(ڈاکٹر) بشیر احمد مرحوم

ڈاکٹر بشیر احمد صاحب مرحوم

(1935ء – 1984ء)

جہاں جہاں ہے میرا  احترام  تم سے ہے!

نومبر 1984 ء  کی  ایک   سیاہ  ُخنک  رات تھی ۔  قدرے نصف شب کاوقت  تھا اور ماحول میں خاموشی   ایک فطر ی  عمل!  زنگالی  رنگ  کے ڈبوں پر مشتمل ، سُست رو ، لمبی ، پرانی مال گاڑی  اپنی روائتی چال سے ، نہ چاہتے ہو ئے  بھی، ہو لے ہو لے آگے  بڑھ رہی تھی ۔شہر کے وسط میں واقع ،  اکلوتے بند،  ریلوے پھاٹک نے پورا  شہر،  دو حصوں میں  کا ٹ کر رکھ دیا تھا۔اِدھر ہم سے ’وقت‘ اور اُدھر ما ل  گاڑی سے ’مُسافت‘ کا ٹنا  دُوبھر ہو رہا تھا۔  شاید زیرِلب کوئی دعائیں بھی رہی ہوں  ، البتہ وقت کے ضیاع پر تاسّف کا  اظہار کافی  نمایا ں تھا ۔  قریباً  پندرہ بیس منٹ  بعد یہ تکلیف دہ عمل مکمل ہوا اور ہم دونوں اپنی اپنی بائیسکل  پر  دوبارہ   بجا نب منزل   روانہ ہوگئے ۔ راستے میں  نہ تو کوئی  شور شرابہ ملا  اور نہ  ہی آپس میں کو ئی بات   رہی۔ دونوں  ہی   اپنی  اپنی سوچ میں گم اور خیالوں میں غلطاں ، اگلے  دس  منٹوں میں ، اپنی منزل پر پہنچے  تو وہاں ایک ہلچل  کا سماں تھا۔ سارے جانے پہچانے لو گ موجود تھے ۔ لیکن  کسی شور و غوغے کے بغیر!

شہر کے معروف  معالج کے پہنچتے ہی  اُسکو اب تک کئے جا چُکے علاج کے بارہ میں بتایا گیا۔ اُسنے مریض اوراپنے دیرینہ دوست کو  با آوازِ بلند سلام کیا اور حو صلہ دیتے ہوئے کہا کہ کو ئی با ت نہیں ، ابھی طبیعت سنبھل جاتی ہے۔ پھاٹک کی نسبت ، یہاں ایک قسم کی  بھنبھنا ہٹ سی تھی۔ سب لو گ زیرِلب ذکرِ الہی اور مسنونہ دعاوں میں مصروف تھے۔ خود مریض بھی درود شریف ، قرانی ادعیہ  اور کلمہ طیبہ کا ورد کر رہا تھا۔ معالج ،  بار بار آکسیجن کا سلنڈر  لانے والوں   کی راہ تک رہے تھے ، جو ابھی تک نہ پہنچ پا ئے تھے ۔ ایک دم کچھ ایسا ہوا  کہ اِدھر   معالج  نے اپنے منہ سے مریض دوست کو سانس دینے کی ناکا م کو شش کی  اور اس کے سینے کو اپنے دونوں   ہا تھوں سے زور زور سے دبانے کی کوشش   کی، تو دوسری طرف  جاری ،  دعاوں کی  بھنبھناہٹ میں بھی ایک بھونچال سا آگیا۔

اس شور میں بھی ایک آواز ، نمایاں  سنائی دی ۔’’ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ لے بھئی  عبداللہ !  بشیر احمد تے اللہ دے حوالے‘‘۔پھر کیا تھا!   ایسا  کُہرام  مچا کہ ذکر ِالہی  کہیں گم سا ہو گیا۔ گیارہ بج  کر پچاس منٹ ہو رہے تھے۔ آکسیجن  پہنچ گئی تھی لیکن اُسکی طلب   اب مفقود  ہو گئی تھی۔تین ڈاکٹر اورساری مطلوبہ  ادویات، اب  دستیاب تھیں لیکن  مریض کوئی  نہ  تھا۔ چند منٹ  کیلئے ، شدید صدمے، ہنگامے ، بے یقینی ،  اور بے کسی کا عالم سب  پر ہی  بیت گیا تھا ۔ گویا  قضائے الہی  کے فیصلے کو  کسی نے    پسند نہ کیا  ہو، نعوذ بااللہ!  اب ، ہو لے ہو لے  ، آہ  و بکا ہ کی جِبلّی آوزیں دہیمی پڑ رہی تھیں ۔ نصف گھنٹے قبل  ، بھنبھناہٹ والی حالت لو ٹ رہی تھی۔ یعنی  ذکرِ الہی  پھر سے جاری ہو رہا تھا۔  گویا ، اپنا غصہ نکال لینے کے  بعد، اب خدا تعالی ٰ کی رضا پر سرِ تسلیم خم کرنے کی نصیحتیں ہو رہی تھیں۔ہماری والدہ ،  خاندان اورہمسائے ومحلہ  کے  دیگر ذمہ دار لوگ ، سارے  اس  کارِ خیر میں شامل ہورہے تھے ۔

تایا جان  ، چوہدری محمد عبداللہ، وہاں موجود رشتہ داروں میں سے ہما رے والد کے سب سے پیارے اور قریبی تھے۔ اُنکے لئے یہ  صدمہ جانکاہی تھا۔ سب اُنکی طرف متوجہ تھے۔  کچھ دیر بعد،  ہمارے بڑے تایا جان میاں نو ر محمد اور ہماری پھوپھیاں  اور دیگر رشتہ داربھی    پہنچنا شروع ہوگئے ۔بقیہ آدھی رات بھی ، زنگا لی مال گاڑی کیطرح آہستہ آہستہ  آگے بڑھ رہی تھی ۔ اُسکے پہیوں کی چر چراہٹ کی مانند،  لوگ سسکیاں بھرتے پہنچ   رہے تھے۔  صبح ناشتے تک تما م قریبی   عزیزو ا قارب ، دیگر شہروں سے بھی  پہنچ  چکے تھے۔ پو ، پُھو ٹتے  ہی ، شہربھر  میں یہ خبر، طلوعِ آفتاب کی ’زرد روشنی‘ کیطرح پھیل چکی تھی۔ ارد گرد کے قصبوں اور شہروں  سے بھی  احمدی احباب،  کشرت سے پہنچ رہے تھے۔ مردوں کا انتظام  ، گھر سے متصل ، مرزا حبیب احمدصاحب  مرحوم کی   حویلی میں کیا گیا تھا جبکہ خواتین کا  انتظام گھر پر ہی تھا۔

دن ۱۱ بجے کے قریب میت کو غسل کیلیے حویلی میں لایا گیا اور برآمدے میں  پردے کا انتظام کرکے   غسل دیا  اور کفن اوڑھا یا گیا۔ محترم  تا یا نور محمد صاحب ، محترم شریف احمد صاحب پیرکوٹی ، چوہدری شفقت حیات صاحب تھیم  اور بابو محمد حنیف  صاحب غسل   دینے والوں میں شامل تھے۔قر یب   ۱۲ بجے  دوپہر ، میت  دیدار کیلئے رکھ دی گئی ۔پہلے مردوں اور بعد میں خواتین   کو  موقع دیا گیا۔    اور بعد نماز ظہر،  ۲ بجے   جنازہ  اٹھا لیا گیا۔

آپکی زندگی  اور وفات دونوں،  ہم میں سے اکثر کیلئے،    نیکی اور کارِ خیر میں، نئے نئے راستے کھولنے والی   اور  بیشتر پہلووں  میں اصلاح کا باعث بنی  ہے ، الحمدللہ !  اسکی کچھ تفصیل تو ذیل میں آئے گی ، اس موقعہ پر ، میں فقط   تدفین اور قبرستان  کے معاملہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔

اپریل  ۱۹۸۴ کو بدنام ِزمانہ ’’امتناع قادیانیت آرڈیننس‘‘ نافذ ہو چکا تھا۔خلیفۃ المسیح الرابعؒ  لندن ہجرت فرما چکے تھے۔ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں جلسے جلوس، پورے ملک میں،  روز کا معمول تھے۔ سچے جھوٹے مقدمات بنائے جا رہے تھے۔  زِندوں اور مُردوں ، دونوں کے سوشل با ئیکاٹ  کا دور دورہ تھا۔قبرستان عام  میں کسی احمدی کی تدفین ، پورے ملک میں روک دی گئی تھی ۔ بلکہ  کئی مقا مات پر تو پہلے سے مدفون احمدیوں کو بھی  باہر نکالا جا رہا تھا۔  یہاں، حا فظ آباد میں ، آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ، یہ پہلی وفات تھی۔ اور ابھی تک  سارے شہر کا  قبرستان مشترکہ تھا۔ صبح نو ۔دس بجے ایک میٹنگ  جناب شیخ محمداسحاق صاحب ، جو شہر کے نامور ریئس ، مجلس ختم نبوت کے    سرپرست اعلی ٰاور ہمارے ہمسائے تھے ، کے گھر منعقد ہوئی۔ جس میں،  حافظ عبدالوہاب صاحب  ، (سالارِختم نبوت فورس)،  جاوید اکبر عثمانی صاحب  ، بابا فیروزفتحگڑھی صاحب  ،   کونسلر انور رحمانی  صاحب  اور  دیگر ہمسائے جبکہ ہماری طرف سے ، محترم تایا  جان محمد عبداللہ ، چوہدری  شفقت حیات صاحب  تھہیم ، بھائی جان نا صر احمد اور  راقم   شامل تھے ۔ وہاں  باالا تفاق یہ طے پایا کہ:

۱۔ ڈاکٹر بشیر احمدصاحب  نے کل رات،  ہمارے سامنے جان دی ہے اور ہم اس بات پر گواہ ہیں کہ انکی وفات  اسلام پر ہوئی ہے۔ وہ  کلمہ طیبہ، درودِپاک اور قرانی ادعیہ پڑھتے ہوے اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے ہیں ۔ اوراللہ کرے  ایسی موت ہر ایک کو نصیب ہو۔

۲۔ صرف ڈاکٹر صاحب مرحوم کی تدفین کی اجازت ہے۔ اس کے علاوہ کسی قادیانی، احمدی یا مرزائی کی قبرستان عام میں  تدفین کی اجازت نہیں ہو گی۔

اِس پیشکش کے باوجود، گھر آکر ، جماعت کے  اکابرین کی ہماری بیٹھک میں ایک اور  میٹنگ ہوئی ۔ جسمیں والدہ محترمہ  بھی با رعایت پردہ شریک ہوئیں اور انہی کے اصرار پر، محترم تایا جا ن نے،  اپنی زمین میں سے،  ایک منا سب قطعہ زمین ، اپنے بھائی کے نام ، بطور ’احمدیہ قبرستان‘  عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ چند دن بعد، جب تایا جان نے ، زمین کے کا غذات دیکھے تو علم ہوا کہ  یہاں موجود قریباً ۲۷ ایکڑ ذرعی رقبہ میں سے  فقط ایک  بیگھہ زمین ، جو قبرستان کیلئے چُنی گئی تھی ، وہی والد صاحب مرحوم  کے نام تھی۔ سبحان اللہ!

