خاموش شہزادہ!

علمِ نجوم یا ستارہ شناسی کا تعلق، تاریخِ انسانی کے قدیم ترین علوم میں سے ہے۔ یہ علم صدیوں تک، علوم ہیت، طب، ریاضی اور فلسفہ  کا لازمی جزو رہا ہے۔ دنیا کے جیّد فلاسفہ، حکماء، شعراء اور سائنس دان، اِسکے طالب علم رہے ہیں۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ ممکن نہیں کہ زمین اور اِس پر بسنے والے لوگ، اجسام ِفلکی جیسے کہ شمس وقمر اور دیگر کواکب کی موجودگی، اور حرکات سے مرئی یا غیر مرئی طور پر متاثر نہ ہوں!

زمانہ قدیم میں عربوں نے(اپنے ذعم میں) اس علم میں بڑی ترقی کی اور سورج کی چال کو، بارہ مہینوں میں تقسیم کرکے ، 12 برج بنائے اور انکو عربی میں ، برج حملؔ، ثورؔ، جوزاؔ، سرطانؔ، اسدؔ، سنبلہؔ، میزانؔ، عقربؔ، قوسؔ، جدیؔ، دلوؔ اور حوتؔ کے نام دیئے۔

اِس علم کے مطابق، جنابِ سورج (صاحب)، 23 جولائی سے 23 اگست کے دوران، منطقہ اسدؔ  میں سے گزرتا ہے۔جبکہ، میرے ناقص علم کے مطابق، سورج صاحب  توموٹے ، تازے ، غیر فعال و غیر متحرک ستارہ ہیں! وہ کیسے ان بُرجوں اور منطقوں سے گزر سکتے ہیں؟  لہذا مجھے یہ سب کچھ فضول، لغو اور بکواس سا لگا۔

یہی علمی بات، جو میں نے ابھی آپکو بتائی ہے، کے بارے میں، سب سے پہلی اطلاع ،  مشہور اطالوی سائنسدان، جناب گیلیلیو صاحب ’’مرحوم ومغفور‘‘  نے 1610ء میں دی، اور بیچارہ اِس دُرست اطلاع دینے کے نتیجے میں، قدامت پسند اور کم علم، رومی عیسائی پادریوں کے فتویٰ پر، 1642ء میں، موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ بعدازاں، اس بات کی باقاعدہ تصدیق، جناب نکولس کوپرنیکس (پولش) و دیگر سائنسدانوں نے پے در پے اپنے مشاہدات و تجربات سے کی ۔

ہمارے خاندان کے کئی افراد، سالہا سا ل سے یوروپ  میں آباد تھے لیکن گیلیلو صاحب سے کی گئی، اِس زیادتی پر ، کسی نے  بھی آواز نہ اٹھائی تھی۔ (میرا خاص اشارہ مکرم برادرم میاں محموداحمد صاحب آف جرمنی اور چوہدری محمود احمد صاحب جاوید آف سوئٹزرلینڈ کی طرف ہے)۔ یہانتک کہ راقم الحروف نے، تاریخ کے  مضمون میں، مزید غوطہ خوری کرنےکیلئے، وطن عزیز کی  معتبر وقد یم ترین درسگاہ، پنجاب یونیورسٹی میں 1991ء  قدم رکھا اور لاہور میں پی۔آئی ۔اے کی طرف سے (چوبرجی میں) قائم کردہ سیارچہ گاہ میں جا کر بچشمِ خود دیکھا اوراس بات کی شافی و کافی تصدیق کی کہ جنابِ سوریا (سورج) صاحب، ایک ہندو دیوتا کیطرح درمیان میں کھڑے ہیں اور باقی سیارے، داسیوں کیطرح، آپکے آگے پیچھے گھوم رہے ہیں۔میری اِن حقیرکاشوں اورمحنتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوپ محترم جان پال صاحب دوم نے، 7 نومبر 1992 ء کو رومن چرچ اور تمام عیسائیوں کیطرف سے، صدیوں پہلے کی گئی، اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے، موصوف گیلیلیو صاحب کے قتل پر، ساری دنیا سے معافی مانگ لی۔ تاریخ عالم شاہد ہے کہ اِس معافی نامے کے بعد ہی،  خاکسار نے (بلادِ غربیہ) مغربی ممالک اور یورپ کا دورہ کیا! ۔۔۔ تالیاں!

میرا گروپ اسد ہے! منطقے یا دائراۃ البروج میں ’اسد‘ پانچواں برج ہے لیکن نجانے کیسے یہ رتبے، غلبے اور تکریم میں  سب سے اہم مانا جا تا ہے؟ اِسکے اعلیٰ ترین رتبے اور خواص کا اندازہ آپ، درج ذیل باتوں سے لگا سکتے ہیں کہ:

اِسکا عدد یعنی نمبر 1 ہے۔

اسکا سیارہ، شمس یعنی سورج  دیوتا صاحب خود ہیں۔

اِسکا نشان، ببّر شیر ہے۔

اِسکا پھول ،گلاب ہے۔

اسکی دھات، سونا ہے۔

اِسکی کلید(کنجی) شہرت، حیات اور توانائی ہے۔

اور  کلیدِ وجود، بچے ہیں۔

مزید خوصیا ت میں، مضبوط قوتِ ارادی کے مالک، خود پسند، سیا ست پسند،  قدامت پسند،  اپنی اہمیت اور وقار کا بہت خیال رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں۔

فنون لطیفہ کے دلداداہ، تفریح اور رومانس کو پسند کرنے والے، امن پسند، صُلح جو لیکن تحکّم پسند، دل جیتنے والےاور تصوارتی دنیا کو پسند کرنے والے لوگ ، برج اسد یا انگریزی میں LEO گروپ کے لوگ ہیں۔

آپ ان تمام معلومات، کی تصدیق انٹر نیٹ سے خود بھی کر سکتے ہیں۔ لیکن میں اِن معلو مات کے بارہ میں اُس وقت سے جانتا ہوں، جب انٹرنیٹ ابھی ایجاد بھی نہیں ہوا تھا۔ ہمارے گھر میں آنیوالے ہفتہ وار میگزین، میں پہلی مرتبہ، اُس صفحے (آپکا یہ ہفتہ کیسا رہیگا؟) سے متعلق، میں نے اپنے اُس بڑے سے پو چھا تھا۔ میری عمر آٹھ یا دس برس کی ہوگی۔ انہوں نے بڑے پیا ر سے مجھے اِس کے بارے میں بتایا اور میں جان کر حیران رہ گیا کہ اُنکا ستارہ بھی اسدؔ ہے! یعنی لیو، شیراور شاہ تھا!

میں حیران تھا کہ اِس گروپ کے سارے خواص، میں اُن میں دیکھتا تھا۔ لہذا، خوشی کے یہ لمحات، نہایت عارضی ثابت ہو ئے۔ کیونکہ، میں ایک نظر، اُس حقیقی ’ شاہ‘ کو دیکھتا اور ایک نظر اپنے آپکو! میں تو اُسکے سامنے فقیر کیطرح تھا! ہمارا ستارہ اور مقدر ایک سا، کیسے ہو سکتا تھا؟میں نے اپنے آپ سے پوچھا! لہذا، میرا یقین، اِس قسم کی خرافات سے، ایکبار پھر اُٹھ گیا۔

وقت، مُٹھی میں بند ریت کیطرح آہستہ آہستہ پھسلتا رہا۔ میں عمُر میں اور’شاہ ‘ اقتدار میں بڑھتا رہا۔ شعور کی دہلیز پر قدم  رکھنے کے بعد، میں دوسری مرتبہ، اِس علم کی جانب مائل  ہوا، جب میں نے یہ محسوس  کیا کہ چلو! مجھ پر تو ستاروں کا چنداں اثر نہیں ہورہا لیکن ’شاہ ‘پر تو ہو رہا ہے! لہذا، کچھ نہ کچھ صداقت تو اس کاروبار میں ہے!

پھر میں نے جا نا کہ اِس علم کے مطابق سورج منطقے یا دائرہ  میں 30 دن تک رہتا ہے اوراُسکی پوزیشن  بدلتی رہتی ہے۔ لہذا، اِن 30 مختلف دنوں میں پیداہونیوالے افراد پر، اِسکے اثرات بھی مختلف طور پر مرتب ہوتے ہونگے! لیکن یہ سب کچھ سمجھ لینے، اور میرے اپنے  حالات میں خاصی  بہتری آجانے کے باوجود،  میرے اور ’شاہ‘  کی زندگی میں فرق کم نہ ہوا!

