں سے حا صل کیا۔قانون کچہری کے معا ملا ت اپنے دوستوں سے سیکھے۔ حتی کہ آپ کپڑے سینا بھی جا نتے تھے اور گھر کے مستری، مو ٹر مکینک اور پلمبر بھی خودہی تھے۔
آپ وقت کے ضیا ع سے نا بلد تھے، اسی لیے آپ کے دوست نہ ہو نے کے بر ابر تھے۔ جو تھے وہ آپ کے کاروباری پا رٹنرز بن جا تے تھے۔جیسا کہ چوہدری محمد سعید صاحب آف کو ٹ حسن خا ن اور غلام غوث صا حب و ر حمت اللہ صا حب پٹو اری ۔ ان دوستوں کیسا تھ مل کر ہی آپ نے و قتا فو قتا ، مو ضع جو ڑیاں والا، ڈھینگراں والی اور مٹم فیروز والا میں وسیع زرعی رقبے، جنکی ابتدائی اور کل پیما یش 6 مر بع یعنی 150 ایکڑ سے بھی زائد تھی ، جو قا بلِ انتقال زرعی یو نٹوں کے ذریعہ سے خریدی گئی تھی ۔
قیام پا کستان کے بعد، مسلمان مہا جرین نے، ہندوستان میں اپنی متروکہ املاک کے عو ض اور تبادلہ کیلیے جو کلیم داخل کیے تھے انکی تصد یق کے بعد ، حکو مت پا کستان ، پا کستان میں دستیاب ہندوں اور سکھوں کی مترو کہ املا ک کے متنا سب، ملکیتی کلیم منظور کر تی اور زمین الا ٹ کر تی تھی۔ مسلہ ء اتنا آسان نہ تھا۔ پنجا ب میں ، مہا جر ین اکثر سر حد ی اضلا ع سیالکو ٹ، نا روو ال ، پسرور، اوکا ڑہ وغیرہ میں رہا ئش پزیر تھے جبکہ اُنکی الاٹمنٹس، سینکڑوں میل دور شیخو پورہ، خا نقاہ ڈوگراں ، لا یٔلپو ر، حافظ آباد اور پنڈی بھٹیا ں و غیرہ میں کر دی گی تھیں۔ ایسے حالا ت میں ، نئے ما لکان اتنے ہی پریشان تھے جتنے کہ زمین نہ ملنے سے۔ ایسے میں، پٹواریوں نےبزات خود اور اپنے دوستوں اور مقا می زمینداروں کو یہ راہ سمجھائی کہ ، کلیم والی زمین خرید کر، مہا جر ین کی اور اپنی مدد کریں۔ سب سے پہلے 1965 ء میں مو ضع جو ڑیا ں والا میں ، قر یبا 70 ایکڑ زمین خر یدی گی۔ نصف سے کچھ زائد چو ہدری محمد سعید صا حب اور ایک مر بع کے قر یب ، ان دونوں بھا ئیو ں کے نام۔ کچھ عر صہ بعد، قر یبا 60 ایکڑ رقبہ مو ضع ڈھینگراں والی میں چو ہد ری ر حمت اللہ کے سا تھ مل کر خریدا جس میں سے قر یبا27 ایکڑ اِن دونو ں بھا ئیو ں کے نا م تھا۔بعد ازاں، تیسرا رقبہ، مو ضع مٹم فیروز والا میں خریدا گیا ۔ نصف سے کچھ کم ان دونوں بھا ئیو ں کے نا م اور نصف سے کچھ زیا دہ ، ہما ری دو پھو پھیو ں کے نا م تھا۔ ریکا رڈ کی صحت اور درستگی کیلیے عر ض ہے کہ اوپر جہا ں میں نے دونو ں بھا ئیوں کے نا م نصف کا ذکر کیا ہے، وہ محا ورۃً ذکر کیا ہے ۔ وگرنہ ، مو ضع جو ڑیا ں والا میں 24 ایکڑ والد صا حب کے نا م جبکہ ایک، ڈیڑھ ایکڑ تا یا جی کے نام تھی۔ اُسکے با لمقا بل ڈھینگراں وا لی میں، 26 ا یکڑ تا یا جی کے نام ایک بیگھہ والد صا حب کے نا م جبکہ موضع مٹم فیروز والی میں 18 ایکڑ والد صا حب کے نا م جبکہ ایک ا یکڑ تا یا جی کے نا م تھی۔ اس تقسیم میں کچھ حکمتیں تھیں ، جیسے کہ دونوں اطراف میں بطور مالک ، نام کاغذات/ریکارڈ میں رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔وغیرہ
مو ضع جو ڑیاں والا رقبہ 1966/67 ء میں( 500 روپے فی ایکڑ ) بیچ کر ، پیلی کو ٹھی کی خر ید میں کا م آ گیا۔
بنیا دی طور پر، محترم تا یا جا ن مر حوم کی زندگی کو ہم دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ اوّل، 6 نو مبر 1984 ء سے قبل ، جس میں جو ش و جذبہ ، تعمیر و ترقی اور استحکا م کے پہلو ، نما یا ں تھے۔ یہ دور، خوشی، خرچ اور خر ید کا دور تھا۔ ہر طرح کی جا ئیداد، زرعی و غیر زرعی کی خر ید اور افزودگی جا ری تھی۔ ہر ایک ، بچوں، بڑوں، مردوں اور عورتوں کے بینک اکا ونٹس کھلواے جا رہے تھے۔ مختلف بینکوں اور ادارہ قو می بچت پا کستان کے مینیجرز، بطور خا ص، سلام کر نے ، کلینک پر حا ضر ہو تے۔ سا لا نہ تعطیلا ت کے دوران، سیرو سیا حت کے با قا عدہ پرو گرام بنا ئے جا تے۔ ریڈیو، ٹیلی فون، ٹیلی ویژن، سا یئکل و مو ٹر سا یئکل، ریفر یجریٹر ز، اور گھر یلو استعمال کے ہر قسم کے آلا ت اور مشینیں، قبل از وقت، بچوں اور بچیوں کی شادیو ں کی تیا ری کے سا مان، زیورات کی تیاری، دیگر بہن بھا ئیوں اور عزیز و اقارب کے مکا ن و دکا نات کی خر ید میں مد د وغیرہ شا مل تھی۔