آپکا جنازہ، چارپائی پر ڈال کر ، شہرسے ہوتے ہوئے، دو ڈھائی میل دور موضع ڈھینگرانوالی میں، ہماری ذرعی زمینوں کی طرف لیجایا گیا ۔ جنازہ میں سینکڑوں  احمدی و غیر احمدی احباب موجود تھے۔ محترم ۔۔۔۔۔صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی ۔ تدفین اور دعا کے بعد ، غروب آفتاب پر ہم لوگ واپس گھر پہنچے۔ والد صاحب کے مامووں کیطرف سے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔گزشتہ رات سے جگے   اور سارا دن بھوکے رہنے کے بعد، سب نے کھانا کھا یا۔ والد صاحب کا ذکر خیر ، ہر ایک کی زبان پر تھا۔

اگلے چھ روز، اسی حویلی میں ، تعزیت کیلیے لوگ آتے رہے اور آپکی زندگی کے بہترین پہلو بیان کر کے ، آپکی  مغفرت کیلئے دعاکر تے رہے۔کسی نےبھی  آپ سے متعلق  کوئی شکوہ کیا اور نہ ہی کو ئی تقاضہ !   فاالحمدللہ علیٰ ذالک

یہاں ایک سچےاور بار باررُونما  ہونیوالے واقعے کا ذِکر بر مَحل رہےگا۔ اُس زمانہ میں نہ تو خوشبو کیلئے کوئی  رُوم سپرے  میسر تھے اور نہ  ہی غیر احمدیوں کیطرح، ہمارے ہاں اگربتیاں جلانے کا  رواج تھا۔  لیکن تدفین سے اگلے روز ہی ، اچانک خوشبووٗں کے ہیولے ہمارے گھر میں آتے، اور سبھی محسوس کرتے اورباآوازِ  بُلند ، درود شریف کا وِرد شروع ہو جاتااور یہ سلسلہ کئی روز تک جاری رہا۔ اس  امرکے گواہ گھر کےافراد کے  علاوہ دیگر  تعزیت کرنے والے بھی ہیں ۔

وفات کے وقت آپکی عمر 49   برس  تھی۔ آپ خوش رُو ،  خوش شکل، خوش  خیال، خوش مزاج، خوش اخلاق، خوش لباس، خوش قسمت اور خوش نصیب وجود تھے۔ لفظ ، ’خوش‘  کی تکرار میں نے یونہی  بلا وجہ نہیں کر دی،   بلکہ قدرے کم استعمال کی ہے۔  اگر کوئی اس لفظ سے اٹھنے والی مہک، ٹھنڈک  اور   لذّت کو محسوس کرنے والا ہو  تو  وہی ، اِس  لفظ کے صحیح استعمال سے حَظّ اٹھا سکتا ہے۔’’خوش‘‘ کا لفظ آپکے وجود کو گھیرے ہوا تھا۔  اِسی طرح ، ’’خوش قِسمت‘‘ اور ’’خوش نصیب‘‘ کے الفاظ بھی، عموماً  مترادف اور ہم معنی سمجھے جا تے ہیں  لیکن در حقیقت  ، اِن میں فرق ہے۔ عموماً  مشہور ہے کہ انسان  ، اپنی قسمت خود بنا تا ہے۔ قِسمت  چاہے خداتعالیٰ کی مشیت  سے بنتی ہو یا انسانی کا وشوں اور محنت سے ، اس میں ظاہری کا میابی اور ترقی کا عمل دخل  نمایا ں نظر آتا  ہے۔خوش نصیبی، اس سے اگلی منزل ہے۔ یا یوں کہیئے کہ ’’خوش نصیبی ‘‘،  خوش قسمتی کی تکمیل  ہے  ، اِس دنیا میں اور آخرت  میں بھی  ساتھ چلتی ہے۔  اوربفضل ِتعالی  آئندہ نسلوں تک میں جاری رہتی ہے۔

والد محترم  سے متعلق میرے یہ خیا لات اور جذبات، محض  نسلی و خونی تعلق کی وجہ سے نہیں،  بلکہ  گزشتہ  پچاس سالہ زندگی  میں ،  اُن سے  جڑے اور اُن سے ملے ہوئے سینکڑوں لوگوں    سے میل ملا قات   اور معاملات زندگی  کرنے کے بعد، اور  زندگی کے مختلف اتار چڑھاو   دیکھنے   کے بعد، میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ واقعی وہ خداتعالیٰ کے پیارے اور مقبول وجودوں میں سے تھے۔ بلا شبہ  یہ بفضل باری تعالیٰ ہے اور بقول ِشاعر:

؎  ایں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خدائے بخشندہ  !

چونتیس سال تک ، میں نے آپ پر کچھ نہیں لکھا ۔ پھر ایک  ترکیب نے میر ا  یہ مسلئہ حل کر دیا۔ اب جب میری عمُر  اُن سے بھی ایک برس  بڑھ گئی ہے ،  تو سوچا کہ کیوں نہ  اُنکے اور اپنے پچاس برسوں کا موازنہ کر لیا جائے؟   مجھے اور اہل خاندان کو  تو اِس کا نتیجہ پہلے سے ہی معلوم ہے کہ والد صاحب عمل کے پیکر تھے او رہم  صرف باتیں کرنے والے!

اِس  تحریر  کا مقصد والد صاحب مرحوم  کی تعریف  وتو صیف   ہر گز نہیں۔  اور نہ ہی  ایساکوئی عمل اُنکو یا ہمیں کو ئی فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ہاں  البتہ ، اس کایہ  مقصد ضرور ہے کہ ہمیں اور ہماری آنیوالی نسلوں کو یہ معلوم  ہو جائے کہ وہ کونسی بھلی خصوصیات اور وہ کونسے نیک  ا عمال  ہیں، جن سے خالق کی  رضا  اور مخلوق   کی خوشی حاصل ہو سکتی ہے؟  کس طرح مرنے کے بعد بھی ، صدقہ جاریہ کے ذریعے انسان کونیکیوں کا نفع،   بفضلِ تعالیٰ  پہنچتا رہتا ہے اور اُسکا  اگلا سفر،  اعلیٰ سے  عِلّییّن کیطرف  جاری رہتا ہے۔

خاندان ، بچپن،جوانی اور تعلیم

آپ  10 اکتوبر1935 ء  کو  حافظ آباد میں پیداہوئے۔آپ کے والد میاں فضل دین  صاحب  کی پہلی بیوی  فاطمہ بی بی  سے تین لڑکے  میاں علی محمد، میاں دوست محمد اور میاں نور محمد تھے ۔ اہلیہ کی وفات کے کئی سال بعد، ہمارے دادا  میا ں فضل دین صاحب نے دوسری شادی محترمہ اللہ جوائی صاحبہ سے کی جنکی پہلی شادی  سے ایک بیٹی  مسماۃ دولت بی بی بھی تھی۔ بعدمیں اِن کے ہاں   علیٰ الترتیب  پانچ بچے ، خاتون بی بی، غلام علی، محمد عبد اللہ ، بشیر احمداور  بشیر اں بی بی  پیداہوئے۔

محلہ قتل گڑھا ،  حافظ آباد شہر کے مغربی کنارے پر آخری  آبادی تھی۔  اکثر  گھر کچّے ، لو گ  زیادہ تر غریب ، محنت کش اور سادہ   لوح تھے۔ آپکا گھر بھی گارے اور مٹی سے بنا ، دو کمروں  ، کچن اور پختہ اینٹوں سے بنے برآمدے اور نلکے (ؑغسل خانے) پر مشتمل تھا۔ بجلی، پورے محلے میں ناپید تھی۔ جٹ ہنجرا   زمیندار گھرانے سے تعلق تھا تاہم دادا حضور  کی پیرانہ سالی اور عیال داری  کی وجہ سے، محنت کشی سے گھر کی  ضروریات پوری ہو رہی تھیں۔ ایک عدد بھینس بچوں کے دودھ ، دہی  اور گھی  وغیرہ کی ضروریات  کیلئے رکھی ہوئی تھی، جس سے اِن بچوں  کی صحت ، باوجود غربت کے اچھی رہی۔

ہمارے  دادا میاں فضل دین  مرحوم ، نیک دل،  ملنسار، سادہ  طبیعت اور دیندار انسان تھے ۔  نماز  و روزہ  کے پا بند اور قرآن کریم  کی تلاوت سے دلی سکون  حاصل کرنے والا وجود تھے۔جبکہ دادی اماں،  ٹھیٹھ،   دیہاتی اور سخت مزاج  خاتون تھیں۔ زبان ، لہجہ و لباس  خالص پنجابی !  جن لوگوں کو ڈاکٹر صاحب مرحوم سے ملنے اور اُنکے پس منظر  کو دیکھنے  کا اتفاق ہو ا ہے، وہ آپکو ’کنول ‘ کا پھول  کہتے تھے  ۔

آپ نسبتاً کم گو،   دُبلے پتلے،  من  موہنی صورت ، گوری  رنگت اور پُر کشش شخصیت کے مالک تھے۔ جو بھی آپکو دیکھتا ، بات کر تا  اور آپ  سے ملتا،  آپکا گرویدہ ہو جاتا۔

محلے کے سرکاری سکول سے پرائمری اورگورنمنٹ مسلم ہائی سکول سے ، فرسٹ ڈویژن میں،  میٹرک کا امتحان   پا س کیا ۔  شہر بھر میں گنتی کے   صرف چند نوجوانوں نے ہی  میٹرک میں فرسٹ  ڈویژن حاصل کی تھی۔ اُن میں یہ تینوں دوست،  خواجہ عتیق اللہ، رشید احمد اور بشیر احمدبھی  شامل تھے۔ یہ تینوں کبھی کبھی ، بھینس والے پختہ برآمدے میں بوریئے پر بیٹھ کر، دیئے کی لو میں  پڑھتے۔ ہمارے دادا ابو کی  فیاضی کی بدولت  سیر ہو کر دودھ  پیتے اور گھی سے چوپڑے دادی اماں  کے ہا تھ  کے پراٹھے بھی کھاتے ۔  آپکے دو دوستوں   رشید احمدصاحب اور محمد جعفر  نے تو جلد یا بدیر،   ڈاکٹری کی باقاعدہ تعلیم شروع کر دی ۔ تا ہم بشیر احمد کے حالات نے انہیں آگے تعلیم جاری رکھنے کی  اجازت نہ دی۔

نجانے کیسے تیسے ، آپ نے نارمل سکول ، گھکٹر منڈی  ضلع گوجرانوالہ سے ایلیمنٹری (بنیادی) ٹیچنگ  کورس مکمل کیا ۔  آپکی پہلی تقرری   قریبی موضع،  کوٹ حسن خان میں  ہوئی ۔ یہاں بھی شہر کی طرح وہاں کے لوگ بھی  آپکے عاشق تھے۔ وہاں کے  ایک معزز زمیندار چوہدری محمد سعید صاحب نے آپکو اپنا چھوٹا بھائی اور بیٹا بنا لیا تھا اور اُنکی بیٹیاں ہماری پھوپھو بنی ہو ئی تھیں۔(انہیں میں سے کسی ایک کی شادی ، لاہور ہائیکورٹ بار کے سابق صدر، مشہور   بیرسٹر اویس احمد  صاحب سے ہو ئی ہے)۔ کچھ عرصہ بعد آپکا تبادلہ   میونسپل   پرائمری سکول نمبر6   (نزد  فاروق اعظم چوک  ) میں  ہو گیا۔(اسی سکول میں ،حضور انور کے چیف سیکیورٹی آفیسر میجر (ریٹائرڈ) محموداحمد ملک صاحب اور انکے بھائی  بھی آپ سے تعلیم حاصل کر تے رہے۔اوراسی واسطے  سے ، موصوف  ہمیشہ ہی   ہم سےبہت   پیا ر اور محبت کا  سلوک  کرتے ہیں )۔ یہ ملازمت اور مقام ،  اِس خاندان کیلئے بہت بڑی بات تھی اور  ہمارے دادا  اور دادی  جان کے نزدیک   تو اِس سے زیادہ پڑھنا  لکھنا، گویا دماغ خراب کر نے کے مترادف تھا۔

مدرس کی  ملازمت کیساتھ ساتھ آپ اتوار(چھٹی)  کے روز،   اپنے مامووں  مہردین و محمود  احمداور  بھائیوں   کیساتھ مل کر،  سائیکل پر   کپڑا  فروخت کرنے کیلئے  قرب و جوار کے دیہاتوں میں بھی جاتے۔ وہاں کے بھی لوگ آپکے معترف رہتے تھے۔

اس دوران، سول ہسپتال حافظ آباد میں ایک احمدی ڈاکٹر  محمد احمد  صاحب   تعیینات ہوئے۔ مسجد میں آپ سے بطور اُستاد تعارف ہوا تو فوراً اپنے بچوں کے ٹیوٹر کے طور پر آپکی خدمات  چاہیں۔ چند روز  بعد  ہی محترم ڈاکٹر صاحب نے والد صاحب سے کہا آپ  میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ کیوں نہیں ہو جاتے؟ والد صاحب نے ساری بات بتائی تو ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں آپکے گھر والوں سے خود بات کروں  گا۔ اور یوں محترم ڈاکٹر صاحب کی خواہش،  تجویز اور کوششوں سے آپکا  گوجرانوالہ میں میڈیکل ڈسپنسر شپ کے کورس میں داخلہ ہو گیا۔

والدین اور  بزرگوں  سے محبت  ؛

والدین سے محبت ، اطاعت اور اُنکی خدمت کا جذبہ تو آپکے سب بھائیوں میں کُوٹ کُوٹ کر بھراہوا تھا۔  لیکن صرف ایک واقعہ سے ہی والدصاحب کےاُس  اعلیٰ معیا ر کا  بھی اندازہ ہو جائے گا جو آج ہماری زندگیوں میں تقریباً  ناپید ہو چکا ہے۔ آپکی سوچ، انداز اور  شخصیت نہ صرف اپنے  بہن  بھایئوں میں منفرد تھی بلکہ آپکے کزنز سے تو باالکل ہی الگ تھی ۔ ایک موقع پر، جب  بظاہر  کُفوْ، کا  کو ئی سوال ہی نہ تھا،   میر ے دادا حضور نے، اپنے چھوٹے بھائی ، میاں مولا بخش  مرحوم  کے کا ندھے پر پیار سے   ہا تھ رکھا اور کہا کہ’’ اپنا  بشیر احمد ہے ناں! اِس سے بُشریٰ کی شادی کر دیتے ہیں !‘‘ ۔۔۔۔پھر اِس سے کو ئی با ت  اُوپر اور نہ   نیچے!   اور معاملہ طے۔