’شاہ‘ مجھ سے قریباً 11 برس بڑے تھے ۔ ہم دونوں ایک دوسرے کو بچپن سے جانتے تھے۔ تین، چار سال کی عمر میں، ’شاہ‘ کی  متروکہ، لوہے کی ایک خوبصورت کھلونا کار، ہمارے ہا تھ آئی۔ جس پر ہم بہت نہال تھے! پھر ایک ایک کرکے ُانکی چھوڑی ہوئی،  ہرچیز اور بعد میں کوئی  نہ کوئی چیز، یکے بعد دیگرے، ہم سب کے زیرِاستعمال آتی رہی۔

یہی سِّر(خفیہ معاملہ) ہے، اِس ساری کہانی کا! ہر چیز ’شاہ ‘کیلئے اوراُسکے نام پر آتی۔ وہ استعمال کرتے اور بے دریغ و بے لوث دوسروں  کو ’دان‘ کردیتے۔ یہی’شاہی‘ تھی،  جو گروپ اسؔد یعنی  لیو، کے حامل افراد کو، گھر بیٹھے ہی، ُُشیر یا ’شاہ‘‘ بنا رہا تھی۔ یہ عُقدہ تو ہمارے پچاس سالہ غوروفکر کے بعد کھلا کہ وہ ’شہزادہ‘ تھا، شاہ نہیں! ’’شاہ‘‘ توگھرمیں ایک نہیں دو، دو موجود تھے۔ ہم نے کبھی اُس سے پو چھا نہیں اوراُس نے خود کبھی بتا یا نہیں تھا۔ اصل میں، وہ ایک ’خاموش شہزادہ‘ تھا ۔ لیجئے، پوپ صاحب کی طرح ہم بھی اپنی غلطی مان لیتے ہیں۔

ریاست کا کا روبار اُسی کے نام پرچلتا تھا، یعنی ’’ناصرؔمیڈیکل ہال‘‘۔ حقیقت میں تو، شاہوں کی نسل اور زندگی،  اِس شہزادے سے ہی آگے چلنا تھی۔ اِس سے قبل، دو شہزادے، نذیر احمد اور نصیر احمد تو کم سِنی میں ہی وفات پا گئے تھے۔ یہ تیسرا تھا جس نے، بفضلِ تعالیٰ صحت و عمر پا کر، ’ تِرچھول‘‘ کیطرح یا س و نااُمیدی کو چیر کر رکھ دیا تھا۔ ہمارے دادا حضور، میاں فضل دین صاحب مرحوم  اور دادی جان،  ملکہ عالیہ ’’سلطنت ِفضلیہ‘‘، محترمہ اللہ جوائی صاحبہ نے،  شہزادے کی پرورش اپنے ہاتھوں میں رکھی اور’’شاہوں‘‘ کو اِس شہزادے کے نازونخرے اٹھانے پر مامور کردیا تھا۔

بلا شبہ، شہزادہ  بڑے ہی نازو نعم  میں پلا۔ اُسکی ہر خواہش بجا لائی گئی ۔ لیکن آفرین ہے،  اُن دعائیں کرنیوالوں پر، کہ جن کی دُعایئں رنگ لائیں،  خوش قسمت  تھے، وہ لوگ جنہوں نے اِسکی پرورش کی اورشکرگزار ہیں ہم لوگ کہ ہمیں اِس سا  ’دیالو‘  بڑا بھائی ملا۔ میرے نزدیک سب سے بڑی خوبی آپکی یہ رہی کہ باوجود اسقدر ’’لاڈلہ‘‘  ہونے کے، آپ نے ایسا کوئی  کام نہیں کیا، جس سے آپکی پرورش کرنیوالوں کو ندامت کا سامنا کرنا پڑاہو! کیونکہ ذیادہ لاڈ اور پیار میں پلنے والے، اکثراپنے بڑوں کو رُسوا کر دیتے  ہیں۔ دوسری بڑی خوبی یہ رہی کہ دولت کی ریل پیل کے باوجود، آپکو کا م کرنے سے کبھی عار نہیں رہا!

آپکی پیدائش ، 10 اگست، 1957ء کو ہوئی۔ میو نسپل  پرائمری سکول نمبر3 سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد، گورنمنٹ ہائی سکول نمبر1 سے، میٹرک کا امتحا ن  1974ء میں پاس کیا۔ آپ پڑھائی میں اچھے تھے اور حساب کے مضمون میں بہت اچھے! پرائمری سے ہی حساب کے مضمون میں آپکی شہرت بہت اچھی تھی۔آپکا  خاندان، شہر میں بطورزمیندار اورکاروباری گھرانے کے، اچھی شہرت کا مالک تھا ۔ آپکے والد ِمحترم، چوہدری محمدعبداللہ صاحب  کپڑ ے کا کاروبار کرتے تھے او ر ایک زمانہ میں، سنگرسلائی مشینوں کی، تحصیل حافظ آباد میں واحد ایجنسی کے مالک بھی  تھے۔ اِس کیساتھ ساتھ ، کمیٹی کے زیرِانتظام نئی تعمیر ہونیوالی ستارہ مارکیٹ کے چیرٔمین  بھی تھے۔  آپکے چچا (ڈاکٹر) بشیراحمد صاحب نے اپنے کیئرئیر کا آغاز تو بطورایک اُستاد کیا تھا۔ لیکن آپکی پیدائش کے ایک سال بعد ہی، بطور میڈیکل پریکٹیشنر، اپنی پرائیویٹ پریکٹس شروع کردی تھی، جو کہ  بفضل ِ تعالی ٰ بہت کا میاب رہی تھی۔ دونوں بھائیوں نے، اپنی شہری اور ذرعی جائیداد میں بڑی تیزی سے اضافہ کیا۔ 1967ء میں، جلا لپور روڈ پر واقع، ایک بُلند و شاندارعمارت، المعروف ’’پیلی کو ٹھی‘‘  کی خرید نے، اِس  خاندان کی شہرت میں خاطر خواہ اضافہ کر دیا تھا ۔

اِن سب  باتوں کا، مثبت اثر آپ کی پرورش پر رہا ۔ اِنکا لبا س اوربودوباش، اپنے ہم عصروں سے خاصی بہتر اور نمایا ں رہی۔ سکول کے زمانہ سے ہی آپکو کھیلوں اورغیر نصابی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی  تھی۔ آپ بڑے اہتمام سے، مکمل یونیفارم میں، پی۔ٹی کرتے اور بیڈمنٹن  کھیلتے تھے۔ علاوہ از یں، کرکٹ بھی شوق سے کھیلتے تھے۔  اِن کھیلوں کی وجہ سے آپکی دوستیاں  بھی پروان چڑھیں۔ جو بہت دیر پا اور کامیاب رہیں۔

آپ خود بھی اورآپکے گھر والے بھی آپکو ڈاکٹر بنا نا چاہتے تھے۔ لہذا 1974ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعد، آپ نے گورنمنٹ ڈگری کا لج میں ایف۔ایس ۔سی  (میڈیکل گروپ) میں داخلہ لے لیا۔ آپکی اکیڈمک فیکلٹی بہت شاندار تھی۔ اُس زمانے کے، اکثر اساتذہ،  اپنی شکل، عقل،  کردا، اور اپنے عمل سے مکمل طور پراستاد ہی تھے! پروفیسر محمد شریف صاحب(کیمسٹری)، پرفیسرمحمد صلا ح الدین صاحب (بیالوجی) پروفیسرعبدالغنی  صاحب (فزکس )، پروفیسر محمد صادق بٹ ؔصاحب اور پرفیسر محمد حنیف صاحب رضوؔی (انگریزی ) کے استاد تھے۔ بڑی دلچسپ اور خوشگوار بات ہے  کہ میں آپ سے عمر میں قریباً 11 برس چھوٹا تھا لیکن  آپکے ہائی سکول کے اکثر اساتذہ سے  میں نے بھی  فیض حاصل کیا ۔ البتہ کالج پہنچنے تک، اکثر اساتذہ  تبدیل ہو چکے تھے۔ البتہ، میری خوش بختی کہ محترم  پرفیسر محمد صادق  بٹ صاحب، میر ے  زمانہ طالبعلمی میں، گورڈن کالج روالپنڈی سے حال ہی میں ٹرانسفر ہو کر واپس آئے تھے ۔ آپ میرے لائف ٹائم آئیڈئل استاد ہیں۔ اسی طرح کی تعریف، محترم رضویؔ صاحب کی بھی زبان ذدِ عام تھی۔

ایک مزے کی بات یہ ہے کہ 1997ء  میری شادی  کے ابتدائی ایام کو، سیلیبریٹ کرنے  کیلئے، دوسرے لفظوں میں ’’ہنی مون‘‘ گفٹ کے طور پر، ڈگری کا لج  حافظ آباد کے پرنسپل اور میرے محسن، پرفیسر سید ساجد حسین ترمذیؔ صاحب  نے، میری خدمات بطورلیکچرار شعبہ تاریخ، ڈایریکٹر تعلیما ت ڈویثزن گوجرانوالہ کی وساطت سے، عرصہ 6 ماہ  کیلئے وزیرآباد کالج سے مستعار لے لی تھیں۔ دونوں پرنسپل صاحبان، (وزیرآباد اور حافظ آباد)  شیعہ مسلک سے متعلق اور سیاسی و سماجی لحاظ سے، ترقی پسند خیالات کے مالک تھے۔ اِسی وجہ سے وہ  جماعت احمدیہ کے بارہ میں بھی بہت معتدل رائے رکھتے  تھے۔  لیکن، تگڑی سفارش  نہ رکھنے اور نہ کروانے والوں کیلئے،  تبادلوں پر ہمیشہ سے ہی پابندی رہی ہے۔ ذرا سوچئے، کہ دونوں پرنسپلز اور ڈائریکٹر  پروفیسر محمد یعقوب صاحب آپس میں نہ صرف  کو لیگ اور بااختیارتھے، بلکہ انہی کی خواہش پر میں نے ایک عدد سفارشی چٹھی، اپنے  حلقہ کے ایم ۔این۔اے، چوہدری افضل حسین تارڑؔ  صاحب  سے بھی لے لی تھی، یعنی گھر کے سب لوگ ہی راضی تھے،  لیکن اِسی پوسٹ کیلئے، ایک دیہاتی لیکن ہوشیاراُمیدوار،  شہباز بھٹی، لاہور سے وزیرِ تعلیم سے آرڈرز کروا  لایا، جبکہ میری فائل ڈائریکٹر صاحب کی  میز پر ہفتوں پہلے سے موجود پڑی تھی!