دوسرے حصہ زندگی میں البتہ، ایک ٹہر او اور اُتا ر کی حا لت تھی۔ بھا ئی کی بے وقت مو ت کا غم،اپنی صحت کی کمزوری کیوجہ سے، ایک اسٹیٹس کو، اور بچت کا سا ماحول تھا۔ لیکن اس دور میں بھی کئی اہم کام ہوئے۔ جیسا کہ احمد یہ قبر ستان حا فظ آبا د کا آغاز! جنرل ضیا الحق کے بدنا م زما نہ آرڈیننس کیو جہ سے، جما عت احمد یہ کی، پا کستان میں مخا لفت زوروں پر تھی۔ ہر طرف با ئیکاٹ کا ما حول تھا۔ احمدیو ں کو عا م قبرستانو ں میں تدفین کی اجا زت تو در کنا ر، پہلے سے مدفون احمدیو ں کو بھی قبروں سے نکا لنے کے وا قعا ت رو نما ہو رہے تھے۔
ایسے میں،7 نو مبر 1984 ءکو شیخ محمد اسحا ق صا حب کے گھر ایک میٹنگ ہو ئی ، جس میں ، مجلس ختم نبوت حا فظ آباد کے روح رواں حا فظ عبد الو ھاب ، جا وید اکبر عثما نی، با با فیروز دین صا حب، چا چا محمد حنیف صا حب پوسٹ مین، چوہدری شفقت حیا ت تھیم صاحب (امیر جما عت) عظمت حیا ت صا حب، تا یا جی، بھا ئی جا ن نا صر احمد اور راقم الحروف شا مل تھے۔
قصَّہ مختصر، شیخ صا حب نے فیصلہ دیا چو نکہ ڈاکڑ بشیر احمد صاحب ہما رے سا منے کلمہ طیبہ اور درود شر یف پڑھتے ہو ئے فو ت ہو ئے ہیں، اس لیے ’مسلمان‘ اور قبر ستان عام میں تد فین کے ’اہل‘، جبکہ با قی سارےاحمدی’ کا فر اور تدفین کیلئے نا اہل‘۔۔۔
وہاں سے اُٹھ کر احمد ی احبا ب ہما ری بیٹھک میں آ گئے اور اس مو ضو ع پر مزید با ت چیت ہوئی۔ جس پر، راقم کی والدہ محترمہ نے محترم تا یا جا ن کو تجویز دی کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی زمینوں میں سے کچھ حصہ قبرستان کے طور پر وقف کر کے ، اس میں دفن کیا جائے۔ چنانچہ ، ایک قطعہ اراضی بر مشتمل رقبہ دو کنال، جو شہر اور سڑک کے قر یب تر تھا ، قبرستان کیلیے عطیہ کر نے کا ، فیصلہ کیاگیا۔ خدا کی قدرت دیکھیئے کہ یہاں ڈھینگرانوالی میں، والد صا حب مرحوم کے نا م پر، صرف یہی ۴ کنال رقبہ تھا، جسے بعد میں ہما ری طرف سے ، پو رے کا پورا، قبر ستان کیلیے عطیہ کر دیا گیا۔ کان ذالک فضل اللہ علی فسبحان اللہ والحمدللہ!
1986 ء میں، ہما رے کرائے والے گھر سے ملحق ، ایک ساڑے 4 مر لہ کا پلا ٹ، حال ہی میں مرزا یوسف ابن مرزا حبیب احمد کو بطور وراثت منتقل ہو ا تھا اور وہ اسے بیچنا چا ہتے تھے۔ ہم سے زیا دہ اُسکا مستحق اور دعویدار اور کوئی نہ تھا۔ الحمد للہ ! وہ ہمیں مبلغ 75000 روپے میں مل گیا۔ اسی اثنا میں، گڑھی اعوان کے قریب ، نوابوں کے متروکہ کا رخانے میں واقع دس دس مر لے کے دو پلا ٹ ، جنکی بنیا دیں بھری جا چکی تھیں۔ نیز بوائز ڈگری کا لج سے ملحق کا لونی میں، واقع ایک کنا ل کا پلاٹ ، بیچ دیے گئے ۔ ان دونو ں جگہوں پر ، مکا نو ں کی تعمیر کی پلا ننگ و تیاری پر بہت عرصہ بحث و مبا حثہ رہا۔ لیکن 1984 ء کے دیگر گوں جما عتی حالات اور سیکیورٹی کی بنا پر با ت آگے نہ بڑھ سکی۔ والد صا حب کی وفا ت کے بعد، تو یہ نا ممکن سا ہو گیا تھا۔ لہذا ، اِن کو بیچ کر حا صل ہونے والی، نصف حصہ رقم سے، ہما رے نئے گھر، بیت البشیر ، کے پلاٹ کی خرید اور مکا ن کی تعمیر کا آغاز فروری۔ما رچ 1987 ء میں ہوا۔
مستری محمد انور اور محمد اکرم دونوں ہم زلف، راجوں اور کئی معروف مقا می مزدورں نے اس گھر کی تعمیر میں ، بڑے شوق اور دل جمی سے حصہ لیا اور قریبا 6 ما ہ میں یہ کا م مکمل ہو گیا۔ لکڑی کا کا م، مستری محمد اقبال اور انکے بیٹے محمد اکرم نے کیا۔ بجلی کا کام حافظ محمد ارشد صا حب ابن حا فظ غلام رسول صا حب مرحوم نے کیا۔ اینٹیں لانے کا کام بھی ہما رے ہمسا یوں ، محمد حنیف مرحوم (والد مینو، شر یف وغیرہ)، میرے کلاس فیلو محمد ریا ض وغیرہ نے کیا۔
علاوہ ازیں، ہما ری والدہ محترمہ اور ہم سب بہن بھائیوں نے بھی، اس مکا ن کی تعمیر میں بھر پو ر حصہ لیا۔ روزانہ بلا نا غہ، 2 / 3 مر تبہ سب کیلئے چائے، دوپہر کے کھا نے میں معا ونت، ہفتہ وار جلیبی، دیگر ضروری سا ما ن کی فوری فرا ہمی کیلیے ، ہم ہر وقت تیا ر رہتے۔ روزانہ ، علی الصبح ، سکول یا کا لج جا نے سے قبل، تر۱ئی، (پا نی لگا نا ) ایک لا زم امر تھا۔ لیکن ، اِس سب کے با وجود، اس خو بصورت مکا ن کی تعمیر کا سہرا، ہما رے تا یا جا ن مر حوم کے سر ہے۔
پلاٹ کی خر یداری اور کا غذات و نقشہ جا ت کی منظوری، مستری و مزدوروں کے چنا و، میٹر یل کی سستے داموں خر ید و سپلا ئی سے لیکر ہمہ وقت نگرانی اور حسا ب کتاب تایا جی کی ذمہ داری تھی۔ جزا ھم اللہ تعالی و احسن الجزا ء ۔
ایسا خو بصورت کا م ہوا کہ لوگ عش عش کر اُٹھے اور ڈاکٹروں کا نیا گھر بھی ، پیلی کو ٹھی کیطرح ، ضرب المثل بن گیا۔ سالہا سال ، لو گ آتے اور اِس کو دیکھتے اور اسکی نقل کر تے رہے، ما شا اللہ!