آپکی شادی  کی تقریب انتہائی سادگی سے ہوئی ۔ آپ نے اپنی بیوی  کو پورے عزت،  احترام، وقار اور وفا سے  اپنا یا۔ اُسکو ہمیشہ ’’ کرمانوالی ‘‘کہہ کر بُلاتے۔ کئی نازنینوں نےایک لمبا عرصہ ،  آپ پر ڈورے  ڈالنے کی کوششیں بھی کیں لیکن آپ نے ہمیشہ اُنکو اور اُنکے والدین کو اپنے گھر بلُا نا  ، کھانا کھلا نا  ، اور سوٹ دیکر بہن بنا  لینا ۔ اِسی وجہ سے ہماری پھوپھیاں  اور خالائیں بے شمار تھیں ۔

گوجرانوالہ میں ڈسپنسر کے کورس کے دوران ، آپ ہسپتال سے  بَچی کھُچی  اور اضافی  دستیاب ادویات گھر لے آتے اور اپنے  غریب محلے داروں کا مفت  علاج کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے آپکے ہاتھ  میں شفاء    رکھ دی تھی ۔ کورس مکمل کرتے ہی ، آپ نے مین بازار میں، ایک صاحب  ولی محمد  (موچی) سے دوکان کرایہ پر حاصل کی ، انتہائی معمولی  ساز و سامان   سے اپنی میڈیکل پریکٹس کا آغاز کردیا۔ آپکے اخلاق  تو پہلے ہی لوگوں کے دل موہہ لینے والے  تھے ، اب ادویا ت کے ذریعے لوگوں کے دکھ  درد اور جسمانی امراض کا بھی شافی علاج ہو نے لگا تھا ۔ آپ اپنی زندگی میں بھی فرشتہ صفت کہلائے اور وفات کے بعد بھی !

اُس وقت ، شہر بھر میں صرف  تین  کوالیفائیڈ ( ایم ۔بی۔بی۔ایس ) ڈاکٹر تھے۔ دو آپکے دوست اور کلاس فیلوز ڈاکٹر رشید احمد صاحب(جن کا ذکر، ابتدائیہ  میں آپ  پڑھ آئے ہیں)  اور ڈاکٹر محمد جعفرصاحب  اور تیسرے سِول ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ،  ڈاکٹرمحمد صادق صاحب (جو ہماری دادی کے منہ بولے بیٹے بنے ہوئے تھے)۔ جبکہ دیسی حکماء کا بڑااثرو  رسوخ تھا جیسا کہ حکیم غلام حسین صاحب والد (ڈاکٹر ) حسن  صاحب،  حکیم عبدالرشید صاحب، حکیم مولوی    محمد ابراھیم صاحب  (خطیب مسجدمبارک  اہلحدیث ) ، حکیم عبدالغنی  صاحب وغیرہ وغیرہ۔ علاوہ ازیں، کئی  اور میڈیکل  ڈسپنسر ز نے آپکے ساتھ یا آپکو دیکھ کر اس شعبہ کیطرف توجہ کی تھی  اور نام کمایا  جیسے کہ( ڈاکٹر )حسن صاحب، (ڈاکٹر) محمد حسین بھٹی صاحب  ، (ڈاکٹر) مخدوم قریشی صاحب وغیرہم ۔

اُسو قت،  شہر کی اپنی آبادی پچاس ہزار  کے لگ بھگ ہو گی ۔  اُس پر قرب و جوار کے دیہاتوں سے  بے شمار مریض  روزانہ حافظ آباد میں علاج  معالجہ کی غرض سے آتے۔اس زمانہ میں ،  شُہرت اور عوامی  رابطے کی بنیا د پر  معالج کا فیصلہ ہوتا  تھا ۔ بفضلِ تعالیٰ والد صاحب کی نیک نامی ، شہرت اور کا میاب علاج کی  دُھوم   بہت تھی۔ آپ علاج بطور  خدمت  کرتے نہ کہ بطور  کا روبار!   اوّل تو آپ  نہایت معقول معاوضہ وصول کرتے۔دوسرے  ایسی سینکڑوں مثالیں دیکھیں اور سنیں کہ مریض نے  دوا لینے سے پہلے یا بعد میں کہا کہ میرے پاس  تو پیسے نہیں ہیں!  اِس پر آپ  نہ صرف دوا دیتے  بلکہ اپنی میز کی  دراز   کھول کر ، اس میں سے کچھ نقد رقم بھی مریض کو دیتے تا کہ اچھی خوراک اور دودھ وغیرہ کا بندوبست کر سکے۔بیرون شہر سے آنیوالوں کیلئے بعض اوقات گھر سے کھانا منگوا کر کھلاتے۔ بوقت ِ ضرورت  اُنکی عارضی رہائش    کا انتظام بھی کروا دیتے۔ ہمارے خاندان  کے اکثر نوجوانوں نے آپکو دیکھ کرجب   طِبّ کے شعبہ کو اپنایا  تو ساتھ ساتھ ، ہمددردی خلق کے  اس عظیم  وصف کو بھی اپنایا ، جو میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے والد صاحب کیلئے بطور صدقہ جاریہ ہے ۔ فجزاھہم اللہ تعالی ٰ واحسن الجزاء

اللہ تعالیٰ نے آپکو  ہر نعمت سے  نوازا تھا ۔ نیکی، تقویٰ ، طہارت ،  حیاء، عزت ، شہرت ، مال ودولت، دوست احباب،  زمین جائیداد،  وفادار  اور سلیقہ شعار بیوی اور فرمانبردار اولاد ! ڈاکٹر بشیر احمد کا نا م ، ایک دُ عا ،  ایک  خواہش  اورایک  ضرب المثل ۔۔۔   بن گیا تھا۔  سبحان اللہ علیٰ ذالک۔

آپکے ایم ۔بی۔بی ۔ایس ڈاکٹر دوست ،  بر سر عام  کہتے کہ بشیر احمد کی  نیک نامی  اور پر یکٹس تو  ہم سے  بھی زیادہ ہے۔  رفتہ رفتہ شہر میں  نئے کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کی  تعداد بڑھنے لگی لیکن اس کے باجود، والد صاحب کی پریکٹس پر کو ئی  منفی اثر نہ پڑا۔ سوائے اِس  کہ اب آپکی شہرت ڈاکٹر بشیراحمد ’ مرزائی‘ کے نا م سے ہو نے لگی تھی ۔  ایک موقع پر  ،  شہر کےایم ۔بی۔بی۔ ایس  ڈاکٹر وں نے اپنی  ایک انجمن بنا ئی اور سال میں ایک دو  مرتبہ  اپنا  اجلاس اور  ڈنر کا اہتمام کرتے ۔ اس اجلاس اور ڈنر میں ، محترم والد صاحب  سمیت ، دیگر نمایاں میڈیکل پریکٹیشنرز کو بھی مدعو کیا جاتا۔کیونکہ وہ لوگ جانتے تھے لوگوں کی کثیر تعداد اِنکے پا س علاج کیلئے جاتی ہے ۔ لہذا اِن سے میل  جول اور طِبّ کے معاملات پر بات چیت ، مریضوں کےعمومی  مفاد میں ہو گی۔ لیکن  1984 ء  کی جماعت مخالف تحریک بعد ،  آپکو  اپنے اجلاسوں میں بلانا بند کردیا۔ اس کے باوجود، والد صاحب کی دوستیاں اور محبتیں اپنے دوستوں سے ہمیشہ  ہری رہیں ۔ آپ انہیں ہر عیدالفظر پر میٹھا اور بقر عید پر گوشت کے تحائف ،  اپنے بچوں اور بھتیجوں کے  ہاتھوں بھجواتے رہے ۔ اسی طرح وہ بھی آپکو گاہے بگاہے اپنی خوشیوں میں یاد رکھتے۔

نوع انسانی  سے محبت ، ہمدردی ، خدمت خلق اور ایثار کا جذبہ آپکی رگوں میں لہو  رنگ  تھا۔ نوجوانی کی ابتداء تھی اور پرائمری سکول کی معمولی سی ملازمت تھی لیکن آپ اپنے  غریب  ساتھیوں اور مستحق طلباء کی تعلیمی اور  مالی امداد  کرتے۔ انکو کتابیں اور دیگر ضروری سامان مہیا کرتے۔ آپکی وفات پر ایسی  کئی مثالیں ہمارے علم میں آئیں۔ مثلاً ایک دوست نے اسلام آباد سے لکھا ( محترم انوار الحق صاحب بعد میں فیڈرل گورنمنٹ میں بطو ر سیکریٹری  ریٹائرڈ ہوئے)  کہ بچپن میں  ڈاکٹر صاحب مرحوم نے  میری بہت امداد کی ۔ حتی ٰ کہ مجھے کپڑے  بھی سِلوا کر دئیے۔ میڈیکل پریکٹیشنر کے طور پر، بفضل ِتعالی ٰ ، جہاں آپکی روزانہ آمدن ، سینکڑوں اور ہزاروں روپے  تک  پہنچ گئی تھی،  وہاں آپکی جودوسخا اور فیاضی کا مورد بھی سینکڑوں میں ہوگئے تھے۔ ہم شہر میں جہاں بھی جاتے، ہمیں خصوصی پروٹوکول ملتا۔ مسجدتھی یا  سکول ، ریڑھی بان تھا یا تانگے والا ، دکاندار تھا  یا   ایجنسی والا، بازار تھا یا سبزی منڈی ، ریلوے اسٹیشن تھا  یا لاری اڈہ۔۔۔جہاں جاتے، لوگ ہمارا  سواگت کرتے! ڈاکٹر صاحب  ، ڈاکٹر صاحب کہہ  کر استقبال کرتے۔ از خود ڈاکٹر صاحب کی مہربانیوں کے تذکرے شروع کر دیتے۔ اصل میں، آپکے سب  مریض صحتیاب ہو کر آپکے مُرید بن جاتے تھے۔واللہ !  کئی لوگ، آپکی  کلینک کے سامنے سے  سلام کیے  (بقول اُنکے حاضری لگائے)   بغیر گزر نہیں سکتے تھے۔ گھر اور خاندان والے حیران رہ جاتے کہ اِسقدر فیاضی کے باوجود، دولت کی  یہ ریل پیل کیسے؟ اِسکا جواب حقیقت میں ، ھذامن فضل ِرَبیِّ  کے سوا اور کیا ہو سکتا تھا؟

ہر روز،  کسی نہ کسی  کی طرف سے کوئی تحفہ مو صول ہو رہا  ہو تا ۔ کوئی تازہ  تو کو ئی خُشک پھل  اور کوئی بے موسم پھل لا رہا ہے۔ کہیں سے مٹھائیاں ، کپڑےاور گھڑیاں  آرہی  ہیں تو  کوئی ہاتھ سے بنے   غلیچے (قالین ) لا  رہا ہے  ۔ کسی نے نئی چیز خریدی یا بنائی ہے وہ دکھانے اور دُعا کروانے کیلئے لا رہا ہے۔واللہ !  کئی لوگ آپکو پیر صاحب بھی پکارتے! اپنے   بچوں کو آگے کرتے اور جتاتے ’’کہ یہ آپکی دوا اور دُعاسے ہو ا ہے ‘‘۔ دبئی سے  کیمرہ لانے  والا، درخواست کر کے سب کی تصویریں   بنانے کی ضد کر رہا ہے۔ کئی گاڑی والوں کیطرف سے سیر کرنے اور کرانے  کی   درخواست ہو رہی ہے۔

پرائمری  سکول تھا یا ہائی سکول ، سب کے اساتذہ ، یا تو آپکے کلاس فیلوز، دوست  یا پھر کو لیگ  رہے تھے ۔ اور جو اِس شُمار میں نہیں آتے تھے ، وہ  اسکول میں پڑھنے والے آپکے بچوں یا   بھانجے بھتیجوں   کا نا م  ، اپنی بیماری  بتانے سے پہلے بتا دیتے  تاکہ  ڈاکٹر صاحب  کی  خصوصی توجہ حاصل کر سکیں۔ والد صاحب موصوف  مسکراتے  جاتے اوراُنکا بِل آدھا        یا  پھر پوُرا معاف ہو جاتا۔ لیکن جب ہم میں سے کوئی   اُنکے ہاں ٹیویشن لینے جا تا تو فیس وقت پر اور لازماً ادا کرتے۔

خاندان (دورو نزدیک) ، واقفین ِزندگی  اور کارکنان کا علاج بھی مفت تھا۔ سب سے بڑھ کر جو خدمت تھی و ہ تو   کلینک کے اوقات ختم ہونیکے  بعد شروع ہو تی تھی۔  ابھی گھرمیں  داخل ہوئے ہیں، دروازے پر دستک! کھا نا شروع کیا ہی ہے کہ  گھنٹی بج گئی ۔ رات سفر سے آئے ہیں ۔ ابھی تھکے ہارے سوئے ہیں کہ کسی نے دروازہ کھٹکٹھا نا شروع کر دیا۔ سب گھر والے کچھ نہ کچھ ُبڑبَڑا رہے ہیں لیکن آپ کہتے کہ: اُس کو کیا خبر کہ  میں ابھی آیا ہوں۔۔۔ یا میں  ابھی لیٹا ہوں۔ وہ بھی تو پریشان ہے۔ کوئی بیمار ہوگا تبھی تو وہ آیا ہے!   وغیرہ وغیرہ۔ نماز ، جمعہ، عیدین، اور شادی بیاہ۔۔  غرض  ، کو ئی موقعہ  آپ کو خلوت اور آرام کا  ملنا محال تھا ۔ لیکن اسکے باوجود وہ خوش اور مطمعن تھے۔  سب مشورے دیتے کہ انکو جواب  دے دیں اور  گھر میں مریض دیکھنا بند کردیں، لیکن آپ نے اپنی نیک عادت ترک نہ کی اور نہ ہی کسی سے کوئی  اضافی چارج  لیتے۔ فجزاہم اللہ تعالی ٰ خیر!