خیر بات ہو رہی تھی حافظ آباد ڈگری کا لج کے سینئر پروفیسرز کی،  میری ڈپوٹیشن کے دوران ہی، پروفیسر صلاح الدین صاحب، (جن کا شہر میں بہت نام تھا اور ڈاکٹر میرزا نصیر احمد گُؔل صاحب بھی، اُنکے بہت گن گاتے تھے)،  اپنی پی۔ایچ ۔ڈی   کا کام مکمل کرکے، اسلام آباد سے لوٹے  تھے اور میرے کولیگ بنے۔ میرے اپنے اکثر اساتذہ بھی، میرے کو لیگ بنے۔  یہ زندگی میں ایک  بہت خوشگوار، خوبصورت اور یادگار موقع اور وقت ہوتا ہے، بشرطیکہ، آپ ماضی میں بھی، ایک قابل اور محنتی انسا ن رہے ہوں اور آپکی کارکردگی اور کردار، پروفیشن میں آنے کے بعد بھی اچھا  ہو۔ الحمدللہ ! میں بھی، ایسے ہی خوشش قسمت لوگوں میں سے ایک تھا۔

ہمارے تعلیمی نظام  کا سب سے مشکل مرحلہ میڑک کا امتحان سمجھا جاتا تھا۔ اسکو سَر کرنے کے بعد، ڈاکڑ اورانجینیر بننے والوں کو اس سے بھی بڑامعرکہ سَر کرنا ہوتا   ہے۔ جو ایف۔ایس۔سی  کہلاتا تھا۔ اِس  منزل کو صرف انگریزی اور سائینس کے مشکل اور کٹھن  مضامین میں کامیابی کے ذریعے  ہی پایا جا سکتا تھا۔ اُردو، پنجابی میڈیم نوجوانوں کیلئے  یہ بڑا کٹھن مرحلہ ہوتا ہے۔ ہر سال  بیسیوں طلباء میں  سے،  ایک ادھ ہی یہ منزل پا سکتا تھا اور کسی سال تو  کو ئی بھی نہیں! یہ نہیں تھا کہ لوگ امتحان  نہ پاس کرتے تھے۔ پاس ہوکربھی، میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ہوسکنے کی وجہ سے، بچوں کی خود اعتمادی اورقابلیت کو بہت ٹھیس پہنچتی ہے۔ دو سال، اِنتہائی محنت کرنے اور ڈاکڑی کے سپنے دیکھنے،  اچھے نمبروں میں پا س ہو کر بھی،  میرٹ حاصل  نہ کرنے  کے بعد، والد کی کریانے یا کپڑے کی  دوکان پر بیٹھنا ، آج  بھی ایسی ناکامیابیوں کا تصور، دل کو دہلا کررکھ دیتا ہے۔ درجنوں، ایسی مثالیں میرے سامنے، میری جماعتوں اور میرے خاندان  میں موجود ہیں۔

’شہزاہ‘ بھی اُنہیں میں سے ایک تھا۔ وہ ایف۔ایس۔سی میں پاس تو ہو گیا تھا، لیکن میڈیکل کا لج میں داخلہ نہ ہو سکا۔ اگلے سال دوبارہ کوشش کرنے کے باوجود بھی ، مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی ۔اُنکا صرف ایک  کلاس فیلو دوست، محمد اعجاز اکرم ہی،  میڈیکل  کالج میں جا سکا ۔اُس نے بھی بعد میں  مقابلے کا امتحان پاس کر کے  سول سروس اختیار کرلی تھی اور1996ء پنجاب میں ڈایریکٹر فنانس کی کرسی پر بیٹھا تھا۔

اِس پر، اُنہوں نے ہمت نہ ہاری اورشیخوپورہ ڈسٹرکٹ ہسپتال میں،  ڈسپنسر کلا س میں داخلہ  لے لیا۔ یہ 1978ء کی بات ہے۔ اِس کورس سے قبل بھی، اپنے فارغ اوقات میں اوردورانِ کورس، آپ اپنے چچا کے کلینک  پر آ تے  جاتے تھے،  جہاں آپکو اِس شعبہ میں عملی تربیت  حاصل  کرنے اور اِس میں بہتری لانے کا موقع ملتا رہا۔

اِسی اثناء میں ، امریکن امداد کے تحت ایک نیا اور بہتر میڈیکل کورس ’’میڈیکل ٹیکنیشن‘‘ کے نام سے متعارف کروایا گیا ۔اس کورس کا دورانیہ  دو سال تھا اور پاس کرنیوالوں کو، امریکی امداد کے ماتحت ہی، دیہات میں نئے بننے والے، بنیادی ہیلتھ سنٹرز میں، بطورانچارج، متعین  کرنے کا منصوبہ تھا۔ اِس کورس میں داخلے  کی بنیادی شرط ایف۔ ایس۔ سی  پاس ہو نا تھی ۔اس کا درجہ اور گریڈ، یقینا ً  ڈسپنسر سے بالا تھا۔

چنانچہ  1981ء میں، رحیم یارخان ڈسٹرکٹ ہسپتال  میں،  آپکا داخلہ اِس  کورس کیلئے ہو گیا ۔ آپ نے  1983 ء میں ڈسٹرکٹ ہسپتال  گوجرانوالہ ( جہاں آپ نے بعدازاں مائیگریشن کروالی تھی) سے کورس مکمل کیا اور آپکی  پہلی تقرری کوٹ نواں، نزد مدھریانوالہ میں ہوئی۔ اِسکے بعد آپکا تبادلہ موضع موگھوکی، نزد جلا لپور میں ہوگیا۔ چند ماہ بعد،  مورخہ6 نومبر ، 1984ء  کو  آپکے چچا کی اچانک وفات  کے بعد، آپ  نے وسط  نومبر میں، اپنے چچا کی کلینک سنبھالی، جو آپکے ہی نام پر، گزشتہ قریباً  پچیس سالوں سے قائم تھی۔

آپ، بچپن سے ہی اپنے چچا (ڈاکٹر) بشیراحمد مرحوم  کے بہت  پیارے اور قریب تھے۔ دونوں بھائیوں کی اولاد میں سے  پہلا  لڑکا ہونے اور ذہین ہونیکی وجہ سے،  آپ  سب کو بہت عزیز تھے۔ آپکے چچا کلینک سے آکر، آپ کو سائیکل پر سیر کروانے لے جاتے،  گھر پر لکھنے اور پڑھنے میں آپکی  مدد کرتے۔ سکولوں اور کالج کے اساتذہ آپکو، آپکے چچا کے حوالے سے زیادہ  جانتے تھے، کیونکہ اُن میں سے اکثر یا تو آپکے  ہم مکتب  یا پھر کولیگ رہے تھے۔  اور اب بطور ڈاکٹر اکثر، آپ سے علاج وغیرہ کرواتے تھے۔

چچا بھتیجے کے اِس پیارومحبت بھرے رشتے  کی معراج، آپکی شادی تھی، جو آپکی چچا زاد کزن محترمہ شمیم اختر صاحبہ کیساتھ اپریل 1983ء  میں ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپکو چار بچوں، عزیزہ رافعہ ناصرصاحبہ، عزیزہ میمونہ ناصر صاحبہ ، عزیزم  محمدحسیب اللہ اورعزیزم  مہروز احسان اللہ سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ اِن سب کا حامی وناصر رہے،  اور یہ اپنے بڑوں کا نام روشن کرنیوالے ہوں، آمین۔

آپ اپنے چچا کی طرح ہی کم گو اور نفیس طبیعت کے مالک تھے! بہترین اورمناسب حال لباس  کرنیوالے تھے۔ بچپن سے ہی ضد کرنا اور چیخنا چنگھاڑنا آپکی فطرت میں نہ تھا  کیونکہ اِسکی نوبت ہی نہیں آنے دی گئی تھی۔  جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہو چکا  ہے کہ آپکی ہر خواہش کا، اصرار سے پہلے ہی احترام  کیا گیا ۔ اِسکے نتیجے میں آپکا  لہجہ ہمیشہ سے ہی دھیما رہا۔ مثلاً  پیلی کوٹھی میں دو نواڑی پلنگ بنوائے گئے تھے۔ ایک آپکے کمرے میں ڈالا گیا تھا۔ آپ جہاں بھی رہے، آپکا  کمرہ ایسے سجا ہوتا جیسے ہم ڈراموں اور فلموں میں دیکھتے ہیں۔ پلنگ، میز، کرسی،  لیمپ، پردے، الماریاں، کتابیں، جاجوسی ناول، ہیٹ، لامبے اوورکوٹ، جیکٹس، جوتے، ہینگرز، قدآور آئینے،  رنگا رنگ کی خوشبوئیں اور بننے سنورنے کا ساراسامان !  قِسمہا قسم کے چھوٹے بڑے  بلب، بیٹریز،  ریڈیوز، ٹیپ ریکارڈر،  بہت ساری کیسٹس، سیاہ چشمے، کیمرے اور پسندیدہ  کھیلوں کا  سارا سامان!

