(ڈاکٹر) چوہدری ناصر احمد جاوید صاحب مرحوم آف حافظ آباد

چوہدری ناصر احمد جاوید مرحوم

1957ء۔2020ء

ڈاکٹر چوہدری ناصر احمد جاوید  صاحب ،  سابق قائد ضلع و نا ظم ضلع حافظ آباد، مورخہ  16 جنوری بروز جمعرات،  بعمر قریباً 63 سال ، طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ  ربوہ ، میں  حرکتِ قلب بند ہو جانے سے اچانک  وفات پا گئے، انا للہ وانا الیہ راجعون۔

غسل کے بعد،  آپکا  جسدِ خاکی،  حافظ آباد لایا گیا اور اُسی رات بعد از نمازِ ِِعشا ء آپکی نمازِ جنازہ ، جامع بیت الزکر، حافظ آباد میں ادا کی گئی، جس میں مقامی و ضلع بھرسےآئے ہوئے،    کشیر احبابِ جماعت نے شرکت کی۔آپ  بفضلِ تعالیٰ موصی تھے۔ لہذا،   آپکا جسدِ خاکی ، واپس ربوہ لایا گیا، جہاں مورخہ 19  جنوری بروز اتوار، بیت المبارک میں  نماز ظہر کے بعد، محترم حافظ مظفر احمد صاحب ناظر اصلاح و ارشاد(  مقامی )  ، نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور  بہشتی مقبرہ   ، محلہ دارالفضل میں بعد از تدفین ، دعا بھی کروائی۔

ڈاکٹر صاحب مرحوم کو  ، 1993ء تا 1995 ء  پہلے قائد ضلع حافظ آباد، قائم مقام   امیر ضلع  اور بعد ازاں،  1997 ء سے مسلسل 22 سال تک ناظم ضلع مجلس انصار اللہ حافظ آباد کے طور  پرخدمات کی نمایاں توفیق  ملی۔

آپ  10 اکتوبر 1957 ء کو حافظ آباد میں  پیدا ہوئے۔ آپکا  خاندان  شہر میں بطور زمیندار اور کاروباری  کے ، اچھی شہرت کا  حامل تھا ۔ آپکے والد ِمحترم   چوہدری محمدعبداللہ صاحب  مرحوم  کپڑ ے کا کاروبار کرتے تھے او ر ایک زمانہ میں، سنگر سِلائی مشینوں کی تحصیل  حافظ آباد  میں واقع واحد ایجنسی  کے  مالک بھی  تھے۔ اس کیساتھ ساتھ ، میونسپل کمیٹی کے زیرِانتظام نئی تعمیر ہونیوالی ستارہ مارکیٹ کے چیرٔمین بھی تھے۔   آپ کی پیدائش سے قبل، آپ کے دو بھائی نو عمری میں ہی   وفات پا چکے تھے۔ لہذا، آپ کی پرورش بڑے نازو نعم میں ہوئی۔   آپکی ہر خواہش کا احترام ، اصرار سے پہلے ہی  کر دیا جاتا تھا۔ لیکن اِسکے باوجود آپ بہت  نرم مزاج ، کم گو  اور خدمت ِدین کے رسیا تھے۔

1974 ء میں میٹرک  اور1977 ء میں ایف۔ایس۔سی کا امتحان  حافظ آباد سے پاس کیا۔ایم۔بی۔بی۔ایس کیلئے، میڈیکل کالج    میں داخلہ نہ ہونے کے بعد،  آپ نے  ڈسٹرکٹ ہسپتال   گوجرانوالہ سے  میڈیکل  ڈسپنسر اور بعد ازاں، میڈیکل ٹینیشن کا کورس کیا۔چند سال ، محکمہ صحت کے تحت نئے قائم کئے گئے، بنیادی رُورَل ہیلتھ سینٹر زمیں بطور انچارج ملازمت کی۔ 1984 ء میں ،آپکے چچا (ڈاکٹر) بشیر احمدصاحب  (جو خود ایک کامیاب میڈیکل پریکٹیشنرتھے)  کی اچانک وفات کے بعد، اُنکی کلینک جو آپ ہی کے نام (ناصر میڈیکل ہال) سے موسوم تھی ، پر اپنی پرائیویٹ پریکٹس شروع کر دی،اور اپنی گورنمنٹ ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔

بِلا شُبہ، آپکی خدماتِ دینیہ کا  دورانیہ 50 سال سے بڑھا ہو ا ہے۔   بچپن سے ہی مجلس اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ میں مقامی طور پر آپکے پاس اہم شعبہ جات رہے۔  1983ء میں  آپ قائد مجلس شہر  منتخب ہوئے۔سوا سو کے قریب تجنید تھی، ماشاءاللہ !