خاندان و اہل خانہ سے حُسن سلوک:

اپنے بہن بھائیوں ،  اُنکے شریکِ حیات    اور اُنکی اولادوں سے بہت پیا ر اور شفقت کا سلوک کرتے۔ُ انکی ضروریات  کا حتی المقدور خیال رکھتے اوربوقتِ ضرورت  مالی معاونت   کرتے۔  کسی کو بھی ،  قرضہ ِحسنہ  دینے کیلئے کبھی دیر نہ کرتے۔خاندان کی تمام خوشی اور غمی کی   تقاریب میں ، کچھ وقت کیلئے شریک ہونے کی انتہائی کوشش کرتے۔ فطرتا ًکم گو تھے لیکن ہر محفل کی جان ہوتے۔ تھوڑا سا ہنسنے پر (معصوم  بچوں کیطرح ) آپکی  آنکھیں بھر آتیں  اور پھر دونوں ہاتھوں سے انہیں صاف کرتے۔ مجھے یا د ہے کہ دوستوں، شاگردوں اور جماعتی احباب کی شادیوں میں بڑے شوق سے شرکت کرتے اور اچھے اور بڑے تحائف دیتے۔ بڑا بیٹا ہونے کے ناطے  مجھے اکثر اپنے ساتھ لیجاتے۔ میں نے اُن کے ساتھ بہت سی شادیوں  اور دیگر تقریبات  میں شرکت  کی ہے۔ آپ  ہمیشہ مرکزی مہمان ہوتے۔ آج میں  جب ، اس بات پر  غور کرتا ہوں تو فقظ  دو   وجوہات ، اس بات کی نظر آتی ہیں ۔ ایک محض للہ ہمدردیٗ خُلق اور دوسرے ، اپنی مصروف  زندگی سے ، اُس تقریب کیلئے وقت نکالنا!  وگرنہ کون اُس زمانہ میں سفر کی صعوبتیں بھی برداشت کرتا، اپنا  روپیہ بھی خرچ کرتا اور اپنے کا م کا حرج بھی کرتا؟ لوگ ، اس بات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

اپنے بیوی بچوں سے بہت پیا ر تھا ۔بات  کم  اور عمل زیادہ  کرتے ۔  اُن پر اللہ تعالیٰ کا یہ عظیم احسان تھا کہ جب بولتے ، تو سب توجہ سے  سنتے اور  ایک دفعہ کہی بات کا سب پر بہت  دیر پا اثر ہوتا تھا ۔ آپکی وفات پر میری عمر پندرہ برس کے قریب تھی۔ شعور کی اولین عمر اگر 10  برس  بھی لیں تو میں نے اُن کے ساتھ محض 5    برس گزارے ہیں۔ ان پا نچ برسوں میں انہوں نے مجھ سے  مخاطب ہو کر ، خالص نصیحت کے طور پر،  پانچ سات باتیں  ہی کہی تھیں ، جو آج بھی ذہن میں ،  اُسی طرح سے مستحضر ہیں جیسے کوئی  کل کی بات ہو! باقی ہم سب  بہن  بھائیوں  کی ساری تربیت،  ہماری والدہ  محترمہ نے اِس طرح کی کہ’’ تمھارے  والد نے  ایسے  کہا ہے اور ایسا کرنا ہے‘‘ اور بس !   سمعنا و اطعنا  کی  جو عملی مثال ہم بہن بھایئوں سے صادر ہوئی ، میں سچ کہتا ہوں کہ اُس میں ہمارا  تو کوئی  کمال نہیں۔یہ تو وہ  فضلِ باری تعالی ٰ تھا جو اِس  خوش نصیب  جوڑے پر تھا۔

صاف ستھرا ور  سجا ہو ا گھر،سب کے الگ الگ کمرے، اُن میں سلیقے سے  بچھے ہوۓ اور تکیے لگے بستر،پھلدار درخت اور   پھولدار  پودوں سے لدی کیاریاں، شور کرتے  پانی کے فوارے،  جگمگ کرتی خوبصورت روشنیاں،  اکٹھے بیٹھ کر کھانا ، باتیں کرنا اور عبادات بجا لا نا ۔۔۔ اُنکا  وہ خواب تھا جسکا ذکر آپ نے  کئی دفعہ کیا۔ شہر میں کنال  اور دس ، دس   مرلے  کے تین پلاٹ تھے۔ علاہ ازیں  ربوہ اور لاہور میں بھی پلاٹ تھے۔ تعمیر کیلئے وافر سرمایہ  بھی  دستیاب تھا۔ ایسے کئی بنے بنائے گھر بھی دیکھے گئے  ، قیمت بھی طے ہو جاتی ،  لیکن  اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو  کچھ اور ہی منظور تھا۔چنانچہ ، آپ نے اپنی  ساری خواہشیں ، پیلی کوٹھی اور کرائے کے چھوٹے سے مکان میں ہی پوری کر لیں تھیں۔پھل  تو تازہ اور کثرت سے  روزانہ ہی   آ جاتے تھے۔ پھول اور پودے با با   محمد رمضان  (مالی)، بابو محمد حنیف اور راجہ صاحب(ٹیوب ویل آپریٹر)   جیسے  دیگر لوگ، گملوں میں آکر لگا جا تے اور گوڈی بھی کرجاتے۔ شروع میں ہماری والدہ  اور کام والی  مددگار خواتین نے گھر سنبھالا تھا ۔ بعدازاں ہماری بہنوں نے اپنے والد ین کی بہت خدمت اور  عزت افزائی کی ۔ فجزاھہم اللہ تعالی ٰ واحسن الجزاء

گھر صاف ستھرا، چارپائیاں صاف بچھی ہوئیں، دُھلے ہوئے اور  استری شدہ کپڑے ،  روزانہ  پالش شدہ جوتے  اور  ہر بار گھر سے نکلنے سے پہلے  پھر صاف کئے جاتے۔ مزیدار اور نت نئے کھانے،  تا زہ بتازہ  روزانہ  تیا ر کئے جاتے۔  گرمیوں میں  دوپہر  کے  کھانے کا وہی منظر تھا ، جو آپ چاہتے  تھے۔ رنگ برنگے سلاد،  نمکین   اور چٹ پٹی چٹنیاں، مُربّے،  گھر پر لگے تندور کی چو پڑی  ہوئی  روٹیاں،  گھر کی بلو ئی  ہوئی لسّی ، فریج  میں لگے ٹھنڈے  خربوزے، فریزر  میں جمے انگور، بالٹیوں میں ٹھنڈے کیے ہوئے آم ،  سارے قالین پر، آلتی پا لتی مار کر  بیٹھ، خوشی خوشی  کھاتے۔ رات کو سفید موتیئے اور گلاب کے پھولوں کے ہار آتے، کچھ سرہانوں کے قریب رکھ دیئے جاتے اور ایک دو پنکھے پر ڈال دیئے جاتے جس سے خوشبودار ہوا ،  سارے ماحول کو  معطر کرتی رہتی!  گرمیوں میں،  شام کو دودھ سوڈّھے  اور رات کو  ٹھنڈا ’’گرما ‘‘ اکثر  کھانے کو ملتا۔ ناشتہ بھی کئی انواع کا ہوتا۔ موسم  گرما میں تو  ناشتے سے پہلے،  سردائی یا پھر تربوز کھلاتے۔

سردیوں میں  آپکو ساگ اور مکئی کی  روٹی بہت بھاتی۔ ’آلو  گوبھی‘ اور شلجم  کا پنجابی ’’ بولیوں‘‘  سے  خوب  سواگت کرتے۔ کسی چیزکے کھانے  سے انکار  نہ کرتے بلکہ اُسکے فوائد اور مضمرات سے آگاہ کرتے رہتے۔ مچھلی  کو گوشت کی تمام اقسام میں سے اعلیٰ ترین  سمجھتے۔ ہرقسم کا خشک وتازہ میوہ خوشی اوربلند آواز  میں دعا  کر کے کھاتے ۔ کئی دفعہ ہاتھ اٹھا کر دیر تک دعائیں کرتے۔ قرب جوار میں رہنے والے عزیزواقارب کو بھی بھجواتے۔  اور ہمیں بھی یہی عادت اپنانے کی تلقین کرتے ۔  ہر کام میں نفاست  اپناتے۔ کوئی بھی پھل  یا سبزی ، دھوئے یا  مناسب طور پر کاٹے بغیر نہ کھاتے۔ مونگ پھلی ہو یا گناّ   ، گنّڈیری کھانے سے پہلے اُسکے چھلکوں کے لئے برتن کا انتظام کرواتے۔  عموماً بازار سے پکی ہوئی یا بنی ہوئی چیزوں کو پسند نہ کرتے۔ ہمیشہ گھروالوں کو ہر چیز گھر پر ہی   تیار کرنے کی ترغیب دلاتے۔ اگر کوئی چیز  کھانے کی ، باہر سے آجاتی یا لانی پڑ جاتی  تو  گھر میں لا کر ،  سب  کے  ساتھ مل کر کھاتے  ۔

اپنے کئی عزیزوں  اور بھتیجوں کے ہم عمر ہونے یا عمر  میں زیادہ فرق نہ ہونیکی وجہ سے دوستی کا تعلق تھا ۔ ان میں سب سے زیاد تعلق اپنے  بھتیجے (اور ہمارے  لئے بھائی جان)  محمد طفیل نسیمؔ  صاحب سے تھا۔  یہ بھی آپکی طرح شعبہ طب سے متعلق تھے اور آپ سے جونیئر تھے۔ آپ نے ، جوانی میں ،  جو بھی  سیر سپاٹا  یا تفریح کی، انہی کیساتھ کی۔ لاہور بھی انہوں نے ہی والد صاحب کو گھمایا پھرایا۔ اکٹھے کپڑے وغیرہ خریدتے اور سلاتے۔ بھائی جان  طفیل، اپنے وقت کے لحاظ سے کافی ماڈرن تھے۔  اُنکو اچھے لباس، جوتوں اور گھڑیوں کا بہت شوق تھا۔والد صاحب ٹہرے    ذرہ ،  سادہ طبیعت کے  ۔ لیکن بھائی جان   کا ، والد صاحب کو  ایسی چیزیں دلانے  میں اہم کردار تھا۔ بھائی جان ، تقریباً ہر دوسرے ہفتے، حافظ آباد  ملنے کیلئے آتے۔ والد صاحب نے بھی سب سے زیادہ سفر سانگلہ ہل کا ہی کیا  تھا جہاں آپکے دو بڑے بھائی  اور آپکے دوست  و بھتیجے، میاں محمد طفیل نسیم صاحب رہتے تھے۔

شرافت ، قناعت اور سادگی :