طبیعت کی سنجیدگی اور نسِبتاً سخت رویے کی وجہ سے، کئی مرتبہ ، ہما رے درمیا ن اختلاف بھی ہوا۔ مستریو ں نے کا م چھو ڑا، مزدوروں کو شکا یا ت پیدا ہو یں تا ہم، سا رے معا ملا ت بفضل تعا لیٰ، آگے بڑہتے رہے۔
1987 ء کے جما عتی انتخا با ت میں، اللہ تعالی نے محترم تا یا جا ن کو ، بطور صدر جما عت حافظ آباد شہر ، خد مت کی تو فیق عطا فر ما ئی ۔ اور آپ یہ خد ما ت با وجود بیما ری کے، قریباً ۹ سال ، 1996 ء تک ادا کر تے رہے۔ آپ نہ تو قا ئد مجلس رہے تھے اور نہ ہی زعیم مجلس! پھر بھی، بفضل تعالی آپ نے، اپنی خداداد صلا حیتوں سے یہ ذمہ داری بخو بی انجا م دی۔
راقم الحروف بھی بطور سیکر ٹری تحر یک جد ید ، آپکی پہلے عا ملہ میں شا مل تھا بلکہ آپکا دست راست بھی تھا۔
آ پکے دور صدارت کا اہم کام اور خد مت، جا مع مسجد حا فظ آبا د کی تعمیر نو ہے ۔ اُن جما عتی حا لات اور ما لی مشکلا ت کے دور میں، یہ کا م انتہا ئی دُشوار تھا۔ لیکن محض اللہ تعالی کے فضل، احبا ب جما عت کی شبا نہ روز دُعاوں اور آپکی سیا دت میں یہ کا م پا یہ تکمیل تک پہنچا۔ الحمد للہ فا الحمد للہ !
جا مع مسجد کی تعمیر ِنو ، دو حصو ں میں ہو ئی۔پہلے حصے میں مسجدکے فرنٹ پر واقع 4 عدد دوکا نو ں کی نئی اور بلند تعمیر، جسکے نتیجہ میں مسجد کی اندرونی تعمیر کو ، با ہر سٹرک پر سے گزرنے والے ہر شخص کی نظر سے بچا نا تھا۔ اندرونی حصہ مسجد کو بتدریج گرا کر ، نئی اور پختہ تعمیر کا کا م ، 1990 تا 1993 ء کے دور صدارت میں مکمل ہو گیا تھا ۔ جبکہ بعد میں آپکے بھا نجے، ڈاکڑ مبا رک احمد صا حب امیر ضلع نے، 1997 ء اس کا م کو اور آ گے بڑھا یا۔
اسی اثنا میں ما رچ 1991 ء میں آپکو پہلا ہا رٹ اٹیک ہوا اور بعد ازاں جو لا ئی میں آپکی با ئی پا س سر جری ہو ئی ۔ پنجا ب انسٹیٹوٹ آف کا رڈیا لو جی، ابھی حا ل ہی میں تعمیر ہو ا تھا ۔اور امریکہ سے ڈاکٹر یہاں آ کر، لو گوں کی تر بیت کر رہے تھے۔ ہما ری خوش قسمتی، کہ ایک قا بل سر جن ، ڈاکٹر فیا ض ہا شمی صا حب نے آپکا آ پر یشن کیا ۔ انسٹیٹو ٹ میں داخلے سے لیکر، ڈسچارج ہو نے تک بھا ئی جا ن خا لد احمد اور راقم، ہمہ وقت آ پکے سا تھ رہے۔ دوسرے نمبر پر ، بھا ئی جان نا صر احمد اور طا رق احمد وغیرھم نے خدمت کی توفیق پائی۔
ڈاکٹر ہا شمی صا حب ، نے آپر یشن سے قبل ، تا یا جا ن کو اُسی طرح بر یف کیا ، جیسا کہ یہا ں یو رپ میں کر تے ہیں۔ اس پر ہم سب بہت مطمئن تھے۔ آپکی سرجری شام 5 بجے ہو نا تھی لیکن کسی وجہ سے ، تا خیر سے شروع ہو ئی۔ تا زہ خو ن کی فرا ہمی کیلیے ، رضا کا ر، حا فظ آبا د اور پنڈی بھٹیاں سے منگو ائے گئے تھے۔ 5 سے 6 بو تلو ں (یو نٹوں) کی ضرورت بتا ئی گئی تھی۔ بابر بھٹی صاحب کے ایک بھا ئی نے بھی خون کا عطیہ دیا تھا۔ خون سر و سز ہسپتال میں لیا جا رہا تھا اور بعد میں بھا ئی جا ن محمد یعقوب صاحب اپنی کا ر ، ٹیکسی میں اُسکو ، انسٹیٹیو ٹ میں، پہنچا رہے تھے۔ ایک مو قع پر ، ڈاکٹروں نے ہڑ بڑ مچا دی اور فوری خون کا مطا لبہ کر دیا۔ مو با ئل فون تو، اُس وقت میسر ہی نہ تھے۔ میں بھا گم بھا گ ، انسٹیٹیو ٹ سے سروسز پہنچا اور دستی اضا فی بو تل خون، واپس لیکر دوڑتے ہو ئے پہنچا یا ۔ِ اس مشقت سے ، سا نس اکھٹر گئی اور میری آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا تھا اور میں، آپر یشن تھیٹر کے با ہر ہی ڈھیر ہو رہا ۔ لیکن اللہ تعالی نے فضل فر ما یا اور تایا جان کا آپر یشن کا میا ب رہا ۔ البتہ ، شو گر کی وجہ سے، آپکا زخم خرا ب ہو گیا جسکی بدولت ہمیں دو ہفتے مزید ، وہا ں رہنا پڑا۔ اس مو قع پر ، راقم الحروف دعا کی درخو است کر نا چا ہتا ہے، ان رضا کاروں کیلیے جنھوں نے ، خون کا عطیہ دیا، بھا یی جا ن حاجی محمد یعقوب صا حب کیلیے، جنکی مردانہ وار سپورٹ ہمیں حا صل تھی، میر ے دوست خا لد محمود اور انکے عزیزوں کے تعاون کی بھی کہ جنکا گھر، پا س ہی، شادما ن کا لونی میں تھا۔ آپریشن دیر سے ختم ہو نے اور تایا جی کو وارڈ میں منتقل ہو نے تک ، رات بہت ہو چکی تھی، لہذا، ہم 8 / 10 لوگ ، اُنکے ڈرائینگ روم میں سوئے۔ اسکے علاوہ بھی، ہم گا ہے بگا ہے ، اُنکے ہا ں، ریفر شمنٹ کیلیے جا تے رہتے تھے۔ جزاکم اللہ وا احسن الجزا۔