مثلاً آپکو بیڈمنٹن کا کھیل بہت پسند تھا ۔ ایک ریکٹ کا فی ہو تا ہے، ہم جیسوں کیلئے!  لیکن آپکے پاس کئی اضافی ریکٹس، شٹلز کے ڈبے، ریکٹ کو سیدھا  اور محفوظ رکھنے والےچوکھٹے، انکی مرمت  کرنے والا سامان اور اضافی تاریں،  نیٹ، مکمل سفید کٹ مع سفید بوٹوں اور اُنکی سفید پالش کے، کلائیوں پر پہننے والے سفید رِیسٹ گارڈ، موچ آ جانے کی صورت میں بازووں، پنڈلیوں اور گھٹنوں پر استعمال ہونیوالے فلیکسی کاٹن گارڈز، آیو ڈیکس کریم ، چوٹ لگنے کیصورت میں فسٹ ایڈ کٹ وغیرہ وغیرہ ! یعنی  ہرضروری واضافی چیز بھی موجود ہوتی۔

یہی حال آپکے پینٹنگ اور فوٹو گرافی کے شوق کا بھی تھا۔  حتی ٰ کہ  آپکے پاس اُس زمانہ میں بھی ، جب ہمارے ہاں  پیلی کوٹھی میں، چولہوں میں لکٹری کا استعمال بطور ایندھن کیا جاتا تھا، اپنے لئے انگریزی سٹائل میں چائے اور کافی  بنانے  کا سارا سامان ، بجلی  کے ہیٹر اورسفری سٹوو موجود تھے۔ اسی طرح، کیمپنگ کا دیگر سامان، اپنی سائیکل اور اپنی موٹر سائیکل، سب کچھ موجود تھا۔

کالج میں تعلیم کے دوران، این۔سی۔سی  میں کمانڈر تھے۔ جس کی وجہ سے، گھر میں موجود حفاظتی اسلحہ کو، زنگ نہ لگنے دینے کا  ذمہ بھی  آپ نے ہی اٹھا یا ہوا تھا۔سب بھائیوں کو بندوق اور پستول کھول کر صاف کرنے، لوڈ  اور آف لوڈ کرنے کا حوصلہ اورطریقہ بھی، آپ نے ہی سب کو بتایا ۔  خود اپنے والد صاحب اور دوستوں کیساتھ ، بندوق سے شکارکرنے بھی جاتے اور شوٹنگ کیلئے بھی! آپ نے کئی دفعہ ہمیں گھوگھی (فاختہ)  اور مرغابی  کا شکار بھی کھلایا ہے۔  پستول کو  چھوٹا کھلونا سمجھتے۔ میری عمر تک کے سب بھائیوں کو اپنے صحن  میں اِسے  چلانا بھی سکھایا اورمجھ سے بڑوں کو تو بندوق چلانا بھی سکھائی ۔

غرضیکہ، سوائے ایک موٹر کار کے، شوق اور ضرورت کی ہر نعمت آپکو دستیاب تھی ۔ اِسی وجہ سے تو’ شہزادہ‘  کہلاتےتھے۔ لیکن  بگڑے ہو ئے نہ تھے ۔ ہر چیز کو استعمال کے بعد ،  نہایت  سنبھال کررکھتے  تا کہ  آیندہ  کام آسکے۔  سچ تو  یہ ہے کہ  اُنکی ہر چیز، بوقتِ ضرورت  ہر ایک نے ہی استعمال کی۔ یوں آپ  ہمارے محسن ثابت ہوئے۔

آپ کے تین  چھوٹے  حقیقی  بھائی ، مجھ سے بڑے تھے۔ ظاہر ہے، آپکی اشیاء  پر کہ اُنکا  استحقا ق اور استعمال مجھ سے زیادہ تھا۔ میرے لئیے فقط اِتنا ہی کافی تھا  کہ مجھے جب بھی کسی چیز کی ضرورت پڑی  آپ نےکبھی  انکار نہیں کیا۔ زرا غور فرمائیے کہ آپکی  ایف ۔ایس ۔سی کی  کئی کُتب،  پریکٹیکل  کی نوٹ ُبکس، اور بیالوجی کی ٹیکسٹ ُبک (جو پرانے زمانے کی ڈکشنری جتنی موٹی تھی) اور ڈائسیکٹنگ  باکس تک، ایسی اچھی حالت میں تھے کہ دس برس بعد بھی، میں نے استعمال کیئے۔ کیوں اور کیسے؟ ایک انوکھے اور لاڈلے  کو کیا پڑی تھی کہ وہ اپنی  پرانی چیزوں کو سنبھال کر رکھتا؟  ہاں! میں اِس بات پر زیادہ یقین رکھتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ سے، اپنی چیزوں سے اور ہم سب سے پیار تھا! یہ اِس لئیے تھا کہ وہ  اسدؔ تھے اور آپ ، وہ سارے خواص اوپر پڑھ آئے ہیں، جو یہاں ہو بہو ثابت ہو رہے ہیں!

دوستی کا دوسرا نام، چوہدری ناصراحمد جاوؔید  تھا۔ اِس میں، رنگ ونسل،  ذات پات ، مذہب و ملت،  دھن دولت، عمروشکل، رشتہ داری یا برادری کی کوئی شرط نہیں تھی ۔خاندان و بیرون ِخاندان، جماعت و بیرونِ جماعت،  بڑی  پائیدار دوستیاں آپکا خاصہ رہی ہیں۔ اپنے ہم عمریا نسبتاً بڑے کزنوں اور دیگررشتہ داروں جیسے ، بھائی جا ن محمد طفیل نسیمؔ  صاحب، بھائی جان حاجی محمدیعقوب صاحب، ماموں ڈاکٹر اعجازاللہ صاحب، ماموں  محمداشرف صاحب  ودیگر کزنوں سے آپکا بھر پور، دوستانہ اور برادرانہ تعلق رہا ہے۔ جماعتی لحاظ  سے، جن لوگوں  کیساتھ  آپکو کام کرنے کا موقعہ ملا،  اُن میں سے اکثر کیساتھ ، آپکا دوستانہ تعلق ہو جا تا تھا۔ جماعت احمدیہ  حافظ آباد، اُس وقت باالترتیب، ہمارے ضلعی وعلاقائی  صدر مقام  گوجرانوالہ اور سیالکوٹ تک آپکی دوستیاں قائم ودائم  تھیں۔

سالانہ مرکزی تعلیم القرآن و تربیتی کلا سوں پرباقاعدہ  اور بار بارجانے کیوجہ سے ، اکثر بزرگانِ جماعت، مرکزی علماء، مربیان اکرام سے آپکا ذاتی تعلق پیدا ہو گیا تھا۔ یہ تعلقات گزشتہ پچاس سے نہ صرف قائم ہیں بلکہ ترقی پذیر ہیں، ماشاءاللہ !