اللہ تعالیٰ نے تمام اچھے اور نیک خصائل آپکو  اپنے فضل سے ودیعت کئے تھے۔ آپ نے صرف اُنکو سنبھالا اور ترقی دینے کی کوشش کی ۔شرافت، حیاء، پاسداری  اور درگزر  سے  با وصف تھے۔  ہر غلط با ت کہنے اور کرنے والے کو شک کا فائدہ دیتے  جیسا کہ ہو سکتا ہے کہ اسے معلوم نہ ہو! یا فلاں کے کہنے پر اُس سے یہ کوتاہی یا غلطی  سر زد ہو گئی  ہو ! وغیرہ وغیرہ ۔کئی لوگ آپ کی اس شرافت اور سادگی کا فائدہ بھی اٹھاتے۔ اہل ِخانہ ، آپ سے شکایت کرتے اور   اُنکے خلاف  کاروائی کا کہتے لیکن  آپ نے کبھی اُن  لوگوں سے باز پرس نہ کی۔  مثلاً    شہر میں سرکاری طور پر ، ہفتے میں پا نچ دن گوشت  ہو تا تھا۔ کلینک  کے پاس،  سامنے  ہی  فیقے  (رفیق )قصائی کی دوکان تھی۔جب وہ چاہتا  (ایک مقرر ہ  مقدارعموماً ایک کلو )گوشت اخبار میں لپیٹتا اور  دکان پر  دے جا تا ۔ رات کو گھر پہنچتے تو گھر  والوں کی  باتیں سننا  پڑتیں۔ اگلی مر تبہ  وہ  پھر آتا۔ اچھے گوشت کا  ٹُکرا  دکھاتا اور  پھر ویسا ہی گوشت دے جاتا ۔اِسی طرح،  فروٹ والے اور سبزی والے بھی  خود آکر ، کلینک پر ، بغیر طلب کے سامان دے جاتے  اور  رقم لے جاتے۔  اس کا  قطعاً  یہ مطلب  نہیں کہ  ہم ہمیشہ ایسا ہی کھا کر جوان ہوئے ہیں۔ ہمارے بڑے تایا جی  کی موجودگی میں ، دوکاندار کبھی ایسی غلطی نہ کرتے۔ اسی طرح کونسلرمحمد  انور رحمانی صاحب اور انکے دونوں بھائی  جو منڈی میں آڑھت کا کا م کرتے تھے، کثرت کیساتھ ،تا زہ اور بہترین پھل اور سبزیاں  گھر پہنچاتے۔ علاوہ ازیں ، بہترین اجناس ہماری اپنی زمینوں سے بھی باقاعدگی سے آتیں! الحمدللہ علیٰ ذالک۔

اصل میں،  اللہ تعالی ٰ نے آپکو ، اس خاندان کیلئے  رزقِ  حلال کمانے اور بڑے بھائی کو سنبھالنے اورسلیقے سے  خرچ کر نے کا ملکہ دیا تھا۔   ساری  خریدوفروخت ، تا یا جی مرحوم ہی کرتے تھے  اور بااحسن طریق کر تے تھے۔ والد صاحب کی    سب سے بڑی شاپنگ ، غالباً یہی تھی  کہ ایک مرتبہ میں اور آپ گوجرانوالہ کسی  کام سے گئے ۔ واپسی پر آپ نے  روم کولر لینے کا پروگرام   بنا لیا ۔ دوکاندار  کافی تجربہ کار تھا ، اس نے آپکی شرافت  اور خوشحالی   کا اندازہ لگالیا  اور مناسب  رقم لیکر، کولر کو بزریعہ ٹرک ،   بلٹی کروانے کی حامی بھر لی ۔ ہم وہاں کا مشہور فالودہ  کھانے چلے گئے۔اگلے روز، جب کولر پہنچا تو پتہ چلا کہ یہ تو وُہی استعمال شدہ  اور پرانا    پیس تھا ، جو  باہر گاہکوں کو دکھانے کیلئے رکھا ہو ا تھا ۔ اس میں ایک دو  تکنیکی خرابیاں  بھی تھیں۔ دوبارہ گوجرانوالہ جا نا ، اُسکو لیجانا اور پھر واپس لانا ، ایک مشکل امر تھا ۔ لہذا، مزید رقم دیکر ، اس کو یہیں سے مرمت کروالیا گیا۔

باوجود مالی فراخی کے ، آپکی طبیعت کسی قسم کی فضول خرچی اور  نمودو نمائش  سے پا ک تھی۔ آپ اور آپکے گھر والے سادہ زندگی گزارتے۔ آپ ہر طرح کا لباس پہنتے۔ مثلاً کوٹ پتلون، سفاری سوٹ، شلوار قمیض وغیرہ۔ گھر میں لنگی  اور کرتہ استعمال کرتے۔ صرف عیدین اور شادی بیاہ پر ہی کپڑے سلواتے۔ اس حد تک بچت کی کوشش کرتے کہ اپنے  گرم کوٹ پتلون بھی  گھر میں دھلوا کر  خراب کروا بیٹھے تھے۔  جو شروع میں بڑی مشکل سے بازار سے استری کرواکر قابلِ استعمال حالت میں لائے گئے۔   بعدازاں ، کثرت ِاستعمال سے، اُن  کپڑوں کی ساری اکٹر فوں جاتی رہی اور  وہ اس قدر تعاون باآما دہ ہو گئے تھے ، کہ ہر سال گھر میں دُھل کر بھی، ناراض نہ ہوتے۔  کوٹ پتلون اور سفاری سوٹوں کی تعداد چار پانچ سے زیادہ نہ تھی ۔ ساری زندگی انہیں میں ہی گزار دی۔

آپکو تصویر اتراونے کا بھی شوق تھا۔ لیکن  وہ بھی بوقت ضرورت  ہی استعمال ہوا۔ آپکی ساری پورٹریٹ تصویریں، اپنی اسناد کیلئے تھیں۔ ہمارے   گھر  میں صرف ایک تصویر رکھی تھی اور وہ ہمارے ماموں جان کی تھی ۔دس پندرہ سال سے آپ نے  ڈاڑھی  رکھی ہوئی تھی  لیکن  ہمیں آپکی کوئی پورٹریٹ  تصویر   میسر نہیں ہوسکی ۔

نیکی ،  اتقایٰ اور جماعتی خدمات:

بفضل ِ تعالیٰ، آپ کا خاندان نیک اور دیندار بہن بھائیوں اور بزرگوں پر مشتمل تھا۔والد اور  مسجد دونوں سر پر تھے۔ لہذا، نماز با جماعت کی عادت بچپن سے ہی تھی ۔  اللہ تعالیٰ سے تعلق اور رسول اللہ ﷺ سے محبت  آپکے ایمان کی بنیاد تھے۔مرکزی  امام بارگاہ  سے سانجھی دیوار کی وجہ سے اہل ِبیعت  نبوی ﷺ سے بھی بہت عقیدت تھی۔  حج بیت اللہ اور روزہ نبوی ﷺ کی زیارت کیساتھ ساتھ  کربلاو نجف کی زیارتوں کا بھی آپکو بہت شوق  رہتا تھا۔  اکثر  اپنی اِن  خواہشات کا ذکر کرکے  اپنا دل گیر کرتے اور درود شریف سے  تسکین پا تے۔

اللہ تعالی ٰ کے بے پایاں احسانات میں سے  ایک یہ بھی تھا کہ آپکے والد اور دادا  اور اُنکے اہل و عیال ،  سبھی   اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے احمدیت کے نور سے منور تھے ۔اس خاندان   میں، مامورِ زمانہ ، اما م مہدی  ومسیحِ موعود ؑ  کی صداقت کا پیغام ، آپکے سب سے بڑے  تایا جان ،  حضرت میاں محمد مراد صاحب ؒ کے  نیک و بابرکت وجود کی بدولت آیا تھا۔ جن کے ہا تھ پر  ڈیڑھ  سو سے زائد ،   ہندو، سکھ، عیسائی اور غیر احمدیوں نے حقیقی اسلام قبول کیا تھا ۔ حضرت میاں صاحب  کا خلفائے احمدیت ،  صحابہ ؓ حضرت مسیح ِموعود ؑ اور جیّدعلمائے سلسلہ عالیہ  احمدیہ سے سے ذاتی   تعلق تھا۔

حافظ آباد، چونکہ مرکزِ احمدیت، ربوہ سے زیادہ دُور بھی نہیں تھا نیز یہ  جماعتی  تجنید  کے بڑے  اضلاع مثلاً  گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ اور نارووال جاتے   ہوئے راستہ میں پڑتا تھا۔  لہذا ، علماء و مبلغین ، کثرت سے  آتے جاتے  اور  حافظ آباد   میں  قیام کرتے۔

ماشاءاللہ !  یہاں کی جماعت  بڑی   اور مخلص تھی ۔ ہر دو  ذات کو   فائدہ  پہنچتا تھا۔ دادا جان کا گھر چونکہ احمدیہ  مسجد کےبالکل  پاس  تھا اور اوپر سے میاں محمد مراد صاحبؒ کے چھوٹے بھائی بھی تھے، لہذا کھانے اور بستر و  چارپائیوں کا انتظام ، بفضل تعالیٰ ، انہیں کے ہا ں سے ہوتا۔  والد صاحب ، گھر میں سب سے چھوٹے بیٹے ہونیکی وجہ سے اس  خدمت کے  بجا لانے پر مامور تھے۔ لہذا کئی  بزرگوں سے  آپکی  ذاتی  جان پہچان بچپن سے ہی ہو گئی تھی اور آپ اُن بزرگوں کی مقبول  دُعاوں کا بھی مورد بنے۔ ان بزرگوں میں  سے سرفہرست حضرت   مولانا غلام رسول صاحب راجیکی صاحبؓ، مولوی محمدحسین صاحبؓ(المعروف  سبز پگڑی والے)، مولوی محمد احمد صاحب جلیلؒ (مفتیء سلسلہ)، مولانا دوست محمد شاہد  صاحب ؒ(مورخ ِاحمدیت)، مولانا غلام باری صاحب سیفؒ وغیرھم

کثرت سے نمازیں مسجد میں ادا کرتے۔ دیگر عزیزوں اور بچوں پر بھی نظر رکھتے۔ مسجد اور اس میں آنے جانے والوں کا بھی خیال رکھتے۔ کئی احباب مثلاً حکیم منظور صاحب، حاجی صاحب، با با شیر محمد صاحب، محمد صاحب وغیرہ مسجد میں ہی رہتے اور  مسجد کی خدمت کرتے تھے۔ آپ انکا ہر طرح سے خیال کرتے۔ لاوڈ سپیکر، سنگِ مر مر کی تختیاں جن پر قرانی آیات کندہ تھیں، ڈائس، محراب کی دیکھ بھال، پھول اور پودے وغیرہ لگوائے ۔ محرم کے موقعہ پر، جب پرانی صفیں ، مجلس  و زائرین کے لئے، متصل امام  بارگاہ  والوں کو دے دی جاتیں، تو نئی صفیں  ڈالواتے۔  ہر رمضان المبارک میں کئی مرتبہ ، سب سے بڑی افطاری کی توفیق پاتے۔رمضان المبارک کے آخری ایام میں ، ناصراحمد ثانی ، محمود اور میں ، ممبر ومحراب کی تزیئن و آرائش اور   رنگ و روغن وغیرہ کرتے۔ پنکھوں کو صاف کرتے اور مسجد کی عمومی صفائی کرتے۔ یہ سلسلہ  ایک لمبا عرصہ  جاری رہا۔ اس خدمت پر ہمیں  ڈبل عیدی بطور انعام دیتے۔

1984 ء میں ہی، آپکی وفات سے چند ما ہ قبل، ہمارے گھر چوری ہو گئی تھی۔ جس میں میری  جمع پو نجی ، جو قریباً  بارہ تیرہ سوروپے تھی (اور یہی اس چوری کی اکلوتی  وجہ اور سب سے بڑا نقصان تھا) جو   میں نے بڑھ مارتے ہوئے ، اپنے  محلے دار دوست کو  چند دن قبل ، دکھائی اور بتائی تھی۔   وہ نڈر اور چا لاک چور ، اِسکو لے اڑا! جب مال مسروقہ برآمد ہو گیا ، تو  غالباً آپ کی تحریک پر یا   یقیناً آپکی ہی کی ہو ئی  تربیت  کی بدولت ،  ’’ شکرانہ‘‘ ادا کرنے   کی  موج دل میں آئی ۔ از خود، مسجد میں لگے کُل آٹھ دس ، نئے پرانے اور چھوٹے بڑے  پنکھوں کو ایک سا رنگ کروانے کی نیت کی ۔ہماری مسجد کے بالکل سامنے محمد اسحاق الیکٹریشن ، نے حال ہی میں  رنگ کرنے والی مشین  بھی  لی تھی اور لوگ  شوق سے  اسکے پاس  رنگ کروانے کیلئے آتے تھے۔میری اس سے چار یا پانسو  روپے میں بات ہو گئی   کہ وہ    ایک دن  میں پنکھے اتار کر ، رنگ کر کے واپس بھی لگا دیگا۔  اس بات کا صرف مجھے، با بے شیرے اور اسحاق کو پتہ تھا۔ میں گو نوعمر تھا۔ لیکن آپکی بدولت  ہی میرا اعتماد اور میری ساکھ   بہت بڑھی ہو ئی تھی ۔ہم تو بچپن سے ہی ’’ڈاکٹر صاب‘‘ تھے۔ چنانچہ ،  مجھے  لمحہ بھر  کیلئے   بھی کو ئی خوف نہ تھا کہ معاملہ بگڑ  بھی سکتا ہے۔ ظہر و  عصر پر  حاضری ویسے ہی کم  ہو تی تھی ۔ اوپر سے اسحاق صاحب  نے بھی  اپنی عقل کا خوب استعمال کیا ۔ نچلے مین ہا ل میں چار پنکھے رنگ کرکے شام تک لگا دیئے ۔ جبکہ اوپر گیلری  والے،  اگلے دن  لگا دیئے ۔  ہم نے تو نیکی کو خفیہ  رکھنے  کوشش  کی تھی لیکن نیکی تو   خود بول اُٹھی!  صاف ستھرے اور یک رنگ ، چمکتے ہوئے ،   پنکھوں نے ہر ایک کی نظر کو خِیرہ کیا ۔ جب والد صاحب نے بابے شیرے سے  معاملہ پوچھا تو انہوں نے  ساری کہانی بتا دی۔ مسجد میں ہی میری آپ سے ملاقات ہوئی ، گلے سے لگایا اور بہت پیار کیا ۔ گھر آئے تو والدہ صاحبہ  کو بڑی خوشی سے بتایا اور ساتھ  میں یہ  بھی کہا کہ ’’کم تے چنگا کیتا سُو!   پَر ماں دے یار نے،    رنگ گہرا،  مزاراں والا  کروالیا  سُو‘‘  ۔