اللہ تعالی نے تایا جا ن کو شفا عطا فرمائی، آپ گھر واپس آئے اور روز مرہ کے کا م شروع کیے۔ مو ضع ڈھنگرانوالی اور مٹم فیروز میں، وسیع قطعہ اراضی، ٹھیکے پر دیے ہو ئے تھے۔ اُنکا انتظام و انصرام، اشتمال اور قانون وکچہری کے معاملا ت دیکھتے۔ با الآ خر، جب حالات و ضروریات کے تحت اُنکو فروخت کر نے کا وقت آیا ، جو کہ کا فی مشکل اور گھمبیر معا ملا ت تھے، آپ نے بفضل تعالیٰ، با احسن تدبیر، پایہ تکمیل تک پہنچائے۔
1997 ء میں مٹم کی زمین بیچنے کی با ت شروع ہوئی۔ تا یا جی اس کے حق میں نہ تھے۔ آپ اب ’اسٹیٹس کو ‘ کے حامی تھے۔ آپ زمین کو’ ما ں ‘قرار دیتے تھے اور اس کو بیچنے کے خلاف تھے۔ دوسری طرف ہمیں محض زندگی گزارنے کے لیے اور ہما رے پھو پھی ذاد بھا ئیوں کو ، اپنے کا روبا روں کو ترقی دینے کیلیے ، رقم در کا ر تھی۔ راقم کے نزدیک زمین انکی ’ ما ں‘ تھی جو اُس پر رہتے اوراُسی کے بل بوتے پر جیتے تھے۔ اور یہ’ ما ں‘ تو ہم نے تین دہائی قبل خود خریدی تھی۔ ہم دونوں پا رٹیو ں کے حالات ، تایا جان کے سا منے تھے لہذا ، وہ زیادہ دیر، اِس مطالبہ کی مخا لفت نہ کر سکے اور آما دہ ہو گئے۔ یہ با ت البتہ ہم سب پر، یکسر عیا ں تھی کہ یہ عمل قطعا آسان نہیں تھا ۔ مٹم فیروز کے بڑے زمین دار، چو ہدری ہا رون الرشید تھیم کی مخا لفت، ہما ری زمین سے بنَّے داری (ہمسا ییگی)، قا نونِ حق شفع کا عام غلط استعمال، کثیر رقم کا لین دین اور ہر معاملہ میں، احمد یت کی وجہ سے، بے جا مخا لفت ، ایسے مسا ئل تھے ، جو اِس راہ میں آنے کا ڈر اور خو ف تھا۔ دعا کے علاوہ اور کچھ بھی ہما رے پا س نہیں تھا۔ بے شک ، سا ری طا قت اور قدرت خداے لم یزل کو حا صل تھی اور ہے۔ اُسی کی بدولت، یہ سا رے خدشا ت با طل ہوئے اور کا م سنور گئے، الحمد للہ۔ لیکن شخصی اعزاز کا حق صرف محترم تا یا جا ن کو جا تا ہے ، جنھوں نے حکمت ِعملی سے معا ملات کو چلا یا ، سنبھالا اور پا یہ تکمیل تک پہنچا یا۔
پیلی کو ٹھی بھی، اب تا یا جی کیسا تھ سا تھ ، بزرگ اور کمزور ہو رہی تھی۔ نیز بھا ئی جا ن ڈاکٹر نا صر احمد صا حب کی طرف سے، اِسکی جگہ ایک بڑے ہسپتال کی تعمیر کا مطا لبہ بھی بڑ ھتا جا رہا تھا۔ آپ نے ، ایک جہاندیدہ بزرگ اور ما ہر تعمیر کا ر کیطر ح، ایک کا میا ب حکمت عملی اپنا ئی ۔ سب سے پہلے، مد ینہ کا لونی میں مو جود ، ۱۰ مر لہ کے ایک پلا ٹ پر ، کو ٹھی نما ، بڑے مکا ن کی تعمیر کی۔ پیلی کو ٹھی سے یہا ں منتقل ہوئے۔ ہسپتال کی تعمیر ایک بڑا منصو بہ تھی ۔ وہ شروع کیا۔ سا تھ میں چھو ٹے منصوبے ، جیسے بھا ئی جا ن خا لد احمد اور فیا ض احمد کے مکا نا ت کی تعمیر، اعجا ز احمد کیلیے پلاٹ وغیرہ بھی لئے گئے ۔ تا یا جی نے یہ تما م منصوبے عزیزان محمد حسیب اللہ و مصور اویس احمد کے تعاون سے مکمل کیے۔اللہ تعالی ان نو جو انوں کو بھی جزا عطا فرما ئے ، جنھوں نے سردی اور گرمی میں، کئی سال اپنے بزرگ محسن کے دست و با زو کا سا کا م کیا ۔ بلا شبہ، یہ تما م کا م، خصو صا تین منزلہ ہسپتال کی عظیم الشان تعمیر بھی، تا یا جا ن مرحوم کی قا بلیت، الوالعزمی، حو صلے، جو انمردی او ر تخلیقی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبو ت ہے۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ وقت جلد اور خیر و خو بی والا آے جب ڈاکٹرعمران جاوید شہر یا ر اور ڈاکٹر مہروز احسان اللہ اپنے دادا مرحوم کے تیا ر کردہ ہسپتال میں، باالترتیب اپنے تا یا اور والد ڈاکٹر نا صر احمد کیساتھ کا م کریں اور اپنے نا نا ، ڈاکٹر بشیر احمد کا نا م روشن کر یں، آمین و ثم آمین۔