1984 ء میں ، پاکستان میں  جماعت احمدیہ  کے خلاف بدنام زمانہ ،   امتناع قادیانیت  آرڈیننس    بھی آیا۔ جبکہ حالات  1983 ء کے اواخر سے ہی خراب  ہو چکے تھے۔  ایسے مخالفانہ ادوار میں، مجلس خدام الاحمدیہ کا کردار اور ذمہ داریاں  پہلے سے بہت بڑھ  گئیں تھیں۔ما شاءاللہ ، حافظ آباد میں،  جماعت کی  3  عدد  بیوت الزّکر تھیں۔ اُنکے  ساتھ ساتھ، گھروں اور افراد جماعت کی حفاظت کیلئے، خدام کی ڈیوٹیاں  ایک ہمہ وقت اور بڑا  چیلنج تھا۔  علاوہ ازیں،  ًاِک حرفِ ناصحانہ ً  اور اُس جیسے پمفلٹس کی راتوں کو ، گھروں میں تقسیم بھی بہت مشکل کا م  تھا، جو بفضل ِ تعالیٰ، خیروعافیت سے انجام پائے۔

1987 ء میں آپ قیادت  ضلع گوجرانوالہ کے ماتحت  ،  بطورنگران حلقہ تحصیل حافظ آباد  اور بعد میں1989/90 ء میں  بطور  نا ئب قائد ضلع گوجرانوالہ آپکو خدمات بجا لانے کی توفیق ملی۔   اُس زمانہ میں ، تحصیل حافظ آباد کی اپنی 8 مجالس کے علاوہ،  گوجرانوالہ کی 3   مجالس ، بھڑی شاہ رحمان، جلہن، اور نوکھر،  بھی آپکے حلقہ میں شامل تھیں۔

آپکے قائد اضلاع میں محترم خلیل احمدصاحب سولنگیؔ ( شہید مسجد دارالذِّکر لا ہور) محترم افتخار احمدصاحب ملہی ؔ ، اور قائدینِ علاقہ میں  مکرم عزیز الحق صاحب رامہؔ  و مکرم عبدالحمید صاحب  گوندؔل نمایا ں رہے۔ ان تمام احباب  و دیگر  میمبرانِ عاملہ کے ساتھ آپکے تعلقات ،  نہایت  دوستانہ اور  برادرانہ  تھے اور اب تک استوار چلے آتے تھے، ماشاءاللہ!

1993 ء میں ،    سیاسی و  انتظامی لحاظ سے ، حکومت  پنجاب نے  حافظ آباد کو ضلع کا درجہ    دے دیا ، تو آپکو حا فظ آباد کے   پہلے قائد ضلع  کے طور پر خدمت ِدین کی توفیق ملی اور آپ 1995 ء   تک اس ذمہ داری کو بااحسن  طریق نبھاتے رہے۔   شروع میں  کئی ماہ   تک  امیر صاحب ضلع حافظ آباد  کی تقرری  بوجو ہ نہ ہو سکی ۔اس دوران، آپکو ہی قائم مقام امیر ضلع حافظ آباد  کی ذمہ داری  بھی سونپی گئی  تھی  تا آنکہ محترم  چوہدری  محمدافضل  خان  صاحب مانگؔٹ  مرحوم (صدر جماعت مانگٹ اونچا)  کو امیر ضلع مقرر کر دیا گیا ۔

 