آغاز ہم بچپن کے چند دوستوں کے مختصر تعارف  سے کرتے ہیں۔

جمشید علی صاحب آپکے قدیم ترین دوستوں میں سے ہیں۔ اصل میں اِنکی دوستی ہمارے ماموں سیف اللہ صاحب سے تھی جو دھیرے دھیرے بھائی جان ناصر احمد سے ہو گئی۔ اِسکے باوجود ہم سب  انہیں، ماموں کا دوست ہونے کیوجہ سے تا حال ماموں ہی بلاتے ہیں۔ پچاس سالہ پرانا، اخلاص و وفا اور للہی محبت کا  آزمودہ، تعلق اور واسطہ ہے۔ بڑی وسعت اور تنوع  ہے اس دوستی میں!  ذرا غور فرمائیں کہ وہ  ہمارے والدین  کے ساتھ بھی عزت واحترام سے پیش آتے رہے ہیں اور ہمارے ساتھ بھی!  پاکستان میں وی۔سی۔آر نیا نیا آیا تھا۔ اورانہوں نے بھی خریدا تھا۔ ایک دن میں اورمحمود نے (بعمر15/16 سال) اُن سے فلم دیکھنے کی فرمائش کی۔ انہوں نے ہمیں اپنی  چھٹی کےدن کا  وقت دے دیا۔ ہم دونوں، سائیکل پر گئے۔ بیٹھک میں بڑے احترام  سے ہمیں  بٹھایا، کو کا کو لا پلائی  اور ’’سمند ر‘‘ فلم دکھائی اور بڑے پیار سے رخصت کیا ۔ یہ  ایک معمولی سی بات لگتی  ہے۔ وہ ہمیں ’’ٹال‘‘ بھی سکتے تھے! لیکن  تین گھنٹے تک، ایک  بڑا آدمی، ہم بچوں کی خاطر گھر پر بندھا رہا۔ ٹھنڈا پلایا۔ اچھائی سے پیش آیا ۔ یہ ایک غیرمعمولی بات تھی ۔ اِسی وجہ سے آج  باعث تحریر بنی۔  چند سال قبل اپنے بیٹے کی شادی پر، دونوں گھروں کے سارے گھروالوں کو لاہور کے سب سے بڑے فائیو سٹارہوٹل میں دعوت دی۔ سب بہت خوش تھے۔ ٹالا جا سکتا تھا!  کم لوگ بُلائے جا سکتے تھے! لیکن ما موں جمشید کی نظر میں، کچھ لوگ بُھلائے نہیں جا سکتے تھے۔  اِسے کہتے ہیں، دوستی !

جناب بشیر احمد صاحب آپکے ایک غریب لیکن سلجھے ہوئے وفا دار دوست اور ہائی سکول میں آپکے ہم جماعت تھے۔ میٹرک کے بعد، سینٹیری انسپکٹر ہو کر گجرات چلے گئے۔ گجرات میں مٹی اور چینی کے برتن بنائے جاتے تھے۔ ہرمرتبہ کچھ نہ کچھ ضرورلاتے۔ ایک مرتبہ میرے لئے بھی، مٹی کی چھوٹی صراحی اورخوبصور ت نقاشی والے  گھڑے لائے، جو حافظ آباد میں نا پید تھے۔

محمد احمدصاحب، ایک دُبلے پتلے  دوست، ہمارے محلے دار تھے۔ بالکل ماموں ڈاکٹر اعجاز کے ہم شکل!  کلین شیو! شکل سے ہی بہت محنتی لگتے تھے۔ اُنکو دیکھ کر لگتا تھا  کہ ایک دن وہ بہت بڑے آدمی بنیں گے! لیکن میری طرح ، بیچارے کچھ بھی  نہ بن سکے اور اپنے آپکو گمنام کر لیا!

جیدّی (جاوید اقبال)، احمد سے بہت زیادہ چست اور چمکتا ہو ا چہرہ! رُخسار پرنمایاں کالا تِل! آسودہ حال! نئے پوسٹ آفس  سے ملحق گلی میں گھر،  خوش پوش۔ کالی، بڑی موٹر بائیک، گلے میں سونے کی چین اور ہاتھ میں کرکٹ کا بلَاّ ! پورا ہیرو لگتے تھے وہ!   میرے اور محمود  کے ہر بار ملنے پر  بڑی ملا طفت اور شفقت کا سلوک کرتے! کیسے بھول سکتے ہیں اُنکو!

متین  مکیریاںؔ والا، شہر کے سب سے امیر باپ کا بیٹا! سکول بھی  جاتے تھے، تو ایک پانڈی ساتھ ہوتا تھا۔ خوبرو تھا لیکن اُسکو دیکھ کر محمدعلی باکسر یا د آجاتا تھا۔بھائی جان کا دوست تھا۔ بیڈمنٹن اکٹھے کھیلتے تھے۔ اُنکا کاروبار بہت وسیع تھا ۔ کبھی لاہور تو کبھی کراچی! ملاقات کم اور دوستی  ’’ہوا‘‘ ہوتی گئی۔ اسکی چھوٹی ہمشیرہ نے بی۔اے کا امتحان میرے ساتھ دیا تھا۔ اکثرٹاکرا ہوتا  تھا۔ متین صاحب کی بھورے رنگ کی نئی چم چم کرتی نِسان سَنِی!  واللہ!  انگلستان  آجانے تلک  وہ خوبصورت  کار میرے دل سے نہیں نکلی!

ارشد مہندؔ وکیل، قاضی برادران کے علاوہ ، دورانِ تعلیم  شیخوپورہ ، رحیم یارخان ، گوجرانوا لہ  اور سیالکوٹ میں بھی کئی لوگوں سے، آپکی بڑی اچھی دوستیاں رہیئں۔

ڈاکٹر مخدوم حسین قریشیؔ صاحب مرحوم : آپکی آخری، بڑی، اہم اور کامیاب  دوستی، مرحوم ومغفور ڈاکٹر مخدوم قریشی ؔصاحب  سے ہوئی۔ بہت دیر سے ملے لیکن  جلدی رخصت ہو گئے۔ دونوں دوستوں کی کہانی کچھ ملتی جلتی تھی۔ ایک کو اپنے باپ کی اوردوسرے کو اپنے چچا کی کرسی سنبھالنا پڑی تھی ۔ دونوں نے ہی، اپنی اپنی ذمہ داری خوب نبھائی!  دونوں ہی جِدّت وترقی پسند تھے۔ دونوں ٹیکنیکل و الیکٹریکل کاموں میں دلچسپی لیتے تھے۔  دونوں نے ہی اپنے اپنے، نئے کلینک بنائے!  اُنکی اہلیہ چونکہ خود  مِڈ وائف  تھیں۔ اُنہی کے تجربے سے فائدہ  اٹھاتے ہوئے، بھائی جان  نے بھی  ایک مڈوائف/نرس اپنے کلینک  پر رکھ لی۔  مرحوم  مخدوم صاحب، ڈاکٹر کم سائنسدان زیا دہ تھے! ڈسپنسری و لیبارٹری سے  زیادہ پیاری، انکو  اپنی ورکشاپ  تھی۔ بھائی جان، کوئی خواہش کرتے، اگلے روز وہ پلان اور سامان کے ساتھ، اُس کو  پوری کرنے کو  تیا ر بیٹھے ہوتے۔ مخدوم صاحب کا میتھ، سائنس اور حالاتِ حاضرہ کا مطالعہ بہت وسیع تھا۔ میری بھی کئی ملاقاتیں رہییں! مجھے یہی دھڑکا لگا رہتا کہ سائنس کا کو ئی سوال ہی نہ داغ  دیں! ہمارے کئی ذاتی اورضروری کا م  انہوں نےکئیے۔ اللہ تعالیٰ بہت جزائے خیر عطا فرمائے۔ اپنی رحمت ومغفرت سے انہیں بھی اورانکے اہلِخانہ کو بھی نوازے،  آمین۔

مرحوم بہت ہی نافع  الناس اور قابل ِقدر وجود تھے۔ قدرت بھی، انہیں بہت چاہتی ہوگی، اسی لئے تو جلد اپنے پاس لے گئی ہے ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون ۔

بھائی جان ناصر احمد جاویؔد کی  زندگی کو با آسانی دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور، ایک شہزادے  کی طرح اور دوسرا  بطور ایک  خادم ِدین کے! اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُسکے کرم کے بغیر، دونوں مواقع اپنے لیئے خود حاصل کرنا، کسی کے بس میں نہیں ہوتا! ہماری جماعت حافظ آباد میں اور ہمارے  سارے خاندان میں،  کسی کو بھی اِسقدر طویل اور  بھر پور انداز  میں خدمت ِدین کے مواقع نہیں ملے۔ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ  اِن خدمات کو احسن رنگ میں  قبول فرمائے اوربدلے میں  اپنی لا محدود  حسنات سے نوازے، آمین۔

بچپن سے ہی مجلس اطفال الاحمدیہ اور خدام الاحمدیہ میں مقامی طور پر آپکے پاس اہم شعبہ جات رہے۔ 1984ء میں  آپ قائد مجلس شہر تھے۔ سوا سو کے قریب تجنید تھی، ماشاءاللہ! جیسا کہ پہلے بھی کسی جگہ ذکر ہو چکا ہے ایسے مخالفانہ ادوار میں، مجلس خدام الاحمدیہ کا کردار اور ذمہ داریاں  پہلے سے بہت بڑھ جاتی ہیں۔   اُسکے بعد، 1987ء میں آپ قیادت  ضلع گوجرانوالہ  میں، نگران حلقہ تحصیل حافظ آباد  اور بعد میں1989/90ء میں  نا ئب قائد ضلع گوجرانوالہ بنے۔ اُس زمانہ میں، تحصیل حافظ آباد کی اپنی 8 مجالس کے علاوہ،  گوجرانوالہ کی 3 مجالس، بھڑی شاہ رحمان، جلہن، اور نوکھر،  بھی آپکے حلقہ میں شامل تھیں۔ آپکے قائد اضلاع میں محترم خلیل احمد سولنگیؔ صاحب( شہید مسجد دارالذِّکر لا ہور) محترم افتخار احمدملہی ؔصاحب، اور قائدین علاقہ میں  مکرم عزیز الحق صاحب رامہؔ  و مکرم عبدالحمید صاحب  گوندؔل، مکرم انعام الحق (شاہ تاج شوگر ملز) نمایا ں رہے۔ اِن تمام احباب و دیگرمیمبرانِ عاملہ کے ساتھ ، آپکے نہایت دوستانہ تعلقات، اب تک استوار چلے آتے ہیں، ماشاءاللہ!