ہمارے خاندان میں ، کسی اور شخص کو اِسقدر کا م او ر پر اجیکٹ، بزات خود شروع کرنے اور اُنکی تکمیل کر نے کا مو قع ملا ہو۔ لوگ ایسے کا م کمپنیوں، کنٹریکٹرز اور ٹھیکے داروں کے زریعے کر واتے ہیں۔ لیکن تا یا جا ن نے ہر منصوبہ، اپنی مر ضی سے، اپنے طر یقے سے اور اپنے سا منے مکمل کر وایا ، ما شا اللہ۔
آپ کے والدین اور اجداد، اپنے خا ندانی رواج اور حا لا ت کیوجہ سے سنجیدہ طبع لو گ تھے۔ اوائل عمری میں ہی ، آپ کو، اپنے بڑوں کیسا تھ مل کر کا م کر نے کا مو قع ملا۔زیادہ وقت گھر سے باہر، کام کاج اور لوگوں سے میل ملاقا ت میں گزرتا۔ سنجیدگی اوربرد باری آپ کے رویہ کے بنیا دی عنصر تھے۔ زمینداری کے معا ملات اور اس کی راہداریوں میں مو جود ریشہ دوانیوں سے بخوبی نبرد آزما ہو نے کیلیے، آپ نے اپنی بردبا ر اور سنجیدہ طبیعت کو چودھراہٹ میں تبدیل ہو نے دیا۔ با وجود آپ کی تر بیت میں شرافت، صلہ رحمی، خد مت خلق اور بڑوں کا احترام اور چھو ٹوں سے پیا ربکما ل طور پر موجود تھا لیکن سارے خا ندان میں صرف آپ ہی نے، چو ہدری، کا ٹا یٹل اختیا ر کیا اور خوب کیا ۔با قی سا رے، میاں ،تھے۔
راقم نے تا یا جی کو ، بڑے اور چھوٹے، احمد ی و غیر احمدی زمینداروں سے ملتے اور معاملات کر تے دیکھا ہے۔ آپ نے کبھی کسی کا بے جا رُعب داب قبو ل نہیں کیا ۔ساری دنیا جا نتی تھی کہ آپ ، میا ں فضل دین کے بیٹے اور پر امن جما عت احمد یہ کے فرزند ہیں۔ نہ کو ئی قبیلہ اور نہ ہی کوئی دھڑا بندی ۔ نہ کوئی با ڈی گارڈ اور نہ ہی پو لیس سے سا ز باز! ۔۔۔۔۔پھر یہ سب کیسے ممکن ہوا؟
اصل میں، بقول محا ورہ، آپ نے پہلے روز ہی ، ’’بلی‘‘ ما ر دی تھی اور خو ش قسمتی سے لوگوں نے دیکھ لیا تھا ۔ با ت یہ تھی کہ زمین کی خریداری ٍ کیسا تھ کچھ دیگر لوازمات بھی ضروری تھے، زما نے اور ضرورت کے لحا ظ سے! مثلاً، ٹیوب ویل، ٹر یکڑ اور ہتھیار۔معا شی زبان میں ، یہ تینوں ،انڈیکیٹرز (اشارے) ما لک اور زمیندار برادری میں
آپ کی حثییت کا تعیین کر تے تھے اور ابھی تک کر تے ہیں۔ آپ نے سب سے پہلے ، حق ِخود حفا ظتی کی خا طر ہتھیا ر خریدے۔ ایک بندوق اور ایک عدد پستول مع کا رتوس و گو لی کے۔ دوسرے آپ نے ٹیوب ویل لگوایا (وہ بھی اتفاق فاونڈری کا، میکلوڈ روڈ لا ہور سے خود خرید کر لاے تھے 1966 ء میں)
ہتھیا ر خر ید نے کے بعد، انکو صندوق میں رکھنے سے قبل، اپنے سینے پر سجا یا اور یکے بعد دیگرے اپنی زمینوں پر جا نا اور شکا ر کھیلنا شروع کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا ایک، گن شاٹ، کی آواز سے لوگوں کے دل دہل جا تے اور زندگی ُرک جا تی تھی۔ اور یہی ہوا۔ آپ نے ، غرغابی، فا ختہ اور چڑیوں کا شکا ر کیا، لوگوں نے سمجھا کہ ، شیر ، ما ر دیاہے۔ کبھی اکیلے، کبھی، بھا ئی کیساتھ ، کبھی سیف اللہ اور نا صر احمد کے سا تھ۔
اللہ تعالی کا خا ص فضل ،رحم اور کر م ہے کہ اُن ہتھیاروں کے استعمال کی نو بت نہ کبھی آئی اور نہ ہی کبھی آئے ( آمین) تا ہم، کئی مواقع پر، اُنکی نمائش کی نو بت ضرور آئی تھی۔ اصل با ت یہ ہے کہ آپ نے ’’سرد جنگ ‘‘کے دور میں، اپنی زمینوں اور ارد گرد کے علاقوں میں ایک ، ڈیٹر نس( (Deterrenceقا ئم کر دیا تھا ، جو بیلنس آف پا ور کو قا ئم کر نے کا ایک بین الااقوامی اصول تھا اور آج بھی اسی طر ح قابل ِعمل ہے۔ عام فہم قا ریین کیلئے ، اسکی مثال یو ں ہے کہ جب سے پا کستان اور ہندوستان نے ایٹم بم بنا ے ہیں دونوں کے درمیان ، با قاعدہ جنگ نہیں ہوئی اور نہ ہو گی۔ کیو نکہ نہ صر ف اِن دونوں ممالک کو علم ہے بلکہ دنیا کے دو سرے بڑے مما لک کو بھی خبر ہے کہ اگر ِان کے درمیان جنگ ہو ئی تو سب کی تبا ہی ہو جا ے گی۔ سو یہ ہتھیا ر جنگ لڑنے کے نہیں جنگ روکنے کے لیے ہو تے ہیں۔ اِسکو ڈیٹر نس کہتے ہیں۔
واپس تا یا جی کی طرف آتے ہیں، آپ با وجود چو دھرانہ مزاج اور وجا ہت کے، اپنے گھر والوں، عزیزو اقارب اور ہم بچوں سے بڑی شفقت سے پیش آتے۔ ہما ری خو شیوں کا بہت خیال رکھتے بلکہ ہماری تما م معصومانہ عیا شیاں، تا یا جا ن مرحوم و مغفور کے دم سے تھیں۔آپ ہمارے لیے ایک درسگاہ سے کم نہ تھے۔ ہم سب نے ان کے ساتھ بہت وقت گزارا اور بہت کچھ سیکھا ہے ۔ اللہ تعالی ان پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھو لتا چلا جا ے، آمین۔