رمضان المبارک میں،  نماز تراویح کیلئے آنیوالے حُفّاظِ  کرام  ہمیشہ ہمارے مہمان ہوتے۔اکثر نوجوان بچے ہوتے۔ آپ ان سے بہت شفقت سے پیش آتے۔رخصت کے وقت انکو  کپڑے اور نقدی بطور ہدیہ تبریک پیش کرتے ۔  انہی کو دیکھ کر آپ کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں اور محمود، قرآن کریم حفظ کریں۔ چنانچہ ، تیسری  جماعت سے اٹھا کر ہمیں، مدرسہ اشرفیہ (دیوبندی)  ونیکے روڈ ،  جس کے مہتمم ہمارے ہمسائے حافظ خلیق اکبر عثمانی صاحب مرحوم و مغفور   تھے، میں داخل کروادیا گیا۔ بھائی جان  طارق احمد و خالد احمد ہمیں موٹر سایئکل پر مدرسہ چھوڑتے اور واپس  لاتے ۔گھر پر،  ہماری خاطر مدارات میں اضافہ کردیا گیا۔ دودھ، بادام اور دہی خوراک کا لازمی جزو بنادیا گیا۔ مدرسہ میں ہماری  نشست  استاذی المکرم  کے دایئں اور بائیں تھی۔ تما م اساتذہ  و طلباء  ہمارا خاص احترام کرتے۔ والد صاحب  مالی معاونت کے علاوہ  ماہوار صدقے کا  بکرا بھی مدرسہ کو  ہدیہ کرتے۔ یہیں  مجلس ختم نبوت کا مرکزی دفتر بھی قائم تھا اور سالارِ مجلس، حافظ عبدالوھاب صاحب  ایک طرف ہمارے استاد تھے، بڑی محبت اور عزت سے پیش آتے تھے کیونکہ وہ والد صاحب سے مفت علاج کی سہولت  بھی حاصل کرتے تھے جبکہ دوسری طرف   دفتر میں ، جماعت احمدیہ کے خلا ف روٹین کی  منصوبہ بندی بھی ہوتی  تھی ،  لیکن ڈاکٹر بشیر احمد اور انکے خاندان کے سِوا!

یہاں ایک لمبے برآمدے  کے   نصف حصّہ میں،  حافظ اللہ بخش صاحب  اور بقیہ نصف حصّہ  میں حافظ خلیق صاحب کلاس لیتے تھے۔ ایک بڑے کمرے میں ، حافظ عبدالعزیز صاحب  کی کلاس ہوتی۔  ہمارا دوست اور محلےدار،  شیخ  محمدمصطفیٰ انہی کی   کلاس میں پڑھتا تھا۔حا فظ عبدالوھاب صاحب اور حافظ محمد اشرف صاحب دونوں ، معاون  اساتذہ تھے،  جو باقی اساتذہ کی مدد کرتے تھے۔مدارالمہام حافظ الطاف صاحب تھے جو مسجد قدیم کے خطیب بھی تھے۔

ہر کلاس میں پچیس سے تیس تک  طلباء ہو تے  جن میں سے زیادہ تر ، مقامی ( یعنی ڈے سکالرز) ہوتے۔ جبکہ بورڈنگ میں پندرہ بیس طلباء تھے جو  پورے ملک سے ، حسبِ روابط، آئے ہوئے تھے۔ سوائے، ہمارے حافظ خلیق   صاحب کے، تمام اساتذہ نہایت سخت گیر تھے۔ گالی گلوچ، تھپڑبازی، ڈنڈا سوٹا، انگلیوں میں پنسل پھیرنا، ٹائر کی رپٹی سے مارنا   اور  زنجیر لگی  لکڑی کی مڈھی سے باندھنا  روز کا معمول تھا ۔جس سے شیخ مصطفیٰ جیسا رئیس  زادہ بھی محفوظ نہ تھا ، سوائے ہم دونوں کے !اللہ تعالی ٰ کا خاص کرم تھا ۔  بلکہ ہم کبھی کبھار، لڑکوں کے اکسانے پر ، محترم حافظ صاحب مرحوم کے پاندان سے   چھیڑ خانی بھی  کر لیتے تھے لیکن پھر بھی  کبھی کسی نے کچھ نہیں کہا۔ سامنے صحن میں ، سارے مدرسے کی عمر رسیدہ ’’بے بے‘‘   بے حد محنتی اور باوقار خاتون، تندور پر ہی ایک  بڑے  دیگچہ میں پہلے  سالن بناتی اور پھر بعد میں روٹیاں لگاتی۔ دونوں کی خوشبو، ہر روز ہمیں دیوانہ بناتی لیکن   یہ من و سلویٰ  ہمارے  لئے حرام تھا۔کیونکہ یہ سارا انتظام صدقہ و خیرات  سے چلتا تھا ۔ اساتذہ  و کارکنان کو استثناء حاصل تھی ۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے، اساتذہ کی محنت  اور والدین کی دعاوں سے ، قریباً ڈیڑھ سال میں،  میں ۵ پارے اور محمود نے ۴ پا رے حفظ کرلئے۔ ہماری  کارکردگی  بہترین اور رفتار اچھی تھی  کیونکہ وہاں لوگ بچپن میں آتے تھے اور جوانی میں ’حافظ ‘ہو کر جاتے تھے۔ یعنی چھ،سات سال  کی ہی روٹین تھی ۔

زمانہ مست ہاتھی کی چال چل رہا تھا لیکن  ہمارے  گھر والے کچھ پریشان تھے کہ  اس طرح تو کا م نہیں چلے گا۔ لہذا،  بھاری دل کیساتھ واپس پرائمری سکول میں،  چوتھی جماعت میں داخل  کرادئیے  گئے۔اِس  جلد’رہائی‘ کی  ایک وجہ  محمود  بھی تھا ۔ وہ  اِس  مشقت سے آزادی  چاہتا تھا ۔ یہ میری کم بختی تھی ۔ مجھےاِسکی  لَو لگ گئی تھی۔میرے نا نا ،  میا ں مولا بخش صاحب مرحوم  میرے سب سے بڑے موکل اور موئید تھے۔ علاوہ ازیں، میرے ایک  مربی،  جناب نصیر احمد پیرکوٹی صاحب اور اُنکے والد صاحب مرحوم نے بڑی کو شش کی کہ مجھے ربوہ بھجوا دیا جائے لیکن والد صاحب   کیلئے اس عمر میں مجھے اپنے سے دُور رکھنا شاید  ممکن   نہ تھا۔

مجھے قریباً 10 /15  سال تک ، یہی  پانچ پارے ، ہر سال نمازِ تراویح  میں دہرانے کی توفیق ملی۔ یہ میری خوش بختی ہے  کہ میرے والد صاحب نے بھی کئی سال  نمازِ تراویح  میں ، میرا قرآن پاک سنا۔ الحمدللہ !  خاکسار کو قریباً 40  سال سے  بہت سی  جگہوں  پر ، اندرون  و بیرون ملک ، نمازِ  تراویح میں قرآن کریم  سنانے کی توفیق ملی ہے۔مرورِزمانہ اور بشری کمزوری  کیوجہ سے اب مجھے قریباً تین پارے یا د رہ گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری مدد فرمائے اور  میری کوتاہی وکمزوریاں معاف فرمائے آمین۔

والد صاحب کو مسجد کیساتھ ساتھ ، جماعتی نظام  میں بھی  خدمت کا بھرپور موقعہ ملا۔آپ کب  اور کتنی بار قائد رہے، پوری معلومات تو نہیں، بہر حال اس با ت  کے شواہد ہیں کہ  آپ 1970  سے74  ء کے دوران ، قائد مجلس حافظ آباد تھے ۔ یہ دور جماعتی اور ملکی لحاظ سے ا  نتہائی اہم دور  تھا۔ 1970 ء کے الیکشن  میں ، جماعت احمدیہ بھرپور انداز میں شریک تھی۔ اور خدام الاحمدیہ  الیکشن کی مہم میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کررہی تھی۔ سن 71ء میں ، سقوط ِڈھاکہ اور پاک بھارت جنگ ہوئی اور 1974  ء میں ، احمدیوں کے خلاف ، خوں آشام  ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ یہ  دور انتہائی  اعصاب شکن ،  محنت، حکمت اور تندہی سے کا م کر نے کا دور تھا ۔اللہ تعالیٰ  آپکی خدمات کو احسن رنگ میں قبول فرمائے اور جزائے خیر عطافرمائے۔

بعد ازاں آپ ، ذعیم مجلس انصار اللہ  حافظ آباد منتخب ہوئے۔ اس دوران 1984  ء کا  ابتلاء آگیا۔ آپ اس دور میں بھی بڑی محنت سے کا م کرتے رہے۔ آپ شہر کے سب سے مشہور احمدی تھے۔ روزانہ سینکڑوں لوگوں سے آپ کا میل جول تھا۔شعبہ  عمومی کے مطابق آپ  ہٹ لسٹ میں سرفہرست تھے۔ لیکن آپ کی روٹین میں کوئی خاص فرق نہیں آیا سوائے اسکے کہ کلینک پر ایک خادم ڈیوٹی پر موجود ہوتا تھا۔ اس سلسلہ میں   میرے بھائی محمود احمد  نے آپکے ساتھ کا فی ڈیوٹی  کی ، فجزاھم اللہ تعالیٰ خیراً ۔

علاوہ ازیں ،  آپ سے کہا گیا تھا کہ نماز جمعہ مختلف مقامات پر ادا کرتے رہیں۔ لہذا، آپ کبھی  میرے ساتھ اورکبھی   اپنے کسی  بھتیجے کیساتھ ، قریبی  دیہی جماعتوں میں بھی جا کر  نمازِجمعہ ادا کرتے۔   مجھے یا د ہے کہ شہر میں ، ’’اک حرفِ ناصحا  نہ‘‘  او ر دیگر  پمفلٹ ہزاروں کی تعداد میں رات کے پچھلے پہر تقسیم کیے جا تے تھے۔ بھائی جان ناصر احمد اس دور میں قائد مجلس تھے ۔بڑی تعداد میں خدام مسجداحمدیہ میں ڈیوٹی دیتے اور یہ سلسلہ  کئی سال تک  چلتا رہا۔ خاکسار بھی اِن میں شامل رہا۔ اسکے علاوہ ،  راقم کو فضلِ عمر پریس ،  اور غیراحمدی علماء کے خطبہ جمعہ  سننے اور اسکی رپورٹ کی ڈیوٹی کرنے کی  بھی توفیق ملی۔

والد صاحب کو  مطالعہ کا بہت شوق تھا ۔ قرآن کریم  کی تلاوت ، اپنے بزرگوں اور بھائیوں کی طرح ، روزانہ اور بلند آواز سے کرتے اور ساتھ ترجمہ بھی پڑھتے ۔ اہم نکات  نوٹ کرتے اور ان پر گھر اور باہر  درس بھی دیتے۔ جماعتی اور میڈیکل سے متعلق کتب خریدتے رہتے اور زیرِ مطالعہ رکھتے۔

روزانہ  کا اخبار کلینک پر ہی دیکھتے جبکہ’’ الفضل‘‘ اور’’ ہفت روزہ لاہور‘‘ کا مطالعہ رات کو گھر پر باقاعدگی سے کرتے۔ رات کو بی۔بی۔سی ریڈیو پر خبریں بھی باقاعدگی سے سنتے۔سونے سے قبل  رات کو ’’حدیقہ الصالحین ‘‘ میں سے احادیث پڑھ کر ہم سب کو سناتے ۔ جماعتی ارشاد کے مطابق، حکومتی عہدیداران ، اعلی ٰعدلیہ  اور اخبارات کے ایڈیٹرز کو آرڈیننس کے نفاذ کے خلاف، قلمی ناموں کیساتھ،  خط تحریر کرتے ۔روزانہ کی  آمدوخرچ کا حساب رکھنے کی کوشش کرتے۔