1993ء میں، سیاسی و انتظامی لحاظ سے، حافظ آباد کو ضلع کا درجہ  حاصل ہوا، تو آپکو حا فظ آباد کے پہلے، قائد ضلع  کے طور پر خدمت دین کی توفیق ملی۔اور  1995ء تک اس ذمہ داری کو بااحسن  طریق نبھاتے رہے۔  شروع میں  کئی ماہ  تک، امیر صاحب ضلع  کی تقرری بوجو ہ نہ ہو سکی۔ اِس دوران، آپکو ہی بطور نائب امیر ضلع گوجرانوالہ اور قائم مقام امیر ضلع حافظ آباد  کی ذمہ داری  بھی سونپ دی گئی تھی تا آنکہ محترم  چوہدری  محمدافضل  خان صاحب مانگؔٹ مرحوم (صدر جماعت مانگٹ اونچا)  کو امیر ضلع مقرر کر دیا گیا ۔ یہ دونوں اعزاز تاریخی اہمیت کے حامل تھے۔ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اِنکو  آپ اور آپکے پیاروں کیلئے بابرکت بنائے۔ آمین۔

جماعتی حلقوں میں، آپکے ذاتی تعلقات اس قدر وسیع تھے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا ،  کہ حضرت میاں محمد مراد صاحب مرحوم ومغفور کے بعد، ہماری وجہ تعارف آپ ہی کی ذات بن گئی تھی۔  صدر مجلس خدام الاحمدیہ، محترم محمود احمد بنگالیؔ صاحب، حافظ آباد کا نا م سنتے ہی ، ہرایک سے، اپنے مخصوص انداز میں  یہی پو چھتے کہ ’’ناصر کی کیا لگتی ہو؟‘‘۔ واللہ!  مجھے اور محمود کو تو آپ، ہمارے ناموں سے بُلاتے اور ہر جگہ پیار سے ملتےتھے۔ اُنکے بعد محترم  حافظ مظفر احمد صاحب صدر مجلس بنے۔ اُن  کا بھی آپ سے ویسا  ہی الفت و موٗدت کا تعلق تھا۔ میمبران نیشنل مجلس ِعاملہ سے بھی  آپکا  ایسا ہی  اخوت و موانست کا تعلق تھا  ۔ یہ تعلقات اور دوستیاں، اب مجلس انصاراللہ میں بھی  اُسی طرح جاری و ساری ہیں، الحمدللہ!

اِس دوران آپکے والد محترم چوہدری محمد عبداللہ صاحب مرحوم   کو بطورصدر جماعت احمدیہ حافظ آباد  خدمت دین کی توفیق مل رہی تھی ۔ آپ بفضل تعالٰی  1987ء سے لیکر 1997ء تک، مسلسل نو سال تک صدرجماعت رہے تھے۔ آپکے دور کی سب سے بڑی  خدمت، جامع مسجد احمدیہ حافظ آباد کی تعمیر ِنو تھی ۔اللہ تعالیٰ آپکے حق میں، یہ خدمت بااحسن قبول فرمائے، آمین۔ مجلس خدام الا حمدیہ کی ذمہ داریوں کیساتھ ساتھ،  بھائی جان، صدر صاحب شہر اورامیر صاحب ضلع کی عاملہ کے بھی اہم رکن تھے۔ قائد ضلع بننے کے بعد، آپکی جگہ پر، سیکرٹری تحریک جدید  کی ذمہ داری خاکسار کو سونپ  دی گئی تھی۔

قیادتِ ضلع کے دور کی کچھ  اہم یاد یں:

1984ء کے، ’’اِمتناعِ قادیانیت آرڈیننس‘‘ کیوجہ سے پورے ملک میں جماعتی  اجتماعات و جلسوں پر پا بندی عائد ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود بڑی حکمت سے ہر جگہ یہ پروگرام کسی نہ کسی طرح منعقد کئے جاتے تھے۔ ایسی ہی ایک جگہ، حافظ آباد میں، اونچا مانگٹ  بھی تھی، جہاں پراحباب جماعت کی عددی  اکثریت اورمقامی  انتظامیہ سے اچھے تعلقات کی بنا پر کئی سال تک، مجلس خدام الاحمدیہ ضلع گوجرانوالہ کےسالا نہ  اجتماعات، یہیں منعقد ہوتے رہے۔ بطور نگران حلقہ اور بعد ازاں، بطور نائب قائد ضلع، سارے انتظامات کی ذمہ داری، آپکی ہی ہو تی تھی۔ بلاشبہ، آپکی مقامی عاملہ اور لوکل قائدین مجالس  کے پر خلوص تعاون کے بغیر، یہ کامیابیاں ممکن ہی نہ تھیں۔ اس موقعہ پر اُن مخلص خدام کا  ذکر، بغرض دُعا  کرنا عین نیکی ہو گا۔ بڑے ہی اخلا  ص وفا،  لگن و محنت، اپنےمال اور وقت کی قربانی کرکے اورسالہا سال، ہمت کیساتھ کام کرنیوالے سنہرے لوگوں میں:  مکرم  ضیاءالدین احمد ظؔفر صاحب، مکرم  نورالدین صاحب منؔور، اور  مکرم ڈاکٹر بشارت احمد صاحب (چک چٹھہ)، مکرم شہادت خان صاحب، مکرم محمد ایوب صاحب،  مکرم محمد ارشد مانگٹ ؔصاحب اور مکرم سکند رحیا ت صاحب (مانگٹ اونچا) مکرم ناصر احمد ہنجؔرا صاحب (پریم کوٹ) مکرم محمدخلیل صاحب (سکیھکی )   مکرم نصیر احمد شرؔیف صاحب، ڈاکٹر مبارک احمد صاحب،حکیم نصیر احمد صاحب،  ڈاکٹر مبشراحمد صاحب اور خاکسار (حافظ آباد ) وغیرہ، شامل ہیں۔

آپکے اپنے دور میں دو ضلعی اجتماعات موضع بھاکا بھٹیاں اور مانگٹ اونچا میں  بڑی کا میابی سے منعقد ہوئے۔ پہلے اجتماع میں مکرمی سید قمر سلیمان صاحب (نائب صدرمجلس) اور دوسرے میں محترم صدرِمجلس، حافظ مظفر احمد صاحب   خود شریک ہوئے اور بہت  خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ خاکسار بطور معاون آپکے ساتھ رہا ۔ آپ کی تقریروں کیلئے نوٹس اور رپورٹس وغیرہ بھی مرتب کرتا تھا۔

شعبہ صحت ِجسمانی کے ماتحت، سائیکل سفروں اور پکنک  کے اہتمام  کا شوق تو آپکا  من پسند مشغلہ تھا۔  ہیڈساگر و قادرآباد ، مانگٹ، بھاکا بھٹیاں، ہرن مینار، شیخوپورہ اور ربوہ  تک کے سائیکل  سفروں میں،  بڑی تعداد میں خدام نے شرکت کی ۔ پاکستان جیسے ممالک میں، اس طرح کے کاموں میں بڑے خطرات  لاحق ہو تے ہیں، لیکن بفضل تعالیٰ تمام  پروگرام  اور سفر بخیروعافیت انجام پذیر ہوئے، الحمدللہ!