زمینوں اور کلینک سے تما م آمد آپ کے پا س آتی تھی اور پھر آپ ہی اُس سے آگے انتظام و انصرام کر تے تھے۔ ہر قسم کا خرچ ، چاہے وہ گھر میں یا گھر سے متعلق ہو تا یا با ہر کا ! آپ ہی اسکے نگران تھے۔( ۱۹۶۷ سے لیکر ۱۹۸۲ تک ہم ایک ہی گھر، پیلی کو ٹھی میں رہے)۔آپ چونکہ خود، خوش خو راک تھے لہذا ہم سب کی خو راک کا بہت خیا ل رکھتے۔ ہر قسم کا مو سمی پھل فروٹ، کثرت کیسا تھ، اپنی زمینوں اور بازار سے، وافر مقدار اور تعداد میں آتا۔ سردیوں میں تو مو جیں ہو جا تیں۔ خشک میوہ جا ت، کئی روز تک چلنے والے روغنی پکوان جیسے چاولوں اور السی کی پنیاں، انواع و ا قسام کی دالیں و پنجیریاں ان کی ہی آشیر با د سے ہی بنتی تھیں۔ راقم نے اپنے گھر میں کینوں ما لٹے ، مکئی کے بھٹوں ، مو نگ پھلی کی بو ریاں، چلغوزے، پستہ ، با دام ، اخروٹ اور سنگھا ڑوں کے توڑے، انڈوں کی پیٹیاں، ریوڑی، مرونڈے ، پھٹورے، مودے حلوئی کی دوکا ن سے کھو ے کے پیڑے، سمو سے، کچوریاں ، قسمہا قسم کے گڑ، رؤو ( گنے کا رس) کے پیپے اور بوؤلی (خا ص قسم کا گا ڑھا دودھ) کے دوھنے، یہ بیش قیمت انعامات با ر با ر اور سالہا سال ، ہر مو سم سرما میں دیکھے۔ اور اس وقت تک دیکھتا رہا جبتک کہ اللہ تعالی کے یہ دو پسندیدہ اور نیک وجود ہما رے سا تھ تھے۔ مو سم گرما کا احوال ، اِس سے مختلف نہ تھا۔ خربوز ے اور ککڑیوں کی چھٹیں (بڑے بورے) تربوز سے لدے ریہڑے، تروں اور کھیروں کے تو ڑے، کچے اور پکے آموں کے ٹو کر ے، قسمہا قسم کے شربت، کھو ے کی قلفیاں، فلودے، دودھ سوڈے اور آیس کریم ، تخم ملنگے، گوند گتیرے، صبح سویرے میٹھی و کسیلی سردایاں، سب تا یا جی ہی کی تجویز و تحر یک پر بنتی تھیں ۔ دہی و بن اور چنے کلچے کے نا شتے آتے تھے۔
آپ گو شت کے بہت شو قین تھے۔اور ہم سب کو اس طرف کچھ نہ کچھ راغب کر نے میں صرف اور صرف ا نہی کا ہا تھ ہے۔شہر میں منگل اور بدھ کو گو شت کا نا غہ ہو تا تھا اور اس دن ہما رے کچن اداس اداس سے اور ہم کچھ بھا ئی بڑے سر شار ہو تے تھے۔
خوراک کے علاوہ ، ہم سب مرد و زن کے لباس اور جوتوں کا خیال بھی آپ ہی رکھتے تھے۔ روزمرہ کے کپڑے ہو تے یا عیدین اور شادیوں کے کپڑے، آپ لا ہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد تک سے سامان خرید کر لاتے۔ ایک بہت اہم نکتہ بیا ن کرنے لگا ہوں جسکی تو فیق کم از کم راقم کو قطعاً حا صل نہیں کہ تا یا جا ن مر حوم شا دیوں کے لیے کی جا نیوالی خریداری کے مو قعہ پر، ہماری تائی صا حبہ اور ہماری والدہ صا حبہ کو بھی سا تھ لے جا تے اور خو شی خو شی واپس آتے۔ سبحان اللہ! ہر سفر سے واپسی پر ، بہت شوق سے سفر کے حا لات سنا تے۔کو ئی نہ کوئی لذیز چیز ، گھر رہ جانے والوں کیلیے بھی ضرور لا تے۔ خرید کیا ہو اسارا سامان دکھا تے۔ اپنی تھوڑی سی مو جود، حس مزاح کو ، اس وقت خو ب استعما ل کرتے۔
گھر کیلیے تما م ضروری سامان، فر نیچر، چھو ٹے بڑے ، سلور ، تا نبے، ا سٹیل ، شیشے کے بر تن، لا ہور اور گوجرانوالہ سے آتے۔ مٹی کے تیل والے چو لہے ، سیا لکوٹ سے آتے اور انکے لیے با قا عدہ تیل والہ گھر میں آ کر دو کنستر تیل کے بھر نے آتا۔ پھر برشین گیس کے سلنڈروں کا دور آیا اور اب ما شا اللہ، 2003 گیس کی سہو لت میسر ہے۔
خود شلوار قمیص پہنتے اور اوپر کو ٹ استعمال کرتے تا ہم 1985 ء کے بعدسے آپ نے صدری ( ویسٹ کوٹ) کا استعمال بڑھا دیا تھا۔ گھر میں لنگی کا رواج تھا۔ مرد حضرات کے کپڑے شروع میں رزاق ٹیلرز سے سلتے تھے جو آپ کا بچپن کا دوست تھا جبکہ کو ٹ پتلو نیں اور سفاری سوٹ ، شہر کے سب سے مشہور درزی، نفیس ٹیلرز سے بنواتے۔
با ٹا اور سروس، کے علاوہ عید محمد موچی سے ،ہینڈ میڈ جو تے بنواے جا تے۔ اس میں فیشن کا کو ئی دخل نہیں تھا بلکہ یہ اُس وقت وہ سستے پڑتے تھے لیکن پہننے میں بہت تکلیف دہ!