صبح کو مسواک سے اور رات کوبرش سے  دانت صاف کرتے اورہمیں بھی کرواتے۔ دعایئں پڑھ ، پڑھا کر سُلاتے۔ صبح کلمہ طیبہ اور درود شریف کے ورد سے جگاتے۔ نماز فجر و سیر کیلئے جاتے۔ گرمیوں میں روزانہ  نہاتے اور ہمیں بھی تاکید کرتے۔ سردیوں میں دوسرے روز ضرور غسل کرتے۔ 1979  ء میں پہلے ہارٹ اٹیک کے بعد ،  روٹین میں کچھ فرق آگیا تھا۔ جس سے سردیوں میں سیر اور کثرت سے نہانے میں کچھ کمی واقع ہوگئی تھی۔

آپکے شاگرد آپکے مرید:

جو لوگ ایک دفعہ آپکے شاگرد ہوجاتے پھر وہ آپکے ہی ہو جاتےتھے ۔محمد  جمیل ، محمدعباس،محمد سیف اللہ(ماموں)،  محمد امان اللہ ، خالد احمد، (بھائی جان) ناصر احمد، محمد صابر، ملک محمد سلیم  سمیت  کئی لوگوں نے آپ سے  میڈیکل ڈسپنسر  کی ابتدائی  تربیت حاصل کی اور بعد میں با قاعدہ  کورس  کیا یا پھر کورس کرنے کے بعد  عملی تر بیت حاصل کی۔ اس دوران وہ کئی سال تک  کلینک  پر کام کرتے رہتے ۔یہاں اُنکو اِسقدر الاونس مل جاتا تھا کہ وہ اور اُنکے  گھر والے  یہی سمجھتے کہ نوکری مل گئی ہے۔ ساتھ میں انکے گھر والوں کا  علاج بھی  فری ہوجا تا ! یہ لوگ  اسقدر وفادار، خدمت گزار اور نیک سیرت ہو جاتے کہ ہمارے گھر کے افرا د   ہی جانے جاتے۔

اِن پر  مخالفین ِ احمدیت کا  اثر اور ڈر بھی  رفو چکر ہو جاتا تھا۔ یہ  ہماری مسجد میں نمازیں بھی  پڑھ لیتے، ہمارے  جلسے اجلاسوں میں بھی شریک  ہوتے ۔  ہماری مقامی  جماعت بھی ا ُن سے مانوس  ہوجاتی  تھی ۔ ٹریننگ مکمل ہو نے پر ،   کئی  لوگوں کو آپ نے اپنے پاس سے مدد دے کر اُنکے کلینک بنوائے جبکہ وہ ابھی  جانا نہیں چاہتے تھے۔ اُن سب کی دکانوں(کلینک )  کے افتتاح کیلئے بھی جاتے۔ ایسے ہی ایک  موقع پر میں بھی  نوکھر گیا تھا۔یہ واقعہ بھی  بڑا    یا دگار ہے۔ سہ پہر کے وقت ، دوکان سے پیغام آیا کہ نعیم احمد کو تیار کرکے  بھیجیں ، کہیں جا نا ہے۔ والد ہ محترمہ نے  منہ ہا تھ  دھلایا  یا نہلایا  اور الماری سے براوٗن رنگ کی شلوار قمیض  پہنا کر دوکان پر بھجوا دیا ۔ جاتے ہی مجھے پنجابی میں  کہا کہ ’’ کپڑے گھڑے سے نکال  کر پہنے ہیں؟‘‘   میں نے جواب دیا  کہ  نہیں الماری سے!   مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا کہ کیا مطلب  تھا اس سوال کا۔ گھر آکروالدہ کو بتایا ۔ انہوں نے پو چھا تو بولے ، ’’کرمانوالئے! کپڑے استری تو کر لینے تھے ! ساری سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں‘‘۔

خیر بات ہو رہی تھی ڈسپنسرز کی،   اُنکی اور اُنکے بہن بھائیوں کی   شادی بیا ہ پر انکی مالی امداد کرتے ۔وہ بھی جواباً آپکا اور آپ کے  خاندان کا بہت احترام کرتے۔ بچپن میں بھی ، سر ِراہ گزرتے،اگر ہمیں  ُانکے کلینکس کیطرف دیکھنے  یا کبھی  قدم رکھنے کا اتفاق ہوتا، تو وہ کھڑے ہوکر استقبال کرتے اور ڈاکٹر صاحب ، ڈاکٹر  صاحب  کہ کر اپنی نشست پر بٹھاتے۔سب ماشاءاللہ حیات ہیں اور آج بھی اُسی طرح کا عزت و احترام روا رکھے ہوئے  ہیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ واحسن الجزاء

گزشتہ دنوں اپنے بچوں کے ہمراہ ، حافظ آباد سے سیالکوٹ جاتے ہوئے، بغیر اطلاع کئے،  ہم   نوکھررُکے، تو وہی ساماں تھا۔بھائی  جان امان اللہ صاحب   نے بتایا کہ میں نے 1982 ء  کا سارا جلسہ سالانہ چا چا  جی کے ساتھ دیکھا تھا۔  اسی طرح ، برادرم  سلیم صاحب  ،آج بھی اُسی  محبت و احترام سے پیش آتے ہیں۔ اللھم ذِدّ فَزِّد

آپکی  کی ہوئی   چند قیمتی نصائع:

۱۔  بہت بچپن کی بات ہے  غالباً  سات ، آٹھ سال کا ہونگا۔ عید کا دوسراروز تھا۔نارنجی  رنگ کا لکیر دار، نیا سفاری سوٹ پہنے،   کلینک پر آخری نشست پر بیٹھا، اپنی ٹانگیں ہلا رہا تھا اور خوش  تھا۔والد صاحب  مریض دیکھ رہے تھے ۔  رش  تو بفضل ِتعالیٰ  ہمیشہ ہی  رہتا تھا  ۔ ایک شخص بنام نیامؔتی  ، جسکا رنگ سیاہی مائل اور چہرے پر چیچک کے داغ تھے،   جلا لپور روڈ پر ، عید گاہ کے قریب،  اسکی کئی پاور لومز تھیں۔  وہ مجھے بار بار (اپنے ذعم میں )پیار سے چھیڑ رہا تھا اور ساتھ چٹکیاں  بھی بھر رہا تھا ۔جو واقعی ایک تکلیف دہ عمل تھا۔ ساتھ یہ   پوچھ رہا تھا یہ سوٹ کہاں سے آیا ہے؟کس نے سلوا کے دیا ہے ؟   میں نے دِق ہو کر یہ جواب دیا : ’’کہ’’ تُو نے نہیں سِلوا کے دیا! ‘‘۔ اِسی اثناء میں ، ایک زناٹے دار تھپڑ میری گال پر رسید ہو ا۔ ساتھ ہی  ایک مانوس سی  آواز  بھی آئی کہ :’’تمھیں بڑوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے؟ نکل جاو میری دکان سے‘‘ ۔ کسی میں جرات ہی  نہیں تھی کہ آپکے آگے  کوئی چُوں چَرا کرتا۔  روتا ہو ا گھر پہنچا اور وہ سبق آج تک  نہیں بھولا کہ  لوگوں سے اور بڑوں سے  بات کیسے کرتے ہیں!

۲۔ لوگ آپ جیسا بننا چاہتے تھے لیکن راستہ وہ اپناتے تھے  جو آپکا  نہیں تھا۔ مثلاً کئی لوگ اپنے تعلیمی امتحانات  اور ڈگریوں کے حصول  کیلئے  ناجائز ذرائع استعمال کرتے تھے  جن میں سفارش اور رشوت وغیرہ  شامل تھی۔ میں  دسویں جماعت میں ہوا تو ایکدن ،  اچانک    میرے سامنے کھڑے ہو کر قد ناپا تو بہت خوش ہوئے اور میری والدہ محترمہ کو کہنے لگے کہ ’’کرمانوالیئے  ویکھ تے! ائے  لگٹر میرے ِجنّا ہو گیا ہے ، ماشاءاللہ !  پھر اپنا جوتا اُتار کر میر ے پاوں کے سامنے رکھا  اور کہا کہ پہن کر دکھاو۔ میں نے پہنا  تو وہ بھی پورا!  اس پر آپکی خوشی دیدنی تھی۔اس پر آپ نے مجھے یہ نصیحت کی : ’’کہ بیٹا ! مجھ سے یہ توقع نہ رکھنا  کہ میں کِسی کی طرح پیسے لیکر ،  تمھارے سکول یا  امتحانی سپرنٹنڈنٹ کے پاس جاونگا!  یاد رکھو! جو کا م بھی کرنا ، اپنی  محنت، ایمانداری اور نیک نیتی سے خود ی کرنا ‘‘۔انکا کہا  تو ہمارے بڑوں کیلئے بھی نوشتۂ دیوار ہو تا تھا۔ میری  کیا اوقات  تھی کہ کوئی کمنٹس کرتا!  لیکن اُنکی ایکبار  کہی  باتیں ، چھوٹوں  اور  بڑوں ، سب کے دل و  دماغ میں جَلی حروف  میں لکھ دی جا تی تھیں،۔   بفضل ِتعالیٰ ، اُنکی اِس نصیحت نے ، میرے اندرایسی خود اعتمادی اور نظم  پیدا کر دیا  کہ بجز   خدا تعالیٰ  کی مدداور اپنی کوشش کے ، کسی کی طرف دھیان ہی نہیں  گیا۔ اور بفضلِ تعالی ٰمقدور  کا میابیوں کے دروازے وا  (کُھلتے)   ہوتے چلے  گئے۔  

۳۔ آپکی وفات سےقریباً  دو ماہ قبل ،  آپکی چارپائی  میری  چارپائی کیساتھ  چھت پر  بچھی تھی۔ آسمان صاف اورچاند تارے بھرپور دکھائی  دے رہے تھے۔ آپ نے پو چھا کہ آج کتنی نمازیں پڑھی ہیں؟  میں  نے بتایا ، تو فرمایا’’تمھیں پتہ ہے کہ قبر میں سب سے پہلےقیام ِ نماز کے بارہ میں پو چھا جائے گا؟ کیا پتہ یہ ہماری آخری رات ہو اور صبح اٹھنا مقدر ہی نہ ہو !   لہذا ، سونے سے پہلے ضرور اپنا محاسبہ کر لو  اور کم ازکم آج کی نمازوں کی حفاظت کر لو!

دل کا آسمان بھی  صاف تھا  اور اس پر والد صاحب کا  فرمایا  ہوا ہر لفظ ، چاند اور تاروں  کیطرح چمک رہا تھا۔ نوعمری سے ہی ، کئی  مرتبہ  رات کو بستر پر لیٹتے ہی یہ بات سامنے آئی اور پتہ چلا کہ قیام ِ نماز ہنوز باقی است!  فوراً    اٹھے اور جیسے تیسے   کرکے ، اپنی ذمہ واری   پوری کر لی۔ رَبِّ ار حَمھُما کما ربَّیٰنیِ  صغیرا۔

۴۔سن 84  ء میں ہی  ، ایک رات سونے سے قبل آپ نے مجھے فرمایا  کہ بیٹا گناہ ِکبیرہ  سے بچنا ہے! میں دل میں مسکرایا کہ ہم تو ہیں ہی نیک  پاک ، ہمیں یہ نصیحت کیونکر؟ پھر گویا ہوئے  کہ بیٹا!  زِنا ء سے ضرور بچنا ہے!  اگر ایک دفعہ بھی  یہ غلطی ہو گئی تو  ساری عمُر دوزخ میں سٹرنا (جلنا )  ہو گا !    اُس دور میں ’’ اھدنا الصراط‘‘  کا یہی مطلب معلوم تھا کہ جو کہا گیا ہے  وہی کرنا  ہو گا۔ الحمدللہ ! آج تک فائدہ  اٹھا رہے ہیں۔ ورنہ  بقول شخصے !۔۔۔ ’’ جوانی تو دیوانی ہو تی ہے صاب! بڑا  پُوت تو منہ جور گھوڑا ہووے ہے !   کون اُسکو قابو کر سکے ہے صاب؟‘‘ ۔۔۔۔لیکن اپنی ایسی قسمت کہاں ؟