یہاں میں ایک واقعہ  بیان کرکے  آپ اور آپکے ساتھیوں  کیلئے دادِ تحسین اور دعا کی درخواست کرنا چاہوں گا!  مجھے یا د ہے کہ 1995ء میں، آپکی قیادت  ضلع کی  ایک  میٹنگ چل رہی تھی۔ خاکسار ناظم تعلیم وامورِطلباء ضلع تو تھا  ہی اورحال ہی میں مکرم ناظم صاحب تبلیغ  کےکسی اور جگہ  منتقل ہو جا نیکی وجہ سے، اس شعبہ کی ذمہ داری بھی خاکسار کو سونپ دی گئی تھی ۔ اِسی دوران مکرم امیر صاحب ضلع  نے  بھی ایک ہنگامی میٹنگ بلا رکھی تھی ۔ چنانچہ، آپ نے اپنی  پہلے سے بلائی ہوئی میٹنگ کو ملتوی کرنا، مناسب نہ سمجھا ۔ میٹنگ کا آغاز اور دُعا وغیرہ کرواکے آپ نے بتایا کہ یوں اُنہیں ایک ضروری میٹنگ میں جا نا ہے اور یہ  کہ بقیہ میٹنگ نعیم  (خاکسار )لے گا۔ مجھ سمیت  کسی کو بھی اِس بات کی توقع تھی اور نہ ہی اِس بابت، آپ نے مجھے پہلے کچھ بتایا تھا۔ دوسروں کی حالت تو اللہ تعالیٰ  ہی  بہتر جانتا  تھا! آپکےسینئر ساتھی،  نائب قائدین ِاضلاع اور نگران حلقہ سبھی  موجود تھے! ذاتی  طور، میرے لیئے یہ با ت، قطعاً  کسی  خوف اور بے چینی کا باعث  تو نہ تھی۔ آخر، میں بھی عاملہ کا ہی رکن تھا اورعاملہ کے اہم شعبہ جات  میرے پاس تھے۔ کالج میں پڑھا رہا تھا۔ بفضل ِتعالیٰ ،  ہم تو بچپن سے ہی میٹنگوں میں شامل  ہوتے اور میٹنگیں کرتے بھی آئے تھے۔۔۔۔ لیکن پھر بھی، میں عاملہ کا  شائد سب سے کم عمررکن  تھا! ایک احسا س، بہرحال، بڑی شدّت سے  ہوا کہ کہیں لوگ اِس بات  کو اقربا پروری نہ سمجھیں اور بدگمان نہ ہوجائیں!

یقین کیجئے!   جیسے ہی میں نے صدر نشست، سنبھالی اورایجنڈے کو آگے بڑھا نا شروع کیا، سب کچھ روٹین سے آگے بڑھتا چلا گیا ۔ ضلعی میٹنگز، دو تین گھنٹے طویل ہونا، ایک معمول کی بات  ہوتی ہے۔ لہذا، جب میٹنگ ختم ہوئی، تو سب نے باری، باری مجھ سے بڑی محبت اور شفقت سے مصافحہ ومعانقہ کیا اورسب یک زبان تھے کہ آج ہمیں ایک اور ’’قائد ضلع‘‘ مل گیا ہے! وغیرہ وغیرہ ۔

اِن میں میرے مربی و رہبر، ڈاکٹر نصیراحمد شرؔیف صاحب اور ڈاکٹر مبارک احمد صاحب بھی پیش پیش تھے،   جن کیسامنے، تو میں، ایک ’بغل بچہ‘  تھا۔ اِن میں مکرم ضیاءالدین ظفؔر صاحب  جیسے سینیئر، بے لوث اور درویش بھی تھے، جنکا خدمت دین کیلئے بہا ہوا پسینہ ، میں اپنے خون سے بھی زیادہ قیمتی جانتا ہوں۔ یہ سچ ہے کہ آج بھی جب میں، چونڈہ فرنیچر ہاوس، چک چٹھہ  کے سامنے گزرتا ہوں، تو میرادل اپنے بزرگ  مکرم صلاح الدین صاحب اور اُنکی نیک، صالح اور خادم دین اولاد کیلئے اپنے مولا کے حضور سجدہ ریز ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اپنی جناب سے خیرِکثیر عطا فرمائے، آمین ۔

خیر بات ہو رہی تھی میٹنگ کی، تو یہ  راز تھا، اُنکی کامیابیوں کا  کہ وہ  سب لوگ  اپنی ذات و نمود  کیلئے نہیں، بلکہ خداتعالیٰ کی رضا اور مسیح موعودؑ کی جماعت کی ترقیات  کیلئے کام کرتے تھے ۔ صاحب ِ نشست (صدر) اگر ایک بچہ بھی ہو، تو اُنکے تعاون اوراطاعت میں کوئی  فرق نہیں آتا۔ یہ وہ ٹیم سپرٹ تھی، جسکی وجہ سے مالی ودیگر کمزور وسائل کے باوجود ایک عرصہ دراز  تک  ضلع  حافظ آباد ، مقابلہ عَلمِ انعامی  کی پہلی دس  پوزیشنوں  میں  سے ایک حاصل کرتا رہاہے، الحمدللہ!

1997ء سے آپ مجلس انصاراللہ کے میمبر بنے، تو ساتھ ہی آپکو ناظم مجلس  انصاراللہ ضلع حافظ ا ٓباد کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ یوں اپنی وفات،  مورخہ 16 جنوری 2020ء  سے محض پندرہ روز قبل تک،  بفضل تعالیٰ ، مسلسل 22 سال تک، آپکو یہ ذمہ داری بخوبی نبھا نے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اس دوران، مکرم حافظ مظفر احمد صاحب، محترم صاحبزادہ میرزا خورشید احمد صاحب مرحوم ، محترم صاحبزادہ میرزاغلام احمد صاحب مرحوم اور مکرم  ڈاکٹرعبدالخالق صاحب جیسے  بزرگان، صدر مجلس انصار اللہ  پاکستان  رہے۔ سب نے آپکے کام کو صراحا اور باوجودآپکی  کمزور ہوتی ہو ئی صحت کے،  آپکی  سالانہ تقرری کا اعادہ  کرتے رہے۔

اِس بائیس سالہ دورِِنظامت میں بھی، ذاتی، خاندانی، جماعتی، اور تنظیمی لحاظ سے کئی  نرم و گرم  معاملات  اورحالات وواقعات  کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ کئی  جسمانی عوارض کا بھی شکار ہوئے۔ لیکن، خدمت دین کا یہ سفر کامیابی سے جاری و ساری  رہا۔  وہی خدام الا حمدیہ والی پرانی ٹیم، اب مجلس انصار اللہ میں شامل  ہو چکی تھی ۔ کچھ نئے  کام کرنے والے بھی شامل ہو رہے تھے، جیسا کہ  مکرم ماسٹر محمد اشرف صاحب، مکرم عزیز احمد سندؔھو صاحب، مکرم خالد احمد صاحب، فوٹو گرافر! اور یوں  کارواں  نہ صرف بنتا گیا بلکہ آگے بھی  بڑھتا گیا۔ الحمدللہ !

میں  ربِّ جلیل  کے حضور،  سب چھوٹے بڑے کارکنان ِاحمدیت کی تمام  خدمات ِدینیہ کے احسن رنگ میں قبول ہونے اور باثمر ہونے کیلئے درخواستِ دعا  کرتا ہوں ۔ اللہ تعالی، سب پر  اپنے فضل وکرم  کی چھایہ کردے، آمین۔ ا ے  اللہ قبول فرما، آمین۔

آپ کی پرورش میں، چونکہ  دادا اوردادی  جان،  براہ راست شامل رہے، اِس وجہ سے، خاندان کے دیگر بڑے بزرگوں سے بھی، آپکا اچھا خاصا تعلق رہا۔ آپ کی کم گوئی، خودی اور ہر ایک سے نہ گُھلنے ملنے کیوجہ سے آپکو قدرے،  مغرور اور خود پسند بھی سمجھا گیا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہ تھا۔ اگر آپ مغرور ہوتے، تو آپکے اتنے دوست کیسے بنتے؟ اور یہ دوستیاں، اتنا لمبا عرصہ کیسے چلتیں؟ آپ ایک لمبا عرصہ کھلاڑی کیسے رہ سکتے؟ سپورٹس مین تو ہوتا ہی وہ ہے، جو دوسروں کو ساتھ لیکر چلتا ہے!  اگر آپ خود غرض یا متکبر ہوتے، تو اتنا  لمبا عرصہ خدمت دین کی توفیق کیسے پاتے؟

آپ پر ’’فیشنی‘‘ ہونیکا الزام بھی لگتا تھا۔ یہ دُرست ہے کہ آپ فیشن کرتے تھے۔ لمبے اور کانوں پر پڑتے بال، کبھی تنگ اور کبھی کھلے پائنچے والی شلواریں اورپتلونیں وغیرہ ۔ کبھی داڑھی، کبھی مونچھیں، کبھی کلین شیو!   آج، جب ہم پُرانی تصاویر  دیکھتے ہیں، تو سبھی اعتراض کرنے والے بھی، ہمیں اُسی فیشن میں  نظر آتے ہیں جس پر کبھی وہ خود معترض تھے!