1997 ء  میں آپ مجلس انصاراللہ کے  رُکن بنے۔ باوجود اس کے کہ حافظ آباد 1993 ء سے  علیحدہ ضلع بن چکا تھا لیکن مجلس انصار اللہ  کی ضلعی نِظامت  ابھی تلک  حافظ آباد میں قائم نہ ہو ئی تھی۔یہ تا حال،    نِظامت   ضلع گوجرانوالہ   ہی   کے ماتحت تھا۔   آپکے، ناصر بنتے ہی  آپکو پہلے،   ناظم مجلس  انصاراللہ ضلع حافظ ا ٓباد   کی  ذمہ داری سونپ دی گئی  ۔ اور بفضل تعالیٰ، یوں    اپنی وفات،  (مورخہ 16 جنوری    2020  ء) سے  پندرہ روز قبل تک،     مسلسل 22 سال    تک   ، آپکو  یہ  ذمہ داری بخوبی نبھا نے کی توفیق حاصل ہوئی، ما شا ءاللہ

اِسطرح ، آپکو ضلع حافظ آباد کے پہلے  قائد ضلع،  (قائم مقام ) امیر ضلع اور پہلے  ناظم  ضلع  کے طور پر خدمات بجا لانے کا منفرد اعزاز حاصل ہوا۔

آپکی نظامت کے دوران،  مجلس انصاراللہ ضلع حافظ آباد نے ، کئی مرکزی اعزازات حاصل کئے، ماشاءاللہ!   ان  22 سالوں میں ، آپکو   محترم حافظ مظفر احمد صاحب ،  محترم   صاحبزادہ  میرزا خورشید احمد صاحب مرحوم ،  محترم صاحبزادہ  میرزا  غلام احمد صاحب مرحوم  اور محترم   ڈاکٹر عبدالخالق  صاحب جیسے  بزرگان،     صدرانِ مجلس  انصار اللہ  پاکستان کیساتھ کام کرنے کی توفیق ملی۔ جہاں، آپ اِس خدمت ِدین  کو اپنے لئے ایک اعزاز   سمجھتے تھے ، وہاں ،  صدرانِ مجلس  بھی آپکے کام کو صراحتے رہے اور  آپکی صالاحیتوں پر اعتماد کرتے ہوئے،  آپکی  سالانہ تقرری   کا اعادہ  کرتے رہے۔

 

اس بائیس سالہ دورِ نظامت  میں ، جہاں آپ کئی  جسمانی عوارض کا   شکار ہوئے  وہاں   ، ذاتی ، خاندانی، تنظیمی اور  جماعتی   لحاظ سے  بھی کئی  نرم و گرم  معاملات ، حالات  اور واقعات  کا، آپکو  سامنا کرنا پڑا۔ لیکن،اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے، حضورِانور کی دعاوں سے، خدمت ِدین کا یہ سفر کامیابی سے جاری و ساری  رہا، الحمد للہ!

جماعتی حلقوں میں، آپکے ذاتی تعلقات اس قدر وسیع تھے کہ ہمارے اجداد،   حضرت میاں محمد مراد صاحب ، حضرت  میاں فضل  دین  صاحب مرحوم ومغفور کے بعد ، ہماری وجہ تعارف آپ کی ذات  بھی بن گئی تھی۔  صدر مجلس خدام الاحمدیہ، محترم محمود احمد بنگالیؔ صاحب مرحوم و مغفور، حافظ آباد   کا نا م سنتے ساتھ  ہی ، ہر ایک سے، اپنے مخصوص انداز میں  یہی پو چھتے کہ ’’ناصرؔ کی کیا لگتی ہو ؟‘‘۔  اُنکے بعد محترم  حافظ مظفر احمد صاحب صدر مجلس بنے۔ اُن  کا بھی آپ سے ویسا  ہی الفت و موٗدت کا تعلق تھا۔   اخوت و موانست کا  یہ تعلق  ، اب مجلس انصاراللہ میں بھی ، اُسی طرح سے  جاری و ساری  رہا، ما شا ء للہ!