ہما رے کھیل کود کو بھی آپ کی ہی سر پرستی حا صل تھی۔ سب بچوں کیلیے تین پہیوں والی سا ئیکلیں، پیڈلوں والی کھلو نا کا ریں، مضبو ط لڈو ہو کہ کیر م بورڈ، بیڈ میٹن کا سامان ہو کہ فٹ بال ، سبھی کچھ نہ صرف لا کر دیتے بلکہ بچوں کو کھیلتے کودتے دیکھ کر خو ش ہو تے۔ بے جا روکنا ، جھڑکنا انکی عا دت نہ تھی۔ زمینوں پر جا کر سیر سپا ٹا اور پکنک منا نے کی تر غیب دیتے۔ ہمیں نڈر اور بہادر دیکھنا پسند کرتے۔
قربانی کے جانور بڑے شوق سے خریدتے ۔ خوبصورت، صحتمند اور پلے ہوئے جانورں کو ہی پسند کرتے۔ بفضل تعالی ، جب تک دونوں نیک وجود ہم میں موجود رہے، کئی سال ہما رے ہاں 7 سے 9 قربانیاں دی جاتیں تھیں۔ ایک گاے اور دو عدد بکرے یا چھترے۔ ان جا نورں کے چا رے اور صحت کا خاص دھیا ن رکھتے اور ہمیں بھی اسکی تلقین کرتے رہتے۔ قربانی کے وقت خود تکبیر پڑھتے اور چھری چلاتے اور بچوں کو بھی ساتھ شامل کرتے۔ قربانی کے جانورں کی کھا ل اتارنے اور گوشت بنا نے کے عمل کو بھی کا ر ثواب سمجھتے ہو ے اس میں شامل رہتے۔ اور ہما ری تربیت کا بھی ساماں کرتے۔
ابتداً، شہربھر میں ، عزیزو اقارب کے ہاں ہو نے والی تما م قربا نیو ں کا سارا انتظام ، سالہا سال ، ایک ٹیم کیا کرتی تھی، جس کے سر براہ آپ ہی تھے اور سیکرٹری آپکے ایک ہم عمر ما موں ،محمود احمد تھے۔ با قی میمبران میں ، آپکے بڑے ماموں حا جی مہر دین، آپکے بہنویی میا ں شریف احمد، بھا نجے بشارت احمد ، ہما رے ما موں سیف اللہ اور بھا ئی جا ن نا صر احمد شا مل تھے ۔ نیما ، مودی تو آ پکے شیروں میں سے تھے۔ ہر کا م میں آپکے پہلے ممد و معاون ! آپکی بیما ری کے با عث یہ عمل پہلے متا ثر ہوا اور پھر رک گیا۔ اور یوں ہما رے شہر کے قصا بوں کی مو جیں ہو گئیں ۔
آپ بے شک ایک نا فع النا س وجود تھے ۔ ڈاکٹر بشیر احمد کی کا میا بیوں کے بعد ، ہر کو ئی میڈ یکل پر یکٹیشنر بننا چا ہتا تھا۔ اس کیلئے ایک ، کوالیفکیشن کی ضرورت تھی۔ لہذا ، کئی نو جوانوں کو میڈ یکل ڈسپنسر شپ کے کورس میں داخلہ دلوایا، با قی رہ جا نے والوں کو حکیم حازق کے کور س میں۔ بعد ازاں، 1982 ء میں، امریکی امداد سے ایک بہتر کورس، میڈیکل ٹیکنیشن کا میسر آ گیا ۔ خا ند ان کے اکثر ڈسپنسرز کو اس میں دا خلہ دلوا دیا۔ یہ سارے کام ، قطعا آسان نہ تھے۔ بلکہ حکمت، منصوبہ بندی اور محنت کے متقا ضی تھے اور آپ نے بخو بی انجا م دیے اورکئی نو جوانوں کو بہتر روز گار مہیا کیے۔ آپکی ان کا وشوں سے ، نہ صرف خا ندان اور احمدی بلکہ بیرون خا ندان و غیر احمد ی افراد بھی فیضیاب ہویے۔ اللہ تعالی آپکو اس کار عظیم کی بھی بہترین جزا عطا فرما یے، آمین۔
آپ علی الصبح، با آوازِ بلند ، قرآن کریم کی تلاوت و تر جمہ کیسا تھ اپنے گھر کی فضا کو معطر کر تے۔نمازوں کو پورا کرتے اور رمضان کے روزے بہت شوق سے کرتے ۔ نما ز تراویح کا اہتمام کر تے۔ کم از کم ۴ دفعہ اعتکا ف کر نے کی تو فیق بھی پائی۔ دو دفعہ راقم نے بھی انکے سا تھ اعتکا ف کیا۔ سب سے پہلے اور سب سے زیا دہ عیدی بھی ہمیں، آپ ہی کی طرف سے ملتی ۔
روزانہ غسل کرتے تا ہم لبا س دوسرے روز تبدیل کر تے۔عطر استعمال کر تے، با لوں میں تیل اور کنگھی شوق سے استعمال کر تے۔ تیا ر ہو کر با ہر جا تے۔ اخبار پڑھنے کے شو قین تھے۔ بیما ری سے پہلے پان اور ہلکی پھلکی تمبا کو نو شی بھی کر لیتے تھے۔ کڑک چا ے کے دلدادہ۔ مسجد مبارک کے عین نیچے، صدر دروازے کیسا تھ ، حمید احمد عرف ،میدی ، کا ٹی سٹال ، عصرانے میں، ایک لمبا عر صہ ، آپکا مستقل ٹھکا نہ رہا۔