آپ نے، بفضلِ تعالیٰ، ایک لمبا عرصہ کا میاب پریکٹس کی اورجس عمر میں  لوگ،  آرام کرنا  پسند کرتے ہیں، آپ نے دو  اہم اور بڑے کا م شروع کئے۔ جو آپکی جِدّت و ترقی  پسندی، قابلیت، حوصلے اور اعتماد کا منہ بولتا  ثبوت ہیں۔

یہ 1994/95 ء کی بات ہے، کہ آپ نے اپنے مخلص دوست،  ڈاکٹر مخدوم قریشی صاحب کیساتھ مل  کر، ہفتے میں چند روز،  وزیرآباد جا کر، ایک  مستند اور  سرکاری کوالیفائڈ  ٹیکنیشن سے لیبارٹی ٹیکنیشن کا عملی  کا م سیکھا! اُس وقت آپ دونوں کی عمریں، پچاس برس کے لگ بھگ تھیں۔  اِن دونوں کو اپنی اِس نئی تعلیم اور ُہنر پر، اسقدر اعتماد تھا، کہ پورے شہر میں، اپنی اپنی  لیبارٹری  کے اشتہارت چھپوا دئیے۔ لیبارٹری کا ساراضروری سامان،  باہم  دستیاب کیا اور کامیابی سے چلایا ۔ باقاعدہ ،  ٹائپ رائٹر پر خوبصورت انداز سے، انگریزی زبان میں، رپورٹس بنائی جاتیں۔ اِسی ٹائپ رائٹر پر عزیزم  رضوان بن حنیف  نے میرا،  ایم ۔اے ہسٹری کا مقالہ بھی ٹائپ کیا تھا ! فجزاھم اللہ تعالیٰ خیراً۔

دوسرے، آپکو اپنا پرُانا ور کامیاب  ٹِھکانہ (کلینک) اپنی ضروریات کیلئے نا کافی محسوس ہوتا تھا۔ نرس/مڈوائف  کے لیئے، علیحدہ کمرہ، لیبارٹری کیلئے  الگ کمرہ ، ڈرپ لگے مریض کیلئے الگ کمرہ  وغیرہ ۔ آپ چاہتے تھے کہ پیلی کوٹھی کو ہسپتال بنا لیا جائے۔ اپنی عمرمیں، کم ہونے کے باوجود، زمینی حقائق اور کچھ عقلی و نقلی دلائل کی مدد سے، میں اُنہیں، اتنے بڑے اقدام سے روکنے میں وقتی طور پرتو کامیاب ہو گیا تھا، لیکن مکمل طور پر نہیں! اُسکا فوری حل میں نے، کلینک سے، بجانب مغرب،  تین سو گز دُور،  ہماری  مشترکہ  نئی تعمیر شدہ ، چارعدد  دوکانوں اور بالائی چوبارے کو ملا  کر، ایک بڑی کلینک  بنانے کی صلاح دی جو مان لی گئی۔ بہت معمولی خرچ  اور تبدیلی سے یہ عمل بخوبی  انجام پا  گیا۔

لیکن جیسا کہ پہلے سے احتمال تھا  کہ کسی بھی چیز کو، اگرایک جگہ سے ھِلا دیا جائے تو اِس تبدیلی سےماحول میں (منفی یا مثبت ) کچھ فرق  لازماً  آتا ہے، وہ  تو آیا!   اور وہ منفی تھا!

لیکن، اس تجربے کے بعد بھی،  آپ  کے دل سے ایک بڑےاور شاندار ہسپتال کا خواب محو نہ ہوا۔ جیسے تیسے کر کے، تقریباً دس برس بعد، آپ کی ہر خواہش کیطرح، اللہ تعالیٰ نے  آپکی یہ خواہش بھی پوری کر ہی دی۔ پیلی کوٹھی کی جگہ ، لاکھوں روپئے کی لاگت سے، ایک خوبصورت سُرمئی رنگ کی، تین منزلہ،  بلندوبالا اور شاندارعمارت، ناصر میڈیکل کمپلیکس کی شکل میں معرض وجود میں آ گئی! آپ اِسے کیا کہتے ہیں؟ مضبوط قوت ِارادی، خود پسندی،  شیر۔۔۔ یا  شاہ کا بُرج؟ کچھ یاد آیا؟

محض ریکارڈ کی درستگی کیلئے تحریر ہے کہ میں، محض ایک  ہسپتال بنانے کے منصوبے کا مخالف تھا۔ کیونکہ، اس کیلئے ایک خطیر رقم ، بڑی منصوبہ بندی ،مسلسل  نگرانی اور افرادی قوت درکار تھی۔ دوسرے، میں یہ چاہتا تھا کہ اگر ہسپتال بنانا ہی ہے تو بیسمنٹ اورگراونڈ فلور، یعنی دس ، دس مرلے کے دو فلورز ( اوپر، نیچے)  یعنی ایک کنال جگہ،  ہسپتال کو دستیاب اورزیرِ استعمال ہو جائے، جبکہ اُسکے اوپردو عدد  مکمل فلیٹس، دونوں بھائیوں کی رہائش کیلئے بنالیئے جائیں۔ اِتنا بڑا، نجی ہسپتال، تو پورے ضلع میں بھی موجود نہیں تھا۔ لیکن  باوجود کوشش اور باہمی مشوروں کے، ان تجاویز پرعمل نہ ہو سکا

خواہشات کو عملی جامہ پہنانا بھی، آسان کام نہیں ہوتا۔ آپ  اِسقدر خوش قسمت ثابت ہوئےتھے، کہ اپنے سب سے بڑے خواب کو حقیقت بنانے کیلئے، عملی طو پر، آپکو کو ئی زیادہ مشقت نہیں اٹھانا پڑی ۔ ہمیشہ کیطرح، مولا کریم  اور آپکے بڑوں نے آپکی اِس بڑی خواہش کو بھی پورا کردیا۔ جیسا کہ پہلے بھی  ذ ِکرگزرا ہے کہ اس منصوبہ کیلئے ایک خطیر رقم ، بڑی منصوبہ بندی، مسلسل  نگرانی اور افرادی قوت درکار تھی۔  اِن  تمام ضروریات و وسائل کی فراہمی کا سہرا،  صرف  ایک شخص کے سر ہے! خاندان بھرمیں، آپکے والد محترم اور ہمارے تایا جان، چوہدری محمد عبداللہ  صاحب  مرحوم کے سوا اور بھلا کون ہو سکتا تھا ؟ اُنکی رضا مندی سے لیکر، اِس  بڑے منصوبہ کی تکمیل تک کا ایک لمبا مرحلہ، کئی سال کی محنت شاقہ سے طے ہو گیا۔ بلاشبہ، اس پراجیکٹ میں اور بھی کئی نام بغرض دعا اور ریکارڈ آنے چاہیں، مثلاً  عزیزم مصوراویس احمد، محمد حسیب اللہ، مہروز احسان اللہ، عمران جاوید( شیری)، اعجاز احمد، فیاض احمد ،  بھائی جان طارق احمد و خالد احمد اور وسیم احمد وغیرہ!

اس سارے تعمیری  کام کے دوران، میں خاک چھاننے، بیرونِ ملک نکل  آیا تھا اور  یہ سلسلہ ہنوز جاری است!  لیکن کچھ باتوں کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ آپ  خوش قسمت  تھے !آپ ترقی پسند تھے! آپکے خواب پورے ہوئے! یہ سب  اپنی جگہ  درست  ہے۔ لیکن میرے خدشات!  یہ میں آپ پر  چھوڑتا ہوں۔

تیسرا و آخری دور!

بقولِ شاعر:

کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا

کبھی زمیں تو، کبھی آسماں نہیں ملتاَ !

2011 ء میں آپکے والد صاحب کی  وفات  کے بعد سے آپ کی زندگی کا تیسرا دور شروع  ہوا۔ یہ دور آپکی آزمائشوں کا دورتھا۔ اب  آپکی اور دیگر کی خواہشیں پوری کرنے والے ماں باپ اور چچا نہیں رہے تھے۔ اپنی ناکردہ محنتوں کے، سوکھےہوئے پھل دیکھ کر کچھ لوگ قحط کا رونا رو رہے تھے۔ کچھ لوگ  اپنی زیاں کاریوں کا سبب آپکی ہمیشہ پوری ہونیوالی خواہشات کو قرار دے رہے تھے۔

اپنی بیماری اور گرتی ہوئی صحت اور اُسکے نتیجے میں جاتی ہوئی پریکٹس کی بدولت، آپ قرض کے بوجھ تلے دبے جا رہے تھے۔ آپکے اپنے بیوی  بچوں کی خوا ہشات کی تکمیل کا تناسب وہی تھا، جو’ شاہ ‘اور ’فقیر‘ کا، اِس کہانی کے شروع میں بیان ہو ا ہے۔ ہر طرف سے دباؤ آرہا تھا اور بڑھتا ہی جا رہا تھا۔۔۔۔ لیکن شہزادہ۔۔۔ ہمیشہ کی طرح ہی خاموش تھا!  اپنے حال میں مست! حسب ِعادت اپنے کمرے میں، کبھی اپنا کام، کبھی جماعت کا  کام  ۔۔۔اور کبھی مزید  کام ۔۔۔کا انتظار کررہا تھا، کہ اجل کا بُلاوا آگیا! انا للہِ واِناّ اِلیہ راجعون۔

اُسکے چہرے کا سکوت ، جیسے کہہ رہا ہو:

لوگ منتظر ہی رہے کہ مجھے ٹوٹتا دیکھیں

اور میں پتھر کا ہوگیا ضبط  کرتے کرتے!