اس دوران ، آپکے والد محترم چوہدری محمد عبداللہ صاحب مرحوم   کو بطورصدر جماعت احمدیہ حافظ آباد  خدمت دین کی توفیق ملی ۔ آپ بفضل تعالی ٰ 1987ء سے لیکر 1997 ء تک ،  صدرجماعت رہے۔  آپکے دور کی سب سے بڑی   خدمت ،   جامع بیت الزکر احمدیہ حافظ آباد کی تعمیر ِنو  تھی ۔اللہ تعالیٰ آپکے حق میں یہ خدمت  قبول فرمائے ، آمین۔ مجلس خدام الا حمدیہ کی ذمہ داریوں کیساتھ ساتھ،  ڈاکٹر صاحب، صدر صاحب شہر اور امیر صاحب ضلع کی عاملہ کے بھی اہم رکن  رہے۔مجلس خدام الاحمدیہ، مجلس انصاراللہ کی مجالس شوریٰ کیساتھ ساتھ،  آپکو  جماعت  احمدیہ حافظ آباد  کی طرف سے   مرکزی  مجالس شوریٰ  میں بھی  ،  ایک لمبا عرصہ  بطور رُکن،   شرکت کی توفیق ملتی رہی، الحمدللہ۔

قیادتِ ضلع کے دور  کی کچھ یاد یں :

1984 ء کے  ’’اِمتناع قادیانیت آرڈیننس ‘‘ کیوجہ سے پورے ملک میں جماعتی  اجتماعات و جلسوں پر پا بندی عائد ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود بڑی حکمت سے ہر جگہ یہ پروگرام کسی نہ کسی طرح منعقد کئے جاتے تھے۔ ایسی ہی ایک جگہ ، حافظ آباد میں ،اونچا  مانگٹ  بھی تھی جہاں پراحباب  جماعت کی عددی  اکثریت اورمقامی  انتظامیہ سے اچھے تعلقات کی بنا پر کئی سال  تک ، مجلس خدام الاحمدیہ ضلع گوجرانوالہ  اور بعد ازاں ضلع حافظ آباد کےسالا نہ  اجتماعات ،    بڑی کا میابی سے  منعقد ہوتے رہے۔بطور نائب قائد ضلع اور بعد ازاں ، بطور قائد ضلع ، سارے انتظامات کی ذمہ داری  آپکی ہو تی تھی۔ بلاشبہ ، آپکی مقامی و ضلعی مجالسِ  عاملہ،  لوکل قائدین اور اپنےمخلص خدام  کے تعاون کے بغیر یہ کامیابیاں ممکن ہی نہ تھیں ۔

1994 ء میں ، مجلس سکھیکی میں ،   ختم ِ نبوت     کے نام  پر،  مخالفین  کی طرف    بیت الزکر ، پر  حملہ  کا اعلان کیا گیا۔ آپ  شام کو  حافظ آباد  سے  اپنے          10   /15 خدام کے ساتھ (جس میں آپکے3 /4   بھائی بھی  شامل تھے ) اس عہد کے ساتھ نکلے  کہ شائد واپس اپنے گھروں میں لوٹ نہ سکیں۔      جمعرات  کی رات  سب نے ، ذکرِالیٰ ، اور نوافل  پڑھتے ہوئے،  جاگ کر گزاری۔ لاوڈ اسپیکر سے مخالفانہ  تقاریر کی آوازیں  آتی رہیں۔با جماعت نمازِ تہجد اور فجر ادا کی۔ نماز جمعہ ادا کی گئی اور جب  تمام  شر پسند وں کے گھر چلے جانے کی تصدیق ہو گئی ، تب  شام کو  ہم لوگ واپس  حافظ آباد لو ٹے۔

شعبہ صحت ِجسمانی کے ماتحت ، سائیکل سفروں اور پکنک  کے اہتمام  کا شوق  تو آپکا  من پسند  مشغلہ  تھا۔  ہیڈساگر و، ہیڈقادرآباد ،ہیڈ خانکی ، اونچا   مانگٹ، بھاکا بھٹیاں،   ہرن مینار( شیخوپورہ)  اور ربوہ  تک کے سائیکل  سفروں میں،  بڑی تعداد میں خدام نے شرکت کی ۔ پاکستان جیسے ممالک میں ، اس طرح کے کاموں میں بڑے خطرات  لاحق   ہو تے ہیں،  لیکن بفضل تعالیٰ تمام  پروگرام  اور سفر بخیروعافیت انجام پذیر ہوئے، الحمدللہ!