ماں ،  سر ماں! ۔۔۔باپ کی غیر موجودگی میں ، ماں!  اُس  منہ زور گھوڑے پر کا ٹھی اور لگام ڈالتی ہے بھائی صاب !   والد صاحب نے تو ’’  الیس اللہ بکافِ عبدہ   ‘‘ والا ’گلو بند‘   پہننے نہیں  دیا  تھا کہ  اِسکی آڑ میں  کل کلاں ،  کوئی دوسری’’ گانی‘ ‘ پہن لو گے۔ماں نے  کرکٹروں اور اداکاروں کی تصویر نہیں لگانے دی کہ ’’یہ شریفوں کا گھر ہے محلے کی  کوئی دکان نہیں‘‘!  ساری  بہنوں کی شادیوں کے بعد بھی ، جب گھر میں صرف ہم  لڑکے ہی  رہ  گئے تھے ، کسی ڈسپلن کی خلاف ورزی کی  اجازت ، اس لئے  نہ دی کہ اب  بھانجے اور بھانجیوں کیلئے ماحول کو پاکیزہ رکھنا ہو گا! سبحان اللہ و الحمد للہ! رَبِّ ار حَمھُما کما ربَّیٰنیِ  صغیرا۔

مذکورہ بالا  معاملات کے  علاوہ،  ہرنیک اور  مفید  کام میں ہماری حوصلہ افزائی کی جاتی ۔مثلاً موسم گرما کی تعطیلات  میں، مرکز ِاحمدیت ، ربوہ  میں منعقد  ہونیوالی پندرہ روزہ    ’’تعلیم القران ‘‘  اور’’تربیتی کلاس ‘‘    میں شرکت کیلئے بھجوایا جاتا۔ یہ انتظا م تو میٹرک اور اِس سے اوپر کے درجوں  کیلئے تھا۔ تاہم ، ہم پر یہ کرم  آٹھویں  جماعت سے ہی  شروع ہو گیا تھا۔ بھائی جان  ناصر احمد تو اس طرح کے  کاموں  کے شہسوار  تھے ہی، بھائی جان طارق احمد ، خالد احمد اور ناصر احمدثانیؔ   اور ہمارے پھوپھی ذاد بھائی ، اسی طرح ، سانگلہ ، شاہکوٹ اور ربوہ سے ہمارے  دیگر کزنز  بھی اس نظام سے بھرپور فائدہ اور حظّ اٹھاتے۔

مسجد میں نماز باجماعت کی عادت ، قرآن کریم  حفظ کرنے کی کوشش،تعلیمی  کار کردگی اور   دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے  کیوجہ سے  محمود اور مجھ   پر خاص عنایت تھی ۔ آٹھویں جماعت کی تعلیم القران کلاس پر ہی ہماری منصور احمد باجوؔہ آف چونڈہ سے دوستی ہوئی  جو  بالآخر ، رشتہ داری میں بدل گئی۔  چند ماہ بعد ، مارچ 1983  ء میں امتحانات کے بعد ، ہم دونوں وہاں دو ہفتوں کیلئے وقفِ  عارضی پر چلے گئے۔ اس دوران ہی آپ اور دیگر گھر والے، بھائی جان خالد احمد  کا رشتہ و منگنی کرنے  چونڈہ تشریف لائے۔ آپ لوگ مسجد بھی گئے اور صدر صاحب   و دیگر لوگوں سے ملے اور ہماری کارکردگی رپورٹ سے خوش بھی ہوئے، الحمدللہ!

تعلیم القرآن اور تربیتی کلاسوں میں باقاعدگی سے شرکت جاری رہی۔ ربوہ کا پانی اور موسم ، جماعت احمدیہ  کے میٹھے  اور معتدل مزاج  سے  بالکل میل نہیں کھا تا تھا ۔ موسم گرما میں ، اِسکے پہاڑ اور  سنگلاخ   زمین  ، احراری مولویوں کیطرح  ، احمدیوں کے  خلاف شدید غیض وغضب کا مظاہرہ کرتی  جبکہ  موسم سرما  میں  ، اِنکی سرد مہری،  احمدیوں  سے راو رکھے گئے ، ارباب ِاختیار  کے رویئے کی طرح  سرد ہو جاتی  کہ ٖجیسے جانتے ہی نہیں!

اس سب کے باوجود ، آپ ہمیں بھجواتے، ہر جمعہ گھر سے خود یا کسی دوسرے بڑے کو ہم سے ملنے اور خیریت دریافت  کرنے کیلئے بھیجتے۔

سن 1984 ء میں ہی  ،  میں اور محمود دسویں جماعت میں تھے اور    تعلیم القران کلاس  شامل ہوئے تھے۔ واپس پہنچے تو حسب ِسابق ، تحمل سے ، ساری کارگزاری سننے کیبعد  پوچھا کہ کتنے کتنے سیگریٹ پئے؟ ہماری بولتی بند!  اسقدر سناٹاّ کہ گویا زندگی رُک سی گئی ہو۔’’آیندہ سیگریٹ کو ہا تھ تک نہیں لگانا ورنہ ! ‘‘  آٹھ الفاظ پر مشتمل اپنا  ’مختصر فیصلہ‘ سناکر اُٹھ دیئے ۔جس پر ، کم از کم  میں نے ۲۱ سال  تک عمل کیا ۔

کامیابی و نصرت اور  دینی بنیاد پر آپکی  مخالفت ، ندیا کے دو الگ الگ کناروں کی طرح،  ساری زندگی  آپکے ساتھ ساتھ رہی۔ آپکے  دینی مخالفین  بھی آپکے  مریض اور مرید تھے۔ 1974 ء  کے فسادات میں آپکی اپنی نئی خرید کردہ ، دو منزلہ کلینک کو  لُوٹ لینے کے بعد آگ لگا دی گئی۔ ایک روز ایک مریض ، آپکے ہاتھوں میں دم توڑ رہا تھا۔ بولا ڈاکٹڑ صاحب مجھے معاف کر دیں۔  چھت پر لگے پنکھے کیطرف  کی  اشارہ کر کے بولا یہ آپکی دکان سے میں نے لُو ٹا تھا۔آپ نے اس کو بہت کھلے دل سے معاف کیا  بلکہ اس کو یا د دلایا کہ تم نے تو خود دیکھا ہے  کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری دوکان  بھی نئی بن گئی ہے اور اس کا سارا سامان بھی نیا ہے! الحمدللہ۔  آپکے   گھر (پیلی کوٹھی) پر بھی حملہ کیا گیا اور آگ لگانے کی کوشش کی گئی۔ہمارے ہمسائیوں اور محلے داروں نے  آگے بڑھ کر خود آگ بجھائی!  تما م گھر والوں کو  ، آدھی رات کے وقت، مرحوم شیخ   نذیر  حسین صاحب   ( پُھلیلی )   نے  اپنے حوصلے اور اسلحے کے  زور پر،  پنڈی بھٹیاں  کے لئے بس میں میں سوار کروایا۔ جہاں  ہماری غیر از جماعت  پھوپھو  دولت  بی بی  مقیم تھیں۔ فجزاللہ تعالی خیراً۔   کم از کم دو ہفتوں کیلئے شہر چھوڑنا پڑا۔ایسے لگتا تھا کہ  واپسی نہیں ہوگی۔لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا ۔  لوگوں کے دل اور ہمارے  دن ایکبار  پھر ، پھیر دیئے۔

مولوی محمد ابراہیم صاحب بڑے  بھاری بھر کم  جسم ،  گرجدار آواز اور رعب  دار شخصیت کے مالک تھے ۔ پیشہ کے  لحاظ سے حکیم  اور  اہلحدیث مسلک کی سب سے بڑی مسجدمبارک  کے خطیب تھے۔ احمدیت  کی مخا لفت  ، وقت کی ضرورت،  خطابت کی مجبوری اور لوگوں کی ڈیمانڈ تھی۔  مسجد میں ، شیر کیطرح  اپنی گھن گرج  نکال کر، ہماری کلینک پہ آتے ، بد ہضمی اور گیس  کیلئے ہمارا مشہور ِزمانہ بر ینڈ  ۲۸  نمبر محلول  پیتے اور  بھیگی بلی  کیطرح  نکل لیتے۔

اسی طرح کئی اور مخالفین بھی صرف  ۲۸نمبر  کی ’مار‘ تھے۔ مثلاً مشہور ِزمانہ ’’نفیس ٹیلرنگ‘‘ والے بشیر احمد دؔرزی کا تعلق  بھی قادیان کے نواحی قصبے  سے تھا۔ انکے آباء اور وہ خود بھی احمدیت کے شدید مخالفین میں  سےتھے۔    اور    1934  ء سے ہی  بڑے پکے  احراری تھے۔ ہمسائے اور ایک دوسرے کے گاہک ہو نے کے باوجود،   اُنکا لہجہ اور  زبان   حقارت پر مبنی تھی۔ لیکن  ۲۸ نمبر کے بغیر اُنکا  بھی   دن   نہ گزرتا تھا۔ ایک لمبا عرصہ  فالج میں مبتلا رہنے کے بعد ،  اِسی سال اُنکا  بھی انتقال ہو گیا ہے۔

انگریزی زبان میں ایک مشہور مقولہ ہے کہ ’’بادشاہ کبھی کوئی غلطی نہیں کرتا‘‘ ۔ اس کا مطلب ہے کہ جب بادشاہ سلطنت   کا کوئی  کام  ہی نہیں کرتا تو غلطی کیسے کر یگا؟  یعنی ، بادشاہ کا وجود، اُسکا  نام اور اُسکی تصویر ہی   ملک کے ہونے، رہنے اور چلنے کی ضمانت ہو تی ہے۔ جبکہ ہر دُرست یا غلط  فیصلہ  کی ذمہ دار حکومت اور انتظامیہ ہو تی ہے۔ یہاں بھی، کچھ ایسے ہی حالات تھے۔ کسی کو آپ سے کبھی  کوئی شکایت نہ ہو ئی۔ کیونکہ بقول میاں محمود احمد کے ، ’’آپ کبھی کسی معاملہ میں فریق ہی نہ تھے‘‘۔ آپکے بڑے بھائی  آپکی حکومت تھے۔ فیصلے بھی وہی  کر تے تھے۔ آپکی موجودگی ،  فقط سلطنت اور استحکامِ خاندان  کی ضمانت تھی ۔ لہذا، میرے دکھ  کا الزام ،  آپ پر نہیں آتا مگر  پھر بھی آتا ہے کہ :

آپ چاہتے تو آپکے محترم اور بزرگ  بھائی میاں نور محمد مرحوم کے حالات مزید سُدھر سکتے تھے!

آپ ذرا  اور توجہ  کرتے تو   ہماری خالہ زینب اور آپکے تا یا ذاد بھائی میاں نو ر محمد(پوسٹ مین )  کا گھرانہ، اُنکے  کچے  گھر کی طرح زمین بوس نہ ہو تا!

اگر آپ  تھوڑی اور  توجہ کرتے تو آپکے چچا زاد بھائیوں اور ہمارے مامووٗں کے حالات  بھی مزید  بہتر ہو سکتے تھے!

لیکن  پھر میں ،  خود  سے اور آپ    سب سے  سوال کر تا ہوں کہ کیا ہم سب نے مِل کر بھی کِسی  کے کیلئے اُتنا کیا  ہے ، جس قدر  اُس اکیلے نے ہم سب کیلئے کیا ہے؟

  اِسکا   جواب ہم سب جانتے ہیں، اسی لئے  نہیں لکھا!  ہم میں سے کوئی بھی   اُن سی سیرت پا سکا نہ صورت!  نہ آپ سی عزت اور  شہرت کسی کے حصے  میں آسکی!آپ جیسی   قسمت و دولت  کا تو سوال ہی کیا؟ اللہ تعالیٰ کی ذاتِ بابرکات اور کارساز کی بدولت  اور اُسی  رحیم وکریم اور احد وغنی  کے بعد، آج تلک ہم   والد صاحب کے کمائے ہوئے ثمرات سے ہی بہرہ مند  ہورہے ہیں۔

ہماری مثال تو انکے سامنے، اُس  موم بتی کی سی ہے  جو ساری رات  جلتی  رہتی ہے  اور ماحول کو روشن کئے رکھتی ہے۔اُس  مدھم  اور گداز روشنی  میں ،  ہم سو جاتے ہیں ۔ صبح اٹھتے ہیں تو وہاں پگھلی و بکھری ہوئی موم پڑی ہوتی ہے۔ بتی  یعنی دھاگہ غائب ہو تا ہے۔ سبھی  جانتے ہیں کہ موم  دوبارہ استعمال  کے قابل ہے اور نیا  دھاگہ اس میں گوندھا جا سکتا ہے۔ کون یہ کشٹ ُاٹھا تا ہے؟ کس نے یہ کیا ہے؟  ہم  سے بھی یہ نہیں ہوا؟  ہم   وُہی پگھلی ہو ئی موم ہیں! بشیر احمد نہیں!

جہاں جہاں ہوں میں ناکام،  وجہ  میں ہوں

جہاں جہاں ہے میرا احترام،  تم سے ہے

(وصی شاہ سےمتاثر)