نیما ، مودی تو آ پکے ’شیروں‘ میں سے تھے ۔قر با نی کے جا نورں کی خر یداری کیلیے ہمیں سا تھ لیکر جا تے۔ اور خرید نے کے بعد ہما رے سپرد کر دیتے۔ وہاں مو یشی منڈی میں بھی ہمیں دودھ سوڈا یا کو ئی کھا نے کی چیزیں لے کر دیتے۔ چھریاں ، بُگتہ اور مُڈّی کی تیاری ہما رے سپرد تھی۔ 1980 ء میں ، قبر ستان عام میں ہما ری مرحومہ دادی جا ن ، اور آپکی پھو پھی مر یم صا حبہ سمیت کئی قبروں کو پختہ کروانے کیلیے ، شد ید گرم مو سم میں بھی ہمیں اپنے سا تھ رکھا۔ وہاں پھا ٹک کے پا س ایک کھو کھا تھا ۔ ہما ری موج لگی ہو ی تھی۔ ہم سے بہت پیا ر اور انس رکھتے ۔ گر میوں میں جا مع مسجد احمد یہ کے سا منے ، فیقے کی دوکا ن سے ہما رے لیے دہی اور لسّی کیلئے کھا تہ کھو ل رکھا تھا ۔اسی طر ح سردیوں میں، جا مع مسجد بلال کے سا منے ، مو لوی کی دوکا ن سے ، بڑی کڑاہی سے گرم دودھ پینے کیلیے رقم دیتے۔ اللہ تعالی آپکو کر وٹ کروٹ جنت نصیب فر ما یے، آمین۔
محترم تایا جی کیسا تھ میرا دوہرا رشتہ تھا ۔ ایک تو میں اُنکا بھتیجا، ’اللہ دتہ ‘اور ’نیما‘ تھا جو ان کے ہاتھوں میں پیدا ہوا، پلا بڑھا اور نوجوان ہوا ۔ دوسرا ، اپنے پیا رے چھو ٹے بھا ئی کی وفات کے بعد ، اُنہوں نے مجھے اُسکا جا نشین بنا دیا تھا ۔ مجھ پر تو انکا عزت و احترام ، پہلے ہی لازم اور وا جب تھا ، انہو ں نے البتہ ، اپنے اوپر، راقم کیلیے بھی ، وہی احترام لازم کر لیا تھا جو وہ اپنے بھا ئی کو دیتے تھے ۔ یہ ’نیمے ‘ کا نہیں بلکہ اُس ’مقا م ‘ کا احترام تھا جس کو انہو ں نے اپنی وفات 7 نومبر 2011 ء تک ، 27 سال نہیں بھلایا ۔ فجزا ھم اللہ خیرا ویغفر اللہ لہ۔۔
کبھی مجھے اونچی آواز میں نہیں بلایا۔( میں نیما اور مودی ہی تھا) لیکن انہوں نے کبھی اس فرق اور مقام کو نہیں بھُلایا جو وہ مجھے اپنی شرافت اور اعلیٰ ظرفی سے دے چکے تھے۔ ہمارے تو وہ تھے ہی بڑے ابا جی! بے شک ہماری طرف سے تو ان کا مقام پہلے سے ہی طے شدہ تھا۔
خاکسار قریباً 9 سال ان کی صدارت کے دوران ان کی عاملہ میں رہا۔ کئی جماعتی امور میں بھی ، ان سے اختلافات رہے ۔مسجد کی تعمیر نو کے دوران ، ایک موقع بہت سخت اور تلخ آگیا تھا ۔ لیکن وہ معاملے کبھی ذاتی نہیں ہوئے۔ اسی طرح کئی مالی اور جائیداد کے معاملات ، نئی رشتہ داریوں کے معاملات ہوئے۔ وہ ہمیشہ میری رائے احترام سے سُنتے اور میں بلا جھجک ، آپ سے بات کرتا تھا ۔ میرے اُن سے اختلافات بھی اُسی قدر تھے ، جس قدر ایک بیٹا اپنے باپ سے اختلاف کر سکتا تھا ۔
چھو ٹا منہ ، بڑی با ت ، جس طرح، اللہ تبا رک و تعالیٰ نے ، دین اسلام میں حضرت عمرؓ کو اور احمد یت میں حضرت فضل ِعمؓر کو با التر تیب، نظامِ سلطنت اور نظامِ جما عت بنا نے کی تو فیق عطا فرمائی تھی، اُسی ذاتِ والہ ِصفات نے آپ کو ہما رے خا ندان میں تعمیرو ترقی، حکمت و تجارت اور بہبودی کا ذریعہ بنا یا تھا ۔
خاکسار نے قریباً 20 سال حافظ آباد کی جامع مسجد، مسجد گڑھی اعوان اور مسجد بہاولپورہ میں نماز تراویح پڑھائی۔ اور آپ کی صدارت کے دوران کئی مرتبہ خطبہ جمعہ دینے کا موقع ملا۔ آپ میری امامت میں نمازیں بھی ادا کر تے رہے ۔ ایک مر تبہ آپکے دور میں ہی ، خطبہ جمعہ کے مو قع پر ، خا کسار کو محترم سلیم خان صا حب کی بھتجی اور اشرف خان کی ہمشیرہ کے نکا ح کا اعلان کر نے کی تو فیق بھی حاصل ہو ئی۔ خا کسار اس وقت یو نیورسٹی کا طالبعلم اور خود غیر شادی شدہ تھا (گو اس میں کو ئی شرعی امر ما نع نہیں تھا ) ۔ آپ اس مو قع پر نکا ح سے زیا دہ میر ے خطبہ نکا ح پر خو ش تھے ۔
آپ راقم سے دینی مسلئے پو چھ لیتے تھے ۔ آپ نے مجھے امام بنا دیا تھا ، نماز کا ، تہجدکا ، جمعے کے خطبہ کا اور خطبہ نکا ح کا ۔ اب ایک نماز کی اما مت با قی تھی۔وہ بھی آپ ہی کی بدولت خا کسار کی جھو لی میں ڈال دی گئی ۔اور وہ تھی آپکی اپنی نما ز ِجنا زہ کی !
قرب و جوار کی جماعتہاے احمد یہ سے سینکڑوں احبا ب مو جو دتھے۔ ۔ ۔ یہ سعادت خا کسار کے حصہ میں آئی۔ خا کسار قطعا ًاس قابل اور اس مر تبے کا اہل نھیں تھا ۔ما سوائے اُس محبت اور احترام کے، جو اِس عاجز اور مرحو م کے بیچ تھا !
اے خدا بر تر بت او بارش رحمت ببار
داخلش کن از کمال فضل در بیت النعیم