آپکی شخصیت کا  ایک نمایاں وصف ،   دوستی پالنا تھا۔اِس میں ، رنگ ونسل ،  ذات پات ، مذہب و ملت ،  دھن دولت ، عمروشکل ، رشتہ داری یا برادری  کی کوئی  شرط نہیں تھی ۔خاندان   و  بیرون ِخاندان ، جماعت و بیرونِ جماعت،  بڑی  پائیدار دوستیاں آپکا خاصہ رہی ہیں۔  جماعتی لحاظ  سے ، جن لوگوں  کیساتھ بھی  آپکو کام کرنے کا موقعہ ملا،  ان میں سے اکثر  کیساتھ ، آپکا دوستانہ تعلق ہو جا تا تھا۔

ہم سب بھائیوں اور عزیزو اقارب کو  حضورِ انور کی خدمت میں خط لکھنا سکھایا،  زیارتِ ربوہ   کا شوق،  بہشتی  مقبرہ  میں دعا کا اسلوب،  سالانہ مرکزی تعلیم القرآن و تربیتی کلا سوں اور اجتماعات  میں باقاعدگی سے شرکت کی عادت ، بزرگان جماعت سے ملاقات اور دعا کیلئے  درخواست  کی عادات ، سب آپ نے ہم نوجوانوں میں رائج  کروائیں۔ فجزاھم اللہ تعالیٰ خیراً۔

جیسا کہ پہلےبھی  ذکر ہو ا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم  سے،  ڈاکٹر صاحب مرحوم کی زندگی  بڑے   نازو نعم  میں گزری۔ اِسکے باوجود،  آپ،  بڑے دھیمے مزاج،   کم گو، اور خدمت ِ دین کیلئے ، اپنا تن ،من  اور دھن  لگا دینے والے وجود تھے۔ ہماری جماعت حافظ آباد میں  اور ہمارے خاندان  میں ،  کسی کو بھی اسقدر طویل اور  بھر پور  انداز  میں خدمت ِدین  کے مواقع نہیں ملے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ  اِن خدمات کو احسن رنگ میں  قبول فرمائے اوربدلے میں  اپنی لا محدود  حسنات سے آپکو  نوازے، آمین۔

آپکی  شادی  اپنی چچا زادکزن محترمہ شمیم اختر صاحبہ کیساتھ اپریل 1983 ء  میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپکو چار بچوں ، عزیزہ رافعہ ناصرصاحبہ ایم۔ اے ، ٹیچرمریم صدیقہ گرلز ہائی سکول ربوہ (اہلیہ مکرم میاں محمد راحیل احمدصاحب واقفِ زندگی، ایم۔اے انتظامیہ ،  طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ) ، عزیزہ  میمونہ ناصر صاحبہ، ایم ۔اے (اہلیہ مکرم خواجہ حسن وسیم صاحب آف سیالکوٹ)  ،عزیزم  محمدحسیب اللہ صاحب  (حال مقیم جرمنی)  اور  عزیزم  مہروز احسان اللہ  صاحب  (متعلم  میڈیکل  کالج ،  چائینہ )سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن سب کا حامی وناصر رہے،  اور یہ اپنے بڑوں کا نام روشن کرنیوالے ہوں ، آمین۔

آپ نے  ،  اپنےآبا و  اجداد میں سے   وفات شد گان کے جاری   چندہ جات ، نہ صرف جاری  رکھے، بلکہ  جن کے نہیں چندہ جات  نہیں تھے، اُنکے بھی جاری کروائے ۔ بوقتِ وفات، آپکا اپنا  حصہ آمد (وصیت ) ادا شدہ تھا،  جو آپکی ذمہ دار شخصیت کا عکاس تھا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ ، بنصرہ العزیز  نے از راہِ شفقت، آپکی تدفین، بہشتی مقبرہ ، محلہ دارالفضل میں کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔

اللہ تعالیٰ  کے حضور، عاجزانہ دعا ہے کہ مرحوم  کی مغفرت  فرمائے اور اپنے پیاروں کے قرب  میں جگہ عطافرمائے۔اور آپکے اہلِ خانہ اور لواحقین  کو صبرِجمیل عطا فرمائے، اُنکی نیکیوں کو جاری رکھنے اور آگے بڑھانے کی بھی توفیق عطا فرمائے، آمین۔

والسلام

خاکسار

نعیم احمد طاہر

ناظم ِاعلی، مجلس انصاراللہ ، ناصر ریجن (مڈل سیکس) یو۔کے

05/02/2020